متفرق مضامین

عالمی یوم امن

(انیس احمد خلیل۔ مربی سلسلہ)

 International Day Of Peace

  یہ دن کب منایاجاتاہے

عالمی یوم امن International Day Of Peace ہر سال 21 ستمبر کو منایا جاتا ہے۔

اس دن کا آغاز

1981ء میں اقوام متحدہ نے قرار داد منظور کی کہ جنرل اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے قبل ہر سال ستمبر کے تیسرے منگل کو عالمی یوم امن کے طور پر منایا جائے گا۔ پہلی مرتبہ امن کےعالمی دن کو 1982ء میں منایا گیا تھا۔2001ء میں سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے نئی قرارداد پیش کی کہ یہ دن ہر سال 21؍ستمبر کو منایا جائے۔ تب سے عالمی یوم امن21ستمبر کو منایا جاتا ہے۔

یہ دن منانے کا مقصد

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اس دن کو دنیا بھر میں جنگ اور عدم تشدد کا دن قرار دیا ہے۔ جسے منانے کا مقصد دنیا میں نفرتوں اور جنگ وجدل کو ختم کرکے محبت کو بڑھانا ہے۔لوگوں میں امن کی اہمیت اور امن کی ضرورت بتانا ہے۔عالمی یوم امن کے موقع پر عالمی برادری توقع کرتی ہے کہ بڑے ممالک اپنی جابرانہ اور جنگی پالیسیوں کو ختم کرکے دنیا میں امن پھیلانے کےلیے اقدامات کریں گے۔اس دن کی مناسبت سے مختلف ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں سمیت امن کے لیے جدوجہد کرنے والی این جی اوز کے زیراہتمام خصوصی ورکشاپس، سیمینار و دیگر تقریبات کا اہتمام کیا جائے جاتاہے۔

اس دن کی تھیم

 اقوام متحدہ ہر سال اس دن کی کوئی تھیم مقرر کرتی ہےامسال اس دن کی تھیم ہے “Shaping Peace Together”۔

اس سال نےانسانیت کو متحد رہنے کا اس لحاظ سے بڑا اہم سبق دیا ہے کہ موجودہ وبائی حالات نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ تمام ممالک مل کو مل کرکورونا وائرس کا مقابلہ کرنا ہو گا جس نے ہماری صحت،اور نظام زندگی کو نقصان پہنچایاہے۔ COVID-19نےہمیں یہ ماننے پر مجبور کردیا ہے کہ دنیا میں ایک جگہ رو نما ہونے والا واقعہ پوری دنیا پر اپنا اثر ڈال سکتا ہے۔

مارچ میں یو این کے جنرل سیکرٹری António Guterresنے تما م متحارب جماعتوں کو اپنے ہتھیار ڈالنے کا کہا اور کورونا وائرس کے خلاف پوری دنیا میں ہونے والی جنگ پر توجہ کرنے کا کہا۔

اس دن کا افتتاح

 افتتاح کے لیے،’’امن کی گھنٹی‘‘ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر (نیویارک ) میں بجائی جاتی ہے۔اس گھنٹی کو افریقہ کے علاوہ تمام براعظموں سے بچوں کی طرف سے عطیہ کردہ سکوں کی مدد سے تیار کیا گیا ہے، اوریہ گھنٹی جاپان کی اقوام متحدہ کی ایسوسی ایشن کی طرف سے ایک تحفہ ہے جو’’جنگ کی انسانی قیمت‘‘ کی یاد دلاتا ہے۔ گھنٹی کے کنارے پرلکھا ہے:’’ مطلق عالمی امن زندہ باد۔‘‘

امن کی علامت

اڑتی ہوئی سفید فاختہ یا کبوتر جو کہ اپنی چونچ میں زیتون کی شاخ لیے ہوتی ہے عام طور پر اس دن کے حوالہ سے علامت ہوتی ہے۔یہودیت،عیساءیت اور اسلام میں سفیدکبوتر عام طورپر امن کی علامت سمجھاجاتاہے۔کبوتر ’’امن کی امید‘‘ یا ایک شخص سے دوسرے شخص کو سلامتی کی پیش کش کی نمائندگی بھی کرسکتا ہے، لہذا یہ جملہ’’زیتون کی شاخ کو بڑھانا‘‘ہے۔ اکثر، کبوتر کو نمائندگی کے طور پر لوگوں کو میسنجر کے طور پر اس کے کردار کی یاد دلانے کے لیے پرواز میں ہوتا ہے۔

امن کی ضرورت و اہمیت

سورۃ ابراہیم آیت 35 میں حضرت ابراہیمؑ نے جو دعا مانگی اس میں سب سے پہلے اللہ سے امن کی دعا کی۔ اس سے امن کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔انسانوں کو امن کی ضرورت اس لیے ہے کہ اگر اپنے رہنے سہنے کی جگہ میں خوف و خطر اور دشمنوں کے حملوں سے امن و اطمینان نہ ہو تو نہ دنیوی اور مادی اعتبار سے ان کی زندگی خوشگوار ہو سکتی ہے اور نہ دینی اور روحانی اعتبار سے۔ دنیا کے سارے کاموں اور راحتوں کا مدار تو امن و اطمینان پر ہے، جو شخص دشمنوں کے نرغوں اور مختلف قسم کے خطروں میں گھرا ہوا ہو اس کے سامنے دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت، کھانے پینے، سونے جاگنے کی بہترین آسانیاں، اعلیٰ قسم کے محلات اور بنگلے، مال و دولت، سب تلخ ہو جاتی ہیں۔ دینی اعتبار سے بھی ہر طاعت و عبادت اور احکام الٰہیہ کی تعمیل انسان اسی وقت کر سکتا ہے جب اس کو کچھ سکون و اطمینان نصیب ہو۔اس دنیا میں کون ایسا ہو گاجو امن و آشتی اور سکون و سلامتی نہیں چاہتا ہو۔اپنے جسم و جان،خاندان اور عزت و آبرو کی سلامتی سب کو عزیزہے۔امن کاآرزو مند ہو ناانسان کی فطرت میں داخل ہے،اس لیے ہر وجود امن اور سلامتی چاہتاہے کیونکہ امن و سلامتی معاشرہ،افراد،اقوام اورملکوں کی ترقی و کمال کےلئے انتہائی ضروری ہے۔

اور کسی دانشور نے کہا ہےکہ

” الأمنُ أهنأُ عيش، والعدلُ أقوَى جيشٍ”

پرسکون زندگی امن میں ہےاور طاقتور فوج چاہیے تو عدل کرو۔

اور کسی نے کہاہےکہ

’’امن ہوتو انسان تنہائی میں بھی وحشت محسوس نہیں کرتا، جبکہ خوف کی وجہ سے انسان جلوت میں بھی مانوس نہیں ہوتا‘‘اور کسی نے یوں کہا

’’بد امنی میں تونگری سے امن میں تنگدستی بہتر‘‘

اسلام امن و صلح آشتی کا مذہب

اگر تمام اسلامی عبادات اور معاملات سے لے کر آئین اور قوانین سیاست و حکومت تک کا بغور جا ئزہ لیاجائے تو ان تمام چیزوں سے امن و سلامتی اور صلح و آشتی کا عکس جھلکتا ہے جو اسلام کا مقصود و مدعا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نہ صرف امن کا حامی اور دعوےدار ہے بلکہ قیام امن کو ہر حال یقینی بنانے کی تاکید بھی کرتاہے۔

اسلام ایک امن وسلامتی والا مذہب ہے،جو نہ صرف انسانوں بلکہ حیوانوں کے ساتھ بھی نرمی کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس عظیم دین کا حسن دیکھیے کہ اسلام ’’سلامتی‘‘ اور ایمان ’’امن‘‘ سے عبارت ہے اور اس کا نام ہی ہمیں امن و سلامتی اور احترام انسانیت کا درس دینے کےلیے واضح اشارہ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ، صبر و برداشت، عفو و درگزر اور رواداری سے عبارت ہے۔اسلام کی بدولت ایک ایسا معاشرہ تشکیل پایا جو تاریخ انسانی کا سب سے زیادہ باکمال اور شرف سے بھرپور معاشرہ تھا اور اس معاشرے کے مسائل کا ایسا خوشگوار حل نکالا کہ انسانیت نے ایک طویل عرصے تک زمانے کی چکی میں پس کر اور اتھاہ تاریکیوں میں ہاتھ پاؤں مار کر تھک جانے کے بعد پہلی بار چین کا سانس لیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کی بقاء کے لیے سب سے پہلے جان،مال،عزت،خاندان کے تحفظ کا حق اور اجتماعی طور پر پورے انسانی معاشروں کے تحفظ کے حقوق کا نہ صرف رسمی اعلان کیا بلکہ یقینی طور پر اس کے عملی نفاذ کی ضمانت فراہم کرکے جبر واستبداد اور استحصال طرز زندگی کا ناطقہ بند کر دیا۔

حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ” اَلمُسلِم ُ مَن سَلِمَ المُسلِمُونَ مِن لِسَانِہِ وَ یَدِ ہِ “یعنی مسلمان وہ ہے جس کے زبان اور ہاتھ سے دو سرے مسلمان محفو ظ ہوں۔ انسان اکثر او قات اپنی زبان اور ہاتھ دوسروں کو نقصان پہنچاتاہے اس لیے اسے اپنے ہا تھ اور زبان پر قابو رکھنے کی ہدایت ہو ئی تاکہ انسان دوسرے لو گوں کو امن و سکو ن کی نعمت سے محروم نہ کر سکے۔

تاریخی اور اصلاحی لحاظ سے اسلام لفظ” سِلم‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی صلح وامان اور سلامتی ہے۔اسلام کے اسی معنی اور مفہوم کے پیش نظر ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان سے ملتاہے تو ” السلام علیکم‘‘رہتا ہے جس کے معنی ہیں تجھ پر سلامتی ہو۔”سلام‘‘ایک دعائیہ کلمہ ہے اور اﷲتعالیٰ کے اسما ئے حسنہ میں سے ایک ہے جس میں اپنے اور دوسروں کے لیے امن و سلامتی کی خو اہش اور آرزو شامل ہے۔ چونکہ اسلام اس نظام حیات کا نام ہے جس میں انسان ہر قسم کی تباہی،آفت اور بر بادی سے محفوظ رہے اور دنیا میں بھی امن و سلامتی اور صلح و آشتی قا ئم کرنے کاموجب ہو۔وہ سفر زند گی میں دوسرے افراد معاشرہ کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ چلے اور کوئی کام ایس نہ کرے جس سے معاشرے کے امن میں کو ئی خلل واقع ہو۔

اصطلاح دین میں اسلام کے معنی اطاعت و فر مانبر داری اور سر تسلیم خم کرنے کے بھی ہو تے ہیں یعنی کوئی شخص اﷲ تعا لیٰ کے منشا اور خوا ہش کے مطابق زندگی گزارے اور اس کی خواہش اور مرضی پر اپنی خواہش کو ترجیح نہ دے تو وہی شخص اسلام اور سلامتی کے محفوظ پنا ہ گاہ میں ہوگا جہاں ہر قسم کے خطرات سے انسان سلامت رہےگا۔جیسا کہ حضرت علی علیہ السلام نے بھی اپنے ایک خطبے کے آغاز میں اسلام کو امن و سلامتی کا قلعہ قرار دے کر فرمایا ہے کہ

” اَلحَمدُﷲِ ِالَّذِی شَرَعَ الاِسلاَمَ فَسَھَّلَ شَرَا ئِعَہُ لِمَن وَرِدَہُ وَاَعَزَّاَرکاَنَہُ عَلیٰ مَن غَا لَبَہُ فَجَعَلَہُ اَمنَا لِمَن عَلِقَہُ وَسِلمَ لِمَنْ دَخَلَہُ

ساری تعریف اس خداکے لیے ہے جس نے اسلام کا قانون معین کیا تو اس کے ہر گھا ٹ کو واردہو نے والے(قبول کرنے والے) کے لیے آسان بنا دیااور اس کے ارکان کو ہر مقابلہ کرنے والے کے مقابلے میں مستحکم بنادیا۔اس نے اس دین کو وابستگی اختیار کرنے والوں کے لیے جائے امن اور اس کے دائرہ میں داخل ہو نے والوں کے لیے محل سلامتی بنادیا۔

اسلام صلح کا مذہب

بانی جماعت احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:

’’اسلام وہ پاک  اور صلح کا مذہب تھاجس نے کسی قوم کے پیشوا پر حملہ نہیں کیااور قرآن وہ قابل تعظیم کتاب ہے جس نے قوموں میں صلح کی بنیاد ڈالی اور ہر ایک قوم کے نبی کو مان لیا‘‘(پیغام صلح صفحہ30)

نیز فرمایا:

’’وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا میں اور اس کی مخلوق کےرشتہ میں جو کدورت واقع ہوگئی ہے اس کو دور کرکے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں اور سچائی کے اظہار سے مذہبی جنگوں کا خاتمہ کرکے صلح کی بنیاد ڈالوں۔‘‘

(لیکچر لاہور صفحہ 47)

تم امن پسند جماعت بنو

حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

’’دنیا کا کام امن پر موقوف ہے۔اگر امن دنیا میں قائم نہ رہے تو کوئی کام نہیں ہو سکتا۔جس قدر امن ہوگا اسی قدر اسلام ترقی کرے گا۔اس لئے ہمارے نبی کریم ﷺ امن کے ہمیشہ حامی رہے۔آپﷺنے طوائف الملوکی میں جو مکہ معظمہ میں تھی اور عیسائی سلطنت کے ماتحت کس طرح کا کوئی کام دین و دنیا کا ہم عمدگی سے نہیں کر سکتے۔اس واسطے میں تاکید کرتاہوں کہ امن بڑھانے کی کوشش کرو اورامن کےلئے طاقت کی ضرورت ہے۔وہ گورنمنٹ کے پاس ہے۔میں خوشامد سے نہیں بلکہ حق پہنچانے کی نیت سے کہتا ہوں کہ تم امن پسند جماعت بنو تا تمہاری ترقی ہو اور تم چین سے زندگی بسر کرو۔

اس کا بدلہ مخلوق سے مت مانگو۔اللہ سے اس کا بدلہ مانگو۔اور یاد رکھو کہ بلا امن کوئی مذہب نہیں پھیلتا اور نہ پھول سکتاہے۔میں اس کے ساتھ یہ بھی کہتا ہوں کہ حضرت صاحب کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ گورنمنٹ کے اس احسان کے بدلہ میں ہم اگر امن کےقائم کرنےمیں کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ اس کا نتیجہ ہم کو ضرور دے گا اور اگر اہم خلاف ورزی کریں تو اس کے بد نتیجے کا منتظر رہنا پڑے گا۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد چہارم صفحہ 453تا454 )

دنیا میں امن پیدا کرو اور اقوام میں صلح کی کوشش کرو

حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتےہیں:

’’یاد رکھو کہ تمہیں اس غرض سے بنایا گیا ہے کہ تم دنیا میں امن پیدا کرو۔اس وقت ہم دنیا میں ہر طرف لڑائی دیکھتے ہیں اور فساد برپا پاتےہیں۔ ممکن ہے کہ اس لڑائی میں صلح کا انعام اور اس فساد کے فرو کرنے کی عزت ہماری اس نسل کو ملے یا ہماری آئندہ نسل کو مگر یہ ضرورہے کہ ملے گی مسیح موعود علیہ السلام ہی کی جماعت کو۔پس میں نصیحت کرتاہوں کہ ہماری جماعت کے لوگ حضرت اقدس علیہ الصلوٰة والسلام کے وقت میں افراد کو جمع کیا گیااور آپ نے ان کے سامنے صلح پر زور دیااور اس طرح صلح کرانے کی بنیاد رکھی۔اب اس جماعت کا جسے مامور کے ہاتھ پر جمع کیا گیا ہےیہ کام ہے کہ اقوام میں صلح کرائے۔اور ممکن ہے یہ کام تمہاری اس موجودہ نسل سے ہی لیا جائے۔

پس میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ آپس میں نہ لڑو۔میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ ایک بھائی دوسرے بھائی کے خلاف زبان درازی نہ کر ے…بلکہ میں تمہیں وہ کہتا ہوں جس کا حضرت مسیح ناصری نے ارادہ ظاہر کیا تھاکہ’’تم اپنے دشمنوں کے لئے مہربان اور دنیا کے لئے امن قائم کرنے والے بنو۔‘‘مگر اس پر عمل نہ کرا سکےاور ان کی جماعت اس کی مصداق نہ بنی۔حضرت مسیح ناصری نے خیال کیا تھا کہ شاید وہی ’’امن کا شہزادہ ‘‘ کے خطاب کے مخاطب اور اس بشارت کے مستحق ہیں۔اس لئے انہوں نے اپنے ماننے والوں کو یہ کہا مگر ان کی قوم تو جنگ کی بانی ہوئی۔درحقیقت یہ ان کے لئے بشارت نہ تھی بلکہ ان کے عظیم الشان مثیل کے لئے تھی جو محمد ﷺ کا بھی مظہر تھا۔پس خدا نے مسیح موعود کی جماعت کےلئے چاہا کہ وہ دشمنوں میں صلح کا موجب ہو خواہ دشمنوں کی کتنی ہی زیادہ اور اس کی جماعت کتنی ہی قلیل ہو …پس میری یہ نصیحت ہے کہ تم ایک مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہو جو یہ ہے کہ تم دنیا کے فساد کو دور کرو اور دنیا میں صلح کراو تاکہ دنیا کو پتہ لگ جائے کہ مسیح موعود محض بھائی کو بھائی بنانے نہیں بلکہ دشمن کو بھائی بنانے آیا تھا۔‘‘

(خطبات محمود جلد 8صفحہ 226تا230)

 دنیا کا امن اسلام ہی سے وابستہ ہے

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز فرماتےہیں :

’’ آج دنیا میں امن و امان ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ہر طرف خوف اوربدامنی ہے۔اسلحہ اور انسانی تباہی کے ہتھیار عام ہوگئےہیں۔ایک انسان دوسرے انسان کا دشمن بناہواہے۔مضبوط قومیں اپنے سے کمزور قوموں پر مظالم ڈھا رہی ہیں۔دہشتگردی ختم کرنے کے نام پر دہشتگردی ہورہی ہے۔پھر میڈیا نے بھی خوف و ہراس کی فضا پیدا کرنے میں کوئی کسر روا نہیں رکھی۔ان حالات سے نکلنے کی ایک ہی راہ ہے کہ مسلمان اپنے عمل سے اسلا م کوبدنام کرنا چھوڑ دیں۔وہ اسلام کی حقیقی تعلیم کو اپنائیں اور باہم متحد ہوجاءئیں۔غیر اقوام کی بھی بھلائی اسی میں ہےکہ وہ اسلام کے جھنڈے تلے آجائیں کیونکہ دنیا کا امن اسلام ہی سے وابستہ ہے۔‘‘

(ہفت روزہ بدر قادیان 26۔19دسمبر 2013ء)

حقیقی امن کےلیے اپنےخالق کی طرف آناہوگا

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز فرماتےہیں:

’’سب سے بڑھ کر اس امر کی ضرورت ہے کہ دنیا اس بات کا احساس کرے کہ وہ اپنے خالق کو بھلا چکی ہے اور یہ کہ اسے واپس اپنے خالق کی طرف آنا ہوگا اور یہی وہ واحد راہ ہے جس سے حقیقی امن قائم ہو سکتاہےاور اس کے بغیر امن کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 5؍دسمبر 2014ء)

دنیاوی امن کا قیام بھی مسیح موعود علیہ السلام سے ہی وابستہ

 حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز فرماتےہیں:

’’پس اب جہاں روحانی ترقیات حضرت مسیح موعودعلیہ السلام سے جڑنے سے وابستہ ہیں وہاں دنیاوی امن کا قیام بھی مسیح موعود سے ہی وابستہ ہے کیونکہ آپ نے ہی آنحضرت کے اس ارشاد کو پورا فرمایاکہ دنیا کو پیار محبت اور صلح کی طرف بلاتے ہوئے،اسے قائم کرنے کی تلقین کرتے ہوئے اور خداتعالیٰ کے حقوق قائم کرتے ہوئے،اللہ تعالیٰ کے نور سے منور کریں اوردنیا کے امن کا ذریعہ بن جائیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 4؍دسمبر 2009ءصفحہ 7)

آج حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی غلامی میں آپ کے پانچویں خلیفہ قرآن و حدیث کی تعلیمات اور آنحضرت ﷺکی پاکیزہ سیر ت کے حوالے سے دنیا بھر میں اسلام کے پر امن پیغام کی اشاعت کے حقیقی جہاد میں مصروف ہیں۔ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے امام کی اقتدا میں اس عظیم الشان مہم میں بھر پور حصہ لیں اور اسلام کی امن و سلامتی کی حقیقی تعلیمات کونہ صرف اپنے اوپر لاگو کریں بلکہ غیروں کو بھی اسلام کے پر امن حصار میں آنے کی دعوت دیں اور دیتے چلے جائیں تا آنکہ زمین سے ہر قسم کے ظلم اور ناحق خونریزیوں کاخاتمہ ہو کریہ عدل اور امن اور صلح کاری سے بھر جائے۔آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button