متفرق

میراگھر، میری جنت

تمہاری صبح حسین ہو رُخِ سحر کی طرح

تمہاری رات منور ہو شبِ قمر کی طرح

کوئی بہشت کا پوچھے تو کہہ سکو ہنس کر

کہ وہ خوب جگہ ہے ہمارے گھر کی طرح

(’لباس‘ صفحہ 6۔نظارت نشرو اشاعت قادیان)

ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اُ س کے گھر میں امن و سکون ہو۔اس کا گھر محبت و پیار کا گہوارہ ہو۔ہمارے دین نے گھر کو جنت نظیر بنانے اور خوش وخرم زندگی گزارنے کے نہایت ہی پیارے اصول بنائے ہیں۔ ان اصولوں پر چل کر انسان اپنے گھروں کو خوشحال اور جنت نظیر بنا سکتا ہے۔

گھر کو جنت بنانے کے لیے پہلا اور بہترین ذریعہ خدا تعالیٰ کی محبت اور تعلق ہے ۔جو انسان خدا کی سمت میں حرکت کرتا ہے اس کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں اور انسان کے وجود میں ظاہر بھی ہونے لگتی ہیں۔میاں اور بیوی خدا کی رضا حاصل کرنے کے لیے اور اپنے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت رکھتے ہوئے ہی اپنے گھر کو جنت بنا سکتے ہیں۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بڑی خوبصورت مثال دی ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں اور اس مثال سے اپنے بندوں کو یہ پیغام دیا کہ دیکھو ایک دوسرے کی حفاظت کرنے والا بن جانا، ایک دوسرے کے لیے خوبصورتی کا باعث بن جانا اور ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرنے والا بن جانا۔ اگر میاں بیوی اس مثال کو سمجھ کر ایک دوسرے کا لباس بن جائیں تو ایک سادہ سا گھر بھی جنت کا نمونہ بن سکتا ہے۔

آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو قرآن مجید میں اسوہ حسنہ قرار دیا گیاہے اور فرمایا کہ اگر تم خدا تعالیٰ کی محبت چاہتے ہو تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کرو۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میںسے بہترین وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ حسن ِ سلوک میں بہتر ہے اور میں تم سب سے بڑھ کر اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے والا ہوں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم بھی ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ حسنِ سلو ک سے پیش آئیں۔آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’ ہر ایک مرد جو بیوی سے یا بیوی خاوند سے خیانت سے پیش آتی ہے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے۔‘‘

(کشتی نوح صفحہ19)

اگر ہم اپنے ارد گرد بسنے والے گھروں کا جائزہ لیں تو ہمیں نظر آئے گا کہ جن گھروں میں میاں بیوی پیار و محبت سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور ایک دوسرے کے حقوق و فرائض ادا کرنے والے ہیں ان کے گھر جنت نظیر نمونہ پیش کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس جن گھروں میں میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا نہیں کر رہے ہوتے ان گھروں میں تلخیاں اور نفرتیں نمایاں نظر آتی ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’چاہیے کہ بیویوں سے خاوند کا ایسا تعلق ہو جیسے دو سچے اور حقیقی دوستوں کا ہوتا ہے۔انسان کے اخلاق ِ فاضلہ اور خدا تعالیٰ سے تعلق کی پہلی گواہی عورتیں ہوتی ہیں۔ اگر ان ہی سے اس کے تعلقات اچھے نہ ہوں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ سے صلح ہو۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم،صفحہ 300)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزخواتین کو توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں :’’اللہ تعالیٰ کے رسولﷺ نے فرمایا ہے کہ عورت گھر کی نگران ہے۔ خاوند کی جو اولاد ہے اُس کی وہ نگران ہے۔ اس لئے ماؤں کو، عورتوں کو بہرحال بچوں کی خاطر قربانی دینی چاہئے، گھر میں رہنا چاہئے۔ جب بچے سکول سے آئیں تو ان کو ایک پرسکون محبت والاماحول میسر آنا چاہئے۔ جائزہ لے لیں اس ماحول میں اکثر بچے اس لئے بگڑ رہے ہیں کہ وہ ماں باپ کے پیار سے محروم ہوتے ہیں۔ ماں باپ کے پیار کے بھوکے ہوتے ہیں اور وہ ان کو ملتا نہیں۔ ان کو توجہ چاہئےاور جو توجہ وہ چاہتے ہیں وہ ماں باپ ان کو دیتے نہیں اور ماں باپ جو ہیں وہ پیسے کمانے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں، اپنی دلچسپیوں میں مصروف ہیں ۔

پھراب بعض دفعہ رشتے کرنے کے معاملات آجاتے ہیں تو اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ ایسی جگہ رشتہ نہ کریں جہاں دین نہ ہو اور صرف دنیاوی روپیہ پیسہ نظر آرہا ہو۔ اس کو دیکھ کر رشتہ کررہے ہو کہ ہماری بیٹی کے حالات اچھے ہو جائیں گے یا ہمارا بیٹا کاروبار میں ترقی کرے گا تو یہ چیزیں بیشک دیکھیں لیکن ایسے خاندان کا جہاں رشتے کررہے ہیں یا ایسے لڑکے یا لڑکی کا جہاں رشتہ کررہے ہیں دین بھی دیکھیں۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ رشتہ کرتے وقت سب سے اہم چیزدین ہے جو تمہیں دیکھنا چاہئے۔ بعض کہتے ہیں ہم نے اس خاندان کو دیکھا ہے۔ بڑا نیک خاندان تھا یہ تھا وہ تھا اور اس کے باوجود ایسے حالات ہو گئے۔ تو آج کل تو لڑکے کی اپنی دینی حالت کو بھی دیکھنا چاہئے۔ ہر جگہ حالات ایک جیسے ہیں۔ دنیا اتنا زیادہ دنیاداری میں پڑ چکی ہے کہ جب تک خود لڑکے کی تسلی نہ ہو جائے، کسی قسم کے رشتے نہیں کرنے چاہئیں کہ صرف پیسہ ہے اس کو دیکھ کر رشتہ کر لیا۔ ایسے بہت سارے رشتے تکلیف دہ ثابت ہوئے ہیں۔ لیکن اگر صرف دنیا دیکھیں گے تو یہ بچیوں کو دین سے دور کرنے والی بات ہو گی۔ کئی ایسی بچیاں ہیں جو ایسے رشتوں کی وجہ سے جماعت سے تو کٹی ہیں، اپنے گھر والوں سے بھی کٹ گئی ہیں۔ ان سے بھی وہ ملنے نہیں دیتے۔ پس صرف روپیہ پیسہ دیکھ کر رشتے نہیں کرنے چاہئیں۔ اللہ سے دعا کر کے ہمیشہ رشتے ہونے چاہئیں اور اسی طرح اور بھی قتل اولاد کی بہت ساری مثالیں ہیں۔ جہاں جہاں تربیت میں کمی ہے وہ قتل اولاد ہی ہے۔

پس ہمیشہ اولاد کی فکر کے ساتھ تربیت کرنی چاہئے اور ان کی رہنمائی کرنی چاہئے۔ عورتوں کو اپنے گھروں میں وقت گزارنا چاہئے۔ مجبوری کے علاوہ جب تک بچوں کی تربیت کی عمر ہے ضرورت نہیں ہے کہ ملازمتیں کی جائیں۔ کرنی ہیں تو بعد میں کریں۔ بعض مائیں ایسی ہیں جو بچوں کی خاطر قربانیاں کرتی ہیں حالانکہ پروفیشنل ہیں، ڈاکٹر ہیں اور اچھی پڑھی لکھی ہیں لیکن بچوں کی خاطر گھروں میں رہتی ہیں اور جب بچے اس عمر کو چلے جاتے ہیں جہاں ان کو ماں کی فوری ضرورت نہیں ہوتی، اچھی تربیت ہو چکی ہوتی ہے تو پھر وہ کام بھی کر لیتی ہیں۔ تو بہرحال اس کے لئے عورتوں کو قربانی کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ نے عورت کو جو اعزاز بخشا ہے کہ اس کے پاؤں کے نیچے جنت ہے وہ اسی لئے ہے کہ وہ قربانی کرتی ہے۔ عورت میں قربانی کا مادہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ جو عورتیں اپنی خواہشات کی قربانی کرتی ہیں ان کے پاؤں کے نیچے جنت ہے۔‘‘

(جلسہ سالانہ سویڈن 2005ء کے موقع پر مستورات سے خطاب مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 15؍مئی 2015ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’ اپنے گھر کے ماحول کو ایسا پُرسکون اور محبت بھرا بنائیں کہ بچے فارغ وقت میں گھر سے باہر گزارنے کی بجائے ماں باپ کی صحبت میں گزارنا پسند کریں ایک دوستانہ ماحول ہو۔ بچے کھل کر ماں باپ سے سوال بھی کریں اور ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر قسم کی باتیں کر سکیں۔ اس کے لئے بہر حال دونوں کو قربانی دینی پڑے گی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 27جون 2003ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 11جولائی 2003ء)

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک احمدی مسلمان عورت کی عائلی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئےایک اور موقع پر ارشاد فرمایا:

’’ایک عورت ماں کے ناطے بچوں کے ساتھ زیادہ تعلق رکھنے والی ہوتی ہے، اس کا زیادہ اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے۔ بچپن میں بچے باپ کی نسبت ماں سے زیادہ attachہوتے ہیں۔ تو اگر ابتدا سے ہی اپنے عمل سے اور اپنی باتوں سے بچوں کے ذہن میں یہ بات راسخ کردیں، بٹھادیں تو نسلاً بعد نسلً عبادت گزار پیدا ہوتے چلے جائیں گے اور نتیجۃً احمدیت کے پیغام کو پھیلانے والوں کی ایک کے بعد دوسری فوج تیار ہوتی چلی جائے گی۔ لیکن عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ عورتیں اچھے حالات کی وجہ سے پہلے کے گزارے ہوئے تنگی کے دنوں کو زیادہ جلدی بھول جاتی ہیں اور یہ عورت کی فطرت ہے اور اس کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ لیکن ایک احمدی عورت کو چاہئے کہ اپنی ترجیحات کو دنیا داری کی طرف لے جانے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے احکامات کے نیچے لائیں۔ اپنے گھروں کو عبادتوں سے ہر وقت سجائے رکھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو ہمیشہ مدنظر رکھیں۔ آپﷺ نے فرمایا:وہ گھر جس میں خدا تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے اور وہ گھر جس میں خدا تعالیٰ کا ذکر نہیں ہوتا ان کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔ پس اپنے گھروں کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور ذکر الٰہی سے سجائے رکھیں تاکہ آپ کے گھروں میں زندگی کے آثار ہمیشہ نظر آتے رہیں۔ بجائے اس کے آپ کے خاوند آپ کو عبادت کی طرف توجہ دلانے والے ہوں آپ اپنے خاوندوں کو نمازوں کے لئے جگانے والی اور توجہ دلانے والی ہوں۔‘‘

فرمایا: ’’عورت پراپنے بچوں کے نگران ہونے کی وجہ سے ان کے جگانے کی ذمہ داری بھی ہے اور نمازوں کے لئے ان کو توجہ دلانے کی ذمہ داری بھی ہے۔ پس جس گھر میں عورتیں عبادت کے لئے اپنی راتوں کو زندہ کرنے والی ہوں گی اور اپنے مردوں اور بچوں کوعبادت کی طرف توجہ دلانے والی ہوں گی وہ گھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے چلے جائیں گے۔ ‘‘ ( الفضل انٹرنیشنل 12؍جون2015ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بزرگوں کے تمام احکامات پر عمل کرنے اور اپنے گھروں میں ایک خوبصورت اور پاکیزہ ماحول قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔تقویٰ کی راہوں پر چلتے ہوئے اپنے شریک ِ حیات کے حقوق اور فرائض کو ادا کر کے اپنے گھر اور معاشرے کو جنت بنا سکیں۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button