متفرق مضامین

بدھ رہ نما دلائی لامہ کی تاریخ و تعارف (قسط دوم۔ آخری)

(شہود آصف۔ استاذ جامعہ احمدیہ گھانا)

Tasangyang Gyatsoچھٹا دلائی لامہ

Tasangyang Gyatsoکی پیدائش 1682ء میں Mon Tawang( بھارتی ریاست ارونچل پردیش اور بھوٹان کاسرحدی علاقہ) میں ہوئی۔ Desi (سیاسی امور کے لیے دلائی لامہ کا مقرر کردہ نائب)نے پانچویں دلائی لامہ کی وفات کی خبر اس کی وصیت کے مطابق پندرہ سال تک مخفی رکھی۔ لوگوں کو یہ بتایا گیا کہ دلائی لامہ طویل ریاضتوں میں مصروف ہے اور جب بھی منگول حکام نے دلا ئی لامہ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو Namgyal Monasteryکے ایک بزرگ راہب کو لامہ کا لباس پہنا کر پیش کیا گیا۔ Desi نے اس دوران نئے دلائی لامہ کی تلاش کا کام جاری رکھا۔ اسی دوران اس کواطلاع ملی کہ Mon Tawangکے علاقہ میں ایک بچہ غیر معمولی علامات کے ساتھ پیدا ہو چکا ہے۔ اس نے اپنے معتمدین کو بھجوایا اور1688ء میں اس بچہ کو لاسہ منگوا لیا۔ 1697ء تک اس بچہ کی تعلیم و تربیت کے امور بجا لائے گئے۔ 1697ءمیں Desiنے اپنے ایک وزیر کو منچو دربار بھیجا تاکہ وہ ان کو پانچویں دلائی لامہ کی وفات اور چھٹے لامہ کے ملنے کی خبر سے آگاہ کر دے۔ لوگوں کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے ا س نئے دلائی لامہ کو خوشی سے قبول کیا۔ دیسی (Desi)نے پنچن لامہ کو بلایا تاکہ وہ اس نئےدلائی لامہ کی مقدس رسومات کروائے۔ پنچن لامہ نے اسے Tasangyang Gyatso نام دیا۔

1701ء سے Desiاور تبت کے ہمسایہ منگول قبیلہ کے سردار Lhabzang Khanکے درمیان جھگڑا شروع ہو گیا۔ Lhabzang Khan نے لاسہ پر چڑھائی کر کے Desiکو ہلاک کر دیا۔ تبت میں اس دوران خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ Desiکے قتل نے چھٹے دلائی لامہ پر گہرا اثر ڈالا۔ وہ اپنی پڑھائی اور مذہبی رسومات کی بجائے محل سے باہر زیادہ وقت گزارنے لگا۔ اس نے پنچن لامہ سے ملاقات کی اور اس سے معافی مانگی کہ وہ راہب نہیں بننا چاہتا۔

اسی دوران منچو بادشاہ نے Lhabzang Khan کی تبت کا نگران مقرر کیا اور حکم دیا کہ دلائی لامہ کو گرفتار کر کے بیجنگ بھیجا جائے۔ منگول حاکم نے اسےچین لے جانے کے لیے قید کیاتوتبتی لوگوں نےاپنے لامہ کے ساتھ ہونے والایہ ہتک آمیز سلوک دیکھ کراحتجاج کیا اور دلائی لامہ کو زبر دستی آزاد کروا کر دوبارہ محل میں لے آئے۔ فسادختم کرنے کے لیے دلائی لامہ خود منگولوں کے ساتھ چین جانے پر تیار ہو گیا۔ چین کی طرف سفر کے دوران 1706ءمیں چھٹے دلائی لامہ کی وفات ہو گئی۔ چھٹے دلائی لامہ نےبذات خود متعدد مرتبہ بدھ راہب بننے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ لامہ شراب اور شعر وشاعری کا رسیا تھا۔ چھٹے دلائی لامہ کے بارے میں یہ بھی مشہور ہے کہ اس نے قید سے رہائی پا کر چین اور منگولیہ کے سرحدی علاقہ میں پناہ لی اور یہیں زندگی بسر کی۔

(https://web.archive.org/web/20070610044909/http://namgyalmonastery.org/hhdl/hhdl6)

Kelsang Gyatsoساتواں دلائی لامہ

تبتی بدھ دعویٰ کرتے ہیں کہ چھٹے دلائی لامہTasangyang Gyatsoنے اپنی ایک نظم میں اپنے اگلے جنم کے بارے میں یوں پیشگوئی کی تھی کہ میر ا اگلا جنم Lithangسے ہو گا۔ چنانچہ اس نے لکھا:

I go no further than Lithang And thence, return again

(Buddhism, Reincarnation, and Dalai Lamas of Tibet By M. G. Chitkara P.110)

اس پیشگوئی کی بنا پر ساتویں دلا ئی لامہ کی تلاش خام KhamکےعلاقہLithangمیں کی گئی۔ Kelsang Gyatsoکی پیدائش 1708ء میں Lithangمیں ہوئی۔ Lithangکی خانقاہ Thupten Jampalingکے راہبوں کو جب اس بچہ کی غیر معمولی پیدائش اور ساتھ ظاہر ہونے والے نشانات کا علم ہواتو وہ حیران رہ گئے۔ علاقہ کے State Oracleنے بھی اس بچہ کو گذشتہ دلائی لامہ کا نیا جنم قرار دیا۔

لاسہ کے سیاسی حالات کشیدہ تھے۔ اس لیے اس بچہ کو ابھی لاسہ لے جانا مناسب نہ تھا۔ لاسہ میں Lhabzang Khanنے اپنے ایک بیٹے کو دلائی لامہ مقرر کیا ہواتھا۔ پس Kelsang GyatsoکوKambunخانقاہ لے جایا گیا اور اس کی تعلیم و تربیت شروع کی گئی۔ سیاسی حالات بہتر ہونے کے بعد منچو حکومت کی تائید سے 1720ء میں اسےPotalaمحل لایا گیا۔ تاج پوشی کی رسم ادا کی گئی۔ اس موقع پر اسے Kelsang Gyatsoنام دیا گیا۔ اس نے1726ء میں تعلیم مکمل کی۔

1751ء میں دلائی لامہ نے سیاسی امور کی دیکھ بھال کے لیے قائم کردہ Desiکا عہدہ ختم کر دیا اور اس کی جگہ Kashagکونسل قائم کی۔Kelsan Gyatsoتینترک علوم میں بہت ماہر تھا۔ اس نے چند کتب بھی تصنیف کیں اور شاعری بھی کی۔ اس کی وفات1757ء میں ہوئی۔

Jamphel Gyatsoآٹھواں دلائی لامہ

Jamphel Gyatsoکی پیدائش 1758ء میں جنوبی تبت میں ہوئی۔ تبتی روایات کے مطابق اس بچہ کی پیدائش کے ساتھ بہت سے غیر معمولی نشانات ظاہر ہوئے۔ جس علاقہ میں اس کی پیدائش ہوئی تھی وہاں غیر معمولی طور پر خوشحالی آ گئی۔ بچہ کی پیدائش کے بعد اس کاخاندان ایک باغ میں بیٹھ کر کھانا کھانے لگا تو ایک بڑی قوس قزح اُن کے اوپر چھتری کی طرح آن کھڑی ہوئی۔ اکثر اوقات اس بچہ کو دیکھا گیا کہ یہ مراقبہ کرنے کے انداز میں بیٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔ چھٹے پنچن لامہ(Palden Yeshi) کو جب ان واقعات کا علم ہوا تو اس نے اسے گذشتہ دلائی لامہ کا نیا جنم قرار دیا۔ جب اس بچہ نے بولنا شروع کیا تو کہامیں تین برس کی عمر میں لاسہ جاؤں گا۔ یہ بات سن کر لوگوں کو یقین آگیا کہ یہی نیا دلائی لامہ ہے۔ اڑھائی برس کی عمر میں Jamphel Gyatsoکو معتبر لاماؤں اور تبتی حکومت کے نمائندگان کے ہم راہ Tashilhunpoخانقاہ لےجاکراس کی مقدس رسومات ادا کی گئیں۔ پنچن لامہ نے اس موقع پر اس بچے کو Jamphel Gyatsoنام دیا۔ 1762ء میں اس بچہ کو لاسہ میں Potalaمحل لایا گیا اور تاج پوشی کی رسم ادا کی گئی۔ 1777ء میں اس نے تعلیم مکمل کی۔ Jamphel Gyatsoسیاسی سرگرمیوں سے دور رہنے والا شخص تھا اور چینی نمائندگان جو حکومتی امور دیکھ رہے تھے، سے مطمئن تھا۔ اس کی وفات1804ء میں 47برس کی عمر میں ہوئی۔

Lungtok Gyatsoنواں دلائی لامہ

Lungtok Gyatsoکی پیدائش1805ءمیں تبت کے علاقہ خام(Kham) کے علاقہ میں ہوئی۔ 1807ء میں اسے نوویں دلائی لامہ کے نئے جنم کے طور پر شناخت کیا گیا اور لاسہ لایا گیا۔ 1810ء میں اس کولاسہ میں Potalaمحل لا کر تاج پوشی کی رسم ادا کی گئی۔ پنچن لامہ نے اسے Lungtok Gyatsoنام دیا اور اس کی تعلیم و تربیت کاآغاز کیا۔ 1815ء میں اس کی نو برس کی عمر میں وفات ہو گئی۔

Tsultrim Gyatsoدسواں دلا ئی لامہ

Tsultrim Gyatsoکی پیدائش1816ءمیں خام کے علاقہ Lithangمیں ہوئی۔ 1822ء میں اس کو دسویں دلائی لامہ کے طور پر شناخت کیا گیا اور اِسی سال اس کو Potalaمحل لا کر تاج پوشی کی رسم ادا کی گئی اور اس کی تعلیم و تربیت کا آغاز ہوا۔ پنچن لامہ نے اسے Tsultrim Gyatsoنام دیا۔ 1826ء میں اسے Drepungخانقاہ لایا گیا جہاں اس نے بدھ صحائف کا مطالعہ شروع کیااورSutra اور تینترک علوم میں مہارت حاصل کی۔ 1831ء میں اس نے Potalaمحل کی تعمیر نو کروا ئی۔ 1837ء میں خرابی صحت کے باعث اس کی وفات ہوگئی۔

Khedrup Gyatsoگیارھواں دلائی لامہ

Khedrup Gyatsoکی پیدائش 1838ء (Tao Gathar Khamکا ایک علاقہ)میں ہوئی۔ 1841ء میں دلائی لامہ کے دو متوقع بچوں میں سے Khedrupکو بطور دلائی لامہ چن لیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کا انتخابGolden Urn کے ذریعہ ہوا۔

(Buddhism, Reincarnation, and Dalai Lamas of Tibet By M. G. Chitkara P.135)

1842ء میں اس کو لاسہ میں لایا گیا۔ پنچن لامہ نے اسےKhedrup Gyatso نام دیا اور اس کی تعلیم و تربیت کا آغاز کیا گیا۔ 1855ء میں اس نے تبتی حکومت کی درخواست پر حکومت سنبھالی۔ 1856ء میں اس کی اچانک وفات ہو گئی۔

Trinley Gyatsoبارھواں دلائی لامہ

Trinley Gyatsoکی پیدائش 1856ء میں لاسہ کے قریب ہوئی۔ روایات کے مطابق جب یہ بچہ والدہ کے پیٹ میں تھا، تب سے ہی بہت سے نشانات اور علامات ظاہر ہونا شروع ہو گئیں۔ 1858ء میں اسے بطور دلائی لامہ شناخت کیا گیااور لاسہ لایا گیا۔ بارھویں دلائی لامہ کو Trinley Gyatso نام دیا گیا۔ 1860ء میں اس نے مذہبی تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ اسی سال اس کی تاج پوشی کی رسم ادا کی گئی۔ 1873ء میں Trinley Gyatso نے تبت کے روحانی اور سیاسی اموراپنے ہاتھ میں لے لیے۔ 1875ء میں اس کی وفات ہوگئی۔

(Buddhism, Reincarnation, and Dalai Lamas of Tibet By M. G. Chitkara P.137 to 138)

Thupten Gyatsoتیرھواں دلائی لامہ

تیرھویںدلائی لامہThupten Gyatsoکی پیدائش1876ء میں وسطی تبت میں ایک زراعت پیشہ خاندان میں ہوئی۔1877ءمیںاس کی غیرمعمولی پیدائش اورNechung Oracleکی بیان کردہ علامات کے مطابق اسے دلائی لامہ کے طورپر پہچان لیا گیا۔ 1878ء میں اسے لاسہ لایاگیا۔ آٹھویں پنچن لامہ نے اس کی مقدس رسومات ادا کرتے ہوئے اسے Thupten Gyatso نام دیا۔ 1879ء میں اسےPotalaمحل میں تخت نشین کیا گیا۔ 1882ء میں اس نے مذہبی تعلیم حاصل کرنی شروع کی اور 1895ء میں تعلیم مکمل کی۔ 27؍ستمبر1895ء کو اس نے تبت کے سیاسی اور مذہبی امور کی باگ ڈور سنبھال لی۔

Thupten Gyatsoکے دَور میں تبت پر برطانوی فوج نے حملہ کیا۔ برطانیہ، روس سے بچنے کےلیے تبت کو بطور بفر سٹیٹ استعمال کرنا چاہتا تھا۔ برطانیہ نے دلا ئی لامہ سے تعلقات استوار کرنے کی متعدد کوششیں کیں مگر دلائی لامہ نے اُن کی حوصلہ افزائی نہ کی۔ تیرھویں دلائی لامہ کا رجحان برطانیہ کی بجائے روس کی طرف تھا۔

یہ بات ہندوستان میں برطانوی حکومت پرناگوار گزری۔ دلائی لامہ چاہتا تھا کہ وہ زار سے مل کر تبت کو چین سے الگ کر کے آزاد ریاست بنائے۔ اس نے ایک وزیر Dorjievکو زار روس کے پاس بطورسفیر بھجوایا۔ برطانیہ نے تبت سے خطرہ محسوس کرتے ہی1903ءمیں اپنی افواج تبت بھجوا دیں۔ دلائی لامہ اس حملہ کے دوران شمال کی طرف فرار ہو گیا۔ نومبر1904ء میں دلائی لامہ منگولیہ پہنچااور زار سے مدد طلب کی مگر زار اس بات پر آمادہ نہیں تھا۔ 1907ء میں روس اور برطانیہ میں معاہدہ ہونے پر دلائی لامہ بیجنگ گیا تاکہ منچو دربار سے اپنے معاملات طے کر سکے۔ بیجنگ میں دلائی لامہ کو عزت نہ دی گئی۔ اس کاشاہی لقب ختم کر دیا گیا۔ اسے بادشاہ کے سامنے رکوع کرنے کا کہا گیا۔

چینی حکومت سے مایوس ہو کر Thupten Gyatso 25؍دسمبر1909ء کو لاسہ واپس پہنچا۔ چین نے تبت پر اپنا قبضہ مضبوط کرنے کےلیے لاسہ پر فوج کشی کی۔ دلائی لامہ نے ایک مرتبہ پھر فرار کی راہ لی اور برٹش انڈیا چلا گیا۔ اس مرتبہ دلائی لامہ نے برطانیہ سے مدد مانگی مگر برطانوی حکومت نے چین سے اس موضوع پر مذاکرات سے انکار کیا۔ اکتوبر1911ء میں منچو حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ دلائی لامہ نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اپنے ساتھیوں کی مدد سے چینی فوجیوں کو شکست دے کر تبت سے نکال دیا اوراپنی حکومت قائم کر تے ہوئے1913ءمیں تبت کی آزادی کا اعلان کر دیا۔

Thupten Gyatsoنے تبت کو جدید دنیا کے تقاضوں پر استوار کرنے کے لیے کوشش کی۔ تبتی کرنسی جاری کی۔ تبتی فوج، تعلیمی نظام بہتر کرنے کی کوشش کی۔ ڈاک کا نظام جاری کیا۔ لاسہ میں پولیس ہیڈکوارٹر قائم کیا۔ Thupten Gyatsoکی وفات1933ءمیں ہوئی۔

(https://www.dalailama.com/the-dalai-lama/previous-dalai-lamas/previous-dalai-lama)

تبت کی تاریخ میں تیرھویں دلائی لامہ کو خاص مقام حاصل ہے۔ اسے Great Thirteenthبھی کہا جاتا ہے۔ اس نے سیاسی او ر مذہبی دونوں طرز کی طاقت اپنے ہاتھ میں رکھی اور تبت کو چین کے اثر سے باہر نکالا۔

(The Tibetan Independence Movement: Political, Religious and Gandhian By Jane Ardley,P.12)

Tenzin Gyatsoچودھواں دلائی لامہ

Tenzin Gyatsoکی پیدائش6؍جولائی 1935ءکو Amdoمیں ہوئی۔ 1937ءمیں بطور چودھویں دلائی لامہ شناخت کیا گیا۔ جن علامات کی بنا پر اسے تلاش کیا گیا وہ یہ تھیں کہ تیرھویں دلائی لامہ کی وفات کے بعد اس کا چہرہ خودبخود مشرق کی طرف مڑ گیا تھا جو اس بات کی علامت تھا کہ نیا دلائی لامہ مشرق میں سے ہو گا۔ پھر مقدس جھیل سے بھی دلائی لامہ کے نئے جنم کی جائے پیدائش کی رہ نمائی ملی۔

(Pilgrimage: From the Ganges to Graceland: an Encyclopedia, Volume 1 by Linda Kay Davidson, David Martin Gitlitz P.327)

دلائی لامہ کو تلاش کرنے والے راہب جب اس بچے تک پہنچے تو بطور امتحان اس کے سامنے گذشتہ دلائی لامہ کی چیزیں رکھی گئیں۔ اس نے ان کو پہچان لیا اور کہا کہ یہ تو میری چیزیں ہیں۔ 17؍نومبر1950ء کو Tenzin Gyatsoنے تبت کی سیاسی اور مذہبی کمان سنبھال لی۔ ستمبر1949ء میں چین نے اعلان کر دیا کہ تبت چین کا حصہ ہے اٹوٹ انگ ہے۔ دلائی لامہ اور تبتی حکومت نےاپنی آزادی کی ضمانت کےلیے بیرونی دنیا سے مدد مانگی مگر کسی طرف سے مدد حاصل نہیں ہوئی۔ بالآخر تبتی حکومت کو چین کے ساتھ ایک سترہ نکاتی معاہدہ پر اتفاق کرنا پڑا جس کے ذریعہ تبت دوبار ہ چین کا حصہ بن گیا۔

1954ءمیں دلائی لامہ اور دسویں پنچن لامہ نے چین کا دورہ کیا اور Mao Zedong سے ملاقات کی۔ 1956ءمیں Tenzin Gyatsoنے بھارت کا دورہ کیا اورگوتم بدھ کی 2500سالہ تقریبات میں شرکت کی۔ 1959ءمیں چین کی طرف سے زرعی اصلاحات کیے جانے کے خلاف تبتیوں نے عَلمِ بغاوت بلند کیا۔ چین نے اپنی افواج تبت میں اتار دیں۔ تبت میں اپنے لیےناموافق حالات دیکھتے ہوئے دلائی لامہ اور بہت سے تبتی افراد جلا وطنی اختیار کر کے بھارت چلے گئے۔ بھارت میں دلائی لامہ کو دھرم شالہ میں جگہ دی گئی جہاں اب جلاوطن تبتی حکومت کا مرکز قائم ہے۔ بھارت میں مرکز قائم کرنے کے بعد دلائی لامہ نے تبتی انتظامیہ کو جمہوری انداز میں ڈھالنے کےلیے ایک مسودہ پیش کیا۔ متعدداصلاحات کے بعد یہ مسودہ جلاوطن تبتی حکومت کا نیا قانون بنا۔ اس کو The Chater of Tibetans in Exileنام دیا گیا۔ 1992ء میں Central Tibetan Administrationنےمستقبل کے آزاد تبت کے قانون کے خدوخا ل پیش کیے۔ تبت کی آزادی کےلیے پر امن کوشش کرنے پر1989ءمیں دلائی لامہ کو امن کا نوبل انعام دیا گیا۔ 29؍مئی2011ء کو Tenzin Gyatsoنے اپنے سیاسی کردار سے ریٹائرمنٹ لیتے ہونے یہ ذمہ داری تبتی پارلیمنٹ کے سپرد کردی۔ Tenzin Gyatsoنے 150کے قریب کتب تصنیف کی ہیں۔ متعدد عالمی اعزازات اپنے نام کیے ہیں۔

(http://www.dalailama.com/biography/a-brief-biography)

دلائی لامہ کا جماعت احمدیہ سے رابطہ

جماعت احمدیہ U.Kنے 11؍فروری2014ء کوبرطانیہ میں جماعت کے سو سال پورےہونے پر Guildhall لندن میں Conference of World Religions کا انعقاد کیا جس میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے از راہ شفقت شرکت فرمائی۔ اس کانفرنس میں چودھویں دلائی لامہ کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔ دلائی لامہ Tenzin Gyatsoنے اس کانفرنس کے لیے پیغام بھجوایا جسے ان کے مقرر کردہ نمائندہGeshe Tashi Tseringنےپڑھ کر سنایا۔ دلائی لامہ نے اپنے پیغام میں لکھا:

Virtues of love and altruism are the basis of all religions and so a respect for all religions is essential. All religions are a means of inner-peace. I give my full heartfelt support to the Conference of World Religions & the Ahmadiyya Muslim Community for this wonderful initiative. We should also promote meetings of scholars to discuss what we have in common, rather than what differences we have.

ترجمہ:

محبت اورجذبہ ایثار کی فضیلت تمام مذاہب کی بنیاد ہیں پس تمام مذاہب کا احترام ضروری ہے۔ تمام مذاہب اندرونی امن کا ایک ذریعہ ہیں۔ میں اس مذاہب عالم کی کانفرنس اور احمدیہ مسلم جماعت کی بھرپور دلی حمایت کرتا ہوں کہ انہوں نے یہ خوش کن اقدام کیا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم آپس میں علماء کی ملاقاتوں کو فروغ دے کرباہمی مشترک باتوں کو تلاش کریں بہ نسبت اس کے کہ ہم باہمی اختلافات کو مد نظر رکھیں۔

(https://www.alislam.org/egazette/press-release/historic-conference-of-world-religions-held-at-guildhall-london)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button