متفرق مضامین

اصحاب احمدؑ کا تعلق باللہ (قسط اوّل)

(چوہدری ناز احمد ناصر۔ لندن)

خاکسار اس مضمون میں امام الزمان حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متبعین کے وجودوں میں ظاہر ہونے والے انتشار روحانیت کی مثالیں پیش کرے گا ۔لیکن اس سے قبل ایک اور نکتہ بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

حق یہ ہے کہ روحانی دولت کسی کو اس وقت تک نصیب نہیں ہوتی جب تک وہ اپنے نفس کو دنیوی آلائشوں سے پاک کر کے اپنے تقویٰ اور عبادات میں ایک خاص انہماک پیدا نہ کرے اور اپنے آپ کو اس مقام تک نہ پہنچا دیوے جہاں اللہ تعالیٰ اپنے دائمی وعدہ کے موافق اس پر ملائکہ کا نزول شروع کر دیتا ہے۔

اس نکتہ معرفت کو حضرت امام الزمان علیہ السلام نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:

’’خدا نے انسان کی ایسی فطرت رکھی ہے کہ وہ ایک ایسے ظرف کی طرح ہے جو کسی قسم کی محبت سے خالی نہیں رہ سکتا اور خلا یعنی خالی رہنا اس میں محال ہے۔ پس جب کوئی ایسا دل ہو جاتا ہے کہ نفس کی محبت اور اس کی آرزوؤں اور دنیا کی محبت اور اس کی تمناؤں سے بالکل خالی ہو جاتا ہے اور سفلی محبتوں کی آلائشوں سے پاک ہو جاتا ہے تو ایسے دل کو جو غیر کی محبت سے خالی ہو چکا ہے، خدا تعالیٰ تجلیات حسن و جمال کے ساتھ اپنی محبت سے پُرکر دیتا ہے۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22، صفحہ 56)

اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن کریم میں اصحابِ رسول اللہﷺ کے اوصاف حمیدہ کے بارے فرماتا ہے:

مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ تَرٰٮہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانًا ۫ سِیۡمَاہُمۡ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِؕ ذٰلِکَ مَثَلُہُمۡ فِی التَّوۡرٰٮۃِ ۚۖۛ وَ مَثَلُہُمۡ فِی الۡاِنۡجِیۡلِ ۚ۟ۛ کَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطۡـَٔہٗ فَاٰزَرَہٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰی عَلٰی سُوۡقِہٖ یُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیۡظَ بِہِمُ الۡکُفَّارَ ؕ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡہُمۡ مَّغۡفِرَۃً وَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ۔(الفتح:30)

ترجمہ: محمدؐ اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار کے خلاف بڑا جوش رکھتے ہیں، لیکن آپس میں ایک دوسرے سے بہت ملاطفت کرنے والے ہیں، جب تو انہیں دیکھے گا، انہیں شرک سے پاک اور اللہ کا مطیع پائے گا۔ وہ اللہ کے فضل اور رضا کی جستجو میں رہتے ہیں، ان کی شناخت ان کے چہروں پر سجدوں کے نشان کے ذریعہ موجود ہے۔ ان کی یہ حالت تورات میں بیان ہوئی ہے اور انجیل میں ان کی حالت یوں بیان ہے کہ وہ ایک کھیتی کی طرح (ہوں گے) جس نے پہلے اپنی روئیدگی نکالی، پھر اس کو (آسمانی اور زمینی غذا کے ذریعہ سے) مضبوط کیا اور وہ روئیدگی اور مضبوط ہو گئی۔ پھر اپنی جڑ پر مضبوطی سے قائم ہو گئی یہاں تک کہ زمیندار کو پسند آنے لگ گئی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گاکہ کفار ان کو دیکھ دیکھ کر جلیں گے۔ اللہ نے مومنوں اور ایمان کے مطابق عمل کرنے والوں سے یہ وعدہ کیا ہے کہ ان کو مغفرت اور بڑا اجر ملے گا۔

ایک اور جگہ فرمایا:

وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ۔(التوبہ:100)

ترجمہ: اور مہاجرین اور انصار میں سے سبقت لے جانے والے ہیں اور وہ لوگ بھی جو کہ کامل اطاعت دکھاتے ہوئے ان کے پیچھے چلے، اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے، اس نے ان کے لئے ایسی جنتیں تیار کی ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے۔ یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔

پھر فرمایا:

وَ الصّٰٓفّٰتِ صَفًّا ۙ۔ فَالزّٰجِرٰتِ زَجۡرًا ۙ۔ فَالتّٰلِیٰتِ ذِکۡرًا ۙ (الصافات:2-4)

ترجمہ: (میں ) شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں ان نفوس کو جو (دشمنان صداقت کے سامنے ) صفیں باندھے کھڑے ہیں اور جو برے کام کرنے والوں کو ڈانٹتے ہیں اور ذکر الٰہی (یعنی قرآن) کو پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلا م اصحاب رسولﷺ کے بارے فرماتے ہیں :

’’خدا تعالیٰ نے صحابہؓ کی تعریف میں کیا خوب فرمایا ہے:

مِنَ الْمُؤمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْ مَا عَاھَدُوْا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَنْ قَضیٰ نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَنْ یَّنْتَظِرُ (الاحزاب: 24)

مومنوں میں ایسے مرد ہیں جنہوں نے اس وعدہ کو سچا کر دکھایاجو انہوں نے خدا کے ساتھ کیا تھا۔ سو ان میں سے بعض اپنی جانیں دے چکے ہیں اور بعض جانیں دینے کو تیار بیٹھے ہیں۔ صحابہؓ کی تعریف میں قرآن شریف سے آیات اکٹھی کی جائیں تو اس سے بڑھ کر کوئی اسوہ حسنہ نہیں۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ 335، ایڈیشن 1988ء)

پھر فرمایا: ’’قرآن شریف صحابہؓ کی تعریف سے بھرا پڑا ہے…۔ ‘‘

(ملفوظات جلد4صفحہ672، ایڈیشن1988ء)

اس سلسلہ میں سب سے پہلے ان خوش نصیبوں کا ذکر کیا جاتا ہے جنہوں نے حضرت امام الزمان علیہ السلام کی نیک صحبت اور پاک تربیت سے براہ راست مستفیض ہوکر فی الواقعہ وہ مقام حاصل کر لیاجہاں انہیں خدا تعالیٰ رؤیاہائے صالحہ، کشوف اور الہامات کی صورت میں اپنی تجلیات حسن و جمال سے منور کرنے لگا جس کے نتیجے میں وہ اس پاک ذات اور اس کی صفات کے زندہ گواہ بن گئے۔

اس سلسلہ میں سب سے پہلے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کے دو ایسے صحابہؓ کے تعلق باللہ کا ذکر کروں گا جو آپ علیہ السلام کے بعد آپ علیہ السلام کے خلفاءبنے اور آپ علیہ السلام کے مشن اورتجلیات الٰہیہ کو جاری و ساری رکھا۔ ان میں سے پہلے حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ ہیں جن کو سب سے پہلے بیعت کرنے کی بھی توفیق ملی اور آپ حضرت مسیح موعودؑکی وفات پر آپؑ کے پہلے جانشین منتخب ہوئے اوراس طرح خلیفۃ المسیح الاوّل کے عظیم منصب پر فائز ہوئے۔ آپؓ کی وفات کے بعدحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند، حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ خلیفۃ المسیح الثانی آپ علیہ السلام کے دوسرے خلیفہ منتخب ہوئے۔ خاکسارسب سے پہلے ان دونوں خلفاء کے تعلق با للہ کے نتیجہ میں ان کی دعاؤں کی قبولیت کے کچھ واقعات کا ذکر کرے گا۔

حضرت الحاج مولانا نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ

حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ، حضرت امام الزمان علیہ السلام کے سلسلہ بیعت میں آنے سے پہلے ہی ایک بلند روحانی مقام کے حامل اور ان بزرگان دین میں سے تھے جن کے متعلق تذکرۃ الاولیاء میں آیا ہے کہ’’ ان کی توجہات رُوحانیہ میں ایک ایسی قوت ہوتی ہے کہ اس سے تقدیر الٰہی کے کنگرے ہل جایا کرتے ہیں اور وہ مقصود جو عام لوگوں کی کئی کئی سالوں کی دعاؤں سے حاصل ہوتا ہے، وہ ان کی آنکھ کے ایک اشارے سے حاصل ہو جاتا ہے۔ ‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آکر آپ نورٌعلیٰ نور ہو گئے۔ آپؓ کے تعلق باللہ کے نتیجے میں آپؓ کی سینکڑوں، ہزاروں دعائیں قبول ہوئیں جن کا تذکرہ آپؓ کی سوانح میں موجود ہے، نمونہ کے طور پر چند مثالیں پیش خدمت ہیں :

دعا سے ایک زچہ کی تکلیف کا ازالہ

حضرت چوہدری حاکم دین صاحبؓ قادیان کے بورڈنگ ہاؤس میں ایک معمولی ملازم تھے۔ آپؓ کے ہاں پہلے بچے کی ولادت کے وقت آپ کی بیوی کو بہت تکلیف ہو گئی۔ آپؓ فرماتے ہیں :

’’میں رات گیارہ بجے خلیفۃ المسیح الاولؓ کے گھر پہنچا اور چوکیدار سے کہا کہ کیا میں اس وقت حضورؓ سے مل سکتا ہوں ؟ چوکیدار نے نفی میں جواب دیا، لیکن حضورؓ نے میری آواز سن لی اور مجھے اندر بلا لیا۔ میں نے بیوی کی تکلیف کا ذکر کیا، آپؓ نے ایک کھجور پر دعا پڑھ کر مجھے دی اور فرمایا: ’’یہ جا کر انہیں کھلا دیں اور جب بچہ ہو جائے تو مجھے بھی اطلاع دے دیں۔ ‘‘

میں وہ دعا پڑھی ہوئی کھجور لے کر آ گیا اور اپنی بیوی کو کھلا دی۔ اس کھجور نے معجزانہ اثر دکھایا اور تھوڑی دیر بعد بچی پیدا ہو گئی۔ ‘‘ مگر فرماتے ہیں :

’’میں نے اس خیال سے کہ حضور کو جگانا مناسب نہیں، آپؓ کو رات میں اطلاع نہ دی۔ جب صبح اذان کے وقت حاضر ہوا اور حال عرض کیا تو فرمایا: ’’بچی پیدا ہونے کے بعد تم میاں بیوی تو آرام سے سو رہے، اگر مجھے بھی اطلاع دے دی ہوتی تو میں بھی آرام کر لیتا، میں تمام رات تمہاری بیوی کے لئے دعا کرتا رہا۔ ‘‘

(درویشان احمدیت، مصنفہ مولوی فضل الٰہی انوری، جلد ششم۔ بحوالہ الفضل انٹرنیشنل24؍فروری2002ء)

اس واقعہ سے پتہ لگتا ہے کہ خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا خدا تعالیٰ کے ساتھ کیسا تعلق تھا۔ پہلے اپنے ایک ادنیٰ خادم کی آواز سن کر اسے اندر بلا لیا اور پھر ساری رات اس کے لیے دعا کرتے رہے۔

ایک صحابیؓ کے بیٹے کے لیے دعا کی قبولیت

حضرت چوہدری غلام محمد صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے لڑکے، مکرم غلام احمد صاحب، کو ایک ایسی تکلیف ہو گئی جس کے بارے میں ڈاکٹر ہر قسم کے حربے استعمال کر چکے تھے لیکن وہ تکلیف کسی طرح دور نہیں ہو رہی تھی۔ حضرت چوہدری غلام محمد صاحبؓ اس بارےمیں فرماتے ہیں :

’’میرے بڑے لڑکے، عزیز م غلام احمد، کو کان پر توت ہو گئی۔ چونکہ ان دنوں میں قادیان میں کرایہ پر مکان نہیں مل سکتے تھے، اس لئے میرے اہل و عیال وطن میں رہتے تھے۔ عزیز کا سیالکوٹ کے ایک ڈاکٹر نے ڈیڑھ سال تک علاج کیا مگر فائدہ نہ ہوا۔ آخر ڈاکٹر نے کہا کہ اسے قادیان لے جاؤ، شاید حکیم نورالدین صاحبؓ کے علاج سے اسے شفا ہو جائے۔ چنانچہ میں چچا صاحب کا خط لے کر آپؓ کی خدمت میں حاضر ہوا…… آپؓ نے خط پڑھ کر میرے بال بچوں کے مجھ سے علیحدہ رہنے کو نا پسند فرمایا اور رسول کریمﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اسوۂ حسنہ بیان فرمایا اور پھر بچہ کے لئے دعا فرمائی اور مجھے حکم دیا کہ وطن جا کر بیوی بچوں کو قادیان لے آؤں۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی دعا نے کیسا معجزانہ اثر دکھایا، اس بارے مکرم چوہدری غلام محمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ

’’چند دنوں کے بعد جب میں وطن پہنچا تودیکھا کہ بچے کا کان بالکل ٹھیک ہو چکا ہے۔ یہ حضورؓ کے تعلق باللہ اور دعا کا ہی اثر تھاکہ جس تکلیف کا ڈیڑھ سال تک علاج ہوتا رہا، وہ آپؓ کی دعا سے چند دنوں میں رفع ہوگئی۔ ‘‘

(اصحاب احمد، جلد ہشتم صفحہ71)

ٹانگ کاٹنے کی بجائے دعا سے مکمل شفا یابی

حضرت ملک محمد عبداللہ صاحبؓ فرماتے ہیں :

’’جب میری عمر ڈیڑھ سال کی تھی تو میری ٹانگ پر ایک پھوڑا نکلا جو بگڑتے بگڑتے ناسور کی شکل اختیار کر گیا۔ جب ہر علاج بے اثر ثابت ہوا اور دوسری طرف شدید تکلیف ہونے لگی تو مجھے سیالکوٹ کے مشن ہسپتال میں لے جایا گیا۔ وہاں انگریز ڈاکٹر نے فوری طور پر ٹانگ کاٹنے کا مشورہ دیا۔ اس پر میرے والدین مجھے لے کر قادیان آ گئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی خدمت میں بڑی بے قراری سے صورت حال عرض کی۔

ان دنوں قادیان میں ایک اور بچی کو بھی یہی تکلیف تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے اس کے لئے دو ڈاکٹروں کا ایک بورڈ مقرر فرمایا جنہوں نے معائنہ کے بعد کہا کہ ٹانگ کاٹنی ضروری ہے۔ چنانچہ بچی کا آپریشن کر کے اس کی ٹانگ کاٹ دی گئی۔ ‘‘

اپنے بارہ میں فرماتے ہیں:

’’اگلے روز میرا آپریشن ہونا تھا۔ چونکہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے ایک صاحبزارے میرے بڑے بھائی کے دوست تھے، انہوں نے حضورؓ کی خدمت میں بار بار عرض کیا کہ میری ٹانگ نہ کاٹی جائے۔ حضورؓ نے فرمایا: ’’اس بچے کے باربار کے اصرار کرنے پر میرے دل میں تحریک پیدا ہوئی جسے میں الٰہی تحریک سمجھتا ہوں ‘‘۔

چنانچہ آپؓ نے میرا آپریشن ملتوی کر کے کچھ مرہم اور پڑیاں مرحمت فرمائیں جن سے پہلے روز ہی سے حیرت انگیز طور پر افاقہ ہونا شروع ہو گیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر تین دنوں کے اندر اندر مکمل افاقہ ہو کر چند دنوں بعد مکمل افاقہ ہوکر مکمل طور پر آرام آگیا۔ ‘‘

حضرت ملک محمد عبد اللہ صاحبؓ فرماتے ہیں :

’’آج میری عمر85سال ہے، ناسور کے نشان آج بھی گھٹنے پر موجود ہیں، لیکن اس کے بعد کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔ ‘‘

(بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 24؍مئی 2002ءصفحہ 11)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پسر موعود کے بارے میں کی گئی پیشگوئی کی علامات میں سے ایک یہ تھی:

’’خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ ‘‘جب آپؓ پر مصلح موعود ہونے کا انکشاف ہو گیا تو آپؓ نے اس علامت کو اپنے اوپر چسپاں کرتے ہوئے فرمایا:

’’خدا کا سایہ سر پر ہونے کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کی کثرت سے دعائیں سنے گا‘‘۔

پھرفرمایا:

’’یہ علامت بھی اتنی بیّن اور واضح طور پر میرے اندر پائی جاتی ہے کہ اس امرکی ہزاروں نہیں لاکھوں مثالیں مل سکتی ہیں کہ غیر معمولی حالات میں اللہ تعالیٰ نے میری دعائیں سنیں۔

وَذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ‘‘۔

(الموعودصفحہ182-183)

اسی سلسلے میں حضرت بانی سلسلہ علیہ السلام نے اپنے موعود فرزند کی ایک اور علامت بھی بتائی، جس کے الفاظ درج ذیل ہیں:

’’وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح القدس کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کر دے گا‘‘۔

(اشتہار20؍فروری 1886ء مجموعہ اشتہارات، جلد1صفحہ 101)

ان خدائی وعدوں کی عملی تعبیر میں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کے اس موعود فرزند کے وجود میں شفاء الامراض کے ضمن میں کئی نشانات دکھائے، چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے۔

سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کی بیٹی کی معجزانہ شفا

حضرت سیٹھ صاحب فرماتے ہیں :

’’میری بیٹی، ہاجرہ بیگم، کے پیٹ میں یکایک درد شروع ہو گیا۔ ایک خطاب یافتہ ڈاکٹر، جو آنریری مجسٹریٹ بھی تھا، نے معائنہ کیااور بتایا کہ پیٹ کے اندر پیپ ہے، لہٰذا فوری آپریشن کر کے پیپ کا نکالا جانا ضروری ہے، ورنہ جان کا خطرہ ہے۔ میں نے قادیان میں منعقد ہونے والے جلسہ سالانہ میں شمولیت کے لئے ایک دو روز میں روانہ ہونا تھا، جب ہسپتال کے بڑے یورپین ڈاکٹر کو دکھایا گیا تو وہ اچھی طرح معائنہ کر کے کہنے لگا:’’نہ پیپ ہے، نہ آپریشن کی ضرورت ہے۔ ‘‘ ہم خوش ہوئے اور شکر بجا لائے۔ لیکن پہلا ڈاکٹر اپنی رائے پر مصر تھا کہ آپریشن فوری ہونا چاہیے، اگر اس کے بغیر بچی بچ جائے تو میں ڈاکٹری کا کام ترک کر دوں گا۔ میں دوسرے دن قادیان چلا گیا۔ میری واپسی تک عزیزہ اچھی رہی۔ اس کے بعد ناف میں یکایک سوراخ ہو گیا اور اس سے بڑی مقدار میں پیپ نکلی۔ جس ڈاکٹر نے اس سے قبل پیپ بتائی تھی، وہ کہنے لگا کہ اب آپریشن کا موقع نہیں رہا اور اب بچی کے بچنے کی امید نہیں رہی۔

مکرم سیٹھ صاحب فرماتے ہیں :

’’یہ صورتحال دیکھ کر میں نے فوری طور پر حضرت امیرالمومنینؓ کی خدمت میں اور اخبار الفضل ربوہ کو دعا کے لئے تاریں دیں۔ حضور کی دعا کا یہ معجزہ دیکھا کہ بغیر کسی ڈاکٹری علاج کے صرف ایک معمولی دوائی کے استعمال سے بچی صحتیاب ہوگئی۔ الحمد للہ۔ ثم الحمدللہ۔ ‘‘

(تابعین اصحاب احمدجلد 9 صفحہ342، بحوالہ درویشان احمدیت، مصنفہ مولوی فضل الٰہی انوری، جلد ششم)

حضرت چوہدری اسداللہ خا ن صاحب کا اعجازی رنگ میں شفا پانا

حضرت چوہدری اسداللہ خان صاحب برادراصغر حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ کا واقعہ، جو انہوں نے خود بیان کیا ہے، درج کیا جاتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں :

’’تقسیم ہند سے چند سال پہلے کی بات ہے کہ میں ایک بار شدید بیمار ہو گیا، پیشاب کی بجائے خون آنے لگا، جس سے کمزوری اس قدر بڑھ گئی کہ پہلو بدلنا بھی مشکل ہوگیا۔ علاج جاری تھا اور جلسہ سالانہ کے دن قریب تھے کہ ایک دن حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الثانیؓ عیادت کے لئے تشریف لائے اور باتوں باتوں میں فرمایا: ’’آپ کا جلسہ پر جانے کو جی چاہتا ہوگا؟‘‘۔ میں نے آبدیدہ ہو کر عرض کیا کہ وہ کون احمدی ہے جو جلسہ پر جانا نہ چاہے؟میرا یہ کہنا تھا کہ حضورؓ نے اپنی مبارک آنکھیں اٹھا کر میری طرف دیکھا۔ اس وقت حضورؓ کی گرد ن سے نہایت خوبصورت رنگ کی سرخی حضورؓ کے چہرہ کی طرف بڑھنی شروع ہوئی، یہاں تک کہ حضورؓ کا چہرہ، گردن، پیشانی اور کان سرخ، خوبصورت اور چمکدار ہو گئے، اس کے ساتھ ہی حضورؓ نے اپنی شہادت کی انگلی سے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’آپ انشاء اللہ ضرور جلسہ پر آئیں گے۔ ‘‘

اس کے بعد جب حضورؓ واپس تشریف لے گئے تو تھوڑی دیر بعد مجھے پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی۔ میں نے پیشاب کیا تو یہ دیکھ کر سخت حیرانی ہوئی کہ پیشاب میں ذرہ بھر بھی خون کی آلائش نہیں ہے۔ اس کے بعد میں تیزی سے رو بہ صحت ہونے لگا، یہاں تک کہ جلسہ سے تین چار روز قبل قادیان جا کر حضورؓ کی خدمت میں حاضرہو گیا۔ ‘‘

(درویشان احمدیت، مصنفہ مولوی فضل الٰہی انوری، جلد ششم بحوالہ الفضل انٹر نیشنل 22؍ستمبر1995ء )

حضرت ماسٹر محمد حسن آسان صاحب دہلویؓ کی بیٹی کی معجزانہ شفا یابی

حضورؓ کی دعا سے حضرت بانی سلسلہ علیہ السلام کے ایک قدیمی صحابی حضرت ماسٹر محمد حسن آسان صاحب دہلویؓ کی بیٹی کےمعجزانہ شفا پانے کا ایک واقعہ مکرم عبدالرحمٰن صاحب دہلوی نے بیان فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ اس بچی کا صرف دعا کی برکت سے صحت یاب ہو جانا ڈاکٹروں کے لیے کس قدر حیرت کا موجب بنا۔

دہلی کے مکرم ماسٹر محمد حسن آسان صاحبؓ، جو مکرم مسعود احمد خان صاحب دہلوی، سابق ایڈیٹر روزنامہ الفضل ربوہ، کے والد محترم تھے، سرکاری دفتر سے فارغ ہوتے ہی سارا وقت تبلیغ یا جماعتی کاموں میں صرف کر دیا کرتے۔ ان کی ایک صاحبزادی اچانک بیمار ہو گئی۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ اسے تپ دق (TB)ہو گئی ہے، جو اس درجہ تک پہنچ چکی ہے کہ لا علاج ہے۔ مکرم ماسٹر صاحب نے علاج جاری رکھا اور حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں تفصیلی خط لکھ کر دعا کی درخواست کی۔ حضورؓ کی طرف سے جواب آیا کہ

’’میں نے دعا کی ہے، اللہ تعالیٰ شفاء عطا فرمائے گا۔ ‘‘

فرماتے ہیں :

’’چند دنوں کے بعد مکرم ماسٹر صاحبؓ پھر بچی کو ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ ڈاکٹر نے طبی معائنہ کیا، ایکسرے وغیرہ لئے اور کہنے لگا:ماسٹر صاحب!آپ غلطی سے اپنی دوسری بیٹی لے آئے ہیں، اس کو تو کوئی تپ دق نہیں ہے۔ ماسٹر صاحبؓ نے اصرار کیا کہ یہ وہی بچی ہےجس کا سارا نام و پتہ اور ریکارڈ آپ کے پاس موجود ہے۔ ڈاکٹر نے دوبارہ تفصیلی معائنہ کیا اور کہا کہ ہماری موجودہ رپورٹ کے مطابق تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس بچی کو کبھی یہ تکلیف ہوئی ہی نہیں۔ گویا حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دعا نے وہ معجزہ دکھایا کہ بیماری کا کوئی اثر بچی کے وجود میں باقی نہ رہا اور ڈاکٹر سمجھنے لگے، یہ کوئی اور ہی بچی ہے۔ ‘‘

(درویشان احمدیت، مصنفہ مولوی فضل الٰہی انوری، جلد ششم بحوالہ الفضل انٹرنیشنل24؍مئی 2002ء)

ان دو عظیم المرتبت صحابہؓ جنہیں اللہ تعالیٰ نے خلافت کے مقام پر بھی فائز فرمایاکے ذکر کے بعداب بعض دیگر صحابہؓ کا ذکر ہو گا۔ ان صحابہ کے قبولیت دعا کے بعض واقعات نمونہ کے طور پر پیش کیے جائیں گے جن سے ان کا تعلق باللہ ظاہر ہوگا۔

حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ

آپؓ آسما ن احمدیت کے درخشاں ستارہ تھے جو افق عالم پر نمودار ہو کر ایسا چمکا کہ اس کی چمک دمک کو دیکھ کر دنیا کی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ آپؓ نہ صرف خود صحابی تھے بلکہ صحابی ابن صحابی و صحابیہ تھے۔ نیک والدین کی نیک تربیت میں پروان چڑھتے ہوئے علم و حکمت کے میدانوں میں اس قدر ترقی کی کہ آسما ن ِرُوحانیت اور آسمانِ سیاست کے ستارہ بن گئے۔ آپؓ کو ملنے والی ان آسمانی اخبار کا ذکر کیا جاتا ہے جو آپؓ کو رؤیائے صالحہ اور کشوف کی صورت میں اپنے ربّ کی طرف سے ملیں۔ آپؓ نے اپنی خود نوشت سوانح حیات ’’تحدیث نعمت ‘‘اور دیگر کتب میں بیان فرمایا ہے۔

ایک دوست کے بیٹے کے بارےملنے والی خبر

آپؓ فرماتے ہیں : ’’میرے ایک دوست، جو کئی سال تک لاہور میں ہائی کورٹ کے جج رہ چکے تھے، صوبہ سندھ کے گورنر تھے، ایک سوشل تقریب میں میری ان سے باتیں ہو رہی تھیں کہ میں نے ان سے پوچھا: آپ کے بیٹے کی کیا خبر ہے، کیا وہ ٹھیک تو ہے ناں ؟۔ وہ کہنے لگے : ہاں ٹھیک ہی ہے۔ اس وقت ان کے وہ صاحبزادے انگلستان میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، میں نے انہیں کہا کہ اپنے اگلے خط میں اسے لکھ دیں کہ وہ ذرا محتاط رہے۔

آپؓ فرماتے ہیں : ’’میں نے ان کے بیٹے کے بارہ میں ایک خواب دیکھا تھا، حالانکہ میں اسے جانتا تک نہیں تھا۔ چنانچہ میں نے انہیں کسی قدر خواب کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ اس خواب کا مطلب کچھ بھی ہو سکتا ہے، مگر میرے ذہن پر اس نے جو اثر چھوڑا ہے اس کے پیش نظر میں آپ سے یہ بات کہہ رہا ہوں۔ امید ہے سب ٹھیک ہی رہے گا۔ میری بات سن کر وہ دوست کہنے لگے کہ میں اگلے خط میں ہی اپنے بیٹے کو لکھ دوں گا۔ ‘‘

پھر فرماتے ہیں : ’’دو تین ہفتوں کے بعد ہم پھر ایک اور سوشل تقریب میں ملے تو وہ مجھ سے کہنے لگے: عجیب بات ہوئی ہے، میرے بیٹے کا خط آیا ہے، اس میں اس نے بالکل اسی قسم کی بات لکھی ہے جیسی آپؓ نے مجھے بتائی تھی، میں اس سے اتنا متاثر ہوا ہوں کہ اگر ایک بات درمیان میں حائل نہ ہوتی تو میں آپ کی بیعت کر لیتا۔

پھر فرماتے ہیں : ’’میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کونسی بات ہے جو راہ میں حائل ہے تو وہ کہنے لگے:یہی کہ آپ جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس پر میں نے ان سے کہا کہ عجیب بات ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی کہ عین ممکن ہے کہ میرے احمدی ہونے کی وجہ ہی سے اتنی بڑی چیز آپ نے مجھ میں دیکھی ہے کہ آپ میری بیعت کرنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ ‘‘(تحدیث نعمت صفحہ 106)

اپنے حالات میں بہتر تبدیلی کے متعلق ملنے والی خبر

یہاں ایک ایسی آسمانی خبر کا ذکر کیا جاتا ہے جو خود آپؓ کی ذات سے تعلق رکھتی تھی اور جو تین مختلف وقتوں میں تین خوابوں کی شکل میں ملی۔ یہ مارچ 1941ء کی بات ہے جب آپ وائسرائے ہند کی کونسل (برٹش انڈین گورنمنٹ) میں مرکزی وزیر تھے، انڈین فیڈرل کورٹ کے ایک مسلمان جج کے فوت ہو جانے پر کورٹ کے چیف جسٹس نے وائسرائے سے کہا کہ وہ آپؓ کو مسلمان جج کے طور پر لینا چاہتے ہیں۔ جب اس کا ذکر وائسرائے نے چوہدری صاحبؓ سے کیا تو آپؓ فرماتے ہیں :

’’وائسرائے نے انہیں بتایا کہ وہ مجھے کونسل سے فارغ نہیں کر سکتے کیونکہ ہم جنگ کے عین درمیان میں ہیں اور میں وار سپلائی اور قانون کے محکموں کا وزیر ہوں …..میں ہندوستانی ہونے کی وجہ سے اسمبلی کا قائد ایوان بھی تھا، اس لئے وائسرائے نے چیف جسٹس سے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ میرا وجود کابینہ کے لئے ناگزیر ہے، لہٰذا وہ مجھے کسی صورت میں فارغ نہیں کر سکتے۔ ‘‘

آخر فیصلہ یہ ہوا کہ آپؓ ہی سے پوچھ لیا جائے اور جس ذمہ داری پر آپؓ رہنا پسند کریں وہی آپؓ کے سپرد کر دی جائے۔ آپؓ کو ابھی وائسرائے ہند اور چیف جسٹس کے درمیان ہونے والی اس گفتگو کا علم نہیں ہوا تھاکہ اس دوران آپؓ کو تین خوابیں آئیں۔ آپؓ فرماتے ہیں :

’’16جون سوموار کی بات ہے کہ میں نے تین خوابیں ایک دو دنوں کے وقفہ سے دیکھیں۔ پہلی خواب میں مَیں نے اپنے ایک پھوپھی زاد بھائی، چوہدری عنایت اللہ صاحب بہلول پوری کو دیکھا کہ وہ آئے ہیں، میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوں، وہ بہت خوش نظر آتے ہیں، بلکہ قریباً ہنس رہے ہیں …. اس کے ایک یا دو دن بعد میرے ایک مرحوم دوست، سید انعام اللہ شاہ صاحب، جو چھ سال قبل انتقال فرما چکے تھے، خواب میں آئے، وہ بھی اسی طرح خوش تھے۔ انعام کا مطلب ہوتا ہے:’کسی کام کی مقبولیت کے نتیجے میں ملنے والا صلہ اور اللہ کا مطلب ہے خدا‘۔ میں نے سوچا کہ میں نے دواچھی خوابیں تواتر سے دیکھی ہیں، جن میں سے دوسری پہلی سے بڑھ کر ہے، اس لئے شاید کوئی بشارت ملنے والی ہے۔ ‘‘

تیسری خواب کے بارہ میں آپؓ فرماتے ہیں :

’’ایک دو روز بعد ایک اور خواب دیکھا کہ میں لائلپور(حال فیصل آباد، پاکستان) گیا ہوں اور وہاں کسی دوست، سردار محمد نامی، سے ملا ہوں۔ جب میں اپنے اس دوست سے مل چکا تو خیال آیاکہ ظفراللہ بھی تو یہیں ہے، مجھے اس سے بھی مل لینا چاہیے، یہ میرے ایک ہم نام اور کالج کے زمانے کے ایک دوست تھے، جو بیرسٹر بن کر وہاں پریکٹس کر رہے ہیں۔ چنانچہ (خواب میں ہی) میں ان سے بھی ملا۔ یہ بھی ایک اچھا اشارہ تھا، کیونکہ’’ محمد‘‘ رسول پاکﷺ کا اسم گرامی ہے اور سردار کا مطلب ہے سربراہ، پھر’ظفراللہ‘ کا مطلب ہے: ’اللہ کی طرف سے آنے والی فتح‘ یا ’اللہ کی طرف سے ملنے والی کامیابی‘۔ ‘‘

فرماتے ہیں :

’’ان خوابوں کے یوں تسلسل کے ساتھ آنے کا میرے ذہن پر اتنا اثر تھا کہ جب میرے ایک کزن، مکرم شیخ اعجاز احمد صاحب، اور ان کے ایک دوست، چوہدری بشیر احمد صاحب، کچھ دن رہنے کے لئے میرے پاس آئے تو میں نے ان سے کہہ دیا کہ شاید میرے حالات میں کوئی تبدیلی آنے والی ہے۔ اس پر دونوں نے یک زبان ہو کر پوچھا: ’کیا کوئی خواب آئی ہے؟‘‘

اس پر آپؓ نے اپنی مذکورہ بالا تینوں خوابیں سنا دیں۔

آگے فرماتے ہیں :

’’اگلے روز ہی جب میں وائسرائے ہندسے ملنے گیا تو انہوں نے اس معاملہ کا ذکر کیا(یعنی اس گفتگو کا جو ان کے اور چیف جسٹس کے درمیان ہوئی تھی)۔ ان کی بات سننے کے بعد میرا پہلا تاثر یہ تھا کہ یہ میری ان خوابوں کی تعبیر ہے۔ چنانچہ جب وائسرائے صاحب نے میری رائے دریافت کی تو میں نے انہیں دو ٹوک بتا دیا کہ میں عدالت میں جانا چاہوں گا۔ ‘‘

آپؓ کے انڈین فیڈرل کورٹ کے جج کے تقرر پر آپ نے اسلام پسندی اور خدا ترسی کی مثال قائم کر دی۔ آپؓ نے اپنی خود نوشت داستان ’’تحدیث نعمت‘‘میں تحریر فرمایا ہے کہ

’’میں نے عدالت کا رکن بنتے ہی اپنی عدالتی نوٹ بک کے پہلے صفحہ پر سورۃ المائدۃکی وہ آیت لکھ لی جس میں مومنوں کو انصاف پر قائم رہنے کی تاکید کی گئی ہے اور وہ یہ ہے:

وَلَا یَجْرِ مَنَّکُمْ شَنَاٰنَ قَوْمٍ عَلیٰ اَلَّا تَعْدِلُوْا۔ اِعْدِلُوْا۔ ھُوَا اَقْرَبُ لِلتَّقْویٰ

یعنی اور کسی قوم کی دشمنی ہر گز تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ بلکہ ہر صورت میں انصاف کرو۔ یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے(سورۃ المائدہ:9)۔ ‘‘

(ماخوذ ازتحدیث نعمت صفحہ 128-134)

خدمت دین کے لیے آسمانی رہ نمائی

حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ دو مرتبہ عالمی عدالت انصاف کے جج رہ چکے تھے۔ جب 5؍فروری1971ء کو آپؓ کی رکنیت کی دوسری میعاد ختم ہونے والی تھی توحکومت پاکستان نے تیسری بار آپؓ کا نام تجویز کر کے بھیج دیا۔ مگر آپؓ فرماتے ہیں :

’’ستمبر 1972ء میں مجھے خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی زیارت نصیب ہوئی۔ خواب میں مَیں نے دیکھا کہ میں نے اپنی چھڑی حضور اقدس علیہ السلام کی خدمت عالیہ میں پیش کی اور حضور علیہ السلام نے از راہ شفقت اسے تبسم فرما کر قبول فرمایا۔ میں اس خواب کی تعبیر کا مفہوم یہ سمجھا کہ مجھے اب کلی طور پر خدمت دین کے لئے وقف کر دینا چاہیے۔ ‘‘

چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں :

’’میرادینی علم نہایت محدود تھا۔ اکیس سال کی عمر میں میں نے بیرسٹری کی سند حاصل کی تھی، اکیس سال کا عرصہ میں نے وکالت میں صرف کیا، قریب سات سال کا عرصہ میں حکومت ہند میں وزیر رہا اور اسی قدر عرصہ پاکستان کے وزیر خارجہ کے فرائض اداکئے۔ چھ سال ہندوستان کی سب سے اعلیٰ عدالت کا رکن رہا۔ پندرہ سال سے زائد عرصہ عالمی عدالت کی رکنیت میں گذرا۔ تین سال امم (اقوام) متحدہ میں پاکستان کی سفارت سرانجام دی۔ محض اللہ تعالیٰ کی ذرہ نوازی سے یہ مواقع میسر آئے اور اسی کی تائید و نصرت سے ان کے فرائض کی ادائیگی کی توفیق ملی۔ ‘‘

اگرچہ آپؓ کوباقاعدہ کسی دینی ادارے میں داخل ہو کر دینی علوم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا تھا، تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضرت سلطان القلم علیہ السلام کا غلام ہونے کی برکت سے، نیز اپنی صالحہ اور مستجاب الدعوات والدہ کی دعاؤں کے طفیل، آپؓ کووسیع دینی علم حاصل تھا اور اعلیٰ درجہ کی ذہنی صلاحیتوں کے مالک تھے۔ اس کے ساتھ آپؓ بلا کا حافظہ رکھتے تھے۔ پھر انگریزی زبان پر آپؓ کو ایسا عبور حاصل تھا کہ تحریر و تقریر کے میدان میں اس وقت دنیا میں آپؓ کا ثانی تلاش کرنا مشکل تھا۔ لہٰذ آپؓ نے دین کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ آپؓ فرماتے ہیں :

’’چونکہ خواب واضح تھا، میں نے یہ اقدام تو فوراً کیا کہ حکومت پاکستان کی وزارت خارجہ کو لکھ دیا کہ میرا نام عالمی عدالت کی رکنیت کی امیدواری سے واپس لے لیں اور یہ تہیہ کر لیا کہ جس پہلو سے مجھے خدمت دین کا موقع میسر آئے میں اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم اور اس کی تائید و نصرت پر انحصار کرتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کروں گا۔

وَاللّٰہُ الْمُسْتَعَانُ وَ ھُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر۔ ‘‘

آپؓ اس آسمانی اشارہ کی تعمیل میں اپنے آپ کو خدمت دین کے لیے کلیۃً وقف سمجھتے ہوئے لندن تشریف لے آئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے ارشاد کے تحت مسجد فضل لندن سے ملحقہ عمارت کے ایک حصہ میں آپؓ نے رہائش اختیار کر لی۔ جس لگن، وقف کی روح اور محنت کے ساتھ آپؓ نے دینی کتب کی تصانیف اور تراجم کا کام سرانجام دیااور اپنی زندگی کے آخری لمحات تک سرانجام دیتے رہے، وہ آپؓ کی زندگی کا بہترین کارنامہ ہے اور رہتی دنیا تک آپؓ کا نام روشن کرتا رہے گا۔ آپؓ اس کے متعلق تحریر فرماتے ہیں :

’’لندن میں مستقل طور پر سال کا ایک حصہ قیام میسر آنے سے بفضل اللہ اتنی توفیق ملتی رہی ہے کہ ہر سال کچھ نہ کچھ خدمت دین بصورت ترجمہ یا تصنیف ہو سکی۔ یہ سلسلہ سردیوں میں پاکستان کے عرصہ قیام میں بھی بفضل اللہ جاری رہتا ہے، لیکن انگریزی کی طباعت کا تمام کام لندن میں سر انجام پاتا ہے، خواہ اس کی تیاری لندن میں کی گئی ہو یا پاکستان میں۔ ‘‘

(ماخوذ ازتحدیث نعمت صفحہ743تا751)

آپؓ کی ترجمہ شدہ یا تصنیف کردہ کتب و رسائل بزبان انگریزی کی تعداد16ہے۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button