متفرق مضامین

استغفار ایک عظیم الشان نعمت

(فرید احمد نوید۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل، گھانا)

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے 90سے زائد مقامات پر اپنی صفت غفور کا ذکر فرمایا ہے

’’استغفار بہت پڑھا کرو۔ انسان کے واسطے غموں سے سبک ہونےکے واسطے یہ طریق ہے نیز استغفار کلیدِ ترقیات ہے۔‘‘

اللہ تعالیٰ بہت ہی غفور اور رحیم ہے اور اس نے اپنی پاک کتاب میں اس امر کا بار بار اعادہ کیا ہے کہ اس سے زیادہ بخشنے والے، عطا کرنے والے اور رحم کرنے والے کسی وجود کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے 90سے زائد مقامات پر اپنی صفت غفور کا ذکر فرمایا ہے اور سوائے چندایک مقامات کے ہر ایک جگہ پر غفور کی صفت کے ساتھ رحیم کا اضافہ بھی فرمایا ہے۔ گویا وہ لوگ جوسچے دل سے اپنے اللہ سے تعلق باندھتے ہیں ، اسے اس کی صفت غفور کے حوالے سے پکارتے ہیں ،وہ نہ صرف اللہ تعالیٰ کی اس صفت کو جنبش دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں بلکہ ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کی موسلا دھار بارش بھی برسنے لگتی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس صفت سے فائدہ اٹھانے کے اسلوب اور طریق بھی قرآن کریم میں ہی سکھادیے ہیں اور اس کے نتیجے میں ملنے والے انعامات کا بھی تذکرہ کیا ہے تاکہ جو بھی فائدہ اٹھانا چاہے اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے فائدہ اٹھا لے۔ اس نعمت عظمیٰ کو عرف عام میں ہم استغفار کے نام سے جانتے ہیں۔ لیکن دنیا کی ایک بہت بڑی تعداد اس نعمت کی حقیقت سے آگاہ نہیں ہے اور اسے صرف گناہوں کی معافی کے ساتھ جوڑ کر اس کے وسیع تر ین معانی کو بہت محدود سمجھ بیٹھی ہے حالانکہ قرآن کریم استغفار کو ایک غیر معمولی دعا کے طور پر پیش کرتا اور اس سے استفادہ کی تلقین فرماتا ہے۔ اسی کم فہمی کی بنا پر بسا اوقات ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کے استغفار پر بھی مستشرقین کی جانب سے اعتراضات اٹھائے جاتے رہے ہیں حالانکہ ان کے یہ اعتراضات ان کی اپنی کم علمی کا پردہ چاک کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں کرتے۔

استغفار کے اصل معنی

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام استغفار کے معانی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’استغفار کے اصل معنے تو یہ ہیں کہ یہ خواہش کرنا کہ مجھ سے کوئی گناہ نہ ہو یعنی میں معصوم رہوں اور دوسرے معنے جو اس سے نیچے درجے پر ہیں کہ میرے گناہ کے بدنتائج جو مجھے ملنے ہیں میں ان سے محفوظ رہوں۔ ‘‘

( ملفوظات جلد 2صفحہ 422،ایڈیشن1988ء)

نیز ایک اور موقع پر آپؑ نے فرمایا کہ

’’استغفار سے مراد تو ترقی مراتب ہے۔ ‘‘

اب دنیا میں کونسا ایسا انسان ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے قرب میں ترقی کرنے کا خواہاں نہ ہو؟ اور یہ خواہش نہ رکھتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں وہ ایک مجرم کے بجائے معصوم شمار کیا جائے اور کبھی بھی اس سے کوئی ایسی غلطی سرزد نہ ہو جو اللہ تعالیٰ کو اس سے ناراض کردے۔

آنحضرتﷺ کے متعلق احادیث میں ذکر ملتا ہے کہ آپؐ کثرت سے استغفار کیا کرتے تھے اورآپؐ کے اس استغفار نے جو عظیم الشان انعامات آپؐ کو عطا کیے وہ بھی بے مثال ہیں۔ آپؐ کو استغفار سے کیسی محبت تھی اس کا اندازہ کرنے کے لیے یہ ایک حدیث ہی کافی ہے۔

’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: خدا کی قسم میں دن میں اللہ تعالیٰ سے 70مرتبہ سے زیادہ استغفار اور توبہ کرتا ہوں‘‘۔

( صحیح بخاری حدیث نمبر6307)

استغفار کی حقیقت

آپؐ کے غلام صادق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اَور موقع پر مستشرقین کی طرف سے آنحضرتﷺ کے استغفار پر کیے جانے والے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا :

’’نادان لوگ لا علمی کی وجہ سے یہ کہتے اور فخر کرتے ہیں کہ مسیح استغفار نہ کرتا تھا؛ حالانکہ یہ بات کسی قسم کے ناز کی نہیں بلکہ رونے اور افسوس کرنے کی ہے۔ اگر وہ استغفار نہ کرتا تو گویا اس نور سے بالکل محروم تھا جو کہ اﷲ تعالیٰ اپنے برگزیدوں کو عطا کیا کرتا ہے۔ کوئی نبی جس قدر زیادہ استغفار کرنےوالا ثابت ہو گا اسی قدر اس کا درجہ بڑا اور بلند ہو گا،لیکن جس کو یہ حالت حاصل نہیں تو وہ خطرہ میں ہے اور ممکن ہے کہ کسی وقت اس سے وہ چادر حفاظت کی چھین لی جاوے…استغفار کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ موجودہ نور جو خد اتعالیٰ سے حاصل ہوا ہے وہ محفوظ رہے اور زیادہ اَور ملے۔ اسی کی تحصیل کے لئے پنجگانہ نماز بھی ہے تا کہ ہر روز دل کھول کھول کر اس روشنی کو خدا تعالیٰ سے مانگ لیوے ۔ جسے بصیرت ہے وہ جانتا ہے کہ نماز ایک معراج ہے اور وہ نماز ہی کی تضرع اور ابتہال سے بھری ہوئی دعا ہے جس سے یہ امراض سے رہائی پاسکتا ہے۔ وہ لوگ بہت بیوقوف ہیں جو دوری ڈالنے والی تاریکی کا علاج نہیں کرتے۔ ‘‘

( ملفوظات جلد 4صفحہ 97،ایڈیشن1988ء)

اسی طرح ایک اور موقع پرجب ایک شخص نے اپنی مشکلات کے لیے دعا کی درخواست کی توحضور ؑنے فرمایا کہ

’’استغفار بہت پڑھا کرو۔ انسان کے واسطے غموں سے سُبک ہونےکے واسطے یہ طریق ہے نیز استغفار کلیدِ ترقیات ہے۔ ‘‘

( ملفوظات جلد 1صفحہ442،ایڈیشن1988ء)

ان ارشادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب ہم قرآن کریم پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ درحقیقت استغفار ایک ایسی عظیم الشان اور آزمودہ دعا ہے جو اللہ تعالیٰ کے رحم اور فضل کو بہت جلد کھینچ لاتی ہے اور انسان کو ہر ایک مشکل سے نجات دے کرغنی کردیتی ہے۔ پس ذیل میں ہم ان نعمتوں کا ذکر کرتے ہیں جو قرآن کریم کے وعدے کے مطابق انسان کو استغفار کے ذریعہ حاصل ہوسکتی ہیں۔

گناہوں کی بخشش کا ایک ذریعہ

وہ لوگ جو نا دانستہ یا دانستہ طور پر کسی گناہ یا غلطی کا ارتکاب کر بیٹھیں قرآن انہیں مایوسی کی بجائے استغفار کا راستہ دکھاتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے:

نیز وہ لوگ جو اگر کسی بے حیائی کا ارتکاب کر بیٹھیں یا اپنی جانوں پر (کوئی) ظلم کریں تو وہ اللہ کا (بہت) ذکر کرتے ہیں اور استغفار کرتے ہیں۔ اور اللہ کے سوا کون ہے جو گناہ بخشتا ہے۔ اور جو کچھ وہ کر بیٹھے ہوں اس پر جانتے بوجھتے ہوئے اِصرار نہیں کرتے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی جزا ان کے ربّ کی طرف سے مغفرت ہے اور ایسی جنتیں ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔ وہ ہمیشہ ان میں رہنے والے ہیں۔ اور عمل کرنے والوں کا کیا ہی اچھا اجر ہے۔

( سورت آل عمران آیات 136-137)

ان آیات میں کیسی عظیم الشان خوشخبری ہے ان گناہ کرنے والوں کے لیے جو نادم اور شرمسار ہو ں اور آئندہ کے لیے گناہوں سے اجتناب کرنے کا عہد کرکے اپنے رب سے استغفار کریں کہ نہ صرف اللہ تعالیٰ انہیں بخشش کا وعدہ دیتا ہے بلکہ اپنی رضا کی جنتوں کی ضمانت بھی دے دیتا ہے۔

بہترین سامانِ معیشت کی ضمانت

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

(یہ) ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیات مستحکم بنائی گئی ہیں (اور) پھر صاحب حکمت (اور) ہمیشہ خبر رکھنے والے کی طرف سے اچھی طرح کھول دی گئی ہیں۔ (متنبہ کر رہی ہیں) کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔ میں یقینا ًتمہارے لئے اس کی طرف سے ایک نذیر اور ایک بشیر ہوں۔ نیز یہ کہ تم اپنے ربّ سے استغفار کرو پھر اس کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکو تو تمہیں وہ ایک مقررہ مدت تک بہترین سامانِ معیشت عطا کرے گا اور وہ ہر صاحبِ فضیلت کو اس کے شایانِ شان فضل عطا کرے گا۔ اور اگر تم پھر جائو تو یقینا ًمیں تمہارے بارہ میں ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ ( سورت ھود آیات 2-4)

رحمت کی برسات اور طاقت کا حصول

قرآن کریم حضرت ھود علیہ السلام کی یہ نصیحت بھی ہمارے فائدے کے لیے بیان کرتا ہے کہ یاد کرو جب ھود نے اپنی قوم کو سمجھایا تھا کہ

اے میری قوم! اپنے ربّ سے استغفار کرو پھر اسی کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکو۔ وہ تم پر لگاتار مینہ برساتے ہوئے بادل بھیجے گا اور تمہاری قوت میں مزید قوت کا اضافہ کرے گا اور جرموں کا ارتکاب کرتے ہوئے پیٹھ پھیر کر نہ چلے جائو۔

(سورت ھود آیت 53)

اس آیت میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ استغفار کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کی برسات نازل ہوتی ہے اور انفرادی اور قومی طاقت و قوت میں اضافہ عطا کیا جاتا ہے۔

اللہ کی نعمتوں پر شکر کا ذریعہ

قرآن کریم بیان فرماتا ہے کہ استغفار اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کا بھی ایک طریق ہے جیسا کہ فرمایا:

اور ثمود کی طرف( ہم نے ) ان کے بھائی صالح کو (بھیجا)۔ اس نے کہا اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو۔ تمہارا اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ اسی نے زمین سے تمہیں پروان چڑھایا اور تمہیں اس میں آباد کیا۔ پس اس سے استغفار کرتے رہو پھر اسی کی طرف توبہ کے ساتھ جھکو۔ یقیناً میرا ربّ قریب ہے (اور دعا) قبول کرنے والا ہے۔

( سورت ھود آیت 62)

اللہ کی محبت کے حصول کازینہ

حضرت شعیب علیہ السلام کی ایک خوبصورت نصیحت بھی قرآن کریم ہماری رہ نمائی کے لیے بیان کرتا ہے کہ استغفار اللہ کی محبت کو جذب کرنے کا بھی ایک اہم طریق ہے جیسا کہ فرمایا:

اور اپنے ربّ سے استغفار کرو پھر اسی کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکو۔ یقیناً میرا ربّ بار بار رحم کرنے والا (اور) بہت محبت کرنے والا ہے۔

( سورت ھود آیت 91)

دینی خدمت سے محرومی کا علاج

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے لیے جو اپنی کسی جائز مجبوری کی بنا پر کسی اہم اجتماعی ذمہ داری میں شمولیت سے محروم رہ جائیں استغفار کرنے کی تلقین فرماتا ہے جیسا کہ فرمایا:

سچے مومن تو وہی ہیں جو اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائیں اور جب کسی اہم اجتماعی معاملے پر (غور کے لیے) اس کے پاس اکٹھے ہوں تو جب تک اس سے اجازت نہ لے لیں، اٹھ کر نہ جائیں۔ یقینا ًوہ لوگ جو تجھ سے اجازت لیتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والے ہیں۔ پس جب وہ تجھ سے اپنے بعض کاموں کی خاطر اجازت لیں تو ان میں سے جسے چاہے اجازت دے دے اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کرتا رہ۔ یقیناً اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

( سورۃ النور آیت 63)

خطائوں پر سزا سے بچنے کا طریق

حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ بد سلوکی کرنے والی عورت کی معافی کے لیے بھی استغفار ہی تجویز کیا گیا تھا جیسا کہ فرمایا:

اے یوسف! اس سے اِعراض کر اور تُو (اے عورت!) اپنے گناہ کی وجہ سے استغفار کر۔ یقینا ًتُو ہی ہے جو خطاکاروں میں سے تھی۔

( سورت یوسف آیت 30)

جبکہ برادران یوسف جنہوں نے آپ کے قتل کے منصوبے بنائے تھے اور بدترین بھائی ثابت ہوئے تھے ان کی خطائوں اور جرم کو دھونے کے لیے بھی استغفار کا نسخہ ہی کام میں آیاتھا جیساکہ قرآن کریم بیان کرتا ہے:

انہوں ( بھائیوں)نے کہا اے ہمارے باپ! ہمارے لئے ہمارے گناہوں کی بخشش طلب کر۔ یقینا ًہم خطاکار تھے۔ اس( حضرت یعقوبؑ) نے کہا میں ضرور تمہارے لئے اپنے ربّ سے استغفارکروں گا۔ یقینا ًوہی بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

( سورت یوسف آیات98-99)

امتحان اور ابتلاء میں کامیابی کا طریقہ

اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی سورت ’ص‘ میں حضرت دائود علیہ السلام کے ایک امتحان اور ابتلا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:

اور دا ئود نے سمجھ لیا کہ ہم نے اس کی آزمائش کی تھی۔ پس اس نے اپنے ربّ سے استغفار کیا اور وہ عجز کرتے ہوئے گِر پڑا اور توبہ کی۔ پس ہم نے اس کو بخش دیا۔ اور یقینا ًاُسے ہمارے ہاں ایک قربت اور اچھا مقام حاصل تھا۔

( سورۃ ص آیات 25-26)

مال ، اولاد اور جائیداد میں برکت

قرآن کریم حضرت نوح علیہ السلام کے الفاظ میں استغفار کی اہمیت اور برکات کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ استغفار کرو اس سے ہر قسم کی برکتوں کے دروازے تم پر کھل جائیں گے۔ فرمایا:

پس میں نے کہا اپنے ربّ سے استغفار کرو یقینا ًوہ بہت بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر لگاتار برسنے والا بادل بھیجے گا۔ اور وہ اموال اور اولاد کے ساتھ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لئے باغات بنائے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کرے گا۔

(سورت نوح آیات 11-13)

یعنی یہ تمام تر نعمتیں استغفار کے نتیجے میں کسی بھی شخص یا قوم کو حاصل ہوسکتی ہیں پس اس سے اچھی اور مختصر دعا اور کیا ہو سکتی ہے۔

فتوحات اور ترقیات کے موقع پر استغفار

فتوحات اور ترقیات کا موقع ایسا ہوتا جب ایک دنیا دار کی طرف سے یہ احتمال ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ان افضال پر کما حقہ شکر ادا نہ کرسکے لیکن ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ نے عظیم ترین فتوحات کے موقع پر بھی عاجزی، انکساری اور یاد الٰہی کے جو نمونے دکھائے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ آپ کے یہ نمونے رہتی دنیا تک ہر ایک طاقتور اور فاتح کے لیے مشعل راہ کے طور پر محفوظ رہیں گے اور سورۃ النصر ہم سب کو اس کی یاد دہانی بھی کرواتی رہے گی۔ جیسا کہ فرمایا:

جب اللہ کی مدد اور فتح آئے گی۔ اور تُو لوگوں کو دیکھے گا کہ وہ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہو رہے ہیں۔ پس اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ (اس کی) تسبیح کر اور اُس سے مغفرت مانگ۔ یقیناً وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے۔

( سورۃالنصر آیات 2-4)

روحانی ورزش

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام استغفار کے فوائد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’وَ اَنِ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ثُمَّ تُوۡبُوۡۤا اِلَیۡہِ (ھود:4)

یادرکھو کہ یہ دوچیزیں اس امت کو عطا فرمائی گئی ہیں۔ ایک قوت حاصل کرنے کے واسطے، دوسری حاصل کردہ قوت کوعملی طور پر دکھانے کے لئے۔ قوت حاصل کرنے کے واسطے استغفار ہے جس کو دوسرے لفظوں میں استمداد اور استعانت بھی کہتے ہیں۔ صُوفیوں نے لکھا ہے کہ جیسے ورزش کرنے سے مثلاً مگدروں اور موگریوں کے اُٹھانے او رپھیرنے سے جسمانی قوت اور طاقت بڑھتی ہے۔ اسی طرح پر رُوحانی مگدر استغفار ہے۔ اس کے ساتھ رُوح کو ایک قوت ملتی ہے اور دل میں استقامت پیدا ہوتی ہے۔ جسے قوت لینی مطلوب ہو وہ استغفار کرے۔ غفر ڈھانکنے اور دبانے کو کہتے ہیں۔ استغفار سے انسان اُن جذبات اور خیالات کو ڈھانپنے اور دبانے کی کوشش کرتا ہے (جو)خداتعالیٰ سے روکتے ہیں۔ پس استغفار کے یہی معنے ہیں کہ زہریلے مواد جو حملہ کرکے انسان کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں۔ اُن پر غالب آوے اور خداتعالیٰ کے احکام کی بجاآوری کی راہ کی روکوں سے بچ کر انہیں عملی رنگ میں دکھائے۔ ‘‘

( ملفوظات جلد اول صفحہ348،ایڈیشن1988ء)

عذاب سے نجات

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’گنا ہ ایک ایسا کیڑا ہے جو انسان کے خون میں ملا ہو ا ہے مگر اس کا علاج استغفار سے ہی ہو سکتا ہے۔ استغفارکیا ہے؟ یہی کہ جو گناہ صادرہو چکے ہیں ان کے بدثمرات سے خدا تعالیٰ محفوظ رکھے اور جوابھی صادرنہیں ہوئے اور جوبالقوہ انسان میں موجود ہیں ان کے صدور کا وقت ہی نہ آوے اور اندر ہی اندروہ جل بھن کرراکھ ہو جاویں۔ یہ وقت بڑے خوف کا ہے اس لئے توبہ و استغفار میں مصروف رہواور اپنے نفس کا مطالعہ کرتے رہو۔ ہر مذہب وملّت کے لوگ اور اہل کتا ب مانتے ہیں کہ صدقات وخیرات سے عذاب ٹل جا تا ہے مگر قبل ازنزول عذاب۔ مگر جب نا زل ہوجاتا ہے تو ہرگز نہیں ٹلتا، پس تم ابھی سے استغفار کرواور توبہ میں لگ جائوتا تمہاری باری ہی نہ آوے اور اللہ تعالیٰ تمہاری حفا ظت کرے۔ ‘‘

( ملفوظات جلد 3صفحہ218،ایڈیشن1988ء)

اللہ تعالیٰ سورۃ النساء آیت 65 میں استغفار کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے ان تمام انعامات کے حوالے سے یہ امر بھی بیان فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے استغفار کو مقبول بنانے کے لیے آنحضرتﷺ کی اطاعت بھی ضروری ہے اور اگر ہمارے استغفار کے ساتھ ہمارے حق میں آنحضرتﷺ کی دعائیں بھی شامل ہوجائیں تو یہ استغفار لازما ً اثر دکھاتا ہے اوراللہ تعالیٰ کے رحم کو جذب کرنے کا باعث ہوجاتا ہے اس لیے ہمیں اپنی زندگی کے ہر ایک معاملہ میں اپنے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی نصائح اور ہدایات کو اپنے لیے رہ نما بنانا چاہیے اور آپؐ کی سیرت کی روشنی میں اپنے کردار کو سجانے اور سنوارنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے تاکہ ہم آپﷺ کی دعائوں کا فیض بھی پاسکیں۔

ہم بہت خوش نصیب ہیں کہ آج ہمیں خلافت احمدیہ کی دعائوں کی صورت میں وہ عظیم الشان نعمت، مدد اور تائید بھی حاصل ہے جو ہمارے استغفار کی قوت اور طاقت میں اضافے کا باعث بن جاتی ہے، پس اگر ہم خود بھی نمازوں، عبادات، توبہ، استغفار اور دعائوں کی طرف متوجہ رہیں اور حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ محبت، وفا اور اطاعت کا ایک گہرا ذاتی تعلق قائم کرکے آپ کی دعائوں کا فیض پاتے رہیں تو نجات کی یہ کنجی ہمارے لیے رحمت کے دروازے کھولتی چلی جائے گی اور ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والے ان تمام انعامات اور فوائد کو حاصل کرسکیں گے جو استغفار کے نتیجہ میں عطا کیے جاتے ہیں اور ہم بھی ان لوگوں میں شامل ہو جائیں گے جو استغفار کے پانی سے اپنے وجود کو پاک و صاف کرکے روحانی ترقیات حاصل کرتے چلے جاتے ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button