متفرق مضامین

باہم لین دین کی بابت اسلامی تعلیمات (قسط اوّل)

(رحمت اللہ بندیشہ۔ استاد جامعہ احمدیہ جرمنی)

اسلام ایک ایسا کامل اور آفاقی دین ہےجو نہ صرف انسان کو اُس کے خالق، ر بِّ کائنات سے ملاتا ہے بلکہ انسانوں کے آپس کے تعلقات کو بہتر سے بہترین بنانے کے لیے وہ اصول وضوابط اور تعلیمات عطا فرماتا ہے جن پر عمل کرنے سے ہر معاشرہ ترقی کرتے ہوئے ایک جنت نظیر معاشرہ بن سکتا ہے۔ زندگی کے ایّام ہوںیا موت کا وقت، شادی ہو، یا غمی، صلح و امن کے ایّام ہو ںیا وقت ِجنگ، اخلاق فاضلہ کا میدان ہو، یا عبادات کا۔ الغرض انسانی زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جس کے لیے اسلامی شریعت میں صحیح اور موزوں اور بہترین احکام موجود نہ ہوں۔

ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اسلام تبتّل اور رہبانیت کی ہرگز اجازت نہیں دیتا بلکہ دنیاوی کاموں میں مصروفیت کے باوجود خدا کو یاد رکھنے کا پابند بناتا ہے۔ درحقیقت انسان کے اندرونی تقویٰ کے امتحان کا ذریعہ ہی یہی ہے کہ دیکھا جائے کہ وہ اپنے معاملات میں کیسا ہے۔ اِس کا برتاؤ بنی نوع انسان کے ساتھ کیسا ہے؟اور وہ کس طرح پاکیزگی اور خدا ترسی سے دوسروں کے حقوق ادا کرتا ہے۔

قرآن مجید نے جن تمدنی احکام پر خاص طور پر زور دیا ہے، اور اسے نیکی اور تقویٰ کا مدار قرار دیا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ تجارتی معاملات اور لین دین میں پاکیزگی اور دیانتداری اور صحیح طریق اختیار کیا جائے۔ اسی طرح ناجائز نفع، ماپ تول میں کمی وبیشی، ذخیرہ اندوزی، غلط بیانی اور دھوکے بازی کو قرآن مجید نے نہ صرف حرام قرار دیا ہے بلکہ ان امور کو باہمی تجارت و اعتماد کے لیے تباہ کن قرار دیا ہے، اور بنی نوع انسان پر انتہائی ظلم قرار دیا ہے۔ اِن قرآنی احکامات کی احادیث نبویہﷺ، حضرت امام مہدی اور آپ کے خلفائے کرام کے فرمودات کی روشنی میں کچھ وضاحت کرنا اس وقت مقصود ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَ اِیۡتَآءِ الزَّکٰوۃِ ۪ۙ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَ الۡاَبۡصَارُ۔ لِیَجۡزِیَہُمُ اللّٰہُ اَحۡسَنَ مَا عَمِلُوۡا وَ یَزِیۡدَہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ یَرۡزُقُ مَنۡ یَّشَآءُ بِغَیۡرِ حِسَابٍ۔

ترجمہ:اىسے عظىم مرد جنہىں نہ کوئى تجارت اور نہ کوئى خرىد وفروخت اللہ کے ذکر سے ىا نماز کے قىام سے ىا زکوٰۃ کى ادائىگى سے غافل کرتى ہے۔ وہ اس دن سے ڈرتے ہىں جس مىں دل (خوف سے) الٹ پلٹ ہو رہے ہوں گے اور آنکھىں بھى۔ تا کہ اللہ اُنہىں اُن کے بہترىن اعمال کے مطابق جزا دے جو وہ کرتے رہے ہىں اور اپنے فضل سے اُنہىں مزىد بھى دے اور اللہ جسے چاہتا ہے بغىر حساب کے رزق دىتا ہے

(النور:38تا39)

تجارتی امور میں پاکیزگی اور دیانتداری کو اتنی اہمیت حاصل ہے کہ قرآن مجید کے بیان کے مطابق اللہ تعالیٰ نے توحید کے قیام کے ساتھ ساتھ تجارتی امورمیں اصلاح کے لیے ایک عظیم الشان نبی حضرت شعیب علیہ السلام کو مدین میں مبعوث فرمایا تھا۔ آپ علیہ السلام اپنی قوم کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں کہ

اَوۡفُوا الۡکَیۡلَ وَ لَا تَکُوۡنُوۡا مِنَ الۡمُخۡسِرِیۡنَ۔ وَ زِنُوۡا بِالۡقِسۡطَاسِ الۡمُسۡتَقِیۡمِ۔ وَ لَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡیَآءَہُمۡ وَ لَا تَعۡثَوۡا فِی الۡاَرۡضِ مُفۡسِدِیۡنَ۔ وَ اتَّقُوا الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ وَ الۡجِبِلَّۃَ الۡاَوَّلِیۡنَ۔

پورا پورا ماپ تولو اور ان مىں سے نہ بنو جو کم کرکے دىتے ہىں۔ اور سىدھى ڈنڈى سے تولا کرو۔ اور لوگوں کے مال ان کو کم کر کے نہ دىا کرو اور زمىن مىں فسادى بن کر بدامنى نہ پھىلاتے پھرو۔ اور اس سے ڈرو جس نے تمہىں پىدا کىا اور پہلى خَلقت کو بھى۔

(الشعراء:182-185)

قرآن مجید میں یہ ذکر محض تاریخی واقعہ کے طور پر بیان نہیں ہوا کیونکہ قرآن مجید تاریخ کی کتا ب نہیں ہے۔ بلکہ یہ سارا بیان مسلمانوں کے لیے عبرت اور موعظت ہے اور اس میں انہیں سبق دیا گیا ہے کہ تجارتی بددیانتی قوموں کو برباد کردیتی ہے۔

چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاس بابت فرماتے ہیں کہ

’’اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاں بھی حضرت شعیبؑ کی قوم کا ذکر کیا ہے ان کویہ نصیحت فرمائی کہ ماپ تول پورا دیا کرو۔ کم تولنے کے لئے ڈنڈی مارنے کے طریقے اختیار نہ کرو کیونکہ تمہاری یہ بدنیتی ملک میں فساد اور بدامنی پھیلانے کا باعث بنے گی…اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’اور کسی طور سے لوگوں کو ان کے مال کا نقصان نہ پہنچاؤ اور فساد کی نیت سے زمین پر مت پھرا کرو۔ یعنی اس نیت سے کہ چوری کریں یا ڈاکہ ماریں یا کسی کی جیب کتریں یا کسی اور ناجائز طریق سے بیگانہ مال پر قبضہ کریں۔ ‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10صفحہ347)

تو یہ ماپ تول پورا نہ کرنا یا ڈنڈی مارنا، دیتے ہوئے مال تھوڑا تول کر دینا اور لیتے ہوئے زیادہ لینے کی کوشش کرنا یہ تمام باتیں چوری اور ڈاکے کے برابر ہیں۔ اس لئے کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ کوئی بات نہیں تھوڑاسا کاروباری دھوکا ہے کوئی ایسا بڑا گناہ نہیں۔ بڑے واضح طور پر فرمایاگیا ہے کہ خبردار رہو، سن لو کہ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔

پھر بعض لوگ دوسرے کے مال پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ کوئی بات نہیں اس کو تو پتہ نہیں چل رہا کہ فلاں چیز کی کیاقدر ہے، اس کو دھوکے سے بیوقوف بنا لو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کچھ اپنی جیب میں ڈال لو، کچھ اصل مالک کو دے دو۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ بات، یہ عمل بھی اسی زمرے میں آتے ہیں، جو فساد پیدا کرنے والے عمل ہیں۔ اس قسم کے لوگ جو اس طرح کا مال کھانے والے ہوتے ہیں یہ لوگ دوسروں کے مال کھا کر آپس میں لڑائی جھگڑوں اور فساد کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔ دوسرے فریق کو جب پتہ چلتا ہے کہ اس طرح میرا مال کھایا گیا تو ان کے خلاف کارروائی کرتا ہے اور اس طرح آپس کے تعلقات میں دراڑیں پڑتی ہیں۔ تعلقات خراب ہوتے ہیں، مقدمے بازیاں ہوتی ہیں۔ دشمنیاں پیدا ہوتی ہیں اور بڑھتی ہیں۔ لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔ اور اگر دوسرا فریق صبر کرنے والا ہو، حوصلہ دکھانے والا ہو تو پھر تو بچت ہو جاتی ہے ورنہ جیسا کہ مَیں نے بیان کیا یہ لڑائی جھگڑے، فساد، فتنہ یہی صورتحال سامنے آتی ہے۔ اور روزمرہ ہم ان باتوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ پھر لوگوں کا مال کھانے والا، کم تول کرنے والا اس حرام مال کی وجہ سے جو وہ کھا رہا ہوتا ہے طبعاً فسادی اور فتنہ پرداز بن جاتا ہے۔ دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنے والا نہیں ہوتا۔ نیکی اور امن کی بات کی اس سے توقع نہیں کی جاسکتی۔ اس کی ہر بات اور ہر کام میں سے برکت اٹھ جاتی ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ18؍ نومبر 2005ء مطبوعہ خطبات مسرور جلد سوم صفحہ 671تا673)

ایسے لوگوں کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

دنیا کی حرص و آز میں کیا کچھ نہ کرتے ہیں

نقصاں جو ایک پیسہ کا دیکھیں تو مرتے ہیں

زر سے پیار کرتے ہیں اور دل لگاتے ہیں

ہوتے ہیں زر کے ایسے کہ بس مر ہی جاتے ہیں

(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2صفحہ 137)

یاد رہے کہ قرآن کریم نے متعدد بار ماپ تول کو درست کرنے کی طرف توجہ دلائی اور توجہ نہ کرنے والوں کو انذار فرمایا۔

وَ اَوۡفُوا الۡکَیۡلَ اِذَا کِلۡتُمۡ وَ زِنُوۡا بِالۡقِسۡطَاسِ الۡمُسۡتَقِیۡمِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ وَّ اَحۡسَنُ تَاۡوِیۡلًا (سورۃبنی اسرائیل:36)

اور جب تم ماپ کرو تو پورا ماپ کرو اور سىدھى ڈنڈى سے تولو ىہ بات بہت بہتر اور انجام کار سب سے اچھى ہے۔

وَیۡلٌ لِّلۡمُطَفِّفِیۡنَ ۙ۔ الَّذِیۡنَ اِذَا اکۡتَالُوۡا عَلَی النَّاسِ یَسۡتَوۡفُوۡنَ۔ وَ اِذَا کَالُوۡہُمۡ اَوۡ وَّزَنُوۡہُمۡ یُخۡسِرُوۡنَ۔ اَلَا یَظُنُّ اُولٰٓئِکَ اَنَّہُمۡ مَّبۡعُوۡثُوۡنَ۔ لِیَوۡمٍ عَظِیۡمٍ۔ یَّوۡمَ یَقُوۡمُ النَّاسُ لِرَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ (المطففين 2-7)

ترجمہ : ہلاکت ہے تول مىں ناانصافى کرنے والوں کے لئے۔ ىعنى وہ لوگ کہ جب وہ لوگوں سے تول لىتے ہىں بھرپور (پىمانوں کے ساتھ) لىتے ہىں۔ اور جب اُن کو ماپ کر ىا تول کر دىتے ہىں تو کم دىتے ہىں۔ کىا ىہ لوگ ىقىن نہىں کرتے کہ وہ ضرور اٹھائے جائىں گے۔ اىک بہت بڑے دن (پىش ہونے) کے لئے۔ جس دن لوگ تمام جہانوں کے ربّ کے حضور کھڑے ہوں گے۔

گویا ایسے لوگوں کی حالت حضرت مسیح موعود ؑکے اِس شعر سے یوں عیاں ہوتی ہے کہ

دل میں مگر یہی ہے کہ مرنا نہیں کبھی

ترک اس عیال و قوم کو کرنا نہیں کبھی

(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2صفحہ 138)

بہترین ذریعہ معاش

انسانی ذرائع معاش میں سے حضورﷺ نے بہترین ذریعہ معاش تجارت کو قرار دیا ہے۔ چنانچہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ سے کسی نے پوچھا کون سا ذریعہ معاش بہتر ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:

’’ہاتھ کی محنت، دستکاری اور صاف ستھری تجارت بہترین ذریعہ معاش ہیں۔ ‘‘

(مسند احمد بن حنبل جلد 4صفحہ 141نسخہ یمنیہ)

لیکن اِسی تجارت میں چونکہ لین دین کا معاملہ بھی ہوا کرتا ہے، اس لیے اس ضمن میں آپﷺ کی نہایت زرّیں تفصیل سے ہدایات ملتی ہیں جن سے نہ صرف آپس میں اعتماد بڑھتا ہے، بلکہ حصولِ برکت کا باعث بھی ہوتا ہے۔ ایک ایسے ہی موقع پر آپﷺ نے مسلمان تاجروں کو یہ انتہائی پیاری نصیحت فرمائی ہے کہ

زِنْ وَأَرْجِح

جب تم وزن کیا کرو تو(خریدار کو ) زیادہ دیا کرو

(ترمذی، ابواب البیوع، بَابُ مَا جَاءَ فِي الرُّجْحَانِ فِي الوَزْنِ)

جبکہ دوسری حدیث میں ایک موقع پر یہ فرمایا :

إِذَا وَزَنْتُمْ فَأَرْجِحُوا

جب تم(خریدار کے لیے) وزن کرو تو زیادہ کرو

(ابن ماجہ، کتاب التجارات، بَابُ الرُّجْحَانِ فِي الْوَزْنِ)

اور دوران تجارت باہم خرید وفروخت میں اعتماد پیدا کرنے کی بابت احادیث میں ایک واقعہ کچھ اس طرح ملتا ہے کہ

حضرت قیلہ ام بنی انمارؓ بیان کرتی ہیں کہ میں حضرت رسول اللہﷺکی خدمت میں ایک عمرہ کے دوران ’’مَروہ‘‘مقام کے قریب حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہﷺ! میں ایک عورت ہوں جو خرید و فروخت کیاکرتی ہوں جب میں کوئی چیز خریدنا چاہتی ہوں اس کی قیمت لگاتی ہوں اس سے کم جتنے میں لینا چاہتی ہوں۔ پھر میں بڑھاتی ہوں یہاں تک کہ اس (قیمت تک)پہنچ جاتی ہوں جو میرا ارادہ ہوتا ہے اور جب میں کوئی چیز بیچنا چاہتی ہوں تو میں اس کی اس سے زیادہ قیمت لگاتی ہوں جو میرا ارادہ ہوتا ہے پھر میں کم کرتی ہوں یہاں تک کہ وہاں پہنچ جاتی ہوں جہاں میرا ارادہ بیچنے کا ہوتا ہے۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا قَیلہؓ! ایسا نہ کرو، جب تم کچھ خریدناچاہوتو اس کی قیمت لگاؤ جو تم چاہتی ہو خواہ تمہیں دیا جائے یا نہ دیا جائے اور فرمایا جب تم کوئی چیز بیچنا چاہو تو وہ قیمت بتاؤ جو تمہارا ارادہ ہے خواہ تم دویا نہ دو۔

(ابن ماجہ ابواب التجارات بَابُ السَّوْمِ)

مالی معاملات میں صفائی اورمعاہدات کی پابندی

مالی معاملات میں صفائی اور معاہدات کی پابندی بھی انتہائی ضروری ہے۔ اس ضمن میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

’’ایک اَور اہم بات معاملات کی صفائی ہے اگر یہ سمجھ لیا جائے کہ جس طرح ہمیں تکلیف ہوتی ہے اسی طرح اس کو بھی ہوتی ہے جس کا روپیہ دینا ہوتا ہے تو پھر لین دین کے معاملات میں اتنی مشکلات نہ رونماہوں …شریعت نے معاہدات کی پابندی نہایت ضروری قرار دی ہے۔

دوسری بات یہ ضروری ہے کہ مال میں خواہ ذرا سا بھی نقص ہو، تاجر کو چاہئے کہ خریدار کو بتا دے تاکہ بعد میں کوئی جھگڑا نہ پیدا ہو۔ اس طرح نقصان نہیں ہوتا بلکہ فائدہ ہی رہتا ہے۔ ‘‘

(انوار العلوم جلد 12صفحہ 601-602)

اسی طرح احادیث میں بھی امانت دارانہ تجارت کا انتہائی اعلیٰ مقام اور بددیانتی پر مبنی تجارت کرنے والوں کے لیے شدید ناراضگی کا بیان ہوا ہے۔ چنانچہ حضورﷺ نے فرمایا کہ

التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الأَمِيْنُ مَعَ النَّبِيِّيْنَ، وَالصِّدِّيْقِيْنَ، وَالشُّهَدَاءِ

یعنی جوتاجر تجارت کے اندر سچائی اور امانت کو اختیار کرے گا، تو وہ قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔

(سنن الترمذي، أبواب البیوع، بَابُ مَا جَاءَ فِي التُّجَّارِ وَتَسْمِيَةِ النَّبِيِّ ﷺ إِيَّاهُمْ)

جبکہ بددیانت تاجروں کے انذار کے بارے میں حضورﷺ نے فرمایا کہ

التُّجَّارُ يُحْشَرُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فُجَّاراً، إِلاَّ مَنِ اتَّقَى اللّٰهَ وَبَرَّ وَصَدَقَ

تاجروں کا حشر بروز قیامت فجار میں سے ہوگا، سوائے ان کے جنہوں نے اللہ کا تقویٰ اختیار کیا، اور نیکی کا راستہ اپنایا اور صدق کو اپنا شعار بنایا۔

(مسند الإمام الدارمي۔ ومن كتاب السير۔ 968-باب فِي التُّجَّارِ)

اسی طرح فرمایا کہ

فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا، وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَبَا مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا

خرید نے اور بیچنے والے اگر سچائی سے کام لیں اور معاملے کو واضح کر دیں تو ان کی خرید وفروخت میں بر کت دی جاتی ہے، اور اگر دونوں کوئی بات چھپالیں اور جھوٹ بولیں تو ان کے کا روبارسے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔

(صحیح بخاری، کتاب البیوع باب البَيِّعَانِ بِالخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا)

اسی طرح ایک روایت میں لکھا ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ ایسے شخص سے نہ بات کرے گا، نہ اس کی طرف توجہ کرے گا اور نہ اس کو پاک صاف کرکے جنت میں داخل کرے گا جو جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اپنے کا روبار کو فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے، چنانچہ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ

تین آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ ان سے کلام کرے گا، نہ ہی ان کی طرف نظر (کرم) فرمائے گا، نیز ان کے لئے درد ناک عذاب ہو گا۔ راوی کہتے ہیں کہ آپﷺ نے تین باریہ الفاظ کہے۔ حضرت ابو ذرؓنے کہا: جو لوگ خائب و خاسر ہو گئے یا رسول اللہﷺ! وہ کون سے لوگ ہیں؟ فرمایا: ازار لٹکانے والا، احسان جتلانے والا، اور جھوٹی قسم کھا کر سودہ بیچنے والا۔

(مسلم کتاب، کتاب الایمان، – بَابُ بَيَانِ غِلَظِ تَحْرِيمِ إِسْبَالِ الْإِزَارِ، وَالْمَنِّ بِالْعَطِيَّةِ، وَتَنْفِيقِ السِّلْعَةِ بِالْحَلِفِ…)

ہاتھ کام میں، دل اللہ کی یاد میں

تجارت اورلین دین کے ان تمام معاملات میں مصروفیات کے باوجود ایک نہایت اہم امر یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی یاد سے دل غافل نہ ہو، چنانچہ اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’ہم یہ کہتے ہیں کہ انسان کو ایسا ہونا چاہئے کہ دست درکار دل بایار(یعنی ہاتھ کام میں، اور دل خدا کی یاد میں مگن ہو۔ ناقل) …صحابہ میں بعض بڑے دولت مند تھے اور دنیا کے تمام کاروبار کرتے تھے اور اسلام میں بہت سے بادشاہ گزرے ہیں جو درویش سیرت تھے، تخت شاہی پر بیٹھے ہوئے تھے، لیکن دل ہر وقت خدا تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ 81)

تجارت و عام روز مرہ زندگی میں بھی سود کی ممانعت

لین دین کے معاملات میں قرآن مجید نے جہاں تجارت کے شرعی جواز کا تذکرہ کیا ہے وہا ںسودی کاروبار کی حرمت کا بھی بیّن رنگ میں ذکر کیا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا(البقرۃ:272)

اللہ نے خریدوفروخت (یعنی تجارت کو )جائز قرار دیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔

سود کی تعریف

سب سے پہلے ہمیں سود کی صحیح تعریف بھی معلوم ہونی چاہیے۔ اس سلسلہ میں یاد رہے کہ

شرع میں سود کی تعریف یہ ہے کہ ایک شخص اپنے فائدہ کے لیے دوسرے کو قرض دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے جو محض روپیہ کے معاوضہ میں حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ گھاٹے کا عقلاً امکان نہیں ہوتا، وہ سود کہلاتا ہے۔ نیز ایسے معاہدات جن میں قبل از وقت طے شدہ شرح کے مطابق رقم پر معین وقت کے ساتھ معین منافع دیا جاتا ہے اور نقصان میں شراکت کی شرط نہیں ہوتی ایسا منافع بھی سود کہلاتا ہے۔ آنحضرت ﷺ نےفرمایا ہے کہ

کُلُّ قَرْضٍ جَرَّ مَنْفَعَۃً فَھُوَ وَجْہٌ مِّنْ وُجُوْہِ الرِّبَا۔

ہر وہ قرض جس پر نفع حاصل کیا جائے وہ سود کی قسم سے ہے۔

(سنن الکبریٰ للبیہقی کتاب البیوع باب کل قرض جر منفعۃ فھو ربا)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سود کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’بعض لوگ اپنا پیسہ، اپنی رقم معین منافع کی شرط کے ساتھ کسی کو دیتے ہیں کہ ہر ماہ یا چھ ماہ بعد یا سال بعد اتنا منافع مجھے ادا ہو گا۔ تو یہ بھی سود کی ایک قسم ہے۔ یہ تجارت نہیں ہے بلکہ تجارت کے نام پر دھوکہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سود کی جو تعریف فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ

ایک شخص اپنے فائدے کے لئے دوسرے کو روپیہ قرض دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا یا کسی کو رقم دیتا ہے اور فائدہ مقرر کرتا ہے، تو فائدہ مقرر کرنایا منافع مقرر کرنا سود کی شکل ہے۔ آپؑ نے فرمایا’’ یہ تعریف جہاں صادق آوے گی وہ سود کہلاوے گا‘‘

(ملفوظات جلد سوم صفحہ 160جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

پس اس تعریف کے لحاظ سے منافع رکھ کر یعنی پہلے سے منافع معین کرکے کسی کو قرض دینا یا رقم دینا یا تجارت میں لگانا، یہ سب چیزیں سود ہیں۔ نفع نقصان پہ جو آپ لگاتے ہیں جو اسلام کا حکم ہے وہ ٹھیک ہے، وہ جائز ہے، وہ تجارت ہے۔ تو ایسے لوگ جو تجارت اور سود کو ایک ہی طرح سمجھتے ہیں، قرآن نے ان کو سخت غلطی خوردہ بتایا ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ15؍ جون2007ء مطبوعہ خطبات مسرور جلد پنجم صفحہ 248)

کیا بامر مجبوری سود لیا یا دیا جاسکتا ہے؟

جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا بامر مجبوری سود لیا جاسکتا ہے یا دیا جاسکتا ہے تو یاد رہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے کسی نے ذکر کیا کہ بعض مجبوریاں ایسی ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے سودی قرضے لینے پڑ جاتے ہیں۔ تو ہم اس پر کیا کریں ؟ اس پر آپؑ نے فرمایا کہ

’’جو خدا تعالیٰ پر توکل کرتا ہے، خدا اس کا کوئی سبب پردہ غیب سے بنا دیتا ہے۔ افسوس کہ لوگ اس راز کو نہیں سمجھتے کہ متقی کے لئے خداتعالیٰ کبھی ایسا موقع نہیں بناتا کہ وہ سُودی قرضہ لینے پر مجبور ہو۔ یاد رکھو جیسے اور گناہ ہیں مثلاً زنا، چوری ایسے ہی یہ سُوددینا اور لینا ہے۔ کس قدر نقصان دِہ یہ بات ہے کہ مال بھی گیا، حیثیت بھی گئی اور ایمان بھی گیا۔ معمولی زندگی میں ایسا کوئی امر ہی نہیں کہ جس پر اتنا خرچ ہو جو انسان سودی قرضہ لینے پر مجبور ہو…بڑے افسوس کی بات ہے کہ لوگ اپنی نفسانی خواہشوں اور عارضی خوشیوں کے لئے خداتعالیٰ کو ناراض کر لیتے ہیں جو ان کی تباہی کا موجب ہے۔ دیکھو سود کا کس قدر سنگین گناہ ہے۔ کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں؟ سؤر کا کھانا تو بحالت اضطرار جائز رکھا ہے…مگر سود کے لئے نہیں فرمایا کہ بحالت اضطرار جائز ہے بلکہ اس کے لئے تو ارشاد ہے

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوۡا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ۔ فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ (البقرۃ:279-280)

اگر سود کے لین دین سے باز نہ آؤ گے تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کا اعلان ہے…مسلمان اگر اس ابتلا میں ہیں تویہ ان کی اپنی ہی بدعملیوں کا نتیجہ ہے…‘‘

(ملفوظات جلد 5صفحہ434-435جدید ایڈیشن)

وہ لوگ جو مال کمانے کے لیے گناہ کی بھی پروا نہیں کرتےاور دنیا طلبی میں گھرے ہوئے ہیںایسے لوگوں کونصیحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ

جی مت لگاؤ اس سے، دل چھڑاؤ اس سے

رغبت ہٹاؤ اس سے، بس دور جاؤ اس سے

(محمود کی آمین، روحانی خزائن جلد 12صفحہ 323)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button