متفرق مضامین

حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہیدؓ کی جائے شہادت اور مینار

(سید نعمت اللہ۔ مربی سلسلہ گھانا)

حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف شہید رضی اللہ عنہ کی جائے شہادت کے متعلق سوشل میڈیا پر مختلف تصاویر گردش کرتی رہتی ہیں جن سے ذہنوں میں الجھاؤ پیدا ہوتاہے۔

حضرت صاحبزادہ صاحب رضی اللہ عنہ کو 1903ءمیں کابل میں شہید کیا گیا۔ بعدازاں وہاں ایک میناربنایا گیا۔ تاریخی لحاظ سے ان کی جائے شہادت ایک خاص اہمیت کی حامل ہے۔ سوشل میڈیا پر جو 3تصویریں گھوم رہی ہیں وہ درج ذیل ہیں

٭…مینار آزادی یا مینار استقلال

٭…مینار علم و جہل

٭… مینار نجات

ان تینوں مقامات میں سے خاکسار کی تحقیق کے مطابق اصل جگہ مینار نجات والی جگہ ہے۔

خاکسار اپنے ان حقائق کی بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر رکھتا ہےجو حضورؒ نے جائے شہادت کے متعلق ایک خطبہ جمعہ فرمودہ14؍جنوری 1983ء میں فرمایا تھا۔ حضورؒ نے فرمایا:

’’حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب کے متعلق ابھی چند سال ہوئے ایک بڑی دلچسپ روایت معلوم ہوئی۔ ہمارے صوبہ سرحد کے ایک مخلص احمدی دوست ہیں جن کے تعلقات کا دائرہ بڑا وسیع ہے۔ چند سال پہلے افغانستان سے ایک دوست ان سے ملنے کے لئے آئے یا یہ گئے وہاں ملنے کے لئے مجھے اس وقت صحیح یاد نہیں بہرحال ان کی ملاقات ہوئی۔ یہ وہ شخص ہیں جنہوں نے افغانستان کی آزادی کی روح کا symbolیعنی نشان قائم کیا ہے۔ یہی وہ آرکیٹیکٹ (نقشہ بنانے والے ) ہیں کہ جب افغان قوم نے یہ فیصلہ کیا کہ افغان آزادی کی روح کا ایک symbol یعنی یادگار قائم کی جائے تو یہ کام اسی آرکیٹیکٹ کے سپرد تھا کہ تم ڈیزائن بھی کرو یہ بھی فیصلہ کرو کہ اس کے لئے سب سے زیادہ موزوں جگہ کون سی ہے۔ ہمارے احمدی دوست کہتے ہیں میں جب ان سے ملا تو میں بھی وہ مینار دیکھنے گیا تو پتہ لگا کہ وہ موزوں جگہ پر نہیں ہے۔ ایک ایسی جگہ پر ہے جو آرکیٹیکچر یعنی فن تعمیر کے نقطہ نگاہ سے موزوں نہیں تھی۔ ایسی جگہ کمانڈنگ ہونی چاہئے، اونچی ہونی چاہئے، کھلا منظر ہوتا کہ دور دور سے نظر آئے لیکن وہ مکانوں میں گھری ہوئی ایک چوک کے اندر جگہ تھی مجھے بڑا تعجب ہوا۔ میں نے اس بوڑھے سے پوچھا کہ تم تو بڑے قابل آرکیٹیکٹ ہو تم نے اس یادگار کے لئے اس جگہ کا انتخاب کیوں کرلیا۔ اس نے جواب دیا کہ اس کا انتخاب اس لئے کیا کہ مجھے کہا گیا تھا کہ افغان روح آزادی کو خراج تحسین اداکرنا ہے یعنی یہ کہ وہ تمام دنیا کے اثرات سے آزاد ہے اور اس کو دنیا کا کوئی خوف نہیں ہے اور حق پر قائم رہنا جانتی ہے یہ تھی اس کی روح۔ اور میں جب بچہ تھا میں نے یہاں اسی چوک میں ایک ایسا واقعہ دیکھا تھا کہ وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے میرے دل پر ثبت ہوگیا۔ میں نے یہ دیکھا کہ ایک بزرگ زنجیروں میں جکڑا ہوا سنگسار کرنے کے لئے لے جایا جارہاتھا۔ ہم بھی بچوں میں شامل ہوکر اس کا نظارہ دیکھنے کے لئے گئے۔ میں نے اس کے چہرے پر ایسی عظمت دیکھی، ایسی آزادی دیکھی، ایسی بےخوفی دیکھی اور ایسا اطمینان تھا اور اس کے چہرے پر طمانیت کی ایسی مسکراہٹ تھی کہ وہ میرے ذہن سے کبھی نہیں اترتی۔ پس جب مجھے میری قوم نے کہا کہ افغان روح آزادی کو خراج تحسین ادا کرنا ہے اور اس کے لئے مینار قائم کرنا ہے تو میں نے سوچا کہ اس سے بہتر اور کوئی جگہ نہیں جہاں میں نے اس آزادی کی روح کو دیکھا تھا۔ ‘‘

( خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍جنوری 1983ءمطبوعہ خطبات طاہر جلد 2صفحہ 29)

مینار علم و جہل

اب خاکسار اس مینار کے متعلق قارئین کو کچھ معلومات دینا چاہتاہے جو غلط طور پرحضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی جائے شہادت کےطورپر سوشل میڈیا پر مینار آزادی یا استقلال کے نام سے گردش کر رہی ہے۔

پہلی قابل ذکربات یہ ہے کہ اس مینار کا درست نام ’’مینار علم و جہل‘‘ہے۔ گوگل میں مینار علم و جہل لکھنے سےیہ تصویر مل سکتی ہےجو ایک پتھریلی چٹان پرہے۔ یہ کابل کے علاقے دھمزنگ میں چڑیا گھر کے کونے پر واقع ہے۔ یہ مینار 1926ء میں امیر امان اللہ خان نے آزادی کے شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بنایا۔ یہ شہید مرحوم کی شہادت کی جگہ نہیں ہے اور وہاں سے کافی دُور ہے۔

مینار استقلال یا آزادی

یہ سفید رنگ کامینار ہےجو ایک روایت کے مطابق 1920ء میں امیر امان اللہ خان کے وقت میں آزادی کے حصول کی مناسبت سے افغانی معماروں کے ذریعے بنایا گیا۔

(آبدات تاریخی دورہ اسلامی کابل از عبد الوحید خلیلی 1398ہجری شمسی صفحہ 122)

لیکن غلام محمد غبار اور علی احمد کھزاد اور بعض دیگر افغانی مؤرخین کا خیال ہے کہ یہ مینار نادر شاہ کے وقت میں بنااور ثبوت کے طور پر صوبہ کابل کے ایک ضلع طاق ظفر پغمان کو پیش کرتے ہیں۔ وہاں بطور آزادی کی علامت کے ایک مینارموجود ہے۔

مینار استقلال کابل شہر کے شاہی محل جسے ارگ کہتے ہیں (یعنی پریذیڈنٹ پیلس ) اور پل محمود خان کے درمیان واقع ہے جو کہ کابل بالاحصار کے شمال میں واقع ہیں اور دور ہے۔

خاکسار کی تحقیق کے مطابق اور امان افغان مجلہ کے مطابق استقلال کا جشن شروع سے ہی پغمان میں واقع طاق ظفر شاھی محل میں منعقد ہوتا رہا ہے۔

اس کے علاوہ روزنامہ انیس، ابلاغ، حقیقت جو اس دَور کے اخبارات اور رسائل ہیں اللہ کے فضل سے ان کے عکس خاکسار کو ملے جن سے واضح ثابت ہوتاہے کہ کابل شہر میں جو مینار استقلال ہے وہ امان اللہ خان کے دَور میں بنا ہی نہیں۔ نیز یہ تصویر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے بیان کردہ نقشے کے مطابق نہیں۔

ایوب آروین بی بی سی پر20؍اگست 2013ء کو شائع ہونے والے ایک تحقیقی کالم میں لکھتے ہیں کہ جشن آزادی ضلع پغمان میں منعقد ہوتی تھی لیکن نادر شاہ نے امان اللہ خان کے نام کو مٹانے کے لیے کابل سلطنت کے قصر کے قریب اپنے نام کو استقلال سے جوڑنے کے لیےاس مینار کو بنایا۔

عبد الواسع ھیلہ من 17؍ اگست 2016ء کو ’’بشر دوستان‘‘ کی سائٹ پر شائع ہونے والے مضمون میں بیان کرتےہیں کہ جشن آزادی صوبہ کابل کے پغمان طاق ظفر میں منایا جاتا تھا نہ کہ کابل شہر میں جیسا کہ اب منایا جاتا ہے۔

نبی مصداق تاریخ کے استاد ہیں۔انہوں نے 12؍ اکتوبر 2016ء کو enikassradio.comکو ایک انٹرویو دیتے ہوئے بھی یہی مضمون بیان کیا۔

اب خاکسار مینار استقلال کی پرانی تصویر آپ کی خدمت میں پیش کر کے پھر کچھ حقائق بیان کرے گا تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہوکہ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی شہادت کی جگہ کہاں ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کی جائے شہادت کے متعلق فرمایا تھاکہ وہ ایک چوک میں گھروں کے درمیان تھا۔ یہ تصویر واضح بتا رہی ہے کہ نہ تو یہ کسی چوک میں ہے اور نہ ہی وہاں گھر ہیں۔ خاکسار نے خود بھی ان سب جگہوں کو دیکھا ہے یہ مینار پریذیڈنٹ پیلس کے پاس ہے۔ اگر یہ وہی مینار ہوتا تو پہلی نشانی یہ بتائی جاتی کہ محل کے پاس ہے۔

مینار نجات

اب خاکسار اصل مینار جو کہ مینار نجات کے نام سے مشہور ہے اور خاکسار کی تحقیق کے مطابق حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب شہید رضی اللہ عنہ کی جائے شہادت ہے کے متعلق چند امور بیان کرے گااور حقائق کی روشنی میں ثابت کرنے کی کوشش کرے گا کہ یہی وہ جگہ ہےجہاں حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کو شہید کیا گیا۔

یہ مینار نجات کی پہلی شکل ہے۔ یہ تصویر اسماعیل یون صاحب کی کتاب ’’مینار نجات‘‘سے لی گئی ہے۔

اب اس مینار کی تاریخ اور تعمیر کے متعلق مختصر اًقارئین کی خدمت میں چند باتیں پیش ہیں۔

یہ مینار نادر شاہ کے دَور میں 1929ء میں حبیب اللہ کلکانی جو بچہ سقاو کے نام سے مشہور ہے کی حکومت کو گرانے اور اس کے چنگل سے آزاد کرانے کی یاد میں پشتون یا افغان قوم کی درخواست پر بنایا گیا کہ افغان قوم کسی کی غلام نہیں ہوسکتی۔

یون صاحب لکھتے ہیں کہ کابل کے لوگوں نے بالا حصار کے کونے لاہوری دروازے اور شاہ شہید علاقے کے درمیان چار راہی یا چوک کو پسند کیا اور یہ دن 1979ء تک نجات کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا رہا۔ 1979ء میں یہ مینارپشتون لوگوں نے گرادیا۔

(نیمہ پیڑی یون /نجات څلی( مينار نجات دوباره بنانے کی کہانی) یعنی پچاس سالہ یون صفحہ 257/2019)

روحی افغان اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ یہ مینار نادر شاہ کے وقت بنا اور افتتاح 1930ء میں ہوا اور 1979ء میں کمیونسٹ حکومت نے توڑا۔

(Rohi.AF 15-10-2016)

ویکی پیڈیا کے مطابق 1930ء میں یہ مینار نادر شاہ کے دَورمیں بنایا گیا۔ بالاحصار دروازہ لاہوری اور شاہ شہید کے درمیان ہے۔ اور پچھلی حکومتوں نے اسےگرادیا۔

(ps.m.wikipedia.org)

مینار نجات دوبارہ 2016ءمیں اسی جگہ تعمیر ہوا جہاں پہلے تھا۔

اب خاکسار حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی بیان فرمودہ علامتوں کی روشنی میں جائزہ لے گا کہ ’’مینار نجات‘‘ ہی وہی مینار ہے جہاں صاحبزادہ صاحبؓ کو شہید کیا گیا۔

پہلی بات یہ کہ جس آرکیٹیکٹ نے یہ بنایا اس کا کہنا ہے کہ میں بچہ تھا جب حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کو سنگسار ہوتے ہوئے دیکھا۔ یہ واقعہ1903ء کی بات ہے۔

٭…حبیب اللہ خان کا دَور1901ءسے1919ءتک تھا۔ اس کے بعد امان اللہ خان کا دَور1919ء سے1929ء تک ہے۔ حبیب اللہ خان کے دَورکا بچہ امان اللہ خان کے دَور تک جوان ہو چکا تھا۔ لہٰذا اس وقت یہ آرکیٹیکٹ اس عمر کو پہنچ گیا کہ اسے زندگی کا تجربہ حاصل ہو۔ اس کے بعد نادر شاہ کے وقت میں اس نے یہ مینار نجات بنایا۔

٭…اس مینار کی یہ علامات تھیں کہ وہ ایک چوک اور گھروں کے درمیان ہے۔ یہی ایک مینار ہے جس پر دونوں علامات پوری اترتی ہیں۔

٭…خاکسار کے خاندان کے ایک بزرگ حضرت مولوی سید غلام محمد صاحب رضی اللہ عنہ جو حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کے شاگرد تھے اوربہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہیں۔ انہوں نے اپنے بچوں کو بار ہا بتایا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں صاحبزادہ صاحبؓ کو شہید کیا گیا۔ بالاحصار سے اوپر پہاڑی پر ہمارے گھر تھے وہاں سے یہ جگہ خوب نظر آتی ہے۔

٭…ہمارے بزرگوں نے ہمیں یہ بھی دکھاکر بتایا کہ جہاں مینار بنا ہے وہاں چوک ہے اوراس سے 50میٹر کے فاصلے پر میدان میں صاحبزادہ صاحبؓ کو شہید کیا گیا جو اَب بالاحصار کے احاطے میں ہے۔ اُس وقت یہ ایک ہی جگہ تھی۔

٭…حفیظ اللہ شاہین ایک مصنف ہیں۔کابل اور کابلستان سوشل میڈیا پر ایک گروپ ہے فیسبک پر جس کا خاکسار بھی ممبر ہے اوربہت سارے ریسرچرز اور استاد پرانے کابل کے متعلق اس میں مضامین لکھتے اور تصاویر شائع کرتے ہیںاس میں وہ قدیم کابل کے متعلق اپنے 16؍جولائی 2020ء کے مضمون میں لکھتے ہیں کہ بالا حصار کا ایک دروازہ ہے جہاں عموما ًموت کی سزا دی جاتی تھی دروازہ خونی کے نام سے مشہور تھا۔ یہ لاہوری دروازے کی طرف گیٹ ہے جو بالکل یہی جگہ ہے۔

پس مینار نجات ہی وہ جگہ ہے جو افغان روح کی آزادی کی یادگار کے طور پر بنایا گیا اور واقعتاً صاحبزادہ صاحبؓ کی جائے شہادت ہے۔

آخرپرخاکساراس بات کا اظہار کرنا چاہتا ہےکہ اگر کبھی حالات ٹھیک ہوئے تو ممکن ہے کہ ہمیں مزید ایسے شواہد ملیں جن میں حضرت صاحبزادہ صاحب رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت کی تصاویر وغیرہ شامل ہوں۔ اس سےتحقیق میں مزید سہولت پیدا ہو گی اور ثبوت مزید واضح ہو کر سامنے آئیں گے۔

خاکسار اپنی تحقیق کو حرف آخر نہیں سمجھتا۔ تحقیق کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button