متفرق مضامین

داستانِ شہادت امام حسین، مقام و مرتبہ حضرت مسیح موعودؑاور خلفائے کرام کی نظر میں

(جاوید اقبال ناصر۔مربی سلسلہ جرمنی)

حضرت امام حسینؓ سرداران بہشت میں سے ہے

محرم کا مہینہ آتے ہی سردارانِ بہشت میں سےحضرت امام حسینؓ کی شہادت کی دُکھ بھری داستان نظروں کے سامنے گھومنے لگتی ہے۔جہاں پر آپؓ کا صبر اور حوصلہ لاثانی تھاوہاں ظالموں کا ظلم بھی انتہا کو پہنچا ہوا تھا۔ ظلم و بربریت کی انتہا تو ہوئی ہی لیکن ظلم یہ ہوا کہ اللہ والوں کا خون اللہ کے نام پربہایاگیا۔ کلمہ گو ہی کلمہ گوؤں کے خون کا پیاسابنا۔ معصوموں، بچوں اورعورتوں کاخون بہانے سے بھی گریز نہ کیا گیا۔اِس درد بھری داستان پر کئی مورخین نے تاریخ دا نی کرتے ہوئے آپؓ کی شہادت کےواقعے کو قلم بند کیا ہے۔ اس زمانے کے امام صادق اور حکم و عدل نے بھی اس درد رساں اور تکلیف دہ سرگزشت کو زمانے کے سامنے درد بھری آواز میں پیش کرتے ہوئے حضرت امام حسینؓ کے صحیح مقام ومرتبہ کو دُنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔اسی طرح آپؑ کےخلفاءنے بھی اِس عالی شان وجود کی درد بھری کہانی کو مختلف اوقات میں بیان کیا ہے تاکہ آنے والی نسلوں کو حضرت امام حسینؓ کا رتبہ و مرتبہ پیشِ نظر رہے۔ چند ایک سطور میں آپؓ کی شہادت کی مختصر داستان اور آپؓ کے مقام و منزلت کے بارے میں چند تحریرات پیش ہیں:

حضرت امام حسین ؓنے صلح کی بھرپور کوشش کی لیکن ظالموں نےظلم کی داستان رقم کردی

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاس بارے میں فرماتے ہیں:

’’ بیعت نہ کرنے کے باوجود حضرت امام حسینؓ نے صلح کی کوشش کی تھی اور جب آپؓ نے دیکھا کہ مسلمانوں کا خون بہنے کا خطرہ ہے تو اپنے ساتھیوں کو واپس بھیج دیا۔ انہوں نے کہا تم جو جا سکتے ہو مجھے چھوڑ کر جاؤ۔ اب یہ اَور حالات ہیں۔ جو چند ایک آپ کے ساتھ رہنے پر مصر تھے وہ تقریباً تیس چالیس کے قریب تھے یا آپ کے خاندان کے افراد تھے جو ساتھ رہے۔ پھر آپؓ نے یزید کے نمائندوں کو یہ بھی کہا کہ میں جنگ نہیں چاہتا۔ مجھے واپس جانے دو تا کہ میں جا کر اللہ کی عبادت کروں۔ یا کسی سرحد کی طرف جانے دو تا کہ میں اسلام کی خاطر لڑتا ہوا شہید ہو جاؤں۔ یا پھر مجھے اسی طرح یزید کے پاس لے جاؤ تا کہ مَیں اسے سمجھا سکوں کہ کیا حقیقت ہے۔ لیکن نمائندوں نے کوئی بات نہ مانی۔ (تاریخ اسلام از اکبر شاہ خاں نجیب آبادی۔ جلد 2 صفحہ 68 نفیس اکیڈیمی کراچی ایڈیشن 1998ء)آخر جب جنگ ٹھونسی گئی تو پھر اس کے سوا آپؓ کے پاس بھی کوئی چارہ نہیں تھا کہ مردِ میدان کی طرح مقابلہ کرتے۔ بہرحال یہ لوگ معمولی تعداد میں تھے جیسا کہ مَیں نے کہا، کل ستّر بہتّر افراد تھے اور ان کے مقابلے پر ایک بہت بڑی فوج تھی۔ یہ کس طرح ان کا مقابلہ کر سکتے تھے؟ بہر حال انہوں نے ایک صحیح مقصد کے لئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے، اپنی جانیں قربان کر دیں اور ایک ایک کر کے شہید ہوتے گئے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ دسمبر 2010ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل31؍دسمبر2010ءصفحہ6)

حضرت امام حسینؓ کی شہادت کی درد بھری داستان

آپ ایدہ اللہ تعالیٰ حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئےفرماتے ہیں:

’’کربلا میں آپ سے کیا سلوک ہوا؟ جس تعلیم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اس کی پامالی کس طرح ہوئی؟ روایات میں آتا ہے کہ جب آپ کے لشکر پر دشمنوں نے غلبہ پا لیا تو آپؓ نے (حضرت امام حسینؓ نے) اپنے گھوڑے کا رُخ فرات کی طرف (دریا کی طرف) کیا۔ ایک شخص نے کہا کہ ندی اور ان کے درمیان حائل ہو جاؤ۔ چنانچہ لوگوں نے آپؓ کا راستہ روک لیا اور دریا تک نہ جانے دیا۔ اُس شخص نے آپؓ کو ایک تیر مارا جو آپ کی ٹھوڑی کے نیچے پیوست ہو گیا۔ راوی آپ کی جنگ کی حالت کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ عمامہ باندھے، وسمہ لگائے ہوئے پیدل اس طرح قتال کر رہے تھے، جنگ کر رہے تھے جیسے کوئی غضب کا شہسوار تیروں سے بچتے ہوئے حملہ کرتا ہے۔ مَیں نے شہادت سے قبل آپؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اللہ کی قسم! میرے بعد بندگانِ خدا میں سے تم کسی بھی ایسے بندے کو قتل نہیں کرو گے جس کے قتل پر میرے قتل سے زیادہ خدا تم سے ناراض ہو۔ وللہ مجھے تو یہ امید ہے کہ اللہ تمہیں ذلیل کر کے مجھ پر کرم کرے گا۔ پھر میرا انتقام تم سے اس طرح لے گا کہ تم حیران ہو جاؤ گے۔ اللہ کی قسم! اگر تم نے مجھے قتل کیا تو اللہ تعالیٰ تمہارے درمیان جنگ کے سامان پیدا کر دے گا اور تمہارا خون بہایا جائے گا اور اللہ اس پر بھی راضی نہیں ہو گا یہاں تک کہ تمہارے لئے عذابِ الیم کو کئی گنا بڑھا دے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍دسمبر2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل31؍دسمبر2010ءصفحہ6)

آپؓ کی شہادت کے وقت آپؓ کی عمر ستاون برس تھی اور کچھ آدمی ان کے ساتھ تھے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپؓ کی شہادت کا حال اِس طرح بیان فرماتے ہیں:

’’امام حسینؓ کو دیکھو کہ ان پر کیسی کیسی تکلیفیں آئیں۔ آخری وقت میں جو ان کو ابتلاء آیا تھاکتنا خوفناک ہے۔لکھا ہے کہ اس وقت ان کی عمر ستاون برس کی تھی اور کچھ آدمی ان کے ساتھ تھے۔ جب سولہ یا سترہ آدمی ان کے مارے گئے اور ہر طرح کی گھبراہٹ اور لاچاری کا سامنا ہوا تو پھر ان پر پانی کا پینا بند کردیا گیا۔ اور ایسا اندھیر مچایا گیا کہ عورتوں اور بچوں پر بھی حملے کئے گئے اور لوگ بول اٹھے کہ اس وقت عربوں کی حمیت اور غیرت ذرا بھی باقی نہیں رہی۔ اب دیکھو کہ عورتوں اور بچوں تک بھی ان کے قتل کئے گئے اور یہ سب کچھ درجہ دینے کے لئے تھا۔‘‘

(ملفوظات جلد5صفحہ336،ایڈیشن1988ء)

آپؓ کو شہید کرنے کے بعد آپؓ کی نعش مبارک اور اہل خانہ کے ساتھ یزیدی قوتوں کا ظلم وبربریت

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاس ظلم کی داستان کواس طرح بیان فرماتے ہیں:

’’آپؓ کو شہید کرنے کے بعد کس طرح سلوک کیا؟ کوفیوں نے خیموں کو لوٹنا شروع کر دیاحتیٰ کہ عورتوں کے سروں سے چادریں تک اتارنا شروع کر دیں۔ عمرو بن سعدنے منادی کی کہ کون کون اپنے گھوڑوں سے حضرت امام حسین کو پامال کرے گا؟ یہ سن کر دس سوار نکلے جنہوں نے اپنے گھوڑوں سے آپؓ کی نعش کو پامال کیایہاں تک کہ آپ کے سینے اور پشت کو چُور چُور کر دیا۔ اس لڑائی میں حضرت امام حسینؓ کے جسم پر تیروں کے 45زخم تھے۔ ایک دوسری روایت کے مطابق تینتیس زخم نیزے کے اور تینتالیس زخم تلوار کے تھے اور تیروں کے زخم ان کے علاوہ تھے۔ اور پھر ظلم کی یہ انتہا ہوئی کہ حضرت امام حسینؓ کا سر کاٹ کر، جسم سے علیحدہ کر کے اگلے روز عبید اللہ بن زیاد گورنر کوفہ کے پاس بھیجا گیا اور گورنر نے حضرت امام حسینؓ کا سر کوفہ میں نصب کر دیا۔ اس کے بعد زہر بن قیس کے ہاتھ یزید کے پاس سر بھیج دیا گیا۔

(ماخوذ از تاریخ الطبری جلد 6صفحہ 243تا 250۔ خلافۃ یزید بن معاویہ۔ دارالفکر بیروت 2002ء) (ماخوذ ازتاریخ اسلام از اکبر شاہ خاں نجیب آبادی۔ صفحہ 51تا 78۔ نفیس اکیڈیمی کراچی ایڈیشن 1998ء)

تو یہ سلوک تھا جو آپؓ کے شہید کرنے کے بعد آپؓ کی نعش سے کیا گیا۔ اس سے ظالمانہ سلوک اور کیا ہو سکتا ہے؟ آپ کی لاش کو کُچلا گیا۔ سر تن سے جدا کیا گیا۔ اس طرح لاش کی بےحرمتی شائد ہی کوئی خبیث ترین دشمن کسی دوسرے دشمن کی کر سکتا ہو، نہ کہ ایک کلمہ پڑھنے والا، اپنے آپ کو اس رسول سے منسوب کرنے والا جس نے انسانی قدروں کے قائم رکھنے کی اپنے ماننے والوں کو بڑی سختی سے تلقین فرمائی ہے۔ پس یقیناً اس عمل سے ایسا فعل کرنے والوں کی ہوس باطنی کا اظہار ہوتا ہے کہ وہ لوگ دنیا دار تھے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لئے تمام حدیں پھلانگ سکتے تھے اور انہوں نے پھلانگیں۔ دین سے اُن کا ذرہ بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔ ان کی دنیا داری کو ہی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محسوس کر کے یزید کی بیعت سے انکار کیا تھا۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ دسمبر 2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل31؍دسمبر2010ءصفحہ6)

معصوموں اور بچوں کا خون بہانے سے بھی گریز نہ کیا گیا، کلمہ گونے ہی کلمہ گوؤں کو ظلم و تعدی کا نشانہ بنایا

پھر حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہی اس ظلم و تعدّی کا نشانہ بننے والوں کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’’یہ دونوں فریق کون تھے؟ یہ دونوں کلمہ

لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ

پڑھنے والے تھے یا پڑھنے کا دعویٰ کرنے والے تھے۔ لیکن ایک کلمہ کی حقیقت کو جانتے ہوئے مظلوم بنا اور دوسرا کلمہ کا پاس نہ کرتے ہوئے ظالم بنا۔ واقعہ کربلا بھی جس میں حضرت امام حسینؓ، آپ کے خاندان کے افراد اور چند ساتھیوں کو ظالمانہ طور پر شہید کیا گیا، اصل میں حضرت عثمانؓ کی شہادت کے واقعے کا ہی ایک تسلسل ہے۔ جب تقویٰ میں کمی ہونی شروع ہو جائے، ذاتی مفادات اجتماعی مفادات پر حاوی ہونا شروع ہو جائیں، دنیا دین پر مقدم ہو جائے تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے کہ ظلم و بربریت کی انتہا کی جاتی ہے۔ اللہ والوں کا اللہ کے نام پر ہی خون بہایا جاتا ہے۔ یہ کتنی بدنصیبی ہے کہ کلمہ گو ہی کلمہ گوؤں کو ظلم و تعدّی کا نشانہ بنا رہے ہوں، زیادتیوں اور دکھوں کا نشانہ بنا رہے ہوں حتیٰ کہ معصوموں کا خون، بچوں کا خون بہانے سے بھی گریز نہ کیا جا رہا ہو۔ خدا کے اور رسول کے نام پر خدا اور رسول پر جان، مال اور عزت قربان کرنے والوں کو دکھوں، تکلیفوں اور مصائب کا نشانہ بنایا جارہا ہو۔ اس سے بڑھ کر ان لوگوں کی کیا بدنصیبی ہو سکتی ہے؟ جو خدا اور رسول کے نام پر ظلموں کا بازار گرم کرتے ہوئے یہ ظلم کر رہے ہوتے ہیں یا ظلموں کایہ بازار گرم کرتے ہیں، قرآنِ کریم ایسے لوگوں کی بد حالت بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ

وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(النساء: 94)

اورجو شخص کسی مومن کو دانستہ قتل کر دے تو اس کی سزا جہنم ہوگی وہ اس میں لمبے عرصے تک رہتا چلا جائے گا اور اللہ کا غضب اس پر نازل ہو گا اور اُسے اپنی جناب سے اللہ دور کر دے گا، اپنے سے دور ہٹادے گا۔ یعنی لعنت برسائے گا، اور اس کے لئے بہت بڑا عذاب تیار کرے گا‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ دسمبر 2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل31؍دسمبر2010ءصفحہ5)

محرم کی دس تاریخ کو ظالموں نے آنحضرتؐ کے پیارے کو شہید کیا تھا جس کی داستان سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں

ایک مرتبہ محرم کے ماہ میں خطبہ دیتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’محرّم کا مہینہ جس کے پہلے عشرے سے ہم گزر رہے ہیں، اس میں آج سے چودہ سوسال پہلے دس تاریخ کو ظالموں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پیارے کو شہید کیا تھا جس کی داستان سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان ظالموں کو یہ خیال نہ آیا کہ کس ہستی پر ہم تلوار اٹھانے جارہے ہیں۔ لیکن جیسا کہ مَیں نے کہا جب ایمان مفقود ہو جائے تو پھر سب جذبات اور احساسات مٹ جاتے ہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا خوف ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کا خوف ختم ہو جائے تو پھر اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کس بندے کا خدا تعالیٰ کی نظر میں یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں کیا مقام ہے؟حضرت امام حسین ؓکی شہادت کس طرح ہوئی اور اس کے بعد آپ کی نعشِ مبارک سے کیا سلوک کیا گیا؟ یہ واقعہ سُن کر انسان اس یقین پر قائم ہو جاتا ہے کہ شاید ظاہر میں تو وہ لوگ کلمہ پڑھتے ہوں لیکن حقیقت میں انہیں خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین نہیں تھا… آپؐ نے تو کفار سے بھی عفو اور نرمی کا سلوک فرمایا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے اس پیارے رسول کے پیارے نواسے جس کے لئے آپؐ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا فرماتے تھے کہ اے اللہ! میں اس سے محبت کرتا ہوں تُو بھی اس سے محبت کرنا۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ جو میرے ان نواسوں سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرے گا اور جو مجھ سے محبت کرے گا وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے جنت میں جائے گا اور اسی طرح ناپسندیدگی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے گا۔

(ماخوذازالمستدرک للحاکم کتاب معرفۃ الصحابہ و من مناقب الحسن والحسین ابنی بنت رسول اللہﷺ حدیث: 4838)‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ دسمبر 2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل31؍دسمبر2010ءصفحہ6)

ہزاروں نادان یزید کے ساتھ ہو گئے۔اور اس امام معصومؓ کو ہاتھ اور زبان سے دکھ دیا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’اسلام میں بھی یہودی صفت لوگوں نے یہی طریق اختیار کیا اور اپنی غلط فہمی پر اصرار کر کے ہر ایک زمانے میں خدا کے مقدس لوگوں کو تکلیفیں دیں۔ دیکھو کیسے امام حسین رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر ہزاروں نادان یزید کے ساتھ ہو گئے۔ اور اس امام معصوم کو ہاتھ اور زبان سے دکھ دیا۔ آخر بجز قتل کے راضی نہ ہوئے اور پھر وقتاً فوقتاً ہمیشہ اس امت کے اماموں اور راستبازوں اور مجددوں کو ستاتے رہے اور کافر اور بےدین اور زندیق نام رکھتے رہے۔ ہزاروں صادق ان کے ہاتھ سے ستائے گئے اور نہ صرف یہ کہ ان کا نام کافر رکھا بلکہ جہاں تک بس چل سکا قتل کرنے اور ذلیل کرنے اور قید کرانے سے فرق نہیں کیا۔‘‘

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلدنمبر14صفحہ254تا255)

حضرت مسیح موعودؑکا محرم کے مہینے میں بچوں کو آپؓ کی شہادت کی کہانی سنانا

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں:

’’ایک دفعہ جب محرم کا مہینہ تھا اور حضرت مسیح موعودؑاپنے باغ میں ایک چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے آپؑ نے ہماری ہمشیرہ مبارکہ بیگم سلمہا اور ہمارے بھائی مبارک احمد مرحوم کو جو سب بہن بھائیوں میں چھوٹے تھے اپنے پاس بلایا اور فرمایا ’’آؤ میں تمہیں محرم کی کہانی سناؤں‘‘ پھر آپؑ نے بڑے دردناک انداز میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے واقعات سنائے۔ آپؑ یہ واقعات سناتے جاتے تھے اور آپؑ کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور آپؑ اپنی انگلیوں کے پوروں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے تھے۔اس دردناک کہانی کو ختم کرنے کے بعد آپؑ نے بڑے کرب کے ساتھ فرمایا:

’’یزید پلید نے یہ ظلم ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے پر کروایا۔ مگر خدا نے بھی ان ظالموں کو بہت جلد اپنے عذاب میں پکڑ لیا‘‘

اس وقت آپ پر عجیب کیفیت طاری تھی اور اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے جگر گوشہ کی المناک شہادت کے تصور سے آپؑ کا دل بہت بے چین ہو رہا تھا‘‘۔

(سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ۔ صفحہ31)

حضرت امام حسینؓ کا ایک مقصد تھا… آپ حق کو قائم کرنا چاہتے تھے اور وہ آپ نے کر دیا

محرم کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بیان فرماتے ہیں:

’’اللہ تعالیٰ کے بدلے لینے کے بھی اپنے طریقے ہیں جیسا کہ حضرت امام حسینؓ نے فرمایا تھا کہ خدا تعالیٰ میرا انتقام لے گا، اللہ تعالیٰ نے لیا۔ یزید کو عارضی کامیابی بظاہر حاصل ہوئی لیکن کیا آج کوئی یزید کو اس کی نیک نامی کی وجہ سے یاد رکھتا ہے؟ اگر نیک نامی کی وجہ سے جانا جاتا تو مسلمان اپنے نام بھی اس کے نام پر رکھتے لیکن آج کل کوئی اپنے بچے کا نام یزید نہیں رکھتا۔ وہ اگر جانا جاتا ہے تو اس نام سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے استعمال فرمایا کہ ’’یزید پلید‘‘۔حضرت امام حسینؓ کا ایک مقصد تھا۔ آپ حکومت نہیں چاہتے تھے۔ آپ حق کو قائم کرنا چاہتے تھے اور وہ آپ نے کر دیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اس کی بڑی اعلیٰ تشریح فرمائی ہے کہ وہ اصول جس کی تائید میں حضرت امام حسین کھڑے ہوئے تھے یعنی انتخابِ خلافت کا حق اہلِ ملک کو ہے، جماعت کو ہے۔ کوئی بیٹا اپنے باپ کے بعدبطور وراثت اس حق پر قابض نہیں ہو سکتا۔ فرمایا کہ یہ اصول آج بھی ویسا ہی مقدس ہے جیسا کہ پہلے تھا بلکہ حضرت امام حسین کی شہادت نے اس حق کو اور بھی نمایاں کر دیا ہے۔ پس کامیاب حضرت امام حسین ہوئے نہ کہ یزید۔

(ماخوذ از ’کامیابی‘۔ انوار العلوم جلد 10صفحہ 589) ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ دسمبر 2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل31؍دسمبر2010ءصفحہ6تا7)

حضرت امام حسینؓ نے پسند نہ کیا کہ فاسق فاجر کے ہاتھ پر بیعت کرے کیونکہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’حضرت حسنؓ نے میری دانست میں بہت اچھا کام کیاکہ خلافت سے الگ ہو گئے۔ پہلے ہی ہزاروں خون ہو چکے تھے۔ انہوں نے پسندنہ کیا کہ اَور خون ہوں اس لیے معاویہ سے گزارہ لے لیا۔ چونکہ حضرت حسنؓ کے اس فعل سے شیعہ پر زد ہوتی ہے اس لیے امام حسنؓ پر پورے راضی نہیں ہوئے۔ہم تو دونوں کے ثناخواں ہیں۔اصلی بات یہ ہے کہ ہرشخص کے جدا جدا قویٰ معلوم ہوتے ہیں۔ حضرت امام حسنؓ نے پسند نہ کیا کہ مسلمانوں میں خانہ جنگی بڑھے اور خون ہوں۔ انہوں نے امن پسندی کو مدّ نظر رکھا اور حضرت امام حسینؓ نے پسند نہ کیا کہ فاسق فاجر کے ہاتھ پر بیعت کروں کیونکہ اس سے دین میں خرابی ہوتی ہے۔ دونو ں کی نیت نیک تھی۔

اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔

یہ الگ امر ہے کہ یزید کے ہاتھ سے بھی اسلامی ترقی ہوئی۔ یہ خدا تعالیٰ کافضل ہے۔ وہ چاہے تو فاسق کے ہاتھ سے بھی ترقی ہو جاتی ہے۔ یزید کا بیٹا نیک بخت تھا۔‘‘

(ملفوظات جلد 4صفحہ579تا580،ایڈیشن 1988ء)

حضرت مسیح موعود ؑکا حضرت علیؓ اور آپ کے دونوں بیٹوں سے محبت و عقیدت کا اظہار

فرمایا: ’’مجھے علیؓ اور حسینؓ سے ایک لطیف مشابہت ہے اور اس بھید کو مشرق اور مغرب کے ربّ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور یقینا ًمَیں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کے دونوں بیٹوں سے محبت رکھتا ہوں اور اُس سے دشمنی کرتا ہوں جو ان دونوں سے دشمنی رکھتا ہے۔‘‘

(سرالخلافۃ،روحانی خزائن جلد 8صفحہ 359)

حضرت امام حسینؓ کے بارے میں حد سے زیادہ غلو کرنے پر اظہار ناپسندیدگی

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’ہمارا ایمان ہے کہ بزرگوں اور اہل اللہ کی تعظیم کرنی چاہئے لیکن حفظِ مراتب بڑی ضروری شیٔ ہے۔ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ حد سے گزر کر خود ہی گناہگار ہو جائیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا دوسرے نبیوں کی ہتک ہو جائے۔ وہ شخص جو کہتا ہے کہ کُل انبیاء علیھم السلام حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی امام حسینؓ کی شفاعت سے نجات پائیں گے۔ اُس نے کیسا غلو کیا ہے جس سے سب نبیوں کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہوتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3صفحہ268تا269حاشیہ،ایڈیشن 1988ء)

حضرت مسیح موعودؑ نے حضرت علیؓ یا امام حسینؓ کے درجہ کو بہت بڑھا نے والوں کو اُن کی پرستش کرنے کے مترادف قرار دیاہے۔ فرمایا:

’’اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ انبیاء علیہم السلام اور ایسا ہی اَور جو خدا تعالیٰ کے راستباز اور صادق بندے ہوتے ہیں وہ دنیا میں ایک نمونہ ہو کر آتے ہیں۔ جو شخص اس نمونہ کے موافق چلنے کی کوشش نہیں کرتا لیکن اُن کو سجدہ کرنے اور حاجت روا ماننے کو تیار ہو جاتا ہے۔وہ کبھی خدا تعالیٰ کے نزدیک قابلِ قدر نہیں ہے بلکہ وہ دیکھ لے گا کہ مرنے کے بعد وہ امام اُس سے بیزار ہو گا۔ ایسا ہی جو لوگ حضرت علیؓ یا حضرت امام حسینؓ کے درجہ کو بہت بڑھاتے ہیں گویا اُن کی پرستش کرتے ہیں وہ امام حسین کے متّبعین میں نہیں ہیں اور اس سے امام حسینؓ خوش نہیں ہو سکتے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ535،ایڈیشن 1988ء)

حضرت امام حسینؓ سردارانِ بہشت میںسےاورطاہر ومطہّرتھے جبکہ یزید ناپاک طبع، دنیا کا کیڑا اور ظالم تھا

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:

’’ کسی شخص کے کارڈ کے ذریعہ سے مجھے اطلاع ملی ہے کہ بعض نادان آدمی جو اپنے تئیں میری جماعت کی طرف منسوب کرتے ہیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت یہ کلمات منہ پر لاتے ہیں کہ نعوذ باللہ حسین بوجہ اس کے کہ اُس نے خلیفۂوقت یعنی یزید سے بیعت نہیں کی، باغی تھا اور یزید حق پر تھا۔

لَعْنَتُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْن۔

مجھے امیدنہیں کہ میری جماعت کے کسی راستباز کے منہ سے ایسے خبیث الفاظ نکلے ہوں۔ مگر ساتھ اس کے مجھے یہ بھی دل میں خیال گزرتا ہے کہ چونکہ اکثر شیعہ نے اپنے وِرد تبرّے اور لعن طعن میں مجھے بھی شریک کر لیا ہے۔اس لئے کچھ تعجب نہیں کہ کسی نادان بے تمیز نے سفیہانہ بات کے جواب میں سفیہانہ بات کہہ دی ہو۔ جیسا کہ بعض جاہل مسلمان کسی عیسائی کی بدزبانی کے مقابل پر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کرتا ہے، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کچھ سخت الفاظ کہہ دیتے ہیں۔ بہر حال مَیں اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنی جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ یزید ایک ناپاک طبع، دنیا کا کیڑا اور ظالم تھا۔ اور جن معنوں کی رُو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے، وہ معنی اُس میں موجودنہ تھے۔ مومن بننا کوئی امر سہل نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخصوں کی نسبت فرماتا ہے۔

قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا۔ قُلْ لَّمْ تُوْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْآ اَسْلَمْنَا (الحجرات: 15)

مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اُس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں اور تقویٰ کی باریک اور تنگ راہوں کو خدا کے لئے اختیار کرتے اور اُس کی محبت میں محو ہو جاتے ہیں اور ہر ایک چیز جو بُت کی طرح خدا سے روکتی ہے خواہ وہ اخلاقی حالت ہو یا اعمالِ فاسقانہ ہوں یا غفلت اور کَسْل ہو، سب سے اپنے تئیں دُور تر لے جاتے ہیں۔ لیکن بدنصیب یزید کو یہ باتیں کہاں حاصل تھیں۔ دنیا کی محبت نے اُس کو اندھا کر دیا تھا۔ مگر حسین رضی اللہ عنہ طاہر مطہّر تھا اور بلا شبہ وہ اُن برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا اور اپنی محبت سے معمور کر دیتا ہے اور بلاشبہ وہ سردارانِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرّہ کینہ رکھنا اُس سے موجب سلبِ ایمان ہے اور اس امام کی تقویٰ اور محبت الٰہی اور صبر اور استقامت اور زُہد اور عبادت ہمارے لئے اُسوۂ حسنہ ہے۔ اور ہم اُس معصوم کی ہدایت کے اقتدا کرنے والے ہیں جو اُس کو ملی تھی۔ تباہ ہو گیا وہ دل جو اُس کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اُس کی محبت ظاہر کرتا ہے۔ اور اُس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقویٰ اور استقامت اور محبت الٰہی کے تمام نقوش انعکاسی طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ میں ایک خوبصورت انسان کا نقش۔ یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں۔ کون جانتا ہے اُن کا قدر مگر وہی جو اُن میں سے ہیں۔ اس دنیا کی آنکھ اُن کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دُور ہیں۔ یہی وجہ حسینؓ کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا۔ دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اُس کے زمانہ میں محبت کی تا حسینؓ سے بھی محبت کی جاتی۔ غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین رضی اللہ عنہ کی تحقیر کی جائے۔ اور جو شخص حسینؓ یا کسی اور بزرگ کی جو ائمہ مطہّرین میں سے ہے، تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف کا اُس کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ جلّ شانہٗ اُس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اُس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 544 تا 546 اشتہار نمبر 263)

حضرت امام حسینؓ اور امام حسنؓ خدا کے برگزیدہ، صاحبِ کمال، صاحبِ عفّت و عصمت اور ائمۃ الہدیٰ تھے

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام حضرت امام حسینؓ کی تعریف میں فرماتے ہیں:

’’خدا کے پیاروں اور مقبولوں کے لئے روحانی آل کا لقب نہایت موزوں ہے۔اور وہ روحانی آل اپنے روحانی نانا سے وہ روحانی وراثت پاتے ہیں جس کو کسی غاصب کا ہاتھ غصب نہیں کر سکتا اور وہ اُن باغوں کے وارث ٹھہرتے ہیں جن پر کوئی دوسرا قبضہ ناجائز کر ہی نہیں سکتا…حضرت امام حسین اور امام حسن رضی اللہ عنہما خدا کے برگزیدہ اور صاحبِ کمال اور صاحبِ عفّت اور عصمت اور ائمۃ الہدیٰ تھے۔اور وہ بلاشبہ دونوں معنوں کے رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آل تھے… سو اہلِ معرفت اور حقیقت کا یہ مذہب ہے کہ اگر حضرت امام حسین اور امام حسن رضی اللہ عنہما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سفلی رشتہ کے لحاظ سے آل بھی نہ ہوتے تب بھی بوجہ اِس کے کہ وہ روحانی رشتہ کے لحاظ سے آسمان پر آل ٹھہر گئے تھے وہ بلا شبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی مال کے وارث ہوتے۔ جبکہ فانی جسم کا ایک رشتہ ہوتا ہے تو کیا روح کا کوئی بھی رشتہ نہیں؟ بلکہ حدیث صحیح سے اور خود قرآنِ شریف سے بھی ثابت ہے کہ روحوں میں بھی رشتے ہوتے ہیں اور ازل سے دوستی اور دشمنی بھی ہوتی ہے۔ اب ایک عقلمند انسان سوچ سکتا ہے کہ کیا لازوال اور ابدی طور پر آلِ رسول ہونا جائے فخر ہے یا جسمانی طور پر آلِ رسول ہونا جو بغیر تقویٰ اور طہارت اور ایمان کے کچھ بھی چیز نہیں۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم اہلِ بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسرِ شان کرتے ہیں۔ بلکہ اس تحریر سے ہمارا مُدّعا یہ ہے کہ امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما کی شان کے لائق صرف جسمانی طور پر آلِ رسول ہونانہیں کیونکہ وہ بغیر روحانی تعلق کے ہیچ ہے۔اور حقیقی تعلق اُن ہی عزیزوں کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے جو روحانی طور پر اُس کی آل میں داخل ہیں۔ رسولوں کے معارف اور انوار روحانی رسولوں کے لئے بجائے اولاد ہیں جو اُن کے پاک وجود سے پیدا ہوتے ہیں اور جو لوگ اُن معارف اور انوار سے نئی زندگی حاصل کرتے ہیں اور ایک پیدائشِ جدید اُن انوار کے ذریعہ سے پاتے ہیں وہی ہیں جو روحانی طور پر آل محمدؐ کہلاتے ہیں۔‘‘

(تریاق القلوب،روحانی خزائن جلد 15صفحہ 364تا366حاشیہ)

یزید کے مرنے کے بعد اس کے بیٹے معاویہ کا خلیفہ بننےسے انکار کرنے کے ساتھ ساتھ سچ اور حقیقت کا اعلان کرنا

ایک خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ ان واقعات کی حقیقت اورصداقت کو اس طرح بیان فرماتے ہیں:

’’قدرت کا ایک اور طریقے سے انتقام دیکھیں کہ کیسا بھیانک انتقام ہے۔ اس کے بارے میں بھی حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی کتاب ‘خلافتِ راشدہ’ میں ایک واقعہ کا ذکر کیا کہ تاریخ میں لکھا ہے کہ یزید کے مرنے کے بعد جب اس کا بیٹا تخت نشین ہوا، جس کا نام بھی اپنے دادا کے نام پر معاویہ ہی تھا تو لوگوں سے بیعت لینے کے بعد وہ اپنے گھر چلا گیا اور چالیس دن تک باہر نہیں نکلا۔ پھر ایک دن وہ باہر آیا اور منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں سے کہنے لگا کہ میں نے تم سے اپنے ہاتھ پر بیعت لی ہے مگر اس لئے نہیں کہ مَیں اپنے آپ کو تم سے بیعت لینے کا اہل سمجھتا ہوں بلکہ اس لئے کہ مَیں چاہتا تھا کہ تم میں تفرقہ پیدا نہ ہو اور اس وقت سے لے کر اب تک مَیں گھر میں یہی سوچتا رہا کہ اگر تم میں کوئی شخص لوگوں سے بیعت لینے کا اہل ہو تو مَیں یہ اَمارت اس کے سپرد کر دوں اور خود بری الذمہ ہو جاؤں مگر باوجود غور کرنے کے مجھے تم میں سے کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آیا۔ اس لئے اے لوگو! یہ اچھی طرح سُن لو کہ میں اس منصب کا اہل نہیں ہوں اور مَیں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میرا باپ اور میرا دادا بھی اس منصب کے اہل نہیں تھے۔ میرا باپ حسینؓ سے درجہ میں بہت کم تھا اور اُس کا باپ حسنؓ حسینؓ کے باپ سے کم درجہ رکھتا تھا۔ علیؓ اپنے وقت میں خلافت کا زیادہ حق دار تھا اور اس کے بعد بہ نسبت میرے دادا اور باپ کے حسن اور حسین خلافت کے زیادہ حقدار تھے۔ اس لئے میں اس امارت سے سبکدوش ہوتا ہوں۔

(خلافت راشدہ، انوار العلوم جلد 15 صفحہ 557-558)

… اس کی ماں پردے کے پیچھے اس کی تقریر سن رہی تھی۔ جب اس نے اپنے بیٹے کے یہ الفاظ سنے تو بڑے غصے سے کہنے لگی کہ کمبخت تو نے اپنے خاندان کی ناک کاٹ دی ہے اور اس کی تمام عزت خاک میں ملا دی ہے۔ وہ کہنے لگا جو سچی بات تھی وہ میں نے کہہ دی ہے، اب آپ کی جو مرضی ہو مجھے کہیں۔ چنانچہ اس کے بعد وہ اپنے گھر گیا۔ گھر میں ہی بیٹھا رہا۔ وہاں سے باہر نہیں نکلا اور چند دن گزرنے کے بعد ہی اس کی وفات ہو گئی۔ تو یہ اس بات کی کتنی زبردست شہادت ہے کہ یزید کی خلافت پر دوسرے لوگوں کی رضا تو الگ رہی، خود اس کا اپنا بیٹا بھی متفق نہ تھا۔ یہ نہیں کہ بیٹے نے کسی لالچ کی وجہ سے ایسا کیا ہو۔ یہ بھی نہیں کہ اس نے کسی مخالفت کے ڈر سے ایسا کیا ہو۔ بلکہ اُس نے اپنے دل میں سنجیدگی کے ساتھ غور اور فکر کرنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ میرے دادا سے علیؓ کا حق زیادہ تھا اور میرے باپ سے حسنؓ اور حسینؓ کا حق زیادہ تھا اور مَیں اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ پس معاویہ کا یزید کو مقرر کرنا کوئی انتخاب نہیں کہلا سکتا۔ کسی کی ذلت کا اس سے بڑا اور کیاسامان ہوسکتاہے کہ اولاد خود اپنے باپ کی حقیقت ظاہر کر کے اسے کمتر ثابت کر رہی ہو۔ پس حضرت امام حسین کی قربانی ہمیں بہت سے سبق دیتی ہے۔ آپ نے حق کے سامنے کھڑے ہو کر دنیا میں حق پھیلا دیا۔ اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے حق کو قائم فرما دیا۔ ہمیں بھی دعاؤں کے ذریعے سے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہنا چاہئے کہ وہ ہمیں ہمیشہ صراطِ مستقیم پر چلائے رکھے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ دسمبر 2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل31؍دسمبر2010ءصفحہ7)

محرم کےمہینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ ؐکی آل پر دُرود بھیجنے کا سبق

ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ نےمحرم کے مہینہ میں آنحضرتﷺپر دُرود بھیجنے کی طرف توجہ دلائی اورفرمایا:

’’محرم کا مہینہ ہمیں کوئی سبق دیتا ہے تو یہ ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی آل پر ہمیشہ درود بھیجتے رہیں۔ زمانے کے امام کے مقاصد کے حصول میں درود، دعاؤں اور اپنی حالتوں میں پاک تبدیلی پیدا کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔ اور یزیدی صفت لوگوں کے سامنے استقامت دکھاتے ہوئے ہمیشہ ڈٹے رہیں۔ یقینا ًاس مرتبہ یزید کامیاب نہیں ہو گا، بلکہ حسینی ہی کامیاب ہوں گے۔ استقامت کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ کی مدد سے ہی ملتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی مدد کے لئے اللہ تعالیٰ نے دعا اور صبر کا ارشاد فرمایا ہے۔ صبر صرف ظلم کو برداشت کرنا ہی نہیں ہے۔جو ہو جائے اس پر خاموش بیٹھے رہنا نہیں ہے۔ بلکہ مستقل مزاجی کے ساتھ نیک کام کو جاری رکھنا اور کسی بھی خوف اور خطرے سے بے پرواہ ہو کر حق کا اظہار کرتے چلے جانا، یہ بھی صبر ہے۔ پس حضرت امام حسین نے جو حق کے اظہار کے نمونے ہمارے سامنے قائم فرمائے ہیں اسے ہمیں ہر وقت پکڑے رہنا چاہئے۔ اور اگر ہم اس پر قائم رہے تو ہم اس فتح اور کامیابی کا حصہ بنیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ مقدر ہے۔ انشاء اللہ… اس مہینے میں درود بہت پڑھیں۔ یہ جذبات کاسب سے بہترین اظہار ہے جو کربلا کے واقعہ پر ہو سکتا ہے، جو ظلموں کو ختم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی مدد چاہنے کے لئے ہو سکتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجا گیا یہ درود آپ کی جسمانی اور روحانی اولاد کی تسکین کا باعث بھی بنتا ہے۔ ترقیات کے نظارے بھی ہمیں نظر آتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیاروں سے پیار کا بھی یہ ایک بہترین اظہار ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍دسمبر 2010ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل31؍دسمبر2010ءصفحہ6)

حضور اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس مہینے میں چند دُعائیں پڑھنےاور روحانی آل میں شامل ہونےکی تلقین کی اور فرمایا:

’’ان دنوں میں یعنی محرم کے مہینہ میں خاص طور پر جہاں اپنے لئے صبر و استقامت کی ہر احمدی دعا کرے، وہاں دشمن کے شر سے بچنے کے لئے

رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ

کی دعا بھی بہت پڑھیں۔ پہلے بھی بتایا تھا کہ ہمیں یہ دعا محفوظ رہنے کے لئے پڑھنے کی بہت ضرورت ہے۔

اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ

کی دعا بھی بہت پڑھیں۔ درود شریف پڑھنے کے لئے میں نے گذشتہ جمعہ میں بھی کہا تھا پہلے بھی کہتا رہتا ہوں کہ اس طرف بہت توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو اپنی حفاظت میں رکھے… ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی آل میں شامل فرمائے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اصل مقام روحانی آل کا ہے۔ اگر جسمانی رشتہ بھی قائم رہے تو یہ تو ایک انعام ہے۔ لیکن اگر جسمانی آل تو ہو لیکن روحانی آل کا مقام حاصل کرنے کی یہ جسمانی آل اولاد کوشش نہ کرے تو کبھی اُن برکات سے فیضیاب نہیں ہو سکتی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے منسلک ہونے سے اللہ تعالیٰ نے دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 23؍ نومبر 2012ءمطبوعہ الفضل انٹر نیشنل14؍دسمبر2012ء صفحہ8)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button