یادِ رفتگاں

پروفیسر امۃ المجید چودھری صاحبہ آف اسلام آباد یوکے کا مختصر تعارف اور ذکر خیر

(جمیل محمد چودھری)

(تاریخ وفات 18 مئی 2018ء)

محترمہ پروفیسر امۃ المجید چودھری صاحبہ احمدیت کے پرانے خادم اور صحابی حضرت مسیح موعودؑ حضرت میاں امام الدین سیکھوانی کی نواسی، محترم چودھری وزیر محمد صاحب آف پٹیالہ کی بیٹی اور خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمسؔ صاحب کی سگی بھانجی تھیں۔

آپ کے والد چودھری وزیر محمد صاحب کا تعلق پٹیالہ کے زمیندار خاندان سے تھا۔ آپ کے دادا چودھری محمد بوٹا صاحب مہاراجہ پٹیالہ کے ملازم تھے۔ احمدیت سے ابتدائی تعارف حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کے تعلق سے ہوا۔ حضرت مصلح موعودؓ کی پٹیالہ آمد پر 18 سال کی عمر میں آپ نے بیعت کی اور قادیان منتقل ہو گئے جہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے آپ کی کفالت کی۔

حضر ت میاں امام الدین سیکھوانی صاحبؓ کی بیٹی حمیدہ بیگم صاحبہ سے شادی کے موقع پر حضرت اماں جانؓ بارات کے ساتھ سیکھواں گئیں اور دلہن لے کر آئیں۔ حضرت اماں جانؓ کی رہ نمائی، پیار اور شفقت ہمیشہ ان کے خاندان کو حاصل رہا۔

محترمہ امۃ المجید صاحبہ کی پیدائش پر جب آپ کی والدہ بچی کو حضرت اماں جانؓ کے پاس لے کر گئیں تو انہوں نے آپ کو گود میں لیا اورپیار کیا۔ بچی کے ماتھے کو دیکھتی رہیں اور پھر فرمایا کہ اس کے ماتھے سے پتہ چلتا ہےکہ بہت خوش قسمت لڑکی ہے۔ حضرت اماں جانؓ کے یہ مبارک الفاظ امۃالمجید صاحبہ کی زندگی کے ہر مرحلہ، ہر کامیابی پر اللہ کا فضل بن کر چمکتے رہے۔

تعلیم کے میدان میں آپ ابتدا سے ہی ایک محنتی اور ذہین طالبہ تھیں۔ میٹرک کے امتحان میں ہر مضمون میں فرسٹ آنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ رزلٹ دیکھ کر ہیڈ ماسٹر حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ نے والد صاحب کو بلا کر خوشی کا اظہار فرمایا اور مشورہ دیا کہ آپ کی بچی بہت ذہین اور لائق ہے بچی کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں۔

بی اے کا امتحان محترمہ امۃ المجید صاحبہ نے پرائیویٹ طورپر خودپڑھ کردیا۔ مضامین میں حساب بھی شامل تھا جو وہ خود پڑھتی تھیں ۔ والد صاحب نے احساس فکر کے ساتھ گورنمنٹ کالج کے پرنسپل قاضی محمد اسلم صاحب کو درخواست کی کہ ان کی بیٹی کو حساب کی کلاسز میں آنے دیں۔ پرنسپل صاحب نے کہا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ B.Aکا حساب کوئی پرائیویٹ خود سے پڑھ لے آپ کی بیٹی بچگانہ بات کرتی ہے۔ اس بات نے امۃ المجید صاحبہ کو اور زیادہ محنت پر مائل کیا اور جب رزلٹ آیا تو پاس ہونے والوں میں آپ کا دوسرا نمبر تھا اور فرسٹ ڈویژن سے صرف تین نمبر کم تھے۔

ہجرت کے بعداعلیٰ تعلیمی مدارج طے کرتے ہوئے آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے عربی زبان میں ایم اے کے امتحان میں اوّل پوزیشن حاصل کی اورعربی کی علمی استعداد کو بھی خوب بڑھایا۔

اس ضمن میں امۃ المجید صاحبہ خدا تعالیٰ کے غیر معمولی فضل اور احسان کا یہ واقعہ بیان کرتی تھیں کہ

’’ایم اے کا امتحان دیا تو میں بہت فکر مند تھی جس کا خیال کر کے میرے والد صاحب، جناب چودھری فتح محمد جو دفتر امتحانات کے ملازم تھے کے پاس گئے۔ چودھری صاحب نے رزلٹ بتایا کہ آپ کی بچی فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوئی ہے۔ جب میں نے دیکھا تو والد صاحب نے غلط رول نمبر دے دیا تھا۔ والد صاحب جب صحیح رول نمبر لے کرگئے تو چودھری صاحب بہت نارض ہوئے اور فرمایا ’’اونے پرچے وچ سواہ کیتا ہونا جنہوں اپنا رول نمبر یاد نئیں۔ ‘‘ مگر جب رزلٹ آیا تو میں نے پنجاب یونیورسٹی میں فرسٹ پوزیشن حاصل کی۔ دو گولڈ اور ایک سلور میڈل کے ساتھ 200 روپے کے سکوں سے بھر ا بیگ بطور انعام حاصل کیا۔ چودھری صاحب بہت خوش ہوئے اور مبارک باد دی۔‘‘

اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد آپ نے پاکستان میں کچھ عرصہ بطور عربی لیکچرر کے ملازمت اختیار کی۔ بعد ازاں 17 سال کے قریب نائیجیریا کے مسلم گرلز اسکول میں پرنسپل کے طور پر اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں سے بھر پور کارکردگی کا مظاہر ہ کیا۔ آپ کی بارعب شخصیت، دیانت داری، وقت کی پابندی اور ڈسپلن کے لحاظ سے سختی جیسی صفات نے جلد ہی مسلم گرلز ہائی اسکول کو گریڈ وَن اور سب کا مانا ہوا بہترین اسکول بنا دیا۔ آپ نے خوشنودی، سفارش اور امارت کو چھوڑ کر مذہب، اہلیت اوردیانت داری کی برتری کو رواج دیا۔ اسکول کے لیے بس کا انتظام کیا اورایک مسجد اسکول کے لیے بنوائی۔ ہر سال عید الاضحی کے موقع پر اسکول میں قربانی کا اہتمام کرواتیں اور مہمانوں کو پر تکلف دعوت دی جاتی۔ اس طرح بچوں اور مہمانوں پر اسلامی تہوار کی عظمت اجاگر ہوتی۔ آپ نے اسکول کی بچیوں کی علمی استعداد اور تعلیمی معیار کو اتنا بلند کیا کہ اس اسکول سے تعلیم یافتہ بچیوں نے متفرق شعبوں میں نمایاں تعلیم حاصل کی۔ اسکول میں پودے اور پھول لگوائے جو آپ کی موجودگی میں ہی تناوردرخت بنے۔ ان تمام خدمات پر ملازمت کے دوران آپ کو بے شمار اسناد ملیں اور نائیجیریا کے گورنر نے آپ کی خدمات کو دیکھتے ہوئے آپ کو ملک کا سرمایہ قرار دیا۔ امۃ المجید صاحبہ نے ان تمام کاوشوں اور کامیابیوں کو ہمیشہ اپنے والد صاحب کے ہمت اور حوصلہ دلانے اور خلیفۂ وقت کو دعاؤں کے خطوط لکھنےاور سب سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کا نتیجہ سمجھا۔

جماعتی خدمات

اللہ تعالیٰ کے فضل سے امۃ المجید صاحبہ کو دینی خدمات کی توفیق ملی۔

پہلی سیکرٹری وصیت لجنہ اماء اللہ

قیام پاکستان کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 28؍مئی 1948ء کے خطبہ جمعہ میں وصیت کرنے پر زور دیتے ہوئے فرمایا:

’’دشمن کی نظر یں اس وقت خاص طور پر اس امر کی طرف لگی ہوئی ہیں کہ بہشتی مقبرہ ان کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے جس کے لئے یہ لوگ وصیت کیا کرتے تھے۔ ہم دیکھیں گے کہ یہ لوگ کیسے وصیت کرتے ہیں۔ اس اعتراض کو ردّکرنے کا ہمارے پاس ایک ہی ذریعہ ہے کہ ہر احمدی وصیت کردے اور دنیا کو بتا دے کہ ہمیں خدا تعالیٰ کے وعدوں پر ایمان اور یقین حاصل ہے وہ قادیان کے ہمارے ہاتھ سے نکلنے یا نہ نکلنے سے وابستہ نہیں۔ ‘‘

(الفضل 5؍جون صفحہ5کالم 2تاریخ لجنہ جلد دوم صفحہ 73)

عورتوں میں حضرت مصلح موعودؓ کے اس ارشاد کو پہنچانے اور عمل کروانے کے لیے ایک سیکرٹری کا عہدہ لجنہ مرکزیہ میں بڑھایا گیااور 30؍مئی 1948ء کے اجلاس میں اس عہدہ پر محترمہ امۃ المجید صاحبہ ایم اے بنت چودھری وزیر محمد صاحب کا تقرر کیا گیا۔ چنانچہ انہوں نے الفضل میں بار بار اس سلسلے میں اعلانات کیے اور خواتین کےلیے وصیت کرنے کی شرائط اور وصیت کرنے کے طریق کی وضاحت کی۔ 42لجنات کو براہِ راست مخاطب کر کے تحریک کی اور تمام لجنات کو ہدایت کی کہ وہ جائزہ لے کر اطلاع دیں کہ ان کی لجنہ میں کتنی مستورات موصیات ہیں اور کتنی نے ابھی وصیت نہیں کی۔

جب الفضل میں یہ اعلان شائع کیا گیا کہ اس وقت تک صرف سکندر آباد (دکن)کی لجنہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس کی تمام ممبرات خدا تعالیٰ کے فضل سے موصیہ ہیں تو اس کے نتیجہ میں کثرت سے خواتین نے وصیتیں کیں۔

(الفضل 15؍جولائی 1948ءصفحہ7تاریخ لجنہ جلد دوم صفحہ74)

جلسہ سالانہ مستورات پاکستان 1950ء کے موقع پر آپ نے وصیت کے موضوع پر تقریر کی علاوہ ازیں 15سے 20سال کے لگ بھگ آپ کو جلسہ سالانہ کے موقع پر تقریر کرنے کی سعادت حاصل ہوتی رہی۔

1948ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لڑکیوں کو کچھ عرصہ نشانہ بازی کی ٹریننگ دی۔ محترمہ امۃ المجید صاحبہ اور ان کی ہمشیرہ محترمہ امۃ الرشید صاحبہ بھی ٹریننگ حاصل کرنے والی خوش نصیبوں میں شامل تھیں۔

(تاریخ لجنہ جلد دوم صفحہ98)

1986ء میں آپ نے اپنی زندگی وقف کرکے اپنی خدمات جماعت کے سپرد کر دیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے آپ کورسالہ ریویو آف ریلیجنز کا مینیجنگ ایڈیٹر مقرر کیا۔امۃالمجید صاحبہ اس سعادت کا ذکر ان الفاظ میں کرتی ہیں۔

’’میری زندگی کاسرمایہ ریو یو آف ریلیجنز کے لئے کام کرنا اور اس کی ترقی ہے جس کے لئے خلیفۃ المسیح الرابع نے خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ ‘‘

آپ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی شہرہ آفاق کتاب Revelation Rationality,Knowledge and Truth کے ترجمہ اور پروف ریڈنگ کرنے والی ٹیم میں بھی شامل تھیں جس کا ذکرحضورؒ نے کتاب کے دیباچے میں پرشفقت تشکّر کے ساتھ فرمایا۔

آپ نے اپنے حلقے کی صدر اور ریجنل صدر لجنہ اماء اللہ اسلام آباد برطانیہ کے طور پر لمبا عرصہ خدمات انجام دیں۔ لجنہ کے انتظامی امورمیں جہاں بھی انہیں بلایا جاتا آپ جاتیں اور اسے محض خدا تعالیٰ کا فضل و احسان اور ممبرات کا تعاون قراردیتیں۔

تقریباً دس سال تک آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ترجمۃ القرآن کلاس کے لیے فی البدیہہ اردو سے انگریزی میں ترجمہ کے فرائض انجام دیے۔ لجنہ اماء اللہ اسلام آباد کے ساتھ ترجمۃ القرآن کا دَور مکمل کرنے کی توفیق حاصل کی نیز بے شمار بچیوں کو قرآن کریم پڑھایا۔

دیگر ذمہ داریوں کے ساتھ آپ رسالہ التقویٰ کے لیے بھی کام کرتی رہیں۔

جماعتی پروگراموں کے تحت کوئی بھی مذہبی تقریب ہو یا کلچر کے بارے میں کوئی پروگرام ہو آپ پوری ذمہ داری کے ساتھ ہمیشہ پوری تیاری سے شامل ہوتیں۔ آپ کی تقاریر کو ہر طبقہ فکر میں سراہا جاتا۔

دعوت الی اللہ آ پ کی زندگی کا ایک مشن تھا۔ احمدیت کو زیادہ سے زیادہ متعارف کروانے کے ساتھ ساتھ آپ غیر مسلم عورتوں کے مذہب اور کلچر کے بارے میں سوالات کے تسلی بخش جوابات دیتیں۔

2000ء میں نیو ملینیم کے موقع پر پروفیسر امۃالمجید چودھری صاحبہ کو ان کی عاملہ کے ساتھ لوکل چرچ کے Officialsنے خاص طور پر مدعو کیا ۔

فارنہم (Farnham)میں احمدیت کے تعارف کے سلسلے میں پروگرام رکھے جاتے تھے ان میں آپ کا کردار نمایاں ہوتا۔ ایک رسالہ کی ایڈیٹر نے جو ان پروگراموں میں شامل ہوتی تھیں پروفیسر صاحبہ کے طرزِ عمل، خلوص، مہمان نوازی اور پردہ کو ایک مسلمان عورت کے لیے مثال قرار دیا۔

خلافت خامسہ کے بابرکت دور میں آپ شعبہ تصنیف سے منسلک ہو گئیں اور جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں توفیق ملی وہ ان خدمات کو احسن طور پر ادا کرتی رہیں۔

اسلام آباد برطانیہ میں خدمات دینیہ کی مہمات انجام دینے کی توفیق کے بارے میں محترمہ امۃ المجید صاحبہ کو یقینِ واثق تھا جس کا اظہار انہوں نے رسالہ النصرت کو دیے گئے انٹرویو میں ان الفاظ میں کیا۔

’’یہاں آ کر دنیابہت فرق تھی اور میرے لئے اپنے علمی اور عملی اثاثے کو صحیح طور پر استعمال کرنے کے بہت مواقع ملے اور محض خدا تعالیٰ کے خاص فضل سے میں نے ان سے بھر پور فائدہ اُٹھایا۔ ‘‘

یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ کی قابل رشک شخصیت، ذہانت، علمی قابلیت کے جوہر ایک بڑی سچائی ہیں۔ والدین، بہن بھائیوں ان کی اولادوں ، عزیزواقارب کے حقوق بےلوث ہو کر ادا کیے مگر ان سے بڑھ کر جن قابل رشک صفات نے آپ کی صلاحیتوں کو کندن بنایا اور بطور مہمیز کے کام دکھلایاوہ آپ کا اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پریقین کامل، قرآن کریم سے سچی محبت اور اس کا عرفان اوراس پر عمل پیرا ہونا، خلفائے احمدیت سے عشق، خاندانِ مسیح موعودؑ سے تعلق اور ان سب کے پیچھے آپ کاوہ جوش و ولولہ ہے جو جماعت کے لیے والہانہ تھا۔

اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کے پیار کے واقعات

رسالہ النصرت کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے آپ نے یہ واقعات بیان کیے۔

٭…ایک دفعہ اسکول کی چھٹیوں میں مَیں پاکستان جانے کا پروگرام بنا رہی تھی۔ میں نے سوچا ’’اسوان ڈیم‘‘ کو دیکھتی ہوئی جاؤں۔ لیکن جو فلائٹ مجھے ملی اس کے بارے میں پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ اسوان ڈیم کی بجائے قاہرہ اترتی ہےچنانچہ میں ڈیم نہیں دیکھ سکتی۔ کیونکہ یہ میری شدید خواہش تھی تو مجھے احساس ہوا مگر میں کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ جب جہاز قاہرہ ایئر پورٹ پر پہنچا اور اترنے کے لیے چکر لگانے لگاتو اسے اُترنے کی اجازت نہ دی گئی بلکہ کہا گیا کہ اسوان ڈیم پر اتریں۔ وہاں ہمیں 45 منٹ کا سٹے ملا اور مسافروں کو اسوان ڈیم دیکھنے کی اجازت دی گئی۔ خداتعالیٰ کی شفقت اور احسان اور محبت کا یہ غیر معمولی واقعہ مَیں کبھی نہیں بھول سکتی۔

٭…ایک دفعہ میں پاکستان جا رہی تھی تو پتہ لگا کہ جس جہاز پر میں نے جانا ہے وہ ایک دن پہلے جا رہا ہے۔ میں نے سفرمیں اپنا Stay کویت کا رکھا تھا۔ کویت میں میرے بھائی نے مجھے لینے آنا تھا مگر میں ایک دن پہلے پہنچ گئی اور اطلاع کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ جب میں ایئر پورٹ سے باہر آئی تو حیران رہ گئی کہ میرے بھائی باہر کھڑے مجھے لینے آئے ہیں۔ میں نے پوچھاکیسے آ گئے ؟تو بھائی نے کہا ایسے ہی دل چاہ رہا تھا تو سوچا ایئر پورٹ سے پتہ کروں کہ آپ کا جہاز کل کب آ رہا ہے تو پتہ لگا کہ وہ تو آج ہی آ رہا ہے۔ تو لینے آ گیا۔ یہ صرف میرے پیارے خدا کا احسان تھا کہ اس نے میرے بھائی کے دل میں ڈال دیا ورنہ اکیلی عورت کے لیے جس کو کچھ بھی پتہ نہ تھا۔ کتنا مشکل ہوتا۔ ہم سب نے اللہ تعالیٰ کے اس سلوک کو بہت ہی تشکر سے قبول کیا۔

٭…اسلام آباد کے بچوں سے شروع سے ہی مجھے بہت پیار ہے۔ اکثر وہ میرے چھوٹے چھوٹے کام کر کے بہت خوش ہوتے۔ ایک دفعہ میں نے ایک کمرے میں کچھ سامان رکھا تھا اس میں بڑا تالا لگا ہوا تھا جو کھلتا نہیں تھا۔ بچوں نے آکر بتایا بہت کوشش کی ہے کھلتا نہیں ہے میں نے پوچھا کہ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم پڑھا تھا کیونکہ میں بھی بھول گئی تھی۔ انہوں نے کہا نہیں تو میں نے کہا میرا یقین ہے کہ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم پڑھ کر جو کام کرو وہ ٹھیک ہو جاتا ہے اور پھر ہم نے بسم اللہ پڑھ کر تالاکھولا اور وہ کھل گیا۔ بچے اس واقعہ کو اکثر یاد کرتے تھے اور میں بھی اپنا یقین اور پختہ ہونے پر بہت خوش ہوئی۔

آپ نے ایک مرتبہ بیان کیا کہ’’میں جو بھی ہوں یہ احمدیت و خلافت کی برکت اور والدین کی نیک تربیت سے ہوں۔ انہوں نے وصیت کا پودا میرے اندر تب ہی لگا دیا تھا جب میں وصیت کی عمر کو پہنچی اور اس کے ساتھ ہی مالی قربانی کا سلسلہ بھی بڑھتا گیا۔ اور یہ احمدیت سے محبت خلیفۂ وقت سے محبت ایک گھنا درخت ہے۔ جس کا سایہ میری جائے پناہ ہے۔ میں قرآن شریف کو اپنا بہترین ساتھی پاتی ہوں۔ اس کا ترجمہ سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں۔ یہ میرا شوق اور ضرورت ہے۔ اس کا کوئی نعم البدل نہیں ، میرا سکون قرآن شریف اور خلیفۂ وقت کی اطاعت میں ہے۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ امۃ المجید صاحبہ کی ان خدمات کو قبول کرتے ہوئے جنت الفردوس میں اپنے پیاروں ، اعلیٰ علیین کے قرب میں مقام عطا فرمائے۔ اور پیچھے رہ جانے والے ان کے بھائیوں ، بہنوں ان کی اولادوں میں ان کی بےمثال حسین سیرت کو جاری فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button