متفرق مضامین

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدائی تائید ونصرت کے چند واقعات

(ابوظہیر)

قارئین کرام الفضل انٹرنیشنل کی خدمت میں، حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی خدائی تائید ونصرت کے کچھ نہایت ایمان افروز واقعات پیش کیے جارہے ہیں ۔ یہ ان خوش نصیب احباب کِرام کے واقعات ہیں جن کو حضور اقدسؑ سے پہلے شدید نفرت و عداوت تھی مگر جب حضورؑ سے ملاقات ہوئی اور چہرۂ پُرانوار پر نظر پڑی تو بے اختیار بیعت کرلی اور آپ کے حلقہ بگوش ہوگئے۔

بارہویں صدی کے مجّدد حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محّدث دہلویؒ فرماتے ہیں کہ

’’حَقٌّ لَّهٗ اَنْ یَّنْعَکِسَ فِیْه اَنْوَارُ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ‘‘

(الخیر الکثیر صفہ72 مطبوعہ بجنور مدینہ پریس)

کہ مسیح موعود کا حق ہوگا کہ اُس میں سیّدالمرسلین(ﷺ) کے انوار منعکس ہوں ۔

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کواللہ تعالیٰ نے الہاماً فریایا:

کُلُّ بَرَکَۃٍ مِّنْ مُّحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ

کہ تمام برکتیں تجھے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلّم سے ملی ہیں ۔ آپؑ اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں فرماتے ہیں کہ

اللہ تعالیٰ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلّم کو’’تمام انبیاء اور تمام اوّلین وآخرین پرفضیلت بخشی اور اُس کی مرادیں اُس کی زندگی میں اُس کو دیں ۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہرایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیراقرار افاضہ اُس کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ انسان نہیں بلکہ ذُرِّیّتِ شیطان ہے کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اُس کو دی گئی ہے اور ہرایک معرفت کا خزانہ اُس کوعطا کیا گیا ہے۔ جو اُس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محرومِ ازلی ہے۔ ‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ119)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام، رسول کریم سید الانبیاء، امام المرسلین اور خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کواپنی کتاب براہین احمدیہ میں ’’جامع البرکات‘‘ اور’’مجمعُ الانوار‘‘ قراردیتے ہیں ۔

خاکساراپنی اس تمہیدی عبارت کو رسول کریم ﷺ کی مدح میں کہے گئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درج ذیل وجد آفرین اور والہانہ و عاشقانہ اشعار پر ختم کرتا ہے ؎

جب سے یہ نور ملا نور پیمبر سے ہمیں

ذات سے حق کے وجود اپنا ملایا ہم نے

مصطفیٰؐ پر ترا بےحد ہو سلام اور رحمت

اس سے یہ نور لیا بارِ خدایا ہم نے

ہم ہوئے خیرِامم تجھ سے ہی اے خیر رسلؐ

تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5صفحہ 225-226)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے فرماتے ہیں :

’’غالباً 16۔ 1915ءکی بات ہے کہ قادیان میں آل انڈیا ینگ مین کرسچین ایسوسی ایشن کے سیکرٹری مسڑایچ۔ اے۔ والٹرتشریف لائے۔ ان کے ساتھ لاہورکے ایف۔ سی کالج کے وائس پرنسپل مسٹرلوکاس بھی تھے۔ مسٹروالٹرایک کٹرمسیحی تھے اور سلسلہ احمدیہ کے متعلق ایک کتاب لکھ کر شائع کرنا چاہتے تھے۔ جب وہ قادیان آئے تو حضرت خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سے ملے اور تحریک احمدیت کے متعلق بہت سے سوالات کرتے رہے اور دورانِ گفتگو میں کچھ بحث کا رنگ بھی پیدا ہوگیا تھا۔ اِس کے بعد انہوں نے قادیان کے مختلف ادارہ جات کا معائنہ کیا اور بالآخرمسٹر والٹر نے خواہش ظاہر کی کہ میں بانی سلسلہ احمدیہ کے کسی پُرانے صحبت یافتہ عقیدت مند کودیکھنا چاہتا ہوں ۔ چنانچہ قادیان کی مسجد مبارک میں حضرت مسیح موعود علیه السلام کے ایک قدیم اور فدائی صحابی منشی محمد اروڑا صاحب سے اُن کی ملاقات کروائی گئی۔ اُس وقت منشی صاحب مرحوم نماز کے انتظار میں مسجد میں تشریف رکھتے تھے۔ رسمی تعارف کے بعد مسٹر والٹر نے منشی صاحب موصوف سے دریافت کیا کہ

’’آپ مرزا صاحب کو کب سے جانتے ہیں اور آپ نے اُن کوکِس دلیل سے مانا اور اُن کی کِس بات نے آپ پر زیادہ اثر کیا۔ ‘‘

منشی صاحب نے جواب میں بڑی سادگی سے فرمایا:

’’میں مرزا صاحب کو اُن کے دعویٰ سے پہلے کا جانتا ہوں میں نے ایسا پاک اور نورانی انسان کوئی نہیں دیکھا۔ اُن کا نُوراوراُن کی مقناطیسی شخصیت ہی میرے لئے اُن کی سب سے بڑی دلیل تھی۔ ہم تو اُن کے مُنہ کے بھوکے تھے۔ ‘‘

یہ کہہ کر حضرت منشی صاحب حضرت مسیح موعودؑ کی یاد میں بے چین ہو کر اِس طرح رونے لگے کہ جیسے ایک بچّہ اپنی ماں کی جُدائی میں بِلک بِلک کرروتا ہے۔ اُس وقت مسڑوالٹر کا یہ حال تھا کہ یہ نظّارہ دیکھ کر اُن کا رنگ سفید پڑگیا تھا اور وہ محوِ حیرت ہو کرمنشی صاحب موصوف کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہے اور اُن کے دِل میں منشی صاحب کی اِس سادہ سی بات کا اتنا اثرتھا کہ بعد میں انہوں نے اپنی کتاب ’’ احمدیہ مُوومنٹ‘‘میں اِس واقعہ کاخاص طورپرذکر کیا اور لکھا کہ ’’مرزاصاحب کوہم غلطی خوردہ کہہ سکتے ہیں مگر جس شخص کی صحبت نے اپنے مریدوں پر ایسا گہرا اثرپیدا کیا ہے اُسے ہم دھوکے باز ہرگز نہیں کہہ سکتے۔ ‘‘

(احمدیہ موومنٹ مصنّفہ مسٹرایچ۔ اےوالٹر)

(سیرت طیبہ صفحہ140تا141)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ، حضرت سید سرور شاہ صاحب ؓکا بیان کردہ ایک شخص کی بیعت کا واقعہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شدید بغض اور تعصب رکھتا تھا بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بزرگ صحابی اور جماعت احمدیہ کے ایک جید عالم تھے فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ مردان کا ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اوّلؓ کی طِب کا شہرہ سُن کر آپ سے علاج کروانے کی غرض سے قادیان آیا۔ یہ شخص حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سخت ترین دشمن تھا اور بمشکل قادیان آنے پر رضا مند ہوا تھا۔ اور اُس نے قادیان آکر اپنی رہائش کے لئے مکان بھی احمدی محلّہ سے باہر لیا۔ جب حضرت خلیفۂ اوّل رضی اللہ عنہ کے علاج سے اُسے خدا کے فضل سے افاقہ ہوگیا اور وہ اپنے وطن واپس جانے کے لئے تیار ہوا تو اُس کے ایک احمدی دوست نے اُسے کہا کہ تم نے حضرت مسیح موعود کو تو دیکھنا پسند نہیں کیا مگرہماری مسجد تو دیکھتے جاؤ۔ وہ اِس بات کے لئے رضا مند ہو گیا مگر یہ شرط کی کہ مجھے ایسے وقت میں قادیان کی مسجد مبارک دکھاؤ کہ جب مرزا صاحب مسجد میں نہ ہوں چنانچہ یہ صاحب اُسے ایسے وقت میں قادیان کی مسجد مبارک دکھانے کے لئے لے گئے کہ جب نماز کا وقت نہیں تھا اور مسجد خالی تھی۔ مگر قدرتِ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اِدھر یہ شخص مسجد میں داخل ہُوا اور اُدھر حضرت مسیح موعودؑ کے مکان کی کھڑکی کھلی اور حضور کسی کام کے تعلق میں اچانک مسجد تشریف لے آئے۔ جب اس شخص کی نظر حضرت مسیح موعود پر پڑی تو وہ حضور کا نورانی چہرہ دیکھتے ہی بےتاب ہو کر حضور کے قدموں میں آگِرا اور اُسی وقت بیعت کرلی۔ ‘‘

(سیرۃالمہدی حصّہ اوّل روایت نمبر 73 جلد 1صفحہ 54۔ سیرت طیبہ صفحہ 130)

اس واقعہ پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد رضی اللہ عنہ نے جو بصیرت افروز تبصرہ اور تجزیہ فرمایا ہے وہ بھی افادۂ عام کے لیے درج ذیل ہے۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ صاحبؓ فرماتے ہیں :

’’اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ہرحال میں ہر شخص اِسی قسم کا اثر قبول کرتا ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتو کوئی شخص بھی صداقت کا منکر نہیں رہ سکتا۔ بلکہ یہ خاص حالات کی باتیں ہیں جب کہ ایک طرف کسی نبی یا ولی کے چہرہ پرخاص انوارِالٰہی کا نزول ہورہا ہو اور اُس کی قوّتِ مُتاثّرہ پوری طرح بیدار ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت ﷺ کو آپ کی پہلی آواز پر ہی قبول کر لیا اور لبّیک لبّیک کہتے ہوئے آپ کے قدموں میں آگرے اور خُدائی رحمت کے طالب ہوئے وہاں ابوجہل ایک ہی شہر میں پہلو بہ پہلو رہتے ہوئے آخروقت تک آپکی مخالفت پر جما رہا اور عذاب کے نشان کا طالب ہو کر یہی کہتا ہؤا مرگیا کہ اگر تُو سچا ہے توہم پرآسمان سے پتّھروں کی بارش برسا۔ اِس سے ظاہرہے کہ اگر انسان کی اپنی آنکھیں بند ہوں تو اس کے لئے سُورج کی روشنی بھی بیکار ہو کر رہ جاتی ہے۔

حافظ شیرازی نے کیا خوب کہا ہے کہ

حسن زبصرہ، بلال از حبش، صہیب ازروم

زخاکِ مکّہ ابوجہل، ایں چہ بُوالعجبی ست

’’یعنی یہ عجیب قدرتِ خداوندی ہے کہ حسن نے بصرہ سے آکر اور بلال نے حبشہ میں پیدا ہوکر اور صہیب نے روم سے اُٹھ کر رسول پاک کو قبول کر لیا مگر ابوجہل مکّہ کی خاک میں جنم لینے کے باوجود صداقت سے محروم رہا!‘‘

پس جو لوگ خدائی نُور سے منوّرہوناچاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ اپنی آنکھیں ہمیشہ کھلی رکھیں ورنہ ہزار سُورج کی روشنی بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ ‘‘

(سیرت طیبہ صفحہ 131-132)

بیعت مولوی غلام نبی صاحب خوشابیؓ

حضرت مولوی غلام نبی صاحب ساکن خوشاب ضلع بھیرہ 29؍مئی 1891ء کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے مشرف ہوئے۔ آپ کی بیعت کا محیرالعقول واقعہ حضور علیہ السلام کی قوتِ قدسیّہ اور الٰہی تائید ونصرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ چنانچہ اس واقعہ کی تفصیل اصحاب احمد جلد دہم (حصہ اوّل و حصہ دوم) مؤلفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم اے سے درج ذیل ہے:

منشی حبیب الرحمٰن صاحب نے بواسطہ شیخ عبدالرحمٰن صاحب بیان کیا کہ

ایک دفعہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے عرصہ قیام لدھیانہ میں مَیں بھی حضورؑ کے قدموں میں حاضر تھا۔ وہاں بڑی مخالفت ہوئی۔ ایک مولوی اپنے عناد کی وجہ سے ہرہر گلی میں تھوڑی تھوڑی دور آپ کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا تھا۔ ایک روز وہ اس کوچہ میں بھی آگیا۔ جس میں حضور کا قیام تھا۔ اس مکان کی بیٹھک سڑک کے کنارہ پر تھی اور زنانہ حصّہ مکان عقب میں تھا۔ اورزنانہ حصہ سے بیٹھک کے اندر جانے کے لئے سڑک پر سے گزرنا ہوتا تھا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ جب وہ مولوی اس کوچہ میں باتیں کر رہا تھا تو حضور عقبی حصہ مکان سے بیٹھک کی طرف تشریف لارہے تھے۔ جب اس مولوی نے برکاتِ انوارِالہٰیہ سےروشن حضور کے روئے مبارک کو دیکھا تو تاب نہ لاسکا اورایسا معجزانہ تصرف الٰہی ہوا کہ یا تو وہ حضور کے برخلاف کئی روز سے بول رہا تھا۔ یا حضور کا مبارک چہرہ دیکھتے ہی فوراً حضور پُرنور کی طرف لپکا اور تقریر وغیرہ سب بھول گیا۔ حضور نے مصافحہ کو اپنا ہاتھ دے دیا۔ وہ حضور کا ہاتھ پکڑے پکڑے حضور کے ساتھ ہی بیٹھک کے اندر داخل ہو گیا اور پاس بیٹھ گیا اورعقیدت کا اظہار کرنے لگا۔ اس کے تمام ساتھی باہر گلی میں کھڑے اس ماجرا کو دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے اور باہر کھڑے انتظار کرتے رہے۔ مگر مولوی صاحب تھے کہ اندر سے باہر ہی نہ آتے تھے۔ ادھر مولوی صاحب تائب ہو کرآپ پر ایمان لے آئے اور ان کی درخواست پرحضرت اقدس نے ان کی بیعت قبول فرمائی۔ ان کے ساتھیوں نے جو برابر باہر انتظار میں تھے، غالباً مولوی صاحب کو بلانے کے لئے اندر پیغام بھی بھیجا مگر یہاں سماں ہی اور تھا۔ یہ علم ہونے پر کہ مولوی صاحب نے تو بیعت بھی کر لی ہے۔ ان کے تمام ساتھی مولوی صاحب کو گالیاں دیتے ہوئے منتشر ہو گئے اور پھر کسی نے مولوی صاحب کا ساتھ اختیار نہ کیا۔

(ماخوذ از اصحابِ احمد جلد دہم حصّہ اوّل و دومِ صفحہ 359۔ مطبع ضیاءالاسلام پریس ربوہ)

یہ بزرگ حضرت مولوی عبدالغنی صاحب المعروف مولوی غلام نبی خوشابیؓ تھے۔ آپ کے اس واقعہ بیعت کو حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ نے زیادہ تفصیل سے بیان کیا ہے۔ آپ نے جو کچھ فرمایا اس کا ملخص یہ ہے۔

لدھیانہ میں 1891ء میں حضرت اقدس علیہ السلام کے قیام کے زمانہ کی بات ہے کہ علمائے لدھیانہ اور مولوی غلام نبی صاحب خوشابی جو ایک جید عالم اور واعظ خوش بیاں تھے۔ مخالفت میں دیوانہ ہو رہے تھے۔ مولوی صاحب کی وہاں دھوم مچ گئی اور جابجا ان کے علم وفضل کا چرچا ہونے لگا۔ ہر وعظ میں مولوی صاحب حضرت مسیحؑ کے بارے میں آیتوں پر آیتیں اورحدیثوں پر حدیثیں پڑھنےلگے۔ ایک روز ان کا اس محلّہ میں وعظ تھا جس میں حضرت اقدسؑ قیام رکھتے تھے۔ اس وعظ کے سننے کے لیے ہزاروں آدمی جمع تھے۔ مولوی محمد حسن، مولوی شاہ دین، مولوی عبدالعزیز، مولوی محمد، مولوی عبداللہ صاحبان اور دو چار اور مولوی جو بیرون سے مولوی غلام نبی صاحب کی علمی لیاقت و شہرت کو دیکھنے کے شوق میں آئے تھے، اس خاص وعظ میں حاضر تھے۔ اس وعظ میں مولوی غلام نبی صاحب نے اپنا سارا علم ختم کر دیا اور تحسین و آفرین اور مرحبا کے نعرے بلند ہورہے تھے جو ہمارے کانوں تک پہنچ رہے تھے۔ اور ہم پانچ چار آدمی چپکے بیٹھے تھے۔

حضرت اقدسؑ زنانہ میں ایک کتاب کا مسودہ تیارکر رہے تھے۔ مولوی صاحب وعظ میں پوری مخالفت کا زور لگا کر چلے اور ان کے ساتھ ایک جم غفیر اور مولوی صاحبان تھے۔ اور ادھر سے حضرت اقدسؑ مردانہ مکان میں جانے کے لئے زنانہ مکان سے نکلے تومولوی صاحب سے سامنا ہوگیا۔ اور خود حضرت اقدسؑ نے السّلام علیکم کہہ کر مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ اور مولوی صاحب نے جواب دیتے ہوئے مصافحہ کیا۔ خدا جانے اس مصافحہ میں کیا برقی قوت تھی اورکیا مقناطیسی طاقت اور روحانی کشش کہ یدُاللّٰہ سے ہاتھ ملاتے ہی مولوی صاحب ایسے ازخود رفتہ ہوئے کہ کچھ چون وچرا نہ کرسکے اور ہاتھ دیئے سیدھے مردانہ مکان میں ساتھ ہی چلے گئے اور سامنے دوزانو ہو کر بیٹھ گئے۔

باہر سامعین اور مولوی حیرت زدہ تھے اور گفتگو کرتے تھے۔ ایک نے کہا ارے! یہ کیا ہوا۔ مولوی صاحب نے یہ کیا حماقت کی کہ مرزا صاحب کے ساتھ چلے گئے۔ دوسرے نے کہا۔ مرزا جادو گر ہے۔ خبر نہیں کیا جادو کردیا ہوگا۔ تیسرے نے کہا مولوی صاحب دب گئے۔ مرزا صاحب کا رعب بڑا ہے۔ چوتھے نے کہا۔ اجی! مرزا صاحب نے جو اتنا بڑا دعوٰی کیا ہے۔ مرزا خالی نہیں ہے۔ کیا یہ دعوٰی ایسے ویسے کا ہے؟ پانچواں بولا مرزا روپیہ والا معلوم ہوتا ہے۔ مولوی لالچی ہوتے ہیں ۔ مرزا صاحب نے کچھ لالچ دیدیا ہوگا۔ بعض نے یہ کہا کہ مولوی صاحب عالم فاضل ہیں ۔ مرزا کو سمجھا کے اور توبہ کرا کے آئیں گے۔ کسی نے کہا کہ یہ ٹھیک ہےاور ایسا موقع ملاقات اور نصیحت کرنے کا باربار نہیں ملتا۔ عام لوگ یہ کہتے تھے کہ مولوی پھنس گیا اور پھنس گیا خواہ طمع میں، خواہ علم میں خواہ کسی اَور صورت سے۔ مرزا بڑا چالاک اور علم والا ہے۔ مولوی صاحبان یہ کہتے تھے کہ مولوی صاحب مرزا سے علم میں کم نہیں ۔ لالچی نہیں ۔ صاحب روز گار ہیں۔ اللہ اور رسول کو پہچانتے ہیں ۔ فاضل ہیں، مرزا کی خبر لینے گئے ہیں دیکھنا تو سہی مرزا کی کیسی گت بنتی ہے مرزا کو نیچا دکھا کے آئیں گے۔

ادھر مولوی غلام نبی صاحب مکان کے اندر خاموش بیٹھے تھے اور انہوں نے پوچھا کہ حضرت! آپ نے وفات مسیح کا مسئلہ کہاں سے لیا ہے؟ فرمایا: قرآن شریف، حدیث اورعلمائے ربانی کےاقوال سے(مولوی صاحب کےدریافت کرنے پر) دو آیات

یَاعِیْسیٰ اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَاور فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِی

والی دکھائیں اور بتایا کہ

تَوَفَّیْتَ

اور

یُوْفِّیْ

دوالگ الگ باب سے ہیں آپ غور کریں ۔ مولوی صاحب دو چار منٹ سوچ کر کہنے لگے کہ معاف فرمائیے آپ نے جو فرمایا وہ صحیح ہے قرآن مجید آپ کے ساتھ ہے۔ حضور ؑنے پوچھا کہ جب قرآن مجید ہمارے ساتھ ہے تو آپ کس کےساتھ ہیں ۔ اس پر مولوی صاحب کے آنسو جاری ہو گئے۔ اور ان کی ہچکی بندھ گئی اور انہوں نے عرض کیا کہ یہ خطا کار بھی حضور ؑکے ساتھ ہے۔ جب دیر ہو گئی تو لوگ آواز پر آواز دینے لگے کہ مولوی صاحب! باہر تشریف لایئے! پھر بھی مولوی صاحب نے جواب نہ دیا تو لوگ بہت چلائے۔ مولوی صاحب نے کہلا بھیجا کہ میں نے حق پالیا۔ اب میرا تم سے کچھ کام نہیں ۔ اگر تم اپنا ایمان سلامت رکھنا چاہتے ہو تو تائب ہو کر اس امام کو مان لو۔ میں اس امام صادق سے کس طرح الگ ہو سکتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کا اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا موعود ہے۔ جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام بھیجا۔

سلام کا ذکرکرکے مولوی صاحب نے حدیث پڑھی پھر حضرت اقدسؑ کی طرف متوجہ ہو کر دوبارہ پڑھی اور پھر عرض کیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق میں اس وقت حضورؑ کا سلام کہتا ہوں اور پھر دوبارہ بھی سلام کیا۔ حضرت اقدسؑ نے اس وقت عجیب آواز سے وعلیکم السلام فرمایا کہ دل سننے کی تاب نہ لائے اور مولوی صاحب نے کہا کہ اولیاء علماء امت اس انتظار میں چل بسے اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا۔ یہ غلام نبی اس کو کیسے چھوڑے۔ یہی مسیح موعوداورامام مہدی موعود ہیں ۔ اور مسیح ابن مریم مرگئے بلاشک مرگئے۔ وہ نہیں آئیں گے آنے والے آگئے، آگئے بے شک وشبہ آگئے۔

لوگوں کو مولوی صاحب نے کہا کہ تم جاؤ یا میری طرح حضرت اقدسؑ کے مبارک قدموں میں گروتاکہ نجات پاؤ۔ منتظر لوگوں کو جب یہ جواب ملا توکیا مولوی ملّا اور کیا خاص و عام سب کی طرف سے کافر کافر کا شور بلند ہوا اور وہ گالیوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے منتشر ہوگئے۔ پھر مولویوں کی طرف سے مولوی غلام نبی صاحب کو مباحثہ کے پیغام آنے لگے اور بعض کی طرف سے پھسلانے کے لئے کہ ہماری ایک دو باتیں سن جاؤ لیکن مولوی صاحب نے جواباً یہ شعر پڑھا۔

حضرت ناصح جو آئیں دیدہ و دل فرش راہ

کوئی مجھ کو یہ تو سمجھائے کہ سمجھاویں گے کیا

مولوی صاحب نے مباحثہ کرنا قبول کرلیا لیکن مباحثہ کے لیے کوئی نہ آیا۔ پھر مولوی صاحب نے ایک اشتہار شائع کیا کہ میں مباحثہ کرنے کو تیار ہوں ۔ پھر مولوی صاحب کو امرتسر یا لاہور سے خط آیا کہ خواہ تم یا مرزا صاحب یا کوئی اور وفات عیسیٰؑ کے بارے میں ایک آیت یا متعد د آیات پیش کرے میں فی آیت پچاس روپے انعام دوں گا۔ حضرت اقدسؑ کے مشورہ سے مولوی صاحب نے جواب دیا کہ ہم اڑہائی درجن آیات پیش کریں گے۔ آپ اپنے اقرار کے مطابق پندرہ سو روپیہ لاہور کے بنک میں جمع کراکے رسید بھجوادیں لیکن جواب ندارد۔ پھر خود مولوی صاحب نے ایک اشتہار شائع کیا کہ جو شخص حیاتِ مسیحؑ کے بارے قرآن شریف کی آیت صریح اور حدیث صحیح پیش کرے تو فی آیت اور فی حدیث دس روپے دیے جائیں گےاور روپے پہلے بنک میں جمع کردیے جائیں گے لیکن اشتہار کے بعد مولویوں کی طرف سے خاموشی رہی۔

مولوی غلام نبی صاحب حضرت اقدسؑ کے ہی ہورہے اوران کا بحرایسا کھلا کہ جو کوئی آتا اس سے گفتگو اور مباحثہ کے لیے آمادہ ہو جاتے اور پہلے خود ہی گفتگو کرتے۔ مولوی صاحب حضرت اقدسؑ کا چہرہ دیکھتے رہتے۔ حضرت اقدسؑ نے

اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ

کے متعلق تفسیراً کچھ فرمایا تومولوی صاحب وجد میں آگئے اور کہنے لگے کہ یہ ہے فہم قرآن۔ ان کی عشقیہ حالت ترقی کرتی گئی۔ حضرت اقدسؑ اندرونِ خانہ تشریف لے جاتے تومولوی صاحب کی حالت بےقراری اور دیوانگی کی سی ہو جاتی۔ اور حضرت اقدسؑ کے آنے پر آپ کو چین آتا۔ مولوی صاحب کو سابقاً مخالفت کرنے کی وجہ سے بے چینی تھی، وہ باربار کہتے کہ اتنے روز جو میری طرف سے مخالفت ہوئی یا میری زبان سے گستاخانہ الفاظ نکلے قیامت کے روز میں اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دوں گا۔ پھر استغفار کرتے اور سخت بے قراری اورندامت سے روتے تھے۔

مولوی صاحب کو خط آیا کہ جلد آجائیں ورنہ ملازمت جاتی رہے گی لیکن مولوی صاحب نے کہا کہ بیعت میں شرط دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی ہے، مجھے ملازمت کی پرواہ نہیں ۔ ایک روز اس کا ذکر ہونے پر حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ خود ملازمت ترک کرنا ناشکری ہے آپ کو ملازمت پر ضرور چلے جانا چاہیے۔ چنانچہ دوبارہ بیعت کرکے مولوی صاحب مجبوراً روانہ ہوگئے۔ لیکن پھر ہنستے ہوئے واپس آئے کہ ریل گاڑی جاچکی تھی۔ دوسری گاڑی کے آنے میں وقت تھا۔ میں نے کہا کہ جتنی دیر اسٹیشن پرلگے، اتنی دیر حضرت کی صحبت میں رہوں تو بہترہے۔ یہ صحبت کہاں میسر؟ حضور نے فرمایا۔ جزاک اللہ یہ خیال بہت اچھا ہے۔ اس میں کچھ حکمت الٰہی ہے۔ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ دوسرا خط آیا کہ اپنی ملازمت پر حاضر ہوجائیں یا درخواست رخصت بھیج دیں میں کوشش کر کے رخصت دلوا دوں گا۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ ریل کے نہ ملنے میں یہی حکمت الہی ٰتھی۔ حضور کے ارشاد پر مولوی صاحب نے رخصت کی درخواست دے دی جومنظور ہوگئی۔ اور مولوی صاحب کو بہت روز تک حضرت اقدسؑ کی خدمت میں رہنے اور فیض صحبت حاصل کرنے کا موقع ملا۔

حضرت اقدسؑ نے ازالہ اوہام میں ان مخلصوں کےاسماء درج فرمائے ہیں ۔ جنہوں نے حتی الوسع آپ کے دینی کاموں میں مدد دی یا جن پر مدد کی امید تھی یا جن کو اسباب میسر آنے پر حضورؑ تیار دیکھتے تھےاورحضورؑ نے ان کے لیے دعا فرمائی ہے۔ جن کے کچھ احوال حضورؑ نے رقم فرمائے ہیں ان میں فرماتے ہیں :

’’حبی فی اللّٰہ مولوی عبدالغنی صاحب معروف مولوی غلام نبی خوشابی دقیق فہم اور حقیقت شناس ہیں اورعلم عربیہ تازہ بتازہ ان کے سینہ میں موجود ہیں ۔ اوائل میں مولوی صاحب موصوف سخت مخالف الرائے تھے۔ جب ان کو اس بات کی خبر پہنچی کہ یہ عاجز مسیح موعود ہونے کا دعوٰے کررہا ہے اورمسیح ابن مریم کی نسبت وفات کا قائل ہے تب مولوی صاحب میں پورانے خیالات کے جذبہ سے ایک جوش پیدا ہوا اور ایک عام اشتہار دیا کہ جمعہ کی نمازکے بعد اس شخص کے ردّ میں ہم وعظ کریں گے۔ شہر لودھیانہ کے صدہا آدمی وعظ کے وقت موجود ہوگئے۔ تب مولوی صاحب اپنے علمی زور سے بخاری اور مسلم کی حدیثیں بارش کی طرح لوگوں پر برسانے لگے اور صحاح ستہ کا نقشہ پرانی لکیر کے موافق آگے رکھ دیا ان کے وعظ سے سخت جوش مخالفت کا تمام شہر میں پھیل گیا کیونکہ ان کی علمیت اور فضیلت دلوں میں مسلم تھی۔ لیکن آخر سعادت ازلی کشاں کشاں ان کو اس عاجز کے پاس لے آئی اور(وہ) مخالفانہ خیالات سے توبہ کرکے سلسلہ بیعت میں داخل ہوئے۔ اب ان کے پرانے دوست ان سے سخت ناراض ہیں ۔ مگر وہ نہایت استقامت سے اس شعر کے مضمون کا ورد کر رہے ہیں ؎

حضرتِ ناصح جو آویں دیدہ و دل فرشِ راہ

پرکوئی مجھ کوتوسمجھاوے کہ سمجھاویں گے کیا‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ525)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button