متفرق مضامین

حاصل مطالعہ

کرنل ڈگلس سے امام مسجد لندن کی ملاقات

٭…تاریخ احمدیت کی جلد 16میں کرنل ڈگلس کی امام مسجد فضل لندن سے ملاقات کے متعلق لکھا ہے:

’’کرنل ولیم مانٹیگو ڈگلس کا نام تاریخ احمدیت میں ہمیشہ ہی زریں حروف میں لکھا جائے گا۔

آپ ہی وہ قابل فخر وجود ہیں جنہوں نے پادری ہنری مارٹن کلارک کے مقدمہ اقدام قتل میں باوجود عیسائی ہونے کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے حق میں فیصلہ دیا۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کو نہ صرف اس پیلا طوس سے مشابہت دی ہے جس کی عدالت میں یہودیوں نے حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا بلکہ حق و انصاف پر مبنی جرأت مندانہ فیصلہ کرنے پر آپ کی تعریف بھی فرمائی ہے۔ چنانچہ حضوؑر ’’ کشتی نوح‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:

’’یہ پیلا طوس مسیح ابن مریم کے پیلا طوس کی نسبت زیادہ بااخلاق ثابت ہوا کیوں کہ عدالت کے امرمیں وہ دلیری اور استقامت سے عدالت کا پابند رہا۔اور بالائی سفارشوں کی اس نے کچھ بھی پرواہ نہ کی۔اور قومی اور مذہبی خیال نےبھی اس میں کچھ تغیر پیدا نہ کیا۔ اور اس نے عدالت پر پورا قدم مارنے سے ایسا عمدہ نمونہ دکھایا کہ اگر اس کے وجود کو قوم کا فخر اور حکام کیلئے نمونہ سمجھا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ عدالت ایک مشکل امر ہے۔ جب تک انسان تمام تعلقات سے علیحدہ ہو کر عدالت کی کرسی پر نہ بیٹھے تب تک اس فرض کو عمدہ طور پر ادا نہیں کر سکتا۔مگر ہم اس سچی گواہی کو ادا کرتے ہیں کہ اس پیلاطوس نے اس فرض کو پورے طور پر ادا کیا۔اگرچہ پہلا پیلا طو س جو رومی تھا اس فرض کو اچھے طور پر ادا نہ کر سکا۔اور اس کی بزدلی نے مسیح کو بڑی تکالیف کا نشانہ بنایا۔یہ فرق ہماری جماعت میں ہمیشہ تذکرہ کے لائق ہے جب تک کہ دنیا قائم ہے اور جیسے جیسےیہ جماعت لاکھوں کروڑوں افراد تک پہنچے گی ویسی ویسی تعریف کے ساتھ اس نیک نیت حاکم کا تذکرہ رہے گا۔ اور یہ اس کی خوش قسمتی ہے کہ خدا نے اس کام کے لیے اسی کو چنا۔‘‘

(کشتی نوح، طبع اول صفحہ 52)

1953ءمیں کرنل ڈگلس کی عمر 90سال کے لگ بھگ تھی اور تالیف و تصنیف کا کام آپ نے اب بھی جاری رکھا ہوا تھا۔ چنانچہ اسی سال آپ کی تیسری کتاب لارڈ آکسفورڈ اینڈ دی شیکسپیئر جامپ (Lord Oxford and the Shakespeare gomp)چھپ کار منصۂ شہود میں آئی۔ ان علمی مصروفیات کے باوجود آپ نے چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ امام مسجد لندن کو نصف گھنٹہ ملاقات کا موقع دیا۔چوہدری صاحب موصوف کے ساتھ اس ملاقات میں شیخ مبارک احمد صاحب بی اے (ابن حضرت خانصاحب مولوی فرزند علی صاحبؓ) بھی تھے۔

شیخ مبارک احمد صاحب کا بیان ہے کہ ملاقات کے شروع میں ہی ’’انہوں نے دریافت کیا کہ چودھری ظفر اللہ خان صاحب کا کیا حال ہے؟ اور احمدیت کی مخالفت کا کیا حال ہے ؟ چوہدری صاحب موصوف کی ہستی اور ان کی خدمات کو سراہتے ہوئے انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ چودھری صاحب کے قیمتی وجود کی قدر کرنی چاہیے۔احمدیت کے متعلق انہوں نے کہا کہ یہ تحریک مٹے گی نہیں۔بلکہ آئندہ ترقی ہی کرے گی۔لیکن مجھے اس کے راستہ میں بہت سی مشکلات حائل نظر آرہی ہیں۔ پھر انہوں نے اپنی زندگی کے ان ایام پر نظر دوڑاتے ہوئے جو انہوں نے ہندوستان میں گذارے تھے کہا کہ ساٹھ سال کا عرصہ ہو چکا ہے مگر میری آنکھوں کے سامنے وہ نظّارہ اب تک موجود ہے۔جس وقت مرزا غلام احمد صاحب(مسیح موعودؑ) دائیں طرف اور پادری مارٹن کلارک بائیں طرف کھڑے تھے اور میرے سامنے مرزا صاحب کے خلاف جعلی مقدمہ دائر تھا۔اور مارٹن کلارک مرزا صاحب( مسیح موعودؑ) کے خلاف گواہی دے رہا تھا اور پستول نکال کر سامنے رکھ رہا تھا کہ یہ مرزا صاحب نے عبدالحمید کو دیا تھا۔وکیل کا نام تو مجھے یاد نہیں۔مگر جب اس نے عبدالحمید سے سوال کیا کہ کیا تمہارے ساتھ اس فعل میں کوئی accomplice(شریک جرم) تھا؟ تو اُسے مرزا صاحب( مسیح موعودؑ) کا نام تو آتا نہ تھا اس لئے اس کے ہاتھ پر اُس کے شریک کاروں نے مرزا صاحب (مسیح موعودؑ) کا نام لکھ دیا تھا اور وہ اپنا ہاتھ دیکھ رہا تھا۔اس پر مجھے شک ہوا کہ آخریہ اپنا ہاتھ کیوں دیکھتا ہے جواب کیوں نہیں دیتا۔معلوم کرنے پر حقیقت آشکار ہوئی کہ وہ اپنے ہاتھ پر سے نام پڑھ رہا تھا۔اُس وقت معاً میرے ذہن میں خیال آیا اور مَیں نے دریافت کیا کہ یہ لڑکا کہاں رہتا ہے ؟تو مجھے بتایا گیا کہ پادریوں کے پاس رہتا ہے۔مَیں نے اسی وقت کہا کہ اس لڑکے کو علیحدہ لے جاؤ اور پولیس کی نگرانی میں رکھو چنانچہ ایسا کرنے سے اس پر پادریوں کا اثر اور رعب زائل ہو گیا اور اس نے حقیقت سے آگاہ کر دیا۔ مزید کہا کہ میں چاہتا تھا کہ جعلی مقدمہ کے سرکردہ لوگوں کو سخت سزا میں دو ں۔مگر مرزا صاحب کے خلاف اس قدر تعجب تھا اور لوگ برافروختہ ہوئےہوئےتھے کہ مَیں نے یہی مناسب سمجھا کہ ان پر سختی نہ کی جائے۔مبادا حالات اور زیادہ کشیدہ ہو جائیں۔اس لئے انہیں سخت سزائیں دینے سے گریز کیا۔یہ تمام واقعہ وہ ایسے پیرایہ میں بیان کر رہے تھے کہ سننے والا محسوس کرتا تھا کہ وہ اس میں ایک لذّت اور فخر سامحسوس کرتے ہیںجو ایک نیک کام کرنے والے کو نیکی کر کے محسوس ہوتا ہے اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے حقیقت کو پا کر اپنے ہم مذہب لوگوں کا خیال نہ کرتے ہوئے حق اور راستی کا ساتھ دیا۔اور یہ ایک کارنامہ تھا۔

اگرچہ انہوں نے ربوہ کو دیکھا تو نہیں مگر ان کا حافظہ انہیں اس قطعہ اراضی کو Locateکرنے میں اس قدر ممد ثابت ہوا کہ فورا ًوہ جگہ پہچان لی۔ اور کہا کہ و ہاںسے کئی دفعہ انہیں گزرنے کا اتفاق ہوا تھا یہ بھی ذکر کیا کہ میرا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام انسان تھے اور خدا کے رسول۔ جیسے دوسرے انبیاء کرام۔میں انہیں خدا نہیں مانتا۔اور نہ ہی میں تثلیث کا قائل ہوں۔اور مرزا غلام احمد صاحب (مسیح موعود ؑ)کو بھی خدا کا برگزیدہ انسان اور نبی تصور کرتا ہوں۔مگر ان پر ایمان لانا اس لئے ضروری نہیں سمجھتا کہ حضرت مسیح کے وجوداور ان کی پیروی سے میری تسلّی ہوجاتی ہے۔اِن سب واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں احمدیت سے ایک لگاؤ ہے ایسا لگاؤ ہے جو سلیم الطبع اور نیک فطرت کو حق اور سچائی کے ساتھ ہوتا ہے ‘‘۔

(تاریخ احمدیت جلد 16صفحہ 198تا201)

(مرسلہ:زینوبیہ احمد۔لندن)

ہم تو حیوان کو انسان بنانے آئے ہیں

٭…تاریخ احمدیت میں یہ دلچسپ واقعہ لکھا ہے کہ

’’بابو غلام محمد صاحب فورمین لاہور اور میاں عبدالعزیز صاحب مغل کا بیان ہے کہ ایک دفعہ جب کہ حضور ؑ لاہور تشریف لائے تو ہم چند نوجوانوں نے مشورہ کیاکہ دوسری قوموں کے بڑے بڑے لیڈر جب یہاں آتے ہیں تو ان کے نوجوان گھوڑوں کی بجائے خود ان کی گاڑیاں کھینچتے ہیں۔ اور ہمیں جو لیڈر اللہ تعالیٰ نے دیا ہے یہ اتنا جلیل القدر ہے کہ بڑے بڑے بادشاہ بھی اس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ پس آج گھوڑوں کی بجائے ہمیں ان کی گاڑی کھینچنی چاہیے۔ چنانچہ ہم نے گاڑی والے سے کہا کہ اپنے گھوڑے الگ کرلو آج گاڑی ہم کھینچیں گے۔ کوچ مین نے ایسا ہی کیا۔ جب حضور باہر تشریف لائے تو فرمایا کہ گھوڑے کہاں ہیں ؟ ہم نے عرض کیا کہ حضور دوسری قوموں کے لیڈر آتے ہیں تو ان قوموں کے نوجوان ان کی گاڑیان کھینچتے ہیں آج حضور کی گاڑی کھینچنے کا شرف ہم حاصل کریں گے۔ فرمایا فوراً گھوڑے جوتو!! ہم انسان کو حیوان بنانے کے لئے دنیا میں نہیں آئے۔ ہم تو حیوان کو انسان بنانے کے لئے آئے ہیں۔ ‘‘

(تاریخ احمدیت جلد دوم صفحہ 534)

(ظہیر احمد طاہر۔ جماعت نوئے ہوف۔ جرمنی )

ہم خدا تعالیٰ کی چنندہ جماعت ہیں

ہمیں دنیا سے ممتاز اور علیحدہ رنگ میں رنگین ہونا چاہیے

٭…حضرت مصلح موعود ؓ فرماتے ہیں:

’’ہمارے زمانہ کو خدا اور اس کے رسولوں نے آخری زمانہ قرار دیا ہے اس لیے ہماری قربانیاں بھی آخری ہونی چاہئیں۔ ہمیں خدا تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لیے چنا ہے اور ہم خدا تعالیٰ کی چنندہ جماعت ہیں۔ ہمیں دنیا سے ممتاز اور علیحدہ رنگ میں رنگین ہونا چاہیے۔صحابہ ہمارے لیے ادب کی جگہ ہیں مگر عشق میں رشک پیاروں سے بھی ہوتا ہے۔ پس ہمارا مقابلہ ان سے ہے جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوش بدوش جنگیں کیں اور اپنی جانیں قربان کیں۔ ہم ان کی بے حد عزت اور توقیر کرتے ہیں لیکن کوئی وجہ نہیں کہ ان کی قربانیوں پر رشک نہ کریں اور ان سے بڑھنے کی کوشش نہ کریں۔

میں ایک مثال بیان کرتا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک دفعہ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے۔آپؐ کا طریق یہ تھا کہ اگر کوئی چیز اہلِ مجلس کو دیتے تو دائیں طرف والوں کو دیتے۔ اس وقت آپ کے لیے دودھ لایا گیا۔ آپؐ نے اس وقت حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف دیکھا جو بائیں طرف بیٹھے تھے اور دائیں طرف ایک بچہ بیٹھا تھا آپؐ نے شاید اس خیال سے کہ حضرت ابوبکؓر بوڑھے ہیں اور دیر سے بیٹھے ہیں،انہیں بھوک لگی ہوگی بچے سے کہا اگر اجازت دو تو میں یہ دودھ ابوبکر ؓکو دے دو ں بچہ نے کہا کیا یہ دودھ لینے کا میرا حق ہے ؟آپؐ نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا پھر میں یہ نہیں کر سکتا کہ یہ حضرت کا تبرک ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ کو دے دوں، میں اس برکت کو نہیں چھوڑ سکتا۔پس ہم صحابہ کرام کو ادب اور احترام کا مقام دے سکتے ہیں۔ اور ان کے لیے جان بھی دے سکتے ہیں مگر جب قربانی کا موقع آئے تو ہم کہیں گے کہ ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ جب تک ہم میں سے ہر ایک کے دل میں یہ جذبہ نہ پیدا ہو ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے اپنی ذمہ داری کو پوری طرح محسوس کر لیا۔ ‘‘

(خطابات شوریٰ جلداوّل صفحہ640تا641)

مومن کے کام کا محرک

٭…’’دنیا میں کام دو طرح ہوتے ہیں ایک محبت سے دوسرے خوف سے۔یہ دونوں چیزیں ایک دوسری کے ساتھ لگی ہوتی ہیں مگر کبھی باری باری آتی ہیں۔ کچھ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ ان کے کاموں پر محبت غالب ہوتی ہے اور کچھ وہ ہوتے ہیں جن کے کاموں پرخوف غالب ہوتا ہے یعنی انسان بعض کام خوف سے کرتا ہے اور بعض کا م محبت سے۔ یہ دو دائرے ہیں۔ ان کے متعلق ایک بات یاد رکھنی چاہیے اور وہ یہ کہ جن کا دائرہ محبت کا ہوتا ہے وہ خواہش کے ماتحت ہوتا ہے کہ یہ بھی ہو جائے اور یہ بھی حاصل ہو جائے اور جن کا دائرہ خوف کا ہوتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا نہ ہو جائے۔ آج کل جب کہ ایک قسم کا خوف پیدا ہے، میں دیکھتا ہوں بعض کی حالت ایسی ہے کہ وہ کہتے ہیں ایسا نہ ہو جائے یعنی احرار ہمیں تباہ نہ کر دیں مگر کام کرنے کا یہ محرک اولیٰ ہے۔ مومن کا محرک یہ ہوتا ہے کہ یہ بھی لینا ہے اور وہ بھی لینا ہے۔ اس کی مثال بچہ کی سی ہوتی ہے جس کی ترقی محبت کے ماتحت ہوتی ہے اس کی بڑی بڑی امنگیں ہوتی ہیں۔ وہ کبھی کہتا ہے میں بہت بڑا تاجر بنوں گا، کبھی کہتا ہے بادشاہ بنوں گا لیکن اگر کسی بوڑھے سے پوچھو کہ تمہاری کیا خواہش ہے تو وہ کہے گا بس یہی کے انجام بخیر ہو جائے۔ بچہ یہ کوشش کرتا ہے کہ یہ بھی لے لوں مگر بوڑھا یہ کوشش کرتا ہے کہ اس بلاسے بچ جاؤں اور اس بلا سے بھی بچ جاؤں۔ بوڑھا آخرت کی فکر میں ہوتا ہے مگر بچہ نئی دنیا پیدا کر رہا ہوتا ہے۔ بڈھے کا محرک گرنے والا ہوتا ہے مگر بچے کا بڑھنے والا۔ …مومن کبھی بوڑھا نہیں ہوتا کیونکہ جسم کے بڑھاپے کی وجہ سے بڑھاپا نہیں آتا بلکہ روح کے بڑھاپے سے آتا ہے۔ بچہ جب باتیں کرنے لگتا ہے تو اس زمانہ میں کہتا ہے چاند لینا ہے، تارا لینا ہے۔

…پس ہم کام اس لیے نہ کریں کہ دشمن ہمیں مار دے گا کیونکہ یہ مومن کی شان نہیں بلکہ مومن کی شان یہ ہے کہ کام اس لیے کرتا ہے کہ یہ بھی لینا ہے اور وہ بھی لینا ہے۔

دیکھو قرآن کریم میں کیسے لطیف پیرایہ میں یہ بات بیان کی گئی ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے

وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْانْسَانَ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ طِیْنٍ۔

ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔طین پانی ملی ہوئی مٹی کو کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ دو محرک کام پر لگانے والے ہیں۔ پھر فرماتا ہے یہ دو چیزیں رکھیں۔ پھر کیا کیا

ثُمَّ جَعَلْنٰہٗ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ

نطفہ بنا دیا۔ یعنی پانی رہ گیا اور مٹی غائب ہو گئی۔ دوسری جگہ فرماتا ہے۔

وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَآءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ

ہر چیز کو پانی سے زندہ کیا۔یعنی ہر چیز جذبات اور اُمنگ وا لی ہوتی ہے اس میں بڑھنے کی طاقت ہوتی ہے۔ پانی حیات نامیہ ہے۔ آخر جب پانی کم ہوجاتا ہے تو ہر چیز مٹی بن جاتی ہے گویا ابتدا ماء سے ہوتی ہے اور انجام تراب پر ہوتا ہے۔ یہی مومن اور غیر مومن کی حالت ہوتی ہے۔مومن اس لیے کام کرتا ہے کہ دنیا بسا جاؤں لیکن غیر مومن اس لیے کرتا ہے کہ فلاں خطرہ سے بچ جاؤں، فلاں مصیبت سے بچ جاؤں۔‘‘

(خطابات شوریٰ جلداوّل صفحہ643تا644)

(مرسلہ:سیداحسان احمد، مربی سلسلہ الفضل انٹرنیشنل لندن)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button