اختلافی مسائل

شیخ الکل مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی کو انگریز سے خطاب، انعامی رقم اور سرٹیفیکیٹس ملنا

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نےاپنی تحریرات میں انگریزی سلطنت کے عدل و انصاف، مذہبی آزادی اورحسن انتظام جیسی خصوصیات اور خوبیوں کی بدولت متعدد مقامات پر تعریف کی ہے۔ آپ نے کسی خوشامد کی غرض سے یہ تعریفیں نہیں کیں بلکہ یہ اسلامی تعلیم کےمطابق محسن گورنمنٹ کے شکریہ پر مبنی اعتراف حقیقت تھا۔ آپ علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’پس سنواے نادانو!میں اس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا۔ بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایسی گورنمنٹ سے جو دین اسلام اور دینی رسوم پر کچھ دست اندازی نہیں کرتی اور نہ اپنے دین کو ترقی دینے کے لئے ہم پر تلوار یں چلاتی ہے۔ قرآن شریف کی رو سے جنگ مذہبی کرنا حرام ہے۔ کیونکہ وہ بھی کوئی مذہبی جہاد نہیں کرتی۔ ‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19صفحہ 75)

چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گورنمنٹ کی طرف سے کبھی کوئی صلہ اور انعام نہیں لیا۔ جبکہ اس کے برعکس اس وقت کے غیر احمدی علماء نے گورنمنٹ کی تعریفوں کے پل باندھے۔ حکومت کی وفاداری کے حق میں فتاویٰ دیے۔ ہندوستان کو دارالسلام اور دارالامن قراردیا۔ ہر طرح سے خوشامدیں کیں۔ نتیجۃً گورنمنٹ کی طرف سے ان لوگوں کو مختلف خطابات، انعامات اور سرٹیفیکیٹس دیے گئے۔ لیکن جب انگریز یہاں سے چلا گیا تو پھر ان علماء کے پیروکار اپنے بزرگوں کے عمل کو چھپانے لگے اور بات کو غلط انداز سے پیش کرتے ہوئے احمدیوں کو ’انگریز کےوفادار‘ کہہ کر عوام الناس کو دھوکا دینے لگے۔

ایک مشہور ومعروف اہل حدیث عالم دین مولوی نذیر حسین دہلوی صاحب کی سیرت کے مطالعہ سے جو باتیں سامنے آتی ہیں وہ قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔

شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی کو ’شمس العلماء‘ کا خطاب ملنا

مولوی نذیر حسین دہلوی (1220ھ۔ 1320ھ) اہل حدیث کے چوٹی کےعالم تھے۔ دہلی میں پچاس سال سے زائد عرصہ درس و تدریس کے فرائض سر انجام دیے۔ پورے برصغیر میں ان کے ہزار ہا شاگرد تھے۔ جماعت احمدیہ کے مشہور مخالفین اور ہندوستان میں اہل حدیث کے نامور علماء مولوی محمد حسین بٹالوی، مولوی ثناء اللہ امرتسری، مولوی ابراہیم سیالکوٹی وغیرہ ان کے شاگرد وں میں سے تھے۔

مولوی نذیر حسین صاحب کے شاگرد مولوی فضل حسین بہاری نے 1908ء میں میاں صاحب کے سوانح حیات بنام ’’الحیاۃ بعد المماۃ‘‘رقم فرمائی۔ اس میں حکومت کی طرف سے شمس العلماء کا خطاب دیے جانے کے متعلق انہوں نے لکھا ہے:

’’شمس العلماء کا خطاب۔ گورنمنٹ انگلشیہ کی طرف سے 22جون1897ءمطابق 21محرم 1315ھ۔ روز سہ شنبہ کو ملا‘‘

(الحیاۃ بعد المماۃاز مولانا فضل حسین بہاری۔ ایڈیشن 1984ء صفحہ102)

شیخ الکل میاں نذیر حسین دہلوی کو انگریزی حکومت سے انعامی رقم اور سرٹیفیکیٹ ملے

’’عین حالت غدر میں جب کہ ایک ایک بچہ انگریزوں کا دشمن ہو رہا تھا مسز لیسٹس ایک زخمی میم کو رات کے وقت میاں صاحب اٹھوا کر اپنے گھر لے آئے۔ پناہ دی، علاج کیا، کھانا دیتے رہے۔ اس وقت اگر ظالم باغیوں کو ذرہ خبر بھی ہوجاتی تو آپ کو قتل اور خانہ بربادی میں مطلق دیر نہ لگتی…ساڑھے تین مہینوں کے بعد جب پوری طرح امن قائم ہوچکا تب اس نیم جاں میم کو جو اب بالکل تندرست اور توانا تھی انگریزی کیمپ میں پہنچا دیا جس کے صلہ میں مبلغ ایک ہزار تین سو روپیہ اور مندرجہ ذیل سارٹیفیکیٹس ملیں۔ ‘‘

(الحیاۃ بعد المماۃاز مولانا فضل حسین بہاری۔ ایڈیشن 1984ء صفحہ77)

میاں صاحب جب حج کو جانے لگے تو کمشنر دہلی نے آپ کو ایک چٹھی مورخہ 10؍اگست1883ء دی جس میں لکھا:

’’مولوی نذیر حسین دہلی کے ایک بڑے مقتدر عالم ہیں۔ جنہوں نے نازک وقتو ں میں اپنی وفاداری گورنمنٹ برطانیہ کے ساتھ ثابت کی ہے اور اب وہ اپنے فرض زیارت کعبہ کے ادا کرنے کو مکہ جاتے ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ جس کسی برٹش گورنمنٹ افسر کی وہ مدد چاہیں گے وہ ان کو مدد دے گا کیونکہ وہ کامل طور پر اس مدد کے مستحق ہیں۔ ‘‘

(الحیاۃ بعد المماۃاز مولانا فضل حسین بہاری۔ ایڈیشن 1984ء۔ صفحہ83)

(مرسلہ : ساجد محمود بٹر ۔ گھانا)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button