متفرق مضامین

ڈاکٹر ڈوئی کے انجام کے متعلق اس کے ایک پیرو کار کی گواہی

(کریم ظفر ملک۔ امریکہ)

جان الیگزینڈر ڈوئی (John (Alexander Dowie کی موت کو ایک سو تیرہ سال کا عرصہ بیت گیا ہے۔ اس کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ نبی یحییٰ ہے اور اس نے اسلام پر بہت گندے حملے کیے اور پھر انہیں دنوں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اس کی ایک دو تحریریں ملیں جن سے حضورؑ کو علم ہوا کہ ڈاکٹر ڈوئی اسلام پر بہت گندے حملے کررہا ہے اور اپنے تئیں نبوت کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔ اس پر اس کا رابطہ بذریعہ خطوط مشیت ایزدی کے تحت ہندوستان کے گمنام قصبے قادیان میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانیؑ سے ہوا۔

ان دنوں کے امریکہ کے اخبارات کی وجہ سے اس کی خط و کتابت قادیان سے اور پھر حضرت مسیح موعودؑ سے ہوئی۔ جب اس نے دعاؤں کی جنگ یعنی مباہلے کا اعلان کردیا تو اس پر حضورؑ نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پاکر یہ اعلان چھپوا دیا کہ ڈاکٹر ڈوئی چونکہ جھوٹی نبوت کا دعوےدار ہے یہ حضورؑ کی زندگی میں ہی ذلت کی موت مرے گا۔ یہ بات امریکہ کی اخباروں میں بھی شائع ہوئی۔

ڈاکٹر ڈوئی کا مختصر تعارف یہ ہے کہ یہ سکاٹ لینڈ کے ایک چرچ کا پادری تھا اور1896ء میں اس نے ایک شہر Zion کا جو کہ Illinois سٹیٹ میں ہے کا انکشاف کیا۔ یہ مذہبی شہر دراصل خاص طور پر اس نے اپنی Communityکے نئے تہذیب یافتہ لوگوں اور اپنے خاص مریدوں کے لیے بسایا تھا اور یہیں اس نے دعویٰ کیا کہ وہ خداتعالیٰ کا بھیجا ہوا نبی ہے۔ آغاز میں اس کے مرید کافی بڑھنے لگے اور بہت سے لوگوں نے اس کے عقیدے کو قبول کرلیا۔ زیادہ تر اس کے مرید عیسائی ہی تھے۔

اس کے اشاعتی ادارے نے Zion کی اخباروں میں یہ بھی چھپوا دیا کہ ڈاکٹر ڈوئی خدا کا نبی ہے اور اس کا نام یحییٰ نبی ہے۔اس کے ساتھ ہی اس نے حضرت رسول پاکﷺ پر بےشمار اعتراضات کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس طرح بہت جلد وہ اپنے علاقے کی ایک مشہور شخصیت بن کر ابھرا یہاں تک کہ نہ صرف امریکن پریس نے اس کی پذیرائی کی بلکہ نارتھ لینڈ کے اخبارات کے ذریعہ بھی اس کا بہت چرچا ہوا۔ جب اس کا اس طرح چرچا قادیان میں حضرت مسیح موعودؑ تک پہنچا تو حضرت اقدسؑ نے مناسب خیال کیا کہ اسے جواب دیاجائے۔

چنانچہ ستمبر 1902ء میں حضرت اقدسؑ نے اسے چیلنج کیا کہ ہم دونوں میں سے جو بھی اپنے دعویٰ نبوت میں جھوٹا ہے وہ دوسرے کی زندگی میں مر جائے گا۔ جس پر اس وقت ڈاکٹر ڈوئی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اس کے بعد اگست 1903ء میں حضورؑ نے دوبارہ چیلنج بھجوایا اور اشتہار کی صورت میں چھپوا بھی دیا۔ جب ڈاکٹر ڈوئی کو اس کے مریدوں نے بار بار بتایا کہ ہندوستان کے شہر قادیان سے تمہارے لیے یہ چیلنج دوبارہ آیا ہے تو اس نے انتہائی تکبر کے ساتھ اپنے مریدوں کو مخاطب کرکے کہا

’’کیا تم سوچ سکتے ہو کہ میں مچھروں یا مکھیوں کو جواب دوں۔ میں تو صرف اگر اپنا پاؤں ان پر رکھ دوں تو یہ مر جائیں گے۔ ‘‘(27؍ستمبر 1903ء)

لہٰذا اس کے بعد ڈاکٹر ڈوئی پر عذاب الٰہی لکھ دیا گیا۔ خدائی فیصلے انسانی طاقت سے کہیں زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ اس وقت اگر وہ چیلنج قبول نہ بھی کرتا تو اللہ تعالیٰ کی غیرت جوش میں آچکی تھی۔

حضرت اقدسؑ نے تو یہ فرمایا تھا کہ اب صرف یہ دنیا ہی غیرطبعی موت کے ساتھ نہیں چھوڑے گا بلکہ انتہائی غم و رنج کے ساتھ میری زندگی میں ہی ذلیل و رسوا ہو کر مرے گا۔

تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح حالات نے اچانک پلٹا کھایا اور یہ سب کچھ 1905ء سے لے کر 1907ء تک جس طرح اللہ تعالیٰ نے مقدر کر دیا تھا رونما ہوگیا! وہ اتنی شدید مالی مشکلات میں پھنس گیا تھا کہ دن بدن افلاس اور تنگدستی تیزی کے ساتھ اس کی طرف بھاگی آرہی تھی۔

1905ء میں اسے فالج کا پہلا حملہ ہوا۔ اس کی فیملی اور نہایت قریبی عزیز و اقارب کو معلوم ہوا کہ وہ تو اپنی زندگی میں بہت اخلاقی گراوٹ میں مبتلا رہا ہے حتیٰ کہ اس کے اپنے مریدوں نے اس سے منہ موڑ لیا اور اس کے شہر ZIONکا کنٹرول بھی اس سے لے لیا اور اس کو وہاں سے نکل جانے کا کہہ دیا۔ اور بعینہٖ حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی کے مطابق وہ ایک شرمناک اور ذلت کی موت سے ہلاک ہوا۔ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں 30ویں نمبر پر اس نشان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :

’’تیسواں نشان۔ ایک شخص ڈوئی نام امریکہ کا رہنے والا تھا اس نے پیغمبری کا دعویٰ کیا تھا اوراسلام کا سخت دشمن تھا اُس کا خیال تھا کہ میں اسلام کی بیخ کنی کروں گا۔ حضرت عیسیٰ کو خدامانتا تھامیں نے اس کی طرف لکھا تھا کہ میرے ساتھ مباہلہ کرے اور ساتھ اس کے یہ بھی لکھا کہ اگر وہ مباہلہ نہیں کرے گا تب بھی خدا اس کو تباہ کردے گا۔ چنانچہ یہ پیشگوئی امریکہ کے کئی اخباروں میں شائع کی گئی اور اپنے انگریزی رسالہ میں بھی شائع کی گئی۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 226)

’’میرے مباہلہ کا مضمون اس کے مقابل پر امریکہ کے بڑے بڑے نامی اخباروں نے جو روزانہ ہیں شائع کردیا اور تمام امریکہ اور یورپ میں مشہور کر دیا۔ اور پھر اس عام اشاعت کے بعد جس ہلاکت اور تباہی کی اس کی نسبت پیشگوئی میں خبر دی گئی تھی وہ ایسی صفائی سے پوری ہوئی کہ جس سے بڑھ کر اکمل اور اتم طور پر ظہور میں آنا متصور نہیں ہو سکتا۔ اس کی زندگی کے ہر ایک پہلو پر آفت پڑی۔ اس کا خائن ہونا ثابت ہوا اور وہ شراب کو اپنی تعلیم میں حرام قرار دیتا تھا۔ مگر اس کا شرابخور ہونا ثابت ہو گیا۔ اور وہ اس اپنے آباد کردہ شہر صیحون سے بڑی حسرت کے ساتھ نکالا گیا جس کو اس نے کئی لاکھ روپیہ خرچ کرکے آباد کیا تھا اور نیز سات کروڑ نقد روپیہ سے جو اس کے قبضہ میں تھا اس کو جواب دیا گیا۔ اور اس کی بیوی اور اس کا بیٹا اس کے دشمن ہوگئے او راس کے باپ نے اشتہار دیا کہ وہ ولدالزنا ہے۔ پس اس طرح پر وہ قوم میں ولدالزنا ثابت ہوا۔ اور یہ دعویٰ کہ میں بیماروں کو معجزہ سے اچھا کرتا ہوں۔ یہ تمام لاف و گزاف اس کی محض جھوٹی ثابت ہوئی اور ہر ایک ذلت اس کو نصیب ہوئی۔ اور آخر کار اس پر فالج گرا اورایک تختہ کی طرح چند آدمی اس کو اٹھا کر لے جاتے رہے اور پھر بہت غموں کے باعث پاگل ہو گیا اور حواس بجانہ رہے اور یہ دعویٰ اس کا کہ میری ابھی بڑی عمر ہے اور میں روز بروز جوان ہوتا ہوں اور لوگ بڈھے ہوتے جاتے ہیں محض فریب ثابت ہوا۔ آخر کار مارچ 1907ء کے پہلے ہفتہ میں ہی بڑی حسرت اور درد اور دکھ کے ساتھ مر گیا۔

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 512)

خاکسار یہاں یہ مناسب سمجھتا ہے کہ ایک ایمان افروز واقعہ بھی تحریر کردے تا ہماری آنے والی نسل کے لیے ازدیاد ایمان کا موجب بن سکے۔

صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیراحمد صاحبؓ کے سب سے بڑے فرزندتھے، واشنگٹن میں جب WORLD BANKمیں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے تو ایک دفعہ شکاگو تشریف لائے۔18t خاکسار ان دنوں ILLINOIS سٹیٹ میں نیا نیا مقیم ہوا تھا اور بنک میں ملازمت کرتا تھا۔ ایک دن محترم ڈاکٹر صلاح الدین شمس صاحب مرحوم کا فون آیا کہ ایئرپورٹ جاکر حضرت میاں صاحب کو لے کر ZION لانا ہے اور lunchبھی وہیں تھا۔ چنانچہ خاکسار اور محترم ڈاکٹر صاحب مرحوم ایئر پورٹ سے حضرت میاں صاحب کو لے کر سیدھے ZIONپہنچ گئے۔اس وقت ہمارے ساتھ مولوی شکرالٰہی صاحب (جوان دنوں اسی شہر میں مربی تھے) اور ایک افرو امریکن احمدی بھائی بھی تھے جن کا نام مجھے یاد نہیں۔ حضرت میاں صاحب کی معیت میں شہر گھومنے کے بعد ڈاکٹر صاحب ہمیں ایک بڑے Nursing Home میں لے گئے۔ غالباً ان دنوں ڈاکٹر صاحب سوشل ورک کے تحت ہفتے میں ایک دن چند گھنٹے بوڑھے اور ضعیف مریضوں کو بھی دیا کرتے تھے۔ چنانچہ وہ ہمیں ایک کمرے میں لے گئے جہاں غالباً 4بوڑھے امریکن تھے یہ 1973ء کی بات ہے۔ جب ڈاکٹر صاحب نے ایک شخص سے کہا کیا تمہیں ڈاکٹر ڈوئی کے بارے میں کچھ یاد ہے۔ تو اس نے برملا کہا کیوں نہیں میں خود اس کا پیروکار تھا اور ZIONکا ہی رہنے والا ہوں۔ وہ ہمارا مذہبی رہ نما تھا اور بہت اثرو رسوخ والا اورمال دار انسان تھا اور ہزاروں اس کے مرید تھے۔ اسی اثنا میں دوسرے بستر والا شخص بھی ہماری گفتگو میں شامل ہو چکا تھا۔ اتنا ذکر کرنے کے بعد وہ خاموش ہو گیا۔ پھر ڈاکٹر صاحب کے استفسا ر پر کہ آخر اس کا کیا ہوا؟ تو کہنے لگا کہ انڈیا کے کسی قصبے میں ایک شخص کے ساتھ اس کی خط و کتابت شروع ہو گئی تھی۔ اس نے ’’مسیح‘‘ ہونے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ پھر کافی دیر ان میں خط و کتابت رہی اور اخبارات کی سرخیاں بھی بنتی رہیں۔ بالآخر ڈاکٹر ڈوئی بہت ہی بیچارگی اور رنج و غم کی حالت میں مرگیا۔

اس انگریز نے سوال کیا کہ ہم کیوں اس سے یہ پوچھ رہے ہیں اور کیا ہم اس انڈیا والے مہدی کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ تو خاکسار نے برملا حضرت صاحبزادہ صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر عرض کیا کہ ہاں یہ بزرگ انسان انہی کا پوتا ہے جنہوں نے ڈاکٹر ڈوئی کے اس طرح ہلاک ہونے کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ وہ امریکن تو بہت حیران ہوا۔ مگر میری نظر جب حضرت میاں صاحب کے چہرے پر پڑی تو ان کا ایسا چہرہ خاکسار نے زندگی میں کبھی بھی نہیں دیکھا تھا۔ ایک نور کا پیکر، انکساری سے آنکھیں جھکی ہوئیں اور خداتعالیٰ کے اس نشان سے انتہائی متاثر دکھائی دیے۔ ان کا چہرہ اس طرح دکھائی دیا کہ وہ حضرت اقدسؑ کی سچائی کی گواہی دے رہا ہو۔

اس کاذب اور جھوٹی نبوت کے دعوے دار کو اپنے انجام کوپہنچے ہوئے اب ایک صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔

اس کی موت سے چند روز قبل ہی اخبار ’’ہاربرز ویکلی‘‘ نے اس کی تصویر یوں بیان کی:

’’قدرت نے اس سے اچانک ترقی کے پنڈولم کو واپس گھما دیا اور وہ اپنے آپ پر قدرت سے بھی محروم ہو چکا ہے وہ شخص جو اتنی بے باکی سے اپنے آپ کو ایلیا سوئم کہتا رہا اب بےبسی کے ساتھ اپنے بسترمرگ پر پڑا ہے اور اپنے آپ کو ہلا بھی نہیں سکتا اور اپنے نیگرو نوکروں کے مرہون منت ہے۔ ‘‘

انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے 1951ء کے ایڈیشن نے ڈوئی کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے:

’’اپریل 1906ء میں اس کے اقتدار کے خلاف شہر میں بغاوت ہو گئی اور اس پر سٹہ بازی اور تعدّد ازدواج کا الزام لگا۔ اور اس کی بیوی او رلڑکے کی رضامندی کےساتھ اسے معزول کیا گیا اور وہ بدیہی طور پر پاگل ہو چکا تھا۔ اسی حالت میں اس پر فالج کا حملہ ہوا جس کے باعث مارچ 1907ء کو شکاگو ٹریبیون اخبار نے یو ں لکھا

’’ڈوئی کل صبح 7 بجکر 40 منٹ پرشیلو ہائوس میں مر گیا اس کے خاندان کا کوئی فرد بھی موجود نہ تھا۔ یہ خود ساختہ پیغمبر بغیر کسی اعزاز کے اور بالکل کس مپرسی میں مرگیا۔ ‘‘

یہاں خاکسار یہ ذکر بھی ضروری سمجھتا ہے کہ اس وقت ڈاکٹر ڈوئی کی عمر 59 سال تھی او ر حضرت اقدس مسیح موعودؑ 73 سال کے تھے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button