الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

محترم سیّد عبدالحئی شاہ صاحب

محترم شاہ صاحب 12؍جنوری 1932ءکو کشمیر کے گاؤں بھیج بیہاڑا (کریل، ضلع اننت ناگ) میں پیدا ہوئے۔ 1941ء میں پرائمری پاس کرکے قادیان آگئے اور 1945ء تک مدرسہ میں تعلیم پائی۔ جون 1947ءمیں کشمیر گئے تو تقسیم ہند کی وجہ سے دو سال وہیں رہنا پڑا۔ 1949ء میں پاکستان پہنچے تو حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر جامعہ احمدیہ میں داخل ہوگئے اور اگلے سال باقاعدہ زندگی وقف کردی۔ 1953ء میں مولوی فاضل کے امتحان میں پنجاب یونیورسٹی میںاوّل رہے۔ 1955ء میں تعلیم الاسلام کالج ربوہ سے بی اے کیا۔ 1956ء میں بطور مربی سلسلہ تقرر ہوا۔ 1961ء میں مکرمہ امۃالودود صاحبہ سے شادی ہوئی۔ 1966ء میں تعلیم الاسلام کالج سے ایم اے عربی کیا۔ قریباً تیرہ سال رسائل ’تشحیذالاذہان‘ اور ’خالد‘کے پرنٹر اور دو سال تک ماہنامہ ’انصاراللہ‘کے ایڈیٹر نیز مجلّہ جامعہ کے بھی مدیر رہے۔ الشرکۃالاسلامیہ کے مینیجنگ ڈائریکٹر اور بورڈ الفضل کے صدر رہے۔ فضل عمر فاؤنڈیشن اور طاہر فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر اور ایم ٹی اے پاکستان کے پہلے مینیجنگ ڈائریکٹر بھی رہے۔ 1982ء میں ناظراشاعت مقررہوئے۔ قائمقام امیر مقامی اور قائمقام ناظراعلیٰ بھی رہے۔ 18؍ دسمبر 2011ء کو بعمر 80سال وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے۔ آپ کی اہلیہ چند ماہ قبل وفات پاچکی تھیں۔ آپ کے چار بیٹے ہیں ۔

ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ ربوہ ستمبر واکتوبر 2012ء کا شمارہ مکرم سیّد عبدالحی شاہ صاحب مرحوم کی یاد میں خصوصی اشاعت کے طور پر شائع کیا گیا ہے۔ مرحوم نے گوشۂ گمنامی میں رہ کر کمال عجز، اخلاص، محنت اور وفا سے دین کو دنیا پر مقدّم کرتے ہوئے خلافت کے سلطان نصیر بننے کا حق ادا کردکھایا تھا۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے آپ کو یہ سند عطا فرمائی تھی کہ ’’خداتعالیٰ کے فضل سے آپ واحد ناظر ہیں جنہیں مفوضہ کاموں کے لیے کبھی یاددہانی کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء‘‘۔

90؍صفحات پر مشتمل یہ شمارہ محترم شاہ صاحب کی سیرت کے حوالے سے خلفائے کرام کے ارشادات، متعدد احباب و کارکنان کے تأثرات اور بہت سی یادگار تصاویر پر مشتمل ہے۔ آپ کی ذاتی زندگی کے خوشکن پہلوؤں اور مختلف ذمہ داریوں کی بطریق احسن ادائیگی کے حوالے سے زینت بنائے جانے والے مضامین کا سلسلہ چند کالموں میں جاری رہے گا۔قبل ازیں آپ کا ذکرخیر الفضل انٹرنیشنل 24؍نومبر2017ء کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں شامل اشاعت کیا جاچکا ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے فرمایا تھا: ’’سیّد عبدالحی صاحب میں مَیں نے یہ خوبی دیکھی ہے کہ جب بھی ان کو کوئی معین بات سمجھادی جائے، خواہ وہ ذاتی علم نہ بھی رکھتے ہوں، ذاتی علم والوں کی تلاش کرتے ہیںا ور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اُن کو مَیںنے کسی کتاب کے متعلق ہدایت کی ہو اور بعینہٖ وہی چیز انہوں نے تیار نہ کی ہو۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک گہری فراست حاصل ہے۔ بہت باریک بینی سے چیزوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔‘‘ (خطبہ جمعہ 26؍ستمبر1996ء)

حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس خادم سلسلہ کے ذکرخیر کے لیے 23؍دسمبر 2011ء کا خطبہ جمعہ وقف فرمایا اور انہیں جماعت کا عظیم سرمایہ قرار دیا۔حضورانور نے فرمایاکہ محترم شاہ صاحب کے دادا سید محمد حسین شاہ آف سرینگر نے مذہبی اختلافات کی بِنا پر آبائی علاقہ چھوڑا اور ناڑواد میں مقیم ہوئے۔ اُن کے ایک فرزند سیّد عبدالمنان شاہ صاحب (والد محترم سیّد عبدالحی شاہ صاحب)نے بچپن میں ہی احمدیت قبول کرکے انتہائی انکساری سے زندگی گزاری۔

حضور نے فرمایا کہ محترم سیّد عبدالحی شاہ صاحب نے کشمیری زبان میں ترجمہ قرآن کی نظرثانی کی توفیق پائی۔ روحانی خزائن کی کمپیوٹرائزڈ کتابت اور نئی اشاعت کی توفیق پائی۔ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی تفسیرکبیر کا انڈیکس بنایا۔ بڑے صائب الرائے، سادہ مزاج، شریف النفس، معاملہ فہم، حلیم الطبع، مدبّر، کم گو اور ہمیشہ نپی تلی بات کرنے والے تھے۔ ٹھوس علمی پس منظر کی وجہ سے ہر معاملے کی خوب گہرائی سے تحقیق کرتے تھے اور اپنی پختہ رائے سے نوازتے تھے۔

حضور نے فرمایا کہ ایک بار جب شاہ صاحب پر ایک سنگین مقدمہ بنادیا گیا تو حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے پریشانی میں دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ آپؒ کی زبان پر جاری فرمائے کہ ’کبھی ضائع نہیں کرتا وہ اپنے نیک بندوں کو‘۔ یہ اس بات کی بھی سند ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں محترم شاہ صاحب کا شمار نیک بندوں میں ہوتا تھا۔ بعد میں ایک اَور موقع پر جب کیس ہوا تو اسیر راہ مولیٰ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اپنے کارکنان سے بہت شفقت کا سلوک تھا۔ حلیمی اور چشم پوشی کی انتہا تھی۔سلسلے کی تاریخ کا بڑا ذخیرہ اور مأخذ تھے۔ باوجود کثرتِ کار کے ہنس مکھ تھے۔ لمبا عرصہ بیمار رہے لیکن بیماری کو اپنے کام میں روک نہیں بننے دیا۔ بتایا کرتے تھے کہ مَیں نے صدرانجمن کا وہ زمانہ بھی دیکھا ہے جب بہت سادگی تھی اور بجلی بھی نہیں تھی۔ چھت پر ایک پائپ کے ساتھ پنکھا لٹکا ہوتا تھا جسے رسّی کے ساتھ ہلاتے تھے۔ایک بار حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے مقبوضہ کشمیر کے کسی علاقے میں ایک پیغام پہنچانے کے لیے بھیجا۔ راولپنڈی پہنچے تو کوئی سواری نہیں ملی۔ اگر کسی سواری کا انتظام کرتے تو دیر ہوجاتی اس لیے پیدل ہی روانہ ہوگئے اور پیغام پہنچاکر واپس بھی پیدل ہی آئے۔

آپ نے ایک بچی کو اپنے بچوں کی طرح پالا اور پھر اُس کا ایک مربی کے ساتھ نکاح کیا۔گھر میں بھی بہت حسن سلوک رکھا۔ بچوں کی عزت نفس کا بہت خیال رکھتے۔ خودنمائی سخت ناپسند تھی۔ ہر عمل میں صبر کی اعلیٰ مثال تھے۔مہمان نوازی بہت زیادہ تھی۔ جلسہ سالانہ پر کشمیر سے مہمان آتے تو سارا گھر اُن کو دے کر خود اپنے بچوں سمیت ایک سٹور میں چلے جاتے۔

آخری دن تک دفتر میں کام کرنے کی توفیق پائی اور وہیں سے تکلیف ہونے پر ہسپتال گئے اور پھر وفات ہوئی۔

حضورانور نے فرمایا کہ جب مَیں ناظراعلیٰ تھا تو اُس وقت بھی اُن کو کامل اطاعت کرنے والا پایا۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے خلافت کی ردا مجھے پہنائی تو شاہ صاحب کو اخلاص و وفا میں پہلے سے بھی بہت زیادہ بڑھا ہوا پایا۔ بیعت کی روح کو سمجھنے والے اور اپنی تمام تر طاقتوں سے اُس کا حق ادا کرنے والے تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔

………٭………٭………٭………

محترم سیّد عبدالحی شاہ صاحب کے بیٹے مکرم سیّد احمد رضوان صاحب لکھتے ہیں کہ ہمارے دادا کے ہاں جو بھی اولاد ہوتی وہ زندہ نہ رہتی۔ ہماری دادی کے بھائی مولوی عبدالجبار صاحب نے ایک مبشر خواب کی بِنا پر نصیحت کی کہ جو بچہ پیدا ہو اُس کا نام عبدالحی رکھنا اور اُس کو خدمت دین کے لیے وقف کردینا۔ چنانچہ آپ کو پیدائش سے پہلے ہی وقف کردیا گیا اور تربیت اس طرح کی گئی کہ گویا آپ خداتعالیٰ کی امانت ہیں۔ آپ کے بعد دو بھائی اور ایک بہن کی پیدائش بھی ہوئی۔ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا، آپ کو سخت محنت کا عادی پایا۔ مزاج میں دھیماپن تھا اور کسی کی دلآزاری کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ کبھی بھی اپنے علم، کام اور رتبے کو وجہ افتخار نہ بنایا۔ 2011ء میں کمزوریٔ صحت کے باوجود جلسہ سالانہ یوکے میں شامل ہوئے۔ چار ماہ پہلے ہماری امّی کی وفات ہوئی تھی۔ نصف صدی سے زائد رفاقت کے بعد اچانک جدائی بہت گراں گزری تھی۔ یوکے پہنچے تو پہلا سوال حضور سے ملاقات کا پوچھا حالانکہ لمبے سفر سے ٹانگیں سوج کر کُپا ہوگئی تھیں۔ اگلے روز ہم سب ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔ آپ حضور سے گلے مل کر سامنے نظریں جھکائے بیٹھے رہے۔ آنکھوں میں آنسو تھے اور فرط جذبات سے کانپ رہے تھے۔ حضور نے کمال شفقت سے کافی وقت دیا اور ڈھارس بندھائی۔ پھر ہم عثمان چینی صاحب سے ملنے اُن کے گھر اسلام آباد گئے۔ اُن کے ساتھ ابا کا بہت قریبی تعلق تھا۔ کافی دیر تک بیٹھ کر باتیں کرتے رہے۔ جب ابا نے اجازت چاہی تو عثمان صاحب کہنے لگے کہ شاہ صاحب!لگتا ہے کہ اس دنیا میں یہ ہماری آخری ملاقات ہے اس لیے کچھ دیر اَور بیٹھیں۔ پھر دونوں اگلے جہان کے بارے میں باتیں کرنے لگے۔ یہ ملاقات واقعی آخری ثابت ہوئی۔

محترم شاہ صاحب کے بڑے بیٹے مکرم سیّد احمد یحییٰ صاحب (چیئرمین ہیومینٹی فرسٹ) اپنے مضمون میں لکھتے ہیں دو ہفتے ابّا کے ساتھ گزار کرمَیں دبئی روانہ ہوا۔ دل نہیں چاہتا تھا کہ واپس جاؤں لیکن آپ کا اصرار تھا کہ اب وہ بہت بہتر ہیں اور دفتر جانا شروع کرچکےہیں۔اسلام آباد پہنچ کر ابا کو فون کیا تو آپ دفتر میں تھے۔ کہا بہت بہتر محسوس کررہا ہوں اور حضور کو اپنے ہاتھ سے خط لکھ رہا ہوں۔ یہ وہی خط ہے جس میں ذکر تھا کہ ’’میری خواہش ہے کہ کام کے دوران ہی میری وفات ہو۔‘‘ اللہ نے اُن کی خواہش اس طرح قبول کی کہ اگلے پندرہ دن آپ باقاعدگی سے دفتر جاتے رہے۔ روزانہ بات ہوتی۔ مجھے یاددہانی کرواتے کہ انڈیا کا ویزہ مل جائے اور ہم جلسہ قادیان میں شامل ہوسکیں۔ 14؍دسمبر کو دفتر سے چیک اَپ کے لیے ہسپتال گئے تو ڈاکٹرز کے مشورے پر داخل ہوگئے۔ اگلے تین دن دفتر سے کارکن ہسپتال آکر ڈاک پر ہدایات لیتے رہے۔ 18؍دسمبر کو اچانک بیٹے سے کہا فلائیٹ آگئی ہے۔ اور اسی وقت وفات ہوگئی۔

بچپن سے گزرا ہوا وقت یاد آنے لگا۔ ہم نے گھر میں مُرغیاں پال رکھی تھیں۔ نئے ہمسائے آئے تو مرغ اُن کے ہاں چلاگیا۔ انہوں نے اس کو بھگانے کے لیے کوئی چیز اُس کی طرف پھینکی تو وہ زخمی ہوکر تڑپنے لگا۔ اس خیال سے کہ ضائع نہ ہوجائے انہوں نے مرغ کو ذبح کیا اور پھر شرمندگی اور معذرت کے ساتھ ہمارے گھر لے آئے اور معاملہ بیان کیا۔ ابّا نے اُن سے معذرت کی کہ ہمارے مرغ کی وجہ سے اُن کو تکلیف ہوئی۔ اور پھر کچھ دیر بعد گوشت کا نصف حصہ اُن کے گھر بھجوادیا۔ یہ ہمسائے آج تک اُس واقعے کو یاد کرتے ہیں۔ اُن دنوں معاشی حالات کے پیش نظر مرغ کا نقصان معمولی نہیں تھا لیکن آپ نے جس طرح یہ معاملہ نپٹایا اُس نے دوسروں کے لیے کئی سبق چھوڑے۔

ہمارے والدین انتہائی مہمان نواز تھے۔میرے پڑنانا بیماری کے آخری چند سال ہمارے گھر پر رہے۔ میری نانی قریباً پندرہ سال ہمارے گھر پر رہیں۔ میری امّی ہمیشہ ان بزرگوں کی خدمت میں مصروف رہتیں اور ابّا نے ہمیشہ خندہ پیشانی سے میری امّی کا ساتھ دیا۔

آپ اکثر کشمیری روایت کا ذکر کرتے کہ مالک اور ملازم ایک ہی دسترخوان پر کھانا کھاتے ہیں۔ آپ جب بھی کھانے کی میز پر بیٹھتے تو ضرور پوچھتے کہ ملازمہ کو کھانا دے دیا ہے؟ اپنی وفات سے تین ماہ قبل فون پر بتایا کہ آج ملازمہ کے ساتھ اُس کی شادی کا سامان لینے گیا ہوا تھا۔ مَیں نے کہا کہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ، اُن کو پیسے دے دیتے، وہ خود خرید لیتے۔ کہنے لگے کہ اگر تمہاری امّی زندہ ہوتیں تو وہ یہ کام خود ہی کرتیں اس لیے مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔

ہمارے گھر میں تیس سال سے زائد عرصے سے جو شخص دودھ مہیا کررہا تھا، اُس نے اپنی بیٹی کے رخصتانے پر مدعو کیا تو اُس روز غیراحمدی ربوہ میں جلوس نکال رہے تھے۔ میرے منع کرنے کے باوجود ابا اور امی نے کچھ عزیزوں کو ساتھ لیا اور اُس کے گاؤں جاکر اُس کی خوشی میں شامل ہوئے۔

دفتری کتب اور مضامین وغیرہ پر تو گھر میں کام ہوتا تھا لیکن کبھی دفتری ڈاک یا خلیفہ وقت کی کسی ہدایت یا ملاقات میں ہونے والی بات کا ذکر تک نہیں کرتے تھے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی شدید بیماری کے دوران جلسہ سالانہ یوکے کے افتتاحی اجلاس کی صدارت کے لیے جب حضورؒ نے ابّا کو ارشاد فرمایا تو بعد میں کچھ ملنے والوں نے بےتکلّفی سے مبارکباد دی۔ آپ نے اس کو ناپسند کیا اور کہا کہ حضور کا شرکت نہ کرسکنا تو تکلیف کی بات ہے۔

ابا جب چار سال کے تھے تو آپ کی والدہ بیمار ہوگئیں اور جموں کے ایک ہسپتال میں ڈاکٹروں نے ناامیدی ظاہر کردی۔ آپ بیان کرتے تھے کہ میرا دل بہت غمگین تھا۔ انہیں واپس لانے کے لیے گاؤں سے چند لوگ آئے۔جب ہم بس اڈہ پر پہنچے تو اتفاق سے ابّا کے ماموں مکرم مولوی عبدالواحد صاحب قادیان سے آتے ہوئے وہاں پہنچے تھے۔ وہ قادیان سے آم لائے تھے (جو عموماً کشمیر میں نہیں ملتے)۔ اُن کو اپنی بہن کی حالت دیکھ کر بہت تشویش ہوئی اورانہوں نے وہ آم دادی کو کھلادیا۔ ابا بتاتے تھے کہ دادی نیم مُردہ حالت میں تھیں لیکن قادیان سے آیا ہوا آم کھایا تو کچھ دیر بعد آنکھیں کھل گئیں اور معمولی حرکت بھی کی۔ گاؤں پہنچنے تک حالت مزید بہتر ہوگئی، پھر معجزانہ صحت عطا ہوئی۔ انہوں نے لمبی زندگی پائی اور سینکڑوں بچوں کو قرآن پڑھایا۔

ابا کبھی ایسا اظہار نہیں کرتے تھے کہ بہت دعاگو ہوں لیکن آپ کی دعا کا ایک خاص رنگ تھا جس کے ثمرات ہمیشہ ہم نے دیکھے۔اکثر بعد میں پوچھتے کہ فلاں معاملہ حل ہوگیا؟ تو شرمندگی ہوتی کہ آپ کو بتانا بھول گیا کہ معاملہ تو میری خواہش کے مطابق حل ہوگیا تھا۔آپ کو خداتعالیٰ پر بہت توکّل تھا۔ بچپن میں اگر ہماری امّی ہماری تعلیم کے بارے میں فکرمندی ظاہر کرتیں تو آپ یہی کہتے کہ ٹھیک ہوجائے گا، اللہ فضل کرے گا۔ بظاہر کوئی ناکامی بھی ہوتی تو یہی کہتے شاید اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے ایسے ہی بہتر سمجھا ہے۔

گزشتہ بیس سال سے اکثر یورپ آتے لیکن آپ کا اصرار ہوتا کہ واقف زندگی کو لمبی چھٹی لینا مناسب نہیں لگتا۔ اگر کہا جاتا کہ آپ تو اب ریٹائرڈ ہیں تو کہتے مَیں نے زندگی وقف کی ہے نہ کہ زندگی کا ایک حصہ۔ اسی طرح کبھی اپنی کسی ذاتی ضرورت کا ذکر نہیں کرتےتھے۔البتہ کسی مستحق کی ضرورت بیان کرکے کارِثواب میں شامل ہونے کی طرف توجہ دلادیتے۔

لباس بہت سادہ تھا۔ میری امّی کپڑا خرید کر سلواتیں تو ابّا طبیعت میں بوجھ محسوس کرتے کہ نئے سوٹ ضرورت سے زیادہ بن گئے ہیں۔جب پاؤں کی سوجن کی وجہ سے کوئی جوتا پورا نہ آتا اور کوئی بیٹا نئی سینڈل وغیرہ لے آتا تو ناپسند کرتے کہ پہلے ہی کئی جوتے موجود ہیں۔ ایک دن مَیں نے جوتوں کی ایک دکان کے سامنے کار روکی کہ یہاں سے آرام دہ جوتے مل جاتے ہیں۔ کہنے لگے مجھے تو نہیں چاہیے۔ مَیں نے کہا یہ جوتے پاکستان میں نہیں ملتے، ایک دو سال آرام سے چل جائیں گے۔ کہنے لگے کہ زندگی کا ایک ماہ کا بھروسا نہیں، تم دو سال کی تیاری کر رہے ہو۔مَیں اصرار کے ساتھ ایک جوتا لے آیا تو آپ نے ناپسند کیا اور کافی دیر خاموش رہے۔ آپ کی عادت تھی کہ اگر کسی بات کو ناپسند کرتے تو خاموش ہوجاتے۔ اپنی ذات پر خرچ کرنے کے برعکس گھر کی روزمرہ اشیا میں کبھی کمی نہ ہونے دیتے۔ مہمان وغیرہ آنے ہوں تو امّی کے ساتھ ہر طرح سے ہاتھ بٹاتے۔ ہم چھوٹے تھے تو سبزی اور پھل وغیرہ باقاعدگی سے گھر لاتے۔ ہمارے اصرار کے باوجود کبھی خود نہ کھاتے۔ پڑھائی میں ہماری مدد کرتے لیکن کبھی اکتاہٹ کا اظہار نہ کرتے اور نہ کبھی ڈانٹتے۔ بچوں کے ساتھ اور پھر اُن کی اولاد کے ساتھ ذاتی تعلق قائم کرتے۔ اگر کوئی اپنے بچے کو ڈانٹتا تو بہت بُرا مناتے۔

………٭………٭………٭………

مکرمہ خدیجہ بزمی صاحبہ بنت محترم مولوی اخوند غلام محمد صاحب آف بلتستان نے محترم سیّد عبدالحی شاہ صاحب کے گھر میں ایک بیٹی کی طرح پرورش پائی ۔وہ بیان کرتی ہیں کہ سیاچن گلیشیئر کے دامن میں واقع میرا گاؤں دُم سُم ہے۔ میرے والد اپنے علاقے کے علماء میں شمار ہوتے تھے اور احمدی ہونے کے باوجود ریڈیو پاکستان (اسلام آباد) سے بَلتی زبان میں اسلامی پروگرام بھی پیش کرتے رہے۔ انہوں نے 1967ء میں اتفاقاً الفضل کے مطالعے اور خواب دیکھنے کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ کے ہاتھ پر بیعت کی توفیق پائی اور پھر حضورؒ کے ارشاد پراپنے دونوں بیٹوں کو بغرض تعلیم ربوہ بھجوادیا۔ بڑے بیٹے عبدالوہاب صاحب قرآن کریم حفظ کرکے جامعہ احمدیہ پاس کرکے 1984ء میں مربی سلسلہ بن گئے تو اُن کی تقرری گلگت میں ہوئی۔ مَیں آٹھ سال کی تھی جب وہ مجھے اپنے پاس گلگت لے گئے۔ وہ بہت عبادت گزار، خدمت خلق کرنے والے اور مہمان نواز تھے۔ گھر کے سارے کام خود کرتے اور میری چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کا خیال رکھتے۔ ایک دن وہ مجھے ربوہ لے آئے اور یہاں میرے محترم شاہ صاحب کے گھر لے آئے۔ مجھے محسوس ہوا کہ مَیں پہلے سے ہی اس گھر کا حصہ ہوں۔شاہ صاحب اور اُن کی بیگم مجھے بالکل حقیقی والدین کی طرح محسوس ہوتے اور اُن کے چاروں بیٹے مجھے حقیقی بھائیوں کی طرح۔ مجھے اس گھر سے اتنا پیار ملا کہ حقیقی امی، ابا اور بھائیوں کی یاد بہت کم آئی۔گھر کا ماحول دینی تھا، لجنہ کے اجلاس ہوتے۔ امی مجھے خود تیار کرکے سکول بھیجتیں۔ چھٹی کے وقت دروازے میں کھڑے ہوکر میرا انتظار کرتیں۔ مجھے کہتیں کہ چھٹی کے بعد سیدھا گھر آنا ہے اور رستہ میں کہیں نہیں رُکنا۔جب امّی کسی کے ہاں جاتیں تو مَیں انگلی پکڑ کر ساتھ جاتی۔ نت نئے کپڑے سلواکر مجھے پہناکر خوش ہوتیں۔ ابا دفتر سے آتے تو بہت سارا کام ساتھ لاتے۔ خود دفتر کا کام کرتے اور اپنے پاس کرسی رکھ کے مجھے بٹھاتے اور کاغذ پر حروف تہجی لکھ کر کہتے ان کو دیکھ کر لکھو۔ مجھے اردو بالکل نہیں آتی تھی، جو آئی وہ بھی مذکر اور مؤنث کے فرق کے بغیر تھی۔ اباجان اور امی میری باتوں سے بہت ہنستے۔ ہر سال دو ماہ کی چھٹیوں میں مجھے جہاز پر سکردو بھجواتے۔

بھائی عبدالوہاب گلگت میں تھے اور ربوہ والی امّی اُن کے لیے رشتہ تلاش کررہی تھیں کہ انہیں برین ٹیومر ہوگیا۔ علاج کے لیے کراچی لے گئے۔ آپریشن ہوا مگر 14؍اکتوبر 1988ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔وہ بلتی قوم سے پہلے مربی تھے۔بھائی کی وفات کا گہرا صدمہ ربوہ والے امی اور ابا کی شفقتوں سے جلد مندمل ہوگیا۔ امّی ابّا آپس میں کشمیری زبان میں بات کرتے اور مجھے بھی کہتے کہ جب بھائی یا ابو آئیں تو بلتی زبان میں بات کیا کرو، اپنی مادری زبان کو نہیں بھولنا چاہیے۔ جب مَیں بڑی ہوئی تو امّی مجھے کھانا بنانا سکھاتیں اور ابّا شوق سے کھاکر کھانوں کی بہت تعریف کرتے۔ حالانکہ مجھے پتہ ہوتا تھا کہ کھانا اتنا اچھا نہیں بس حوصلہ افزائی فرماتے ہیں۔

مارچ 1999ء میں میرے ابو کی وفات ہوئی تو بھائی کا صدمہ بھی تازہ ہوگیا۔ مَیں ہر وقت روتی اور ربوہ والے امی اور ابا مجھے شفقت سے سہارا دیتے اور بہت خیال رکھتے۔ ملازماؤں کو ہدایت تھی کہ خدیجہ جب جو چاہے اسے بنادیں۔

اباجان پر کئی مقدمات تھے۔ جب پیشی پر جاتے تو ہم سب کو دعا کے لیے کہہ کر جاتے۔ واپس آکر ہماری تسلّی کے لیے صرف یہی کہتے کہ انشاءاللہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ آپ فجر کے بعد بھی فائلیں دیکھ رہے ہوتے۔ دوپہر کو تھوڑا آرام کرتے اور پھر کام میں لگ جاتے۔ مغرب کے بعد MTA کےدفتر چلے جاتے اور رات گئے واپس لَوٹتے۔ لیکن اگر مہمان گھر میں آتے تو اُن کی تواضع کا پورا خیال رکھتے۔

جب میری شادی کا موقع آیا تو کئی رشتے آئے۔ آپ نے دینی خدمت کو ترجیح دی اور مربی سلسلہ سے رشتہ کردیا۔ میرے شوہر کی یہ دوسری شادی تھی اس لیے مجھے اطمینان نہیں ہوتا تھا۔ ابا امّی نے بہت سمجھایا اور پھر اپنی ہمسائی ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ سے کہا تو انہوں نے بھی سمجھایا۔ چنانچہ مَیں 26؍مئی 2002ء کو رخصت ہوکر سکردو آگئی۔ خطوں میں اور فون پر ابا اور امی مجھے نصائح کیا کرتے تھے کہ ساری برکتیں جماعتی خدمت میں ہیں، اپنے میاں کا خیال رکھنا، اُن کی اطاعت کرنا اور مربی کے وسائل کے مطابق اخراجات رکھنا اور فون کا استعمال بھی میاں کی اجازت سے کرنا۔ اب مَیں سوچتی ہوں کہ ابا امی کا فیصلہ کتنا درست تھا۔

جب میرے بچے ہوئے تو ابّا نے اُن کے نام ہمارے علاقے کے پھلوں کے نام پر آڑو، خوبانی، چیری وغیرہ رکھ دیے۔ جب ہم سردیوں میں ربوہ جاتے تو اباجان بچوں کو بہت پیار کرتے اور روز کچھ نہ کچھ خاص منگواتے۔ اکثر ہمارے کپڑے تیار کرواکے سکردو بھجوادیتے یا ہمارے آنے کا انتظار کرتے۔ہر عید پر باقاعدگی سے عیدی بھجواتے۔ فون پر عیدمبارک کہتے اور حضور کے لیے دعا کا کہتے۔ ابا امی کو خلافت کے ساتھ عشق تھا۔

………٭………٭………٭………

مکرم اظہر احمد بزمی صاحب رقمطراز ہیں کہ دسمبر 2000ء میں خاکسار کی تقرری سکردو میں ہوئی۔ خاکسار اور اہلیہ نے اولاد نہ ہونے کی وجہ سے دوسری شادی کا پروگرام طے کرلیا اور دفتر رشتہ ناطہ سے بھی تعاون چاہا مگر حتمی فیصلہ نہ ہوسکا۔ ایک روز محترم سیّد عبدالحی شاہ صاحب کے دفتر ایک کام سے گیا تو یہ پہلا تعارف اور چند منٹ کا کام آپ کی شفقت کی وجہ سے ایک گھنٹے کی مجلس میں بدل گیا۔ آپ میرے گھریلو حالات اور دوسری شادی کی ضرورت سے بھی آگاہ ہوئے۔ کچھ عرصے بعد مجھے آپ کا پیغام ملا کہ دوسری شادی کا ارادہ ہے تو ہماری بیٹی سے کیوں نہیں کرلیتے۔ چنانچہ چند ماہ میں بات فائنل ہوگئی اور مئی 2002ء میں رخصتی ہوگئی۔ خاکسار اپنے آپ کو انتہائی خوش قسمت سمجھتا ہے کہ شاہ صاحب جیسے خدارسیدہ بزرگ سے ایک تعلق بن گیا۔

اس شادی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹا اور تین بیٹیاں عطا فرمائیں۔ میری اہلیہ گو شاہ صاحب کی منہ بولی بیٹی ہیں لیکن آپ نے اور آپ کی اہلیہ نے ہمیشہ ہمارے ساتھ حقیقی بیٹی اور داماد کا سا سلوک کیا۔مجھ کو بہت عزت دی اور بار بار ایک ہی بات کہتے کہ خدیجہ صرف آپ کی بیوی نہیں یتیم بچی بھی ہے اس کا بہت خیال رکھنا۔

آپ کے عزم و ہمّت اور اطاعتِ امام کا یہ واقعہ غیرمعمولی ہے کہ جب آپ جامعہ میں آخری سال کے طالب علم تھے تو گرمیوں کی چھٹیوں میں سب لڑکے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے صرف آپ اور ایک بنگلہ دیشی طالب علم ہوسٹل میں رہ گئے۔حضرت مصلح موعودؓ کو علم ہوا تو دونوں کو بلاکر فرمایا کہ دونوں کرایہ لیں اور سکردو چلے جائیں۔ چنانچہ آپ بیان کیا کرتے تھے کہ ہم روانہ ہوگئے۔ پنڈی پہنچے تو معلوم ہوا کہ پہلے شمالی علاقہ جات کے پولیٹیکل ایجنٹ سے NOC لینا پڑے گا۔ ہم نے کوشش شروع کی، ایک عزیز سے مدد بھی لی، ایک ماہ گزر گیا لیکن دفتر والے ٹال مٹول کرتے رہے۔ ہمارے کرایہ کے پیسے بھی خرچ ہوگئے تو ہم دونوں نے مشورہ کیا اور ایک جیپ پر سوار ہوکر مظفرآباد پہنچے اور وہاں سے دریائے نیلم کے ساتھ ساتھ سکردو کے لیے پیدل سفر شروع کیا۔ ایک تھیلے میں چند کپڑے، دو موٹی سوتی چادریں اور بھنے ہوئے چنے ہمارے پاس تھے۔ جہاں رات آتی وہاں رُک جاتے اور صبح پھر روانہ ہوجاتے۔مظفرآباد سے ہمیں راستے میں برفانی ریچھ اور جنگلی جانوروں سے ڈرایا گیا تھا مگر ہم دونوں ہر چیز سے بے نیاز محو سفر رہے اور پانچویں دن دوپہر کو قریباً سات سو کلومیٹر کا مشکل سفر طے کرکے سکردو پہنچ گئے۔

سکردو میں چھوٹے چھوٹے کچے مکان اور ریت کے بڑے بڑے ٹیلے اور دنیاو مافیہا سے بےخبر سادہ لوگ تھے جن میں سے اکثریت نے پنڈی کا صرف نام سنا تھا اور عملاً کبھی سکردو کی وادی سے باہر نہیں نکلے تھے۔ ہم نے ایک بندے سے بات کی جو تھوڑی بہت اردو جانتا تھا۔ اُس نے دس روپے پر ایک چھوٹا سا کمرہ کرایہ پر دے دیا۔ ایک دیگچی اور چند برتن بھی دیے۔ ہم نے دکانوں سے کچھ چیزیں جمع کرلیں اور سارا دن گھومتے اور رات کو کمرے میں آکر سو جاتے۔

ایک صبح پولیس کے دو سپاہی آئے اور کہا کہ ڈپٹی کمشنر نے بلایا ہے۔ ہم گئے تو ڈپٹی کمشنر نے پوچھا کہ آپ کے پاس NOC ہے؟ ہم نے نفی میں جواب دیا۔ اُنہوں نے پوچھا پھر سکردو کیسے آئے؟ ہم نے بتایا کہ ہم طالب علم ہیں اور سیر کرتے کرتے پیدل آئے ہیں۔ وہ بہت حیران ہوئے۔ پھر اُن کے پوچھنے پر بتایا کہ ہم احمدی ہیں۔ انہوں نے پولیس والوں سے کہا کہ دونوں کو سامان سمیت ایئرپورٹ لے جاؤ اور جیسے ہی جہاز آئے ان کو پنڈی بھیج دو۔ اور ہمیں کہا کہ جہاز کی ٹکٹ کے پیسے دو۔ ہم نے کہا کہ ہمارے پاس تو پیسے نہیں ہیں۔ ایک سپاہی نے کہا کہ یوسف دیوانی صاحب احمدی ہیں جو سکردو میں کاروبار کرتے ہیں، ان سے ٹکٹ کے پیسے لیے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ دیوانی صاحب کو بلواکر ہماری ٹکٹ کے پیسے لیے گئے اور ہمیں خچروں پر بٹھاکر ایئرپورٹ پہنچاکر ایک چھوٹے سے کمرے میں بند کردیا گیا اور ایک سپاہی ہمارے پاس بیٹھ گیا۔ وہ دروازہ کھولتا تو ہم قضائے حاجت اور وضو کے لیے باہر نکلتے۔ دو دن بعد ڈیکوٹر جہاز آیا تو اُس پر سوار کرکے پنڈی بھیج دیا گیا۔ پنڈی پہنچ کر ہم نے رپورٹ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں بھیجی تو حضورؓ نے ہمیں طلب فرمایا اور دونوں کو گلے لگاکر فرمایا کہ مجھے ایسے ہی باہمت نوجوانوں کی ضرورت ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جس محبت سے آپ کے محاسن بیان فرمائے مجھے عرب کے مشہور شاعر متنبّی کا یہ شعر یاد آگیا جو اُس نے کسی قبیلے کے سردار کی وفات پر کہا تھا:

مَا کُنْتُ اَحْسِبُ قَبْلَ دَفْنِکَ فِی الثَّریٰ

اِنَّ الْکَوَاکِبَ فِی التُّرَابِ تَغُورُ

کہ اے معزّز شخص! تیرے وفات پاکر مٹی میں دفن ہونے سے پہلے مَیں نے کبھی گمان بھی نہیں کیا تھا کہ کبھی ستارے بھی زمین میں چھپ سکتے ہیں۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button