متفرق مضامین

میرا گھر، میری جنت

(رؤف شبنم۔ جرمنی)

ایک نومولود بچےکے کھانے پینے اور اسےسنبھالنے کی ساری ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے ماں باپ،اس کے بڑوں اور اس کے ماحول پر رکھی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جس کا بچہ پیدائش کے پہلے لمحے سے ہی دیکھ بھال اور توجہ کی ضرورت رکھتا ہے ورنہ جو چھوٹے بڑے جانور ہیں ان کے والدین اکثراس ذمہ داری سے مبرا ہیں اور قدرت کا نظام ان کی حفاظت اور دیکھ بھال ازخودکرتا ہے۔انسان اشرف المخلوقات ہے پس اس کے کردار میں نکھار ہونا چاہیے۔لیکن اگر اس کے گھر میں بے چینی اور بے سکونی ہے،آپس کے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں تو وہ اس شرف کا حقدار نہیں کہلائے گا جو اللہ نے اسے بخشا ہے۔

دینِ اسلام نے ایک نیک عورت کے اوصاف کا جامع ذکر سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 36 میں کیا ہے۔ان اوصاف پر عمل کرنے والی عورت ہی اپنے گھر کو جنت بنا سکتی ہے۔ خلفائے احمدیت نے ہمیشہ احمدی عورتوں کو اس اہم امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ اپنی زندگیاں قرآن کریم کی حسین تعلیم کے مطابق بسر کریں اور اسوۂ حسنہ پر چلیں۔ اس کے نتیجہ میں ان کے قدموں تلے جنت ہو گی۔ اولاد کی نیک تربیت ہو گی اور ایک حسین و جمیل معاشرہ قائم ہو گا۔ یاد رہے کہ اس اسلامی معاشرہ کو حسین بنانے اور گھروں کو جنت نظیر بنانے کی ذمہ داری یکساں طور پر مرد اور عورت دونوں پر ڈالی گئی ہے۔ پس جو کہتا ہے کہ اسلام نے مرد کو عورت پر ترجیح دی ہے وہ غلط کہتا ہے۔

اسلام کہتا ہے کہ گھر کا خرچ چلانا، بیوی بچوں کے نان نفقہ کا خیال رکھنا، ان کی ضروریات کو پورا کرنا مرد کا کام ہے اور یہی اُس کے ’’قوّام ‘‘ہونے کی نشانی بھی ہے۔ مرد کا ’’قوام‘‘ہونا عورتوں پر رعب ڈالنا اور اُن پر سختی کرنا نہیں ہے۔اس کے علاوہ بعض لوگ کہتے ہیں ہم جو کماتے ہیں سب بیوی کو دیتے ہیں۔وہ بیوی اُس پیسے کی امین ہوتی ہے اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اُسے ایمان داری سے خرچ کرے کیونکہ وہ اس کی جواب دہ ہے۔ اسی وجہ سے کہا گیا ہے کہ مرد بیوی کو ماہانہ جیب خرچ ضرور دے تا وہ اسے مرضی سے خرچ کر سکے۔

دوسری طرف اسلام نے ایک مومن عورت کے اوصاف کا بڑی وضاحت سے ذکر کیا ہےجن سے وہ اپنے گھر کو جنت بنا سکے گی۔ اس پر روشنی ڈالتے ہوئےآنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کوئی عورت اس وقت تک خدا تعالیٰ کا حق ادا کرنے والی نہیں سمجھی جا سکتی جب تک وہ اپنے خاوند کا حق ادا نہیں کرتی۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

’’بہترین عورت وہ ہے جسے اس کا خاوند دیکھے تو اس کا دل خوش ہو پھر اس کا خاوند اسے کوئی حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور جس بات کو اس کا خاوند نا پسند کرے اُس سے بچے۔‘‘

چھوٹی چھوٹی باتوں پر دلوں میں کدورت پیدا کرنا اور انہیں طول دے کر گھر کی فضا کو مکدر کر دینا پرلے درجے کی جہالت ہے۔ تھکا ہارا مرد گھر آئے تو گھر کے امن و سکون کو دیکھ کر خوش ہو، بچوں کے ادب و آداب کو دیکھ کر اس کی ساری تھکاوٹ دور ہو جائے۔

گھروں کے ماحول کو اَور خوبصورت بنانے اور خاندان کو مضبوط کرنے کے کچھ خوبصورت اصول آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہوں گی۔

اُن میں ایک وہ ہے جو حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا نے اپنی پیاری بیٹی کو رخصتی کے وقت نصائح کیں اور ان پر آپ خود بھی ساری عمر کوشاں رہیں۔آپؓ نے فرمایا :

’’اُن کے (یعنی اپنے شوہر کے) عزیزوں کو اورعزیزوں کی اولاد کو اپنا جاننا۔کسی کی برائی تم نہ سوچنا خواہ تم سے کوئی برائی کرے ۔تم دل میں سب کا بھلابھی چاہنا ۔اور عمل سے بھی بدی کا بدلہ نہ کرنا۔دیکھنا پھر ہمیشہ خدا تمہارا بھلا کرے گا ‘‘۔

(سیرت وسوانح حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓصفحہ 109)

اسی طرح عورت کو ملنسار،خوش خلق اور مہمان نواز ہونے کے ساتھ ساتھ سلیقہ مند،کفایت شعار اور منظم ہونا چاہیے۔ اُسے غلط قسم کے مطالبات سے پرہیز کرنا چاہیے۔لیکن یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے اگر مرد بھی اپنی ذمہ داریوں کے فرق کو سمجھتے ہوئے اُن پر عمل کرنے والے ہوں۔ پس عورت یہ دیکھے کہ اس کے فرائض و ضوابط کیا ہیں اور انہیں اُس نے کس طرح احسن رنگ میں ادا کرنا ہے۔ساس بھی، بہو بھی، بیٹی بھی اور ماں بھی۔ اور مرد یہ دیکھے کہ اُس کے فرائض و ضوابط کیا ہیں اور اُس نے انہیں احسن رنگ میں کس طرح پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے تو گھروں کے جھگڑے بھی ختم ہو جائیںگے۔ اللہ تعالیٰ نے نکاح کی آیات میں پانچ جگہ ’’تقویٰ‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔پس ہو ہی نہیں سکتا جو اس حد تک اللہ کے تقویٰ کو مد ِنظر رکھے اس کا گھر کبھی فساد کا گڑھ بنے یا کبھی اُس میں فساد پیدا ہو۔ دوسروں کی خاطر اپنے ذاتی جذبات کی قربانی پیش کرنے سے نہ صرف گھر میں امن کا ماحول پیدا ہوتا ہے بلکہ میاں بیوی کے تعلقات بھی خوشگوار ہو جاتے ہیں اور بچوں کی نشو ونما اور تربیت بہت اعلیٰ رنگ میں ہونے لگتی ہے۔ کیونکہ اگر مرد غلطی کرے اور عورت بھی ویسا ہی رد عمل دکھائے تو جھگڑے کم ہونے کے بجائے بڑھتے چلے جاتےہیں۔

پس میاں بیوی اپنے باہمی تعلقات پر خاص توجہ دیں کیونکہ اُن کا آپس میں حسن سلوک اور حسنِ معاشرت،تربیتِ اولاد کی پہلی سیڑھی ہے۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ

’’جب تک دونوں فریق ایک دوسرے کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک نہ بنیں اُس وقت تک یہ توقع رکھنا کہ اولاد سے بھی آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب ہو،ایک فرضی بات ہے‘‘۔ بچوں کی اعلیٰ تربیت کے لیے خاص طور پر مائیں، نیکی اور تقویٰ کی راہوں پر قدم مارتے ہوئے اور دعاؤں کا سہارا لیتے ہوئے اپنے تمام کاموں کو پسِ پُشت ڈال کر جماعتی پروگراموں میں خود بھی اور بچوں کوبھی اُن میں شامل کرنے کی بھرپور کوشش کریں۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ’’ بچوں سے عزت سے پیش آیا کرو اور ان کی اچھی تربیت کرو‘‘۔ اسی طرح بچوں میں چھوٹی عمر ہی سے نماز کی اہمیت اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات کی اہمیت کا احساس دلایا جائے۔یہ کوشش کی جائے کہ بچوں کا خدا تعالیٰ سے پختہ تعلق قائم ہو۔ بچوں کی صحیح تربیت کے ساتھ ہی دراصل کو ئی بھی خاندان محبت اور الفت کا گہوارہ بن سکتا ہے۔

مختصر یہ کہ بیوی کے صرف سلیقہ شعار ہونے، خاوند یا ساس صاحبہ سے اچھے تعلقات ہونے، بچوں کی اچھی پرورش کرنے یا خاوند کے صرف ذمہ دار اور دین دار ہونے سے گھر میں امن و سکون بحال کرنا ممکن نہیں بلکہ تمام باتوں پر یکساں طور پر عمل پیرا ہونے اور انہیں درست کرنے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ یہ سب ایک دوسرے سے کڑی کی طرح پروئے ہوئے ہیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ

’’ہم جانتے ہیں کہ اس زندگی میں قدم قدم پر لڑکھڑانے کا خدشہ رہتا ہے اور ہر قدم پر رکاوٹیں ملتی ہیں لیکن ان رکاوٹوں سے بچنا اور کامیاب ہو کر نکلنا ہر مومن مردوزن کا فرض ہے۔ اگر اسلام کی حقیقی تعلیم پر عمل کیا جائے تو بد قسمتی سے جو اعتماد کی کمی بہت سے خاوندوں اور بیویوں میں پیدا ہو رہی ہے وہ نہیں ہو گی۔ اور ان کے گھر جو صرف اس لیے تباہ ہو رہے ہیں کیونکہ وہ ایک دوسرے کے فرائض پوری طرح ادا نہیں کر رہے ہوتے خوش اور محفوظ رہیں گے۔‘‘

( احمدی مسلمان خواتین کی ذمہ داریاں صفحہ 121)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button