پاکستانی قادیانی اسرائیل کی فوج میں؟ حقائق کیا ہیں؟ [قسط دوئم]

(ابو نائل)

پاکستان کے معروف اینکرعمران ریاض خان صاحب نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں یہ الزام لگایا گیا کہ ایک بڑی تعداد میں پاکستانی احمدی نہ صرف اسرائیل منتقل ہو کر وہاں کی شہریت حاصل کر چکے ہیں بلکہ وہاں کی فوج میں کام بھی کر رہے ہیں۔ اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ ان کے روابط پاکستان کی فوج میں شامل احمدیوں سے ہیں اور اس طرح احمدی پاکستان کی سالمیت کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔ اس مضمون کاگذشتہ قسط میں یہ جائزہ لیا گیا تھا کہ معلوم ہوتا ہے کہ حال ہی میں رونما ہونے والے واقعات کی وجہ سے عمران ریاض خان صاحب پر کچھ دباؤ تھا کیونکہ جو ممالک پاکستان میں جہادی مدرسوں کی سرپرستی کرتے رہے ہیں وہ اب فلسطینیوں کو بے یارومددگار چھوڑ کر اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں اور یہی ممالک کشمیر کے مسئلہ پر مسلمان ممالک کی تنظیم او آئی سی کے اجلاس کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اس وجہ سے انہوں نےجماعت احمدیہ پر الزامات لگا کر یہ کوشش کی ہے کہ موجودہ غم و غصہ کی لہر کا رخ احمدیوں کی طرف ہو جائے۔ اس غرض کے لیے انہیں حوالے کا غلط ترجمہ پیش کرنے کے علاوہ بہت سی خلاف واقعہ باتیں بھی پیش کرنی پڑیں۔ اور یہ معین الزام پہلی مرتبہ نہیں لگایا گیا۔ 1970ءکی دہائی میں بالکل یہی الزام اسی کتاب کے مسخ شدہ حوالے کے ساتھ اخبار نوائے وقت اور قومی اسمبلی کے ممبر ظفر احمد انصاری صاحب نے بھی لگایا تھا۔ جیسا کہ گذشتہ قسط میں حوالہ درج کیا گیا تھا کہ پاکستان کی حکومت نے عرب ممالک سے تحقیقات کراکے اس بات کے غلط ہونے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔

(ربوہ سے تل ابیب تک، مصنفہ یوسف بنوری صاحب، ناشرمجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان ملتان جنوری 1976ص 14و15)

اس الزام کا آغاز کب ہوا؟

حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ کئی اور ممالک میں جماعت احمدیہ پر اس قسم کے الزامات بار بار لگائے گئے ہیں۔ اس قسط میں ان الزامات کی مختصر تاریخ اور اس بارے میں کچھ حقائق کا خلاصہ پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ سب سے پہلے یہ جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد اس قسم کا الزام پہلی مرتبہ کب لگایا گیا اوراُس وقت یہ الزام لگانے کے پیچھے کون سا ذہنی دباؤ کارفرما تھا؟

پاکستان بننے کے چند سال بعد ہی مخالفین نے جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت انگیزی کی مہم شروع کر دی تھی۔ اس مہم کے دوران 22؍ ستمبر 1952ء کو ڈسکہ میں آل پارٹیز مسلم کانفرنس کا جلسہ ہوا۔ اس جلسہ میں مجلس احرار کے لیڈر شیخ حسام الدین صاحب نے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے بارے میں کہا:

’’ظفر اللہ ہندوستان سے خفیہ تعلقات رکھتا ہے۔ اس نے فلسطین کو اس لئے تقسیم کرایا ہے تاکہ یہودیوں کو ایک گڑھ مل جائے اور اینگلوامریکن بلاک کے مقاصد پورے ہوں۔ ‘‘

اور ان کے بعد مجلس احرار کے لیڈرعطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے کہا:

’’احمدی جاسوسوں کی ٹولی ہیں۔ ‘‘

( رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953ءص 362)

اس وقت مجلس احرار پر دباؤ یہ تھا کہ چونکہ انہوں نے نہ صرف پاکستان بننے کی مخالفت کی تھی بلکہ اس کے خلاف فتوے بھی دیے تھے۔ اس کے بعد ان میں سے جو مشرقی پنجاب میں آباد تھے انہیں حالات کی وجہ سے پاکستان آنا پڑا۔ مشہور احراری لیڈر تاج الدین انصاری بیان کرتے ہیں کہ جب وہ پاکستان میں داخل ہوئے تو سرحد پر ان کا استقبال ’’غدارغدار‘‘ کے نعروں سے ہوا۔ (روزنامہ آزاد26؍ دسمبر 1950ء)

یہ الزام حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب پر کیوں لگایا جا رہا تھا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ انہیں جناح صاحب نے پہلے اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کے لیے بھجوایا اور پھر پاکستان کا وزیر خارجہ مقرر کیا۔ انہوں نے اقوام متحدہ میں فلسطین کے مسئلہ پر وہ خدمات سرانجام دیں کہ خود عرب ممالک کے نمائندوں نے جنرل اسمبلی میں اپنی سب کمیٹی کا صدر مقرر کیا۔ احرار اور جماعت احمدیہ کے دوسرے مخالفین اس صورت حال سے پریشان ہو کر بے بنیاد الزام تراشیوں کا سہارا لے رہے تھے۔

یہ الزام لگانے والے یعنی شیخ حسام الدین صاحب کون تھے؟ یہ صاحب اس وقت مجلس احرار کے سیکرٹری جنرل تھے۔ ان کے متعلق تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ میں لکھا ہے:

’’ایک اَور اہم حیثیث کے لیڈر شیخ حسام الدین کچھ مدت تک تو گومگو کی حالت میں رہے۔ آخر انہوں نے پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا۔ اور لاہور میں ویرا ہوٹل کا چارج لے لیا۔ جو ایک کانگرسی مسمی پربودھ چندر نے ان کے سپرد کر دیا تھا۔ ‘‘

(رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953ءص12)

پھر شیخ حسام الدین صاحب کے متعلق انسپکٹر جنرل سی آئی ڈی انورعلی صاحب نے گورنر کو یہ رپورٹ بھجوائی:

’’کچھ مدت تک شیخ حسام الدین زیر دفعہ ۳۔ پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ نظر بند رکھے گئے کیونکہ پاکستان سے ان کی وفاداری مشتبہ تھی۔ ‘‘

(رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953ءص20)

دوسرے لفظوں میں پہلی مرتبہ یہ الزام اس جماعت اوران صاحب کی طرف سے لگایا گیا جو کہ پاکستان کے قیام کی شدید مخالفت کرتے رہے تھے اور پاکستان بننے کے بعد بھی یہ تحقیقات ہوتی رہی تھیں کہ وہ ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ اور کچھ عرصہ بعد پنجاب میں جماعت کے خلاف فسادات کرا کے ملک کا امن و امان درہم برہم کردیا گیا۔

1970ء کی دہائی میں اس الزام کا دوسرا جنم

اس طرح ان مشکوک حالات میں اس مخصوص الزام کی پیدائش ہوئی۔ اور اُس وقت سے اب تک خاص طور پر پاکستان میں یہ الزام مسلسل جماعت احمدیہ پر لگایا جاتا ہے۔ اور جب بھی جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت انگیزی کی مہم شروع کرنی ہو اور اس بہانے سے ملک میں انتشار پیدا کرنا ہو تو دیگر طریقوں کے علاوہ اس الزام کی مدد سے جذبات بھڑکائے جاتے ہیں۔ تمام تفصیلات کو چھوڑتے ہوئے ہم 1970ء کی دہائی کا جائزہ لیتے ہیں کیونکہ یہ وہ دہائی ہے جس میں پاکستان بھر میں جماعت احمدیہ کے خلاف فسادات کرائے گئے اور آئین میں ترمیم کر کے بزعم خود احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا۔

اس دہائی کے آغاز میں شورش کاشمیری صاحب نے ایک کتاب ’’عجمی اسرائیل‘‘ شائع کی۔ شورش کاشمیری صاحب بھی مجلس احرار سے وابستہ رہے تھے اور پاکستان بننے سے قبل انہوں نے خطبات احرار جلد اول مرتب کر کے شائع کی تھی۔ یہ کتاب مسلم لیگ اور محمد علی جناح صاحب سمیت مسلم لیگ کے لیڈروں کے خلاف دشنام طرازی کا مجموعہ تھی۔ اللہ کی شان ہے کہ پاکستان بننے کے بعد ان کے نظریات نے ایک اَور کروٹ لی اور اب وہ پاکستان کو صیہونی اور قادیانی سازشوں سے بچانے کے لیے جہاد فرما رہے تھے۔ اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ انہوں نے کس انداز سے یہ الزام لگانے کی کوشش کی۔

شورش کاشمیری صاحب کے الزامات کا خلاصہ

یہ تو سب جانتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم سے قبل بہت سے عرب ممالک سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے۔ اور جب پہلی جنگ عظیم کے آغاز پر سلطنت عثمانیہ جرمنی کی اتحادی بن کر میدان جنگ میں کود پڑی تو برطانیہ کی مدد سے عرب قبائل نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کردی۔ اس کتاب میں شورش کاشمیری صاحب یہ نظریہ پیش کرتے ہیں کہ اصل میں یہ احمدیوں کی سازش تھی کہ ترک اور عرب آپس میں لڑ پڑے۔ وہ ان سنسنی خیز الفاظ میں یہ انکشاف کرتے ہیں :

’’پہلی جنگ عظیم کے وقت انگریزوں نے ولی اللہ زین العابدین (مرزا محمود کے سالے) کو سلطنت عثمانیہ میں بھیجا۔ وہاں پانچویں ڈویژن کے کمانڈر جمال پاشا کی معرفت قدس یونیورسٹی (1917ء) کی معرفت یونیورسٹی میں دینیات کالیکچرر ہو گیا۔ لیکن جب انگریزی فوجیں دمشق میں داخل ہوئیں تو یہی ولی اللہ اپنا جامہ اتار کر انگریزی لشکر میں آ گیا اور عربوں کو ترکوں سے لڑانے کی مہم کا انچارج رہا۔ عراقی اس سے واقف ہوئے تو بھاگ کر قادیان آ گیا اور ناظر امور عامہ بنایا گیا۔ ‘‘

(عجمی اسرائیل مصنفہ شورش کاشمیری ص17)

یہ کہانی یہیں پر ختم نہیں ہوتی۔ اس کے بعد شورش کاشمیری صاحب ان الفاظ میں ایک اور دھماکاکرتے ہیں :

’’مرزامحمود کے سالے میجر حبیب اللہ شاہ فوج میں ڈاکٹر تھے۔ وہ پہلی جنگ عظیم میں بھرتی ہو کر عراق گئے۔ انگریزوں نے بغداد فتح کیا تو ابتداءًگورنر مقرر کیا۔ ‘‘

(عجمی اسرائیل مصنفہ شورش کاشمیری ص15)

پھر وہ لکھتے ہیں :

’’اسرائیل عربوں کے قلب میں ناسور ہے۔ تقریباََ تمام مسلمان ریاستوں نے اس کا مقاطعہ کر رکھا ہے۔ پاکستانی مشن وہاں نہیں۔ لیکن قادیانی مشن وہاں ہے۔ سوال ہے وہ کس پر تبلیغ کرتا ہے۔ مسلمانوں پر یا یہودیوں پر۔ ‘‘

(عجمی اسرائیل مصنفہ شورش کاشمیری ص14)

اور اسرائیل میں قادیانی مشن کیا کام کر رہا ہے؟ اس کے متعلق وہ لکھتے ہیں:

’’1953ءکی پاکستانی مزاحمت کے بعد بالعموم اور پچھلے تین سالوں میں بالخصوص قادیانی امت نے اپنے سیاسی ہتھکنڈے تبدیل کر لئے ہیں اور اب عالمی استعمار کی جاسوس امت کے طور پر افریشیائی ممالک سے خفیہ معلومات فراہم کر رہے ہیں۔ تل ابیب (حیفا) میں ان کا مشن گردو پیش کی عرب دنیا کے خلاف جاسوسی کا مرکز ہے۔ ‘‘

(عجمی اسرائیل مصنفہ شورش کاشمیری ص16)

’’خود صدر بھٹو پاکستان میں تل ابیب کی سیاسی مداخلت اور صیہونی سرمایہ کی،زمانہ انتخاب میں آمد کا انکشاف کر چکے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ تل ابیب کا سرمایہ پاکستان کے عام انتخابات میں مقامی مرزائیوں کی معرفت اسی مشن کی وساطت سے آیا تھا۔ اور یحیٰ کے زمانہ میں اکثر وزراء نے خود راقم الحروف سے اس کی روایت کی تھی۔ ‘‘

(عجمی اسرائیل مصنفہ شورش کاشمیری ص14)

شورش کاشمیری صاحب کے الزامات کی حقیقت

ہر قابل ذکر کتاب میں جب اس قسم کے الزامات لگائے جائیں تو اس کے حوالے اور ثبوت پیش کیے جاتے ہیں۔ لیکن شورش صاحب کی اس کتاب میں یا تو حوالے یا ثبوت کا کوئی ذکر ہی نہیں یا پھر اس طرح کے ٹھوس ثبوت پیش کیے گئے ہیں:

’’اس وقت میرے سامنے وہ کتاب نہیں، مصنف اور کتاب کا نام بھی یاد نہیں آرہا۔ پاکستان کے ایک بڑے افسر عاریتاََ لے گئے پھر اپنی نظر بندی کے باعث میں ان سے کتاب واپس نہ لے سکا۔ ‘‘(عجمی اسرائیل مصنفہ شورش کاشمیری ص11)

بہت خوب جماعت احمدیہ پر الزام لگایا جا رہا ہے اورایک کتاب کی بنیاد پر لگایا جا رہا ہے۔ لیکن اس کتاب کا نام اس لیے نہیں بتایا جا رہا کیونکہ ایک افسر یہ کتاب لے گئے اور نسیان کے باعث شورش صاحب کو واپس کرنا بھول گئے۔ کچھ نسیان شورش صاحب کو بھی تھا وہ کتاب اور اس کتاب کے مصنف کا نام بھی بھول گئے۔ اور یہ نسیان ایسا موروثی ثابت ہوا کہ ’’عجمی اسرائیل‘‘ کی اشاعت کو سینتالیس سال ہو گئے اس کے کئی ایڈیشن چھپ گئے، مگر اب تک یہ پراسرار کتاب دریافت نہ ہوئی۔ لیکن اس نامعلوم کتاب میں جماعت احمدیہ پر کیا الزام لگایا گیا تھا وہ خوب یاد ہے اور ایک کے بعد دوسری نسل اس الزام کو طوطے کی طرح دہرا رہی ہے۔

شورش صاحب کی یہ کتاب صرف علم روایت میں ہی منفرد نہیں بلکہ علم جغرافیہ کے حساب سے بھی بے مثال کتاب ہے۔ کیونکہ جیسا کہ حوالہ درج کیا گیا ہے شورش صاحب لکھتےہیں’’تل ابیب (حیفا) میں ان کا مشن گردو پیش کی عرب دنیا کے خلاف جاسوسی کا مرکز ہے۔ ‘‘ اس سے ظاہر ہے کہ ان کے نزدیک یا تو تل ابیب اور حیفا ایک ہی شہر کے دو نام ہیں یا پھر تل ابیب حیفا کا ایک حصہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دو مختلف شہر ہیں اور ان کے درمیان 93 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔

اس کے علاوہ اس کتاب میں تاریخی حقائق کے بارے میں بھی نہایت دھڑلے سے غلط بیانیاں کی گئی ہیں۔ مثلاََ یہ کہ جب برطانوی افواج نے 1917ء میں بغداد فتح کیا تو بالکل ابتدا میں ایک احمدی میجر حبیب اللہ شاہ صاحب کو بغداد کا گورنر مقرر کیا۔ اسی اقتباس میں اس کی تردید موجود ہے۔ تاریخ کا ادنیٰ سا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ جب خاص طور پر بغداد جیسے اہم شہر پر قبضہ کیا جائے تو میجر کے عہدے کے شخص کو گورنر مقرر نہیں کیا جاتا اور وہ بھی جب یہ شخص محض طبی خدمات سے وابستہ ہو۔ بلکہ اعلیٰ عہدے پر فائز کوئی شخص ایسے شہر کا نظم و نسق سنبھالتا ہے۔ چنانچہ جب برطانوی افواج نے اس شہر پر قبضہ کیا تو ان کی فوج کی قیادت کرنے والے لیفٹینٹ جنرل سر سٹینلے ماڈ (Stanley Maude) ہی بصرہ اور بغداد کے گورنر کی حیثیث سے کام کرتے رہے۔ اس مسئلہ پر کہ بغداد کا نظم و نسق کس نے سنبھالنا ہے، ان کا اور سر پرسی کوکس (Sir Percy Cox) کا اختلاف بھی ہوا۔ اور پھر لارڈ کرزن کی سربراہی میں میسوپوٹیمین ایڈمنسٹریشن کمیٹی قائم کی گئی تاکہ اس قضیے کو طے کرے کہ بغداد اور دیگر علاقوں کا انتظام کس طرح چلایا جائے گا۔ شورش صاحب نے اپنے اس الزام کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔

جیسا کہ حوالہ درج کیا گیا ہے کہ شورش کاشمیری صاحب کا دعویٰ تھا کہ صدر یحیٰ خان صاحب کے کئی وزراء نے انہیں خود بتایا تھا کہ 1970ء میں ہونے والے انتخابات میں اسرائیل نے احمدیوں کی وساطت سے سرمایہ لگا یا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد حکومت پاکستان نے چیف جسٹس حمود الرحمٰن صاحب کی صدارت میں ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کیا تھا۔ اس کمیشن نے دیگر امور کے علاوہ اس بات کا جائزہ بھی لیا تھا کہ 1970ء کے انتخابات کس طرح کرائے گئےاور ان انتخابات پر کون کس طرح اثر انداز ہوا؟ اس کمیشن میں صدر یحیٰ خان صاحب کی کابینہ کے وزراء بھی پیش ہوئے تھے۔ اور اس کمیشن کی رپورٹ گواہ ہے کہ ان وزراء میں سے کسی نے یہ لغو دعویٰ نہیں کیا تھا۔ جب شورش کاشمیری صاحب نے یہ کتاب لکھی اس وقت تک اس کمیشن کی رپورٹ شائع نہیں ہوئی تھی۔ اور شاید ان کا خیال تھا کہ یہ حقائق کبھی منظر عام پر نہیں آئیں گے۔ ان حقائق کی روشنی میں ہم یہی نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ یہ غلط بیانی شورش کاشمیری صاحب کے اپنے ذہن کی اختراع تھی۔ بہر حال اس دہائی میں یہ الزام بار بار لگایا جاتا رہا۔ اور 1976ء میں یوسف بنوری صاحب نے ایک کتاب ’’ربوہ سے تل ابیب تک‘‘ شائع کی جو اسی قسم کے الزامات سے بھری ہوئی تھی۔ اور اُس وقت حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے اس کا معرکہ آرا جواب تحریر فرمایا تھا۔

اسی دور میں شورش کاشمیری صاحب کا رسالہ چٹان یہ پروپیگنڈا کر رہا تھا کہ سعودی عرب کے شاہ فیصل نے افریقہ میں تبلیغ کے لیے خزانوں کے منہ کھول دیے ہیں اور ان کی کوششوں کی وجہ سے قادیانی مراکز میں شگاف پڑنے شروع ہو گئے ہیں۔ اور اس رسالے میں یہ مطالبات شائع کیے جا رہے تھے کہ شاہ فیصل کو عالم اسلام کا لیڈر تسلیم کر لیا جائے۔ (ہفت روزہ چٹان 4؍مارچ 1974ء ص 14 و 15)۔ کیا 1970ء کی دہائی میں بھی کوئی بیرونی ہاتھ اس الزام کو لگانے والوں کی پشت پناہی کر رہا تھا؟ جلد ہی یہ صورت حال واضح ہو جاتی ہے۔

رابطہ عالم اسلامی کا اجلاس

کیا یہ اتفاق تھا کہ 6؍اپریل 1974ء سے مکہ مکرمہ میں رابطہ عالمی اسلامی کا اجلاس شروع ہوا اور اس میں مختلف مسلمان ممالک کے نمائندے شریک ہوئے۔ یہ تنظیم سعودی عرب کے فرمانرواؤں کے زیر سایہ کام کرتی ہے اور اس کے مالی وسائل بھی سعودی حکومت ہی مہیا کرتی ہے۔ اس تنظیم کا ہیڈ آفس مکہ مکرمہ میں ہے۔ اس اجلاس کی ایک کمیٹی میں جماعت احمدیہ کے خلاف بھی ایک قرارداد منظور کی گئی۔ اس کمیٹی کی صدارت سعودی عرب کے نمائندے مجاہد الصواف کر رہے تھے۔

اس قرارداد میں لکھا تھا:

“Qadianism is the foundling of British Imperialism without whose protection and support this subversive creed and heresy could not reveal its real nature and designs. Qadianism avowedly violates the fundamental principles of Islam and consolidates Imperialism and Zionism. Its cooperation with anti-Islamic movements makes it a force to destroy or falsify Islam…..‘‘

ترجمہ: قادیانیت برطانوی استعمار کا متروکہ بچہ ہےاور اس استعمار کی حفاظت اور مدد کے بغیر یہ تخریبی عقیدہ اوربدعت اپنی اصل فطرت اور منصوبوں کو ظاہر نہیں کر سکتا تھا۔ قادیانیت اعلانیہ طور پر اسلام کے بنیادی عقائد کی خلاف ورزی کرتی ہے اور استعماریت اور صیہونیت کو مضبوط بناتی ہے۔ یہ اسلام مخالف تحریکوں سے تعاون کر رہے ہیں تا کہ اسلام کو تباہ کیا جائے یا اس کا چہرہ مسخ کیا جائے…

اس زہریلی تمہید کے بعد اس قرارداد میں یہ مطالبات کیے گئے کہ قادیانیت کا محاسبہ کیا جائے۔ ان کی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جائے۔ ان کے کفر کا اعلان کیا جائے۔ قادیانیوں کا مکمل معاشرتی، تہذیبی اور اقتصادی بائیکاٹ کیا جائے۔ انہیں سرکاری عہدوں پر مقرر نہ کیا جائے۔ اس اجلاس میں پاکستان کے فیڈرل سیکرٹری ٹی ایچ ہاشمی صاحب موجود تھے اور انہوں نے سرکاری عہدوں والے حصے سے اختلاف کرتے ہوئے باقی قرارداد پر دستخط کر دیے۔

(The Journal of Muslim World League Mecca, Vol 1 no 8, p 55& 56)

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب 1970ء کی دہائی میں جماعت احمدیہ پر صیہونیت اور اسرائیل سے روابط کے الزامات لگائے جا رہے تھے تو اس الزام تراشی کا سلسلہ ملک سے باہر کچھ ہاتھ چلا رہے تھے۔ اور مکہ مکرمہ میں رابطہ عالم اسلامی کے اس اجلاس کے ڈیڑھ ماہ بعد پاکستان میں احمدیوں کے خلاف فسادات شروع کرادیے گئے۔

قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں الزام کا اعادہ

اُس وقت سے اب تک جب بھی جماعت احمدیہ پر یہ الزام لگایا جاتا ہے تو اکثر حوالے کے طور پر یا تو شورش کاشمیری صاحب کا یا رابطہ عالم اسلامی کی اس کمیٹی کی قرارداد کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ اور انہیں اس الزام کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ نہ اس کتاب میں اس الزام کاکوئی ثبوت پیش کیا گیا تھا اور نہ ہی رابطہ عالم اسلامی کے اس اجلاس میں جماعت احمدیہ کے خلاف کوئی ثبوت پیش ہوا؟ گویا اس الزام کی جو بنیاد بیان کی جاتی ہے وہ خود ہی بے بنیاد ہے۔

چنانچہ جب 1974ء میں جماعت احمدیہ کے بارے میں پاکستان کی قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں کارروائی شروع ہوئی تو اس میں یہ الزام رابطہ عالم اسلامی کی قرارداد کے حوالے سے لگا کر ممبران کو جماعت احمدیہ کے خلاف بھڑکایا گیا۔ 1974ء میں اپوزیشن کے اراکین نے جماعت احمدیہ کے خلاف جو قرارداد پیش کی تھی، اس قرارداد میں رابطہ عالم اسلامی کی اس قرارداد کو اپنی قرارداد کی بنیاد کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ اس میں یہ الفاظ شامل تھے:

’’نیز ہر گاہ کے عالمی مسلم تنظیموں کی کانفرنس جو مکہ المکرمہ کے مقدس شہر میں رابطہ العالم الاسلامی کے زیر انتظام 6؍ اور 10؍ اپریل 1974ء کے درمیان منعقد ہوئی اور جس میں تمام دنیا بھر کے تمام حصوں سے140 مسلمان تنظیموں اور اداروں کے وفود نے شرکت کی متفقہ طور پر یہ رائے ظاہر کی گئی کہ قادیانیت اسلام اور عالم اسلام کے خلاف ایک تخریبی تحریک ہے جو ایک اسلامی فرقہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ ‘‘

(کارروائی سپیشل کمیٹی 1974ءص1883)

اس کے بعد قائد حزب ِ اختلاف مفتی محمود صاحب نے اپنی طویل تقریر میں رابطہ عالم اسلامی کی یہی قرارداد عربی اور اردو میں پڑھ کر سنائی اور اس اجلاس کو امت مسلمہ کا نمائندہ اجتماع قرار دیا۔ (کارروائی سپیشل کمیٹی 1974ء ص 1971تا1974)۔ اور شورش کاشمیری صاحب کا یہ الزام بھی دہرایا کہ جب برطانیہ نے بغداد پر قبضہ کیا تو ایک احمدی میجر حبیب اللہ شاہ صاحب کو وہاں کا گورنر مقرر کیا۔ (کارروائی سپیشل کمیٹی 1974 ص2043) اور حیفا میں جماعت احمدیہ کی موجودگی کے بارے میں کہا:

’’ان کا کہنا ہے کہ یہ مشن عرب ریاستوں کی جاسوسی، فوجی راز معلوم کرنے، عالم اسلام کے معاشی، اخلاقی حالات اور دینی جذبات معلوم کرنے عرب گوریلوں کے خلاف کارروائیاں کرنے اور عالمی استعمار اور یہودی استحصال کے لیے راہیں تلاش کرنے میں سرگرم عمل رہتے ہیں۔ ‘‘

(کارروائی سپیشل کمیٹی 1974ء ص2047)

مفتی محمود صاحب نے اس تقریر میں یہ الزام لگانے میں کافی وقت صرف کیا کہ جماعت احمدیہ اور اسرائیل کے گہرے روابط ہیں اور نعوذُ باللہ دونوں مل کر عالم اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ممبران قومی اسمبلی کو جماعت احمدیہ کے خلاف بھڑکایا جائے۔ اور اب بھی جب جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت انگیزی کی مہم کو آگے بڑھانا ہو تو یہی نسخہ استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اس معاملے میں لوگوں کے شدید جذبات کی وجہ سے اکثر اوقات کوئی ثبوت طلب نہیں کیا جاتا۔

جنرل ضیاء صاحب کے دور سے اب تک

اسی طرح جب جنرل ضیاء صاحب کے دور میں جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت انگیزی کی مہم شروع کی جا رہی تھی تو 1978ء میں کراچی کے مقام پر رابطہ عالم اسلامی کا ایک اجلاس ہوا۔ اس میں جماعت احمدیہ کے خلاف ایک قرارداد منظور کی گئی اور اس میں جماعت احمدیہ کو نعوذُ باللہ برطانوی استعمار کی سوتیلی بیٹی قرار دیا اور الزام لگایا کہ جماعت احمدیہ برطانوی استعمار اور صیہونیت کی اندھی تقلید کرتی ہے۔ اس اجلاس کے بعد امام کعبہ نے جنرل ضیاء صاحب کے حق میں تقریر بھی کی۔ (ڈان 9؍ جولائی 1978ص1 اور 10)

ہم سب جانتے ہیں کہ آج کل بھی پاکستان میں جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت انگیزی کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ جب 2018ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزول شدہ جج شوکت عزیز صدیقی صاحب نے جماعت احمدیہ کے خلاف ایک طویل فیصلہ سنایا تو اس فیصلہ میں بھی اس الزام کو دہرایا گیا۔ تفصیلی فیصلہ میں کہا گیا کہ جب جماعت احمدیہ نے اپنا مرکز ربوہ میں منتقل کیا تو ان کے صیہونی اسرائیل سے گہرے تعلقات تھے۔ انہیں استعماری اور صیہونی قوتوں کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ اس فیصلے میں شوکت عزیز صدیقی صاحب نے 1978ء میں منظور کی جانے والی رابطہ عالم اسلامی کی قرارداد کا پورا متن شامل کیا۔ شوکت عزیز صدیقی صاحب نے شورش کاشمیری صاحب کے کسی خط کا حوالہ بھی دیا جو کہ انہوں نے وزیر اعظم بھٹو صاحب کو لکھا تھا کہ احمدیوں کے اسرائیل سے تعلقات ہیں اور ان تعلقات پر تحقیقات ہونی چاہئیں کہ کس طرح جماعت احمدیہ امت مسلمہ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔

(Maulana Allah Wasaya VS FOP Writ Petition-3862-2017 | 2019 PLD 62 Islamabad, P 45, 49, 52, 75-77)

اس فیصلہ کے بعد پاکستان میں جماعت احمدیہ کی ایک اور لہر نے جنم لیا جو اب تک جاری ہے۔ اور عمران ریاض صاحب کی یہ ویڈیو اسی لہر کا ایک حصہ ہے۔ پاکستان کے قیام سے اب تک جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت انگیزی کی مہم جب بھی چلانے کی کامیاب یا ناکام کوشش کی جاتی ہے تو اس کا ایک مخصوص انداز ہوتا ہے۔ جس طرح کسی ڈرامے میں کام کرنے والے اداکار کو کوئی ڈائریکٹر ایک سکرپٹ تھما دیتا ہے کہ تم نے یہ جملے بولنے ہیں اور اس طرح بولنے ہیں کہ سننے والے کو سچ کا گمان ہو۔ اور یہ گھسا پٹا الزام کہ جماعت احمدیہ صیہونی تنظیم یا اسرائیل کے ساتھ ساز باز کر رہی ہے، اس سکرپٹ کا حصہ ہے۔ کئی دہائیاں گزریں۔ ایک کے بعد دوسرا اداکار سٹیج پر آکر رخصت ہوتا گیا لیکن یہ الزام اسی رٹے رٹائے انداز میں لگایا جاتا ہے اور ناظرین سے تالیوں کی توقع بھی کی جاتی ہے۔ اور اس بار بھی وہی پرانی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ اور یہ نفرت انگیزی جماعت احمدیہ تک محدود نہیں بلکہ ہر زاویہ سے پاکستان میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

بہر حال ان الزامات کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ احمدی ہی تھے جنہوں نے عربوں اور ترکوں کو آپس میں لڑایا تا کہ اسرائیل بنایا جا سکے۔ اور جب سے اسرائیل بنا ہے احمدی ان کے ساتھ رابطے میں ہیں تا کہ سامراجی اور صیہونی سازشوں کو کامیاب بنایا جا سکے اور ان کے لیے جاسوسی کر رہے ہیں۔ ہر سننے والا یہ سوال کرے گا کہ کیا یہ سچ ہے؟ اب ہم اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے لیکن اب ایک اور سوال بھی پیدا ہو گیا ہے۔ اور وہ یہ کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ مسلمانوں کے اندر کوئی اور گروہ موجود ہے جو کہ لوگوں کی توجہ دوسری طرف رکھنے کے لیے احمدیوں پر یہ الزام لگاتا رہتا ہے اور اصل میں اس گروہ نے خود اسرائیل کو بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اب بھی اسرائیل کے ساتھ رابطے میں ہے۔

اسرائیل کے قیام کی ابتدائی کوشش

ہر کچھ عرصہ کے بعد جماعت احمدیہ پر بغیر ثبوت کے یہ الزام لگانے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے کہ جماعت احمدیہ اسرائیل کے قیام میں ملوث تھی۔ اس لیے مناسب ہوگا کہ مختصر سا جائزہ پیش کیا جائے کہ اسرائیل کا قیام کس طرح ممکن ہوا؟ یہ تو سب جانتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم سے قبل کئی عرب ممالک کی طرح فلسطین کا علاقہ بھی سلطنت عثمانیہ کے تحت تھا۔ اور اُس وقت بہت کم یہودی وہاں پر آباد تھے اور مسلمان بھاری اکثریت میں تھے۔ اسرائیل کے قیام سے پہلے یہ ضروری تھا کہ یہودیوں کو وہاں پر آباد کیا جائے۔ اس کے لیے سلطنت عثمانیہ کے سلطان کی اجازت درکار تھی۔

اسماعیلی فرقہ کے پیشوا سر آغا خان سوئم اپنی سوانح حیات میں تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر ہیفکائن(Haffkine) ان کے دوست تھے۔ یہ وہی ڈاکٹر تھے جنہوں نے طاعون کا ٹیکہ دریافت کیا تھا۔ وہ یہودی تھے اور صیہونی تحریک سے وابستہ تھے۔ انہوں نے سر آغا خان سوئم کو تعارفی خط دیا کہ وہ پیرس میں ربی زیڈک (Rabbi Zadek)سے ملیں۔ جب وہ اُن سے ملے تو انہوں نے سر آغا خان کو منصوبے کے خد و خال سمجھائے جس کے تحت یہودیوں نے فلسطین میں زمینیں خرید کر وہاں پر آباد ہونا تھا۔ لیکن انہوں نے یہودیوں کے علیحدہ ملک بنانے کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ سر آغا خان نے پیرس میں سلطنت عثمانیہ کے سفیر منیر پاشا اور سلطنت عثمانیہ کے سلطان کے سیکرٹری عزت بے کی وساطت سے سلطان عبد الحمید سے اس منصوبے کی منظوری کے لیے رابطہ کیا لیکن سلطان عبد الحمید نے انکار کر دیا۔ سر آغا خان لکھتے ہیں کہ یہ ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔

(The Memoirs of AGA KHAN, WORLD ENOUGH AND TIME BY HIS HIGHNESS THE AGA KHAN, Published by Simon and Schuster, New York 1954, p132133-)

پہلی جنگ عظیم اور ترکی کو زیر کرنے کی کوشش

اس واضح انکار کے بعد بظاہر یہ ممکن نظر نہیں آتا تھا کہ جب تک فلسطین سلطنت عثمانیہ کے تحت ہے وہاں پر یہودیوں کی آباد کاری شروع ہو سکے۔ لیکن پہلی جنگ عظیم کے شروع ہونے پر ایک اور موقع پیدا ہو گیا۔ پہلی جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو سلطنت عثمانیہ جرمنی کا اتحادی بن کر میدان جنگ میں اتری۔ دوسری طرف برطانیہ فرانس اور روس تھے۔

فیصلہ ہوا کہ ترکی کی سلطنت عثمانیہ کو سبق سکھایا جائے۔ برطانیہ اور فرانس نے منصوبہ بنایا کہ جزیرہ نما گیلی پولی پر حملہ کر کے روس تک کے بحری راستوں پر قبضہ کیا جائے اور اس طرح ترکی کو تباہ کر دیا جائے۔ اتحادیوں کے بحری بیڑے نے حملہ کیا۔ برطانیہ، فرانس، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور ہندوستان سے برّی فوج منگوائی گئی۔ بار بار بحری اور بری حملے ہوئے۔ لیکن متوقع کامیابی نہ ملی۔ ہزاروں کی تعداد میں اتحادی فوجی مرنے لگے۔ چار لاکھ اسی ہزار فوجی اتار کر اور چھیالیس ہزار اتحادی فوجیوں کو مروا کر بھی کچھ نہ بنا اور تین چار ماہ میں ہی پتہ چل گیا کہ اس طرح فتح نہیں ملے گی۔ آخر کار خفت اُٹھا کر اتحادیوں کو پسپا ہونا پڑا۔ ونسٹن چرچل کو اپنی وزارت سے استعفیٰ دینا پڑا اور برطانیہ کی حکومت اس حد تک کمزور ہو گئی کہ اگلے سال نئی کابینہ کو سامنے لانا پڑا۔ ظاہر ہے کہ صیہونی تنظیم کو بھی علم ہو گیا تھا کہ اگر اسی طرح فلسطین اور عرب علاقے سلطنت عثمانیہ کے قبضہ میں رہے تو اسرائیل بنانے کا خواب پورا نہیں ہو سکتا۔

شریف مکہ برطانیہ سے درخواست کرتے ہیں

جب جولائی 1915ء میں ترکی پر اتحادیوں کا حملہ ناکام ہونا شروع ہوا تو اس ناکامی میں انہیں ایک امید کی کرن نظر آئی۔ حجاز یعنی عرب کا وہ علاقہ جس میں مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ واقعہ ہیں سلطنت عثمانیہ کے تحت تھا لیکن مقامی طور پر یہاں پر شریف مکہ بطور حکمران مقرر تھے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران حسین بن علی شریف مکہ کے طور پر کام کر رہے تھے(اردن کے موجودہ بادشاہ انہی کی اولاد سے ہیں )۔ شریف مکہ کا خاندان عثمانی بادشاہ کو بطور خلیفۃ المسلمین حکمران تسلیم کرتا تھا۔ اور اس سلطنت کے تحت کام کرتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران شریف مکہ نے محسوس کیا کہ اب موقع ہے کہ وہ سلطنت عثمانیہ سے علیحدہ ہو کر صرف حجاز ہی نہیں بلکہ تمام عرب ممالک کے بادشاہ بن جائیں۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ اعلان کریں کہ وہ مسلمانوں کے خلیفہ ہیں۔

شریف مکہ حسین بن علی

اس کام کے لیے انہوں نے برطانیہ سے مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے مصر میں برطانوی سفیر ہنری میکمہن کو خط لکھنے شروع کیے۔ جولائی 1915ء میں شریف مکہ نے میکموہن کو خط لکھا کہ سلطنت برطانیہ عالم اسلام کی عرب خلافت کی منظوری عطا کرے کیونکہ اب عرب سلطنت عثمانیہ سے آزادی حاصل کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ اس کے لیے بر طانیہ کی مدد چاہیے۔ اس کے بدلے میں عرب علاقوں میں اقتصادی منصوبوں کے لیے سلطنت برطانیہ کو ترجیح دی جائے گی۔

اندھا کیا چاہے دو آنکھیں۔ برطانیہ نے اس تجویز کا گرمجوشی سے خیر مقدم کیا اور 30؍ اگست کو میکمہن نے شریف مکہ کو خط لکھا کہ عربوں کے مفادات انگریزوں کے مفادات ہیں اور انگریزوں کے مفادات عربوں کے مفادات ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ عرب اور اس کے باشندے آزاد ہوجائیں اور برطانیہ خالص عرب نسل میں دوبارہ خلافت کے اجرا کی حمایت کرتا رہے۔ اس دور میں برطانیہ نے ہندوستان سمیت دنیا کے کئی ممالک کو اپنے زیر نگیں رکھا ہوا تھا۔ اس پس منظر میں یہ دعویٰ کہ وہ عرب علاقوں کو ترکی کی غلامی سے نجات دلانا چاہتے ہیں ایک لطیفہ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اس وقت عرب دنیا کے قائدین اس لطیفے کو سنجیدہ وعدہ سمجھ رہے تھے۔ یہ منصوبہ بنایا گیا کہ شریف مکہ برطانیہ کی مدد سے عرب علاقوں میں سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت برپاکریں گے۔

(https://www.jewishvirtuallibrary.org/the-hussein-mcmahon-correspondence-july-1915-august-1916, accessed on 30 August)

عبد العزیز السعود برطانیہ کی سرپرستی قبول کرتے ہیں

یہ تو حجاز کا قصہ تھا۔ مشرق میں نجد کا علاقہ امیرعبد العزیز السعودکےزیرتسلط تھا(یعنی موجودہ سعودی بادشاہ کےوالد اور سعودی عرب کے بانی)۔ اس کا صدر مقام ریاض کا شہر تھا۔ پہلی جنگ عظیم سے پہلے عبدالعزیز السعود نے کوشش کی کہ سلطنت برطانیہ انہیں اپنی حفاظت میں لے لے۔ لیکن اس وقت برطانیہ سلطنت عثمانیہ سے تعلقات بگاڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے برطانوی افسران نے امیر عبد العزیز السعود کے خطوط کا جواب نہیں دیا۔

اس کے بعد مایوس ہو کر امیر عبد العزیز نے سلطنت عثمانیہ سے نجد کے علاقے پر والی ہونے کا منصب قبول کر لیا۔ لیکن جب جنگ عظیم شروع ہوئی تو عبد العزیزالسعود نے علاقے پر اپنا تسلط قائم کرنا شروع کیا۔ مگرایک نہایت اہم جنگ میں انہیں سلطنت عثمانیہ کی حامی ابن رشید کی افواج سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جنگ میں ان کی فوج کا ایک حصہ عین میدان جنگ میں دغا دے کر سلطنت عثمانیہ کے حامی ابن رشید خاندان کی فوجوں سے مل گیا۔ اس کے بعد جب دشمن نے حملہ کیا تو سعودی افواج میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گئیں۔

اس کے بعد سعودی خاندان کے حالات خراب ہوناشروع ہوئے۔ جس طرح انہوں نے سلطنت عثمانیہ سے بغاوت کی تھی ان کے ماتحت قبائل نے ان کے خلاف بغاوت کر دی۔ اور تو اور ان کے خاندان کے کچھ لوگ بھی ان قبائل سے مل گئے۔ لیکن اب سلطنت برطانیہ سعود ی خاندان میں دلچسپی لے رہی تھی تا کہ انہیں سلطنت عثمانیہ کے خلاف استعمال کیا جا سکے۔

چنانچہ دسمبر1915ء میں جب گیلی پولی (ترکی ) میں برطانیہ اور اس کی اتحادی افواج اپنی شکست کے آخری مراحل میں داخل ہو چکی تھیں، اس وقت امیر عبد العزیز السعود اور برطانوی افسر پرسی کوکس کے مذاکرات ہوئے اور ایک معاہدے پر دستخط کیے گئے۔ اس معاہدے کی رو سے اس علاقے میں برطانیہ کو تجارتی حقوق حاصل ہوئے اور سعودی خاندان نے اپنی خارجہ پالیسی مکمل طور پر سلطنت برطانیہ کے سپرد کر دی۔ اور سلطنت برطانیہ نے اس امارت کو اپنے زیر سرپرستی رکھنا قبول کیا۔

اس کے عوض امیر عبد العزیز السعود کو تین سو بندوقیں دی گئیں جو کہ ترک فوجیوں سے قبضہ میں لی گئی تھیں اور برطانوی حکومت نے انہیں دس ہزار ہندوستانی روپے کی رقم بھی دی۔ اگلے سال 1916ء میں برطانیہ نے سعودی خاندان کو ایک ہزار مزید بندوقیں اور دو لاکھ گولیوں کے راؤنڈ کے علاوہ بیس ہزار پاؤنڈ کی مالی مدد دی تاکہ سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کرائی جا سکے۔ اس مدد کی وجہ سے امیر عبد العزیز السعود نے نجد کے علاقے میں سلطنت عثمانیہ کی حامی افواج پر حملہ کر کے اپنا کھویا ہوا اقتدار حاصل کیا۔ سلطنت عثمانیہ کی حامی یہ افواج برطانوی فوج کی اطراف پر حملے کر کے انہیں پریشان کر رہی تھیں۔

(The Kingdom , by Robert Lacey, published by Hutchinson& Co. 1981, p 120-124)

جیسا کہ اوپر حوالہ درج کیا گیا ہے شورش کاشمیری صاحب نے یہ الزام لگایا تھا کہ یہ احمدیوں کی سازش تھی کہ ترک اور عرب آپس میں لڑ پڑے۔ اور یہ سب کچھ انگریزوں کی بنائی ہوئی سازش کے تحت کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ شریف مکہ حسین بن علی نے خود انگریزوں کو خط لکھ کر سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کا منصوبہ بنایا اور ان سے خلافت اسلامیہ کے قیام کے لیے مدد کے طلبگار ہوئے۔ اسی طرح شاہ عبد العزیز السعود بھی خود اپنی مرضی سے برطانیہ کے بنائے ہوئے منصوبے میں شامل ہوئے۔ یعنی رابطہ عالم اسلامی کا سرپرست خاندان برطانیہ کی مددسے بادشاہت تک پہنچا تھا۔ اور اس طرح مسلمانوں نے ایک دوسرے کا خون بہایا۔ یقیناََ یہ بات شورش کاشمیری صاحب کے علم میں ہو گی کہ یہ دونوں احمدی نہیں تھے بلکہ راسخ العقیدہ سنی تھے۔ ان کی اس بغاوت کے نتیجے میں برطانوی فوجوں کو موقع ملا کہ وہ یروشلم پر قبضہ کر لیں اور اس کے بعد برطانیہ کی منظوری سے فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری اور اسرائیل بنانے کا عمل شروع ہوا۔ ان حالات کا مختصر جائزہ اگلی قسط میں پیش کیا جائے گا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button