خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 11؍ ستمبر 2020ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت بدری صحابی حضرت بلال بن رباح رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

حضرت بلالؓ کو سب سے پہلا مؤذن ہونے کا شرف حاصل ہے۔ رسول اللہﷺ کی ساری زندگی میں آپؓ سفروحضر میں مؤذن رہے

عزیزم رؤوف بن مقصود جونیئربیلجیم متعلم جامعہ احمدیہ یوکے، مکرم ظفر اقبال قریشی صاحب سابق نائب امیر ضلع اسلام آباد پاکستان،

آنریبل کابنے کاباجا کاٹے صاحب آف سینیگال اورمکرم مبشر لطیف صاحب ایڈووکیٹ سپریم کورٹ پاکستان کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 11؍ ستمبر 2020ء بمطابق 11؍ تبوک 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیزنےمورخہ11؍ستمبر2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم رانا عطاءالرحیم صاحب کے حصے میں آئی۔تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورةالفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج جن بدری صحابی کا ذکرکروں گا وہ ہیں حضرت بلال بن رباحؓ۔ آپؓ امیّہ بن خلف کے غلام تھے۔ حضرت بلالؓ کی والدہ حبشہ کی رہنے والی تھیں جبکہ آپؓ کے والد سرزمینِ عرب سے ہی تعلق رکھتے تھے۔آپؓ کی پیدائش مکّہ یا ایک روایت کےمطابق سُراہ مقام پر ہوئی۔ بلالؓ کا رنگ گندم گوں سیاہی مائل،جسم دبلا پتلا، بال گھنے اور رخساروں پر گوشت بہت کم تھا۔حضرت بلالؓ نے متعدد شادیاں کیں تاہم آپؓ کی کوئی اولاد نہ تھی۔ آنحضرتﷺ نے آپؓ کی نسبت فرمایا کہ بلال اہلِ حبشہ میں سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں۔

حضرت بلالؓ کو اسلام لانے کی پاداش میں سخت ترین عذاب دیا جاتا تاہم آپؓ ہر طرح کی سختی برداشت کرتے اور خدا کی وحدانیت کا نعرہ اَحد اَحد پکار کربلند کرتے رہتے۔ ایک روایت کے مطابق بلالؓ کو اُن کے مالکوں نے زمین پر لٹادیا اور سنگریزے اور گائے کی کھال آپؓ پر ڈال دی اور کہنے لگے کہ تمہارا ربّ لات اور عزیٰ ہے مگر آپ اَحد اَحد ہی کہتے رہے۔حضرت ابوبکرؓ نے یہ منظر دیکھا تو سات اوقیہ یعنی دوسَو اسّی درہم کے عوض آپؓ کو خرید کر آزاد کردیا۔ لوگوں نے کہا کہ ہم تو اسے ایک اوقیہ میں بھی بیچ دیتےتو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ اگر تم سَو اوقیہ میں بھی بیچتے تو مَیں اسے خرید لیتا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے کہ ابوبکر ہمارے سردار ہیں اور انہوں نے ہمارے سردار یعنی بلال کو آزاد کیا۔

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ حضرت بلالؓ کو دی جانے والی تکالیف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ بلال کو ان کے مالک تپتی ریت پر لٹا کر اوپر یا توبڑے بڑے گرم پتھر رکھ دیتے یا نَوجوانوں کو سینے پر کودنے کےلیے مقرر کردیتے۔لات اور عزیٰ کی الوہیت کے بار بار انکار پر امیّہ کو غصّہ آجاتا تو وہ آپؓ کے گلے میں رسّہ ڈال کر شریرلوگوں کے حوالے کردیتا جو بلالؓ کو مکّے کی گلیوں میں پتھروں پر گھسیٹتے پھرتے۔ اس وجہ سے آپؓ کا بدن خون سے تربتر ہوجاتا مگر وہ پھر بھی اَحد اَحد ہی کہتے چلے جاتے۔ ایک عرصے کےبعد جب خداتعالیٰ نے مسلمانوں کو مدینے میں امن دیا تو رسول اللہﷺ نے حضرت بلالؓ کو اذان دینے کے لیے مقرر فرمایا ۔ آپؓ ’ش‘ اچھی طرح ادا نہ کرپاتے اور

’’اَسْھَدُ اَن لَّااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ‘‘

کہتےجس پر مدینے کے ناواقف لوگ ہنستے ۔ایسے ہی ایک موقعے پر آپؐ نے فرمایا کہ تم بلال کی اذان پر ہنستے ہو مگر خداتعالیٰ عرش پر اس کی اذان سُن کر خوش ہوتا ہے۔حضرت بلالؓ کا شمار

السَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْن

میں ہوتا ہے۔ آپؓ نے اس وقت اسلام کا اعلان کیا جب صرف سات آدمیوں کواس کی توفیق ہوئی تھی۔

ہجرتِ مدینہ کے موقعے پر بلالؓ نے سعد بن خیثمہ کے گھر قیام کیا اور آپؓ کی مؤاخات حضرت عبیدہ بن حارث یا حضرت ابو رویحہ خیثمی کے ساتھ قائم ہوئی۔

مدینے کی آب و ہوا کے باعث ہجرت کے ابتدائی ایام میں مہاجر صحابہ بکثرت بیمار ہوئے جو رہ رہ کر مکّے کو یاد کیا کرتے۔ حضرت بلالؓ کہا کرتے کہ اے اللہ! شعبہ بن ربیعہ،عتبہ بن ربیعہ اور امیّہ بن خلف پر لعنت ہو جنہوں نے ہماری سرزمین سے وبا والی زمین کی طرف ہمیں نکال دیا۔ اس پر رسول اللہﷺ نے دعا کی کہ اے اللہ! مدینے کو ہمیں ویسا ہی پیارا بنادے جیسا کہ ہمیں مکّہ پیارا ہے بلکہ اُس سے بھی بڑھ کر۔

قادیان سے ہجرت کے موقعے پرتکالیف سے پریشان احمدیوں کو نصیحت کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ یہ خیال چھوڑ دو کہ تم لٹے ہوئے ہو، تم نے ہجرت کی ہے۔ رسول اللہﷺ اُن مہاجرین پر افسوس کیا کرتے تھے جو وطن اور جائیدادوں کے چھوٹ جانے پر افسوس کرتے۔ایک روز حضرت بلالؓ کو بخار ہوگیا تو انہوں نے شعر بنا بنا کر شور مچانا شروع کردیا۔ رسول اللہﷺ نے دیکھا تو خفا ہوئے اور فرمایا کہ کیا تم ایسے کام کےلیے یہاں آئے ہو۔ مَیں بھی تمہیں کہتا ہوں کہ خوش رہو ۔یہ نہ دیکھو کہ تم نے کیا کھویا ہے،تم دیکھو کہ ہم نے خداتعالیٰ اور اسلام کی ترقی کےلیےکھویا ہے۔ پس تم خوش رہو ۔

ہم احمدیوں کو اُس وقت کے خلیفہ کی طرف سے یہ نصیحت ملی تھی کہ ہماری ہجرت خداتعالیٰ اور اسلام کے لیے ہے۔ لیکن آج وہ لوگ جو پاکستان کی تعمیر کے خلاف تھے اُس کی اساس اور بنیاد کے دعوےدار بن کر اپنے جھوٹ اور فریب سے احمدیوں کو بنیادی شہری حقوق سے محروم کر رہے ہیں۔جس دین کی برتری اور خدمت کی خاطر ہم نے ہجرت کی ، پاکستان کی پارلیمان نے اپنے سیاسی مقاصد کی خاطرہم پر اُس دین کا نام لینے پر بھی پابندی لگا دی ہے۔ ہمیں ان کی کسی سند کی ضرورت نہیں لیکن افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ملک کے ان نام نہاد ٹھیکےداروں نے یہ ظلم صرف احمدیوں پر نہیں بلکہ پاکستان پر کیا ہے۔ یہ لوگ ملک کی بدنامی اور ترقی کو روکنےکا باعث بن رہے ہیں، دیمک کی طرح اس کی بنیادوں کو چاٹ رہے ہیں ۔ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان ظالموں سے اس ملک کو پاک کرے۔

اب مَیں دوبارہ حضرت بلالؓ کے واقعات بیان کرتا ہوں۔ آپؓ رسول اللہﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ غزوۂ بدر میں آپؓ نے انصار کی ایک جماعت کے ساتھ مل کر امیّہ بن خلف کو قتل کیا تھا۔ بلالؓ آنحضرتﷺ کے سیکرٹری یا خزانچی بھی تھے۔ ایک موقعے پر آنحضورﷺ نے عورتوں کو صدقہ دینے کی تلقین فرمائی تو عورتیں اپنے ہاتھوں کو جھکاجھکا کر اپنی انگوٹھیاں اتارتیں اور حضرت بلالؓ کے کپڑے میں ڈالتی جاتی تھیں۔

حضرت بلالؓ کو سب سے پہلا مؤذن ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔رسول اللہﷺ کی ساری زندگی میں آپؓ سفروحضر میںمؤذن رہے۔ نماز کے وقت بلانے کےلیےآنحضرتﷺ نےصحابہ کے مشورے سےناقوس اور بگل وغیرہ کا ارشاد فرمایا۔ پھر حضرت عبداللہ بن زیدؓ کو خواب میں اذان کے الفاظ سکھائے گئےتو آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ یہ خواب خداتعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کے مطابق وحی بھی ہوچکی ہے۔اس کے بعد رسولِ خداﷺکے ارشاد کے مطابق حضرت عبداللہ بن زیؓدحضرت بلالؓ کو اذان کے الفاظ بتاتے جاتے اور بلالؓ بلند آواز سے وہ کلمات دہراتے جاتے۔ حضرت عمرؓ نے یہ آواز سنی تو رسول اللہﷺ کی خدمت میں عرض کی کہ خدا کی قسم! مَیں نے بھی خواب میں وہی دیکھا جو انہوں نے دیکھا۔

حضرت بلالؓ اذان دےکر فارغ ہوتے تو نبی کریم ﷺکو اطلاع دینے کےلیے آنحضورﷺ کے دروازے پر کھڑے ہوجاتے اور کہتے

حَیَّ عَلیٰ الصّلوٰة حَیَّ عَلیٰ الصّلوٰة یَا رَسُوْل اللّٰہ

۔سنن ابن ماجہ میں حضرت بلالؓ سے روایت ہے کہ وہ نمازِ فجر کی اطلاع دینے کےلیے نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اُن سے کہا گیا کہ رسول اللہ ﷺسوئے ہوئے ہیں تو بلالؓ نے کہا

اَلصَّلوٰةُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْم۔

ایک دوسری روایت کے مطابق رسولِ خداﷺ نے فرمایا اے بلال! یہ کتنے عمدہ کلمات ہیں تم اپنی فجر کی اذان میں انہیں شامل کرلو۔

حضورِانور نے فرمایا کہ حضرت بلالؓ کا کچھ تھوڑا سا ذکر باقی ہے جو ان شاء اللہ آئندہ بیان ہوگا۔ خطبے کے دوسرے حصّے میں حضورِانور نے چار مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

پہلا ذکرِ خیر عزیزم رؤوف بن مقصود جونیئربیلجیم متعلم جامعہ احمدیہ یوکے کا تھا جو 4؍ستمبر کو بوجہ برین ٹیومر وفات پاگئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

مرحوم2018ءمیں جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔عزیزم خوش اخلاق، خوش گُفتار، وقف کی روح کو سمجھنےاور خلافت سے محبت کرنےوالے، نہایت روشن دماغ ، غیرمعمولی صلاحیتوں کے حامل نَوجوان تھے۔

دوسرا جنازہ مکرم ظفر اقبال قریشی صاحب سابق نائب امیر ضلع اسلام آباد کا تھا۔ مرحوم 3؍ستمبر کو ستّاسی برس کی عمر میں وفات پاگئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

آپ کے دادا عبیداللہ قریشی صاحب حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی تھے ۔ مرحوم پیشے کے اعتبار سے انجینئر تھے اور 1994ء میں چیف انجینئر کی حیثیت سے سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ 1998ء سے 2019ء تک آپ اسلام آباد کے نائب امیرکےطور پر خدمات بجالاتے رہے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ مرحوم بڑی بےنفسی اور عاجزی سے کام کرنے والے تھے۔

تیسرا ذکرِ خیر آنریبل کابنے کاباجا کاٹے صاحب آف سینیگال کا تھا جو 24؍اگست کو پچاسی برس کی عمر میں وفات پاگئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مرحوم18سال تک ملکی پارلیمان کے ممبر رہےاسی طرح مرکزی عاملہ میں بطور سیکرٹری امورِ خارجہ خدمت کی توفیق ملی۔آپ بڑے بہادر، مخلص، خلافت کے محبّ،مہمان نواز،اعلیٰ سیاسی اور انتظامی صلاحیتوں کے مالک تھے۔

اگلا ذکرِ خیر مکرم مبشر لطیف صاحب ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کا تھا جو 5؍مئی کو پچاسی برس کی عمر میںوفات پاگئے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

مرحوم سترہ برس فیصل ٹاؤن لاہور کے صدر جماعت رہے۔ پاکستان میں جماعت کی وکلا کی ٹیم میں مرحوم کو گراں قدر خدمات کی توفیق ملی۔آپ ان تین وکلا میں بھی شامل تھے جنہیں 1974ء میں جماعت کی نمائندگی کا موقع ملا۔ پنجاب یونی ورسٹی لاء کالج میں چھیالیس سال تک درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ مرحوم نے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ چھ بیٹیاں اور کئی نواسے نواسیاں یادگار چھوڑی ہیں۔

حضورِانور نے تمام مرحومین کی مغفرت اور بلندیٔ درجات کےلیے دعا کی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button