اختلافی مسائل

کیا مسیلمہ کذاب سے جنگ اس کے دعویٰ نبوت کی وجہ سے کی گئی؟؟

اگر نہیں تو پھر اصل وجہ کیا تھی!!!

آج کل نام نہاد علمائے اسلام سادہ لوح مسلمانوں کو یہ باور کراتے دکھائی دیتے ہیں کہ اسلام میں آنحضرتﷺ کے بعددعویٰ نبوت کرنے والے کی سزا قتل ہے۔ اور اس سلسلہ میں بڑے فخر سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ بابرکت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف مسلمانوں کی فوجی مہم کو پیش کیا جاتا ہے۔ یہ گمراہ کن پروپیگنڈا سوشل میڈیا پر جذباتی انداز میں بڑی کثرت سے موجود ہے۔

تاریخ کے ترازو میں جب اس دعوے کو پرکھا جائے تو حقیقت اس دعوے کے بالکل برعکس نظر آتی ہے۔ ہمیں پتہ چلتا ہے کہ مسیلمہ کذاب نے نہ صرف یہ کہ نبوت کا دعویٰ آنحضرتﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں کیا بلکہ حضورﷺ کو اپنے اس دعوے سے بذریعہ خط آگاہ بھی کیا۔ پھر دوسری جانب نبی اکرمﷺ نے نہ صرف اس کا خط وصول پایا بلکہ اس کے خط کا جواب بھی دیا۔ کیااس جھوٹے مدعیٔ نبوت کے خلاف نبی اکرمﷺ کے بابرکت وقت میں فوج کشی کی گئی؟ اس کا جواب ہمیں نفی میں ملے گا۔ لیکن جماعت احمدیہ کے خلاف پراپیگنڈے میں مشغول علمائے اسلام اس حقیقت کو چھپا جاتے ہیں۔

اس بات کے ثبوت میں کہ مسیلمہ کذاب کا دعویٰ نبوت آنحضرتﷺ کے زمانہ کا ہے ذیل میں دو کتب کے حوالے پیش کیے جاتے ہیں :

مسیلمہ کذاب نے رسول اﷲﷺ کی زندگی میں دعویٰ نبوت کیا تھا

اصح الکتب بعد کتاب اللّٰہ یعنی صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ

بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ إِذْ أُوْتِيْتُ خَزَائِنَ الْأَرْضِ فَوُضِعَ فِيْ يَدَيَّ سِوَارَانِ مِنْ ذَهَبٍ فَكَبُرَا عَلَيَّ وَأَهَمَّانِيْ فَأُوْحِيَ إِلَيَّ أَنْ انْفُخْهُمَا فَنَفَخْتُهُمَا فَطَارَا فَأَوَّلْتُهُمَا الْكَذَّابَيْنِ اللَّذَيْنِ أَنَا بَيْنَهُمَا صَاحِبَ صَنْعَاءَ وَصَاحِبَ الْيَمَامَةِ

(بخاری کتاب القعبیر باب النفخ فی المنام)

آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ میں سویا ہوا تھا۔ جب میرے سامنے زمین کے خزانے کیے گئے۔ پس میرے ہاتھوں میں سونے کے دو کنگن ڈالے گئے۔ ان دونوں کنگنوں نے مجھے پریشانی اور تکلیف میں ڈالا۔ میری طرف وحی کیا گیا کہ ان پر میں پھونک ماروں۔ پس میں نے ان پر پھونک ماری تو وہ دونوں کنگن اڑ گئے۔ میں نے اس خواب کی یہ تعبیر کی کہ سونے کے دو کڑوں سے مراد دو ایسے کذاب ہیں جن کے درمیان میں ہوں۔ ایک صاحب صنعاء (یعنی اسود عنسی )ہے اور دوسرا صاحب یمامہ(یعنی مسیلمہ کذاب)۔

توفیق الباری شرح صحیح بخاری میں اس کی تشریح میں لکھا ہے :

’’جہاں تک مسیلمہ ہے تو اس نے بھی آنجنابﷺ کی حیات ہی میں دعویٰ نبوت کردیا البتہ اس کی شوکت کا عظم اور محاربت عہد ابوبکر میں ہوئی تھی۔ ‘‘

(توفیق الباری شرح صحیح بخاری۔ کتاب التعبیرباب النفخ فی المنام :مترجم پروفیسر ڈاکٹر عبد الکبیر محسن۔ اشاعت فروری2013ء۔ مکتبہ اسلامیہ )

مسیلمہ کذاب کا خط

تاریخ ابن کثیر جو شہرہ آفاق عربی کتاب البدایہ و النہایہ کا اردو ترجمہ ہے کی جلد پنجم میں لکھا ہے کہ مسیلمہ کذاب نے رسول اﷲﷺ کی خدمت میں اپنے خط میں لکھا کہ

’’مسیلمہ رسول اﷲ (نعوذ باللہ) کی طرف سے محمد رسول اللہ(ﷺ ۔ فداہ ابی و امی) کی طرف۔ اما بعد!مجھے آپ کے ساتھ شریک امر کیا گیا ہے۔ پس ہمارے اور قریش کے لیے نصف نصف حکومت ہے۔ لیکن قریش ایسی قوم ہے جو زیادتی نہیں کرتی۔

پس آپ کے پاس دو ایلچی یہ خط لے کر آئے تو رسول اللہﷺ نے اس کی طرف لکھا:

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ محمد رسول اللہﷺ کی جانب سے مسیلمہ کذاب کی طرف۔ ہدایت کی پیروی کرنے والے پرسلامتی ہو۔ أَمَّا بَعْدُ۔ زمین کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ اوروہ اپنے بندوں مىں سے جسے چاہتا ہے اس کا وارث بناتا ہے اور انجام متقین کے لیے ہے۔

(تاریخ ابن کثیر از علامہ حافظ ابو الفداء عماد الدین ابن کثیر (متوفی 774ھ) جلد پنجم صفحہ 83۔ اردو ترجمہ مولانا اختر فتح پوری۔ نفیس اکیڈمی اردو بازار کراچی)

اس خط کے ابتدائی الفاظ ’مسیلمہ رسول اﷲکی طرف سے محمد رسول اللہ کی طرف‘ اس امر کی وضاحت کر رہے ہیں کہ رسول اﷲﷺ کی زندگی میں مسیلمہ نے دعویٰ نبوت کیا۔ بلکہ اس دعوے کا اس حد تک کھل کر اعلان کیا کہ آنحضرتﷺ کے نام اپنے خط میں اس کا ذکر کیا۔ آپﷺ نے اس بد بخت کو خط کا جواب بھی دیا لیکن مسیلمہ کے محض دعویٰ نبوت کی وجہ سے اس کے خلاف کسی لشکر کو بھیجنے کا ارشاد نہیں فرمایا۔ اب سوال یہ ہے کہ

٭…اگر خدا تعالیٰ نے شریعت اسلام میں جھوٹے مدعی نبوت کو قتل کرنا اسلامی حکومت کا فرض قرار دیا ہوتا تو آنحضرتﷺ مسیلمہ کذاب کا خط وصول ہونے کے بعد فوراً لشکر روانہ فرماتے۔ اس فتنے کا خاتمہ کرتے اور قیامت تک کے آنے والے مسلمانوں کے لیے اس میدان میں اپنا سنہری نمونہ چھوڑ جاتے۔ لیکن حضورﷺ نے ایسا نہیں کیا۔ جبکہ اس کے برعکس اپنی بابرکت زندگی کے آخری ایام میں رومی سرحدپر شورش کا پتہ چلا تو آپؐ نے ان کے خلاف حضرت اسامہؓ کی زیر قیادت لشکرتیار کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ اسی دوران آپ کی وفات ہوگئی تو حضرت صدیق اکبرؓ کے بابرکت دور میں یہ لشکر شام کی سرحد پر گیا۔

قارئین کی خدمت میں درخواست ہے کہ آنحضرتﷺ کی طرف سے لکھے جانے والے جواب کے الفاظ کو دوبارہ غور سے پڑھیں۔ حضور اکرمﷺ نے کتنے پُر حکمت الفاظ استعمال کیے ہیں۔ اگر حضور مدعی نبوت کی سزا قتل سمجھتے تو اسے کہتے کہ اپنے اس دعویٰ سے توبہ کرو۔ اور اگر توبہ نہ کی تو میں تمہیں اس جھوٹے دعوی کا مزا چکھانے اور تمہاری سرکوبی کے لیے ایک لشکر جرار روانہ کررہا ہوں۔ لیکن رحمۃ للعالمینﷺ تحریر فرماتے ہیں کہ ہدایت کی پیروی کرنے والے پر سلامتی ہو۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے زمین کا وارث بناتا ہے۔ انجام متقین کا ہوا کرتا ہے۔ گویا اس خط میں ہمارے آقا و مولاﷺ نے ہمیں تعلیم یہ دی کہ جھوٹا مدعی نبوت جتنے مرضی دعاوی کرتا پھرے وہ خائب و خاسر رہے گا۔ اللہ جسے چاہے گا زمین کا وارث بنائے گا۔ کامیابی ہمیشہ متقیوں کو ملتی اور ناکامی و نامرادی ہمیشہ جھوٹوں کے مقدر میں لکھی جاتی ہے۔

یہ ہے سنت محمدیﷺ، ہمارے آقا و مطاعﷺ فداہ ابی و امی کا حسین عملی نمونہ، جو قرآن کریم کی مذہبی آزادی اور حریت ضمیرکی تعلیمات کے عین مطابق ہے، جو لا اکراہ فی الدین، یعنی دین کے معاملے میں جبر نہیں، کی عملی تصویر ہے۔ افسوس صد افسوس !بعض متشدد اور انتہا پسند ذہنوں کو یہ دلربا اور دلکش سنت محمدی کیسے بھول جاتی ہے۔ اور سادہ لوح عوام کو دھوکا دینے کی غرض سے صدیق اکبرؓ کے زمانے میں مسیلمہ کے خلاف جہاد بالسیف کو کس طرح حقائق سے ہٹا کر توڑ مروڑ کرپیش کیا جاتا ہے۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مسیلمہ کذاب کے خلاف فوج کشی کی اصل وجہ

اب طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکرؓ نے پھر اپنے دور خلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف کیوں جہاد کیا۔ تاریخ اسلام کی مشہور و معروف کتب میں اس امر کا ذکر ہے کہ مسیلمہ نے مدینہ کی اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی۔ آنحضرتﷺ کے مقرر کردہ عامل کو وہاں سے بے دخل کردیا۔ مسلمانوں کو شہید کیا۔ پورے عرب پر حکومت کرنے کے لیے بہت بڑا لشکر تیار کیا۔ پس مسیلمہ کذاب کے خلاف لشکر کشی کی وجہ اس کی بغاوت اور محاربت تھی۔ اورآج بھی اگر کوئی علاقہ یا صوبہ ملک کی مرکزی حکومت کے خلاف بغاوت کرتا ہے اور ہتھیار اٹھاتا ہے تو اس مہذب دور میں بھی کوئی حکومت ایسی بغاوت کو برداشت نہیں کرے گی۔ بلکہ اسی طرح فساد اور بغاوت کو کچلے گی جیسا کہ مدینہ کی اسلامی ریاست نے کیا۔ اور یہ ایسا اصول ہے جو کسی بھی عقل مند کے نزدیک قابل اعتراض نہیں ہے۔

(ساجد محمود بٹر۔ گھانا)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button