یورپ (رپورٹس)

جماعت احمدیہ جرمنی کا تبلیغی بائیسکل ٹور

بائیسکل کے حوالے سے یورپ کے ملک ہالینڈ نے اپنی خصوصی پہچان بنا رکھی ہے لیکن ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بائیسکل کلچر جرمن ثقافت کا حصہ بن چکا ہے۔ بائیسکل کے حوالے سے جرمنی کے شہر Münsterکو دنیا بھر کی درجہ بندی میں دوسرا مقام حاصل ہے۔ جرمنی کے تمام بڑے شہروں کی 15 فیصد آبادی سائیکل کو مستقل زیراستعمال رکھتی ہے۔ جرمنی میں 2019ء میں چار بلین یوروز کی سائیکلیں فروخت ہوئیں۔ سائیکل کی مارکیٹ میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ اب جبکہ کورونا وائرس کی وجہ سے عام لوگ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے سے کترا رہے ہیں بائیسکل کی مانگ پیداوار سے زیادہ ہو چکی ہے۔ کورونا پھیلنے کے بعد جرمنی کے بعض علاقوں میں بائیسکل ہاٹ کیک کی طرح فروخت ہوگئیں۔ حکومت نے موسمی اثرات سے محفوظ رہنے اور گرمی کی شدت میں کمی لانے کے لیے ڈیزل اور پٹرول گاڑیوں کے استعمال کو کم کرنے کے لیے جو متبادل ترجیحات متعارف کروائی ہیں ان میں بائیسکل کے رواج کو مزید بڑھانے اور سائیکل انڈسٹری کو بنیادی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے900 ملین یورو بجٹ میںرکھے ہیں۔

جرمنی کی 83 ملین آبادی میں 80 ملین بائیسکل کی موجودگی بتاتی ہے کہ ہر چلنے پھرنے کے لائق شہری بائیسکل کا استعمال بھی کرتا ہے۔ برصغیر کے ممالک میں سائیکل انسانی ضروریات کا حصہ رہی ہے اس کی وجہ ٹرانسپورٹ کے بہتر نظام کی عدم موجودگی ہے۔

سائیکلوں پرخدام الاحمدیہ کے اجتماعات اور جلسہ سالانہ میں شرکت کے لیے آنا احمدیہ کلچر کا حصہ ہے۔ کئی برسوں سے جرمنی کے نوجوان جلسہ سالانہ برطانیہ میں شرکت کے لیے سائیکلوں پر سفر کرکے جلسہ گاہ پہنچتے ہیں ان میں مکرم امیر صاحب جرمنی بھی شامل ہیں۔ کووِڈ 19کی پابندیوں میں نرمی کے بعد جرمن عوام کو مساجد میں دوبارہ سے خوش آمدید کہنے کے لیے مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی، شعبہ تبلیغ جماعت جرمنی اور پریس سیکشن امور خارجہ جرمنی نے مل کربائیسکل پر ایک تبلیغی و معلوماتی ٹور منظم کیا۔ جس کا عنوا ن تھا ’’نفرت کے خلاف اور عدم تشدد کی تعلیم کے لیے مسلمانوں کا بائیسکل پر سفر‘‘۔

فرانکفرٹ کے گردونواح کا وہ علاقہ جس کو جرمنی کے دو مشہور دریاؤں رائن اور مائن نے اپنی آغوش میں لے رکھا ہے۔ وہاں اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو محض اپنے فضل سے دس سے زائد مساجد تعمیر کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اس سائیکل ٹور کو اس طرح ترتیب دیا گیا تھا کہ سائیکل سوار ان دس مساجد کو وزٹ کر سکیں۔ جہاں کی مقامی جماعتوں نے اہل علاقہ اور اپنے ہمسایوں کو بائیسکل ٹور کی اغراض اور مساجد کے دوبارہ کھل جانے کی خوشخبری دے کر ٹور کے پہنچنے والے وقت سے مطلع کر رکھا تھا۔ سب سائیکل سوار مخصوص وردی زیب تن کیے ہوئے تھے جس پر محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں، عدم تشدد کی ضرورت جیسے الفاظ لکھے ہوئے تھے۔

25؍جولائی2020ء کو بائیسکل سواروں کا یہ قافلہ صبح ساڑھے نو بجے میر صاحب جرمنی مکرم عبد اللہ واگس ہاؤزر صاحب کی قیادت میں جامعہ احمدیہ جرمنی سے ملحقہ مسجد بیت العزیز Riedstadt سے دعا کے ساتھ روانہ ہوا تو اس میں 15 خدام شامل تھے۔ 17؍کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ان کی پہلی منزل مسجد نور الدین Darmstadt تھی۔ جہاں سے مقامی خدام اس قافلے میں شامل ہوئے۔ یہاں سے 23 کلومیٹر کی مسافت طے کر کے مسجدبیت الباقی میں مختصر وقفہ ہوا جہاں سے مقامی خدام قافلہ میں شامل ہوئے۔ قافلہ جن جن مساجد کے پاس سے گزرتا اہل علاقہ،ہمسائے اور مقامی جماعت کے افراد ممبران قافلہ کو خوش آمدید کہتے۔ دوپہر تک مسجد انوار Rodgau اور مسجد بیت الہادیSelingenstadt میں احباب جماعت اور مہمانوں کے ملنے کے بعد دوپہر ایک بجے قافلہ مسجد بیت الاحد Hanau پہنچا یہاں دوپہر کے کھانے اور نمازوں کی ادائیگی کے بعد شعبہ تبلیغ کی طرف سے سیمینار کا اہتمام تھا۔جس کا عنوان تھا ’’نفرت اور تشدد کے خلاف جدوجہد‘‘۔

Hanauوہ شہر ہے جہاں فروری میں ایک شخص نے حملہ کرکے دس غیر ملکیوں کو ہلاک کردیا تھا اور بعد میں اپنی زندگی کا بھی خاتمہ کرلیا تھا۔ اس واقعے کے خلاف پورے جرمنی میں تعزیتی اجلاسات منعقد ہوئے تھے۔ جرمن صدر اور چانسلر نے Hanau آکر سرکاری تقریب میں شرکت کی تھی۔ مسجد بیت الاحد میں ہونے والی اس تقریب میں امیر صاحب جرمنی کے علاوہ گرین پارٹی کے صوبہ Hessenکے صدر Mr. Philip Krämer اور فری ڈیموکریٹ پارٹی کے Mr. Michael Rubin اور شہر Rüsselsheimکے Mr. Marc Nogueira نے خطاب کیا۔

دو گھنٹے کے وقفے کے بعد دوبارہ سفر کا آغاز ہوا اور جن مساجد کو وزٹ کیا گیا ان میں Offenbach میں مسجد بیت الجامع، نور مسجد فرانکفرٹ، مسجد سبحان Mörfelden۔ مسجدبیت الشکور Gross-Gerau شامل تھیں۔ ہر مسجد سے نئے نوجوان قافلہ میں شامل ہوتے رہے اور جب 140 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے واپس مسجد عزیز Riedstadtپہنچے تو قافلہ ممبران کی تعداد 150تھی۔

خدا کے فضل سے یہ تبلیغی ٹور ہر لحاظ سے کامیاب رہا اور مساجد کے علاقوں میں رہنے والی عوام کو متوجہ کرنے کا باعث بنا۔ مساجد جو کورونا کے مخصوص حالات میں محدود سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھیں وہ اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے پھر سے فعال ہو چکی ہیں۔الحمد ِللہ

(رپورٹ: عرفان احمد خان۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button