متفرق مضامین

اسلامی معاشرہ میں مساجد کی اہمیت اور برکات (قسط دوم۔ آخری)

(ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز)

پابندیٔ وقت

وقت کی پابندی کسی قوم کی بیداری اور معاشرہ کی خوشحالی کی ضامن ہے۔ اس کے برعکس سہل انگار اور اضاعتِ وقت کے مرتکب ہونے والے افراد ایک بہتر معاشرہ کی تعمیر میں ناکام رہتے ہیں جس سے پوری قوم بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ ایسی قوم کے افراد عموماً افلاس، بیماری، کمزوری اور فقر و فاقہ کے شکار ہوتے ہیں۔ بلکہ یوں کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ایسی قومیں ترقی حاصل کرنا تو درکنار اپنی آزادی کی حفاظت کرنا بھی بھول جاتی ہیں۔ سر بلندی اور آزادی کی نعمتیں صرف ایسی قوموں کے حصہ میں آتی ہیں جن کے افراد چاق و چوبند، مستعد، وقت کی قدر کرنے والے اور ہر کام میں باقاعدگی کو اپنا شعار بنانے والے ہوتے ہیں۔ مسجد ہمیں دیگر فوائد سے مستفید ہونے کے علاوہ پابندیٔ وقت کا درس بھی دیتی ہے۔ دن میں پانچ مرتبہ اوقاتِ مقررہ پر اذان دے کر لوگوں کو مسجد میں بلایا جاتا ہے کہ تمام لوگ وقتِ مقررہ پر حاضر ہو کر فریضۂ نماز باجماعت ادا کریں اور اس نمازِ باجماعت کی آنحضورﷺ نے نہایت سختی کے ساتھ تاکید فرمائی ہے۔ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ’’اگر مجھے عورتوں اور بچوں کا خیال نہ ہو تو میں اپنی جگہ کسی اور کو امام مقرر کر کے ان لوگوں کے گھروں کو جا کر آگ لگا دوں جو اذان سننے کے باوجود مسجد میں نہیں آئے۔ ‘‘

(مسند احمدبن حنبل)

یہ فرمان اس نبیٔ عربیﷺ کا ہے جس کے ہاتھوں کسی دشمن کو بھی کبھی کوئی تکلیف نہیں پہنچی ۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آپﷺ نماز باجماعت کو جو کہ پابندیٔ وقت کے لیے بہترین ٹریننگ کی حیثیت رکھتی ہے، کس قدر اہمیت دیتے تھے۔ افسوس آج مسلمان مسجد سے اپنا تعلق منقطع کر کے اس کے فوائدِ کثیرہ اور برکاتِ وافرہ سے محروم ہو گیا ہے۔ اس کے برعکس غیر مذاہب اور غیر اقوام نے ان اسلامی چیزوں کو ٹوٹی پھوٹی شکلوں میں اپنایا اور ان سے بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ ہماری بد قسمتی کہ ہم نہ صرف ان چیزوں کو چھوڑ بیٹھے بلکہ آج اس بات سے بھی غافل ہو گئے ہیں کہ یہ اسلامی چیزیں ہیں اور بلا سوچے سمجھے وقت کی پابندی کو انگلش ٹائم (English Time) کا نام دیتے ہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر افسوسناک امر یہ ہے کہ ہم نے اپنی چیزیں غیروں کو دے کر ان کی بری، فحش اور ذلیل عادات و اطوار کو تو اپنے گلے کا طوق بنا لیا ہے۔ لیکن ان میں موجود اچھے طور طریق کو جو بلاشبہ ہمارے ہی مذہب کی تعلیمات ہیں۔ ان کی افادیت کے قائل ہونے کے باوجود، اپنے لیے بارِ خاطر سمجھتے ہیں۔

تنظیم (Discipline)

تنظیم کے ضمن میں وہ سب چیزیں آتی ہیں جو کسی قوم کے زندہ رہنے کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ گھر میں یا گھر سے باہر، درس گاہ ہو یا کھیل کا میدان، سفر ہو یا حضر، دفتر ہو یا مارکیٹ، زراعت کے کھیت ہوں یا صنعت و حرفت کی فیکٹریاں اور کارخانے، حالتِ امن ہو یا جنگ، حتیٰ کہ کھانے پینے، سونے جاگنے، اُٹھنے بیٹھنے اور چلنے پھرنے میں بھی نظم و ضبط اور ڈسپلن کا قائم رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ تنظیم کے بغیر کوئی معاشرہ نہ تو پنپ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی قوم منزلِ مراد سے ہم کنار ہو سکتی ہے۔ ایسی قوم کی مثال جو نظم و ضبط سے عاری ہو، اس گاڑی کی سی ہے جس کی بریکیں نہ ہو۔ جس کا کوئی راستہ متعین نہ ہو، جس کا نہ کوئی ڈرائیور ہو اور نہ ہی کوئی گارڈ یا کنٹرولر، بس اسے سٹارٹ کر کے چھوڑ دیا جائے۔ جس طرح اس گاڑی کا حفاظت و خیریت سے کسی جگہ پہنچنا ناممکن ہے بالکل اسی طرح تنظیم اور نظم و ضبط کے بغیر کسی قوم یا معاشرے کی کامیابی کے متعلق سوچا تک نہیں جا سکتا اور اس نظم و ضبط کا درس ہمیں نماز اور مساجد ہی سے ملتا ہے۔ دن میں پانچ بار نمازی مسجد میں حاضر ہو کر ایک امام کی اقتدا میں نماز پڑھتے ہیں اور ہر مقتدی پر یہ لازم ہے کہ امام کے اشاروں پر حرکت کرے۔ اس اقتدا میں نظم و ضبط کا اندازہ ذیل کے فرمانِ نبوی سے لگایے، فرمایا:

’’ امام سے پہل نہ کرو، جب وہ اللہ اکبر کہے، تم بھی اللہ اکبر کہو اور جب وہ ولا الضالین کہے تو تم آمین کہو اور جب رکوع کرے تو تم رکوع کرو۔ ‘‘

بلاشبہ یہ نظم و ضبط کی بہترین ٹریننگ ہے۔ پھر یہی نہیں کہ اس بات کو محض حکماً بیان کر دیا گیا ہو بلکہ اس کی خلاف ورزی کرنے والے کے متعلق سخت وعید آئی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا:

’’ کیا وہ شخص جو امام کے سر اُٹھانے سے پہلے اپنا سر اُٹھاتا ہے اس بات سے نہیں ڈرتا کہ اللہ تعالیٰ اس کے سر کوگدھے کے سر جیسا بنا دے؟‘‘

اندازہ کریں کہ جس معاشرہ کے افراد ایسے ہی تربیت یافتہ ہوں گے اور وہ اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں اسی نظم و ضبط کو اپنا شعار بنائیں گے تو کیا اس کے کامیاب و کامران ہونے میں کسی کو شبہ ہو سکتا ہے؟ اور کیا زندگی کی دوڑ میں ایسی قوم سے کوئی دوسری قوم جو اس سبق سے نا آشنا ہوسبقت لے سکتی ہے؟ ہرگز نہیں!

اتحاد اور مساوات

طبقاتی کش مکش اور لسانی تعصبات دنیا کی کسی بھی قوم کے لیے مفید ثابت نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ انتشار و افتراق کا باعث بن کر بالآخرتباہی اور ہلاکت پر منتج ہوئے ہیں۔ اسی لیے اسلام نے اس کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔ قرآن کریم میں ہے:

اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ اِخۡوَۃٌ (سورة الحجرات:11)

مسلمان آپس میں سگے بھائیوں کی طرح ہیں……۔

اور حدیث میں ہے:

’’علاقے، رنگ یا زبان کی وجہ سے کسی کو دوسرے پر فضیلت نہیں بلکہ تم میں سے اللہ کے نزدیک عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیز گار ہو۔ ‘‘

بلاشبہ یہ وہ سبق ہے جو اتحاد، مساوات، اخوت، ہمدردی اور تعاون کے جذبات کا مرکزی نقطہ ہے۔ جس کو اپنا کر مسلمان دنیا میں سر بلند اور باعزت ہوئے اور جس کو خیر باد کہہ کر آج مسلمان ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہیں۔ اسلام نے مساجد میں نماز باجماعت کے ذریعے اس سبق کو عملی رنگ میں ہمارے سامنے پیش کیا ہے۔

ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا، نہ کوئی بندہ نواز!

تمام مسلمان امیر ہوں یا غریب، سفید فام ہوں یا سیاہ فام، حاکم ہوں یا محکوم، تاجر ہوں یا مزدور، دراز قد صحیح الجسم ہوں یا پستہ قد اپاہج اور معذور، بینا ہوں یا نابینا، کم سن ہوں یا عمر رسیدہ، پنجابی ہوں یا سندھی، بلوچی اور پٹھان، اذان سننے کے بعد سبھی مسجد میں آجاتے ہیں اور وضو کر کے ایک دوسرے کے شانہ سے شانہ ملاتے ہیں ایک ہی امام کی اقتدا میں ربُّ العزت کی بارگاہ میں مؤدب کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان سب کا مقصد ایک اور ان کے خیالات میں یک جہتی اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے جو اخوت کا سنگ بنیاد ہے۔ ہر روز دن میں پانچ مرتبہ انہیں یہی عمل دُہرانا پڑتا ہے اور رشتۂ اخوت و اتحاد مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ نماز با جماعت کے بغیر اس کا تصور بھی ممکن نہیں اور بلاشبہ اس نعمت سے وہی معاشرہ یا قوم سرفراز ہو سکتی ہے جس کا مساجد کے ساتھ نہ ٹوٹنے والا تعلق موجود ہو۔

طہارت و نظافت

طہارت و نظافت بھی کسی قوم یا معاشرہ کے مہذب اور باعزت ہونے کی دلیل ہے جبکہ گندے اور ناپاک رہنے والے لوگ نفرت کا نشانہ بنتے ہیں۔

مساجد کی وجہ سے ہمیں پاکیزگی اور صفائی کی نعمت بھی میسر ہے۔ مسجد میں نماز کے لیے آنے والے ہر شخص کے لیے یہ ضروری ہے کہ سب سے پہلے وضو کرے، بدبو دار چیز لہسن، پیاز وغیرہ کھا کر مسجد میں نہ آئے۔ بلکہ ہو سکے تو خوشبو یا عطر وغیرہ لگا کر آئے۔ کپڑے خواہ نئے نہ ہوںمگر پاک اور صاف ضرور ہوں۔ نماز کی پابندی کرنے اور مسجد میں پانچ وقت حاضری دینے سے انسان میں طبی طور پر طہارت و نظافت کے احساسات کروٹ لیتے ہیں جو ایک معاشرہ کی عظمت اور سربلندی کے امین ہیں۔

الغرض نماز با جماعت ادا کرنے اور مساجد سے اپنا رشتہ جوڑ لینے میں ہمیں بہت سی ایسی نعمتیں اور فوائد میسر ہیں کہ جن کا جائزہ لینے سے ہی اسلام کی حقانیت ہر ایک پر واضح ہو جاتی ہے۔ اور ہم اپنے تئیں دنیا کی کسی بھی غیر مسلم قوم سے بہتر اور برتر محسوس کرنے لگتے ہیں۔

آج کے اس دَور میں جب کہ کورونا وائرس جیسی خطرناک وبا پھیلی ہوئی ہے تو مساجد کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ مساجد مسلمانوں کی ایمانی زندگی کے لیے اسی طرح ہیں جس طرح مچھلی کے لیے پانی ۔ہر مسجد کے اندر وعظ ونصیحت، درس وتدریس، تعلیم وتربیت، دعوت وتبلیغ، اور اسی طرح کی دینی سرگرمیوں کا نظم کیا جائے، بستی اور محلے کے لوگوں کو مسجدوں سے جوڑا جائے، بچوں ونوجوانوں کو مسجدوں میں لاکر انہیں دین کی باتیں بتائی جائیںتاکہ اس کفر والحاد کے زمانہ میں وہ دین سے دُور نہ ہوں اور اپنے دین پر قائم رہیں۔ ان میں دین پر اعتماد اور اس کی صداقت وحقانیت پر یقین راسخ ہو، وہ اسلامی تہذیب وکلچر کو اپنائیں، اغیار کی تقلید وپیروی سے دور ہوں۔ ہماری مسجدیں آج ہمیں آواز دے رہی اور کہہ رہی ہیں کہ اس وقت مسلمانوں پر جوآفات آئی ہوئی ہیں اور وہ جن سماجی، معاشی، سیاسی اور تعلیمی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ دین سے دوری اور مساجد کی حاضری سے لاپرواہی وبے اعتنائی ہے۔ اور اگر ظاہری طور پر آباد بھی ہیں تو آنحضورﷺ کی پیشگوئی کے مطابق وہ ہدایت سے خالی ہیں۔

ہم احمدیوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ ہم نے جب زمانے کے امام کو مانا ہے تو اس ایمان کے بعد ہم کبھی بھی مسجد سے غافل نہ ہوں، اسے آباد کریں اور وہاں خالص اللہ تعالیٰ کی عبادت کی نیت سے جائیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ أَحَدًا (الجن: 19)

اور یقیناً مسجدیں اللہ ہی کے لئے ہیں پس اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔

چنانچہ اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب ترین مقام عبادت کے مقام ہیں، آپﷺ کا فرمان ہےکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب ترین جگہیںمساجد ہیں(صحیح مسلم)

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان جگہوں پر عبادات اور اذکار کیے جاتے ہیں، مومن جمع ہوتے ہیں، اور شعائرِ دین پر عمل ہوتا ہے۔

معزز اور محترم ترین مسجد، مسجد الحرام ہے، یہ دنیا کی سب سے پہلی مسجد اور لوگوں کےلیے مینارِ ہدایت ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِيْ بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَّهُدًى لِّلْعَالَمِينَ (آل عمران: 97)

یقیناً پہلا گھر جو بنی نوع انسان (کے فائدے) کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو بَکَّہ میں ہے۔ (وہ) مبارک اور باعثِ ہدایت بنایا گیا تمام جہانوں کے لئے۔

اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کا حج اور طواف واجب کیا اور اسے مومنوں کا قبلہ قرار دیا، یہاں ایک نماز دیگر مساجد کی نمازوں سے ایک لاکھ گنا بہتر ہے۔ دوسری افضل ترین مسجد آپﷺ کی مسجد ہے، مسجد نبوی کی بنیاد پہلے دن سے ہی تقویٰ پر رکھی گئی۔

حضرت ابوہریرہ ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’میری اس مسجد میں نماز اس کے علاوہ دوسری مسجدوں میں ہزار نمازوں سے بہتر ہے، ہاں سوائے مسجد حرام کے۔ ‘‘

(بخاری – کتاب الصلوٰۃ)

مسجد اقصیٰ قبلہ اوّل اور رسول اللہﷺ کی جائے اسراء ہے، اس مسجد کی بنیاد مسجد الحرام کے بعد رکھی گئی۔

مسجد قباء کی بنیاد بھی پہلے دن سے ہی تقویٰ پر ہے۔ نبیﷺ ہر ہفتے پیدل یا سوار ہو کر مسجد قباء آتے تھے۔

ایک روایت میں ہےکہ جو شخص اپنے گھر سے وضو کرے اور پھر مسجد قباء آ کر نماز پڑھے تو اس کےلیے عمرے کا اجر ہو گا۔ ( ابن ماجہ)

یہ مسجدیں، بیوت اللہ ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی جانب ان کے اعزاز اور شرف کی وجہ سے منسوب فرمایا، ان کا تذکرہ بار بار کیا، مساجد آباد کرنے والے چنیدہ انبیائے کرام اور ان کے پیروکار ہوتے ہیں، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَ اِذۡ یَرۡفَعُ اِبۡرٰہٖمُ الۡقَوَاعِدَ مِنَ الۡبَیۡتِ وَ اِسۡمٰعِیۡلُ ؕ رَبَّنَا تَقَبَّلۡ مِنَّا ؕ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ (البقرة: 128)

اور جب ابراہیم اُس خاص گھر کی بنیادوں کو اُستوار کر رہا تھا اور اسماعیل بھی (یہ دعا کرتے ہوئے) کہ اے ہمارے ربّ! ہماری طرف سے قبول کر لے۔ یقینا ًتو ہی بہت سننے والا (اور) دائمی علم رکھنے والا ہے۔

مساجد بنانا اطاعت اور عبادت ہے، اللہ تعالیٰ نے مسجد بنانے والے سے جنت کا وعدہ فرمایا، آپﷺ کا فرمان ہے:

جس نے اللہ کےلیے مسجد بنائی، اللہ تعالیٰ اس کےلیے جنت میں ویسا ہی گھر بناتا ہے۔

(بخار ی، کتاب المساجد)

مسجد جانے والے کو بھی اجر عظیم ملتا ہے، آپﷺ کا فرمان ہے:

اس کےلیے ہر قدم کے بدلے میں نیکی ہے، اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند اور اس کی ایک برائی مٹا دیتا ہے۔ (صحیح مسلم)

مساجد کی جانب زیادہ سے زیادہ چل کر جانا اور مساجد میں نمازوں کا انتظار کرنا رباط (یعنی راہِ الٰہی میں پہرہ) دینے کے مترادف ہے۔

جو شخص صبح کے وقت مسجد جائے یا شام کے وقت، وہ جب بھی صبح یا شام کو مسجد جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کےلیے جنت میں مہمان نوازی کی تیاری فرماتا ہے۔

(بخار ی، کتاب المساجد)

مسجدوں کی جانب چل کر جانا بھی گناہوں کی بخشش کا باعث ہے، آپﷺ کا فرمان ہے:

جو شخص نماز کےلیے اچھی طرح وضو کرے اور فرض نماز ادا کرنے کےلیے چلے پھر لوگوں کے ساتھ یا جماعت کے ساتھ یا مسجد میں اکیلےنماز ادا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دیتا ہے۔

( صحیح مسلم)

مسجد میں داخل ہونے کے بعد مسلمان اس وقت تک نماز کی حالت میں ہوتا ہے جب تک نماز اسے مسجد میں روکے رکھے، اور جب تک وہ اپنی جائے نماز پر بیٹھا رہے تو اس کےلیے فرشتے دعائیں کرتے ہوئے کہتے ہیں: یا اللہ! اسے بخش دے، یا اللہ! اس پر رحم فرما۔

(بخار ی، کتاب المساجد)

مسجد میں آنے کے آداب میں یہ شامل ہے کہ اچھے لباس کے ساتھ آئیں، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

يَابَنِيْٓ آدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف: 32)

اے ابنائے آدم! ہر مسجد میں اپنی زینت (یعنی لباسِ تقویٰ) ساتھ لے جایا کرو۔

مسجد کے آداب میں یہ بھی شامل ہے کہ مسجد میں آ کر سکون اور وقار کے ساتھ رہے۔ آپﷺ کا فرمان ہے:

’’جب نماز کی اقامت ہو جائے تو دوڑتے ہوئے مسجد نہ آؤ، بلکہ پر وقار انداز سے چلو، نماز کا جو حصہ مل جائے وہ پڑھ لو اور جو رہ جائے وہ پورا کر لو۔ ‘‘

( صحیح بخاری- کتاب الصلوٰۃ)

مسجدوں میں حصولِ علم متاعِ دنیا سے افضل ہے، آپﷺ کا فرمان ہے:

’’تم میں سے کوئی مسجد جا کر علم حاصل کیوں نہیں کرتا یا قرآن کریم کی دو آیتیں ہی کیوں نہیں پڑھتا!؟ یہ دو آیتیں اس کےلیے دو اونٹنیوں سے بہتر ہیں، تین آیات تین اونٹنیوں سے بہتر ہیں، چار آیات چار اونٹنیوں سے بہتر ہیں، جتنی آیات اتنی ہی اونٹنیوں سے بہتر ہیں۔ ‘‘

( صحیح مسلم)

مسجد میں عبادت کرنے والے کی اتنی شان ہے کہ اسے چھو کر بھی اذیت دینا جائز نہیں۔ چنانچہ ایک شخص جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھلانگتے ہوئے آیا تو آپﷺ نے اسے فرمایا:

’’بیٹھ جاؤ !تم ایذا پہنچا رہے ہو۔ ‘‘ (ابوداؤد)

چونکہ مسجدیں سعادت مندی اور راہِ راست کا منبع ہیں اسی لیے آپﷺ جب سفر سے آتے تو سب سے پہلے مسجد میں نماز ادا کرتے۔

(بخار ی، کتاب المساجد)

باہمی الفت اور اتحاد کی فضا پیدا کرنا مساجد کے اہداف میں سے ہے، اس لیے مساجد کو گروہ بندی اور اختلاف کا ذریعہ بنانا جائز نہیں، فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

وَالَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَّكُفْرًا وَّتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ مِنْ قَبْلُ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَآ إِلَّا الْحُسْنٰى (التوبہ: 107)

اور وہ لوگ جنہوں نے تکلیف پہنچانے اور کفر پھیلانے اور مومنوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور ایسے شخص کو کمین گاہ مہیا کرنے کے لئے جو اللہ اور اس کے رسول سے پہلے ہی سے لڑائی کر رہا ہے ایک مسجد بنائی ضرور وہ قسمیں کھائیں گے کہ ہم بھلائی کے سوا اور کچھ نہیں چاہتے تھے۔

مسجدیں مسلمانوں کےلیے اعزاز، باعث شرف اور دینی شعار ہیں، مساجد کو نمازوں اور ذکرِ الٰہی کے ساتھ آباد کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ رفعت اور سعادت سے نواز کر ان کی شرح صدر فرما دیتا ہے، مسجدوں میں قرآن و سنت کی تعلیم مساجد کی آبادکاری کےلیے حکمِ ربانی کی تعمیل ہے۔ اس سے احیائے سنت نبوی کے ساتھ وقت اور عمل میں برکت ملتی ہے، انسان خود کو اور اپنی اولاد کو بہتری کی جانب گامزن کرتا ہے، اگر کوئی شخص مساجد کی خیر سے محروم ہے یا اس خیر میں رکاوٹ بنتا ہے تو وہ بہت سی فضیلتوں سے محروم ہے۔

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ

’’جو شخص اسلام کی حالت میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنا چاہتا ہے تو وہ مسجد میں نماز با جماعت کا اہتمام کرےکیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبیﷺ کےلیے ہدایت کے طور طریقے مقرر کیے ہیں اور یہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ اگر تم نمازیں گھروں میں ایسے پڑھو جیسے پیچھے رہنے والا گھر میں پڑھتا ہے، تو تم اپنے نبی کی سنت کو ترک کر دو گے، اور اگر تم نے اپنے نبی کی سنت کو ترک کر دیا تو تم گمراہ ہو جاؤ گے۔ ‘‘

( صحیح مسلم)

مسجد کی ضرورت پوری کرنا بھی باعث ثواب ہے۔ حضورﷺ کی خادمہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا:

اے اللہ کے رسولﷺ! بیت المقدس کے بارے میں ہمارے لیے کیا حکم ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:

’’اگر بیت المقدس نہ پہنچ سکو اور وہاں تم نماز نہ پڑھ سکو تو بیت المقدس کے چراغوں کو روشن رکھنے کےلیے تیل(ہی)بھیج دو۔ ‘‘

(ابودائود)

مسجد پرہیز گاروں کا گھر ہے۔ حضرت ابوالدرداءؓ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ

’’اے میرے بیٹے! مسجد تمہارا گھر ہونا چاہیے کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ مسجدیں پرہیز گاروں کا گھر ہیں، جس کا گھر مسجد ہو اللہ تعالیٰ اس کی راحت ورحمت کا اور پل صراط سے جنت کی طرف اس کے گزرنے کا ذمہ دار ہے۔ ‘‘

(المصنف لابن ابی شیبہ)

مسجد سے تعلق رکھنے والے کا خصوصی اعزازہے۔ ارشاد نبویﷺ ہے:

’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انہیں اپنے خصوصی سائے میں رکھے گا جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس کا دل مسجد میں لگا رہتا ہے جب وہ مسجد سے نکلتا ہے یہاں تک کہ وہ دوبارہ مسجد میں چلاجائے۔ ‘‘

(صحیح بخاری-کتاب المساجد)

مسجد کی صفائی پر انعام ہے۔ ارشاد نبویﷺ ہے:

’’جس نے مسجد سے ایسی چیز باہر پھینک دی جس سے تکلیف ہوتی تھی (جیسے کوڑا، کانٹا اور پتھر)تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا۔ ‘‘

(ابن ماجہ)

مسجد کی صفائی باعث ثواب ہے۔ ارشاد نبویﷺ ہے:

’’میری امت کے ثواب میرے سامنے پیش کیے گئے یہاں تک کہ کوڑے اور خاک کا ثواب بھی، جسے کسی آدمی نے مسجد سے نکالا اور نیز میرے سامنے میری امت کے گناہ بھی پیش کیے گئے ان میں مجھے اس سے بڑا گناہ نظر نہیں آیا کہ کسی کو قرآن کی کوئی سورت یا آیت یاد ہو پھر اس نے اس کو بھلا دیاہو۔ ‘‘

(مشکوٰۃ)

مسجد کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے نزدیک سب سے محبوب اور بہتر جگہ قرار دیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ شہروں میں اللہ کے نزدیک سب سے محبوب جگہ ان کی مسجدیں ہیں اور سب سے مبغوض جگہ وہاں کے بازار ہیں۔ ‘‘

(صحیح مسلم)

خلاصہ یہ ہے کہ مسجد کو ظاہر و باطن دونوں طرح آباد کرنے کا بہت بڑا اجرو ثواب ہے اور مسجد مسلمانوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ ہے۔ مسلمان اگر اپنے آپ کو مساجد کے ساتھ جوڑ دیں اوراپنے گھروں کو آباد کرنے کی جتنی فکر کی جاتی ہے ویسے ہی اللہ کے گھروں کو آباد کرنے کی فکر و کوشش کریں تو مسلمانوں کے دنیاوی گھر بھی آباد ہوں گے اور آخرت کے گھر بھی خوب آباد ہوں گے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

’’…حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ارشاد ہمیں ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جہاں تم جماعت کی ترقی چاہتے ہو وہاں مسجد کی تعمیر کر دو۔ الفاظ میرے ہیں، کم و بیش مفہوم یہی ہے۔ تو اگر اس سوچ کے ساتھ مسجدیں بنائیں گے کہ آج اسلام کا نام روشن کرنے کے لئے اور آج اسلام کا پیغام دنیا میں پھیلانے کے لئے ہم نے ہی قربانیاں کرنی ہیں اور کوشش کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ بھی مدد فرمائے گا، اور ہمیشہ فرماتا ہے، فرماتا رہا ہے۔ اور اس وجہ سے ہم اللہ تعالیٰ کا قرب پانے والے بھی ہوتے ہیں، اس کے فضل کے نظارے بھی ہم دیکھتے ہیں۔ اگر یہ دعا کریں گے کہ

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا (البقرۃ:128)

اے ہمارے رب ہماری طرف سے اسے قبول کر لے جو بھی قربانی کی جا رہی ہے۔ تو یقینا ًیہ دعا کبھی ضائع نہ ہو گی۔ اور آپ کو اپنا یہ خیال خود بخود غلط معلوم ہو گا کہ مسجدوں کے منصوبوں کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ کچھ اور منصوبے ہمیں کرنے چاہئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ فرمانا صرف جوش دلانے کے لئے نہیں تھا بلکہ ایک درد تھا، ایک تڑپ تھی، ایک خواہش تھی کہ دنیا میں اسلام کا بول بالا کرنے کے لئے اور اسلام کی خوبصورت تعلیم پھیلانے کے لئے مساجد کی تعمیر کی جائے۔ جب آپؑ نے یہ ارشاد فرمایا آپ نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہندوستان میں مسجدیں تعمیر نہ کرو یا فلاں علاقے میں نہ کرو، بلکہ ہر جگہ مسجدیں تعمیر کرنے کا آپ نے اظہار فرمایا تھا۔ حالانکہ اس وقت بھی ہندوستان میں مسجدیں بنائی جا رہی تھیں اور آج بھی بنائی جا رہی ہیں۔ لیکن یہ جو مسجدیں جماعت احمدیہ کے علاوہ کہیں بنائی جاتی ہیں یا موجود ہیں یہ مسجدیں اس زمانے کے امام کا انکار کرنے والوں کی ہیں اور انکار کرنے والوں کی طرف سے بنائی جا رہی ہیں۔ تقویٰ پر بنیاد رکھتے ہوئے نہیں بنائی جا رہی ہوتیں۔ یہ اس لئے بنائی گئی تھیں، بنائی جا رہی تھیں اور بنائی جا رہی ہیں کہ فلاں فرقے کی مسجد اتنی خوبصورت ہے اور اتنی بڑی ہے ہم نے بھی اس سے بہتر مسجد بنانی ہے یا اور بہت سی مساجد کے اماموں کی ذاتی دلچسپیاں ہیں جن کی وجہ سے مسجدیں بڑی بنائی جاتی ہیں۔ جن کو مجھے اس وقت چھیڑنے کی ضرورت نہیں۔

لیکن جماعت احمدیہ کی جو مسجد بنتی ہے۔ وہ نہ تو دنیا دکھاوے کے لئے بنتی ہے اور نہ دنیا دکھاوے کیلئے بننی چاہئے۔ وہ تو قربانیاں کرتے ہوئے قربانیاں کرنے والوں کی طرف سے بنائی جانے والی ہونی چاہئے۔ اور اس تصور، اس دعا کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کی جاتی ہے اور کی جانی چاہئے کہ اے اللہ اسے قبول فرما لے اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اس کو آباد کرنے والے بھی ہوں اور ان لوگوں میں شامل ہوں جن کے بارے میں تُو فرما چکا ہے کہ یہ آیت جسکی مَیں نے تلاوت کی ہے کہ

اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِر

اللہ کی مساجد تو وہی آباد کرتا ہے جو اللہ پر ایمان لائے اور یوم آخرت پر ایمان لائے۔ اور پھر

وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزّکٰوۃَ

اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔

وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰہ

اور اللہ کے سوا کسی سے خوف نہ کھائے۔

فَعَسٰٓی اُولٰٓئِکَ اَنْ یَّکُوْنُوْا مِنَ الْمُھْتَدِیْنَ(التوبۃ:18)

پس قریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں شمار کئے جائیں۔

پس ہمیں یہ دعا کرنی چاہئے کہ اے اللہ ہمیں کامل مومن بندہ بنا کیونکہ مومن بننا بھی تیر ے فضلوں پر ہی منحصر ہے، تیرے فضلوں پر ہی موقوف ہے۔ آخرت پرہمارا ایمان یقینی ہو۔ جب تیرے حضور حاضر ہوں تو یہ خوشخبری سنیں کہ ہم نے مسجدیں تیری خاطر بنائی تھیں۔ تیری عبادت ہر وقت ہمیشہ ہمارے پیش نظر تھی اور تیرے دین کا پیغام دنیا تک پہنچانا ہمارے مقاصد میں سے تھا۔ پس اسی لئے ہم مسجدیں بناتے ہیں اور بناتے رہے ہیں اور اسی وجہ سے ہم نمازوں کی طرف توجہ دیتے رہے۔ کوئی نام نمود، کوئی دنیا کا دکھاوا ہمارا مقصد نہ تھا۔ اے اللہ ہماری تمام مالی قربانیاں تیری خاطر تھیں کہ تیرا نام دنیا کے کونے کونے میں پہنچے اور تیرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں سر بلندہو۔ اور تیرا تقویٰ ہمارے دلوں میں اور ہماری نسلوں کے دلوں میں قائم ہو اور ہمیشہ قائم رہے۔ تُو نے ہمیں ہدایت دی کہ ہم نے اس زمانے کے امام کو مانا۔ اس کو ماننے کی ہمیں توفیق عطا فرمائی۔ جس کو تُو نے اس زمانے میں دوبارہ دین اسلام کی حقیقی تعلیم کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے بھیجا تھا۔ پس ہماری کمزوریوں اور غلطیوں کی وجہ سے اس ہدایت سے ہمیں محروم نہ کر دینا بلکہ خود ہمیں ہدایت دئیے رکھنا۔ خود ہمیں سیدھے راستے پر چلائے رکھنا۔ اے اللہ تُو دعاؤں کو سننے والا اور دلوں کا حال جاننے والا ہے۔ ہماری ان عاجزانہ اور متضرعانہ دعاؤں کو سن، ہماری اس نیک نیت کا بدلہ عطا فرما جو ان مساجد کی تعمیر کے پیچھے کار فرما ہے کہ تیرا نام دنیا کے اس علاقے میں بھی ظاہر ہو جہاں ہم مسجد تعمیر کرنے جا رہے ہیں۔ ہماری نیتیں تیرے سامنے ہیں تُو ہمارے دلوں کا حال جانتا ہے تُو ہماری پاتال تک سے بھی واقف ہے۔ تُو وہ بھی جانتا ہے جس کا ہمیں علم نہیں۔ پس ہمیں اپنا قرب عطا فرما اور ہمیں مزید مسجدیں بنانے کی توفیق دیتا چلا جا اور ہم پر اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد صادق فرما کہ جو شخص اللہ کی خاطر مسجد تعمیر کرتا ہے اللہ بھی اس کے لئے جنت میں اُس جیسا گھر تعمیر کرتا ہے۔ پس تو ہمیں حقیقی مومنوں میں شمار فرما۔

آج احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے عموماً ایسی سوچ کے ساتھ مسجد تعمیر کر تے ہیں اور مسجد کی تعمیر کے لئے مالی قربانیاں دیتے ہیں، اور مسجدوں کو آباد رکھتے ہیں۔ لیکن بعض کمزور بھی ہوتے ہیں جو مالی قربانیاں تو دے دیتے ہیں لیکن مسجدوں کو آباد کرنے میں ان سے سستی ہو جاتی ہے۔ اس کے لئے بھی ہر احمدی کو خاص کوشش کرنی چاہئے، ہر انتظام کو خاص کوشش کرنی چاہئے۔

…. ہماری نیت یہ ہے کہ مسجدیں بنانے سے ہماری عبادتوں میں بھی باقاعدگی پیدا ہو اور یہ مسجدیہاں تیرے مسیح کی خواہش کے مطابق احمدیت کی تبلیغ کا ذریعہ بھی بنے۔ اس کے لئے ہماری دعاؤں کو سنتے ہوئے، ہماری قربانی کو قبول کرتے ہوئے اس مسجد کے اردگرد ہمیں اس قوم میں سے بھی نمازی عطا فرما دے، تو اللہ تعالیٰ یقینا ًایسی دعاؤں کو سنتا ہے۔ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ مسجدیں تعمیر ہوں اور پھر اس کو آباد رکھنے کی بھی پوری کوشش ہو۔ آپ لوگ نیک نیتی سے مسجدیں بناتے چلے جائیں گے تو آبادیاں خود بخود وہاں پہنچ جائیں گی۔ اب مسجد فضل لندن کو دیکھ لیں اُس وقت کے مبلغ نے یا شاید کسی احمدی نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں لکھا کہ بہت دُور جگہ ہے۔ یہاں کوئی نہیں آ ئے گا۔ تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے فرمایا نہیں جو جگہ مل گئی ہے یہ ٹھیک ہے یہیں بنائیں۔ آج دیکھ لیں جو مسجدفضل لندن کی یہ جگہ ہے، کس طرح آباد ہے۔ یہ علاقہ رہائش کے لحاظ سے بھی مہنگے علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔

…جیسا کہ پہلے بھی مَیں کہہ چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جماعت کی ترقی کے لئے مساجد کی تعمیرضروری ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی خواہش تھی کہ یورپ میں اگر ہم اڑھائی ہزار مسجدیں بنا لیں تو تبلیغ کے بڑے وسیع راستے کھل جائیں گے۔ ابھی تو ہمارے پاس پورے یورپ میں چند مساجد ہیں جن کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ پس ابھی بہت لمبا سفر باقی ہے۔ اور اگر آپ پختہ ارادہ کر لیں تو یقینا ًیہ کوئی ایسا لمبا سفر نہیں ہے۔

…دوسری اہم چیز یہی ہے کہ تبلیغ کی طر ف کوشش ہو۔ اس کے لئے اپنی حالتوں کو درست کرنے کے بعد، اپنی عبادتوں کے معیار بلند کرنے کے بعد، اپنی مسجدوں کو پیار ومحبت کا نشان بنانے کے بعد، جس سے اللہ تعالیٰ کی توحید کے پیغام کے ساتھ پیار و محبت کا پیغام ہر طرف پھیلانے کا نعرہ بلند ہو، احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے پیغام کو اپنے علاقے کے ہر شخص تک پہنچا دیں۔ یہی پیغام ہے جو اللہ تعالیٰ کی پسند ہے۔ اور یہی پیغام ہے جس سے دنیا کا امن اور سکون وابستہ ہے۔ یہی پیغام ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہونا ہے۔ آج روئے زمین پر اس خوبصورت پیغام کے علاوہ کوئی پیغام نہیں جو دنیا کو امن اور محبت کا گہوارہ بنا سکے اور بندے کو خدا کے حضور جھکنے والا بنا سکے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ کہ

وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّ قَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ(حٰمٓ السجدۃ: 34)۔

یعنی اس سے زیادہ اچھی بات کس کی ہو گی جو کہ اللہ کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے اور کہے کہ مَیں یقیناً کامل فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ پس یہ کامل فرمانبرداری جس کی ہر احمدی سے توقع کی جاتی ہے اس وقت ہو گی جب نیک، صالح عمل ہو رہے ہوں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی ہو رہی ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق بھی ادا ہو رہے ہوں گے اور پھر ایسے لوگ جب دعوت الی اللہ کرتے ہیں تو ان کی سچائی کی وجہ سے لوگ بھی ان کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔ اور ان نیک کاموں کی وجہ سے ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے بھی منظور نظر ہو جاتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی مدد بھی فرماتا ہے۔ تبلیغی میدان میں ان کی روکیں دور ہو جاتی ہیں۔ وہی مخالفین جو مساجد کی تعمیر میں روکیں ڈال رہے ہوتے ہیں وہی جو مسلمانوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، وہی جو برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کے علاقے میں مسلمان عبادت کی غرض سے جمع ہوں جب آپ کے عمل دیکھیں گے، آپ کی عبادتیں دیکھیں گےتو آپ کی پیشانیوں پر ان لوگوں کووہ نشان نظر آئیں گے جن سے مومن کی پہچان ہوتی ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 16؍جون 2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل7؍جولائی 2006ءصفحہ5تا9)

آخر میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ایک اقتباس سے اس مضمون کو ختم کرنا چاہوں گا۔ حضور انور نے فرمایا:

’’…پھر مسجدیں آباد کرنے والوں کی نشانی یہ بتائی کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے ہیں۔ ایک دفعہ مسجد کی تعمیر میں چندہ دے کر ایک بڑی رقم بھی اگر دے دی ہے تو اس کے بعد آزاد نہیں ہو گئے بلکہ زکوٰۃ اور دوسرے جماعتی چندوں کی طرف بھی ایک فکر کے ساتھ متوجہ رہتے ہیں۔ اگر یہ توجہ قائم رہے گی اور اللہ کا خوف سب خوفوں پر غالب رہے گا کوئی ایسی حرکت نہیں ہوگی جو خلاف اسلام اور خلاف شرع ہو بندوں کے حقوق بھی ادا کر رہے ہوں گے توپھر آپ کو مسجدیں وہ نظارے پیش کریں گی جو عابدوں اور زاہدوں کے نمونوں سے نظر آتے ہیں۔ یہ لوگ پھر اللہ کے فضلوں کو سمیٹنے والے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوتے ہیں اور جس مقصد کو لے کر اٹھتے ہیں اس میں پھر کامیابیاں حاصل کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہ اپنی دعاؤں کے تیروں سے مخالفین کے حملوں کو ناکام کر دیتے ہیں۔ پس اس سوچ کے ساتھ مسجدیں بنائیں اور انہیں آباد کریں تو جہاں آپ اپنی عاقبت سنوار رہے ہوں گے، اپنی آخرت سنوار رہے ہوں گے وہاں دنیا کی قسمت بھی سنوارنے والے بن رہے ہوں گے۔ ورنہ دنیا میں ایسی مساجد ہیں اور خاص طور پر اس زمانے میں جو مسلمانوں نے خود ہی اسلام کی شکل بگاڑ دی ہے کہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو سمیٹنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو آواز دینے والی ہیں۔ اس حالت کا نقشہ ایک حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا ہے۔ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہ رہے گا، الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا۔ اس زمانے کے لوگوں کی مسجدیں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی۔ لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی

مَسَاجِدُھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِّنَ الْھُدٰی،

علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بد ترین مخلوق ہوں گے۔ ان میں سے فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح۔ کتاب العلم الفصل الثالث۔ حدیث نمبر۲۷۶) تو کیا ان مسجدوں میں نمازیں نہیں ادا کی جاتیں۔ آج کل تو ہمارے مخالف زیادہ زور سے پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ ظاہری نمازیں پڑھتے ہیں سب کچھ کرتے ہیں لیکن جو اللہ تعالیٰ نے شرط بتائی ہے ایمان کی اس کو وہ زمانے کے امام کو نہ مان کر پورا نہیں کر رہے۔ پس یہ جو اللہ تعالیٰ نے آپ پر فضل فرمایا ہے اس پر اور زیادہ اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں اور اس کے بتائے ہوئے حکموں پر عمل کرتے ہوئے اس کی عبادت کریں تاکہ یہ فضلوں کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ29؍ دسمبر 2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 19؍جنوری2007ءصفحہ7تا8)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button