یادِ رفتگاں

ڈھونڈو گے ہمیں ملکوں ملکوں۔ ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

(ڈاکٹر عمران احمد خان)

چند دن پہلے ’صدر شرقی گروپ‘ کے دل کش نوٹس بورڈ پر ایک نہایت ہی محترم شخصیت کی تصویر دیکھی تو بچپن کے انمٹ نقوش ابھرتے چلے گئے ۔ وہ انسان جو بے سرمایہ، لیکن انسانیت کا سرمایہ تھے وہ وجود جو بظاہر خوش پوش و خوش نما نہ سہی لیکن خدا نما تھے وہ فضا جو گرد آلود لیکن نیکیوں کی مہک سے رچی بسی تھی، وہ دن جب اندر اور باہر کے دونوں ماحول پرسکون ہوا کرتے تھے ،باہر سڑک سے گزرتی کسی لاری کا ہارن راستوں سے گزرتے تانگے کے گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز دفتر خزانہ میں دھرے وقت بتانے والے گھنٹے کی آواز، اور تپتی دوپہر میں پہاڑی سے روڑی کوٹنے کی آوازیں جس کی ہر چوٹ میں رزق حلال کی گونج ہوتی تھی ماحول کے سکوت کو توڑتی تھیں۔مہنگے داموں پریشانیاں خریدنے کی بجائے ان خوشیوں کی قدر ہوتی تھی جو مفت یا سستی مل جائیں ،بڑے نیکی اور دین کے کاموں میں آسودہ اور بچے کھیل کود اور دوستیوں میں مشغول ہمارے ہمسائے حفیظ صاحب جو ’’حفیظ کمپوڈر‘‘ کے نام سے معروف تھے صدر انجمن کے کوارٹرز میں رہنے والے اسی گلدستہ کے ایک پھول تھے جن میں سے ہر ایک کا ذکر اس اندر کے سکون کا ہی بیانیہ ہے۔ تعریف کے قابل ہیں یہ دیوانے جو امام وقت کے جلو میں ا س بے آب و گیاہ بستی میں پرعزم اور مطمئن تھے۔

آپ کے چچا ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب پٹیالہ ہسپتال کے انچارج اور مہاراجہ پٹیالہ کے معالج تھے۔ 1918ء میں ورلڈ فلو کے دوران جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ تشویش ناک طور پر بیمار ہوگئے اور آپ نے وصیت بھی لکھوا دی تو ڈاکٹر صاحب ایک نسخہ لے کر جو آپ کو خواب میں بتایا گیا تھا قادیان آئے اس انفلوئنزا پاؤڈر جس میں اسپرین، کیفین، سوڈا بائی کارب اور دار چینی کا پاؤڈر شامل تھے کے استعمال سے حضورؓ کو کافی افاقہ ہوا۔ جب آپ نے واپس جانے کا کہا تو حضورؓ نے فرمایا کچھ دن ٹھہر جائیں۔پھر عبدالرحیم درد صاحب کو مہاراجہ پٹیالہ کے پاس بھجوایا اور اجازت ملنے پر آپ مستقلاً قادیان کے ہو رہے۔ پہلے نور ہسپتال قادیان پھر نور ہسپتال ربوہ کے انچارج رہے تا آنکہ فضل عمر ہسپتال نے 1957ء میں کام شروع کر دیا۔ آپ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ذاتی معالج تھے۔ نیلے رنگ کی کار میں جسے نذیر ڈرائیور چلایا کرتے تھے آپ حضور کے ہم راہ ہوتے۔ حضرت اماں جانؓ نے بھی اس گاڑی میں سفر کیا۔ آپ کے ایک بیٹے ڈاکٹر محمد احمد صاحب کو وقف کی روح سے تاوفات فضل عمر ہسپتال میں خدمت کی توفیق ملی۔ والد صاحب بار ہا مجھے ان سے مشورہ کے لیے ہسپتال لے کر گئے۔ اس خاندان کے ذکر کے بغیر جماعت کے ہر دو مراکز کی طبی تاریخ ادھوری رہے گی جنہوں نے دنیاوی سہولتیں چھوڑ کر خدمت کے جذبہ کے تحت اسے اپنے خون پسینے سے سینچا۔ اسی بنا پر ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ان کا بہت احترام کرتے تھے اور خلفاء کی خوشنودی تو ان کے لیے تمغۂ افتخار تھا۔

حفیظ صاحب 1920ء میں جب آپ کی عمر4سال تھی اپنے والد حافظ ملک محمد صاحب اور چچا حشمت اللہ صاحب کے ساتھ قادیان آگئے۔

1930ء میں نور ہسپتال قادیان پھر نور ہسپتال ربوہ اور فضل عمر ہسپتال ربوہ میں تقریباً 55سال بطور ڈسپنسرکمپاؤنڈر خدمت کی توفیق پائی۔ سادہ مزاج ،طبیعت میں دھیما پن، بےضرر، کسی لالچ سے عاری محنتی وجود تھے۔ انہیں ہمیشہ ڈریسنگ روم میں نہایت عرق ریزی سے اپنے کام میں مصروف پایا۔ پٹیاں کر رہے ہیں مختلف کمپاؤنڈ ملا کر مکسچر تیار کر رہے ہیں۔ ترازو سے Grain اور گرام وزن کر کے پُڑیاں اور مرہم تیار کر رہے ہیں۔ انہیں کبھی سٹول پر فارغ بیٹھے نہیں دیکھا۔ اپنے کام پر عبور حاصل تھا۔ اس وقت پیٹنٹ دوائیں بہت کم ہوتی تھیں اور اس فن کے یہ آخری علمبردار تھے جو ان کے ساتھ ہی رخصت ہوگیا۔

ہمارے تو فیملی ڈاکٹر تھے۔انہیں جب بھی گھر پر بلایا اپنے پرانے تعلق کی وجہ سے ہمارے نئے مسکن دارالرحمت میں بھی ضرور آئے۔ گلاس کی سرنج سوئیاں وغیرہ کپڑے میں لپیٹ کر ایک سٹیل باکس میں ڈال کر دیتے کہ اسے ابال لاؤ۔ ضرورت پڑنے پر ہماری معذور بہن سلمیٰ کے دانت بھی انہوں نے گھر پر ہی آکر نکالے ۔صابن اور پانی لا کر جب میں ان کے ہاتھ دھلاتا تو وہ رنگین ہی رہتے۔ میری حیرانی پر بتاتے کہ مختلف کیمیکل مرکب تیار کر کے یہ اب ایسے ہی ہوگئے ہیں۔ اپنے سامان کا تھیلا لٹکائے جب میں انہیں اپنی سواری پر جسے وہ اپنی کمزور صحت اور بڑھاپے کی وجہ سے بمشکل کھینچ رہے ہوتے تھے حقوق العباد کی ادائیگی کے لیے آتے جاتے دیکھتا تو ایسا لگتا جیسے عشق کی دشوار گزار اور لمبی راہ کا سفر سائیکل پر طے کر رہے ہوں اور ذہن ؎

اوکھے نیں پینڈے لمیاں نیں راہواں عشق دیاں

کا مفہوم سمجھ جاتا تھا۔

حفیظ صاحب نے 2008ء میں ربوہ میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ میں آسودہ خاک ہیں۔

حفیظ صاحب کی تین بیٹیاں کینیڈا، جرمنی اور فیصل آباد میں مقیم ہیں۔ عبدالحئی (حیا) جرمنی اور چھوٹا بیٹا عبدالمقیم (قیما) ربوہ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو شاد آباد رکھے۔

تشنگی رہ جائے گی اگر اس جگہ میں عبدالجبار صاحب ڈسپنسر سرجیکل سائیڈ فضل عمر ہسپتال کا ذکر نہ کروں جو اسی جذبے ،لگن ،مسکراتے چہرے اور خوش اخلاقی سے ڈیوٹی کے دوران اور ڈیوٹی کے بعد گھروں پر خدمات بجا لاکر لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھتے تھے عملاً بھی اور لبوں کی مٹھاس کے ساتھ محاورتاً بھی۔

سب کہاں کچھ لالہ و گُل میں نمایاں ہوگئیں

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہوگئیں

جن گھروں میں اپنے بزرگوں کی قربانیوںکے تذکرے زندہ ہیں وہ اپنے عہد وفا کو نبھانے کی توفیق پا رہے ہیں۔ الحمدللہ۔ اللہ کرے آئندہ نسلیں بھی بزرگوں کی ایمان افروز تاریخ دہراتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو کسی کمزوری لغزش اور امتحان سے بچائے۔ آمین۔

ان نافع الناس خادمین کے ساتھ تحریک ہوئی کہ ماسٹر عبدالسمیع خان صاحب کاٹھگڑھی کی خدمات کا کچھ ذکر کروں اور ان کی صحت و سلامتی کے لیے دعا کی درخواست کروں ۔لکھنا شروع کیا کہ اس دوران اچانک ان کی وفات کی افسوسناک اطلاع موصول ہوئی (ان کی بیماری وغیرہ کی بھی کوئی اطلاع نہ تھی) یہ ذکر اب یادرفتگان کے طور پر مکمل ہوگا۔ اگر ادارے سنگ وخشت کا ہی نام ہوتا تو ہم بہت تہی دست تھے کہ ہم نے کچے کمروں اور ٹاٹ والے سکولوں سے اپنا تعلیمی سفر شروع کیا لیکن یہ ہماری خوش بختی تھی کہ ہمیں شروع سے ہی محنتی بلند کردار اور بے لوث اساتذہ میسر آئے۔ جو ان اداروں کی اصل زینت تھے اور ماسٹر سمیع صاحب اس کی ایک Ideal مثال تھے۔ ماسٹر صاحب نے ہمیں نویں دسویں میں میتھ (Maths)پڑھانا شروع کیا۔ انداز سادہ اور متاثر کن تھا۔ جب تک طالب علم کو سبق ازبر نہ ہو جائے آگے نہیں چلتے تھے۔ تضیع اوقات سے اس قدر بیزار تھے کہ آتے ہی بلیک بورڈ کا رخ کرتے۔ پیریڈ ختم ہونے پر کھڑے پاؤں واپس ہو جاتے۔ استاد کی کرسی ان کے لیے ایک فالتو چیز تھی۔ ڈانٹ ڈپٹ یا غصہ ان کے مزاج کا حصہ ہی نہ تھا۔ لیکن اس کے باوجود کلاس میں مکمل خاموشی ہوتی۔

شفیق اتنے کہ جب علامتاً سزا دینی پڑ جائے تو ایک چھوٹے سائز کی سوٹی اتنا قریب لا کر ہاتھ پر مارتے کہ تکلیف محسوس نہ ہوتی۔ پدرانہ شفقت اور تعلق کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ جب کوئی پرانا شاگرد راستے میں مل جاتا تو اس کے میٹرک پاس کرنے کا سال خود بتاتے۔

اب انہیں ڈھونڈو چراغ رخ زیبا لے کر

1972ء میں آپ کو ہیڈماسٹر مقرر کیا گیا۔ 1973ء میں ہم نے میٹرک پاس کیا۔ سکول نیشنلائز ہوگیا۔ 1977ء تک آپ اسی تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ میں بطور ہیڈ ماسٹر تعینات رہے پھر آپ کا تبادلہ دور دراز علاقوں میں ہوتا رہا۔ 1999ء میں آپ ریٹائرڈ ہوئے لیکن تدریس کا سلسلہ تادم آخر کسی نہ کسی رنگ میں جاری رہا۔

آپ نے ہزاروں شاگردوں کو جو تمام دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں نہ صرف زیور تعلیم سے آراستہ کیا بلکہ اپنے عمل اور نمونے سے ان کی کردار سازی کا فرض کما حقہ ادا کیا۔ یہ ان کا صدقہ جاریہ ہے۔

مادہ پرستی کے اس عہد بے ظرف میں آج بھی ہمارے تعلیمی اداروں کے اساتذہ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر اپنی جماعتی روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے۔

اللہ تعالیٰ ہمارے ان مرحومین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ جو صحرا کی فضاؤں میں پھول اور شب کی راہوں میں چراغ کی مانند تھے اور ان کے پسماندگان کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button