تاریخ احمدیت

4؍تا 9؍ اگست1924ء: حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ کا پہلا تاریخی دورۂ یورپ: دمشق میں قیام کے دوران مخالف حالات کے باوجود غیر معمولی طور پر کامیابی اور شہرت

دمشق میں قیام کے دوران مخالف حالات کے باوجود غیر معمولی طور پر کامیابی اور شہرت

حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ 4؍اگست 1924ء کی صبح کو حیفا سے بذریعہ ریل روانہ ہو کر اسی شام کو ساڑھے آٹھ بجے کے قریب دمشق پہنچے اور 9؍ اگست تک یہاں مقیم رہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو مخالف حالات کے باوجود دمشق میں غیر معمولی طور پر کامیابی اور شہرت عطا فرمائی جس کی تفصیل خود حضور کے قلم سے لکھی جاتی ہے۔ فرماتے ہیں:

’’جب ہم دمشق میں گئے تو اول تو ٹھہرنے کی جگہ ہی نہ ملتی تھی۔ مشکل سے انتظام ہوا مگر دو دن تک کسی نے کوئی توجہ نہ کی۔ میں بہت گھبرایا اور دعا کی اے اللہ! پیشگوئی جو دمشق کے متعلق ہے کس طرح پوری ہو گی۔ اس کا یہ مطلب تو ہو نہیں سکتا کہ ہم ہاتھ لگا کر واپس چلے جائیں۔ تُو اپنے فضل سے کامیابی عطا فرما۔ جب میں دعا کرکے سویا تو رات کو یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہو گئے:

’’عبد مکرم‘‘

یعنی ہمارا بندہ جس کو عزت دی گئی …۔ چنانچہ دوسرے ہی دن جب اٹھے تو لوگ آنے لگے یہاں تک کہ صبح سے رات کے بارہ بجے تک دو سو سے لے کر بارہ سو تک لوگ ہوٹل کے سامنے کھڑے رہتے۔ اس سے ہوٹل والا ڈر گیا کہ فساد نہ ہو جائے۔ پولیس بھی آگئی اور پولیس افسر کہنے لگا۔ فساد کا خطرہ ہے۔ میں نے یہ دکھانے کے لئے کہ لوگ فساد کی نیت سے نہیں آئے۔ مجمع کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ چند ایک نے گالیاں بھی دیں لیکن اکثر نہایت محبت کا اظہار کرتے اور ھَذَا ابْنُ الْمَھْدِیِّ کہتے اور سلام کرتے مگر باوجود اس کے پولیس والوں نے کہا کہ اندر بیٹھیں۔ ہماری ذمہ داری ہے اور اس طرح ہمیں اندر بند کر دیا گیا۔ اس پر ہم نے برٹش قونصل کو فون کیا …۔ اس پر ایسا انتظام کر دیا گیا کہ لوگ اجازت لے کر اندر آتے رہے …۔ غرض عجیب رنگ تھا۔ کالجوں کے لڑکے اور پروفیسر آتے۔ کاپیاں ساتھ لاتے اور جو میں بولتا لکھتے جاتے۔ اگر کوئی لفظ رہ جاتا تو کہتے یا استاذ ذرا ٹھہرئیے۔ یہ لفظ رہ گیا ہے۔ گویا انجیل کا وہ نظارہ تھا جہاں اسے استاد کرکے حضرت مسیح ؑکو مخاطب کرنے کا ذکر ہے اگر کسی مولوی نے خلاف بولنا چاہاتو وہی لوگ اسے ڈانٹ دیتے۔ ایک مولوی آیا جو بڑا بااثر سمجھا جاتا تھا۔ اس نے ذرا ناواجب باتیں کیں تو تعلیم یافتہ لوگوں نے ڈانٹ دیا اور کہہ دیا کہ ایسی بیہودہ باتیں نہ کرو۔ ہم تمہاری باتیں سننے کے لئے نہیں آئے اس پر وہ چلا گیا اور رؤسا معذرت کرنے لگے کہ وہ بے وقوف تھا۔ اس کی کسی بات پر ناراض نہ ہوں یہ ایک غیر معمولی بات تھی۔ پھر منارۃ البیضاء کا بھی عجیب معاملہ ہوا۔ ایک مولوی عبدالقادر صاحب (المغربی۔ ناقل) حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے دوست تھے۔ ان سے میں نے پوچھا کہ وہ منارہ کہاں ہے جس پر تمہارے نزدیک حضرت عیسیٰ ؑنے اترنا ہے۔ کہنے لگےمسجد امویہ کا ہے لیکن ایک اَور مولوی صاحب نے کہا کہ عیسائیوں کے محلہ میں ہے ایک اور نے کہا حضرت عیسیٰ آکر خود بنائیں گے۔ اب ہمیں حیرت تھی کہ وہ کونسا منارہ ہے۔ دیکھ تو چلیں۔ صبح کو میں نے ہوٹل میں نماز پڑھائی اس وقت میں اور ذوالفقار علی خان صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تھے یعنی میرے پیچھے دو مقتدی تھے۔ جب میں نے سلام پھیرا تو دیکھا سامنے منار ہے اور ہمارے اور اس کے درمیان صرف ایک سڑک کا فاصلہ ہے۔ میں نے کہا یہی وہ منار ہے اور ہم اس کے مشرق میں تھے۔ یہی وہ سفید منارہ تھا اور کوئی نہ تھا۔ مسجد امویہ والے منار نیلے سے رنگ کے تھے جب میں نے اس سفید منارہ کو دیکھا اور پیچھے دو ہی مقتدی تھے تو میں نے کہا کہ وہ حدیث بھی پوری ہو گئی۔‘‘

’’دمشق میں توقع سے بہت بڑھ چڑھ کر کامیابی ہوئی…۔ اخبارات نے لمبے لمبے تعریفی مضامین شائع کئے۔ دمشق کے تعلیم یافتہ طبقے نے نہایت گہری دلچسپی لی۔ تمام وہ اخبارات جن میں ہمارے مشن کے متعلق خبریں اور مضامین نکلتے تھے کثرت سے فوراً فروخت ہو جاتے تھے۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے اوپر شیخ عبدالقادر مغربی کا ذکر فرمایا ہے۔ ان کا ایک خاص واقعہ بھی ہے جس کا بیان کرنا ضروری ہے۔ ان صاحب نے جو دمشق کے ادیب شہیر تھے حضور سے کہا کہ ایک جماعت کے معزز امام ہونے کی حیثیت سے ہم آپ کا اکرام کرتے ہیں۔ مگر آپ یہ امید نہ رکھیں کہ ان علاقوں میں کوئی شخص آپ کے خیالات سے متاثر ہو گا کیونکہ ہم لوگ عرب نسل کے ہیں اور عربی ہماری مادری زبان ہے اور کوئی ہندی خواہ وہ کیسا ہی عالم ہو ہم سے زیادہ قرآن و حدیث کے معنی سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ آپ نے یہ گفتگو سن کر اس کے خیال کی تردید فرمائی اور ساتھ ہی تبسم کرتے ہوئے فرمایا کہ مبلغ تو ہم نے ساری دنیا میں ہی بھیجنے ہیں۔ مگر اب ہندوستان واپس جانے پر میرا پہلا کام یہ ہو گا کہ آپ کے ملک میں مبلغ روانہ کروں اور دیکھوں کہ خدائی جھنڈے کے علمبرداروں کے سامنے آپ کا کیا دم خم ہے۔ چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا کہ ولایت سے واپسی پر دمشق میں دارالتبلیغ قائم کرنے کے لئے حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب اور مولانا جلال الدین صاحب شمس کو بھجوا دیا۔

دمشق سے پورٹ سعید تک

حضورؓ10؍اگست1924ء کو دمشق سے روانہ ہو کر بیروت سے ہوتے ہوئے حیفا پہنچے۔ اور پھر عکہمیں بہائیوں کا مرکز دیکھنے تشریف لے گئے۔ مگر وہاں جاکر آپ کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب آپ کو معلوم ہوا کہ عکہ میں کوئی بہائی نہیں ہے بلکہ عکہ سے تین چار میل پرے ایک گاؤں ہے جس کا نام منثیہ ہے۔ اس میں یہ لوگ رہتے ہیں۔ بڑی مشکل سے موٹروں پر وہاں پہنچے۔ بہجہمیں مرزا محمد علی صاحب سے جو مرزا عباس علی صاحب کے چھوٹے بھائی تھے معلوم ہوا کہ یہ گمنام سی جگہ ہے کبھی کبھار کوئی مہمان آجاتا ہے تو مکان کے ایک گوشہ میں ٹھہر جاتا ہے۔ جب بہائیوں کی تعداد کے متعلق ان سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ صحیح تعداد تو نہیں بتائی جا سکتی مگر جو کچھ بہائی ہیں ایران ہی میں ہیں پھر کچھ امریکہ میں ہیں باقی ملکوں میں یونہی تھوڑے ہیں۔

حضور بہجہ میں دو گھنٹے تک ٹھہرے مگر کچھ معلوم نہ ہوا کہ اس جگہ کوئی اور بھی آباد ہے۔ یہاں سے فارغ ہو کر حضور اپنے قافلہ سمیت واپس حیفا پہنچے اور دوسرے دن صبح پورٹ سعید کی طرف روانہ ہوئے۔

(حاشیہ : عکا شہر کی آبادی سے چار میل دور کھیتوں میں جس جگہ بہاءاللہ کی قبر ہے بہائی اس کا نام بہجہ رکھتے ہیں۔)

(تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 442 تا 444)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button