کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

خدا تعالیٰ کا قرب پانے کی راہ

خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی راہ یہ ہے کہ اس کے لئے صدق دکھایا جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو قرب حاصل کیا تو اس کی وجہ یہی تھی۔ چنانچہ فرمایا ہے۔

وَاِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰى(النّجم: 38)۔

ابراہیم ؑوہ ابراہیمؑ ہے جس نے وفاداری دکھائی۔ خدا تعالیٰ کے ساتھ وفاداری اور صدق اور اخلاص دکھانا ایک موت چاہتا ہے جب تک انسان دنیا اور اس کی ساری لذتوں اور شوکتوں پر پانی پھیر دینے کو تیار نہ ہو جاوے۔ اور ہر ذلت اور سختی اور تنگی خدا کے لئے گوارا کرنے کو تیار نہ ہو۔ یہ صفت پیدا نہیں ہوسکتی۔ بت پرستی یہی نہیں کہ انسان کسی درخت یا پتھر کی پرستش کرے بلکہ ہر ایک چیز جو اﷲ تعالیٰ کے قرب سے روکتی اور اس پر مقدم ہوتی ہے۔ وہ بت ہے اور اس قدر بت انسان اپنے اندر رکھتا ہے کہ اس کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ میں بت پرستی کر رہا ہوں۔ پس جب تک خالص خدا تعالیٰ ہی کے لئے نہیں ہو جاتا اور اس کی راہ میں ہر مصیبت کی برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ صدق اور اخلاص کا رنگ پیدا ہونا مشکل ہے۔ ابراہیم علیہ السلام کوجو یہ خطاب ملا۔ یہ یونہی مل گیا تھا؟ نہیں۔

اِبْرٰهِيْمَ الَّذِيْ وَفّٰی

کی آواز اس وقت آئی جبکہ وہ بیٹے کی قربانی کے لئے تیار ہو گیا۔ اﷲ تعالیٰ عمل کو چاہتا اور عمل ہی سے راضی ہوتا ہے۔ اور عمل دکھ سے آتا ہے۔ لیکن جب انسان خدا کے لئے دکھ اٹھانے کو تیار ہو جاوے تو خدا تعالیٰ اس کو دکھ میں بھی نہیں ڈالتا۔ دیکھو۔ابراہیم علیہ السلام نے جب اﷲ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لئے اپنے بیٹے کو قربان کر دینا چاہا اور پوری تیاری کر لی تو اﷲ تعالیٰ نے اس کے بیٹے کو بچا لیا۔ وہ آگ میں ڈالے گئے لیکن آگ ان پر کوئی اثر نہ کرسکی۔ اﷲ تعالیٰ کی راہ میں تکلیف اٹھانے کو تیار ہو جاوے تو خدا تعالیٰ تکالیف سے بچا لیتا ہے۔ ہمارے ہاتھ میں جسم تو ہے روح نہیں ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ روح کا تعلق جسم سے ہے اور جسمانی امور کا اثر روح پر ضرور ہوتا ہے۔ اس لئے یہ کبھی خیال نہ کرنا چاہیے کہ جسم سے روح پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ جس قدر اعمال انسان سے ہوتے ہیں۔ وہ اسی مرکب صورت سے ہوتے ہیں۔ الگ جسم یا اکیلی روح کوئی نیک یا بد عمل نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ جزا سزا میں بھی دونو کے متعلقات کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ بعض لوگ اسی راز کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اعتراض کر دیتے ہیں کہ مسلمانوں کا بہشت جسمانی ہے۔ حالانکہ وہ اتنا نہیں جانتے جب اعمال کے صدور میں جسم ساتھ تھا توجزا کے وقت الگ کیوں کیا جاوے؟ غرض یہ ہے کہ اسلام نے ان دونو طریقوں کو جو افراط اور تفریط کے ہیں چھوڑ کر اعتدال کی راہ بتائی ہے۔ یہ دونو خطرناک باتیں ہیں ان سے پرہیز کرنا چاہیے۔ مجرد تعذیب جسم سے کچھ نہیں بنتا اور محض آرام طلبی سے بھی کوئی نتیجہ پیدا نہیں ہوتا۔

ولایت کسے حاصل ہوتی ہے

ایک مرتبہ ایک شخص میرے پاس نور محمد نام ٹانڈہ سے آیا تھا۔ اس نے کہا کہ غلام محبوب سبحانی نے ولی ہونے کا سر ٹیفکیٹ دے دیا ہے۔ اب ولایت کا معیار یہی رہ گیا ہے کہ غلام محبوب سبحانی یا کسی نے سر ٹیفکیٹ دے دیا۔ حالانکہ ولایت ملتی نہیں جب تک انسان خدا کے لئے موت اختیار کرنے کے لئے تیار نہ ہو جاوے۔ دنیامیں بہت سے لوگ اس قسم کے ہیں جن کو کچھ بھی معلوم نہیں کہ وہ دنیا میں کیوں آئے ہیں۔ حالانکہ یہی پہلا سوال ہے جس کو اسے حل کرنا چاہیے۔ خود شناسی کے بعد خدا شناسی پیدا ہوتی ہے جب وہ اپنے فرائض کو سمجھتا ہے اور مقاصد زندگی پر غور کرتاہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ میری زندگی کی غرض خدا شناسی ہے اور اس پر ایمان لاتا اور اس کی عبادت کرتا ہے۔ تب وہ فرائض کو ادا کرتا اور نوافل کو شناخت کرتا ہے۔ وہ روحانیت جو ایمان کے بعد پیدا ہوتی ہے اب اسے تلاش کرو کہ کہاں ہے؟ نہ مولویوں میں ہے نہ راگ سننے والے صوفیوں میں۔ یہ گو سالہ صورت ہیں روحانیت سے بے خبر ہو کر ہزار سال تک بھی اگر مغز مارتے رہیں تو کچھ نہیں بنتا۔ یہ لحوم اور دماء ہیں تقویٰ نہیں۔پھر لحوم اور دماء اﷲ تعالیٰ کو کیسے پہنچ سکتا ہے۔

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 429۔431۔ایڈیشن1984ء)

جماعت کا خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہونا چاہیے

ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ سے سچا تعلق ہونا چاہیے۔ اور ان کو شکر کرنا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو یونہی نہیں چھوڑا۔ بلکہ ان کی ایمانی قوتوں کو یقین کے درجہ تک بڑھانے کے واسطے اپنی قدرت کے صدہا نشان دکھائے ہیں۔ کیا کوئی تم میں سے ایسا بھی ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں نے کوئی نشان نہیں دیکھا۔ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ایک بھی ایسا نہیں جس کو ہماری صحبت میں رہنے کا موقع ملا ہو اور اس نے خدا تعالیٰ کا تازہ بتازہ نشان اپنی آنکھ سے نہ دیکھا ہو۔

ہماری جماعت کے لئے اسی بات کی ضرورت ہے کہ ان کا ایمان بڑھے۔ خدا تعالیٰ پر سچا یقین اور معرفت پیدا ہو۔ نیک اعمال میں سستی اور کسل نہ ہو۔ کیونکہ اگر سستی ہو تو پھر وضو کرنا بھی ایک مصیبت معلوم ہوتا ہے چہ جائیکہ وہ تہجد پڑھے۔ اگراعمال صالحہ کی قوت پیدا نہ ہو اور مسابقت علی الخیرات کے لئے جوش نہ ہو تو پھر ہمارے ساتھ تعلق پیدا کرنا بے فائدہ ہے۔

(ملفوظات جلد 4صفحہ 438۔439۔ایڈیشن1984ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button