متفرق مضامین

شریکِ حیات کا تصوّر

(مقصود احمد علوی۔ جرمنی)

نکاح کی ضرورت اور اِس کا مقصد

انسانی معاشرتی زندگی میں اسلام مرد اور عورت کے نکاح کو لازمی قرار دیتا ہے کیونکہ اِس کا مقصد دونوں کی عفت اور پاکدامنی کی حفاظت اور ایک دوسرے کے لیے قلبی سکون اور بھلائی کے انتظام کے ذریعے ایک کنبہ کی بنیاد ڈالنا ہے۔ بانیٔ اسلام حضرت محمد مصطفےٰﷺ نے تجرد کی زندگی گزارنے کو غلط قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ

لَا صَرُورَۃَ فِی الْاِسْلَامِ۔

(ابو داؤد کتاب المناسک باب لا صرورۃ فی الاسلام)۔ اِسی طرح آپﷺ نے فرمایا : نکاح میری سنت ہے اور جو شخص میری سنت پر عمل نہیں کرتا میرا اُس سے کوئی تعلق نہیں۔

(بخاری کتاب النکاح باب ترغیب فی النکاح)

شریکِ حیات سکون کا ذریعہ

یہ ایک حقیقت ہے کہ معاشرتی زندگی میں دنیوی سامانِ زیست کے حوالے سے سب سے زیادہ سکون، محبت اور خوشی جس سے انسان کومل سکتی ہے وہ ایک اچھا شریکِ حیات ہے۔ قرآن ِ پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وَ مِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَ جَعَلَ بَیۡنَکُمۡ مَّوَدَّۃً وَّ رَحۡمَۃً ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ (الروم:22)

اور اُس کے نشانات میں سے (یہ بھی ) ہے کہ اُس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس میں سے جوڑے بنائے تا کہ تم اُن کی طرف تسکین (حاصل کرنے) کےلئے جاؤ اور اُس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی۔ یقیناً اس میں ایسی قوم کے لئے جو غوروفکر کرتے ہیں بہت سے نشانات ہیں۔

آنحضرتﷺ نے فرمایا :

’’دنیا تو سامانِ زیست ہے اور نیک عورت سے بڑھ کر کوئی سامانِ زیست نہیں۔ ‘‘

(ابنِ ماجہ ابواب النکاح باب افضل النساء)

ظاہر ہے اِس فرمانِ رسولﷺ سے یہ بھی استنباط ہوتا ہے کہ جس طرح مرد کےلیے ایک اچھی عورت بہترین سامانِ زیست ہے اِسی طرح ایک عورت کےلیے اُس کا خاوند بھی یقیناً بہترین سامانِ زیست ہے۔

شادی کی عمر

آج کل کے آزاد ماحول میں فحشاء میں ملوّث ہونے کے مواقع مہیا ہونے کی وجہ سے نوجوانوں کے بھٹکنے کا اندیشہ زیادہ ہے۔ اِس لیے ضروری ہے کہ جونہی بچے بلوغت کی عمر کو پہنچیں تو والدین کا فرض ہے کہ ا ُنہیں ماحول کے بد اثرات سے بچانے کےلیے اُن کےلیے شریکِ حیات کا فکر کیا جائے اور مناسب رشتہ ملنے پر اُن کی شادی کر دی جائےبے شک وہ تعلیم حاصل کر رہے ہوں۔ اِس حوالے سے یہاں تک کہا گیا ہے کہ اگر والدین نے اِس بارے میں سستی کی اور جوان بچے فحشاء میں ملوّث ہو گئے تو والدین کا بھی اس میں قصورہو گا۔ ملکی قوانین کے مطابق اٹھارہ سال بلوغت کی عمرمانی جاتی ہے۔ اِس لیے اِس بارے میں ہرگز سُستی نہیں کرنی چاہیے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں :

’’لڑکوں کے والدین اُن کی شادیوں کی پرواہ نہیں کرتے جبکہ لڑکا شادی کی عمر کو پہنچ کر اپنے پاؤں پر کھڑا بھی ہو چکا ہوتا ہے۔ وہ دیر کرتے رہتے ہیں کہ لڑکے کا کیا ہے۔ لڑکے کا کیوں نہیں ہے۔ لڑکے کی بھی جلدی شادی ہونی چاہئے۔ میرا تجربہ ہے کہ اگر شادیاں جلدی کروائی جائیں تو لڑکا بھی دیر تک جوان رہتا ہے اور لڑکی بھی دیر تک جوان رہتی ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 19؍جنوری2001ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل23؍فروری2001ءصفحہ6)

اِس حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’آنحضرتﷺ نے بھی خاص دلچسپی لے کر اپنے صحابہ اور صحابیات کی شادیاں کروائیں اور اِس حکم پر عمل کروایا اور تلقین فرمائی کہ بلوغت کی عمر کو پہنچنے پر عورت اور مرد کی شادی کر دو……اور صرف ذاتی دنیاوی فائدے اٹھانے کے لیے گھروں میں لڑکیوں کو نہ بٹھائے رکھو اور نہ ہی لڑکوں کی اِس لئے شادیوں میں تاخیر کرو۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 24؍ دسمبر2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 7؍جنوری2005ءصفحہ8)

شریکِ حیات کے بارے میں نقطۂ نظر

شریکِ حیات کے بارے میں ہر انسان کاایک نقطۂ نظر ہوتا ہے جو اُس کے اپنے معیار اور اندازِ فکر اور زاویۂ نگاہ کے مطابق ہوتا ہے۔ مشاہدہ گواہ ہے کہ بالعموم ظاہری شکل و صورت، مالی حیثیت اور خاندان کو مدِّ نظر رکھا جاتا ہے۔ لیکن اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو نہ ہی ظاہری شکل و صورت کو دوام ہے اور نہ ہی مال و دولت حقیقی راحت اور سکون کا باعث ہوتے ہیں۔ اِسی طرح محض خاندان اور نسب کے اثرات بھی کسی کے اخلاق و کِردار پر ہونے ضروری نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جو چیزانسان کےلیے دائمی خوشی، راحت اور سکون کا باعث ہے وہ دین، اعلیٰ اَخلاقی اَقدار اور تقویٰ ہیں۔ اِس لیے شریکِ حیات کے بارے میں انسان کا نقطۂ نظر اِسی کے مطابق ہونا چاہیے۔

شریکِ حیات کا انتخاب

آنحضرتﷺ نے فرمایا :

’’کسی عورت سے نکاح کرنے کی چار ہی بنیادیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو اُس کے مال کی وجہ سے یا اُس کے خاندان کی وجہ سے یا اُس کے حسن و جمال کی وجہ سے یا اُس کی دینداری کی وجہ سے۔ لیکن تُو دیندار عورت کو ترجیح دے۔ اللہ تیرا بھلا کرے اور تجھے دیندار عورت حاصل ہو۔ ‘‘

(بخاری کتاب النکاح باب الاکفاء فی الدین)

یاد رکھنا چاہیے کہ شریکِ حیات کے جوڑے میں سے عورت کے دیندار ہونے کو اِس لیے ترجیحاً بیان کیا گیا ہے کیونکہ آئندہ ماں کی گود میں بچوں نے پرورش پانی ہوتی ہے اور وہی بچے کی پہلی درس گاہ بھی ہوتی ہے۔ اِس لیے ضروری ہے کہ شریکِ حیات کے انتخاب کے وقت اَخلاقی اَقدار سے مزیّن سیر ت کو ترجیح دی جائے نہ کہ مذکورہ بالا ظاہری امورکو۔

کیا شریکِ حیات کا ہم عقیدہ ہونا ضروری ہے

باہم موافقت اور اندازِ فکر و عمل میں ہم آہنگی کےلیے ضروری ہے کہ شریک ِحیات کے انتخاب کے وقت اِس امر کو بھی مدِّ نظر رکھا جائے کہ جس حد تک ممکن ہو دونوں کے حالات میں مطابقت ہو اور وہ فرمانِ رسولﷺ کے مطابق ہم کفو ہوں۔ اِس بنیادی اصول میں ہم مذہب اور ہم عقیدہ ہونا بدرجۂ اَولیٰ شامل ہے۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں پاکبازاہلِ کتاب عورتوں سے شادی کی اجازت دی ہے (المائدہ آیت 6)، لیکن عام حالات میں ایک مسلمان کو مسلمان عورت ہی سے شادی کرنے کی تعلیم ہے۔ پس ظاہری حُسن و جمال یا وقتی جذبات سے مغلوب ہو کر فیصلے کرنے کی بجائے بعد میں پیدا ہونے والی اُس صورتِ حال کو مدِّ نظر رکھ کر شریکِ حیات کا انتخاب کرنا چاہیے جب شادی کے بعد بچوں کے ساتھ ایک کنبہ کی بنیاد پڑے گی اور اُن کی تعلیم و تربیت کے معاملات سامنے آئیں گے۔ اگر شریکِ حیات سے حالات، معیار اور عقیدہ میں مطابقت نہیں ہو گی تو نہ ہی ایک دوسرے سے حقیقی سکون مل سکے گا اور نہ ہی بچوں کی بہتر رنگ میں تربیت ہو سکے گی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سوال پیش ہوا کہ ایک احمدی لڑکی ہے جس کے والدین غیر احمدی ہیں۔ والدین اِس کی غیر احمدی کے ساتھ شادی کرنا چاہتے تھے اور لڑکی ایک احمدی کے ساتھ کرنا چاہتی تھی۔ والدین نے اصرار کیا، عمر اِس کی اِسی اختلاف میں بائیس سال تک پہنچ گئی۔ لڑکی نے تنگ آ کر والدین کی اجازت کے بغیر ایک احمدی سے نکاح کرلیا۔ نکاح جائز ہوا یا نہیں؟ فرمایا: ’’نکاح جائز ہو گیا۔‘‘

(بدر31؍اکتوبر 1907ء، صفحہ 7)

فرمایا:

’’غیر احمدیوں کی لڑکی لے لینے میں حرج نہیں ہے کیونکہ اہلِ کتاب عورتوں سے بھی تو نکاح جائز ہے بلکہ اِس میں تو فائدہ ہے کہ ایک اَور انسان ہدایت پاتا ہے۔ اپنی لڑکی کسی غیر احمدی کو نہ دینی چاہئے۔ اگر ملے تو لے بیشک لو۔ لینے میں حرج نہیں اور دینے میں گناہ ہے۔ ‘‘

(الحکم 14؍اپریل 1908ء صفحہ 2)

اِس حوالے سے بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ بھی محض اضطراری صورت میں ایک اجازت ہے جس کےلیے جماعتی قواعد کے مطابق حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے اجازت لینی ضروری ہے۔

عمومی ہدایت یہی ہے کہ آئندہ نسل کی تعلیم و تربیت اور اسلام احمدیت سے مضبوط وابستگی اور تعلق کےلیے احمدیوں کےلیے نہایت ضروری ہے کہ وہ احمدیوں میں ہی شادیاں کریں۔ اِس حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’پس اگر ہم غیروں میں رشتے نہیں کرتے جو بڑا الزام لگایا جاتا ہے تو یہ تفرقے نہیں ہیں بلکہ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش ہے۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی کوشش ہے۔ اور یہ خیال اُسے ہی آ سکتا ہے جو دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی روح کو سمجھے اور اِس میں لڑکے بھی شامل ہیں، وہ احمدی لڑکے جو احمدی لڑکیوں کو چھوڑ کر غیروں میں شادی کرتے ہیں۔ پس لڑکوں کو بھی سمجھنا چاہئے کہ اگر وہ اپنے آپ کو احمدی کہلواتے ہیں اور حقیقی احمدی سمجھتے ہیں تو پھر ذاتی خواہشات کو نہ دیکھیں اور جب شادی کا وقت آئے تو احمدی لڑکیوں سے شادیاں کریں۔ اپنی دنیاوی خواہشات پر اپنی اگلی نسل اور دین کو ترجیح دیں ورنہ نسلیں صرف لڑکیوں کو غیروں سے بیاہنے سے برباد نہیں ہوتیں بلکہ لڑکوں کے غیروں میں شادیاں کرنے سے بھی برباد ہوتی ہیں۔ ہر احمدی کو سمجھنا چاہئے کہ احمدی صرف معاشرتی دباؤ یا رشتہ داری کی وجہ سے احمدی نہ ہو بلکہ دین کو سمجھ کر احمدی بننے کی کوشش کریں۔ اگر احمدی لڑکے باہر شادیاں کرتے رہیں گے تو احمدی لڑکیاں کہاں بیاہی جائیں گی۔ پس لڑکوں کو بھی غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اب بھی اِس بارے میں احتیاط نہ کی گئی اور اِس طرف اب بہت زیادہ رجحان ہونے لگا ہے تو پھر آئندہ یہ رجحان مزید بڑھتا چلا جائے گا اور پھر نسل میں احمدیت نہیں رہے گی سوائے اِس کے کہ کسی پر خاص اللہ تعالیٰ کا فضل ہو۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 8اپریل 2016بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 29اپریل تا 05مئی 2016)

شریکِ حیات کی اہمیّت

ماں باپ کا مقام بہت بلند ہے۔ اِسی طرح دوسرےرحمی رشتوں کی بھی بڑی اہمیت ہے اور اِن سے نیک سلوک کا حکم ہےلیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ماں باپ بھی ایک وقت تک ہی انسان کے ساتھ رہتے ہیں۔ بہن بھائی بھی شادی کے بعد اپنا اپنا گھر بسا لیتے ہیں۔ اِسی طرح بچے بھی جوان ہو کر شادیوں کے بعد اپنے اپنے گھروں والے ہو جاتے ہیں اور ایک وقت آتا ہے کہ اُن کی تصویریں ہی دیواروں پر لگی رہ جاتی ہیں۔ اِن سب کے حقوق ادا کرنے بھی ضروری ہیں لیکن جس کے ساتھ انسان کا آخر تک ساتھ رہتا ہے وہ اُس کا شریکِ حیات ہی ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں شریکِ حیات کا لفظ صرف میاں بیوی کےلیے ہی مستعمل ہے۔ یعنی یہی دونوں زندگی بھر کےلیے ایک دوسرے کے ہم سفر اور ساتھی ہوتے ہیں اور اِنہوں نے ہی شاہراہِ زندگی پر ساتھ ساتھ چلنا ہوتا ہے۔ اِس لیے میاں بیوی کو چاہیے کہ رحمی رشتوں کے حقوق بھی ادا کریں لیکن اپنی عائلی زندگی کے حوالےسےاپنے اپنے والدین، بہن بھائیوں یا دیگر عزیزوں کواپنےگھریلو معاملات بتا کر اُن سے مشورے کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی پسند کو مدِّ نظر رکھتے ہوئےاور ایک دوسرے کی خوشنودی اور جذبات کی تسکین کی خاطر آپس میں مشورے کریں اورایک دوسرے سے نیک سلوک روا رکھیں کیونکہ زندگی کی گاڑی کو آخر تک اُنہوں نے ہی مل کر چلانا ہے۔

ایک دوسرے کےلیے لباس

اللہ تعالیٰ قرآنِ پاک میں فرماتا ہے :

ھُنَّ لِبَاسُ لَّکُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسُ لَّھُنَّ۔ (البقرۃ:188)

یعنی وہ تمہارا لباس ہیں اور تم اُن کا لباس ہو۔

لباس انسان کے ننگ کو ڈھانکتا ہے، اُس کےلیے زینت کا باعث ہے اور اُسے سردی گرمی کے اثرات سے بھی بچاتا ہے۔ شریکِ حیات کے ایک دوسرے کےلیے لباس ہونے کے حوالے سے اِس آیت کی تشریح میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’قرآنِ کریم میں ہی خدا تعالیٰ نے جو لباس کے مقاصد بیان فرمائے ہیں وہ یہ ہیں کہ لباس ننگ کو ڈھانکتا ہے، دوسرے یہ کہ لباس زینت کا باعث بنتا ہے، تیسرے یہ کہ سردی گرمی سے انسان کو محفوظ رکھتا ہے۔

پس اِس طرح جب ایک دفعہ ایک معاہدے کے تحت آپس میں ایک ہونے کا فیصلہ جب ایک مرد اور عورت کر لیتے ہیں تو حتی المقدور یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ایک دوسرے کو برداشت بھی کرنا ہے اور ایک دوسرے کے عیب بھی چھپانے ہیں۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ3؍ اپریل 2009ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24؍اپریل 2009ءصفحہ6)

اِسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

’’مرد اور عورت ایک دوسرے کے لباس ہیں یعنی مرد اور عورت ایک دوسرے کے رازدار بھی ہیں …یہ رازداری ہمیشہ رازداری ہی رہنی چاہئے۔ یہ نہیں کہ کبھی جھگڑے ہوئے تو ایک دوسرے کی غیر ضروری باتوں کی تشہیر شروع کر دو۔ پھر یہ بھی ہے کہ خاوند بیوی کے اگر آپس میں اچھے تعلقات ہیں …معاشرے میں بھی عورت اور مرد کا ایک مقام بنا رہتا ہے۔ کسی کو نہ عورت پر انگلی اٹھانے کی جرأت ہوتی ہے اور نہ کسی کو مرد پر انگلی اٹھانے کی جرأت ہوتی ہے۔ ‘‘

(خطاب مستورات جلسہ سالانہ جرمنی2004ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم مئی 2015ءصفحہ20)

مَرد اور عورت میں قدرتی فرق

مَرد اور عورت میں بحیثیت انسان تو کوئی فرق نہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے کمال حکمت سے اِن کی ذمہ داریوں کے لحاظ سے اِنہیں مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ یہ فرق ظاہری بھی ہیں اور باطنی بھی جن سے نہ تو کوئی ذی شعور انسان انکار کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی کے بس میں ہےکہ اِن قدرتی فرقوں کو مٹا سکے۔ اگر ہم غور کریں تو نہ صرف یہ کہ اِن میں ہی مَرد اور عورت کی خوبصورتی کا راز پنہاں ہے بلکہ یہی فرق اُن میں باہم کشش، جذب اور محبت کا باعث بھی ہیں۔ اگر مَرد اپنی مردانہ صلاحیتوں سے خوبصورت لگتا ہے تو دوسری طرف عورت کی خوبصورتی کا راز بھی اُس کی نسوانیت میں ہے۔ مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ نے مَرد کو اُس کی ذمہ داریوں کے عین مطابق جسمانی لحاظ سے مضبوط بنایا ہے جبکہ عورت بالعموم جسمانی لحاظ سے مَرد سے کمزور ہوتی ہے اور صنفِ نازک کہلاتی ہے یہاں تک کہ اِسے آبگینہ کہا گیا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں :

’’ چونکہ عورتیں بہت نازک ہوتی ہیں اِس لئے اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اِن سے ہمیشہ رحم و ترس سے کام لیا جائے اور اِن سے خوش خلقی اور حلیمی برتی جائے۔ ‘‘

(خطباتِ نور جلد 2صفحہ 217)

ایک شاعر کہتا ہے :

احتیاط اے مسافرِ ہستی

تیرے ہاتھوں میں آبگینے ہیں

پس ایک مَرد کےلیے ضروری ہے کہ اُسے اِس قدرتی فرق کا ادراک ہو کہ اُس نے اپنے شریکِ حیات سے ایسے کاموں کا تقاضا نہیں کرنا جو اُس کی طاقت میں نہیں بلکہ ایسے کام خود سر انجام دینے ہیں۔ اِسی طرح عورت حاملہ ہوتی ہے اور نو ماہ تک اپنے پیٹ میں بچے کی پرورش کرتی ہے۔ اِن ایام میں اُسے ہر لحاظ سےخصوصی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے جو اُسے ملنی چاہیے۔ پس ضروری ہے کہ مَرد اور عورت اپنے شریکِ حیات کی صلاحیتوں اور طاقتوں کو مدِّ نظر رکھ کر ایک دوسرے سے برتاؤ کریں۔

مَرد گھر کا نگران

دنیا بھر میں ہر ایک محکمے، ادارے اور تنظیم کے امور کو کامیابی کے ساتھ سرانجام دینے کےلیے انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا جاتا ہے جس کا ایک نگران اور سربراہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نےمَرد وں کو اُن کی بعض مخصوص صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کی وجہ سے گھر کے یونٹ کانگران مقرر کیا ہے۔ چنانچہ قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَاءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّ بِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ (النساء :35)

مَرد عورتوں پر نگران ہیں اُس فضیلت کی وجہ سے جو اللہ نے اُن میں سے بعض کو بعض پر دی ہے۔ اور اِس وجہ سے بھی کہ وہ اپنے اموال (اُن پر) خرچ کرتے ہیں۔

اسلامی تعلیمات کی رو سے گھر کے اخراجات پورا کرنے اور اہلِ خانہ کی کفالت کی ذمہ داری مَرد کی ہے جبکہ عورت کی بنیادی ذمہ داری امورِ خانہ داری بجا لانے کی ہے۔ یہ وہ بنیادی امر ہے جو مرد اور عورت دونوں کو سمجھنا اور اِس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’مَرد گھر کا امام ہوتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ 208)

یہ وہ مقام ہے جو اللہ تعالیٰ نے اُسے عطا کیا ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اِس سےمراد حاکم نہیں بلکہ نگران ہے اور اسلامی تعلیمات کے مطالعہ سے خاوند کا جو نقشہ ابھرتا ہے وہ ایک شفیق، مہربان، محافظ اور ذمہ دار کا ہے۔ مَرد گھر کا رکھوالا، کشتی بان اور باغبان ہوتا ہے۔ پس یہ ایک راز کی بات ہے کہ اُسے اپنے اِس مقام سے ہرگز پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے اور بطور سربراہِ خانہ گھر کا انتظام بہتر طور پر چلانے کےلیے قرآن و حدیث کی روشنی میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے رہنا چاہیے۔ اِس طرح خاتونِ کےلیے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے خاوند کے اِس مقام کو جو اللہ تعالیٰ نے اُسے عطا کیا ہے دل سے تسلیم کر ے اور اپنے رویوں کو اِس کے مطابق رکھے۔

خوبیاں خامیاں

ہر انسان میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ بعض خامیاں بھی ضرور ہوتی ہیں اور دنیا میں کوئی ایک بھی جوڑا ایسانہیں جس میں کوئی کمی یا خامی نہ ہو اور میاں بیوی میں کبھی کوئی اختلاف نہ ہوا ہو۔ بعض خصائل طبعی ہوتے ہیں اور بعض عادات انسان کی فطرتِ ثانیہ بن چکی ہوتی ہیں۔ اِسی طرح بعض بشری کمزوریاں ہوتی ہیں جو ہر انسان میں پائی جاتی ہیں۔ میاں بیوی کو ایک دوسرے کی اِن بشری اور فطری خامیوں اور کمزوریوں کے ساتھ ہی زندگی گزارنی ہوتی ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا :

’’مومن کو اپنی مومنہ بیوی سے نفرت اور بغض نہیں رکھنا چاہئے۔ اگر اُس کی ایک بات اُسے ناپسند ہے تو دوسری بات پسند یدہ ہو سکتی ہے(یعنی اگر اُس کی کچھ باتیں ناپسندیدہ ہیں تو کچھ اچھی بھی ہوں گی۔ ہمیشہ اچھی باتوں پر تمہاری نظر ہونی چاہئے۔)‘‘

(مسلم کتاب النکاح باب الوصیۃ بالنساء بحوالہ حدیقۃ الصالحین مطبوعہ 2003ء صفحہ 407)

ظاہر ہے یہی اصول بیوی کو بھی مدِّ نظر رکھنا ضروری ہے کہ اگر اُسے اپنے خاوند کی کچھ باتیں ناپسند ہیں تو کچھ اُس میں اچھی بھی ہوں گی۔ اِس لیے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی خوبیوں پر توجہ مبذول رکھی جائے اور خامیوں کو صرفِ نظر کر کے برداشت کیا جائے سوائے اِس کے کہ کسی ایک کی طرف سے دوسرے پر ظلم ہو رہا ہو۔ اگر میاں بیوی اِس بنیادی اصول کو سمجھ لیں تو ایک دوسرے کو برداشت کرنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ

وَ عَاشِرُوًھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسیٰ اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئاً وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا۔ (النساء: 20)

کہ اُن سے نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسر کرو۔ اگر تم اُنہیں نا پسند کرو تو عین ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اُس میں بہت بھلائی رکھ دے۔ پس جب شادی ہو گئی تو اب شرافت کا یہی تقاضا ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کریں …اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر اللہ کی بات مانتے ہوئے ایک دوسرے سے حسنِ سلوک کرو گے تو بظاہر ناپسندیدگی، پسند میں بدل سکتی ہے اور تم اِس رشتے سے زیادہ بھلائی اور خیر پا سکتے ہو…۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 10؍نومبر 2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر2006ءصفحہ7)

احساسِ ذمہ داری اور حرفِ آخر

نوجوانوں کو شادی سے پہلے ہی شریکِ حیات کے مندرجہ بالا تصوّر کو ذہن میں رکھتے ہوئے خود کو تیار کرنے اور اپنے اندر احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پُرسکون اورخوشگوار عائلی زندگی کا دارومدار ایک دوسرے کے جذبات اور فطری تقاضوں کا خیال رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عائد کردہ فرائض کو بطریقِ احسن ادا کرنے میں ہے۔ اِس کےلیے ضروری ہے کہ نوجوانوں کوعلم ہو کہ بطور میاں بیوی کون سے امور پر عمل کرنے کے نتیجے میں باہم پیارو محبت کے جذبات کو تقویت ملتی ہے اور ایک دوسرے کی کمزوریوں کو برداشت کرتے ہوئے کونسے امور سے صرفِ نظر ضروری ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ والدین اور پلنے بڑھنے والی ہماری نوجوان نسل کو توفیق عطا کرے کہ وہ شروع سے ہی اِن بنیادی اصولوں کو مدّ نظر رکھ کر شریکِ حیات کے بارے اپنے اندازِ فکر بنائیں اورشریکِ حیات کا انتخاب کریں اور پھر شادی کے بعد اپنی عائلی زندگی میں اِنہی کے مطابق طرزِ عمل اپنائیں جو یقیناً اُن کےلیے پیار محبت اور سکون کا باعث ہو گا۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button