خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 18؍ ستمبر 2020ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابی حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

فتح مکّہ کے روزرسول اللہﷺ نے حضرت بلالؓ کو خانہ کعبہ کی چھت پر اذان دینے کا حکم دیا اسی طرح آپؐ جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئےاور کعبےکے دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھی تو حضرت بلالؓ بھی آپؐ کے ہم راہ تھے

قربانیاں دینی پڑتی ہیں تبھی مقام ملتا ہے۔اسلام کی یہ خوب صورت تعلیم ہے کہ جو شروع سے قربانیاں کرنےوالے اور وفا دکھانے والے ہوں چاہے وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہوں ا ن کا مقام بہرحال اونچا ہے

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 18؍ ستمبر 2020ء بمطابق 18؍ تبوک 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیزنےمورخہ 18؍ ستمبر 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینےکی سعادت مکرم سفیر احمد صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

بدری صحابہ میں حضرت بلالؓ کا ذکر چل رہا تھا۔غزوۂ خیبر سے واپسی پر جب پڑاؤ کیا گیا تو رسول اللہﷺ نے حضرت بلالؓ سے فرمایا کہ آج رات تم ہماری نماز کے وقت کی حفاظت کرو۔یعنی نماز کے وقت ہمیں جگا دینا۔ حضرت بلالؓ اپنی استعداد کے مطابق نوافل ادا کرتے رہے لیکن نمازِ فجر سے پیشتر آپؓ کی بھی آنکھ لگ گئی۔ پس نمازِ فجر پر نہ تو بلالؓ جاگ سکے اور نہ ہی دھوپ نکلنے تک کسی ا>ور کی آنکھ کھلی۔رسول اللہﷺان میں سب سے پہلےبیدار ہوئےاور آپؐ نے بلالؓ کو بلوایا ۔حضرت بلالؓ نے نیند کے غلبے کا عذر بیان کیا جس پر آنحضرتﷺ نے اس مقام سے کُوچ کا ارشادفرمایا۔ کچھ دُور چلنے کےبعد آپؐ نے نماز کی تیاری کا حکم دیا۔اس موقعےپر بھی حضرت بلالؓ نےاقامت کہی اورنمازکے بعد آنحضورﷺنے فرمایاکہ جو نماز بھول جائے توچاہیے کہ جب یاد آئےتو اسے پڑھ لے۔

فتح مکّہ کے روزرسول اللہﷺ نے حضرت بلالؓ کو خانہ کعبہ کی چھت پر اذان دینے کا حکم دیا۔اسی طرح آپؐ جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئےاور کعبےکے دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھی تو حضرت بلالؓ بھی آپؐ کے ہم راہ تھے۔

حضرت مصلح موعودؓ فتح مکّہ کے موقعے پر حضرت بلالؓ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت عباسؓ ابوسفیان کو لےکر آنحضورﷺ کی مجلس میں حاضر ہوئے جہاں اُس نے آپؐ کی بیعت کی اور رسول کریمﷺ کو رشتےداری کا واسطہ دے کر اہلِ مکّہ کے لیے امان طلب کی۔ آنحضورﷺ نے ہر اس شخص کےلیے امان کا اعلان فرمایا جوخانہ کعبہ میں یاابوسفیان کےگھرمیںداخل ہوجائے،جوہتھیارپھینک دےیا اپنے ہی گھر کے دروازے بندکرلے۔ ابوسفیان نے عرض کی کہ گلیوں والے بےچارے تو مارے جائیں گے۔ اس پر آپؐ نے ایک جھنڈا تیار کروایا اور فرمایا کہ جو بلال کے جھنڈے کے نیچےکھڑاہوگااسے بھی امان دی جائے گی۔اس پرابوسفیان نے تسلی کا اظہار کیا اور ان باتوں کااعلان کرتا ہوا مکّے میں داخل ہوگیا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ اس واقعے میں جو سب سے عظیم الشان بات ہے وہ بلالؓ کا جھنڈا ہے۔ آنحضورﷺ سردار تھے لیکن آپؐ سمیت کبار صحابہ اور صاحبِ اثر افرادمیں سے کسی کا کوئی جھنڈا کھڑانہ کیا گیا۔ اُس وقت صرف بلالؓ ایک ایسے شخص تھے جن کی مکّےمیں کوئی رشتے داری نہ تھی اور آپؓ پر جو ظلم ہوا تھا ویسا ظلم بھی کسی اَور پر نہیں ہواتھا۔پس آج جب اسلامی لشکر دس ہزار کی تعداد میں مکّےمیں داخل ہورہا تھاتو بلالؓ سوچتے ہوں گے کہ اب مجھ پرہونے والے مظالم کا بدلہ لیاجائے گا۔ ایسےمیں جب رسولِ خداﷺکی طرف سےامان عطاکیے جانےکا اعلان ہوا ہوگاتو بلالؓ سوچتے ہوں گے کہ میرا بدلہ تورہ گیا۔ آپؐ نے جب دیکھا کہ آج صرف ایک شخص ہے جسے میرے معاف کردینے سے تکلیف پہنچ سکتی ہے تو آنحضورﷺ نے اس کا ایسا بدلہ لیا کہ جب سے دنیا بنی ہے اور جب سے انسان نے طاقت حاصل کی ہےکسی نے ایسا عظیم الشان بدلہ نہیں لیا۔ آنحضورﷺنے تمام ظالموں کو پابند کردیا کہ اگر اپنی اوراپنے بیوی بچوں کی جان بچانی ہے تو بلال کے جھنڈے کے نیچے آؤ۔ہر وہ شخص جس کی جوتیاں بلالؓ کے سینے پر پڑتی تھیں اس کے سرکو بلالؓ کی جوتی پر جھکا دیا گیا۔ یہ وہ بدلہ تھا جو یوسفؑ کےبدلے سے بھی شان دارتھا کیونکہ یوسف نے تو اپنے باپ کی خاطراپنے بھائیوں کو معاف کیا تھا مگر محمدﷺ نے اپنے چچوں اور بھائیوں کو ایک غلام کے طفیل معاف کیا۔

حضورِانور نے’سیرِروحانی‘ کے حوالےسےدرج بالا تفصیل پیش کرنےکے بعد ’دیباچہ تفسیر القرآن‘ سے اس واقعےکی قدرے مختصر روایت بھی پیش فرمائی۔ حضورِانور نے فرمایا کہ بعض لوگ دونوں بیانوں میں بڑے نکتے نکال کر فرق بنانا شروع کردیتے ہیں۔ دونوں بیانوں میں تفصیل اور اختصار کے علاوہ واقعے اور نتیجے کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔

نجاشی شاہِ حبشہ نے آنحضورﷺ کو تین نیزے تحفے میں بھیجےتھے جن میں سے ایک آپؐ نے اپنے لیے رکھ لیا تھا۔عید ین پر حضرت بلالؓ رسول کریم ﷺ کے آگے آگےوہ نیزہ لے کر چلتے اور ایک مخصوص مقام پر اسے گاڑ دیتے،آپؐ اسی کی طرف نماز پڑھتے۔ رسول اللہﷺ کے بعد حضرت بلالؓ اسی طرح حضرت ابوبکرؓ کے آگے چلا کرتے تھے۔

آنحضورﷺکی وفات کے بعد حضرت بلالؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے جہاد پر جانے کی اجازت چاہی تو آپؓ نے فرمایا کہ مَیں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں اوراپنی حرمت اور حق یاد دلاتا ہوں۔ مَیں بوڑھا اور ضعیف ہوگیا ہوں، میری موت کا وقت قریب ہے اس وجہ سے میرے پاس ٹھہر جاؤ۔ حضرت بلالؓ اس شرط پر مکّےمیں مقیم رہنے پر آمادہ ہوئے کہ آنحضرتﷺ کے بعد وہ کسی کےلیےاذان نہ دیں گے۔حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعدحضرت عمرؓ نےبھی اسی طرح اصرار کیا لیکن حضرت بلالؓ جہاد پرجانے کےلیے مُصر رہے تو امیرالمومنین حضرت عمرؓ نے آپ کواجازت عنایت فرمادی۔

جب حضرت بلالؓ شام میں مقیم تھے تو ایک مرتبہ آپؓ نے نبی کریمﷺ کو خواب میں دیکھا ۔آپؐ فرماتےتھے کہ اے بلال! یہ کیسی سنگ دلی ہے کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم ہماری زیارت کے لیے آؤ۔ حضرت بلالؓ نہایت رنج کی حالت میں بیدار ہوئے ،مدینے پہنچ کر نبی کریمﷺ کے روضۂ مبارک پر حاضر ہوکر زاروقطار رونے لگے۔ حضرت حسن و حسین وہاں پہنچے۔ حضرت بلالؓ نے انہیں بوسہ دیا اورگلے لگایا۔ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ نے حضرت بلالؓ سے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ صبح کی اذان آپؓ دیں۔ راوی کہتے ہیں کہ اُس روز حضرت بلالؓ کی اذان سن کر فرطِ جذبات سےمدینہ لرز اٹھاا ور لوگوں کو نبی کریمﷺ کا زمانہ یاد آگیا۔

ایک روایت کے مطابق جب حضرت عمرؓ شام تشریف لےگئے توآپؓ کے کہنے پر حضرت بلالؓ نے اذان دی۔

حضرت مصلح موعودؓ بلالؓ کےآخری زمانے کا ذکر کرتےہوئے فرماتے ہیں کہ بلالؓ آخری عمر میں شام چلے گئے تھے۔ وہاں آپؓ نے ایک جگہ رشتے کےلیے درخواست کی اور کہا کہ مَیں حبشی ہوں چاہو تو رشتہ نہ دو اور اگر رسول کریمﷺ کا صحابی سمجھ کر مجھے رشتہ دے دو تو بڑی مہربانی ہوگی۔انہوں نے رشتہ دے دیا اور آپؓ شام ہی میں ٹھہر گئے۔

حضرت عمرؓ نے شام میں وظیفوں کےلیےدفتر مرتب کروائے تو بلالؓ سے دریافت فرمایا کہ تم اپنے حساب کتاب کے لیے کسے نمائندہ مقرر کروگے۔ حضرت بلالؓ نے جواب دیاکہ ابورویحہ کو، جنہیں مَیں اُس اخوت کی وجہ سے جو رسول اللہﷺ نے میرے اور ان کے درمیان قائم فرمائی تھی،کبھی نہ چھوڑوں گا۔

حضرت بلالؓ کی صاف گوئی کا ایک واقعہ یوں ملتا ہے کہ آپؓ کے بھائی خود کو عرب کی طرف منسوب کرتے اور یہی خیال کیا کرتے کہ وہ اُن ہی میں سےہیں۔ انہوں نے ایک عرب عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا جنہوں نے یہ شرط رکھی کہ اگر بلال آئیں گے تو ہم نکاح کردیں گے۔ بلالؓ وہاں گئے اور تشہدپڑھ کر فرمایا کہ مَیں بلال بن رباح ہوں اور یہ میرا بھائی ہے لیکن یہ اخلاق اور دین کے لحاظ سے اچھا آدمی نہیں ہے۔تم نکاح کرنا چاہو تو کردو اوراگر ترک کرنا چاہو تو ترک کردو۔ انہوں نے کہا کہ جس کےآپؓ بھائی ہیں اس سے ہم نکاح کردیں گے۔

ایک مرتبہ بعض لوگ آنحضرتﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور کہاکہ فلاں شخص سے ہماری بہن کا نکاح کردیں۔آپؐ نے فرمایا بلال کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔ وہ لوگ تین مرتبہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپؐ متواتر یہی جواب دیتے رہے۔ تیسری مرتبہ بلالؓ کا ذکر کرنے کےبعدآپؐ نے فرمایا تم لوگوں کا ایسے شخص کے بارے میں کیا خیال ہے جو اہلِ جنّت میں سے ہے۔ اس پر ان لوگوں نے حضرت بلالؓ سے اپنی بہن کا نکاح کردیا۔

ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے عہدِ مبارک میں عیدکےدن قریش کےبڑے بڑےرؤسا کےبچے حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اتفاق سےاسی وقت بلالؓ،عمارؓاور صہیبؓ وغیرہ آپؓ کوملنے کےلیے آئے۔ حضرت عمرؓ نے بلالؓ وغیرہ اصحاب کو اپنے نزدیک جگہ دینے کےلیے اُن رؤسا کے بچوں کو پیچھے ہٹنے کا ارشاد فرمایا یہاں تک کہ وہ پیچھے ہٹتے ہٹتے جوتیوں تک جا پہنچے۔باہر نکل کرجب انہوں نے ایک دوسرے سےاس ذلّت کا ذکر کیا تو انہی میں سےایک نے کہا کہ یہ ہمارےباپ دادا کے اعمال کا نتیجہ ہے۔پھر ان سب نےحضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی کہ اس ذلّت کے داغ کو دھونے کا کیاطریقہ ہے۔ حضرت عمرؓ ا س بات پر اس قدر جذباتی ہوئے کہ ان کی بات کا کوئی جواب نہ دے سکے اور صرف ہاتھ کے اشارے سے شام کی طرف اشارہ کردیا جہاں اس وقت اسلامی افواج مصروفِ جہا د تھیں۔ وہ نوجوان اسی وقت اونٹوں پر سوار ہوئے اور شام کی طرف روانہ ہوگئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ان میں سے ایک بھی شخص زندہ واپس نہیں آیا۔

خطبے کے اختتام پرحضورِانور نے فرمایا کہ قربانیاں دینی پڑتی ہیں تبھی مقام ملتا ہے۔اسلام کی یہ خوب صورت تعلیم ہے کہ جو شروع سے قربانیاں کرنےوالے اور وفا دکھانے والے ہوں چاہے وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہوں ا ن کا مقام بہرحال اونچا ہے۔ حضرت بلالؓ کا ذکر ابھی جاری ہے باقی ان شاء اللہ آئندہ بیان ہوگا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button