تاریخ احمدیت

دارالتبلیغ سماٹرا و جاوا (انڈونیشیا) کا قیام

اگست1923ء: تین انڈونیشین نوجوانوں کی قادیان آمد

17؍اگست 1925ء: مولوی رحمت علی صاحب کی قادیان سے روانگی

1925ء میں سلسلہ احمدیہ کا ایک اور بیرونی مشن جزائر شرق الہند(یعنی انڈونیشیا) کے جزیرہ سماٹرا میں قائم کیا گیا۔ اس دارالتبلیغ کی داغ بیل اتفاقاً پڑی جس کی تفصیل یہ ہے کہ ان جزائر میں سے تین نوجوان مولوی ابوبکر ایوب صاحب،مولوی احمد نور الدین صاحب اور مولوی زینی دحلان صاحب حصول علم دین کے لئے لکھنؤ پہنچے اور وہاں ایک عالم سے تعلیم حاصل کرنا شروع کی جہاں ان لوگوں نے دیکھا کہ ان کا استاد اپنے کسی استاد یا پیر کی قبر پر سجدہ کر رہا ہے ۔یہ نظارہ دیکھ کر چاروں لکھنؤ سے لاہور آگئے اور چند ماہ تک احمدیہ بلڈنگس میں قیام کیا۔ مگر ان کی تعلیم کا کوئی تسلی بخش انتظام نہ ہو سکا۔ اسی اثناء میں انہیں یہ معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاندان قادیان میں مقیم ہے۔ چنانچہ یہ تینوں اصحاب اگست 1923ء میں قادیان تشریف لے گئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی خدمت میں حاضر ہو کر بتایا کہ ہم دینی تعلیم کے لئے آئے تھے۔ مگر ہمارا کوئی معقول انتظام نہیں کیا گیا۔ حضورؓ نے فرمایا:میں دینی تعلیم کا انتظام کر سکتا ہوں مگر شرط یہ ہو گی کہ آپ چھ ماہ تک صرف اردو زبان پڑھیں۔ چنانچہ انہوں نے پہلے اردو سیکھی اور پھر دینیات کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ اور جلد ہی احمدیت میں داخل ہو گئے۔ کچھ عرصہ بعد ان کی مساعی سے کئی اور سماٹری اور جاوی طلباء قادیان میں پہنچ گئے۔ ساتھ ہی ان لوگوں نے اپنے رشتہ داروں سے تبلیغی خط وکتابت شروع کی جس کے نتیجہ میں بعض لوگ تو حضرت مسیح موعودؑ پر اسی عرصہ میں ایمان لے آئے بعض مستعد ہو گئے اور بعض نے مخالفت کا رنگ اختیار کیا اور بحث شروع کر دی۔ ان حالات نے ان طلبہ کو تبلیغ کی طرف اور بھی متوجہ کر دیا۔

چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓجب سفر یورپ سے واپس تشریف لائے تو انہوں نے 29؍نومبر 1924ء کو حضورؓ کے اعزاز میں ایک دعوت دی اور مخلصانہ ایڈریس پیش کرکے استدعا کی کہ حضورؓ مغرب کی طرف تشریف لے گئے ہیں اب ازراہ شفقت مشرق کی طرف بھی تشریف لے چلیں حضورؓ نے وعدہ فرمایا کہ انشاء اللہ میں خود یا میرا کوئی نمائندہ آپ کے ملک میں جائے گا۔

چنانچہ حضورؓ نے جزائر شرق الہند کے لئے مولوی رحمت علی صاحب فاضل کو پہلا مبلغ احمدیت مقرر فرمایا۔ قمرالانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ اپنی مشہور کتاب ’’سلسلہ احمدیہ‘‘میں تحریر فرماتے ہیں:

’’اس مہم کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح کی مردم شناس آنکھ نے مولوی رحمت علی صاحب کو منتخب کیا۔ مولوی صاحب مولوی فاضل تھے۔ مگر سادہ مزاج رکھتے تھے اور بعض حلقوں میں خیال کیا جاتا تھا کہ شاید وہ اس نازک کام میں کامیاب نہ ہو سکیں مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے اور حضرت خلیفۃ المسیح کی روحانی توجہ کے طفیل اس مشن نے حیرت انگیز رنگ میں ترقی کی اور بعض لحاظ سے دوسرے سب مشنوں کو مات کر گیا۔‘‘

مولوی رحمت علی صاحب 17؍اگست 1925ء کو قادیان سے روانہ ہوئے۔ حضورؓ نے آپ کو رخصت کرتے ہوئے کئی نصیحتیں فرمائیں۔ مثلاً علم کا گھمنڈ رکھنے والوں اور علماء سے خلوت میں گفتگو کریں۔ تبلیغ کا کام بتدریج ہو۔جہاں جہاں جماعتیں قائم ہوں وہاں انجمن بھی قائم کریں اور انجمن کو باقاعدہ کرنے کے ساتھ ساتھ نئے احمدیوں میں تبلیغ کی عادت بھی پیدا کریں اور عمدہ نمونہ بنیں۔ تا لوگ احمدیت کی حقیقت سمجھ سکیں۔

مولوی رحمت علی صاحب احمدیت کا پیغام لے کر ستمبر 1925ء میں اس ملک میں پہنچے اور سب سے پہلے سماٹرا کے قصبہ ’’تاپک توان‘‘میں فروری 1927ء تک قیام کیا۔ اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے وہاں ایک جماعت پیدا کر دی۔ ’’تاپک توان‘‘میں احمدیت کا بیج بو دینے کے بعد آپ مارچ 1927ء میں پاڈانگ گئے۔ اور وہاں اپنا مرکز قائم کرکے ایک رسالہ ’’اقبال‘‘نامی جاری کیا۔ اور پبلک لیکچروں،اخبارات اور انفرادی ملاقاتوں سے عوام اور حکومت دونوں حلقوں میں تبلیغ شروع کر دی۔

علماء نے احمدیت کا اثر و نفوذ دیکھا تو وہ متفقہ طور پر آپ کو ملک سے نکالنے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن حکام نے مذہبی معاملات میں دست اندازی کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی دوران میں قادیان سے حاجی محمود احمد صاحب بھی علم دین حاصل کرکے پہنچ گئے اور آپ کا ہاتھ بٹانے لگے۔ مسلمانوں میں تبلیغ کے علاوہ عیسائیت کے خلاف بھی محاذ قائم کیا گیا اور عیسائی پادریوں سے متعدد مذاکرات و مباحثات ہوئے۔

دسمبر 1927ء کے آخر میں پاڈانگ میں غیر احمدی علماء سے آپ کا ایک عظیم الشان مباحثہ ہوا ۔یہ مناظرہ مولوی رحمت علی صاحب کے الفاظ میں احمدیت کی حیات و موت اور ترقی و تنزل کا سوال تھا۔ بڑے بڑے علماءمشائخ ایڈیٹر اور عہدیدار ان حکومت اس میں موجود تھے۔ علماء کو مناظرہ میں سخت ناکامی اٹھانا پڑی اور تحقیق پسند طبائع پر سلسلہ کی حقانیت کھل گئی۔ اور گو اس کے نتیجہ میں ایک کثیر طبقہ احمدیت کا دل سے قائل ہو گیا۔ مگر علماء کی سختیوں کی وجہ سے علی الاعلان صداقت کا اظہار نہ کر سکا۔ تاہم احمدیت میں ان کے داخلہ کی رفتار پہلے سے تیز ہو گئی۔ اور ’’تاپک تو ان‘‘اور پاڈانگ کے بعد ڈوکو میں بھی جماعت قائم ہو گئی۔ اور تبلیغ کو مزید وسعت دینے کے لئے مئی 1928ء میں کرائے کے ایک مکان میں باقاعدہ مشن ہاؤس قائم کر دیا گیا اس وقت تک جماعت سماٹرا میں ہی قائم ہوئی تھی اور جاوا کا جزیرہ خالی پڑا تھا۔ مگر 30-1929ء میں سماٹرا کے ایک احمدی ابوبکر بگنڈو مہارا جو تجارتی کاروبار کے سلسلہ میں وہاں گئے اور جاوا میں بھی ایک مختصر جماعت پیدا ہو گئی۔

چار سال کی محنت شاقہ کے بعد مولوی رحمت علی صاحب مرکز کی ہدایت پر 19؍ اکتوبر 1929ء کو واپس تشریف لائے آپ کے ساتھ ابوبکر صاحب (پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ پاڈانگ) اور ایک معزز دوست ڈمنگ داتو پوتی بھی تھے۔ مولوی رحمت علی صاحب حضورؓکے حکم سے دوبارہ 6؍نومبر 1930ء کو روانہ ہوئے۔ آپ کے ہم راہ مولوی محمد صادق صاحب بھی تھے۔ جنہیں حضور ؓنے سماٹرا کی تبلیغ کے لئے منتخب فرمایا تھا۔ یہ دونوں مبلغ 2؍دسمبر 1930ء کو پاڈانگ پہنچے۔ جہاں مولوی رحمت علی صاحب کچھ عرصہ مولوی محمد صادق صاحب کے ساتھ رہنے کے بعد اپریل 1931ء میں جاوا روانہ ہو گئے۔ اور وہاں نئے دارالتبلیغ کی بنیاد رکھی۔ جاوا میں آپ کے رستہ میں بہت مشکلات تھیں۔ مگر آپ نے استقلال سے مقابلہ کیا اور پہلے سال چپو،بٹاوی (جکارتا) اور بوگور میں جماعتیں قائم ہو گئیں۔ اور آپ کا مرکز بٹاوی میں تھا۔

جنوری 1935ء میں مولوی رحمت علی صاحب گارت اور تسکملایا کے شہروں میں گئے اور مختلف انجمنوں میں تقریریں کرنے کے علاوہ عیسائیوں سے مباحثے کئے ۔اس سے پہلے عام مسلمان عیسائیوں کے اعتراضات سے سخت پریشان تھے۔ لیکن اب جو انہوں نے دیکھا کہ عیسائی احمدی مبلغ کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے۔ تو انہوں نے مولوی صاحب کو بہت مبارکباد دی۔ مگر علماء نے مخالفت شروع کر دی اور عوام کو بھڑکایا کہ یہ لوگ مسلمان نہیں مگر یہی مخالفت بعض سعید روحوں کو احمدیت میں لانے کا موجب بن گئی۔

مولوی رحمت علی صاحب جاوا جانے سے پہلے جو تبلیغی میدان قائم کر چکے تھے اسے مولوی محمد صادق صاحب نے اور وسیع کرنے کی طرف توجہ دی۔ چنانچہ آپ نے پاڈانگ میں ایک پندرہ روزہ اخبار ’’اسلام‘‘(مولوی احمد نور الدین صاحب سماٹری کی ادارت میں) نامی جاری کیا۔ جو بعد کو ماہنامہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس رسالہ کے اجرا پر عیسائی اخبارات احمدیت کے مقابلہ میں آگئے۔ اس کے علاوہ عیسائیوں سے عام خط و کتابت کے ذریعہ بھی بحث ہونے لگی۔ مئی 1934ء میں آپ نے سماٹرا کے دارالحکومت ’’میڈان‘‘میں جا کر کام شروع کیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں ایک جماعت قائم ہو گئی۔

35-1934ء کا زمانہ تاپوتوان اور لہوسوکن کی جماعت کے لئے بھاری ابتلا کا زمانہ تھا کیونکہ اس میں جماعت کو تبلیغ بلکہ باقاعدہ نماز کی ادائیگی سے روک دیا گیا۔ اسی طرح لہوسوکن کی جماعت کو وہاں کے راجہ نے اپنے مظالم کا تختہ مشق بنایا۔ تاہم حق و صداقت کی اشاعت کا سلسلہ خطوط و مضامین،اشتہارات و اخبارات اور مستقل کتابوں کی تصنیف کے ذریعہ بھی جاری رہا اور مباحثات کے ذریعہ بھی ۔چنانچہ پاڈانگ میں ایک ،اور میڈان میں تین نہایت کامیاب مناظرے ہوئے پہلا مناظرہ مولوی محمد صادق صاحب نے پاڈانگ میں ایک عیسائی سے کیا جس نے دلائل سے عاجز آکر مولوی صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ شخص جنون کو استعمال کرتا ہے۔‘‘ دوسرا مباحثہ مولوی ابوبکر ایوب سماٹری کا ایک عرب فاضل سے ہوا۔ میڈان میں یہ پہلا مذہبی مناظرہ تھا جس میں خدا کے فضل سے اس قدر کامیابی ہوئی کہ غیر احمدی اخباروں نے بھی احمدیت کی فتح کا کھلا کھلا اقرار کیا۔ تیسرا اور چوتھا مباحثہ مولوی صادق صاحب اور مولوی ابوبکر ایوب صاحب نے ایک مجلس شرعی کے صدر سے کیا۔ ان کے علاوہ انہی دنوں چھ اور مناظروں میں بھی اللہ تعالیٰ نے کامیابی بخشی اور غیر احمدی علماء جو پہلے احمدیت کی مخالفت میں پوری قوت صرف کر رہے تھے اب احمدی مبلغوں کے مقابل پر آنے سے جھجکنے لگے۔

اب جاوا اور سماٹرا میں سلسلہ کی…تبلیغ کا کام روز بروز وسیع ہو رہا تھا۔ اس لئے حضورؓ نے یکم فروری (الفضل 4؍فروری 1936ء صفحہ 1) کو ملک عزیز احمد خان صاحب اور مولوی عبدالواحد صاحب سماٹری کو قادیان سے اور سید شاہ محمد صاحب کو سنگاپور سے وہاں بھجوایا۔ 37-1936ء میں مولوی ابوبکر ایوب صاحب نے سماٹرا میں قریباً دو ہزار میل کا تبلیغی سفر کیا۔ اسی زمانہ میں گاروت (جاوا) میں احمدیہ مسجد کی بنیاد رکھی گئی۔ ایک پریس خریدا گیا۔ مولوی رحمت علی صاحب کچھ عرصہ مرکز میں تشریف لے گئے اور دوبارہ اکتوبر 1937ء میں واپس جاوا آئے اور تبلیغ سلسلہ میں مصروف ہو گئے۔ ان دنوں گاروت میں مولوی عبدالواحد صاحب سماٹری سورا بایا میں ملک عزیز احمد صاحب بہروا کرتو میں سید شاہ محمد صاحب اور تسکملایہ میں محمد طیب صاحب فریضہ تبلیغ ادا کر رہے تھے۔ ان مبلغین کی کوششوں سے احمدیت قبول کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہونے لگا۔ ایک خاص اثر یہ بھی ہوا کہ دو جماعتوں کے سوا جو ظاہراً مخالفت کرتی تھیں باقی مخالف جماعتیں ایک ایک کرکے میدان سے ہٹ گئیں۔

نومبر1940ء کے تیسرے ہفتہ میں مولوی رحمت علی صاحب بٹاویہ (جاوا) سے سماٹرا میں آئے۔ 14دن میڈان میں اور تین ماہ پاڈانگ میں رہ کر مارچ 1941ء میں واپس جاوا تشریف لے گئے قیام کے دوران میں آپ نے جماعت کو وعظ و نصیحت سے متمتع کیا۔ آپ کی آمد پر پاڈانگ میں چار جلسے ہوئے جن میں مولوی محمد صادق صاحب اور مولوی ابوبکر صاحب کے علاوہ آپ نے بھی لیکچر دیئے۔ سماٹرا میں ایک مبلغ ناکافی تھا۔ اس لئے مولوی ابوبکر صاحب جو پہلے جاوا میں کام کر رہے تھے سماٹرا میں فریضہ تبلیغ انجام دینے لگے۔

اسی اثناء میں 8؍مارچ 1942ء کو جاپانیوں نے جزائر شرق الہند پر قبضہ کر لیا اور مشکلات اور تکالیف کا ایک نہایت المناک سلسلہ شروع ہوا۔ قبضہ کے دوران جاپانیوں نے ملکی باشندوں پر جو وحشیانہ مظالم توڑے وہ نہایت ہی دردناک تھے۔ ایک جماعت کے سوا جسے حکومت نے اپنی سیاسی اغراض کے لئے قائم کیا تھا باقی سب سیاسی اور مذہبی تنظیمیں حکماً بند کر دیں۔ تاہم انفرادی تبلیغ جاری رہی اور اس عرصہ میں جماعت کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اس زمانہ میں احمدی مبلغین نے جن میں مولوی رحمت علی صاحب اور ملک عزیز احمد خان صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں مختلف کتابوں کے تراجم کئے جو بعد کو شائع ہوئے۔

جاوا اور سماٹرا کے علماء نے جنوب مشرقی ایشیا کی اس جاپانی لڑائی کو جہاد فی سبیل اللہ قرار دیا اور مخبری کی کہ احمدی انگریزوں کے جاسوس ہیں۔ چنانچہ جاپانی حکام نے مولوی محمد صادق صاحب کی بارہا پوچھ گچھ کی اور بالآخر تبلیغ کی ممانعت کر دی۔ اس پر مولوی محمد صادق صاحب نے حکومت جاپان کو مفصل خط لکھا جس میں احمدیت کی غرض وغایت پرروشنی ڈالنے کے علاوہ خاص طور پر اس طرف توجہ دلائی کہ جاپان حکومت کی لڑائی ہرگز جہاد فی سبیل اللہ نہیں ۔اس کی علمبردار صرف مسلمان قوم ہو سکتی ہے اور آپ مسلمان نہیں۔

جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے جس میں مولوی محمد صادق صاحب بھی شامل تھے جاپانی حکومت کے گورنر آف سماٹرا کے سامنے یہ خط پیش کیا۔ جاپانی حکومت نے اس سے سخت برافروختہ ہو کر مولوی محمد صادق صاحب کو سزائے موت کا حکم صادر کر دیا۔

اس کے بالمقابل جاوا کے احمدی مبلغین جاپانی حکومت نے قید میں ڈال دیئے جس کی وجہ یہ ہوئی کہ 1944ء میں مغربی جاوا کے ایک مقام پر بغاوت ہوئی۔ بعض مقامی علماء نے جاپانی حکام سے کہا کہ بغاوت میں احمدیوں کا ہاتھ ہے۔ اس شکایت پر بعض دوسرے احمدیوں کے علاوہ ملک عزیز احمد خاںصاحب،مولوی عبدالواحد صاحب سماٹری اور سید شاہ محمد صاحب گرفتار کر لئے گئے۔ غرضیکہ جاوا اور سماٹرا دونوں جگہ نہ صرف احمدی جماعتیں اور احمدی مبلغین جاپانی مظالم کا نشانہ بنائے گئے اور بظاہر نجات کی کوئی صورت باقی نہ رہی۔ مگر اس سے پہلے کہ جاپانی اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوتے اس ظالم حکومت کا تختہ الٹ گیا۔ اور قدرت الٰہی کا یہ عجیب کرشمہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس انقلاب کی نسبت احمدی مبلغوں کو قبل از وقت اطلاع دے دی گئی تھی۔

جاپانی حکومت کا خاتمہ ہوا تو ڈاکٹر سکارنو نے 17؍ اگست 1945ء کو انڈونیشیا کی آزادی کا اعلان کر دیا اور ولندیزیوں کے خلاف سارے ملک میں تحریک آزادی لڑی جانے لگی۔ اس موقع پر مبلغین احمدیت اور دوسرے احمدیوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکے ارشاد پر تحریک آزادی میں بھی سرگرم حصہ لیا۔ چنانچہ مولوی عبدالواحد صاحب اور ملک عزیز احمد صاحب نے تقریباً دو تین ماہ ریڈیو پر اردو پروگرام نشر کیا۔ اور سید شاہ محمد صاحب تو تحریک میں اس جوش و خروش سے شامل رہے کہ انڈونیشیا کے ایک سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم سید شاہ محمد صاحب کو اپنی قوم کا ہی فرد سمجھتے ہیں چنانچہ 1949ء میں جس روز صدر ڈاکٹر سکارنو ڈچ حکومت سے چارج لینے کے لئے جن چودہ آدمیوں کے ہمراہ دارالحکومت میں پہنچے تو ان میں سید شاہ محمد صاحب بھی تھے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے 1948ء میں جبکہ انڈونیشیا کی جنگ آزادی جاری تھی مولوی محمد سعید صاحب انصاری کو سماٹرا بھجوایا۔ نومبر1949ء میں جماعت کی از سر نو تنظیم کرنے کے لئے مولوی رحمت علی صاحب کی صدارت میں تمام مبلغین کا پہلا اجتماع منعقد ہوا۔ اس اجتماع میں جماعت احمدیہ انڈونیشیا کے لئے قواعد و ضوابط مرتب کرنے کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی گئی جس کے ممبر سید شاہ محمد صاحب مولوی عبدالواحد صاحب سماٹری اور ملک عزیز احمد صاحب تھے اور معاون مسٹر راڈین ہدایت۔ انڈونیشین زبان میں قواعد مرتب ہوئے تو 9۔10۔11؍ دسمبر کو جماعت ہائے انڈونیشیا کی پہلی سالانہ کانفرنس جکارتا میں منعقد ہوئی۔

مولوی رحمت علی صاحب 30؍ اپریل1950ء کو واپس تشریف لائے اسی سال مولوی امام الدین صاحب،مولوی عبدالحٔی صاحب،مولوی محمد زہری صاحب اور حافظ قدرت اللہ صاحب اور دو سال بعد حکیم عبدالرشید صاحب ارشد بھی ان علاقوں میں تبلیغ کے لئے بھیجے گئے۔ ان کے بعد حضورؓ نے6؍ جون 1954ء کو صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب کو مع اہل و عیال انڈونیشیا روانہ فرمایا۔ صاحبزادہ صاحب نے وہاں ملک میں پھیلی ہوئی جماعتوں کا دورہ کرکے ان میں غیر معمولی بیداری پیدا کی اور 22؍مارچ 1956ء کو واپس تشریف لائے۔ 1954ء کے سالانہ جلسہ میں شمولیت کے لئے جماعت ہائے انڈونیشیا کے وائس پریذیڈنٹ راڈین ہدایت صاحب ربوہ آئے تو واپسی پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے انڈونیشیا کی جماعتوں کے اخلاص اور قربانی کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دست مبارک کی لکھی ہوئی ایک تحریر جو آٹھ صفحات پر مشتمل ہے اور ’’حقیقۃ الوحی‘‘کے مسودہ کا ایک حصہ ہے بطور تبرک بھجوائی۔

1962ء میں ملک عزیز احمد صاحب انتقال فرما گئے اور اسی سرزمین میں دفن کئے گئے۔ جولائی 1963ء میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب (وکیل التبشیر تحریک جدید) مشرق بعید کے مشنوں کا جائزہ لینے کے لئے انڈونیشیا بھی تشریف لے گئے اور بانڈونگ انڈونیشیا کی چودھویں سالانہ کانفرنس منعقدہ بانڈونگ (26تا 28؍ جولائی1963ء) میں شمولیت کی۔ اس کانفرنس میں ساٹھ احمدیہ جماعتوں کے قریباً دو ہزار نمائندے شامل ہوئے کانفرنس کے دوران قریباً نوے افراد داخل سلسلہ احمدیہ ہوئے۔

دارالتبلیغ سماٹرا اور جاوا جس کا آغاز محض اتفاقی رنگ میں ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی ترقی کر چکا ہے ابتداءً اس کے اخراجات مرکز برداشت کرتا تھا مگر1947ء کے بعد سے انڈونیشیا مشن خود کفیل مشن بن چکا ہے۔

جاوا اور سماٹرا میں مندرجہ ذیل مقامات پراحمدی جماعتیں قائم ہیں۔

(جاوا غربی) جکارتا۔ بوگور۔ چیسا لاڈا۔ سوکا بومی۔ چانجور۔ چپارائے۔ بانڈنگ۔ چکا لونگ۔ گاروت۔ دانا سگرا۔ سنگاپرنا۔ تاسکملانا۔ چہارنگ۔ بوجنگ۔ پینگلاں۔ تنجرانگ۔ کرادنگ۔ لاوی مانگو۔ بونی جایا۔ سوکاتابی۔ تولنجنگ۔ چساعت۔ کڈنگ ہالنگ۔ گونڈ رنگ۔ چری بون۔ مانس لور۔

(جاوا وسطی) پورو کرتو۔ جوگجا کرتا۔ پابو وارن۔ کڈلنگ مالنگ۔

(جاوا شرقی) سورا بایا (سماٹرا شمالی) میڈان۔ تابنگ تنگی۔ تنجونگ بالائی (سماٹرا وسطی) پاڈنگ۔ تالنگ۔ پکن بارو۔ بوکیت۔ تینگی ڈوکو۔ (سماٹرا جنوبی) لاہت۔ 1962ء کی رپورٹ کے مطابق جماعت احمدیہ انڈونیشیا کی اکاون مساجد اور تیرہ مشن ہاؤس قائم ہیں۔

لٹریچر

جاوا اور سماٹرا کے مبلغین کی طرف سے اسلام اور احمدیت کی تائید میں شام و فلسطین کے بعد سب مشنوں سے زیادہ لٹریچر شائع ہوا ہے چنانچہ چند اہم کتابوں کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے۔

(۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک تصانیف کے تراجم۔ اسلامی اصول کی فلاسفی۔ کشتی نوح۔ ایک غلطی کا ازالہ۔ احمدی اور غیر احمدی میں فرق۔ لیکچر سیالکوٹ۔ الوصیت۔ (کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے تراجم) حضرت مسیح موعودؑ کے کارنامے۔ سیرت مسیح موعودؑ۔ دعوت الامیر۔ نظام نو۔ اسلام کا اقتصادی نظام(تصانیف مولوی رحمت علی صاحب) اسرار ارکان اسلام۔ صداقت حضرت مسیح موعودؑ۔ اسلام میں جہاد۔ معراج النبیﷺ۔ حقیقت بائبل۔ سیرت النبیﷺ۔ مسئلہ تقدیر۔ ملائکۃ اللہ۔ قبر مسیح اسرائیلی۔ المسیح الاسرائیل اور صلیب۔ حقیقتِ ابنیت عیسیٰ۔ مشارکت و تمدن اسلامیہ۔ اسلام اور دنیا کے علوم کا منبع۔ دنیا کا آئندہ نظام۔ صداقت رسول کریم از روئے بائیبل۔ میں نے اسلام کو کیوں چنا۔ قیامت۔ جہاد۔ لائحہ عمل احمدیہ۔ (تصانیف مولوی محمد صادق صاحب) (۱) بائبل کا یسوع۔ (۲) محمدﷺ از روئے بائبل۔ (۳) تصدیق المسیح۔ (تصانیف ملک عزیز احمد خان صاحب) ترقی اسلام کی راہ۔ مبایعین اور غیر مبایعین میں فرق۔ پیشگوئی متعلقہ مصلح موعود۔ (تصانیف میاں عبدالحیٔ صاحب) کفارہ (تصانیف مولوی ابوبکر صاحب) مکمل تردید (جماعت کے خلاف اعتراضات کا رد) شفاعت ارحم الراحمین۔ (تصانیف صالح الشبیبی صاحب الہندی) وادی قمران کے صحیفے۔ احمدیت پر ایک طائرانہ نظر۔ نماز مترجم۔

جماعت احمدیہ انڈونیشیا کی طرف سے کئی ماہوار یا سہ ماہی رسائل نکلے مثلاً رسالہ ’’اسلام‘‘ (ماہوار) رسالہ ’’البشریٰ‘‘(ماہوار)، رسالہ ’’پنو جوک جاسن‘‘(ماہوار)، رسالہ الہدیٰ (ماہوار)، رسالہ ’’bat Bale‘‘ (ماہوار)، رسالہ ’’آواز مجلس خدام الاحمدیہ‘‘(سہ ماہی)، رسالہ ’’آواز مجلس انصار اللہ‘‘(سہ ماہی)، رسالہ ’’آواز مجلس ناصرات الاحمدیہ‘‘(سہ ماہی)، رسالہ ’’سینار اسلام‘‘اور ہفتہ وار’’بلٹن یا احمدیہ گزٹ‘‘۔

انڈونیشیا میں مندرجہ ذیل مبلغین اعلائے کلمہ اسلام میں مصروف رہے۔

سید شاہ محمد صاحب (رئیس التبلیغ) مولوی ابوبکر ایوب صاحب مرکزی مبلغ۔ مولوی عبدالحیٔ صاحب مرکزی مبلغ۔ مولوی امام الدین صاحب مرکزی مبلغ۔ مولوی صالح شبیبی صاحب مرکزی مبلغ۔ مولوی عبدالواحد صاحب مرکزی مبلغ۔ مولوی محمد ایوب صاحب لوکل مبلغ۔ مولوی زینی دحلان صاحب۔ مولوی منصور احمد صاحب۔ راڈین احمد نور صاحب۔ مولوی احمد رشدی صاحب۔ مولوی سلیمان عباس صاحب۔ مولوی محی الدین صاحب۔ حاجی بصری صاحب دیہاتی مبلغ۔ محمد شتیری صاحب دیہاتی مبلغ۔ سلیمان صاحب دیہاتی مبلغ۔ عبدالرحمٰن صاحب دیہاتی مبلغ۔

اس دارالتبلیغ کی اسلامی خدمات کی نسبت دوسروں کی چند آراء بطور نمونہ درج ذیل کی جاتی ہیں۔

1۔ سفیر انڈونیشیا الحاج محمد رشید صاحب نے ستمبر 1957ء میں ایک پبلک جلسہ میں جماعت احمدیہ کی انڈونیشیا میں اسلامی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’’انڈونیشین قوم جو عیسائیت کے سیلاب کے آگے بہے جارہی تھی اس کو جماعت احمدیہ کے مبلغین نے اس خطرہ سے بچا لیا۔‘‘

2۔ سلسلہ احمدیہ کے ایک شدید مخالف ڈاکٹر حاجی عبدالکریم امر اللہ نے اپنی کتاب ’’القول الصحیح‘‘ میں لکھا کہ ’’ہم روئے زمین کے مسلمانوں کی طرف سے جماعت احمدیہ قادیان کا اس بارہ میں شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر یورپین ممالک میں کئی عیسائیوں کو اسلام کی طرف کھینچا ہے۔‘‘

3۔ایم۔اےآرگب اپنی کتاب(Mohammadanism) ایڈیشن جولائی 1955ء آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے صفحہ 142 پر لکھتے ہیں۔ ’’…جماعت احمدیہ قادیان۔ انڈونیشیا۔ جنوبی۔ مشرقی اور مغربی افریقہ میں عیسائی مشنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہے۔‘‘

4۔ جسٹس دان۔ ڈیر کو دوف ’’دی مسلم ورلڈ‘‘ (جنوری 1962ء) کی اشاعت میں لکھتے ہیں۔ ’’انڈونیشیا کے ایک مشہور پبلشر نے مجھے بتایا کہ انڈونیشیا کا نوجوان علمی طبقہ جماعت احمدیہ کا لٹریچر بڑے شوق کے ساتھ خریدتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ انڈونیشیا کے بڑے جزائر میں احمدی موجود ہیں بلکہ دور افتادہ علاقوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ غالب اکثریت قادیانی احمدیوں کی ہے تاہم ان دونوں احمدیہ فرقوں کا وجود مغربی تعلیم یافتہ نوجوانوں میں احیاء اسلام کا زبردست محرک ہے۔

جماعت احمدیہ کا اثر ہندوستان سے نکل کر ساری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ اس کی شاخیں اور اس کا لٹریچر دنیا کے ہر گوشے میں پہنچ چکا ہے یورپ اور امریکہ کے لوگ اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے مبلغ بھی تمام ممالک میں فریضہ تبلیغ ادا کر رہے ہیں یورپ اور باقی علمی دنیا میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی ایک خاص اہمیت کی حامل ہیں اور اپنے اس امتیاز کے باعث ہم اس کے معترف اور ممنون ہیں۔ ‘‘

(نیشنل فرنٹ نیوز آف انڈونیشیا۔ 20؍ دسمبر 1962ء)

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلد4 صفحہ 537تا 545)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button