حضرت مصلح موعود ؓ

ہماری جماعت میں بکثرت حفاظ ہونے چاہئیں (قسط اوّل)

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ

(فرمودہ ۲۹؍ اپریل ۱۹۴۶ء بعد نماز مغرب بمقام قادیان)

حضرت مصلح موعودؓ نے یہ تقریر مؤرخہ 29؍ اپریل 1946ء کو بوقت بعد نماز مغرب بمقام قادیان دارالامان ارشاد فرمائی جس میں تحریک فرمائی کہ قرآن کریم کا چرچا اور اس کی برکات کو عام کرنے کے لیے ہماری جماعت میں بکثرت حفاظ ہونے چاہئیں۔ چنانچہ فرمایا کہ

’’صدر انجمن احمدیہ کو چاہئے کہ چار پانچ حفاظ مقرر کرے جن کا کام یہ ہو کہ وہ مساجد میں نمازیں بھی پڑھایا کریں اور لوگوں کو قرآن کریم بھی پڑھائیں۔ اسی طرح پر جو قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتے اُن کو ترجمہ پڑھا ویں۔ اگر صبح و شام وہ محلوں میں قرآن پڑھاتے رہیں تو قرآن کریم کی تعلیم بھی عام ہو جائے گی اور یہاں مجلس میں بھی جب کوئی ضرورت پیش آئے گی تو ان سے کام لیا جا سکے گا۔ بہرحال قرآن کریم کا چرچا عام کرنے کے لئے ہمیں حفاظ کی سخت ضرورت ہے۔‘‘

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ۔نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

پرسوں ایک دوست مجھ سے ملنے کے لئے آئے تو انہوں نے ذکر کیا کہ وہ اپنے لڑکے کو قرآن شریف حفظ کرانا چاہتے ہیں مگر کہا کہ جو دوست بھی ملتا ہے یہی کہتا ہے کہ ایسا نہ کیجئے بچے پر بوجھ پڑ جائے گا اور وہ بیمار ہو جائے گا۔ مَیں نے جواب دیا کہ شیطان تو ہمیشہ ہی نیک کام میں دخل دیا کرتا ہے آپ اسے بھی شیطانی وسوسہ سمجھ لیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ جہاں ہر جماعت میں کچھ لوگ شیطان کے قائمقام ہوتے ہیں وہاں مومن بھی بعض دفعہ اپنی کمزوری سے ایسے لوگوں کو دلیر کر دیتے ہیں۔ آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی عبداللہ بن ابی بن سلول جیسے لوگ ہوتے تھے اور وہ لوگ ایسی باتیں کرتے تھے جن کے نتیجہ میں دین کی تنظیم اور اس کی ترقی کے سامان پیدا نہ ہوں یا پیدا ہوں تو کوئی روک واقع ہو جائے اسی طرح آجکل بھی ایسے لوگ ہو سکتے ہیں۔ پھر بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں جو دین کی ترقی کو دیکھ ہی نہیں سکتیں، بعض طبائع حسد رکھتی ہیں اور جب دیکھتی ہیں کہ کوئی شخص قرآن حفظ کر رہا ہے یا دین کی طرف توجہ کر رہا ہے تو وہ ڈرتے ہیں کہ اگر اسی طرح یہ طریق جاری رہا تو لوگ ہم پر الزام لگائیں گے کہ تمہارے حالات بھی تو ایسے ہی تھے تم نے یہ کام کیوں نہ کیا۔ اس وجہ سے ان کے دلوں میں حسد کی آگ بھڑک اُٹھتی ہے اور اس ڈر سے کہ ہم پر کوئی الزام عائد نہ کرے وہ چاہتے ہیں کہ دوسروں کو نیک کام کرنے سے ورغلا دیں۔

جب آدم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی تو شیطان کو غصہ آیا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا مقرب ہو گیا اور مَیں نہیں ہوا اور اُس نے چاہا کہ کسی طرح اِس سے بھی نافرمانی کرائیں۔ چنانچہ آدمؑ اور شیطان والا قصہ ہمیشہ دُہرایا جاتا ہے۔ آخر ہر شخص آدمؑ کی اولاد میں سے ہے پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اسے آدمؑ کا ناک تو ملے، آنکھ تو ملے، کان تو ملے، دھڑ تو ملے غرض سب چیزیں اسے آدمؑ کی ملیں مگر آدمؑ کا شیطان اسے نہ ملے یا آدمؑ کے فرشتے اسے نہ ملیں۔ جب اسے آدمؑ کی ہر چیز ملی ہے تو ضروری تھاکہ اسے آدمؑ کا فرشتہ اور آدمؑ کا شیطان بھی ملتا۔ چنانچہ دنیا میں ہزاروں لوگوں کو کچھ نیک صلاح دینے والے مل جاتے ہیں، کچھ بد صلاح دینے والے مل جاتے ہیں۔ جو آدمؑ کے نقش قدم پر چلنے والا ہوتا ہے۔

فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْ لَہٗ عَزْمًا (طٰہٰ:116)

کے مطابق اگر کبھی غلطی سے اس کی بات مان بھی لے تو بعد میں ہوشیار ہو جاتا ہے اور اس کے اصل تعلقات فرشتے سے ہی رہتے ہیں لیکن جس کے اندر آدمیّت کم ہوتی ہے قدرتی طور پر وہ شیطان کی طرف جھک جاتا ہے۔ مگر جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے اس میں کچھ حصہ مومنوں کی کمزوری کا بھی ہوتا ہے۔ مومن بھی ایسی باتیں سن کر جرأت نہیں کرتے کہ دوسرے کو سمجھائیں ورنہ اگر ذرا بھی جرأت سے کام لیں تو دوسرے کو کبھی ورغلانے کی جرأت نہ ہو۔

مَیں نے پہلے بھی قصہ سنایا ہے کہ ضلع گجرات کے پانچ بھائی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں یہاں آیا کرتے تھے، مدت تک رہتے اور محبت سے سلسلہ کی باتیں سنتے۔ قادیان کے مقدس مقامات کی وسعتِ شان اور عظمت جس کو اب لوگ دیکھتے اور اس طرح آنکھیں بند کر کے گزر جاتے ہیں کہ ان کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ ہم کسی نشان کے پاس سے گزر رہے ہیں اُس زمانہ میں نہیں تھی مگر پھر بھی آنے والے چھوٹی چھوٹی باتوں سے اپنے ایمانوں کو تازہ کر لیا کرتے تھے۔ اب تو منارۃ المسیح ہے، مسجد اقصیٰ ہے، بہشتی مقبرہ ہے اور قدم قدم پر انسان کے ایمان کو تازہ کرنے والے نشانات موجود ہیں مگر اُس زمانہ میں صرف ایک چھوٹی سی مسجد تھی جس میں نماز پڑھی جاتی تھی۔ اب بھی یہ مسجد چھوٹی ہی کہلاتی ہے حالانکہ بہت سے قصبوں کی جامع مسجدوں کے برابر ہے مگر پہلے واقعہ میں چھوٹی ہوا کرتی تھی اور فی صف صرف چھ آدمی پھنس پھنس کر آتے تھے۔ اگر پتلے آدمی ہوتے یا ان میں کوئی بچہ بھی شامل ہوتا تو سات بھی آ جاتے۔ اس مسجد میں چھ صفیں ہوا کرتی تھیں اور وہ بھی ایسی حالت میں جب کہ نمازی جوتیوں تک چلے جائیں اور مسجد پوری بھری ہوئی ہو گویا مسجد میں صرف 36آدمی آ سکتے تھے اور وہ بھی پھنس پھنس کر۔ اگر کھلے طور پر کھڑے ہوتے تو اس سے بھی کم آتے۔ بچپن میں مَیں صفیں اور ان صفوں میں کھڑے ہونے والے آدمیوں کو گِنا کرتا تھا اور مَیں نے دیکھا ہے کہ بہت شاذ ایسا ہوتا کہ کسی صف میں سات آدمی ہوتے ورنہ بعض دفعہ چھ اور بعض دفعہ پانچ آدمی ہی ایک صف میں کھڑے ہوتے تھے ۔اب بھی وہ جگہ موجود ہے اور پرانی مسجد کے نشانات باقی ہیں اس میں کھڑے ہو کر دیکھ لو۔ بچے اگر کھڑے ہو جائیں تو ایک صف میں سات بچے آ سکتے ہیں اور اگر بڑے کھڑے ہوں تو چھ سے زیادہ کھڑے نہیں ہو سکتے اور وہ بھی پھنس کر کھڑے ہونگے۔ یہ مسجد ہوا کرتی تھی مگر اِسی کو دیکھ دیکھ کر لوگوں کے ایمان تازہ ہو جاتے تھے۔ وہ یہاں آتے، بیٹھتے اور ذکرِ الٰہی کرتے اور جب مسجد سے باہر نکلتے تو باغ میں چلے جاتے اورایک دوسرے سے کہتے یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے والد صاحب کا باغ ہے۔ اُس زمانہ میں مقبرہ بہشتی نہیں ہوتا تھا اب تو لوگ مقبرہ بہشتی میں دعا کے لئے جاتے اور اپنے ایمان تازہ کرتے ہیں مگر اُن کا ایمان صرف باغ کو دیکھ کر ہی تازہ ہو جاتا تھا اور اُنہیں خدا تعالیٰ کی قدرت کا وہ نظارہ نظر آنے لگتا تھا جو آجکل کے لوگوں کو بڑے بڑے نشانات دیکھ کر بھی نہیں آتا۔ وہ 36آدمیوں کی مسجد کو دیکھ کر کہتے کہ ہمارے خدا میں کتنی بڑی طاقت ہے۔ کجا یہ حالت تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ایک آدمی بھی نہیں تھا اور کجا یہ حالت ہے کہ 36آدمی مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے آتے ہیں۔ اسی طرح وہ مسجد اقصیٰ کو دیکھتے تو ان کے ایمان اور زیادہ تازہ ہو جاتے اور کہتے اَللّٰہُ اَکْبَرُ ہماری ایک جامع مسجد بھی ہے۔ اُن کو یہی بڑا نشان نظر آتا تھا کہ ہماری پانچ وقتہ نماز کیلئے الگ مسجد ہے اور جمعہ پڑھنے کے لئے الگ مسجد ہے۔ یہ دوست جن کا مَیں ذکر کر رہا ہوں جب یہاں آئے تو تین یا تین سے زیادہ تھے ان میں سے ایک بھائی جلدی جلدی آگے چلا جا رہا تھا اور تین چار پیچھے تھے یا ایک آگے تھا اور دو تین پیچھے تھے۔ ہمارے ایک ماموں تھے مرزا علی شیر صاحب جو مرزا سلطان احمد صاحب کے خسر تھے جہاں اب دارالضعفاء ہے وہاں ان کی زمین ہوتی تھی اس زمین میں انہوں نے باغ لگایا اور ترکاریاں وغیرہ بو دیں۔ یہی ان کا شغل تھا کہ وہ ہر وقت وہاں بیٹھے رہتے۔ باغ کی نگرانی رکھتے اور ترکاریوں وغیرہ کو دیکھتے رہتے۔ ساتھ ساتھ ایک لمبی تسبیح جو اِن کے ہاتھ میں ہوتی تھی اس پر ذکر بھی کرتے چلے جاتے تھے۔ وہ پیری مُریدی کیا کرتے تھے مگر بالکل ابو جہل کے نقشِ قدم پر تھے جس طرح ابوجہل کو جب کوئی ایسا آدمی ملتا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر سن کر مکہ میں آیا ہوتا تو وہ اس سے ملتا اور کہتا کہ یہ تو محض دکانداری ہے اگر اس کے اندر کچھ بھی صداقت ہوتی تو مَیں نہ مانتا مَیں تو اس کا رشتہ دار ہوں۔ اسی طرح مرزا علی شیر صاحب کو جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے والوں میں سے کوئی مل جاتا تو وہ اسے ورغلانے کی کوشش کرتے اور کہتے تم کہاں پھنس گئے ہو مَیں انہیں خوب جانتا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ یہ محض مکر اور فریب سے ایک دکان نکال لی گئی ہے ورنہ سچائی کہاں ہے اگر سچائی ہوتی تو مَیں قبول نہ کرتا۔ مَیں تو ان کا رشتہ دار ہوں۔ وہ سارے بھائی مل کر چونکہ باغ کی طرف جا رہے تھے اور ایک ان میں سے آگے آگے تھا اس لئے مرزا علی شیر صاحب نے جب اُس کو دیکھا تو آواز دی کہ بھائی صاحب! ذرا اِدھر تشریف لائیے۔ وہ آئے تو اس کو بٹھا کر انہوں نے تقریر شروع کر دی اور کہا کہ کیا آپ مرزا صاحب سے ملنے آئے ہیں؟ اُنہوں نے جواب دیا کہ ہاں۔ مرزا علی شیر صاحب کہنے لگے دیکھئے! مَیں محض آپ کی بھلائی اور فائدہ کے لئے کہتا ہوں کہ آپ اِس خیال کو جانے دیں ہم آپ کے دلی خیر خواہ ہیں ہم آپ کو سچ سچ بتاتے ہیں کہ اس شخص نے محض ایک دکان نکال لی ہے اور آپ کا فائدہ اس میں ہے کہ اس کو چھوڑ دیں۔ جب وہ الفاظ کو خوب سجا سجا کر تقریر کر چکے تو انہوں نے بڑے جوش سے مرزا علی شیر صاحب کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا اور کہا اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ۔ مجھے تو آپ کے ملنے کا بڑا اشتیاق تھا اچھا ہوا کہ آپ کی ملاقات نصیب ہوگئی۔ مرزا علی شیر صاحب دل میں بڑے خوش ہوئے کہ آج خوب شکار ہاتھ آیا۔ وہ اسی طرح ان کے ہاتھ کو پکڑ کر بیٹھے رہے پھر انہوں نے زور سے اپنے بھائیوں کو آوازیں دینی شروع کیں کہ جلدی آنا، جلدی آنا، ایک نہایت ضروری کام ہے۔ وہ بھاگے بھاگے آئے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے بھائی نے مرزا علی شیر صاحب کا ہاتھ پکڑا ہوا ہے اور مرزا علی شیر صاحب کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا ہے کہ آج خدا نے کیسے اچھے لوگوں سے میری ملاقات کرائی ہے جب وہ قریب آئے تو انہوں نے پوچھا کہ بتائیں کیا کام تھا؟ وہ کہنے لگے بات یہ ہے کہ ہم قرآن مجید میں روزانہ پڑھتے تھے اور اپنے مولویوں سے بھی سنتے تھے کہ دنیا میں ایک شیطان ہوا کرتا ہے مگر ہم نے اُسے کبھی دیکھا نہیں تھا آج خدا نے ہماری حسرت بھی پوری کر دی تو یہ سامنے شیطان بیٹھا ہے اسے خوب اچھی طرح دیکھ لو خدا نے بڑی مدت کے بعد ایسا اچھا موقع ہمیں نصیب کیا ہے کہ شیطان ہم نے دیکھ لیا ہے۔ اب یا تو وہ بڑے شوق سے انہیں اپنے پاس بٹھا کر اس طرح خاموش ان کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیٹھے تھے جس طرح ایک بزرگ بیٹھا ہوتا ہے اور یا جب انہوں نے یہ بات سنی تو ہاتھ چھڑانے لگ گئے مگر وہ نہ چھوڑیں اور یہی کہتے جائیں کہ بڑی مدت سے خواہش تھی کہ شیطان کو دیکھیں سو آج خدا نے ہماری یہ خواہش بھی پوری کر دی اور ہم نے شیطان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ تو اِس قسم کے لوگ ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں۔ اگر وہ بات سن کر اُٹھ کر چلا جاتا تو وہ اثر نہ ہوتا جو اس صورت میں اُس پر ہوا ہوگا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد چار پانچ ماہ تک انہوں نے کسی کو آواز نہیں دی ہوگی کہ آؤ اور میری بات سن جاؤ۔ اگر سارے مومن ایسی ہی غیرت دکھلائیں اور جب کوئی شخص انہیں ورغلانے کی کوشش کرے تو وہ بلند آواز سے أَعُوْذُ پڑھ کر اور بائیں طرف تھوک کر کہیں کہ قرآن کریم نے ہمیں یہی ہدایت دی ہے کہ جب تمہارے پاس شیطان آئے تو تم أَعُوْذُ پڑھ لیا کرو تو مَیں سمجھتا ہوں ایسے منافق کو بات کرنے کی جرأت ہی نہ ہو۔ وہ اسی وقت جرأت کرتا ہے جب سمجھتا ہے کہ منافق یا کمزور آدمی میری بات سن کر ہنستا رہے گا۔ اگر اس میں سچی غیرت ہو تو دوسرے شخص کو جرأت ہی نہیں ہو سکتی کہ اس سے ایسی باتیں کرے۔ بے غیرتی دوسروں میں بھی بے غیرتی پیدا کر دیتی ہے اور غیرت دوسروں میں بھی غیرت پیدا کر دیتی ہے۔

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button