متفرق مضامین

أسماء المطر في القرآن

(ابو الفارس محمود)

زبان عربی کی عدیم المثال وسعت

الفضل قادیان15؍جون 1933ء صفحہ 7تا 8میں ایک مختصر مضمون بارش کے مختلف ناموں سے متعلق شائع ہوا تھا۔ یہ مضمون بعض اضافوں اور تفاصیل کے ساتھ ہدیہ قارئین ہے۔

اسلامی شریعت کے فضائل میں سے ایک قرآنِ مجید کا زبانِ عربی میں نزول ہے۔ جسے زمانہ کے امام اور حکم و عدل نے خدا تعالیٰ سے خبر پا کر امّ الالسنة قرار دیا ہے۔ عربی زبان کے خصائل میں سے ایک امر یہ ہے کہ اس میں اشیاء کی خصوصیات اور مختلف حیثیتوں کی بنا پر ان کو نام دیے جاتے ہیں۔ مثلاً بارش کے لیے عربی زبان میں 50 سے زائد نام ہیں جو اس کی اقسام اور مختلف حالتوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ نے بھی بارش کی مختلف ہیئت بیان کرنے کے لیے مختلف الفاظ بیان فرمائے ہیں۔

والطَّلُّ قَدْ یَبْدُوْ أَمَامَ الْوَابِلِ

فَالطَّلُّ طَلٌّ لَیْسَ کَالتَّھْتَانِ

یعنی تیز بارش سے قبل ہلکی بارش ہوتی ہے۔ لیکن ہلکی بارش کبھی بھی موسلادھار بارش کی طرح نہیں ہو سکتی۔

بارش کے عربی زبان میں مستعمل چند نام درج ذیل ہیں:

المطر۔ الغيث۔ الوابل۔ الطل۔ والهَطْل۔ الھتان۔ التهتان۔ الوَلِيُ۔ الشآبيب۔ النُّفْضة۔ الودق۔ السَّحِيقة۔ السَّاحِية۔ الحَرِيصة۔ المُرْثَعِنّ۔ الغدق۔ الرِّهْمَةُ۔ الأتيُّ والأتاوِيُّ۔ ألب۔ البَدرِي۔ البسار۔ البعاق۔ الداحي۔ الرَمَضُ۔ السَّادِحةُ۔ الدِّيـمَـةُ۔ الحَيا۔ العُباب۔ الأحداث۔ الخَبِيْئَةُ۔ الخريف۔ الرَّذَاذُ۔ الشَّفيِفَةُ۔ الرَّشّ والطَّشّ۔ الصَّنْدِيْد۔ الجَوْد۔

لیکن قرآنِ کریم میں جہاں بارش کا ذکر ہے وہاں ان تمام الفاظ میں سے چند مخصوص الفاظ کا چناؤ کیا گیا ہےجو کہ فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے موقع اور محل کے مطابق استعمال ہوئے ہیں۔

بارش کی اقسام

یہ بات تو ہر شخص جانتا ہے کہ بارش اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے ایک انعام ہے۔ بارش پر حیات انسانی کا دارومدارہے۔ پانی برسنے سے کھیتیاں سر سبز و شاداب ہوتی ہیں۔ ندی نالے بہتے اور نہریں رواں ہوتی ہیں۔ بارش کے برسنے کی وجہ سے ہی کنووں میں پانی آتا ہے۔ اگر ایک لمبے عرصہ تک بارش نہ ہو۔ تو زمین خشک ہوجاتی اور قحط نمودار ہو جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں لوگ بھوکے مرنے لگتے ہیں۔

مگر یہ بھی ہر شخص جانتا ہے کہ بارش مختلف اقسام کی ہوتی ہے۔ کبھی موسلادھار بارش برستی ہے، کبھی بوندا باندی، کبھی اولے پڑتے ہیں اور کبھی ایسا جل تھل ہو جاتا ہے کہ جس سے جان و مال اور نفوس تک کیا ضیاع ہو جاتا ہے۔ گویا یہ کبھی انعام کے رنگ میں ہوتی ہے اور کبھی امتحان کے رنگ میں، کبھی معمولی اور کبھی زوردار۔ دنیا کی کسی اور زبان میں بارش کے اس کی مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے نام موجود نہیں۔ لیکن عربی زبان کی وسعت کا اس سے پتہ چل سکتا ہے کہ بارش کے مختلف نام رکھے گئے ہیں جو قرآن مجید میں استعمال بھی کیے گئے ہیں۔اس وقت وہ اسماء زبانِ عربی کی وسعت کے اثبات میں درج کیے جاتے ہیں۔

مطر

عام طور پر بارش کے لیےعربی زبان میں المَطَرُکا لفظ استعمال کیاجاتا ہے۔ قرآن کریم میں 15مرتبہ یہ لفظ باب ثلاثی مجرد اور باب افعال سے آیا ہے۔ باب ثلاثی مجرد سے یہ لفظ خیر اور بابِ افعال سے عذاب کے لیے استعمال ہوا ہے۔ امام راغب لکھتے ہیں کہ

وقيل: إنّ ’’مَطَرَ‘‘ يقال في الخير، و ’’أَمْطَرَ‘‘ في العذاب

( مفردات فی غریب القرآن از امام راغب زیر لفظ مطر)

یعنی کہا جاتا ہے کہ مطر خیر کے لیے اور أمطر عذاب کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

باب ثلاثی مجرد میں سادہ بارش کے معنی پائے جاتے ہیں۔

وَ لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِنۡ کَانَ بِکُمۡ اَذًی مِّنۡ مَّطَرٍ اَوۡ کُنۡتُمۡ مَّرۡضٰۤی اَنۡ تَضَعُوۡۤا اَسۡلِحَتَکُمۡ ۚ وَ خُذُوۡا حِذۡرَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابًا مُّہِیۡنًا (النساء:103)

اس آیت میں بحالت بارش و بیماری وضع اسلحہ کی رخصت ہے کیونکہ دونوں حالتوں میں اسلحہ اٹھانا مشکل اور بھاری امر معلوم ہوتا ہے۔ یہاں بارش سے بیماری یا تکلیف کا ذکر ہے اس لیے مطر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ پانی جب حد سے بڑھ جائے تو ہلاکت کا موجب ہوتا ہے جیسے سیلاب کی صورت میں۔ یہاں مرض اور مطر کا اکٹھا آنےسے معلوم ہوتا ہے کہ مطرسے عذاب یا تکلیف والی بارش مراد ہے۔

جبکہ باب ثلاثی مزید سے مطر عذاب کے معنی دیتا ہے۔

لسان العرب میں ہے کہ

المَطَرُ: الْمَآءُ الْمُنْسَكِبُ مِنَ السَّحابِ۔ ابْنُ سِيدَهْ: أَمطَرهم اللّٰهُ فِي الْعَذَابِ خاصَّة كَقَوْلِهِ تَعَالَى: وَأَمْطَرْنا عَلَيْهِمْ مَطَراً فَساءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِينَ وَقَوْلُهُ عَزَّ وجلّ: وَأَمْطَرْنا عَلَيْهِمْ حِجارَةً مِنْ سِجِّيلٍ

( لسان العرب زیر لفظ مطر)

المطر بادلوں سے برسنے والے پانی کو کہتے ہیں۔ اور ابن سیدہ کا قول ہے کہ أَمطَرهم اللّٰهُ عذاب کے لیے خاص ہے۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا ہے کہ

وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ مَطَراً فَسَاءَ مَطَرُ الْمُنْذَرِيْنَ، وَأَمْطَرْنَا عَلَيْهِمْ حِجارَةً مِنْ سِجِّيْلٍ۔

مقاييس اللغة میں لکھا ہے کہ

قال ناسٌ: لا يقال أُمْطِرَ إلَّا في العَذابِ۔ قال اللّٰه تعالى:’’أُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ ‘‘

لوگ کہتے ہیں کہ أمطر صرف عذاب کے لیے کہا جاتا ہے جیسے اللہ کا فرمانا کہ

أُمْطِرَتْ مَطَرَ السَّوْءِ(الفرقان:40)

پس قرآن کریم میں غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ المطر کا لفظ عذاب اور سزا کے معنوں میں مستعمل ہوا ہے۔

قرآن کریم سے چند مزید مثالیں:

وَ اَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہَا حِجَارَۃً مِّنۡ سِجِّیۡلٍ ۬ۙ مَّنۡضُوۡدٍ (هود:83)

فَاَمۡطِرۡ عَلَیۡنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائۡتِنَا بِعَذَابٍ اَلِیۡمٍ (الانفال:33)

وَ اَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ مَّطَرًا ؕ فَانۡظُرۡ کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُجۡرِمِیۡنَ (الاعراف:85)

الماء: نفع مند بارش

دوسرا عام استعمال ہونے والا لفظ الماء(پانی)ہے۔ قرآنِ کریم میں کئی جگہ یہ لفظ بارش کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ جیسے اردو زبان میں بھی کہتےہیں کہ آسمان سے پانی برسا۔

وَ ہُوَ الَّذِیۡ یُرۡسِلُ الرِّیٰحَ بُشۡرًۢا بَیۡنَ یَدَیۡ رَحۡمَتِہٖؕ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَقَلَّتۡ سَحَابًا ثِقَالًا سُقۡنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنۡزَلۡنَا بِہِ الۡمَآءَ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ مِنۡ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ؕ کَذٰلِکَ نُخۡرِجُ الۡمَوۡتٰی لَعَلَّکُمۡ تَذَکَّرُوۡنَ (الاعراف:58)

وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ نَبَاتَ کُلِّ شَیۡءٍ (الانعام:100)

وَ تَرَی الۡاَرۡضَ ہَامِدَۃً فَاِذَاۤ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡہَا الۡمَآءَ اہۡتَزَّتۡ وَ رَبَتۡ وَ اَنۡۢبَتَتۡ مِنۡ کُلِّ زَوۡجٍۭ بَہِیۡجٍ (الحج:6)

قرآنِ کریم میں جہاں بھی الماء بارش کے لیے استعمال ہوا ہے وہاں نفع مند بارش کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اور پانی سے زندگی پیدا کرنے اور سبزہ پیدا کرنے کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ لفظ الماء بعض صفات کے ساتھ بھی استعمال ہوا ہے۔ جس کا آگے ذکر ہو گا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’خدائے تعالیٰ وہ ذات کریم و رحیم ہے جس کا قدیم سے یہ قانون قدرت ہے کہ وہ ہواؤں کو اپنی رحمت سے پہلے یعنی بارش سے پہلے چلاتا ہے یہاں تک کہ جب ہوائیں بھاری بدلیوں کو اٹھالاتی ہیں تو ہم کسی مُردہ شہر کی طرف یعنی جس ضلع میں بباعث اِمساکِ باران زمین مُردہ کی طرح خشک ہوگئی ہو اُن ہوائوں کو ہانک دیتے ہیں پھر اس سے پانی اتارتے ہیں اور اس کے ذریعہ سے قسم قسم کے میوے پیدا کردیتے ہیں۔ اسی طرح روحانی مردوں کو موت کے گڑھے سے نکالا کرتے ہیں اور یہ مثال اس لئے بیان کی گئی تاکہ تم دھیان کرو اور اس بات کو سمجھ جاؤ کہ جیسا کہ ہم امساک باران کی شدت کے وقت مردہ زمین کو زندہ کردیا کرتے ہیں ایسا ہی ہمارا قاعدہ ہے کہ جب سخت درجہ پر گمراہی پھیل جاتی ہے اور دل جو زمین سے مشابہ ہیں مرجاتے ہیں تو ہم ان میں زندگی کی روح ڈال دیتے ہیں۔ ‘‘

(براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد1صفحہ 628تا630)

السماء

وَ ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ۚ فَاَخۡرَجۡنَا بِہٖ نَبَاتَ کُلِّ شَیۡءٍ (الانعام:100)

اس آیت میں السماءکاترجمہ عموماً بادل کیا جاتا ہے لیکن لغت میں السماءکا ترجمہ بارش اور اچھی بارش کے بھی ہیں۔ اس لحاظ سے یہ ترجمہ بھی ہو سکتاہے کہ بارش سے پانی نازل کیا۔

والسَّحابُ، والمَطَرُ، أو المَطَرَةُ الجَيِّدَةُ (القاموس المحيط)

یعنی بادل اور بارش اور اچھی بارش۔

صيِّب

قرآن کریم کے آغاز میں صیِّب کے لفظ سےبارش کی ایک قسم بیان ہوئی ہے۔ اس کا ذکر سورة البقرة آیت 20 میں ہے۔

اَوۡ کَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیۡہِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعۡدٌ وَّ بَرۡقٌ ۚ یَجۡعَلُوۡنَ اَصَابِعَہُمۡ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الۡمَوۡتِؕ وَاللّٰہُ مُحِیۡطٌۢ بِالۡکٰفِرِیۡنَ (البقرة:20)

ان الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ صیّب وہ بارش ہے کہ جب وہ برستی ہے تو آسمان پر سخت گھٹا چھا جاتی ہے اور اتنی سخت تاریکی غالب آجاتی ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سوجھائی نہیں دیتا۔ بہت بادل گرجتے ہیں اور اس قدر تواتر سے بجلی چمکتی ہے کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔

یہ وضاحت صیِّب کے معنوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ علامہ زمخشری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ

والصيب: المطر الذي يصوّب، أى ينزل ويقع.

ويقال للسحاب: صيب أيضا… وتنكير صيب لأنه أريد نوع من المطر شديد هائل.

(تفسیر الکشاف از علامہ زمخشری زیرِ آیت أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمَاءِ)

یعنی صیبوہ بارش ہوتی ہے جو برستی اور وقوع پذیر ہوتی ہے۔ بادل کو بھی صیب کہا جاتا ہے اور یہاں صیب کا نکرہ میں بیان کرنے سے تیز اور شدید بارش کا بیان کرنا مقصود ہے۔

اسی طرح لسان العرب میں صیّب کے معنوں میں لکھا ہے کہ

الصَّوْبُ: نُزولُ المَطَر…ومَطَرٌ صَوْبٌ وصَيِّبٌ وصَيُّوبٌ، وَقَوْلُهُ تَعَالَى: أَوْ كَصَيِّبٍ مِّنَ السَّمآءِ
وكُلُّ نازِلٍ مِنْ عُلْوٍ إِلى سُفْلٍ، فَقَدْ صابَ يَصُوبُ؛…

وَفِي حَدِيثِ الِاسْتِسْقَاءِ:اللَّهُمَّ اسقِنا غَيْثًا صَيِّبًا؛ أَي مُنْهَمِرًا مُتَدَفِّقًا.

(لسان العرب زیر لفظ صیّب)

یعنی الصوب بارش کے برسنے کو کہتے ہیں صَوْبٌاور صَيِّبٌ اور صَيُّوبٌ بارش کی صفات ہیں۔ اسی طرح صَابَکا فعل ہر بلندی سے نازل ہونے والی چیز کے لیے بولا جاتا ہے۔ استسقاءکی دعا میں بھی صیبکا لفظ جاری بارش کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’یہ اس بڑے مینہ کی مانند ہے جس میں طرح طرح کی تاریکیاں ہوں اور رعد اور برق بھی ہو…تاریکیوں سے مراد آزمائش اور ابتلاء کی تاریکیاں۔ ‘‘

(سبز اشتہار صفحہ 16، بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑجلد اول صفحہ 543)

مِدْرَارٌ

بارش کی ایک قسم موسلادھار بارش ہے جسے قرآن کریم میں تین بار مِدْرَار کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔

اَلَمۡ یَرَوۡا کَمۡ اَہۡلَکۡنَا مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّنۡ قَرۡنٍ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ مَا لَمۡ نُمَکِّنۡ لَّکُمۡ وَ اَرۡسَلۡنَا السَّمَآءَ عَلَیۡہِمۡ مِّدۡرَارًا ۪ وَّ جَعَلۡنَا الۡاَنۡہٰرَ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہِمۡ فَاَہۡلَکۡنٰہُمۡ بِذُنُوۡبِہِمۡ وَ اَنۡشَاۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ قَرۡنًا اٰخَرِیۡنَ (الانعام:7)

وَ یٰقَوۡمِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ یُرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَیۡکُمۡ مِّدۡرَارًا وَّ یَزِدۡکُمۡ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّتِکُمۡ وَ لَا تَتَوَلَّوۡا مُجۡرِمِیۡنَ (ھود:53)

فَقُلۡتُ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ؕاِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا۔ یُّرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَیۡکُمۡ مِّدۡرَارًا۔ (نوح:11تا12)

ان آیات پر یکجائی نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مدرار بارش کی اس قسم کو کہتے ہیں جو موسلادھار اور نفع بخش ہے۔ کیونکہ اس کے معنوں میں کثرت کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس قسم کی بارش کے نتیجہ میں باغات سرسبز ہوتے ہیں۔ نہریں بہتی ہیں، انسانوں کی صحت پر خوش گوار احساس پڑتا ہے اور یہ تمام باتیں نوع انسانی کے لیے مفید ہیں۔ بخلاف صیّبکے کہ وہ انسانوں کے لیے پیغامِ مصیبت ہوتی ہے۔

مِدْرَارکا لفظ درٌّسے ماخوذ ہے۔ لسان العرب میں لکھا ہے کہ دَرَّتِ النَّاقَةُ یعنی اونٹنی سے دودھ دوہنے والے کو کثرت سے دودھ ملا۔ اسی طرح تھنوں میں دودھ کے بھر جانے کو بھی درَّ اللبنُ کہتے ہیں۔ اور

سَمَاءٌ مِدْرارٌ أَي تَدِرُّ بِالْمَطَرِ

یعنی بادل بارش کے پانی سے بھر گیا ہے۔

( لسان العرب زیر لفظ درر)

صَیِّب اور مِدْرَارکے معنوں میں فرق

صیّباور مِدْرَار دونوں موسلادھار بارش کے معنوں میں مستعمل ہیں۔ لیکن قرآن کریم نے ان دونوں میں امتیاز کیا ہے۔ صیّبکا استعمال نقصان دہ بارش کے لیے اور مِدْرَارمفیدموسلادھار بارش کے لیے استعمال ہوا ہے۔ جو کہ سیا ق و سباق سے بکلی عیاں ہے۔

بَرَدٌ(ژالہ باری)

ژالہ باری بارش کی وہ قسم ہے جس میں بادلوں سے اولے برستے ہیں۔ قرآن کریم نے بردٌ کے لفظ سے ایک بار ذکر کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُزۡجِیۡ سَحَابًا ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیۡنَہٗ ثُمَّ یَجۡعَلُہٗ رُکَامًا فَتَرَی الۡوَدۡقَ یَخۡرُجُ مِنۡ خِلٰلِہٖ ۚ وَ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ جِبَالٍ فِیۡہَا مِنۡۢ بَرَدٍ فَیُصِیۡبُ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَصۡرِفُہٗ عَنۡ مَّنۡ یَّشَآءُ ؕ یَکَادُ سَنَا بَرۡقِہٖ یَذۡہَبُ بِالۡاَبۡصَارِ (النور:44)

کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ بادل کو چلاتا ہے پھر اُسے اکٹھا کر دیتا ہے پھر اسے تہ بہ تہ بنا دیتا ہے پھر تُو دیکھتا ہے کہ اس کے بیچ سے بارش نکلنے لگتی ہے۔ اور وہ بلندیوں سے یعنی ان پہاڑوں سے جو اُن میں واقع ہیں اَولے اتارتا ہے اور پھر جس پر چاہتا ہے اس پر انہیں برساتا ہے اور جس سے چاہے ان کا رخ پھیر دیتا ہے۔ بعید نہیں کہ اس کی بجلی کی چمک (ان کی) بینائیاں اُچک لے جائے۔

اس آیت میں بارش کی وہ قسم مذکور ہے جس میں اولے برستے ہیں۔ اس سے کھیتوں کا بہت نقصان ہوتا ہے۔ اور بعض اوقات حیوانات بلکہ انسان بھی ہلاک ہو جاتےہیں۔ بادی النظر میں جبال کا آسمان پر ہونا تعجب خیز دکھائی دیتا ہے۔ لیکن جبکہ اولوں کی مقدار خشخاش کے دانہ سے لے کر انڈوں کے برابر ہو اکرتی ہے اور جبکہ برف کے بادل بنتے ہیں اور انہی سے برف کے ٹکڑوں کی صورت میں زمین پر گرتے ہیں تو اگر ان کے مجموعہ کو پہاڑ کہا گیا تو بالکل بجا اور درست کہا گیا۔ جو سائنس کی موجودہ تحقیق کے بھی بالکل مطابق ہے کیونکہ سائنس یہی کہتی ہے کہ برف پانی کے جمے ہوئے بخارات کا نام ہے اور یہ بخارات جب ہوا میں بہت بلند ہوجاتے ہیں تو بجائے بارش کے بادل کے برف کے بادل بن جاتے ہیں۔ یہ بارش بستیوں اور کھیتیوں کے لیے مضر ہوا کرتی ہے۔

مفردات امام راغب میں لکھا ہے کہ

والبَرَدُ: ما يبرد من المطر في الهواء فيصلب، وبرد السحاب: اختصّ بالبرد، وسحاب أَبْرَد وبَرِد: ذو برد،

(مفردات امام راغب زیر لفظ برد)

یعنی برد بارش کے ہوا میں ٹھنڈے ہو کرجم جانے کو کہتے ہیں۔ بادل کا جمنا اولے پڑنے کے لیے مخصوص ہے۔

لسان العرب میں لکھاہے کہ

والبَرَدُ: حبُّ الْغَمَامِ، تَقُولُ مِنْهُ: بَرُدَتِ الأَرض. وبُرِدَ الْقَوْمُ: أَصابهم البَرَدُ، الأَزهري: وأَما قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمآءِ مِنْ جِبالٍ فِيْهَا مِنْ بَرَدٍ فَيُصِيْبُ بِهٖ؛ فَفِيهِ قَوْلَانِ: أَحدهما وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ أَمثال جِبَالٍ فِيْهَا مِنْ بَرَدٍ، وَالثَّانِي وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ جِبَالٍ فِيْهَا بَرَدًا

(لسان العرب زیر لفظ برد)

بردبادلوں کےحبوب/بیجوں کو کہتے ہیں۔ اسی سے زمین اور لوگوں پر اولے پڑنےکے لیے یہی فعل استعمال ہوتا ہے۔

اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اولے بلندی سے گرتے ہیں کیونکہ اولے ہواؤں کے بادلوں کو بار باربلندی پر لے جانے کی وجہ سے بنتے ہیں۔ قرآن کریم کی اس بات کی تصدیق آج سائنس سے ہوتی ہے۔

الودق

بارش کی یہ قسم ھواء الموسم یعنی مون سون کے آنے سے برستی ہے۔ قرآن کریم میں دو بار اس کا ذکر ہے۔

اَللّٰہُ الَّذِیۡ یُرۡسِلُ الرِّیٰحَ فَتُثِیۡرُ سَحَابًا فَیَبۡسُطُہٗ فِی السَّمَآءِ کَیۡفَ یَشَآءُ وَ یَجۡعَلُہٗ کِسَفًا فَتَرَی الۡوَدۡقَ یَخۡرُجُ مِنۡ خِلٰلِہٖ ۚ فَاِذَاۤ اَصَابَ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖۤ اِذَا ہُمۡ یَسۡتَبۡشِرُوۡنَ (الروم:49)

اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ یُزۡجِیۡ سَحَابًا ثُمَّ یُؤَلِّفُ بَیۡنَہٗ ثُمَّ یَجۡعَلُہٗ رُکَامًا فَتَرَی الۡوَدۡقَ یَخۡرُجُ مِنۡ خِلٰلِہٖ ۚ وَ یُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ جِبَالٍ فِیۡہَا مِنۡۢ بَرَدٍ فَیُصِیۡبُ بِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ وَ یَصۡرِفُہٗ عَنۡ مَّنۡ یَّشَآءُ ؕ یَکَادُ سَنَا بَرۡقِہٖ یَذۡہَبُ بِالۡاَبۡصَارِ (النور:44)

ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ ودق بارش کی وہ قسم ہے جو موسم کے مطابق ہو اور جس کے بعد لوگ خوشیاں مناتے ہیں۔ ودقکا نظام ہی اولے بناتا ہے۔ کیونکہ دوسری آیت سےیہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہوائیں بادلوں کے ٹکڑے کرتی ہے اور پھر انہیں ملاتی بھی ہے۔ جس کے نتیجہ میں اولے اور تیز بجلی بنتی ہے۔

ان آیات کی رُو سے ایسے سخت موسم کی بات ہو رہی ہے جب لوگ ایک بار بارش سے ناامید ہو جاتے ہیں اور پھر خدا تعالیٰ ان کی دعاؤں کو سنتا ہے اور ان کو بارانِ رحمت عطا کرتا ہے تو لوگ خوشیاں مناتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ اس جسمانی و روحانی قحط اور خوشحالی کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’خدائے تعالیٰ وہ ذاتِ کریم و رحیم ہے کہ جو بروقت ضرورت ایسی ہوائیں چلاتا ہے جو بدلی کو ابھارتی ہیں پھر خدائے تعالیٰ اس بدلی کو جس طرح چاہتا ہے آسمان میں پھیلا دیتا ہے اور اس کو تہہ بہ تہہ رکھتا ہے۔ پھر تو دیکھتا ہے کہ اس کے بیچ میں سے مینہ نکلتا ہے پھر جن بندوں کو اپنے بندوں میں سے اس مینہ کاپانی پہنچاتا ہے تو وہ خوش وقت ہوجاتے ہیں اور ناگہانی طور پرخدا ان کے غم کوخوشی کے ساتھ مُبدّل کردیتا ہے اور مینہ کے اترنے سے پہلے ان کو بباعث نہایت سختی کے کچھ امید باقی نہیں رہتی پھر یکدفعہ خدائے تعالیٰ ان کی دستگیری فرماتا ہے یعنی ایسے وقت میں بارانِ رحمت نازل ہوتاہے جب لوگوں کے دل ٹوٹ جاتے ہیں اور مینہ برسنے کی کوئی امید باقی نہیں رہتی اور پھر فرمایا کہ تو خدا کی رحمت کی طرف نظر اٹھا کر دیکھ اور اس کی رحمت کی نشانیوں پر غور کر کہ وہ کیونکر زمین کو اس کے مرنے کے پیچھے زندہ کرتا ہے بے شک وہی خدا ہے جس کی یہ بھی عادت ہےکہ جب لوگ روحانی طور پر مرجاتے ہیں اور سختی اپنی نہایت کو پہنچ جاتی ہے تو اسی طرح وہ ان کو بھی زندہ کرتا ہے اور وہ ہرچیز پر قادر اور توانا ہے۔ ‘‘

(براہینِ احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 527تا529)

لسان العرباور تاج العروسمیں لکھا ہےکہ

والوَدْقُ: الْمَطَرُ كُلُّهُ شديدُه وهيّنُه، وَقَدْ وَدَقَ يَدِقُ وَدْقًا أَيْ قَطَر (لسان العرب و تاج العروس زیر لفظ ودق)

یعنی ودق شدیدموسلادھار بارش کو کہتے ہیں۔ ودقکا معنی قطرہ قطرہ گرنے کے ہیں۔ امام راغب لکھتے ہیں:

الوَدَق قيل: ما يكون من خلال المطر كأنه غبار، وقد يعبّر به عن المطر. قال تعالى:

فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلالِهِ…ويقال لما يبدو في الهواء عند شدّة الحرّ وَدِيقَة

(مفردات امام راغب زیر لفظ ودق)

ودق وہ بارش ہے جس کی شدت سے برستے وقت غبار سا محسوس ہو۔ان تمام معنوں کی رو سے مون سون کی مختلف حالتوں کا ودق کے بنیادی معنوں میں ذکر ہے۔

الغيث

(تین بار لفظاً اور ایک بار معناً)

غیث کے معنی حاجت پوری کرنےکے ہوتے ہیں۔ اسی لیے قحط کے بعد یا لمبے عرصے کے بعد دعاؤں اور التجاؤں کے نتیجہ میں ہونے والی بارش کو غیثکہا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے دعائے استسقاءمیں بھی غیثکا لفظ استعمال ہوا ہے کیونکہ بارش طلب کی جاتی ہے۔

وَفِي حَدِيثِ الِاسْتِسْقَاءِ:اللَّهُمَّ اسْقِنَا غَيْثًا صَيِّبًا؛ أَي مُنْهَمِرًا مُتَدَفِّقًا. (لسان العرب زیر لفظ صیّب)

یعنی اے اللہ ہم پر غیثِ صیّب نازل فرما۔ یعنی مسلسل جاری رہنے والی تیز بارش۔

قرآن کریم میں اس طرح ذکرہے کہ

وَ ہُوَ الَّذِیۡ یُنَزِّلُ الۡغَیۡثَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا قَنَطُوۡا وَ یَنۡشُرُ رَحۡمَتَہٗ ؕ وَ ہُوَ الۡوَلِیُّ الۡحَمِیۡدُ (الشورىٰ29)

اور وہی ہے جو بارش کو نازل کرتا ہے بعد اس کے کہ وہ مایوس ہو چکے ہوتے ہیں اور اپنی رحمت کو پھیلادیتا ہے۔ اور وہی ہے جو کارساز (اور) صاحبِ تعریف ہے۔

سورۃ لقمان میں جن پانچ باتوں کا ذکر ہے کہ وہ خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا ان میں سے ایک بارش ہے اور اس کے لیے غیثکا لفظ استعمال ہوا ہے۔ غیثکے لفظ میں مانگ کر لی جانے والی بارش ہے اس لیے اس کا علم صرف ذاتِ باری تعالیٰ کو ہوتا ہے۔ بعض اوقات قحط یا خشک سالی بطور امتحان یا ابتلاء کے بھی ہوتی ہے اس لیے خدا بہتر جانتاہے کہ بارش کے نزول سے مخلوق کی داد رسی کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اِنَّ اللّٰہَ عِنۡدَہٗ عِلۡمُ السَّاعَۃِ ۚ وَ یُنَزِّلُ الۡغَیۡثَ ۚ وَ یَعۡلَمُ مَا فِی الۡاَرۡحَامِ ؕ وَ مَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌ مَّاذَا تَکۡسِبُ غَدًا ؕ وَ مَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌۢ بِاَیِّ اَرۡضٍ تَمُوۡتُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیۡمٌ خَبِیۡرٌ (لقمان:35)

پھر سورت یوسف میں جب حضرت یوسف ؑنے ایک خواب کی تعبیر بتلائی کہ سات سالہ قحط کا خطرناک دَور آئےگا تو اس کے بعد کے لیے فرمایا:

ثُمَّ یَاۡتِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ عَامٌ فِیۡہِ یُغَاثُ النَّاسُ وَ فِیۡہِ یَعۡصِرُوۡنَ (يوسف:50)

اس کے بعد ایک اور سال ایسا آئے گا جس میں لوگوں کو غیث کے ذریعہ پانی دیا جائے گا اور لوگ اس میں شیرے نچوڑیں گے۔ غیثاور یغاث دونوں ایک ہی مادہ غاثکے مشتقات میں سے ہیں۔

اِعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَا لَعِبٌ وَّ لَہۡوٌ وَّ زِیۡنَۃٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیۡنَکُمۡ وَ تَکَاثُرٌ فِی الۡاَمۡوَالِ وَ الۡاَوۡلَادِ ؕ کَمَثَلِ غَیۡثٍ اَعۡجَبَ الۡکُفَّارَ نَبَاتُہٗ ثُمَّ یَہِیۡجُ فَتَرٰٮہُ مُصۡفَرًّا ثُمَّ یَکُوۡنُ حُطَامًا ؕ وَ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ شَدِیۡدٌ ۙ وَّ مَغۡفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رِضۡوَانٌ ؕ وَ مَا الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الۡغُرُوۡرِ (الحديد:21)

جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل کود اور نفس کی خواہشات کو پورا کرنے کا ایسا ذریعہ ہے جو اعلیٰ مقصد سے غافل کردے اور سج دھج اور باہم ایک دوسرے پر فخر کرنا ہے اور اموال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرنا ہے۔ (یہ زندگی) اس بارش کی مثال کی طرح ہے جس کی روئیدگی کفار (کے دلوں ) کو لبھاتی ہے۔ پس وہ تیزی سے بڑھتی ہے۔ پھر تُو اسے زرد ہوتا ہوا دیکھتا ہے پھر وہ ریزہ ریزہ ہوجاتی ہے۔ اور آخرت میں سخت عذاب (مقدر) ہے نیز اللہ کی طرف سے مغفرت اور رضوان بھی۔ جبکہ دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا ایک عارضی سامان ہے۔

اس آیت میں بتایا ہے کہ غیث سے جو پیداوار ہوتی ہے وہ کفار کو بہت بھلی لگتی ہے۔

ان تمام آیات سے ظاہر ہے کہ جو بارش خشک سالی قحط اور امساک باراں کےبعد برسے اور اس سے خوب پیداوار ہو۔ وہ غیثکہلاتی ہے۔ تاج العروس میں لکھا ہےکہ

وَقيل: هُوَ المَطَرُ الخَاصُّ بالخَيْرِ، الْكَثِيرُ النَّافِعُ؛ لأَنَّه ’’يُغَاثُ بِهِ النَّاسُ وهذا من شرحِ الشِّفاءِ.(و) من الْمجَاز: الغَيْثُ: (الكَلأُ يَنْبُتُ بماءِ السَّمَاءِ)، قَالَه اللَّيْث، وَكَذَا السّحابُ، وَقيل: المَطَرُ، ثمَّ سُمِّيَ مَا يَنْبُتُ بِهِ‘‘ غَيْثًا،

(تاج العروس زیر لفظ غیث)

یعنی یہ خیر و برکت سے مختص بارش کی وہ قسم ہے جس کا نفع بہت زیادہ ہوتاہے۔ جب امساک باراں اور خشک سالی کے بعد لوگ پانی کے سخت منتظر ہوتے ہیں اور اس کے برسنے سے خوب پیداوار ہوتی ہے اور لوگ بارش کے نازل ہونے کی دعائیں کرتے ہیں۔ بارش کی یہ قسم بھلائی اور کثیر النفع ہونے سے خاص ہے۔ کیونکہ اس سے لوگ کی فریاد رسی کی جاتی ہے۔ مجازاً غیث اس روئیدگی کو بھی کہہ دیا جاتا ہے جو بارش کے پانی سے پیدا ہوتی ہے اسی طرح اس بادل کو اور پھر اس بارش کو ہی غیث کا نام دیا جاتا ہے۔

الوابل

قرآن کریم میں وابل کا لفظ 3 بار استعمال ہوا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُبۡطِلُوۡا صَدَقٰتِکُمۡ بِالۡمَنِّ وَ الۡاَذٰی ۙ کَالَّذِیۡ یُنۡفِقُ مَالَہٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِؕ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ صَفۡوَانٍ عَلَیۡہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَکَہٗ صَلۡدًا ؕ لَا یَقۡدِرُوۡنَ عَلٰی شَیۡءٍ مِّمَّا کَسَبُوۡا ؕ وَ اللّٰہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الۡکٰفِرِیۡنَ۔ وَ مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَہُمُ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ وَ تَثۡبِیۡتًا مِّنۡ اَنۡفُسِہِمۡ کَمَثَلِ جَنَّۃٍۭ بِرَبۡوَۃٍ اَصَابَہَا وَابِلٌ فَاٰتَتۡ اُکُلَہَا ضِعۡفَیۡنِ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یُصِبۡہَا وَابِلٌ فَطَلٌّ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ (البقرة:265تا266)

اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے صدقات کو احسان جتا کر یا اذیت دے کر ضائع نہ کیا کرو۔ اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھانے کی خاطر خرچ کرتا ہے اور نہ تو اللہ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ یومِ آخر پر۔ پس اس کی مثال ایک ایسی چٹان کی طرح ہے جس پر مٹی (کی تہ) ہو۔ پھر اس پر موسلادھار بارش برسے تو اُسے چٹیل چھوڑ جائے۔ جو کچھ وہ کماتے ہیں اس میں سے کسی چیز پر وہ کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ اور اللہ کافر قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔ اور ان لوگوں کی مثال جو اپنے اموال اللہ کی رضا چاہتے ہوئے اور اپنے نفوس میں سے بعض کوثبات دینے کے لئے خرچ کرتے ہیں، ایسے باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو اور اُسے تیز بارش پہنچے تو وہ بڑھ چڑھ کر اپنا پھل لائے، اور اگر اسے تیز بارش نہ پہنچے تو شبنم ہی بہت ہو۔ اور اللہ اس پر جو تم کرتے ہو گہری نظر رکھنے والا ہے۔

بارش کی یہ قسم خطرناک بھی ہوا کرتی ہے۔ جس میں یک دم موسلادھار بارش ہوتی ہے جو باغات اور کھیتیوں کو اجاڑ کر رکھ دیتی ہے۔ اور موسم کے مطابق جب یہ برسے تو کھیتیوں اور باغات کے لیے بہت نفع مند ہوتی ہے۔

لسان العرب میں لکھا ہے کہ

المطر الشديد الضَّخْم القطْرِ۔ وَفِي حَدِيثِ الِاسْتِسْقَاءِ: فأَلَّفَ اللّٰهُ بَيْنَ السحابِ فأُبِلْنا أَي مُطِرْنا وَبْلًا، وَهُوَ الْمَطَرُ الْكَثِيرُ الْقَطْرِ (لسان العرب زیر لفظ وابل)

یعنی ایسی شدید بارش جس کے موٹے موٹے قطرے ہوں۔ حدیث استسقاء میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہےکہ پھر اللہ نے بادلوں کو ملا دیا اور وہ ہم پر یک دم برس پڑے۔ اور موٹے موٹے یا زیادہ قطروں والی بارش کو وابل کہتے ہیں۔

الطل

انہی آیات میں طلکا ذکر ہے۔ طلکو اردو میں پھوار یا رِم جِھم کہتے ہیں۔ لسان العرب میں لکھا ہے کہ

الطَّلُّ: المَطَرُ الصِّغارُ القَطر الدائمُ، وهو أَرْسخُ المطر نَدًى.

(لسان العرب زیر لفظ طلل)

امام راغب کے مطابق

وَهُوَ مالَهُ أَثَرٌ قَليلٌ، ومنهُ قولُهُ تَعالى: فإنْ لَمْ يُصِبْهَا وابِلٌ فَطَلٌّ، أَو هُوَ النَّدَى الَّذِي يَنْزِلُ من السَّماءِ فِي الصَّحْوِ، أَو هُوَ فَوْقَهُ ودُونَ الْمَطَرِ، ( تاج العروس زیر لفظ طلل)

یعنی طلایسی بارش کو کہتے ہیں جس کا اثر بہت کم ہو یا صحن میں پڑنے والی شبنم یا اوس کو یا اس قلیل بارش کو جو تھوڑی سی ہو۔ جبکہ لسان العرب ہلکی مسلسل بارش اور جھڑی کو طل قرار دیتا ہے۔

تاج العروسمیں لکھا ہے کہ

الطَّلُّ: الْمَطَرُ الضَّعِيْفُ، أَوْ أَخَفُّ الْمَطَرِ، كَما فِي المُحْكَمِ، أَوْ أَضْعَفُهُ، كَمَا فِي الصَّحاحِ، (تاج العروس زیر لفظ طلل)

یعنی طل نہایت خفیف اور ہلکی بارش کو کہتے ہیں۔

مَاءٌ مُنْھَمِرٌ

بارش کی وہ قسم جو موسلادھار بارش سے بھی کہیں زیادہ زور سے برستی ہے۔ جب یہ برس رہی ہو تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ آسمان کے در کھول دیے گئے ہیں۔ قرآن کریم میں یہ لفظ پانی کی صفت کے ساتھ آیا ہے۔

فَفَتَحۡنَاۤ اَبۡوَابَ السَّمَآءِ بِمَآءٍ مُّنۡہَمِرٍ۔ وَّ فَجَّرۡنَا الۡاَرۡضَ عُیُوۡنًا فَالۡتَقَی الۡمَآءُ عَلٰۤی اَمۡرٍ قَدۡ قُدِرَ۔ (القمر:12تا13)

تب ہم نے مسلسل برسنے والے پانی کی صورت میں آسمان کے دَر کھول دیئے۔ اور ہم نے زمین کو چشموں کی صورت میں پھاڑ دیا۔ پس پانی ایک ایسے اَمر پر جمع ہوگیا جو پہلے سے مقدر کیا جاچکا تھا۔

یہ حضرت نوحؑ کے زمانہ کے واقعہ عذاب کی طرف اشارہ ہے اس سے ظاہر ہے کہ مدرار سے جہاں مخلوق کو فائدہ ہوا ہے وہاں ماء منھمر سے ہلاکت واقع ہوجاتی ہے۔ گویا دنیا میں ایک طوفان برپا ہوجاتا ہے۔ روئے زمین پانی سے بھر جاتی، عمارتیں غرقاب ہوجاتیں، باغات اور کھیتیاں ویران ہوجاتیں اور حیوانات و انسان ہلاک ہوجاتے ہیں۔ غرض یہ ایک عذاب ہے جو اللہ تعالیٰ گناہوں کی پاداش میں نازل فرماتا ہے۔

دراصل منھمر، ہمرہ سے مشتق ہے اور اس کے کئی معنی ہیں۔ شاخ کے دفعۃً ٹوٹنے، یکایک بارش ہونے، ہلاک ہونے اور غصہ میں لانے کے بھی ہیں۔

(منتہی الارب)

ان معانی کو پیشِ نظر رکھنے سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ماء منھمر وہ بارش ہے جو غضب الٰہی کے ماتحت بَغْتَۃً نازل ہو اور جس سے سیلاب اورہلاکت و تباہی واقعہ ہو۔

لسان العرب میں ہےکہ

الهَمْرُ: صبّ الدّمع والماء… والهَمْرَة: الدُّفْعَةُ مِنَ الْمَطَرِ… انْهَمَرَ كَهَمَر، فَهُوَ هامِرٌ ومُنْهَمِرٌ: سَالَ.

یہ لفظ ہمرہ سے مشتق ہے۔ اس کے معنی یکایک بارش ہونےاور آنسو بہانے کے بھی ہیں۔

مَاءً ثَجَّاجًا

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡمُعۡصِرٰتِ مَآءً ثَجَّاجًا۔ لِّنُخۡرِجَ بِہٖ حَبًّا وَّ نَبَاتًا۔ وَّ جَنّٰتٍ اَلۡفَافًا۔ (النبا:15تا17)

اور ہم نے لبریز بادلوں سے موسلادھار پانی برسایا۔ تاکہ ہم اُس سے اناج اور نباتات اُگائیں۔ اور گھنے باغات۔

یہ بارش اگرچہ زور سے ہوتی ہے لیکن اس کی ایک خاصیت ہے کہ باغات میں اس قدر درختوں کی نشو و نما ہوتی ہے کہ وہ گھنے اور گنجان ہو جاتے ہیں۔ اور کھیت بھی لہلہاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

تاج العروس میں لکھا ہے کہ

ثَجَّ المَاءُ نَفْسُه يَثُجُّ ثُجُوجًا، إِذا (سَالَ)

(تاج العروس زیر لفظ ثجج)

لسان العرب میں لکھا ہے کہ

الثَّجُّ: الصَّبُّ الكثيرُ

(لسان العرب زیر لفظ ثجج)

یعنی تیز بارش کو کہتے ہیں۔غرض یہ وہ بارش ہے جس کے نتیجہ میں باغوں کے درختوں میں ایسی بالیدگی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے لپٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔

ماءً صبًّا

بارش کی یہ ایک اور قسم ہے اس سے بالخصوص میووں کی پیدائش ظہور میں آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ

اَنَّا صَبَبْنَا الْمَآءَ صَبًّا۔ ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا۔ فَاَنْۢبَتْنَا فِيْهَا حَبًّا۔ وَّ عِنَبًا وَّ قَضْبًا۔ وَّ زَيْتُوْنًا وَّ نَخْلًا۔ وَّ حَدَآىِٕقَ غُلْبًا۔ وَّ فَاكِهَةً وَّ اَبًّا۔ مَّتَاعًا لَّكُمْ وَ لِاَنْعَامِكُمْ۔ (عبس: 26تا33)

یعنی ہم نے خوب پانی برسایا۔ پھر ہم نے زمین کو اچھی طرح پھاڑا۔ پھر اس میں ہم نے اناج اگایا۔ اور انگور اور ترکاریاں۔ اور زیتون اور کھجور۔ اور گھنے باغات۔ اور طرح طرح کے پھل اور چارہ۔ جو تمہارے لئے اور تمہارے مویشیوں کے لئے فائدے کا سامان ہیں۔

ریح عاصف

بارش کی ایک قسم کلاؤڈ برسٹ کہلاتی ہے جسے عربی زبان میں السحاب العاصفۃ کا نام دیا گیا ہے۔ قرآن کریم نے بھی عاصف اور عاصفاتکے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو کلاؤڈ برسٹ (Cloudburst)کا مفہوم ریح عاصف میں پایا جاتا ہے۔

Cloudburstکیا ہوتا ہے؟

کلاؤڈ برسٹ (Cloudburst)یا بادل پھٹنے کا مطلب کسی مخصوص علاقے میں اچانک بہت کم وقت میں گرج چمک کے ساتھ بہت زیادہ اور موسلادھار بارش کا ہونا ہے جس کے باعث سیلابی صورت حال پیدا ہو جائے۔

بادل پھٹنے کا واقعہ اس وقت پیش آتا ہے جب زمین یا فضا میں موجود بادلوں کے نیچے سے گرم ہوا کی لہر اوپر کی جانب اٹھتی ہے اور بادل میں موجود بارش کے قطروں کو ساتھ لے جاتی ہے۔

اس وجہ سے عام طریقے سے بارش نہیں ہوتی اور نتیجے میں بادلوں میں بخارات کے پانی بننے کا عمل بہت تیز ہو جاتا ہے کیونکہ بارش کے نئے قطرے بنتے ہیں اور پرانے قطرے اپ ڈرافٹ کی وجہ سے واپس بادلوں میں دھکیل دیے جاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ طوفانی بارش کی شکل میں نکلتا ہے کیونکہ بادل اتنے پانی کا بوجھ سہار نہیں سکتا۔

کلاؤڈ برسٹ (Cloudburst)کے واقعات ماضی میں پاکستان اور انڈیا اور کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں پیش آتے رہے ہیں جہاں کم اونچائی والے مون سون بادل اونچے پہاڑوں سے ٹکرا کر رک جاتے ہیں اور برس پڑتے ہیں۔

(بی بی سی اردو)

سورہ یونس میں رِيحٌ عَاصِفٌ کے الفاظ آئے ہیں۔ جس کامطلب ’’سخت تیز ہوا‘‘ہے۔ اس آیت کو مجموعی طور پر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ریح عاصفمیں تیز ہوا، شدید کڑک، شدید بجلی چمکنا اور تیز بارش، یعنی طوفان مراد ہے۔ اور اس آیت میں بحر و بر دونوں میں اس بارش کی ایسی شدت کا ذکر ہے کہ لوگوں کو قیامت خیز مناظر نظر آتےہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف لوگ متوجہ ہوجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ دعاؤں کے نتیجہ میں ان کو مخلصی عنایت فرماتا ہے۔

ہُوَ الَّذِیۡ یُسَیِّرُکُمۡ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ ؕ حَتّٰۤی اِذَا کُنۡتُمۡ فِی الۡفُلۡکِ ۚ وَ جَرَیۡنَ بِہِمۡ بِرِیۡحٍ طَیِّبَۃٍ وَّ فَرِحُوۡا بِہَا جَآءَتۡہَا رِیۡحٌ عَاصِفٌ وَّ جَآءَہُمُ الۡمَوۡجُ مِنۡ کُلِّ مَکَانٍ وَّ ظَنُّوۡۤا اَنَّہُمۡ اُحِیۡطَ بِہِمۡۙ دَعَوُا اللّٰہَ مُخۡلِصِیۡنَ لَہُ الدِّیۡنَ ۬ۚ لَئِنۡ اَنۡجَیۡتَنَا مِنۡ ہٰذِہٖ لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیۡنَ (یونس:23)

وَالۡمُرۡسَلٰتِ عُرۡفًا۔ فَالۡعٰصِفٰتِ عَصۡفًا ۙ۔ وَّ النّٰشِرٰتِ نَشۡرًا۔ (المرسلات:2تا4)

قسم ہے پے بہ پے بھیجی جانے والیوں کی۔ پھر بہت تیز رفتار ہو جانے والیوں کی۔ اور (پیغام کو) اچھی طرح نشر کرنے والیوں کی۔

ان آیات میں ہواؤں کی اقسام کا ذکر ہے۔ یعنی پہلے پے در پےہوا چلتی ہیں پھر وہ بہت تیز ہو جا تی ہے اور بادلوں کو لاتی ہے اور پھر تیسری قسم کی ہوا ان بادلوں کو نشر کرتی ہے یعنی پھیلاتی ہیں۔ تفسیر ابن کثیر کے مطابق

أَنَّ: ’’الْمُرْسَلات‘‘ هِيَ الرِّيَاحُ، كَمَا قَالَ تَعَالَى: ’’وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ‘‘ (الْحِجْرِ)، وَقَالَ تَعَالَى:’’وَهُوَ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ بُشْرًا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهِ‘‘(الْأَعْرَافِ) وَهَكَذَا الْعَاصِفَاتُ هِيَ: الرِّيَاحُ، يُقَالُ: عَصَفَتِ الرِّيحُ إِذَا هَبَّت بِتَصْوِيتٍ، وَكَذَا النَّاشِرَاتُ هِيَ: الرِّيَاحُ الَّتِي تَنْشُرُ السَّحَابَ فِي آفَاقِ السَّمَاءِ، كَمَا يَشَاءُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ۔

(تفسير ابن كثير ت سلامة (8/ 297) الناشر: دار طيبة للنشر والتوزيع الطبعة: الثانية 1420هـ – 1999 م)

یعنی الْمُرْسَلات سے مراد ہوائیں ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ’’اور ہم نے (پانی سے) لدی ہوئی ہوائیں بھیجیں‘‘ (الحجر:23)، اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ ’’اور وہ ہی ہے جس نے ہواؤں کو اپنی رحمت سے قبل خوشخبری دیتے ہوئے بھیجا۔ ‘‘ (الاعراف:58) اور اسی طرح الْعَاصِفَاتُبھی ہوائیں ہیں جیسے آواز کے ساتھ ہوائیں چلنے پر کہا جاتاہے کہ تیز ہوا چلی۔ پھر النَّاشِرَاتُوہ ہوائیں ہیں جو بادلوں کو آسمان کی بلندیوں میں جیسا اللہ چاہے پھیلاتی ہیں۔

لغت کی رو سےعصف کے لفظ میں بارش، آندھی، اولے، برف باری کے معنی شامل کیے گئے ہیں۔

عاصِفةجمع عاصفات وعَوَاصِفُ:

ريح شديدة يصحبها عادة مطرٌ غزيرٌ أو ثلج أو بَرَد، وقد تكون بريّة أو بحريّة- هبَّت عاصِفةٌ رمليَّة / ثلجيّة / رعديّة، – يوم شديد العواصِف – فَالْعَاصِفَاتِ عَصْفًا۔

(المعجم: اللغة العربية المعاصرة)

(https://www.almaany.com/ar/dict/ar-ar/ عاصف)

یعنی عاصفہ ایسی تیز ہوا ہے جس میں عام طور پر شدید بارش ہوتی ہے یا برف باری یا ژالہ باری۔ سمندر اور خشکی دونوں پر یہ ہوا چلتی ہے۔ تیز ریتلی ہواؤں، برفانی ہواؤں یا گھن گرج والی ہواؤں کو بھی کہا جاتا ہے۔

ان تمام تشریحات سے ظاہر ہے کہ ام الالسنۃیعنی عربی زبان غیر معمولی وسعت رکھتی ہے یہی حکمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کامل اور کبھی نہ بدلنے والی شریعت اس زبان میں اتاری تا کہ وسیع مطالب بیان کر دیے جائیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اس کامل اور خاتم الکتب کے وسیع مطالب کو سمجھنے والا بنائے۔ آمین۔

متعلقہ مضمون

تبصرے 2

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button