تاریخ احمدیت

حضرت مصلح موعودؓ کا پہلا تاریخی دورۂ یورپ: قیام لندن کا پانچواں ہفتہ 19؍ سے 25؍ ستمبر 1924ء تک

19؍ستمبر 1924ء کو حضورؓ نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں قومی اخلاق مضبوط کرنے پر زور دیا۔ جمعہ کے بعد ویمبلےکانفرنس کے پریذیڈنٹ سر ای۔ ڈی راس سے ملاقات کی۔ آپ کا شمار انگلستان کے نامور مستشرقین میں ہوتا ہے۔ مزاج پرسی کے بعد انہوں نے کہا کہ آپ کی تشریف آوری پر انگلستان کا پریس بہت دلچسپی لے رہا ہے۔ اسی شام آپ نے سینٹ لوکس ہال میں ’’حیات بعد الموت‘‘ پر شاندار لیکچر دیا۔ 20؍ ستمبر 1924ء کو لیگوس (نائیجیریا) کے دو حاجی صاحبان (جن میں سے ایک احمدی تھے) حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

21؍ستمبر 1924ء کی شام کو حضور کی کرنل ڈگلس سے ملاقات ہوئی۔ یہ وہی ڈگلس تھے جنہوں نے ہنری مارٹن کلارک کا مقدمہ بے بنیاد پا کر خارج کر دیا تھا اور عدل و انصاف کا بہترین نمونہ دکھایا تھا۔ 22؍ستمبر1924ء کو ویمبلے کانفرنس کا افتتاح ہوا اور حضورؓ معہ رفقاء اس کے اجلاس میں شمولیت کے لئے تشریف لے گئے۔

کانفرنس میں حضور کے مضمون کی شاندار کامیابی

23؍ستمبر 1924ء کا دن سفر یورپ کی تاریخ میں سنہری دن ہے۔ کیونکہ اس دن ویمبلے کانفرنس میں حضورؓ کا بے نظیر مضمون پڑھا گیا۔ جس نے سلسلہ احمدیہ کی شہرت کو چار چاند لگا دیے۔ یورپ میں اسلام کی روحانی فتح کی بنیادیں رکھ دیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لندن میں تقریر کرنے کا رؤیا پوری آب و تاب سے پورا ہو گیا۔

(23؍ستمبر کو اسلام پر تین مضمون پڑھے گئے پہلا مضمون خواجہ کمال الدین صاحب بانی ووکنگ مشن نے اہلسنت و الجماعت کی طرف سے،دوسرا شیخ خادم دجیلی نے اہل تشیع کی طرف سے اور تیسرا اور آخری حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی طرف سے تھا۔ جو تحریک احمدیت کے نقطہ خیال سے اسلام کی ترجمانی کرتا تھا۔ )

حضورؓ کے مضمون کا وقت 5بجے شام مقرر تھا جب کہ لوگ اڑھائی گھنٹے سے مسلسل بیٹھے اسلام سے متعلق مضامین سن رہے تھے۔ انگلستان کے باشندے زیادہ دیر تک بیٹھنے کے عادی نہیں ہیں مگر جونہی آپ کی تقریر کا وقت آیا وہ نہ صرف وہیں اپنی اپنی جگہ پورے شوق و ذوق سے بیٹھ گئے بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے پورا ہال سامعین سے بھر گیا۔ کسی اور لیکچر کے وقت حاضرین کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہوئی۔

اجلاس کے صدر سر تھیوڈر ماریسن نے حضورؓ کا سامعین سے تعارف کرانے کے بعد نہایت ادب و احترام کے جذبات کے ساتھ آپ سے درخواست کی کہ اپنے کلمات سے محظوظ فرمائیں۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ جو اپنے رفقاء کے ساتھ سٹیج پر ہی تشریف فرما تھے کھڑے ہوئے اور انگریزی میں فرمایا۔ مسٹر پریذیڈنٹ بہنو اور بھائیو! میں سب سے پہلے خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے اس کانفرنس کے بانیوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا کیا کہ لوگ اس طریق پر مذہب کے سوال پر غور کریں اور مختلف مذاہب سے متعلق تقریریں سن کر یہ دیکھیں کہ کس مذہب کو قبول کرنا چاہئے۔ اس کے بعد میں اپنے مرید چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بار ایٹ لاء سے کہتا ہوں کہ میرا مضمون سنائیں۔ میں ایسے طور پر اپنی زبان میں بھی پرچہ پڑھنے کا عادی نہیں ہوں۔ کیونکہ میں ہمیشہ زبانی تقریریں کرتا ہوں اور چھ چھ گھنٹے تک بولتا ہوں۔ مذہب کا معاملہ اسی دنیا تک ختم نہیں ہو جاتا بلکہ وہ مرنے کے بعد دوسرے جہان تک چلتا ہے اور انسان کی دائمی راحت مذہب سے وابستہ ہے اس لئے آپ اس پر غور کریں اور سوچیں اور مجھے امید ہے کہ آپ توجہ سے سنیں گے۔

اس کے بعد حضورؓ نے مکرم چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ کے کان میں فرمایا کہ

’’گھبرانا نہیں میں دعا کروں گا۔ ‘‘

چنانچہ مکرم چودھری صاحبؓ کھڑے ہوئے اور ایک گھنٹہ میں نہایت بلند اور نہایت مؤثر اور نہایت پرشوکت لہجہ میں یہ مضمون پڑھ کر سنایا۔ چودھری صاحبؓ ایک دن پہلے حلق کی خراش کی وجہ سے بیمار تھے مگر اللہ تعالیٰ نے روح القدس سے ان کی تائید فرمائی۔ حضورؓ کا مضمون اور مکرم چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ کی زبان نے (جسے حضور نے ایک مجمع میں میری زبان کہا تھا) حاضرین پر وجد کی کیفیت طاری کر دی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سب حاضرین گویا احمدی ہوں۔ تمام لوگ ایک محویت کے عالم میں اخیر تک بیٹھے رہے۔ جب مضمون میں اسلام کے متعلق کوئی ایسی بات بیان کی جاتی جو ان کے لئے نئی ہوتی تو کئی لوگ خوشی سے اچھل پڑتے۔ غلامی، سود اور تعدد ازدواج وغیرہ مسائل کو نہایت واضح طور پر بیان کیا گیا تھا۔ اس حصہ مضمون کو بھی نہ صرف مردوں نے بلکہ عورتوں نے بھی نہایت شوق اور خوشی سے سنا ۔ایک گھنٹہ بعد لیکچر ختم ہوا تو لوگوں نے اس گرم جوشی کے ساتھ اور اتنی دیر تک تالیاں بجائیں کہ پریذیڈنٹ (سر تھیوڈر ماریسن) کو اپنے ریمارکس کے لئے چند منٹ تک انتظار کرنا۔

پریذیڈنٹ نے کہا۔ مجھے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ مضمون کی خوبی اور لطافت کا اندازہ خود مضمون نے کرا لیا ہے میں اپنی طرف سے اور حاضرین کی طرف سے مضمون کی خوبی ترتیب، خوبی خیالات اور اعلیٰ درجہ کے طریق استدلال کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح کا شکریہ ادا کرتا ہوں حاضرین کے چہرے زبان حال سے میرے اس کہنے کے ساتھ متفق ہیں۔ اور میں یقین کرتا ہوں کہ وہ اقرار کرتے ہیں کہ میں ان کی طرف سے شکریہ ادا کرنے میں حق پر ہوں اور ان کی ترجمانی کا حق ادا کر رہا ہوں۔ پھر حضور کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ میں آپ کو لیکچر کی کامیابی پر مبارکباد عرض کرتا ہوں آپ کا مضمون بہترین مضمون تھا جو آج پڑھے گئے۔ کیا آپ کا خیال نہیں ہے کہ اس کامیابی کے لئے جو آج آپ کو حاصل ہوئی ہے آپ یہاں تشریف لائے۔

اجلاس ختم ہونے پر سر تھیوڈر ماریسن دیر تک سٹیج پر کھڑے کھڑے مختلف باتیں کرتے رہے۔ اور بار بار مضمون کی تعریف کرتے رہے۔ مضمون کے پڑھنے پر لوگوں نے مکرم چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحبؓ کو بھی بہت مبارکباد دی۔

چنانچہ (فری چرچ کے ہیڈ) ڈاکٹر والٹر واش نے جو خود فصیح البیان لیکچرار تھے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نہایت خوش قسمت ہوں کہ مجھے یہ لیکچر سننے کا موقع ملا۔ قانون کے ایک پروفیسر نے بیان کیا کہ جب وہ مضمون سن رہا تھا تو یہ محسوس کر رہا تھا کہ یہ دن گویا ایک نئے دور کا آغاز کرنے والا ہے ۔پھر کہا اگر آپ لوگ کسی اور طریق سے ہزاروں ہزار روپیہ بھی خرچ کرتے تو اتنی زبردست کامیابی حاصل نہیں کر سکتے تھے۔

ایک پادری منش نے کہا تین سال ہوئے مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ حضرت مسیح تیرہ حواریوں کے ساتھ یہاں تشریف لائے ہیں اور اب میں دیکھتا ہوں کہ یہ خواب پورا ہو گیا ہے۔

مس شارپلز (کانفرنس کی سیکرٹری) نے کہا کہ لوگ اس مضمون کی بہت تعریف کرتے ہیں اور خود ہی بتایا کہ ایک صاحب نے ہزہولی نس (خلیفۃ المسیح الثانیؓ ) کے متعلق کہا کہ یہ اس زمانہ کا لوتھر معلوم ہوتا ہے ۔بعض نے کہا ان کے سینہ میں ایک آگ ہے۔ ایک نے کہا یہ تمام پرچوں سے بہتر پرچہ تھا۔

ایک جرمن پروفیسر نے جلسہ کے بعد سڑک پر چلتے ہوئے آگے بڑھ کر حضورؓ کی خدمت میں مبارکباد عرض کی اور کہا میرے پاس بعض بڑے بڑے انگریز بیٹھے کہہ رہے تھے۔ یہ نادر خیالات ہیں جو ہر روز سننے میں نہیں آتے۔

مسٹر لین نے جو انڈیا آفس میں ایک بڑے عہدیدار تھے تسلیم کیا کہ خلیفۃ المسیح کا پرچہ سب سے اعلیٰ اور بہترین پرچہ تھا۔

پریس نے بھی اس عظیم الشان لیکچر کی نمایاں خبریں شائع کیں اور اس کی عظمت کا اقرار کیا۔ چنانچہ ’’مانچسٹر گارڈین‘‘ نے 24؍ستمبر1924ء کی اشاعت میں لکھا:

’’اس کانفرنس میں ایک ہلچل ڈالنے والا واقعہ جو اس وقت ظاہر ہوا وہ آج سہ پہر کو اسلام کے ایک نئے فرقہ کا ذکر تھا۔ نئے فرقہ کا لفظ ہم نے آسانی کے لئے اختیار کیا ہے ورنہ یہ لوگ اس کو درست نہیں سمجھتے تھے۔ اس فرقہ کی بنا ان کے قول کے بموجب آج سے چونتیس سال پہلے اس مسیح نے ڈالی جس کی پیشگوئی بائبل اور دوسری کتابوں میں ہے ۔اس سلسلہ کا یہ دعویٰ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے صریح الہام کے ماتحت اس سلسلہ کی بنیاد اس لئے رکھی ہے کہ وہ نوع انسان کو اسلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ تک پہنچائے۔ ایک ہندوستان کے باشندے نے جو سفید دستار باندھے ہوئے ہے اور جس کا چہرہ نورانی اور خوش کن ہے اور سیاہ داڑھی رکھتا ہے اور جس کا لقب ہزہولی نس خلیفۃ المسیح الحاج میرزا بشیر الدین محمود احمد یا اختصاراً خلیفۃ المسیح ہے مندرجہ بالا تحدی اپنے مضمون میں پیش کی۔ جس کا عنوان ہے ’’اسلام میں احمدیہ تحریک‘‘…آپ کے ایک اور شاگرد نے جو سرخ رومی ٹوپی پہنے ہوئے تھا۔ آپ کا پرچہ کمال خوبی کے ساتھ پڑھا …آپ نے اپنے مضمون کو جس میں زیادہ تر اسلام کی حمایت اور تائید تھی۔ ایک پُرجوش اپیل کے ساتھ ختم کیا۔ جس میں انہوں نے حاضرین کو اس نئے مسیح اور اس نئی تعلیم کے قبول کرنے کے لئے مدعو کیا۔ اس بات کا بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ اس پرچہ کے بعد جس قدر تحسین و خوشنودی کا چیئرز کے ذریعہ اظہار کیا گیا اس سے پہلے کسی پرچہ پر ایسا نہیں کیا گیا تھا۔ ‘‘

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 451تا 454)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button