متفرق مضامین

حیات مسیح پر اجماعِ امت کے دعویٰ کی حقیقت (قسط اوّل)

(ساجدمحمود بٹر۔استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

امت محمدیہ کے مختلف ادوار کے متعدد بزرگان اور علماء وفات مسیح ناصری ؑکے قائل تھے

گذشتہ بزرگ جو گذر چکے ہیں اگر انہوں نے مسئلہ وفات مسیح کو نہ سمجھا ہو اور اس میں غلطی کھائی ہو تو اس سبب سے ان پر مواخذہ نہیں

جب غیر احمدیوں کے سامنے قرآن کریم اور احادیث نبویہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے وفات مسیح کے دلائل پیش کیے جاتے ہیں تو بعض اوقات ان کی طرف سے یہ سوال پیش ہوتا ہے کہ اگر واقعی قرآن و حدیث وفات مسیح ثابت کر رہے ہیں تو پھر کیا چودہ سو سال کے کسی مسلمان کو اس مسئلہ کی سمجھ نہیں آئی۔ علماء کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کے متعلق امت محمدیہ کا اجماع ہے۔ چنانچہ دیوبندی عالم مفتی رفیع عثمانی صاحب لکھتے ہیں:

’’یہ مسئلہ اہم اور اجماعی مسئلہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر اٹھا لیے گئے۔ اور قرب قیامت میں پھر نازل ہوں گے۔ نصوص فرقانیہ اور احادیث متواترہ اور اجماع امت کے قطعی دلائل اس کے ایسے شاہد ہیں کہ کسی مسلمان کو اس سے آنکھ چرانے کی مجال نہیں اور کسی تاویل و تحریف کی گنجائش نہیں ‘‘۔

( علامات قیامت اور نزول مسیح صفحہ14تا15)

نصوص فرقانیہ اور احادیث متواترہ تو وفات مسیح کا کھلم کھلا اعلان کر رہے ہیں۔ جہاں تک ان علماء کے حیات مسیح پر اجماع امت کے دعویٰ کا تعلق ہے تو یہ نام نہاد دعویٰ ہی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ امت محمدیہ کے متعدد بزرگان و علمائے سلف وفات مسیح کے ہمیشہ قائل رہے اور قائل ہیں۔ ان عظیم الشان اور نابغۂ روزگار بزرگوں کے حوالے درج کرنے سے پہلے ایسے علماء سے گزارش ہے کہ کیا قرآن کریم پر اجماع امت نہیں ہے؟ کیا امت محمدیہ کا یہ متفقہ عقیدہ نہیں ہے کہ قرآن کریم کا ایک ایک حرف خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ اور سچائی و صداقت سے لبریز ہے۔ تو اگر قرآن کریم ہمیں وفات مسیح کے بارے میں بڑے واضح دلائل و براہین دے رہا ہو اور اس کے بالمقابل بگڑی ہوئی تاریک صدیوں میں غلط فہمی سے رواج پانے والے حیات مسیح کے عقیدہ کے حق میں بعض علماء گواہی دے رہے ہوں تو لوگ کس چیز کو اختیار کریں گے؟ آیا قرآن کو ترجیح دیں گے یا علماء کو۔ پھر یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک کبھی بھی امت کا یہ اجماع نہیں ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر چلے گئے ہیں۔ ہمیں ہر دَور میں ایسے ربانی علماء ملتے ہیں جنہوں نے اپنی خداداد فراست سے قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کے موافق وفات مسیح کا اعلان کیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کا سب سے پہلا اجماع جو سب سے اعلیٰ و افضل اجماع تھا وہ اجماع بھی تمام انبیاء کی وفات ثابت کر رہا تھا۔ یہ اجماع تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض پانے والے صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیھم اجمعین کا تھا جو عاشق قرآن تھے اور قرآن کریم کے حقائق و معارف سے بخوبی آگاہ تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ اللہ ان سے راضی ہو گیا۔

یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَمَلَآئِکَتُہٗ(الاحزاب)

اے صحابہ ،خدا اور اس کے فرشتے تم پر درود بھیجتے ہیں۔ سوچنے کا مقام ہے کہ جس مسئلے میں ایک دو صحابہ کا بیان نہیں بلکہ ہزاروں صحابہ،کا اجماع ہو۔ اس اجماع کے خلاف اپنا عقیدہ بنانا کس قدر ہدایت سے دُور لے جانے والی بات ہو گی۔ صحیح بخاری کے درج ذیل مقامات پر اس اجماع کا ذکر ملتا ہے۔

٭…بخاری کتاب المغازی باب مَرَضِ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ووفاتِہ

٭…بخاری کتاب الجنائز باب الدخول علی المیت۔

٭…صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لو کنت متخذا خلیلاً

اجماع صحابہ کے متعلق علماء اسلام کا موقف ہے کہ

اِجْمَاعُ الصَّحَابَةِ حُجَّة بِلَا خِلَافٍ

(ارشاد الفحول صفحہ72 از قاضی محمد بن علی بن محمد الشوکانی المتوفی 1255ھ ادارة الطباعة المغیریة بمصر)

یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجماع حجت ہے۔ اس میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے۔

قائلین وفات مسیح کے حوالہ جات پیش کرنے سے قبل اجماع کی حقیقت پر کچھ تحریر کرنا مناسب ہو گا تاکہ قارئین کو علم ہو سکے کہ یہ علماء حیات مسیح پر جس اجماع کا ذکر کر رہے ہیں اس اجماع کی حقیقت کیا ہے۔

اجماع کی تعریف

علماء کے نزدیک اجماع کا اصطلاحی مطلب یوں بیان کیا گیا ہے:

٭…ھُوَاِتِّفَاقُ مُجْتَھِدِیْ اُمَّةِ مُحَمَّدٍصلی اللّٰہ علیہ وسلم بَعْدَ وَفَاتِہ فِیْ عَصْرٍ مِّنَ الْاَعْصَارِ عَلٰی اَمْرٍ مِّنَ الُامُوْرِ

(ارشاد الفحول صفحہ63)

یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی زمانے میں کسی امر پر تمام مجتہدین امت کا متفق ہو جانا اجماع کہلاتا ہے۔

٭…اتِّفَاقُ مُجْتَھِدِیْنَ مِنْ اُمَّةِ مُحَمَّدٍ فِیْ عَصْرٍ وَاحِدٍ عَلٰی اَمْرٍ قَوْلِیٍّ اَوْ فِعْلِیٍّ

(نورالانوار مع قمر الاقمار باب الاجماع صفحہ 233تالیف مولانا حافظ شیخ احمد مکتبہ امدادیہ ملتان پاکستان)

یعنی کسی زمانے میں امت محمدیہ کے تمام مجتہدین کا کسی قولی یا فعلی امر پر متفق ہو جانا اجماع کہلاتاہے۔

پھر اجماع کے متعلق یہ بھی لکھا ہے کہ اگر تمام مجتہدین ایک مسئلہ پر متفق ہو جاتے ہیں تو تب بھی اجماع اس وقت نہیں سمجھا جائے گا۔ جب تک ان تمام مجتہدین کی وفات نہیں ہو جاتی کیونکہ ممکن ہے کہ ان مجتہدین میں سے بعض نے اپنی موت سے پہلے اس اجماع کے خلاف رائے دے دی ہو۔ چنانچہ لکھا ہے :

قال الشافعی یشترطُ فیہ انْقِرَاض العصر وموت جمیعِ المجتھدینَ فلایکون اجماع حجّة مالم یموتُوا لان الرّجوعَ قبلہ مُحْتَمِل ومع الاحْتمالِ لا یثبت الِاسْتقرارُ

(نورالانوار مع قمر الاقمار صفحہ224)

یعنی حضرت امام شافعی کا قول ہے کہ اجماع کی صحت کے لیے یہ شرط ہے کہ اس زمانہ کا اختتام اور تمام مجتہدین کی وفات۔ پس جب تک یہ تمام مجتہدین فوت نہ ہو جائیں یہ اجماع حجت نہ ہو گا۔ کیونکہ مجتہدین کا اپنی موت سے پہلے پہلے اس اجماع سے رجوع کا امکان ہے۔ اور جب تک کسی بات کے متعلق امکانی پہلو قائم رہتا ہے اس وقت تک اجماع ثابت نہیں ہو سکتا۔

پھر یہ بھی لکھا ہے کہ اگر ایک مجتہد یا عام آدمی بھی اختلاف کرے تو اجماع واقع نہیں ہوتا۔ چنانچہ نورالانوار میں لکھا ہے:

لَا بُدَّ فِیْہِ مِنْ اِتِّفَاقِ الْکُل مِنَ الْخَوَاصِ وَالْعَوَامِ حَتّٰی لَوْ خَالَفَ وَاحِد مِنْھُمْ لَمْ یَکُنْ اِجْمَاعًا

(نورالانوار مع قمر الاقمار صفحہ 224 باب الاجماع)

یعنی اجماع کے لیے ضروری شرط ہے کہ تمام خواص و عوام کا مکمل اتفاق ہو۔ اگر ایک آدمی بھی اس اجماع سے اختلاف کرتا ہے تو اجماع متصور نہیں ہوگا۔

اب ان حوالہ جات کو اچھی طرح پڑھیے اور پھر غور فرمائیے کہ کیا ان امور کے مطابق امت محمدیہ کے تمام مجتہدین کا کسی زمانے میں ایک امر پر اجماع ہو سکتا ہے۔ پوری دنیا کے مجتہدین امت کا کیسے پتہ چلے گا؟ کسی کو مجتہد ماننے کا معیار کیا ہو گا؟ اور پھر کون کہہ سکتا ہے کہ اس نے فلاں مسئلہ امت محمدیہ کے تمام مجتہدین تک پہنچایا اور ان میں سے ہر ایک سے اس کے متعلق فتویٰ لیا؟ پھر یہ بھی کیسے معلوم ہو گا کہ وہ تمام مجتہدین اس امر پر اپنی پوری زندگی میں متفق رہے اور ان میں سے کسی نے اپنے فتویٰ سے بعد میں رجوع نہیں کیا؟ یہ بھی تقریباً نامکمل ہے کہ امت محمدیہ کے تمام مجتہدین ایک مسئلہ کے متعلق متفقہ طور پر ایک ہی فتویٰ دیں اور کوئی مجتہد کسی قسم کا کوئی اختلاف نہ کرے؟ پھر لطف یہ ہے کہ اجماع کے متعلق یہ بھی لکھا ہے کہ اگر ایک مجتہد بھی اس اجماع سے اختلاف کرے گا تو وہ اجماع باطل ہو جائے گا جیسا کہ نورالانوار کا حوالہ گذر چکا ہے۔

مذکورہ بالا امور کو ذہن میں رکھ کر غور فرمائیے کہ کیا ایسے امور کے ہوتے ہوئے کوئی آدمی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ فلاں مسئلہ میں صحابہ رسول ﷺکے بعد تمام مجتہدین امت کا اجماع ہے۔ ایسے امور کے ہوتے ہوئے اجماع قطعاً نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امام احمد بن حنبل نے فرمایاہے:۔

’’مَنْ ادَّعٰی وُجُوْبَ الْاجْمَاعِ فَھُوَکَاذِب‘‘(ارشاد الفحول صفحہ64)

یعنی جو آدمی اجماع کا دعویٰ کرے کہ فلاں مسئلہ میں اجماع ہے وہ جھوٹا ہے۔ مذکورہ بالا تمام امور سے ثابت ہو رہا ہے کہ اجماع کی ان شرائط کے ہوتے ہوئے کسی ایک مسئلہ پر پوری امت کا متفق ہو جانا ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اجماع تو صرف صحابہ سے مخصوص ہے۔ یعنی اگر صحابہ کا کسی مسئلہ کے متعلق اجماع ہے تو وہ بالکل درست ہے۔ اگر صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی اجماع کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے۔ چنانچہ نورالانوار میں لکھا ہے:

قَالَ بَعْضُھُمْ لَا اِجْمَاعَ اِلَّا لِلصَّحَابَةِ لِاَنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم مَدَحَھُمْ وَاَثْنیٰ عَلَیْھِمُ الْخَیْرَ فَھُمْ الْاصُوْلُ فِیْ عِلْمِ الشَّرِیْعَةِ وَاِنْعِقَادِ الْاحْکَامِ

(نورالانوار مع قمر الاقمار صفحہ 224)

یعنی بعض نے کہا ہے کہ صحابہ کے اجماع کے علاوہ اور کوئی اجماع نہیں ہے۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابہ کی مدح و ثنا کی ہے۔ پس یہ اصحاب امت محمدیہ میں شرعی علم اور احکام الٰہی کے انعقاد کے لیے بنیاد ہیں۔

حضرت امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں:

اِذَا اَجْمَعَتِ الصَّحَابَةُ عَلٰی شَیْءٍ اَسْلَمْنَا وَاِذَا اَجْمَعَ التَّابِعُوْنَ زَاحَمْنَا ھُمْ

(ارشاد الفحول صفحہ 72)

یعنی جب صحابہ کسی مسئلہ میں اجماع کریں تو ہم اسے تسلیم کر لیتے ہیں اور جب تابعین کسی مسئلے پر اجماع کریں تو ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ اسی طرح ارشاد الفحول میں لکھا ہے:

وقال ابْن وھبٍ ذھب داود واصحابنا الی انّ الاجماع انما ھواجماعُ الصّحابةِ فقط وھوقَول لا یجوز خِلافہ لان الاجماع انما یکون عن توقِیفِ والصّحابة ھم الذین شھِدُواالتّوقیف۔ فان قیل فما تقُولون فی اجماعٍ من بعدھم قلنا ھذا لا یجوز لامرَیْن احدھما ان النبیَّ صلی اللہ علیہ وسلم انبا عن ذلک فقال لا تزال طائِفة من امّتی علی الحقّ ظاہریْن والثانی ان تسعة اقطارالارض وکثرة العدد لا تمکن من ضبط اقوالِھم ومن ادّعی ھذا لا یخفی علی احدٍ کذبہ

(ارشاد الفحول صفحہ72)

ترجمہ : یعنی ابن وہب نے کہا ہے کہ داؤد اور ہمارے ساتھیوں کا موقف ہے کہ اجماع تو صرف اجماع صحابہ ہی کو کہا جا سکتا ہے۔ اور اس موقف کی مخالفت جائز نہیں۔ کیونکہ اجماع توقیفی ہے اور صحابہ اقوال وآثار نبویہ سے واقف تھے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ ان لوگوں کے اجماع کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں جو صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تھے تو ہمارا یہ موقف ہے کہ ان لوگوں کا اجماع دو اسباب کی وجہ سے جائز نہیں۔ پہلا یہ کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ حق پر ہی قائم رہے گا۔ (اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمیشہ امت محمدیہ میں اختلافات ہوں گے اور مختلف موقف ہوں گے۔ ورنہ فرماتے کہ ہر دور میں میری تمام امت حق پر رہے گی) اور دوسری وجہ یہ ہے کہ زمینی اقطار وسیع ہیں اور لوگوں کی کثرت تعداد کی وجہ سے یہ امر ناممکن ہے کہ ان سب کے اقوال کو ضبط تحریر میں لایا جا سکے۔ اور جو آدمی اس ضبط تحریر کا دعویٰ کرے اس کا جھوٹ اظہر من الشمس ہو گا۔

مذکورہ بالا اجماع کی بحث ان نام نہاد علماء کے حیات مسیح پر اجماع امت کے دعویٰ کی قلعی کھول رہی ہے اور یہ ثابت کر رہی ہے کہ کسی مسئلہ پر تمام مجتہدین امت کا متفق ہونا قطعی طور پر ناممکن ہے۔ پھر بھی یہ دعویٰ کرنا کہ حیات مسیح پر اجماع امت ہے، ایک بے بنیاد دعویٰ سے بڑھ کر اور کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ حیات مسیح کے عقیدہ پر اجماع امت کے دعویٰ کی تردید کے لیے ذیل میں ہم چند بزرگان امت کے ارشادات درج کرتے ہیں تاکہ قارئین کو معلوم ہو سکے کہ حیات مسیح پر اجماع امت ہرگز نہیں۔ گذشتہ صفحات میں یہ بیان ہو چکا ہے کہ اگر ایک مجتہد بھی کسی مسئلہ کے متعلق اختلاف کر دے تو اجماع منعقد نہیں ہوتا۔ اس قول کے مطابق ذیل میں درج شدہ حوالہ جات میں سے ہر ایک حوالہ حیات مسیح پر اجماع کی قلعی کھول رہا ہے۔ اور ثابت کر رہا ہے کہ حیات مسیح پر ہرگز ہرگز اجماع نہیں ہوا۔

قائلینِ وفاتِ مسیح

1۔ صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیھم اجمعین

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کا سب سے پہلا اجماع جو سب سے اعلیٰ و افضل اجماع تھا وہ اجماع بھی تمام انبیاء کی وفات ثابت کر رہا تھا۔ یہ اجماع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض پانے والے صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیھم اجمعین کا تھا جو عاشق قرآن تھے اور قرآن کریم کے حقائق و معارف سے بخوبی آگاہ تھے۔

(١۔ بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ووفاتِہ

٢۔ بخاری کتاب الجنائز باب الدخول علی ا لمیت

٣۔ صحیح بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم لو کنت متخذا خلیلاً)

2۔ حضرت جارود بن معلی ؓکی گواہی

تاریخ طبری جلد اول حصہ چہارم میں 11ھ کے حالات بیان کرتے ہوئے زیر عنوان ’’اہل بحرین کا واقعہ حطم کا ارتداد اور اس کے ساتھی‘‘لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر بحرین کا قبیلہ عبد القیس مرتد ہو گیا تب اس قبیلہ کے ایک ثابت قدم صحابی حضرت جارود بن معلی نے ان کو سمجھایا جس کے نتیجے میں وہ سارا قبیلہ دوبارہ مسلمان ہوگیا۔ چنانچہ لکھا ہے کہ قبیلہ عبد القیس نے کہا کہ

لَوْ کَانَ مُحَمَّد نَبِیًّا لَمَا مَاتَ

کہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہوتے تو فوت نہ ہوتے۔ اسی خیال کے تابع سارا قبیلہ مرتد ہوگیا۔ اس پر حضرت جارود نے اپنے قبیلہ سے پوچھا کہ اے لوگو! کیا تمہیں پتہ ہے کہ پہلے بھی خدا کے انبیاء گزرے ہیں۔ انہوں نے جواب دیا ہاں۔ حضرت جارود نے پوچھا کیا تم نے ان نبیوں کو دیکھا ہے یا تم صرف جانتے ہو کہ وہ نبی تھے؟قبیلے نے جواب دیا ہم نے دیکھا تو نہیں مگر ہمیں علم ہے کہ وہ خدا کے انبیاء تھے۔ حضرت جارود نے پوچھا ان نبیوں کے ساتھ کیا ہوا قبیلہ نے جواب دیا ماتُوْا کہ وہ انبیاء فوت ہوگئے ہیں۔ اس پر حضرت جارود نے جواب دیا

فَاِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَاتَ کَمَا مَاتُوا وَاَنا اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ الَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہ وَ رَسُوْلُہ

کہ پھر حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بھی فوت ہو گئے ہیں جس طرح وہ تمام انبیاء فوت ہوگئے۔ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے بندے اور رسول ہیں۔ یہ دلیل سن کر سارے کا سارا قبیلہ فوراً کلمہ پڑھ کر دوبارہ مسلمان ہو گیا۔

اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں صحابہ کے زمانہ میں مسلمانوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ ہونے اور انہی کے دنیا میں دوبارہ واپس آنے کا عقید ہ پیدا نہیں ہوا تھا۔ ورنہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت جارود بن معلی ؓیہ دلیل پیش نہ کرتے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بطور نبی ہمیشہ زندہ نہ رہنا تبھی صحیح ثابت ہوسکتا ہے جب یہ ثابت ہو کہ آپ سے پہلے کوئی نبی بھی زندہ نہیں رہا بلکہ سب وفات پاگئے ہیں۔ اور نہ ہی قبیلہ عبد القیس کے کسی فرد نے یہ اعتراض کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو فوت نہیں ہوئے بلکہ زندہ ہیں اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد قریبی زمانہ میں یعنی حضرت ابوبکر کی خلافت میں حیاتِ مسیح کا عقیدہ پیدا نہیں ہوا تھا۔

3۔ حضرت امام حسن ؓکی گواہی

طبقات ابن سعد کی جلد ثالث میں حضرت علیؓ کی وفات کے حالات میں حضرت امام حسن ؓسے روایت کی گئی ہے کہ آپ نے فرمایا:

اَیُّھَا النَّاسُ قَدْ قُبِضَ اللَّیْلَةُ رَجُل لَمْ یَسْبَقْہٗ الاَوَّلُوْنَ وَلَا یُدْرِکْہٗ الاٰخِرُوْنَ قَدْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَبْعَثُہ الْمَبْعَثَ فَیَکْتَنِفُہ جِبْرَئِیْلُ عَنْ یَمِیْنِہ وَمِیْکَائِیْلُ عَنْ شَمَالِہ فَلَا یَنْثَنِیْ حَتّٰی یَفْتَحَ اللّٰہُ لَہ وَمَاتَرَکَ اِلَّا سَبْعُ مَائَةَ دِرْھَمٍ اَرَادَ اَنْ یَّشْتَرِیَ بِھَا خَادِمًا، وَلَقَدْ قُبِضَ فِی اللَیلَةِ الَّتِی عُرِجَ فِیْھَا بِرُوْحِ عِیْسیٰ ابْنِ مَرْیَمَ لَیْلَةَ سَبْعٍ وَّعِشْرِیْنَ مِنْ رَمْضَانَ

(طبقات الکبریٰ لابن سعد جلد ثالث صفحہ 39۔ دار صادر بیروت 1377ھ1957ء)

یعنی اے لوگو! آج وہ شخص فوت ہوا ہے کہ اس کی بعض باتوں کو نہ پہلے پہنچے ہیں اور نہ بعد کو آنےوالے پہنچیں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے جنگ کے لیے بھیجتے تھے تو جبرائیل اس کے داہنے طرف ہو جاتے تھے اور میکائیل بائیں طرف۔ پس وہ بلا فتح حاصل کیے واپس نہیں ہوتا تھا اور اس نے سات سودرھم اپنا ترکہ چھوڑ ا ہے جس سے اس کا ارادہ یہ تھا کہ ایک غلام خرید ے اور وہ اس رات کو فوت ہوا ہے جس رات کو عیسیٰ بن مریم کی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی تھی یعنی رمضان کی ستائیسویں تاریخ کو۔

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کے نزدیک حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے تھے کیونکہ اگر ان کا یہ خیال نہ ہوتا تو حضرت امام حسن یہ کیوں فرماتے کہ جس رات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح آسمان کو اٹھائی گئی تھی اس رات کو حضرت علیؓ کی وفات ہوئی تھی نیز اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ حضرت علیؓ کی شہادت تک مسلمانوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسمانی طور پر آسمان پر زندہ ہونے اور دوبارہ آنے کاعقیدہ پیدانہیں ہوا تھا۔ ورنہ حضرت امام حسنؓ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح اٹھائے جانے کی بجائے ان کا جسم اٹھایا جانا بیان فرماتے۔

4۔ حضرت امام مالک ؒ (90ھ تا179ھ)

مشہور و معروف بزرگ مالکی مسلک کے پیشوا حضرت امام مالک (90ھ تا179ھ)کے متعلق لکھا ہے:

وَالْاَکْثرُ ان عیسٰی لم یَمُت وقال مالک مَات

(مجمع بحار الانوار صفحہ 286 از علامہ شیخ محمد طاہر زیر مادہ حکم مطبع لمنشی نول کشور)

یعنی اکثر لوگ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہیں مرے لیکن حضرت امام مالک کا قول ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پا چکے ہیں۔

5۔ حضرت علامہ ابن قیم ؒمتوفی (751ھ)

رئیس المحدثین حضرت علامہ ابن قیم متوفی (751ھ) زاد المعادمیں واقعہ معراج کے حوالے سےتحریر فرماتے ہیں:

فالانبیاء انّما اسْتقرّت ارواحُھم ھناک بعد مفارِقةِ الابدانِ

(زاد المعاد الجزء الاول صفحہ304)

یعنی معراج کی رات جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابنیاء سے ملاقات کی تو یہ ان انبیاء کی روحیں تھیں جنہوں نے جسم عنصری سے جدا ہو کر آسمانوں میں قرار پکڑا تھا۔

اسی طرح علامہ ابن قیم اپنی کتاب ’’مدارج السالکین‘‘ میں لکھتے ہیں:

ولو کان موسٰی وعیسٰی علیھماالسلام حیَّیْنِ لکانا من اَتْبَاعِہ

(مدارج السالکین الجزء الثانی صفحہ496لابن قیم (751ھ) دارالکتب العلمیة بیروت۔ لبنان۔ الطبعة الثانیة 1408ھ۔ 1988ء)

اور اگر موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو لازما ًآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین میں سے ہوتے۔

6۔ علامہ محی الدین ابن عربیؒ (متوفی 638ھ)

ساتویں صدی ہجری کے عظیم بزرگ صوفی، الشیخ الاکبر العارف باللہ مصنف ’’فتوحات مکیہ‘‘(متوفی 638ھ)

بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ

کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

رَفْعُ عیسیٰ علیہ السلام اتِّصالُ روحِہ عند المُفارقةِ عن العالم السّفلِی بالعالم العَلویِّ

(تفسیر القرآن الکریم للشیخ الاکبر العارف باللہ العلامہ محی الدین ابن عربی۔ المتوفی سنة 638ھ۔ تحقیق وتقدیم الدکتور مصطفی غالب۔ المجلد الاول صفحہ 296 زیر آیت بل رفعہ اللّٰہ الیہ)

یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کا رفع دراصل ان کی روح کے عالم سفلی سے جدا ہو کر عالم علوی میں قرار پکڑنے کا نام ہے۔

پھر اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

وجب نُزولُہ فی آخرِالزّمان بتعلّقہ ببدنٍ آخَر

(تفسیر ابن عربی حوالہ مذکور)

یعنی آپ کا نزول آخری زمانے میں ایک دوسرے جسم کے ساتھ تعلق پکڑکر ہونا ضروری ہے۔ گویا وہ اسرائیلی مسیح کی آمد کے نہیں بلکہ غیر اسرائیلی مسیح کی آمد کے منتظر ہیں۔

7۔ علامہ ابن حزم ؒ(متوفی456ھ)

پانچویں صدی کے مجدد، مشہور و معروف عالم دین، بلند پایہ محدث اور فقیہہ علامہ ابن حزم (متوفی456ھ) اپنی کتاب ’’المحلّی‘‘ میں وفات مسیح کا عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وان عیسٰی علیہ السلام لم یُقْتَل ولم یُصْلب ولکن توفاہ اللّٰہ عزوجل ثم رفعہ الیہ۔ وقال عزوجل (وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَاصَلَبُوہُ) وقال تعالیٰ(اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیّ) وقال تعالیٰ عنہ انہ قال (وکَنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ وَاَنْتَ عَلیٰ کُلِّ شَیْٔ قَدِیْر) وقال تعالیٰ (اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِھَا ) فالوفاة قسمان: نوم، وموت فقط، ولم یرد عیسیٰ علیہ السلام بقولہ (فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ)وفاة النوم فصح انہ انما عنی وفاة الموت۔

(المحلّی لابی محمد علی بن احمد بن سعید بن حزم المتوفی سنة 456ھ۔ الجزء الاول صفحہ23مسئلہ نمبر41)

یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نہ قتل ہوئے اور نہ صلیب پر مارے گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دی اور پھر اپنے حضور رفعت بخشی۔ اور خدائے عزوجل کے قرآن مجید میں یہ فرمان ہیں

(وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَاصَلَبُوہُ)(اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیّ) (وکَنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْدًا مَّا دُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ وَاَنْتَ عَلیٰ کُلِّ شَیْٔ قَدِیْر) (اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِھَا )

وفات کی فقط دو اقسام ہیں: نیند اور موت(اس کے علاوہ اور کوئی قسم بیان نہیں ہے۔ ) اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قول فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ میں نیند مراد نہیں ہے۔ پس واضح ہوتا ہے کہ یہاں صرف طبعی موت مراد ہے۔

علامہ ابن حزم اسی کتاب کے مسئلہ نمبر 43 میں واقعہ معراج کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات جن انبیاء سے ملاقات کی تھی، یہ ان کی روحیں تھیں نہ کہ مادی اجسام، چنانچہ فرماتے ہیں:

ففِی ھذاالْخبر مکانُ الارْواحِ وان ارواحُ الانْبِیاء فی الجنّة

(المحلّی لابن حزم صفحہ 25 مسئلہ نمبر 43)

یعنی معراج والی حدیث میں ارواح کے ساتھ ملاقات کرکے روحوں کی جگہ کا بیان ہے اور وہ یہ ہے کہ یقیناًانبیاء کی روحیں جنت میں ہیں۔

اسی طرح حضرت امام ابن حزم کے بارے میں حضرت امام جلال الدین سیوطی نے لکھا ہے :

وتمسّک ابن حزم بظاھر الآیة وقال بمَوتہ۔

(حاشیہ بین السطور جلالین مع کمالینصفحہ109زیرآیت فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ)

یعنی امام ابن حزم نے اس آیت کو ظاہر پر حمل کیا ہے اور تَوَفِّیْکا معنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت بیان فرمایا ہے۔

8۔ وفات مسیح، ایک فرقے کا عقیدہ

علامہ ابن الوردی فرماتے ہیں:

وقالت فِرقة نزولُ عیسیٰ خروجُ رجلٍ یَشبہُ عیسیٰ فی الفضلِ والشّرفِ کما یُقال لِلرَّجُلِ الْخَیْرِ ملَک وللشریر شیطَان تشبیھا بھما ولا یُراد الاعیانُ

(خریدة العجائب وفریدة الغرائبصفحہ263تالیفسراج الدین ابی حفص عمر بن الوردی (689ھ تا749ھ) الطبعة الثانیة طبع بمطبعة بمصر زیر عنوان ذکر نزول عیسیٰ ابن مریم علیھما السلام)

اور ایک گروہ کہتا ہے کہ نزول عیسیٰ سے مراد ایسے شخص کی آمد ہے جو فضیلت اور شرف میں عیسیٰ سے مشابہ ہو۔ اور جس طرح اچھے آدمی کو فرشتہ اور برے کو شیطان کہہ دیتے ہیں اور اس سے مراد فرشتہ وشیطان نہیں بلکہ ان سے مشابہت ہوتی ہے۔

علامہ ابن الوردی صاحب، خود حضرت عیسیٰ ؑ کی حیات اور ان کے دنیا میں دوبارہ آمد کے قائل ہیں اس لیے انہوں نے خود اس قول کی تصدیق نہیں کی لیکن پھر بھی وہ اس امر کو تسلیم کر رہے ہیں کہ مسیح ناصری کی وفات اور مثیل مسیح کا عقیدہ امت محمدیہ میں موجود تھا۔ اور یہ عقیدہ ایک یا دو آدمیوں کا نہیں تھا بلکہ امت کا ایک گروہ اس عقیدہ کو مانتا تھا۔

9۔ شیخ محمد اکرم صاحب صابری

مشہور عالم دین شیخ محمد اکرم صاحب صابری اپنی کتاب ’’اقتباس الانوار‘‘(تالیف1130ھ)میں لکھتے ہیں:

’’ایک فرقے کا عقیدہ یہ ہے کہ مہدی آخرالزمان حضرت عیسیٰ بن مریم ہوں گے‘‘

(اقتباس الانوار صفحہ166 از شیخ محمد اکرم قدوسی مترجم کپتان واحد بخش سیال چشتی صابری۔ اشاعت دوم 1409ھ)

شیخ محمد اکرم صاحب کا چونکہ اپنا عقیدہ حیات مسیح کا ہے اس لیے انہوں نے اس روایت کے ضعف کا ذکر کیا ہے۔ بہرحال اس حوالے سے اتنا تو پتہ چلتا ہے کہ ایک فرقہ اسرائیلی مسیح کی دوبارہ آمد کا قائل نہیں تھا۔

10۔ عالم قمی(متوفی381ھ)

مشہور شیعہ عالم قمی (متوفی381ھ) وفات مسیح کا موقف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ولَم یقدِروا علی قتْلہ وصلبہ لانھم لو قدروا علی ذالک کان تکْذیبا لقولہ تعالیٰ ولٰکن رَّفع اللّٰہ الیہ بعد ان توفّاہ

(اکمال الدین واتمام النعمة جلداول صفحہ332 تالیف شیخ الطائفہ صدوق علیہ الرحمة۔ کتاب فروشی اسلامیہ، تہران)

اور وہ (یعنی یہودی )مسیح کے قتل اور ان کو صلیب دینے پر قدرت نہ پا سکے کیونکہ اگر وہ اس پر قادر ہو جاتے تو اللہ کی بات جھوٹی نکلتی لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح علیہ السلام کو طبعی طور پر وفات دی اور اس کے بعد ان کو رفعت بخشی۔

11۔ مفتی مصر شیخ محمد عبدہ (1839ءتا1925ء)

مفسر قرآن علامہ الاستاذ شیخ مفتی محمد عبدہ (1839ءتا1925ء) مفتی مصر اپنی تفسیر ’’تفسیر القرآن الکریم‘‘ میں زیر آیت

یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ

لکھتے ہیں:

فالْمتبادر فی الآیة انی ممیتک وجاعلُک بعد الموتِ فی مکانٍ رفیع عندی کما قال فی ادریس علیہ السلام وَرَفَعْنَاہُ مَکَانًا عَلِیًّا۔ ھذا ما یفھمہ القاری الخالی الذھن من الرّوایات والاقوال لانہ ھوالمتبادرُمن العبارة وقد ایدناہ بالشواھد من الآیات ولکن الْمفسّرین قد حوّلوا الکلام عن ظاھرہ لیَنطبقَ علی ما اعطتْھم الروایات من کَون عیسیٰ رفع الی السّماء بجسدِ ہ

(تفسیرالقرآن الحکیم لاستاذ مفتی محمد عبدہ جز ثالث صفحہ316زیر آیت انی متوفیک)

ترجمہ: اس آیت کا مفہوم ظاہر ہے کہ اے عیسیٰ میں تجھے موت دینے والا ہوں اور موت کے بعد اپنی جناب میں ایک عزت ورفعت والی جگہ میں رکھنے والا ہوں۔ جس طرح حضرت ادریس علیہ السلام کے بارہ میں فرمایا کہ ہم نے اسے عزت والے مقام پر جگہ دی …… ہر قاری جو روایات اور اقوال سے خالی الذہن ہو اس آیت کا یہی مفہوم سمجھتا ہے اور یہی اس عبارت سے ظاہر ہوتا ہے۔ اور ہم اس مفہوم کے حق میں آیات قرآنیہ کو بطور گواہ لائے ہیں۔ لیکن مفسرین نے اس کلام کو ظاہر سے پھیرا ہے تاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جسمانی رفع الی السماء کے متعلق جو ان کے پاس روایات ہیں ان کی تطبیق کر سکیں۔

اسی آیت کی تفسیر میں اس سے آگے مفتی محمد عبدہ صاحب لکھتے ہیں:

والطّریقة الثّانیة ان الآیة علی ظاھرھا وان التوفی علی معناہ الظّاھر الْمتبادر وھو الْاماتَة العادیّة وان الرفع یکون بعدہ وھو رفْع الروح

(حوالہ مذکورہ صفحہ317)

اور دوسرا طریق یہ ہے کہ آیت کے مفہوم کو ظاہراًمانا جائے۔ اس صورت میں توفیکے ظاہر و باہر معنی طبعی موت ہی ہیں اور یقیناً رفع جو اس توفی کے بعد ہے وہ صرف روح ہی کا رفع ہے۔

12۔ علامہ احمد المصطفیٰ المراغی

علامہ احمد المصطفیٰ المراغی جو ازہر یونیورسٹی کے رئیس تھے، وفات مسیح کے قائل ہیں۔ چنانچہ اپنی تفسیر میں انی متوفیککے تحت انہوں نے علماء کے دو اقوال لکھے ہیں۔ دوسرا قول یہ لکھاہے:

ان الآیة علی ظاہرھا، وان التّوفی ھوالاماتة العَادیة، وان الرفع بعدہ للرّوح … والمعنی۔ انی ممیتک وجاعلُک بعد الموت فی مکانٍ رفیعٍ عندی کما قال فی ادریس علیہ السلام ورفعْناہُ مکَانًا علیّا۔ وحدیث الرّفع والنّزول آخر الزمان حدیث آحاد یتعلق بامرٍ اعتقادیّ، والامور الاعتقادیّة لا یوخذ فیھا الّا بالدّلیل القاطعِ من قرآنٍ او حدیثٍ متواترٍ، ولا یُوجدھنا واحد منھما

(تفسیر المراغی تالیف احمد مصطفی المراغی زیر آیت متوفیک)

یعنی آیت سے ظاہری معنی مراد ہیں اور توفی سے طبعی موت مراد ہے۔ اور اس موت کے بعد رفع سے روحانی رفع مراد ہے۔ اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ میں تجھے موت دینے والا ہوں طبعی موت کے بعد بلندمقام میں رکھنے والا ہوں جس طرح حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں آیت مذکور ہے کہ ہم نے ان کو بلند مقام پر رفعت دی۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع اور آخری زمانے میں نزول کی احادیث احاد ہیں۔ جو اعتقادی امور سے متعلق ہیں اور اعتقادی امور کی بنیاد تو قرآن کریم یا احادیث متواترہ کے قطعی دلائل پر مشتمل ہوتی ہے۔ اور یہاں ان دونوں میں سے یعنی قرآن کریم اور احادیث متواترہ میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔

13۔ علامہ سید محمد رشید رضامفتی مصر (1865ءتا 1935ء)

علامہ سید محمد رشید رضامفتی مصر (1865ء تا 1935ء ) مدیر رسالہ المنار مصری، انہوں نے اپنے استاد مفتی مصر محمد عبدہ سے علم حاصل کیا اور ’’الارشاد والالدعوة‘‘ کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے۔ حکومت مصر نے ان کی قابلیت کی وجہ سے ان کو مفتی مصر مقرر کر دیا۔ یہ اپنی تفسیر ’’تفسیر القرآن الحکیم‘‘ میں زیر آیت

اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ

وفاتِ مسیح کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فالمتبادر فی الآیة انّی ممیتکَ وجاعلُک بعد الموت فی مکان رفیع عنْدی کما قال فی ادریس علیہ السلام وَرَفَعْنَا ہُ مَکَانًا عَلِیًّا

(تفسیر القرآن الحکیم الشہیربتفسیر المنار از علامہ محمد رشید رضا زیر آیت اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ المجلد الثالث صفحہ316)

یعنی اس آیت سے ظاہر ہے کہ اے عیسیٰ میں تجھے طبعی موت دینے ولا ہوں اور طبعی موت کے بعد اپنی جناب میں ایک عزت و رفعت والی جگہ میں رکھنے ولا ہوں۔ جیسا کہ حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے اسے عزت والے مقام پر جگہ دی۔

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button