خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 07اگست2020ء

سال 20-2019ء کے دوران جماعت احمدیہ پر نازل ہونے والے افضال کا مختصر تذکرہ

اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی ترقی کا قدم آگے ہی بڑھا ہے

آپؑ کا دعویٰ صرف دعویٰ ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات و نصرت آپؑ کے ساتھ اور آپؑ کی جماعت کے ساتھ ہیں اور کوئی دنیا کی طاقت نہیں جو اس ترقی کو روک سکے۔

دنیا بھر میں پاکستان کے علاوہ 288 نئی جماعتوں کا قیام۔ 1040 مقامات پر پہلی مرتبہ احمدیت کانفوذ۔ 217 نئی مساجد کی تعمیر جبکہ 93 بنی بنائی مساجد جماعت کے عطا ہوئیں۔ 97 مشن ہاؤسزتبلیغی سنٹرز کا اضافہ۔ 114 ممالک میں 41,111 وقارِ عمل کیے گئے جن سے 52 لاکھ 12 ہزار ڈالرز کی بچت ہوئی۔ مرکزی نمائندگان کے دورہ جات۔ رقیم پریس کے تحت آٹھ ممالک میں کام کرنے والے چھاپہ خانوں کی کارکردگی۔ لاکھوں کی تعداد میں کتب، پمفلٹس اور لیف لیٹس وغیرہ کی اشاعت۔ یسّرناالقرآن کی طرز پر خطِ منظور سے تیار کیے جانے والے خوبصورت قرآنِ کریم کی طباعت۔ 42 زبانوں میں 407 مختلف کتب، پمفلٹس وغیرہ کی42 لاکھ 56 ہزار659 کی تعداد میں طباعت ۔ 29 زبانوں میں 94 تعلیمی و تربیتی اخبارات و رسائل کی کامیاب اشاعت۔ 24 زبانوں میں دو لاکھ کے قریب کتب کی دنیا کے مختلف ممالک کو ترسیل۔ مختلف ممالک میں 709 مختلف عناوین پر مشتمل کتب، فولڈرز اور پمفلٹس کی 63 لاکھ 87ہزار کی تعداد میں مفت تقسیم۔ قرآنِ کریم کے اطالوی زبان میں ترجمے کی نظرِ ثانی کی تکمیل۔ صحیح بخاری کے گیارہ جلدوں پر مبنی ترجمہ و شرح کی اشاعت۔ متعدد کتب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا انگریزی میں ترجمہ۔ 36 ممالک اور 8 ڈیسکس کی جانب سے 33 زبانوں میں 154کتب و فولڈرز کی تیاری۔

مساجد کے قیام اور تبلیغ اسلام کے کاموں کے لیے مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے مخلصین کی جانب سے بے لوث اخلاص اور قربانیوں کا اظہار

سو سال بعد بھی افریقہ کے غریب لوگ اس روایت کو قائم کر رہے ہیں جو آج سے تقریباً اسّی نوے سال پہلے یا سو سال پہلے قادیان کے غریب لوگوں نے قائم کی تھی……یہ سچائی نہیں تو اور کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ہی لوگوں کے دلوں میں تحریک پیدا کرتا ہے کہ کس طرح قربانیاں کرنی ہیں۔

جو چرچ اس علاقے میں مسجد بنانے کی مخالفت کر رہا تھا اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی چرچ میں جماعت کی ’مسجد مریم‘ بن چکی ہے۔

ہمارے راستے میں قرآن کریم کی اشاعت کے لیے اور پڑھنے کے لیے اور رکھنے کے لیے جتنی روکیں پاکستان میں کھڑی کی جا رہی ہیں اللہ تعالیٰ اتنے ہی زیادہ بہتر راستے ہمارے لیے کھولتا چلا جا رہا ہے۔

یہ حقیقی تصویر دکھا کر جماعت احمدیہ دشمنوں کو بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم کا قائل کر رہی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اور اسوے کا صحیح ادراک دے رہی ہے۔ اور یہ نام نہاد علماء جو خود کو اسلام کے ٹھیکیدار سمجھتے ہیں یہ دوسروں کو اسلام سے اور قرآن کریم سے متنفر کر رہے ہیں اور پھر ہمارے خلاف ہی باتیں۔

ہر پاکستانی احمدی ملک کا وفادار ہے، وفادار تھا اور وفادار رہے گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ان مخالفین کی کوششیں امید ہے ان شاء اللہ تعالیٰ ایک دن ہوا میں اڑ جائیں گی اور اللہ تعالیٰ کی تائید ان شاء اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہو گی اور اب بھی ہے۔

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 07؍اگست 2020ء بمطابق 07 ظہور1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔ أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ- بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾ اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ﴿۵﴾ اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

يُرِيْدُوْنَ لِيُطْفِـُٔوْا نُوْرَ اللّٰهِ بِاَفْوَاهِهِمْ وَاللّٰهُ مُتِمُّ نُوْرِهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْكٰفِرُوْنَ۔ هُوَ الَّذِيْ أَرْسَلَ رَسُولَهٗ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّينِ كُلِّهٖ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُوْنَ (الصف:9-10)

ان آیات کا ترجمہ ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھا دیں حالانکہ اللہ ہر حال میں اپنا نور پورا کرنے والا ہے خواہ کافر ناپسند کریں۔ وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ اسے دین کے ہر شعبےپر کلیةً غالب کر دے خواہ مشرک برا منائیں۔

آج 7؍اگست ہے اور یہ جماعت احمدیہ یوکے کے کیلنڈر کے مطابق جلسہ سالانہ یوکے کا پہلا دن ہے لیکن اس وبا کی وجہ سے جو ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اس سال جلسہ سالانہ کا انعقاد نہیں ہو سکا۔ اللہ تعالیٰ جلد حالات معمول پر لائے اور اُسی طرح تمام روایات کے ساتھ ہم جلسہ منعقد کر سکیں جس طرح ہمیشہ کرتے رہے اور ایک دوسرے کو مل کر مودّت اور اخوّت کو بڑھائیں اور جلسہ سالانہ کے پروگراموں کو سن کر علمی اور روحانی حالتوں کو بہتر کرنے کے سامان پیدا کر سکیں جس طرح پہلے ہوتے تھے۔ بہرحال اس کمی کو ایم ٹی اے نے کچھ حد تک پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ پروگرام بنایا ہے کہ گذشتہ سال کے مختلف ملکوں کے جلسہ سالانہ میں میری ان تقریروں کو دکھائیں جو مَیں نے کی تھیں۔ اسی طرح کچھ لائیو پروگرام بھی کریں گے۔ امید ہے کہ یہ ان شاءاللہ تعالیٰ احبابِ جماعت کی دینی اور علمی پیاس بجھانے کے لیے مدد کریں گے۔ اس لیے گھروں میں بیٹھ کر ان تین دنوں کے پروگراموں کو خاص طور پر دیکھیں۔ اس کے ساتھ ہی مجھے یہ بھی خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ کے سال کے دوران جماعت پر جو فضل ہوتے ہیں اس کے لیے بجائے یہ کہ گذشتہ سال کی رپورٹ ایم ٹی اے پہ پیش کی جائے مَیں اس سال کی تازہ رپورٹ پیش کروں تاکہ احباب جماعت کے لیے ازدیادِ ایمان کا بھی باعث ہو۔ ان حالات کے باوجود جو گذشتہ چھ سات مہینے سے ہیں گو بعض کام جو باہر نکل کر اور زیادہ بہتر ہو سکتے تھے وہ نہیں ہو سکے لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی ترقی کا قدم آگے ہی بڑھا ہے اور خاص طور پر اکثر لوگ جو مجھے لکھتے ہیں کہ اس میں جو خاص تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں وہ تربیت اور جماعتی تعلق ہے۔ اس لحاظ سے اکثروں نے یہی لکھا کہ ان میں بھی اور ان کے بچوں میں بھی جماعت سے تعلق میں بہتری پیدا ہوئی ہے۔ بہرحال جیسا کہ میں نے رپورٹ پیش کرنے کے بارے میں کہا تھا کہ جلسے کے دوسرے دن جو رپورٹ مَیں پیش کرتا تھا اس کا اکثر حصہ گذشتہ سالوں میں بھی وقت کی کمی کی وجہ سے رہ جاتا تھا اور مکمل پیش نہیں ہو سکتی تھی۔ اس دفعہ کیونکہ کچھ موقع میسر آ گیا ہے اس لیے مَیں نے یہ فیصلہ کیا کہ خطبہ جمعہ میں بھی اس رپورٹ کا کچھ حصہ پیش کروں اور پھر کچھ حصہ اتوار کی شام کو یہاں سے براہ راست ہال میں پروگرام کر کے وہاں سے پیش کیا جائے۔ گو کہ آج کے خطبے اور پرسوں شام ہمارا جو خطاب کا پروگرام ہے ان شاء اللہ تعالیٰ اس میں بھی مکمل رپورٹ تو شاید پیش نہ ہو سکے لیکن بعض ایمان افروز واقعات پیش ہو جائیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

اس رپورٹ کے خاص نکات پیش کرنے سے پہلے مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے دو ارشادات پیش کروں گا جو ان آیات کی کچھ حد تک وضاحت کرتے ہیں جو مَیں نے ابھی تلاوت کی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کا یہ واضح اور کھلا اعلان بھی سامنے آ جاتا ہے کہ اب اسلام کی تبلیغ کے لیے، اس کا نشأة ثانیہ کا یہ جو دور ہے وہ آپؑ سے ہی وابستہ ہے اور تمام تر مخالفتوں کے باوجود اسلام کے اس نشأةِ ثانیہ کے دور میں آپؑ کے اس سلسلے نے ان شاء اللہ تعالیٰ پھلنا ہے، پھولنا ہے اور پھیلنا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ اور جو رپورٹ اور واقعات مَیں پیش کروں گا وہ خود بول رہے ہیں کہ آپؑ کا دعویٰ صرف دعویٰ ہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تائیدات و نصرت آپؑ کے ساتھ اور آپؑ کی جماعت کے ساتھ ہیں اور کوئی دنیا کی طاقت نہیں جو اس ترقی کو روک سکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام فرماتے ہیں:

’’تخمیناً عرصہ بیس برس کا گزرا ہے کہ مجھ کو اس قرآنی آیت کا الہام ہوا تھا۔ اور وہ یہ ہے۔

هُوَ الَّذِيْ أَرْسَلَ رَسُولَهٗ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهٗ عَلَى الدِّينِ كُلِّهٖ

وہ خدا جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تا وہ اپنے دین کو تمام دینوں پر غالب کرے۔‘‘ اور فرمایا ’’اور مجھ کو اس الہام کے یہ معنے سمجھائے گئے تھے کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ تا میرے ہاتھ سے خدا تعالیٰ اِسلام کو تمام دینوں پر غالب کرے۔ اور اِس جگہ یاد رہے کہ یہ قرآن شریف میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جس کی نسبت علماء محققین کا اتفاق ہے کہ یہ مسیح موعود کے ہاتھ پر پوری ہوگی۔ سو جس قدر اولیاء اور ابدال مجھ سے پہلے گذر گئے ہیں کسی نے ان میں سے اپنے تئیں اِس پیشگوئی کا مصداق نہیں ٹھہرایا۔ اور نہ یہ دعویٰ کیا کہ اس آیت مذکورہ بالا کامجھ کو اپنے حق میں الہام ہوا ہے۔ لیکن جب میرا وقت آیا تو مجھ کو یہ الہام ہوا اور مجھ کو بتلایا گیا کہ اِس آیت کا مصداق تُو ہے اور تیرے ہی ہاتھ سے اور تیرے ہی زمانہ میں دینِ اسلام کی فوقیت دوسرے دینوں پر ثابت ہوگی۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 231-232 معہ حاشیہ)

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ

’’یہ صرف اسلام ہی ہے جو زندہ مذہب ہے۔ یہی ہے جس کا ربیع ہمیشہ آتا ہے۔‘‘ یعنی بہار کا موسم اس میں ہمیشہ آتا ہے ’’جبکہ اس کے درخت سرسبز ہوتے ہیں اور شیریں اور لذیذ پھل دیتے ہیں۔ اس کے سِوا اَور کوئی مذہب یہ خوبی نہیں رکھتا۔ اگر اس میں سے یہ خوبی نکال دی جاوے تو یہ بھی مردہ ہو جاتا۔ مگر نہیں وہ زندہ مذہب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر زمانہ میں اس کی زندگی کا ثبوت دیا ہے۔ چنانچہ اس زمانہ میں بھی اس نے اپنے فضل سے اس سلسلہ کو اسی لیے قائم کیا ہے تا وہ اسلام کے زندہ مذہب ہونے پر گواہ ہو اور تاخدا کی معرفت بڑھے اور اس پر ایسا یقین پیدا ہو جو گناہ اور گندگی کو بھسم کر جاتا ہے اور نیکی اور پاکیزگی پھیلاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 9 صفحہ 154-155ایڈیشن 1984ء)

ان اقتباسات کے بعد اب مَیں کچھ رپورٹ کے حصے پیش کرتا ہوں۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سےاس سال دنیا بھر میں پاکستان کے علاوہ جو نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں ان کی تعداد 288 ہے اور ان نئی جماعتوں کے علاوہ ایک ہزار نئے مقامات پر بلکہ ایک ہزار سے زیادہ 1040 نئے مقامات پر پہلی بار احمدیت کا پودا لگا ہے۔ نئے مقامات پر جماعت کے نفوذ اور نئی جماعتوں کے قیام میں سیرالیون سرِفہرست ہے جہاں 40 نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ اس کے بعد کونگوکنشاسا ہے یہاں 31جماعتیں قائم ہوئیں۔ تیسرے نمبر پر گھانا ہے جہاں 23نئی جماعتیں بنی ہیں اور اس کے علاوہ بہت سارے دوسرے ملک ہیں جہاں دس، بارہ، آٹھ، نو، دو، تین جماعتیں قائم ہوئی ہیں۔ ان میں گیمبیا، لائبیریا، بینن، آئیوری کوسٹ، نائیجر، سینیگال، گنی بساؤ، تنزانیہ، گنی کناکری، نائیجیریا، ٹوگو، ساؤ تومے، کیمرون، ترکی، کونگو برازاویل، یوگنڈا اور اسی طرح اَور بھی بہت سارے ملک ہیں۔

ہمارے کونگو کنشاسا کے لوکل مربی معلم حمیداحمد کہتے ہیں کہ ایک گاؤں ہے لَوبی چَاکُو (LOBI TSHAKU) اس کے سنّی امام عثمان صاحب نے جب ریڈیو ایف ایم پر ہمارا تبلیغی پروگرام سنا تو ہماری مسجد پہنچ گئے اور مختلف سوالوں کی بوچھاڑ کر دی۔ اس پر ان کے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیے گئے۔ نیز ان کو جماعت کا سواحیلی ترجمہ قرآن بھی دیا گیا اور دیگر جماعتی کتب بھی دی گئیں۔ ان کتب کے مطالعہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے بیعت کر لی اور وعدہ کیا کہ اپنے گاؤں جاکر جماعت کا پیغام دیں گے۔ اللہ کے فضل سے ان کی تبلیغ سے اس گاؤں میں بیس افراد پر مشتمل ایک نئی مخلص جماعت قائم ہو چکی ہے۔

پھر گیمبیا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ رمضان کے مہینے میں ایک ریجن میں وہاں کے معلم سلسلہ نے اور صدر جماعت نے ایک تبلیغی پروگرام بنایا اور اس کے لیے جب کسی گاؤں میں گئے تووہاں تبلیغی پروگرام کے بعد گاؤں کے ایک بزرگ نے کہا کہ مَیں آپ لوگوں کی آمد سے بہت خوش ہوں کیونکہ یہ تبلیغی کام جو آپ لوگ کر رہے ہیں یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہیں۔ آپ لوگ اس سنت پر عمل کر رہے ہیں اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مدینے سے ہجرت کی تھی۔ افریقنوں کا ایک اپنا انداز ہے۔ مثالیں پیش کرتے ہیں۔ وہ (مثال) دیتے ہیں کہ مکے سے ہجرت کی اور مدینہ اس لیے آئے کہ اسلام پھیلے۔ اسی طرح آپ لوگ بھی باہر نکلے ہیں اور ہر جگہ اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں اور یہی سنت ہے اور یہی طریقہ ہے صحیح اسلام کی تبلیغ کا اور ہم لوگ آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں اور آپ لوگوں نے امام مہدی علیہ السلام کی جو تعلیمات پیش کی ہیں یہی حقیقی اسلام ہے۔ ہم سب ایمان لاتے ہیں اور حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کو وہی امام مہدی مانتے ہیں جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو فیملیزکے کل 19 افراد نے بیعت کی اور احمدیت میں داخل ہوئے۔

امیر صاحب لائبیریا لکھتے ہیں کہ ہمارے مشنری نے خطبہ جمعہ میں تحریک جدید کے حوالے سے مالی قربانیوں کی اہمیت بیان کی تو وہاں کچھ غیر احمدی مسلمان بھی نماز پڑھنے آتے ہیں۔ جب احمدی اپنے نام لکھوا رہے تھے تو ایک شخص آیا اور اس نے پچاس لائبیرین ڈالر دیے اور بغیر بتائے چپ کر کے چلا گیا۔ جب اس کا پتہ کیا گیا تو پتہ لگا کہ وہ ساتھ کے گاؤں کا آدمی تھا اور جب اس نے خطبہ سنا اور قربانی کے واقعات سنے اور اہمیت سنی تو متاثر ہوا اور اس نے بھی چندہ دے دیا۔ جب ہمارے معلم کو، مشنری کو پتہ لگا تو یہ وہاں گئے، ان کا شکریہ ادا کیا اور مل رہے تھے تو اس دوران میں گاؤں کے دوسرے لوگ بھی جمع ہو گئے اور جب انہوں نے باتیں سنیں تو بڑے متاثر ہوئے اور وہاں کے جو امام تھے وہ بھی بڑے متاثر ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ چند دن بعد دوبارہ آئیں۔ مَیں دو تین گاؤں کو اکٹھا کروں گا آپ وہاں تبلیغ کریں۔ چنانچہ مقررہ دن ہمارا تبلیغی وفد وہاں پہنچا۔ وہاں تینوں دیہات کے لوگ جمع تھے اور جماعت کے عقائد کے بارے میں بتایا گیا۔ قیام کی غرض اور اس کی تفصیل بتائی گئی۔ کہتے ہیں پھر اس کے بعد سوالات کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہوا جو سارا دن جاری رہا۔ جب ہر لحاظ سے تسلی ہو گئی تو تینوں گاؤں کے اماموں نے اپنے تمام لوگوں کے سمیت احمدیت میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان تینوں گاؤں میں جماعتیں قائم ہو گئیں۔

لائبیریا سے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ ایک گاؤں کالانگور(KULANGOR) میں جمعے کے روز تبلیغ کے لیے گئے۔ مَیں نمازِ جمعہ سے کوئی دو گھنٹے پہلے وہاں پہنچ گیا اور ابتدائی گفتگو کے وقت پتہ چلا کہ لوگ جمعہ کی نماز اپنی مسجد میں ادا نہیں کرتے بلکہ قریبی بڑے گاؤں میں جمعہ ہوتا ہے جس میں دو تین افراد یہاں سے بھی چلے جاتے ہیں اور باقی سارا گاؤں مسلمان ہونے کے باوجود جمعہ کی برکات سے محروم رہتا ہے۔ جب وجہ پوچھی تو گاؤں والوں نے بتایا کہ بڑے امام نے ہمیں کہا ہے کہ مسجد میں جمعہ شروع کرنے سے پہلے تین بکریاں ذبح کرنی ضروری ہوتی ہیں اور پھر جب بکریاں ذبح ہو جائیں اور گوشت بھی امام صاحب کو پہنچ جائے تو پھر وہ کسی کو امام مقرر کر دیتے ہیں جو جمعہ پڑھائے گا ۔ ان کو بڑا قائل کرنے کی کوشش کی کہ یہ غلط ہے ۔ اسلام میں کوئی ایسی شرط نہیں ہے۔ نماز جمعہ کی برکات کے بارے میں بتایا اور ان کو کہا کہ اچھا آج ہم آپ کو بغیر بکریاں ذبح کیے جمعہ پڑھا دیتے ہیں۔ کیونکہ گاؤں کے لوگ تھے وہمی بھی ہوتے ہیں، توہّم پرست بھی ہوتے ہیں، علم بھی ان کو دین کا نہیں ہے ان کو بڑا خوف اور خطرہ پیدا ہوا کہ کہیں مولوی کی نافرمانی نہ ہو جائے اور ہم گناہ گار نہ بن جائیں اور اس کے نتیجے میں ہم پر کوئی عذاب نہ نازل ہو جائے جس طرح مولوی ڈراتے ہیں لیکن بہرحال جب ان کو بہت زیادہ زور دیا گیا تو وہ مان گئے اور جمعہ پڑھایا گیا۔ سب لوگ اس میں شامل ہوئے۔ جمعہ کے بعد جماعت کا تفصیلی تعارف ہوا۔ سوال و جواب بھی ہوئے۔ لوگوں کے ذہنوں میں چونکہ امام صاحب کی، بڑے امام کی سرزنش کا بھی خیال تھا اس لیے مبلغ نے ان کو کہا کہ اگر کوئی سوال کرے کہ ایسے جمعہ کیوں پڑھا ہے تو آپ لوگ صرف ان سے یہ پوچھیں کہ بتاؤ یہ کہاں لکھا ہے کہ جمعہ پڑھنے سے پہلے بکروں کا ذبح کرنا ضروری ہے۔ پھر جب مولوی کو پتہ چلا کہ وہاں جمعےکی نماز ہو گئی ہے تو پوچھ گچھ کے لیے وہاں پہنچ گیا اوربڑا ناراض ہوا۔ گاؤں والوں نے یہی سوال کیا کہ ہمیں دکھائیں کہاں لکھا ہوا ہے کہ جمعہ سے پہلے بکرے ذبح کرنا ضروری ہے اور وہ بھی تین بکرے۔ بعد میں ہمارے لوکل مشنری نے گاؤں کے ایک شخص کو جمعہ پڑھنے کا طریق سکھا دیا۔ اب باقاعدہ وہاں جمعہ ہوتا ہے اور لوگوں نے بھی اس مولوی کو چھوڑ دیا ہے اور سب نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ حقیقی اسلام یہی ہے جو جماعتِ احمدیہ نے ہمیں سکھایا ہے نہ کہ وہ جو مولوی ہمیں بتاتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے ان میں سے اکثر لوگ جماعت میں شامل ہو گئے اور اللہ کے فضل سے یہاں نئی جماعت کا قیام ہوا۔

عجیب عجیب نئی بدعات ہیں جو ان لوگوں نے مذہب کے نام پہ شروع کی ہوئی ہیں اور اسی طرح یہ کم علم لوگوں کی، بیچاروں کی غلط رہ نمائی کرتے ہیں۔

فلپائن سے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ ’سالو پینگ‘ (Saluping) کا علاقہ شدت پسند مسلمانوں کی وجہ سے مشہور ہے اور تبلیغی جماعت کی سرگرمیاں بھی یہاں کافی تیز ہیں۔ اس علاقے میں ہمارے ایک معلم صاحب کے سسرالی رشتہ دار بھی رہتے ہیں۔ معلم صاحب نے جب اپنے رشتہ داروں کو تبلیغ کی تو ان کی طرف سے مثبت جواب ملا تو نیشنل سطح پر یہاں تبلیغ کا پروگرام بنایا گیا اور تین معلمین اور تین داعیان کی ایک ٹیم ایک ہفتےکے لیے اس علاقے میں بھیجی گئی۔ لوکل مسلمانوں کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہوا جس طرح عموماً ہوتا ہے لیکن اس مخالفت کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے تئیس افراد بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے۔

سینیگال کے امیرصاحب لکھتے ہیں کہ ایک ریجن ہے تانباکنڈا۔ اس میں ہمارا تبلیغی وفد گیا۔ ایک قصبے میں گیا تو وہاں جا کر معلوم ہوا کہ وہاں پہلے سے ہی دو فرقوں تیجانیہ اور مریدیہ کے مابین بحث جاری ہے۔ وہاں کے امام نے ہمارے وفد کے ایک ممبر کو کہا کہ ان میں سے کوئی فرقہ حق پر نہیں۔ ہم انتظار کرتے ہیں ۔کیونکہ ہم نے سنا ہے کہ ایک سچا امام آنے والا ہے ہم اس کو تسلیم کریں گے۔ جب ہمارے وفد نے تبلیغ کی اور سوال و جواب کیے تو ہمارے وفد کے پاس مولانا نذیر مبشر صاحب کی کتاب ’القول الصریح فی ظھور المہدی والمسیح‘ تھی اور قاعدہ یسّرنا القرآن بھی تھا۔ دونوں اس امام نے خرید لیے اور وفد نے تبلیغ کی اور واپس آ گئے۔ دو دن کے بعد امام نے فون کر کے بلایا اور کہا کہ ہمیں منڈنگا زبان کا ترجمہ قرآن بھی چاہیے وہ بھی انہوں نے منگوایا۔ جب دوسری مرتبہ ہمارا وفد وہاں گیا تو اس نے ہمارے وفد سے کہا کہ ہم جس مذہب کے انتظار میں تھے وہ یہی احمدیت ہے کیونکہ مَیں نے آپ کی کتاب اور قرآن کریم کا ترجمہ اپنی زبان میں پڑھا ہے۔ اس طرح یہ سارا گاؤں احمدیت میں داخل ہو گیا اور نئی جماعت کا قیام عمل میں آیا اور پھر قاعدے بھی وہاں دیے گئے، ان کو قرآن کریم بھی دیے گئے تا کہ ان کو قرآن کریم پڑھنا سکھایا جائے۔

گوئٹے مالا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ کوبان شہر میں یہاں سے دس کلو میٹر کا ایک علاقہ ہے وہاں دورانِ سال پہلی دفعہ جماعت کا تعارف ہوا۔ وہاں دو مرتبہ دورہ کر کے اسلام احمدیت کا پیغام پہنچایا گیا اور انہیں جلسہ سالانہ گوئٹے مالا پر دعوت دی گئی۔ ان میں سے ایک فیملی کے تین افراد جلسہ سالانہ گوئٹے مالا پر آئے اور بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے۔ اس طرح یہاں ایک نئی جماعت کا آغاز ہوا ہے اور یہ فیملی اپنے دوسرے فیملی کے لوگوں کو احمدیت کا پیغام پہنچا رہی ہے، تبلیغ کر رہی ہے۔

سینیگال کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ وہاں دس جگہوں پر ایک ریجن میں لوکل معلمین اور مشنریز کے تحت ہفتے میں ایک گھنٹہ ریڈیو کا پروگرام ہوتا ہے اور ایک گھنٹہ میرا خطبہ مسلسل نشر ہوتا ہے۔ یہ تبلیغ کا بہت اہم ذریعہ ہے۔ ان پروگراموں میں لوگ فون کر کے سوال و جواب بھی کرتے ہیں۔ اس ذریعے سے اس سال بیس دیہات میں جماعتِ احمدیہ کا پودا لگ چکا ہے۔ لوگ نہ صرف احمدیت کی طرف مائل ہو رہے ہیں بلکہ خود ہی فون کر کے اپنے ہاں آنے کی دعوت بھی دیتے ہیں۔

کبابیر کے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جنوبی فلسطین کے شہر میں چند سالوں سے احمدی تو رہتے ہیں لیکن وہاں منظم جماعت قائم نہیں تھی۔ اللہ کے فضل سے اس سال کے دوران یہاں باقاعدہ جماعت کا قیام عمل میں آیا ہے اور الخلیلجو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جگہ ہے اور یہاں حضرت ابراہیمؑ، حضرت اسحاق ؑاور حضرت یعقوبؑ اور ان کی ازواجِ مطہرات کی قبریں بھی ہیں۔ یہ پرانا تاریخی شہر ہے۔ اس شہر میں اور ارد گرد کے گاؤں میں ہمارے 27؍احمدی افراد رہتے ہیں، باقاعدہ جماعت قائم کر دی گئی ہے اور ایک احمدی نے اپنے گھر کا ایک حصہ بطور مسجد کے الگ کیا ہے کہ یہاں نمازیں پڑھا کریں۔

نئی مساجد کی تعمیر اور جماعت کو عطا ہونے والی مساجد

اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی مجموعی تعداد 217 ہے جن میں سے 124 نئی مساجد تعمیر ہوئی ہیں اور 93بنی بنائی ملی ہیں اور اس میں یوکے اور فرانس اور جرمنی اور ہندوستان اور انڈونیشیا اور گھانا اور نائیجیریا اور سیرالیون اور بینن، برکینا فاسو، لائبیریا، آئیوری کوسٹ، گنی بساؤ، تنزانیہ، یوگنڈا، مالی، کونگو کنشاسا، کیمرون، سینیگال، گنی کناکری، ٹوگو، چاڈ، زیمبیا، آسٹریلیا وغیرہ شامل ہیں۔ دنیا کے بہت سارے ملکوں میں تقریباً تین براعظموں میں بلکہ چار براعظموں میں ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسجدوں کی یہ توفیق ملی۔

گوئٹے مالا میں 31سال کے وقفے کے بعد دوسری مسجد کی تعمیر ہوئی ہے اور پہلی مسجد جس کا نام ’بیت الاول‘ تھا وہ 1989ء میں ، (eighty nine میں) تعمیر ہوئی تھی۔ اس طرح 31سال کے بعد یہ دوسری مسجد جس کا نام مسجد نور ہے کابون کے علاقے میں تعمیر ہوئی ہے۔ اس علاقے میں 2015ء میں احمدیت کا پیغام پہنچا تھا۔ یہ علاقہ گوئٹے مالا میں ہمارے مرکز سے 328 کلومیٹر دور ہے اور 70کلومیٹر کا پہاڑی راستہ ہے اور سٹرک بھی کچی ہے اور چھوٹی ہے اور بہت خطرناک ہے۔ مسجد کی بنیاد دسمبر 2019ء میں رکھی گئی تھی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ کی تقدیر اس طرح ظاہر ہوئی کہ وہاں سڑک کی تعمیر بھی شروع ہوئی اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ستر کلومیٹر کا رستہ بھی بہت بہتر ہو گیا ہے اور سڑک کو کشادہ کرنے کا کام بھی جاری ہے۔ اس مسجد میں 170 نمازیوں کی گنجائش ہے۔ ایک مینار بھی تعمیر ہوا ہے جس کی اونچائی ساڑھے آٹھ میٹر ہے۔ مسجد کے ساتھ دو منزلہ مشن ہاؤس بھی تعمیر ہوا ہے۔ گراؤنڈ فلور پر لائبریری اور دفتر ہے۔ فرسٹ فلور پر رہائشی حصہ تعمیر کیا گیا ہے۔ جماعتی کچن بنایا گیا ہے۔ مردوں عورتوں کے علیحدہ علیحدہ واش رومز وغیرہ جس طرح ہماری مساجد میں ہوتا ہے یہ سب کچھ ہے اور یہ اونچی جگہ ہونے کی وجہ سے دُور سے نظر آتی ہے۔

ناروے میں جماعت کرسچن سانڈ (Kristiansand) میں امسال ایک چرچ کی عمارت بطور مسجد خریدی گئی ہے اور اس شہر میں جولائی 2017ء میں ایک عمارت خریدی گئی تھی جو ایک کمپنی کا آفس تھا۔ وہاں نمازیں پڑھنے اور اجلاسات کرنے کا آغاز کر دیا گیا تھا۔ اس جگہ کو مسجد بنانے کے منصوبے کا آغاز اور نقشے وغیرہ بنانے کا کام جب شروع کیا گیا اور جب یہ حکومتی اداروں میں پیش کیے گئے تو ارد گرد کی آبادی نے اس کی مخالفت کی اور اخبارات میں بھی اس مخالفت کا کثرت سے ذکر آیا۔ تقریباً دو سال یہ سلسلہ چلتا رہا۔ مخالفت ہوتی رہی۔ اس کے قریب ہی ہمسایہ میں ایک چرچ بھی واقع ہے۔ چرچ کے لوگوں نے بھی مسجد بننے کی پُرزور مخالفت کی لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر اس طرح غالب آئی کہ وہی چرچ جو ہماری مخالفت کر رہا تھا اس کی انتظامیہ سے اپنا چرچ نہ سنبھالا گیا اور انہوں نے چرچ بیچنے کا فیصلہ کیا۔ کونسل سے کہا کہ وہ چرچ بیچنا چاہتے ہیں۔ اس پر کونسل نے اسے مشورہ دیا کہ وہ جماعت احمدیہ سے رابطہ کر لیں ہوسکتا ہے کہ وہ یہ چرچ خرید لیں۔ چنانچہ اس پر انہوں نے ہمارے مبلغ سے رابطہ کیا۔ اس پر سارا جائزہ لے کر انہوں نے مجھے رپورٹ پیش کی اور میری منظوری سے پھر یہاں چرچ کی عمارت بطور مسجد خرید لی گئی اور اس سال 25؍فروری کو اللہ کے فضل سے چرچ کی چابی مل گئی ہے۔ وہی چرچ جو اس علاقے میں مسجد بنانے کی مخالفت کر رہا تھا اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی چرچ میں جماعت کی ’مسجد مریم‘ بن چکی ہے اورا س پر حکومتی اخراجات شامل کر کے جو اخراجات ہوئے ہیں وہ تقریباً دس ملین نارویجئن کرونر ہیں۔

ملاوی میں پہلی مسجد کی تعمیر ہوئی ہے۔ یہاں کے ایک ڈسٹرکٹ MangochiکےMwala نامی علاقے میں جماعت کی پہلی مسجد تعمیر ہوئی ہے۔ امیر صاحب تنزانیہ لکھتے ہیں کہ مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر سے قبل اہل علاقہ کو اعتماد میں لیا گیا۔ وہ سب اپنے گاؤں میں مسجد کی تعمیر سے نہایت خوش تھے لیکن بعض شر پسندوں نے وہاں حملہ کر دیا اور تعمیراتی سامان وغیرہ اٹھا کر لے گئے۔ اس کی وجہ سے پولیس کے حکم سے کچھ دن تعمیر روک دی گئی۔جب دوبارہ تعمیر کا آغاز ہوا تو گاؤں کے لوگوں کو بتایا گیا کہ حالات کی سنگینی کیا ہے اور اب متحد ہو کر اس کی حفاظت کریں۔ ان کو توجہ دلائی گئی تا کہ دوبارہ کوئی ایسی کارروائی نہ ہو۔ سب نے کہا کہ واقعةً یہ مسجد ہمارے گاؤں کے لیے ایک نعمت سے کم نہیں۔ ہم سب مل کر اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اس کی تعمیر ہو اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے، جماعتی ممبران جو وہاں ہیں انہوں نے ارد گرد کے لوگوں سے تبلیغی روابط بھی بڑھائے اور احمدیت کی امن پسند اور محبت والی تعلیم جو ہے جو اسلام کی حقیقی تعلیم ہے اس سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ بہرحال جب وہ مسجد مکمل ہوئی اور اس کی افتتاحی تقریب منعقد کی گئی تو مجموعی طور پر یہاں تقریباً ساڑھے چار سو کے قریب احباب شامل ہوئے جن میں وہاں کے مختلف زون سے 13چیف بھی آئے ہوئے تھے۔ پولیس انسپکٹر تھے، دیگر مساجد کے امام بھی تھے۔ اور اس موقعے پر غیر از جماعت نے برملا اس بات کا اظہار کیا کہ ہمیں احمدیوں کے بارے میں غلط طور پر بتایا گیا تھا کہ یہ مسلمان نہیں ہیں اور ان کا طریق عبادت بھی مسلمانوں سے مختلف ہے لیکن یہاں آ کر ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ آپ نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ دیگر مسلمانوں کو بھی امن کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اس طرح مختلف پروگراموں کے نتیجے میں اس علاقے کے تین دیہات میں ایک ہزار سے زائد افراد بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئے جن میں اپنے اپنے زون کے چیفس بھی شامل ہیں۔

مسجد بیت العافیت میکسیکو (Mexico)۔میکسیکو کے دارالحکومت میکسیکو سٹی میں چند سال قبل ایک عمارت بطور سینٹر خریدی گئی تھی۔ یہ میکسیکو میں جماعت کی پہلی خریدی ہوئی پراپرٹی ہے۔ یہ عمارت تین منزلہ ہے۔ اس عمارت کے گراؤنڈ فلور کو بطور مسجد تیار کیا گیا ہے۔ اس فلور پر مردوں اور عورتوں کے لیے نماز کا ہال ہے، لائبریری ہے اور جماعتی دفتر ہے اور چند کمرے ہیں جو مختلف کلاسوں کے لیے استعمال میں لائے جاتے ہیں۔ دوسری منزل پر مربی سلسلہ کی رہائش ہے اور تیسری منزل حسب ضرورت بعد میں استعمال میں لائی جائے گی۔

بیلیز (Belize)اور بعض اَور جگہوں پر بھی مساجد زیر تعمیر ہیں ان شاء اللہ تعالیٰ وہ بھی جلد مکمل ہو جائیں گی۔ جوابھی زیر تعمیر ہیں اور تقریباً تکمیل کے مراحل میں ہیں ان کا میں ذکر نہیں کر رہا۔

امیر صاحب مالی لکھتے ہیں کہ مالی کی ایک جماعت ڈیما (Diema)ہمارے مرکز باماکو سے تین کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں چار سال قبل مسجد کی تعمیر کا کام شروع ہوا اور جب یہ کام آخری مراحل میں تھا۔ مینار اور فنشنگ (finishing) وغیرہ کا کام رہتا تھا تو گاؤں کے چیف کی طرف سے کہا گیا کہ مسجد کا کام روک دیا جائے اور مخالفت کی وجہ سے لوگوں نے احمدیت کے بارے میں غلط باتیں گاؤں کے چیف اور میئر وغیرہ سے کیں۔ بہرحال کام روک دیا گیا اور تین سال تک کوشش ہوتی رہی۔ آخر تین سال کے بعد چیف سے رابطوں اور مختلف ذرائع سے ان کو قائل کرنے سے وہاں مسجد کی اجازت مل گئی اور چیف نے اس بات کی بڑی تعریف کی کہ آپ لوگوں نے تین سال بڑے صبر سے کام لیا ہے اور جبکہ آپ لوگ اپنے اوپر کے تعلقات استعمال کر کے یہاں مسجد بنا سکتے تھے اور وہابیوں کی اس نے مثال دی کہ ان کو بھی یہاں روکا گیا تھا لیکن انہوں نے اپنے بعض رابطے استعمال کر کے مسجد بنا لی تھی اور آپ بھی کر سکتے تھے لیکن جس طرح آپ لوگوں نے صبر سے کام لیا ہے اس پہ ہمیں آپ کی بڑی قدر ہے اور گاؤں کے چیف اور ان کے نائبین نے بار بار جماعت سے معافی مانگی کہ ہم اتنی لیٹ آپ کو اجازت دے رہے ہیں اور انہوں نے کہا کہ اب ہم نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ آپ لوگ مسجد کا کام مکمل کروائیں اور نمازیں شروع کر لیں اور اب اللہ کے فضل سے باقاعدہ اس مسجد میں نمازیں شروع کر دی گئی ہیں۔

امیر صاحب تنزانیہ لکھتے ہیں کہ ان کا ایک ریجن ہے جس میں اس سال دو جماعتوں میں اللہ کے فضل سے مسجدیں بنانے کی توفیق ملی۔ ان مساجد کی تعمیر سے قبل قریبی گاؤں سے سنی علماء یہاں آ کر لوگوں کو گمراہ کرتے تھے کہ جماعت احمدیہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے۔ اس کے پاس مسجد بنانے کی طاقت نہیں ہے۔ انہوں نے اس سے پہلے بھی قریبی گاؤں میں دو مسجدیں بنائی ہیں بس وہی کافی ہیں۔ ان سے اَور مسجد کوئی نہیں بننی۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد جب اس گاؤں میں بھی مسجد کی تعمیر کا آغاز ہوا تو حیران رہ گئے اور لوگوں کو کہنے لگے لگتا ہے ان لوگوں کے پاس کوئی خاص طاقت ہے جو اتنے کم عرصے میں بڑی خوبصورت مسجدیں بنا لیتے ہیں۔ ہم سے تو یہاں ایک ٹینٹ بھی نہیں لگایا گیا جہاں ہم نماز ادا کر سکیں۔ پھر انہوں نے دوسرے حربے استعمال کرنے شروع کر دیے اور لوگوں میں خوف پھیلانا شروع کر دیا کہ احمدیوں سے بچ کر رہو۔ ان کے ارادے یہ ہیں کہ یہ سارے علاقے پہ قبضہ کر لیں گے اور یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے اور مسجدیں بنائیں گے۔ لیکن بہرحال لوگوں نے ان کی کوئی پروا نہیں کی۔

مبلغ برکینا فاسو لکھتے ہیں کہ کاری جماعت میں جہاں مسجد کی تعمیر کا کام ہو رہا تھا وہاں ہر فرد ہی مسجد کی تعمیر میں ایک علیحدہ جذبے سے حصہ لے رہا تھا اور لوگوں کو چندہ کی تحریک بھی کی جا رہی تھی۔ ہر کوئی اپنے اپنے رنگ میں اس نیکی میں شامل ہو رہا تھا۔ ایک دن دو بڑی عمر کے احمدی آئے۔ ان کے ہاتھ میں دو مرغ تھے اور کچھ انڈے لیے ہوئے تھے۔ اور انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس صرف یہی ہے۔ دو مرغے ہیں اور یہ انڈے ہیں۔ اس کو ہی ہماری طرف سے مسجد کے لیے بطور چندہ سمجھ لیں تا کہ ہم بھی اس نیک کام میں شامل ہو جائیں۔ چنانچہ معلم صاحب نے ان کو اس کی رسید دی۔

سو سال بعد بھی افریقہ کے غریب لوگ اس روایت کو قائم کر رہے ہیں جو آج سے تقریباً اسّی نوے سال پہلے یا سو سال پہلے قادیان کے غریب لوگوں نے قائم کی تھی اور اگر کوئی دیکھے، عقل کی آنکھ سے دیکھے اور سعادت اُس میں ہو تو خود ہی اس کو پتہ لگ جائے گا کہ یہ سچائی نہیں تو اَور کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خود ہی لوگوں کے دلوں میں تحریک پیدا کرتا ہے کہ کس طرح قربانیاں کرنی ہیں۔

تنزانیہ کے اِرِنگا (Iringa) ریجن کے معلم احمد صاحب لکھتے ہیں کہ اپریل 2020ء میں چند خدام کے ساتھ ایک قریبی گاؤں میں گیا اور لوکل گورنمنٹ سے اجازت لے کر پبلک مقام پر دوپہر ایک بجے سے شام چھ بجے تک تبلیغی لیکچر کا انعقاد کیا۔ لیکچر کے بعد حاضرین کے سوالات کے جوابات دیے گئے۔ اس پروگرام کے آخر میں ایک بہتّر سالہ خاتون حلیمہ صاحبہ اپنے ہاتھ میں ایک فائل لیے ہوئے آئیں اور کہا کہ مَیں مسلمان ہوں اور لمبے عرصے سے یہاں پہ رہائش پذیر ہوں۔ مَیں نے کبھی کسی کو اسلام کی تبلیغ کے لیے یہاں آتے نہیں دیکھا اور اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی فائل معلم کو دیتے ہوئے کہا کہ یہ میرا رہائشی پلاٹ ہے۔ اس کے کاغذات ہیں۔ یہ اس کی رجسٹریشن وغیرہ ہے۔ جب آپ کی جماعت یہاں تیار ہو جائے اور آپ مسجد تعمیر کرنا چاہیں تو میرا پلاٹ حاضر ہے۔ یہ ملکیت مَیں آپ کو دیتی ہوں۔ چنانچہ اب وہاں احباب جماعت کے وقار عمل سے مسجد کی تعمیر شروع ہو گئی ہے۔ انہوں نے اینٹیں وغیرہ بنا لی ہیں اور جو کام کر رہے ہیں ان میں اس بڑھیا خاتون کے بیٹے بھی شامل ہیں۔ اس طرح خدا تعالیٰ نیک فطرت لوگوں کے دل میں ڈالتا ہے جو مددگار بن کے آتے ہیں۔

برکینا فاسو کی ایک جماعت ہے کاری۔ وہاں کی ایک خاتون زینب صاحبہ ہیں وہ کہتی ہیں کہ میں بی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد دو سال تک نرس بننے کے لیے ٹیسٹ دیتی رہی لیکن کامیاب نہ ہو سکی۔ میں نے اور میرے خاوند نے ایک پرائیویٹ نرسنگ سکول میں داخلے کے لیے پیسے جمع کرنے شروع کر دیے اور اس دوران ٹیسٹ بھی دیتی رہی لیکن امید نہ تھی کہ داخلہ ہو گا۔ اسی دوران کاری کی مسجد کے لیے چندے کی تحریک کی گئی تو ہم نے جو رقم تعلیم کے لیے جمع کی تھی وہ چندے میں ادا کر دی اور داخلے کا ارادہ کچھ دیر کے لیے ترک کر دیا۔ کہتی ہیں ابھی اس بات کو دو ہفتے بھی نہیں ہوئے تھے کہ مجھے ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے فون آیا کہ آپ کی ڈائریکٹ سلیکشن ہو گئی ہے۔ آپ کی تعلیم کے تمام اخراجات گورنمنٹ خود ادا کرے گی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے ایمان میں اضافے کا بھی سامان پیدا فرماتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال 97مشن ہاؤسز کا بھی اضافہ ہوا اور مشن ہاؤسز میں یا تبلیغی سینٹر میں پہلا نمبر گھانا کا ہے۔ پھر انڈونیشیا ہے۔ پھر بھارت ہے۔ پھر سیرالیون ہے۔ پھر کونگو کنشاسا، کونگو برازاویل، برکینا فاسو، آئیوری کوسٹ، مالی۔ اس کے علاوہ بہت سارے دوسرے ملک آسٹریلیا، بنگلہ دیش، بیلیز، کینیڈا، گیمبیا، گوئٹے مالا، گنی بساؤ، میسیڈونیا، ملاوی، ناروے، ساؤ تومے، ٹونگا، ترکی ہیں، یہاں بھی ایک ایک مشن ہاؤس کا اضافہ ہوا ہے۔

تنزانیہ کے سِمیُو (Simiyu)ریجن سے معلم لکھتے ہیں کہ گذشتہ سال قائم ہونے والی جماعت میں اس سال مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر ہوئی۔ اس دوران عیسائیوں کے ایک پادری نے پوچھا کہ یہ گھر کس لیے بنایا جا رہا ہے؟ انہیں بتایا گیا کہ جماعت کے معلم کی رہائش ہے اس پر انہوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ اس گاؤں میں عیسائیوں کے چھ چرچ ہیں اور اکثر فرقے لمبے عرصے سے اس گاؤں میں آباد ہیں ان میں سے کسی ایک کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اپنے پادری کی رہائش تعمیر کر سکیں۔ یقیناً آپ لوگ اپنے مذہبی رہنماؤں کی عزت اور احترام کرتے ہیں اور اپنے ماٹو ’محبت سب کے لیے نفرت کسی سے نہیں‘ پر پورا عمل کرتے ہیں اور یہ مثال دوسروں کو بھی اپنانی چاہیے۔

جماعت احمدیہ کا ایک خصوصی امتیاز وقار عمل ہے۔ اس سال افریقہ کے مختلف ممالک میں جو مساجد اور مشن ہاؤسز بنائے گئے اور دوسرے کام کیے گئے اس میں 148 ممالک سے موصولہ رپورٹ کے مطابق 114 ملکوں میں کل 41,111وقار عمل کیے گئے جن کے ذریعے سے 52 لاکھ 13 ہزار یوایس ڈالرز کی بچت ہوئی ہے۔ افریقہ میںجو مسجد بنتی ہے اب اگر اس کے اخراجات کو دیکھیں تو اس کا مطلب ہے تقریباً وقار عمل کی رقم سے جو بچت ہوئی ہے اس سے دس مزید مسجدیں بنانے کی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو توفیق دے دی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ ہمارے پیسے میں بھی برکت ڈالتا ہے۔

مرکزی نمائندگان کے دورہ جات ہوئے اور دنیا کے بےشمار ملکوں میں دورے ہوئے جہاں مرکزی نمائندگان گئے۔ ان کی تفصیل لمبی ہے چھوڑ دیتا ہوں۔ اللہ کے فضل سے ان دوروں کا وہاں مثبت اثر ہوا۔

رقیم پریس کے ذریعے سے بھی افریقہ میں کام ہو رہا ہے جہاں رقیم پریس یوکے کے under، کے زیر انتظام بہت سارے پریس چل رہے ہیں اور اس سال فارنہم کا جو ہمارا رقیم پریس ہے صرف اس میں جو کتب چھپی ہیں وہ تین لاکھ ساٹھ ہزار دو سو چالیس ہیں۔ اس کے علاوہ رسالہ ’موازنہ مذاہب‘، ’النصرت‘، وقف نو کے رسالہ جات ’مریم‘ و ’اسماعیل‘۔ اس کے علاوہ پمفلٹس، لیف لیٹس، جماعتی دفاتر کی سٹیشنری وغیرہ کے کام بھی یہاں پریس سے ہو رہے ہیں۔

یسّرنا القرآن کا خط جو خط ِمنظور ہے اس کی طرز پر قرآن کریم کی طباعت بھی اس سال ہوئی ہے۔ چھ سات سال سے یہ کام ہو رہا تھا۔ قادیان کی جماعت کے سپرد کیا گیا تھا تا کہ ہمارا اپنا ایک فونٹ ہو جو خط ِمنظور کے مطابق ہو اور نظارت اشاعت قادیان نے اس پر بڑا کام کیا ہے۔ الحمدللہ کہ اس خط کے ساتھ بڑا خوبصورت اور دلکش قرآن کریم چھپ گیا ہے۔ رنگین بارڈر ہیں۔ جِلد بڑی خوبصورت ہے اور جس تعداد میں یہاں آیا ہے، ابھی یوکے میں ہے اور بڑی جلدی بک رہا ہے۔ امید ہے جلدہی ہمیں دوسرا ایڈیشن بھی شائع کرنا پڑے گا۔ اور بڑا دیدہ زیب ہے۔ اس کی جلد بھی اور اندر لکھائی اور کاغذ وغیرہ بھی اور خاص طور پر بائنڈنگ اس کی بہت اچھی ہے۔ اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اس قرآن کریم کا فونٹ جو یسرنا القرآن کے فونٹ پر ڈھالا گیا ہے اس کا نام ’’خط منظور‘‘ رکھا گیا ہے اور یہ جماعت احمدیہ کا خاص خط ہے جو باقی جگہوں پر نہیں ہے۔ اور پڑھنے میں بھی بڑا آسان ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ جماعت بھارت قادیان کی نظارت اشاعت نے اس پر بڑی محنت کا کام کیا ہے اسی طرح یہاں رقیم پریس کی مدد کے لیے ترکی کے احمدی دوست مہمت (Mehmet) صاحب ہیں انہوں نے بھی چھپوانے میں بڑی مدد کی ہے۔ آئندہ ان شاء اللہ ترجمے کے ساتھ چھپنے والے قرآن کریم بھی اسی فونٹ میں چھپیں گے۔ اسی خط کے ساتھ اور حضرت مولوی شیر علی صاحب کا ترجمہ اسی ’’خط منظور‘‘ کے ساتھ تیار ہو رہا ہے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ جلد طباعت کے لیے دے دیا جائے گا۔ اسی طرح حضرت میر اسحاق صاحب کے لفظی ترجمہ کے لیے بھی اسی طرز کو استعمال کیا جانا ہے اس کی بھی تیاری ہو رہی ہے۔ ہمارے راستے میں قرآن کریم کی اشاعت کے لیے اور پڑھنے کے لیے اور رکھنے کے لیے جتنی روکیں پاکستان میں کھڑی کی جا رہی ہیں اللہ تعالیٰ اتنے ہی زیادہ بہتر راستے ہمارے لیے کھولتا چلا جا رہا ہے۔

اس وقت رقیم پریس انگلستان کی نگرانی میں افریقہ کے آٹھ ممالک گھانا، نائیجیریا، تنزانیہ، سیرالیون، آئیوری کوسٹ، گیمبیا، برکینا فاسو اور بینن میں پریس کام کر رہے ہیں اور مشینری بھی ان کو مہیا کی گئی ہے اور ان کی کتب جو انہوں نے یہاں شائع کی ہیں ان کی تعداد چھ لاکھ بارہ ہزار سے اوپر ہے۔ اس کے علاوہ رسائل، اخبارات، تبلیغی لٹریچر، لیف لیٹس وغیرہ علیحدہ ہیں جن کی تعداد چورانوے لاکھ پچاسی ہزار ہے۔ اس دوران گیمبیا میں پرائیویٹ کاموں کے علاوہ وزارت صحت گیمبیا کے لیے بھی بڑی تعداد میں covidسے آگاہی کے لیے کچھ احتیاطی تدابیر پر مشتمل پمفلٹس پوسٹر وغیرہ چھاپنے کے لیے گورنمنٹ نے دیے کیونکہ باقی پریس بند تھے اس لیے حکومت نے ہمارے سے رابطے کر کے کہا کہ چھاپ دیں تو ان کی مدد کی گئی۔

وکالت اشاعت (طباعت) کا جو کام ہے 93 ممالک سے موصولہ رپورٹ کے مطابق 407 مختلف کتب، پمفلٹس اور فولڈرز وغیرہ 42زبانوں میں 42 لاکھ 56 ہزار 659کی تعداد میں طبع ہوئے اور ان میں مختلف ملک ہیں۔ اس کی لمبی فہرست ہے۔

مختلف ممالک میں مقامی طور پر جماعتی رسالوں کی اشاعت

اس وقت دنیا بھر میں 94تعلیمی تربیتی اور معلوماتی مضامین پر مشتمل اخبارات و رسائل شائع ہو رہے ہیں اور 29زبانوں میں اخبارات و رسائل شائع ہو رہے ہیں۔

رپورٹ وکالت اشاعت

وکالت اشاعت کی ترسیل کا ایک علیحدہ شعبہ ہے یہاں سے چوبیس زبانوں میں ایک لاکھ نوے ہزار سے زائد تعداد میں کتب دنیا کے مختلف ممالک کو بھجوائی گئیں۔ اس کے علاوہ مختلف ممالک میں 709 مختلف عناوین پر مشتمل کتب فولڈرزاور پمفلٹس 63 لاکھ 87ہزار کی تعداد میں مفت تقسیم کیے گئے اور ان کے ذریعہ دنیا بھر میں لکھوکھا لوگوں تک پیغام پہنچا۔

وکالت تصنیف یوکے

اس سال قرآن کریم کے Italianترجمے پر نظر ثانی کا کام مکمل ہوگیا ہے۔ اس کی فائل بھی طباعت کے لیے بھجوائی جا چکی ہے اور اس سال صحیح بخاری کے ترجمہ و شرح کی گیارہ جلدیں یوکے سے ترجمہ کروائی گئی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف ’اعجاز احمدی‘ کا انگریزی ترجمہ اس سال طبع کیا گیا ہے۔ ’اتمام الحجہ‘ اور ’جنگ مقدس‘ کے انگریزی ترجمےپر کارروائی مکمل ہو چکی ہے۔ ان شاء اللہ جلد یہ کتب بھی طباعت کے لیے بھجوا دی جائیں گی۔ روحانی خزائن کی جلد دہم کے علاوہ دیگر بائیس جلدوں کی انگلستان سے طباعت کی جا رہی ہے اور یہ دسویں جلد بھی ان شاء اللہ تعالیٰ شروع ہو جائے گی تو امید ہے تئیس کی تئیس جلدیں جلد آجائیں گی۔ 19ء اور 20ء کے دوران 36ممالک اور آٹھ ڈیسکس کی جانب سے موصولہ رپورٹ کے مطابق تینتیس زبانوں میں 154کتب، فولڈرز تیار کیے گئے جن میں انگریزی، سپینش، لیٹوین، لوگنڈا، فارسی، جرمن، برمیز، فرنچ، ہاؤسا، عربی، سواحیلی، انڈونیشین، اردو، چائنیز، برونڈی، منڈیکا، میسی ڈونین، ٹونگا، پرتگیزی، عبرانی، ڈچ، کروشین، فولا، بیمبا، لوزی، البانین، رشین، بنگلہ، یوروبا، وولف، نیانجا، تھائی، نارویجئن وغیرہ شامل ہیں۔

یوکرین سے ایک دوست ایگرو میتروک صاحب جو گذشتہ سال جلسے پر آئے تھے۔ جب شامل ہوئے تھے تو احمدی نہیں تھے لیکن جب جلسے پر آئے تو عالمی بیعت میں شامل ہو کر بیعت کر لی۔ بہت اچھے تجزیہ نگار ہیں، تبصرہ نگار ہیں، علم الادیان کے ماہر ہیں۔ جب یہاں آئے تو میرے سے ان کی ملاقات بھی ہوئی تھی اور ان کو مَیں نے کہا تھا کہ ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ کا مطالعہ کریں۔ آپ پڑھے لکھے آدمی ہیں اور پھر اپنا تبصرہ کریں۔ چنانچہ یہ کہتے ہیں کہ واپس آ کر مَیں نے کتاب کا مطالعہ شروع کیا تو ایک ہی دفعہ میں ساری کتاب مکمل کر لی۔ کہتے ہیں کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد مجھے علم ہوا کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام صرف ایک مذہبی لیڈر ہی نہیں تھے بلکہ علم الادیان کے ایک بہت بڑے محقق بھی تھے۔ کہتے ہیں میں نے اپنی زندگی میں بہت سی کتب کے بارے میں اپنی رائے لکھی ہے لیکن میں نے کبھی یہ محسوس نہیں کیا کہ ان کتب سے کوئی نئی چیز پائی ہے لیکن ’اسلامی اصول کی فلاسفی‘ کے مطالعہ سے میرے علم میں بےحد اضافہ ہوا ہے۔ اس کتاب پر یہ تبصرہ صرف عقل کے ترازو پر نہیں بلکہ اپنے دل اور روح کے آئینے سے گزار کر لکھ رہا ہوں۔

پھر کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تجدید اسلام اور امت مسلمہ کی اصلاح کی خاطر خاص زور دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی مذہب کی تجدید ایک نہایت اہم امر ہے۔ اس حوالے سے اگر ہم قرونِ وسطیٰ کی طرف نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ یورپ میں اصلاحات کا عمل شروع ہونے سے پہلے عیسائیت میں ایمان اور یقین کا بہت بڑا بحران پیدا ہو چکا تھا اور جب تک مسیح موعود مبعوث نہیں ہوئے اسلام کی بھی صورت ِحال ایسی ہی تھی۔

کہتے ہیں مجھے خاص طور پر وہ حصہ زیادہ پسند آیا جہاں ’طبعی حالتوں‘ اور ’اخلاق‘ کا مفہوم سمجھایا گیا ہے۔ ہمارے لیے نہایت ضروری ہے کہ ہم اپنی تخلیق کے اصل مقصد اور خدا تعالیٰ کی تخلیق کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کی قدر کریں۔ اسی طرح اپنے اخلاقیات اور اس کی بنیاد کو بھی سمجھنے کی کوشش کریں۔ ہم اکثر بھول جاتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں وہ ذرائع جو انسان کو سچائی کے راستے سے دور لے جاتے ہیں بہت زیادہ ہو گئے ہیں اس لیے بہت ضروری ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی قدر کریں۔

پھر کہتے ہیں کہ اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے آپ کے وہ الفاظ یاد آگئے جو آخری خطاب میں کہے تھے۔ میں نے کہا تھا اس میں کہ اسلامی دنیا میں قائم اسلام کے بارے میں غلط تصور کی اصلاح کی اور پھر اپنی جماعت کی بھی اصلاح کی۔ تو میرا حوالہ دے کر یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اسلامی دنیا میں قائم اسلام کے بارے میں غلط تصور کی اصلاح کی اور پھر جماعت کی اصلاح کی طرف توجہ دلائی تھی اور وہ الفاظ میرے ذہن میں آرہے ہیں۔ کہتے ہیں جب ہم میں سے ہر ایک اپنے اہل خانہ اپنے ماحول اور اپنے ملک کی اصلاح کرے گا تو اس کے نتیجے میں وہ اس قابل ہو سکے گا کہ دنیا کی ایمانی حالت کی اصلاح کر سکے۔

پھر کہتے ہیں مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے ’طبعی حالتوں‘ اور ’اخلاق‘ کی یہ تشریح بیان کر کے علم الادیان میں علم کا ایک نیا باب کھولا ہے اور میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سب سے پہلے یہ اصطلاحات استعمال کی ہیں اور ان کو بہت ہی اعلیٰ اور مقدس طریق پر سمجھایا ہے۔

پھر کہتے ہیں بحیثیت ماہر علم الادیان اور فلسفی مجھے اس کتاب کے مطالعے سے بہت لطف آیا۔ اس لیے میرا مشورہ ہے کہ جماعت احمدیہ اس کتاب کو کثیر تعداد میں شائع کرے اور مختلف زبانوں میں اس کے تراجم بھی کرے تا کہ لوگ اس کتاب کے مطالعہ سے زیادہ سے زیادہ مذہب، ایمان اور حقیقی سچائی کے بارے میں جان سکیں۔

نیپال میں ایک پروفیسر صاحب تھے ان کو جب میرے مختلف لیکچرز جو World Crisis and The Pathway to Peace میں اکٹھے کیے گئے ہیں وہ ان کو تحفہ دی گئی تو کہتے ہیں کہ یہ کتاب اس وقت کے حالات کے لحاظ سے بہت عمدہ ہے۔ اس کتاب کے کئی پیراگراف اور سطروں پر انہوں نے نشان لگائے ہوئے تھے۔ کہنے لگے کہ مَیں ان اقتباسات کو ہائی لائٹ کرنا چاہتا تھا کیونکہ ان باتوں کو دنیا میں فروغ دینے کی بہت ضرورت ہے اور ساری دنیا کے لیے کئی سنہرے اصول اس میں بتائے گئے ہیں۔ موصوف نے کہا کہ یہ کتاب بہت اچھی لگی ہے اور میں اپنے دوستوں کو بھی یہ کتاب مطالعہ کے لیے دوں گا۔

پھر نیپال کے ایک اور پروفیسر ڈاکٹر گووندا (Dr. Govinda) ہیں وہ بھی تبصرہ کرتے ہیں کہ مَیں نے اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے اور آج جبکہ ساری دنیا میں میڈیا کی وجہ سے مسلمانوں کو غلط رنگ سے پیش کیا جاتا ہے ایسے میں ایک مسلم لیڈر کا ساری دنیا میں امن کے قیام کے لیے کوشش کرنا غیر مسلموں کے لیے بہت حیران کن ہے۔ اور پھر کہتے ہیں کہ دنیا میں مسلمانوں کے تہتر فرقے ہیں اور اسرائیل کے ساتھ ان کی مذہبی اور سیاسی دشمنی بھی ہے۔ ان حالات میں ایک مسلم سربراہ کی جانب سے امن عالَم کے قیام کے لیے وہاں کے وزیر اعظم کو چٹھی لکھنا نہایت ہی ہمت کی بات ہے۔ اور اسی طرح جماعت احمدیہ کے خلیفہ نے ایران کے وزیر اعظم کو بھی ان کے حوالے سے چٹھی لکھی ہے جس سے میں بہت متاثر ہوا ہوں۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ ’عالمی بحران اور امن کی راہ‘ کتاب کا مطالعہ کرنے سے غیرمسلموں کو اسلام کے امن کے پیغام کو جاننے اور سمجھنے میں بہت مدد ملے گی۔ جماعت احمدیہ دوسرے مسلمان فرقوں کی نسبت امن کے حوالے سے دنیا میں اپنی بات پیش کرتی ہے اور جماعت احمدیہ کے قول کے مطابق قرآن مجید کی تعلیمات پر عمل کرنے سے ہی دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے اور یقینا ًاس بات کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔

پھر ایک دوست نیپال میں ایک بک سٹال پرآئے۔ یہ کتاب دیکھ کے اس تعلق سے کہنے لگے کہ اس کتاب میں یہ جو سوال اٹھایا گیا ہے کہ اسلام جنگ کی اجازت کیوں اور کب دیتا ہے؟ کہنے لگے کہ یہ بہت اہم سوال ہے جس کا مَیں بڑے عرصے سے جواب ڈھونڈ رہا تھا اور آج مجھے جواب ملا ہے۔

پھر جھاڑکھنڈ انڈیا میں ایک بک فیئر پہ ایک صاحب آئے۔ اسلام کے بارے میں بڑے متعصبانہ نظریات رکھتے تھے۔ آتے ہی اسلام اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر مختلف قسم کے اعتراضات شروع کر دیے۔ انہوں نے سب اسلام مخالف کتب پڑھی ہوئی تھیں جس کی وجہ سے اعتراض کر رہے تھے۔ جب ان کو اسلام کی حقیقی تعلیم بتائی گئی تو وہ بہت متاثر ہوئے اور کہنے لگے کہ آج تک مجھے صحیح اسلام کے بارے میں علم ہی نہیں تھا۔ اب میں آپ کے لٹریچر کامطالعہ کروں گا۔ چنانچہ موصوف کو کتابیں دی گئیں اور خاص طور پر یہ عالمی بحران والی کتاب۔ چنانچہ یہ دوست اگلے دن آئے اور کہا کہ مَیں نے یہ کتاب Pathway to Peaceکا کچھ حصہ پڑھا ہے اور بہت اچھی لگی ہے اور اس سے میرے ذہن میں موجود کافی اعتراض دور ہو گئے ہیں۔ اب موصوف مستقل رابطے میں ہیں۔

اسی طرح مبلغ سلسلہ کری باتی (Kiribati) لکھتے ہیں کہ یہاں کے لوگوں میں یہ بات سمجھی جاتی تھی کہ ہر مسلمان دوسروں کو قتل کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے لیکن اب کئی لوگوں کو پتہ ہے کہ یہ بات غلط ہے۔ یہاں تک کہ صدر مملکت سے جب یہ مطالبہ کیا گیا اور اعتراض کیا گیا کہ مسلمانوں کو ملک کے اندر کیوں آنے دیا ہے؟ ان لوگوں کو فوری طور پر نکال دینا چاہیے۔ اس پر صدر مملکت نے کہا کہ مَیں نے قرآن کریم پڑھا ہے اور اسلام ایک پُرامن مذہب ہے اور میں ان کو کبھی یہاں سے نہیں نکالوں گا۔ الحمدللہ۔ صدر مملکت کے ساتھ چند ملاقاتوں میں ان کو اسلام کی سچی تعلیمات سے آگاہ کیا گیا تھا۔ اس وقت صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جو اس ملک میں اسلام کی تعلیمات پھیلا رہی ہے۔

پھر شیانگا ریجن (تنزانیہ) کے دورے کے دوران ریجنل مبلغ کہتے ہیں وہاں کے چیئرمین سے ملاقات ہوئی۔ وہ سمجھدار اور معقول آدمی نظر آیا لیکن لادین تھا۔ کہتے ہیں میں نے ان کو خدا کو ماننے اور مذہب کی ضرورت کے بارے میں بتایا۔ گفتگو کے دوران اس نے کہا کہ میںمعاشرے میں باعزت عہدے پہ ہوں۔ گھر میری دو بیویاں بھی ہیں۔ اولاد بھی ہے۔ میری زندگی خدا کو تسلیم کیے بغیر اچھی گزر رہی ہے۔ مجھے خدا کو یا کسی مذہب کو ماننے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اس پر مبلغ سلسلہ نے ان کو حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہستی باری تعالیٰ کے بارے میں جو دلائل تھے اس کی مثالیں پیش کیں۔ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کی یہ دو کتابیں بڑی اچھی ہیں۔ ہر احمدی کو بھی پڑھنی چاہئیں۔ ان کو سننے کے بعد وہ کہنے لگے کہ میں اسلام احمدیت قبول کرنا چاہتا ہوں۔ اس پر مبلغ نے کہا کہ ابھی تو آپ مذہب کی ضرورت ہی سے انکار کر رہے تھے اور اسلام احمدیت قبول کرنے کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔ اس پر کہنے لگا کہ آپ کی باتوں سے میرا دل مطمئن ہو گیا ہے۔ اگر مذہب واقعۃ ًاسی طرح خدا کا تصور پیش کرتا ہے تو لازماً ہمیں اسے ماننا چاہیے۔ انہیں شرائط بیعت پڑھ کر سنائی گئیں اور وہ اپنے آٹھ بچوں سمیت احمدیت میں داخل ہو گئے۔ الحمد للہ باقاعدگی سے جمعےکی نماز پڑھنے آتے ہیںاور نظام سے مکمل رابطہ رکھے ہوئے ہیں۔

لیف لیٹس کی تقسیم کا منصوبہ تھا۔ اس سال 111 ممالک میں مجموعی طور پر 93لاکھ 57 ہزار سے زائد لیف لیٹس تقسیم کیے گئے جس کے ذریعے سے 2کروڑ 27 لاکھ افراد تک پیغام پہنچا۔ اس میں جرمنی نے سب سے زیادہ 25 لاکھ (تقسیم) کیے ہیں پھر یوکے کے 13 لاکھ ہیں۔ پھر آسٹریلیا 8 لاکھ ہے۔ پھر ہالینڈ 4 لاکھ۔ فرانس 3لاکھ۔ کینیڈا 3لاکھ اور اس طرح کئی باقی ممالک لاکھوں میں ہیں۔

افریقہ میں جو تقسیم ہوئے ان میں تنزانیہ سر فہرست ہے تقریباً 2لاکھ۔ پھر بینن ہے۔ ان کا بھی تقریباً اس کے برابر ہی ہے۔ پھر برکینا، نائیجر، نائیجیریا، کونگو کنشاسا وغیرہ ہیں۔ اس کے علاوہ انڈیا میں 4 لاکھ 46ہزار سے زیادہ فلائر زتقسیم کیے گئے۔

تنزانیہ کے مارا (Mara) ریجن کے معلم لکھتے ہیں کہ ایک گاؤں کے تین نوجوانوں نے جماعت کے پمفلٹس پڑھ کر بذریعہ فون رابطہ کیا اور جماعت کے بارے میں معلومات جاننے کا ارادہ ظاہر کیا۔ کچھ عرصہ زیر تبلیغ رہنے کے بعد انہوں نے اپنی فیملی سمیت بیعت کر لی اور اپنے گاؤں میں تبلیغ شروع کر دی۔ ان میں سے ایک نوجوان اس گاؤں کا چیئر مین بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں احمدیت کا پیغام گھر گھر پہنچ رہا ہے اور اب تک اس گاؤں میں 82افراد بیعت کر چکے ہیں۔ تبلیغ کے دوران مخالفت کا سامنا بھی ہوا۔ ایک دن ’’انصار السنہ‘‘ جماعت کا مولوی آیا اور لوگوں کے سامنے اونچی آواز میں جماعت کے خلاف بدزبانی شروع کر دی۔ لوگوں نے اسے خود چپ کروایا کہ ایسے شور شرابا کرنا مذہبی رہنماؤں کا شیوہ نہیں۔ اس پر اسے باقاعدہ طور پر علمی بحث اور جماعت احمدیہ کی تعلیمات پر غور کرنے کی دعوت دی گئی۔ جب دلائل سے لاجواب ہو گیا تو پھر بدزبانی پر اتر آیا۔ جماعت احمدیہ کی امن پسند تعلیمات اور اس واقعہ سے متاثر ہو کر ایک بزرگ نے اپنی زمین جماعت کو جمعہ پڑھنے کے لیے اور باجماعت نماز پڑھنے کے لیے دے دی۔ اس طرح بہت سے غیر از جماعت بچے بھی ہماری تربیتی کلاسز میں شامل ہو رہے ہیں۔ ان کی مخالفت ہی خود تبلیغ کا ذریعہ بن رہی ہے۔

فرانس کی ایک جماعت کے صدر لکھتے ہیں کہ تولوس (Toulouse)شہر کے سینٹر میں لگنے والے اتوار بازار میں لیف لیٹنگ کر رہے تھے کہ ایک ادھیڑ عمر کی عورت آئی اور مسکراتے ہوئے بتایا کہ آپ لوگوں نے مجھے وطن سے محبت اور پردے کے بارے میں جو لیف لیٹس دیے تھے مَیں نے ان سب کا مطالعہ کیا ہے اور مجھے پڑھ کر بہت اچھا لگا ہے۔ آج کل ان تعلیمات کی بہت ضرورت ہے۔ اور یہ بھی پوچھا کہ آپ لوگوں کو کتنے پیسے ملتے ہیں؟ جب بتایا کہ ہم تو صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر یہ کام کر رہے ہیں تو بڑی متاثر ہوئی۔

نمائشیں ، بک سٹالز اور بک فیئرز

قرآن مجید اور جماعتی لٹریچر کی نمائشوں کا اہتمام کیا گیا۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق سات ہزار پانچ سو چالیس نمائشوں کے ذریعے 3 لاکھ 43ہزار سے زائد افراد تک اسلام کا پیغام پہنچا۔ اس سال دنیا بھر میں 1580کی تعداد میں قرآن کریم کے مختلف تراجم تحفةً مہمانوں کو دیے گئے۔ اس کے علاوہ 5ہزار سے زائد بک سٹالز اور بک فیئرز کے ذریعے 7لاکھ 64ہزار سے زائد افراد تک پیغام پہنچانے کی توفیق ملی۔

مبلغ لٹویا (Latvia)لکھتے ہیں کہ ہمارے بک سٹال پر ایک بڑی عمر کا آدمی آیا اور سٹال کے اندر آ گیا۔ وہاں میری تصویر کے ساتھ رول (Roll)چل رہا تھا اور اس پر مختلف اسلامی باتیں لکھی ہوئی تھیں۔ ان کو پڑھتا جاتا تھا۔ اس سکرول پر پٹی چل رہی تھی۔ پھر ہر بات پر انگلی کے اشارے سے اور ساتھ ہی رشین زبان میں کہتا تھا کہ ’’زبردست ہے اور بالکل صحیح ہے۔‘‘ اسی طرح دو عورتیں آئیں انہوں نے دیباچہ تفسیر القرآن اور کچھ دوسری کتابیں لیں اور بڑی تعریف کی کہ آپ لوگ بڑا اچھا کام کر رہے ہیں۔

دسمبر 2019ء میں شعبہ نور الاسلام بھارت کی طرف سے ایک بک فیئر میں حصہ لیا گیا۔ اس میں وہاں ایک بہت بڑے ہندو سکالر آچاریہ صاحب آئے جو مذہب کے بارے میں بڑی وسیع معلومات رکھتے ہیں، سکول بھی چلاتے ہیں۔ اور آ کر کھڑے ہو گئے اور چند منٹوں کے بعد قرآن کریم پر اعتراض کر دیا۔ کہنے لگے قرآن کریم اور اسلام مسلمانوں کے علاوہ تمام لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ ان سے کہا گیا کہ قرآن کریم آپ کے سامنے ہے آپ بتا دیں کس جگہ پر ایسا حکم ہے۔ اس پر کہنے لگے کہ مَیں نے سارا قرآن پڑھا ہوا ہے اور کسی مقام پر یہ حکم ہے اس کا اس وقت مجھے علم نہیں ہے۔ چنانچہ ان کے سامنے قرآن کریم کی تعلیمات اور غیروں کے ساتھ اسلام کی حسن سلوک کی تعلیم اور اسوۂ رسولؐ پیش کیا گیا۔ چند منٹ اسلامی تعلیمات سننے کے بعد موصوف کہنے لگے کہ مَیں سٹال کے اندر بیٹھ کر اسلام اور قرآن کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ موصوف کو تقریباً دو گھنٹے تک ان کے تمام سوالات اور اعتراضات کے تسلی بخش جوابات دیے گئے۔ اس پر انہوں نے برملا اظہار کیا کہ میں نے آج تک ایسے تسلی بخش جوابات نہیں سنے۔ میں اسلام کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے بےشمار علماء کے پاس گیا ہوں اور دربدر گھوما ہوں لیکن علماء میرے سوالات کے اس طرح جواب دیتے تھے کہ میرے اندر اسلام اور قرآن سے ہمدردی کے بجائے نفرت اور زہر بھرتا گیا اور میرے اندر اس قدر نفرت اور زہر بھر دیا گیا کہ ہم سب نے مل کر یہ فیصلہ کیا (ان کے جو دوست تھے)کہ اسلام کے خلاف ایک ٹی وی چینل کھولا جائے۔ چنانچہ ہم نے اس بارے میں کام شروع کر دیا اور کچھ ریکارڈنگ بھی باقاعدہ طور پر شروع کر دی لیکن اب آپ لوگوں نے میری دنیا ہی بدل دی ہے۔ اور موصوف بہت زیادہ متاثر ہوئے اور جاتے ہوئے وعدہ کر کے گئے کہ میں آج کے بعد اسلام اور قرآن کریم کی مخالفت میں کچھ نہیں کہوں گا اور اسلام اور قرآن کے بارے میں جو بھی ریکارڈنگ ہے جو اب تک پروگراموں میں مَیں نے کروائی ہے اس کو بھی نشر نہیں کیا جائے گا بلکہ اسلام اور قرآن کی تعلیم پیش کی جائے گی۔ یہ حقیقی تصویر دکھا کر جماعت احمدیہ دشمنوں کو بھی اسلام کی خوبصورت تعلیم کا قائل کر رہی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام اور اسوے کا صحیح ادراک دے رہی ہے۔ اور یہ نام نہاد علماء جو خود کو اسلام کے ٹھیکیدار سمجھتے ہیں یہ دوسروں کو اسلام سے اور قرآن کریم سے متنفر کر رہے ہیں اور پھر ہمارے خلاف ہی باتیں۔

آگرہ بک فیئر کے موقعےپر لوکل اخبار ’’اگر بھارت‘‘ کے رپورٹر ہمارے سٹال پہ آئے۔ ان سے گفتگو ہوئی۔ موصوف نے بے ساختہ امت کی حالتِ زار کا اظہار کیا جس پر انہیں جماعت احمدیہ کے ذریعے کی جانے والی اسلامی خدمات کے بارے میں بتایا گیا تو بہت متاثر ہوئے اور اس کام میں ہماری ہر قسم کی اعانت کا وعدہ کیا۔ موصوف نے اپنے روابط کے ذریعہ ہمارے پیغام کو دیگر تین نیوز چینل میں بھی نشر کروایا جس کے ذریعے لاکھوں افراد تک جماعت احمدیہ کا پیغام پہنچا۔

آسام میں منعقدہ بک فیئر کے دوران آفتاب احمد چوہدری جو پی ایچ ڈی ہیں اور حافظ قرآن بھی ہیں انہیں جماعت کا تعارف کرایا گیا۔ تفصیلی گفتگو ہوئی۔ دوران گفتگو ان کو وفات مسیح پر جماعتی عقائد سے متعارف کرایا گیا۔ قرآن مجید سے ہی وفات مسیح کو پیش کیا گیا۔ اس پر کہنے لگے کہ بےشک مَیں حافظ قرآن ہوں لیکن مَیں نے کبھی اس طرف خیال بھی نہیں کیا تھا۔ آپ لوگوں نے میری آنکھیں کھول دی ہیں۔ میں اخباروں میں بھی آرٹیکل وغیرہ لکھتا ہوں تو اب میں ان شاء اللہ یہ تمام آیات حوالہ کے ساتھ اخباروں میں شائع کروں گا چاہے آسام کے تمام مسلمان میرے مخالف کیوں نہ ہو جائیں۔

پیس سمپوزیئم سوئٹزر لینڈ کے موقعے پر ایک پادری ’مِشل فِشر‘ صاحب ہیں۔ ایک فلاحی تنظیم کے سربراہ ہیں۔ ان کو امن کا ایک ایوارڈ دیا گیا تھا ۔کہنے لگے کہ میں جماعتِ احمدیہ کا ایوارڈ دینے کے لیے تہِ دل سے شکر گزار ہوں۔ میں حیران ہوں کہ ایک مسلمان جماعت ایک عیسائی تنظیم کو فلاحی خدمات پر انعام دے رہی ہے اور یہ انعام اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ آپ صرف امن کی بات نہیں کرتے بلکہ امن قائم کر کے دکھا رہے ہیں اور ایک درخت اس کے پھلوں سے پہچانا جاتا ہے اور جس کا پھل آپ کے یہ پیس سمپوزیم ہیں۔

پھر زیمبیا کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ پیس سمپوزیم میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہوئے جن میں پولیس افسر، لوکل کورٹ کے جج، مختلف چرچوں کے پادری اور دیگر نمائندگان تھے۔ سکولوں کے اساتذہ تھے، لوکل میڈیا کے نمائندے تھے، ممبر آف پارلیمنٹ کے نمائندے تھے اور قریبی غیر از جماعت مسجد کے معلم شامل تھے۔ تو ایک چرچ کے پاسٹر صاحب نے اپنے خیالات کا اظہار کیا کہ ہم کافی عرصے سے ایسا پروگرام کرنے کا سوچ رہے تھے لیکن جماعت احمدیہ یہ پروگرام کر کے ہم پر سبقت لے گئی ہے۔

چندی گڑھ میں پیس سمپوزیئم کے انعقاد پر ایک افغان دوست عبیداللہ کو جماعت کا تعارف کروایا گیا۔ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں بتایا گیاکہ آپؑ نے مسیح موعود اور مہدی معہود ہونے کا دعویٰ کیا ہے جس کی خوشخبری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی۔ جب افغان دوست کو یہ بتایا گیا اور کہا گیا کہ آپ غور کریں اور حالات دیکھیں کہ کیا یہ مسیح اور مہدی کے آنے کا وقت نہیں ہے؟ ان کا چہرہ سرخ ہو گیا، کانپنے لگے اور بار بار یہی کہتے رہے کہ کیا یہ سچ ہے کہ مسیح موعود آ گیاہے؟ اس کے بعد ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بتائی گئی تو بےحد جذباتی ہو کر ہمارے احمدی دوست کے ماتھے کو چوما اور کہا کہ اسلام کی حقیقی تعلیم یہی ہے جو آپ کے ذریعہ دنیا میں پیش کی جا رہی ہے۔

فن لینڈ سے وہاں کے نیشنل صدر صاحب لکھتے ہیں کہ وہاں پیس سمپوزیم کیا۔ فارن منسٹری کے ایک ایمبیسیڈر اور ڈپلومیٹ جو پاکستان میں فن لینڈ کے سفیر بھی رہ چکے ہیں وہ آئے۔ کہتے ہیں مجھے واقعی آپ کی باوقار تقریب میں شامل ہو کر بہت مسرت ہو رہی ہے۔ مَیں پاکستان اسلام آبادمیں 1995ء سے 1998ء تک رہا ہوں۔ فنش سفارت خانے کا سربراہ تھا۔ میرے ساتھ اس عرصے کی شاندار یادیں وابستہ ہیں۔ میرے اور میرے خاندان کے قریب ترین دوستوں میں احمدیہ کمیونٹی کے بہت سے ممتاز ارکان شامل ہیں۔ احمدیوں نے اس ملک اور اس کی سرحدوں سے بڑھ کر علم، فنون اور معاشی کامیابیوں میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ جب برطانیہ نے برصغیر پر حکومت کی تو اس سلطنت کے بہت سے معروف شہری اور فوجی شخصیات احمدیہ کمیونٹی سے تعلق رکھتے تھے۔ پھر کہتے ہیں کہ میں اٹلی میں بھی سفارت کار رہا ہوں۔ میں وہاں اٹلی میں ٹریسٹ میں واقع سائنس کی تیسری عالمی اکیڈمی سے واقف ہوا جس کا آغاز اور جس کی بنیاد پاکستانی جوہری سائنسدان عبدالسلام نے رکھی تھی اور نوبیل انعام حاصل کرنے والے کسی بھی اسلامی ملک کے پہلے سائنسدان تھے۔ کہتے ہیں جب اس نوبیل انعام کی خبر پھیلی تو پاکستان کے قومی اخبارات، ریڈیو، ٹی وی پر بہت پذیرائی ہوئی، بڑی ان کی عزت افزائی ہوئی۔ لیکن بہت جلد جب یہ معلوم ہو گیا کہ وہ ایک احمدی ہیں تو تمام تعریف اور تشہیر رک گئی۔ پھر کہتے ہیں 1996ء میں جب ان کا انتقال ہوا تو ان کو پاکستانی پنجاب کے شہر ربوہ میں دفنایا گیا اور پھر ایک شرم کی بات یہ ہے کہ ان کے کتبہ پر لفظ ’مسلمان‘ مٹا دیا گیا۔بہرحال انہوں نے پرسیکیوشن کا سارا ذکر کیا۔

بہرحال آج کل تو تاریخ کی کتابیں بدلی جا رہی ہیں اور بچوں کے ذہنوں سے حقیقی تاریخ کو مٹایا جا رہا ہے۔ ہم چاہے کچھ کہیں یا نہ کہیں دنیا کا پڑھا لکھا طبقہ خود جانتا ہے کہ جماعت احمدیہ نے پاکستان کے لیے کیا خدمات سرانجام دی تھیں اور اس وقت کیا سلوک احمدیوں کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ جو پاکستان کے بننے کے مخالف تھے وہی لوگ آج اس کے نام نہاد بانی بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بہرحال ہر پاکستانی احمدی ملک کا وفادار ہے، وفادار تھا اور وفادار رہے گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ان مخالفین کی کوششیں امید ہے ان شاء اللہ تعالیٰ ایک دن ہوا میں اڑ جائیں گی اور اللہ تعالیٰ کی تائید اِن شاء اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہو گی اور اب بھی ہے۔ جتنی یہ کوششیں کر رہے ہیں اس کے مقابلے میں ان کے خیال میں تو اب تک جماعت کو ختم کر دینا چاہیے تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے جماعت کو سنبھالا ہوا ہے۔

بہرحال یہ رپورٹ کے واقعات جو میں نے سنائے ہیں یہ ایک حصہ ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہا یہ رپورٹ جلسے کے دوسرے دن بیان کی جاتی ہے۔ اس سال کیونکہ جلسہ نہیں ہو رہا جیسا کہ مَیں پہلے بیان کر چکا ہوں تو میں نے سوچا تھا کہ دو قسطوں میں اس کو بیان کر دوں گا۔ چنانچہ پروگرام بنایا گیا ہےکہ ان شاء اللہ تعالیٰ اتوار کو شام کو چار بجے مختصر gathering کے سامنے، سامعین کے سامنے جلسےکی طرز پر یہاں ہال میں مَیں بقایا حصہ بھی بیان کر دوں گا۔ ان شاء اللہ اور جہاں سے ساری دنیا ایم ٹی اے کے ذریعےسن لے گی اور ان افضال کا جو دورانِ سال اللہ تعالیٰ نے جماعت پر کیے ان کا ذکر ہو جائے گا۔

اس رپورٹ میں سے بھی بہرحال مجھے بہت سارے واقعات نکالنے پڑے ہیں، باتیں نکالنی پڑی ہیں تو ان شاء اللہ بقایا اتوار کو پیش کروں گا۔

(الفضل انٹر نیشنل 28اگست2020ءصفحہ 5تا11)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button