متفرق مضامین

سنت اور حدیث میں فرق

(انصر رضا۔واقفِ زندگی، کینیڈا)

کچھ غیراحمدی علماء کے بقول سنت اور حدیث ایک ہی چیز کے دو نام ہیں۔ اُن کے اس قاعدہ کا تجزیہ کرنے کے لیے سب سے پہلے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ لغت، قرآن مجید اور احادیث کے مطابق سنت اور حدیث کے کیا معنی ہیں۔

لغات میں سنّت کےمعانی

لسان العرب اور تاج العروس میں لکھا ہے:

’’والسُّنَّۃُ: الطریقۃ…السُّنَّۃُ الطریقۃ المحمودۃ المستقیمۃ‘‘

سنت کا مطلب راستہ …سنت سے مراد پسندیدہ اور سیدھا راستہ ہے۔

امام راغب ’’المفردات‘‘میں لکھتے ہیں:

’’سنۃ النبی سے مراد آنحضرتﷺ کا وہ طریقہ ہے جسے آپؐ اختیار فرماتے تھے۔ اور سنۃ اللّٰہ سے مراد حق تعالیٰ کی حکمت اور اطاعت کا طریقہ مراد ہوتا ہے۔ ‘‘

قرآن مجید میں سنّت کا معنی

قرآن مجید میں لفظ سُنّۃ 13مرتبہ آیا ہے اور ہر جگہ اس کا مطلب راستہ یا طریقہ لیا گیا ہے۔ بطور مثال ایک آیت پیش کی جاتی ہے۔

سُنَّۃَ اللّٰہِ فِی الَّذِیۡنَ خَلَوۡا مِنۡ قَبۡلُ ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا (الاحزاب:63)

(یہ) اللہ کی سنّت ان لوگوں کے متعلق بھی تھی جو پہلے گزر چکے ہیں اور تُو ہرگز اللہ کی سنت میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا۔

اس کی جمع سُنن قرآن مجید میں دو مرتبہ آئی ہے۔

قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ سُنَنٌ ۙ فَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ فَانۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُکَذِّبِیۡنَ (آل عمران:138)

یقیناً تم سے پہلے کئی سنتیں گزر چکی ہیں۔ پس زمین میں سیر کرو اور دیکھو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا تھا۔

یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمۡ وَ یَہۡدِیَکُمۡ سُنَنَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ یَتُوۡبَ عَلَیۡکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ (النساء:27)

اللہ چاہتا ہے کہ وہ تم پر بات خوب روشن کردے اور ان لوگوں کے طریقوں کی طرف تمہاری راہنمائی کرے جو تم سے پہلے تھے اور تم پر توبہ قبول کرتے ہوئے جھکے اور اللہ دائمی علم رکھنے والا (اور) صاحبِ حکمت ہے۔

احادیث میں سنّت کا معنی

احادیث میں بھی سنت کا مطلب طریقہ اور راستہ ہے۔ نبی اکرمﷺ فرماتے ہیں:

فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَ سُنَّۃِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّینَ

(سنن ابن ماجہ کتاب السنّۃ باب اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین)

تم پر میری اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کی اتباع لازم ہے۔

لَتَتَّبِعَنَّ سَنَنَ مَنْ قَبْلَکُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَ ذِرَاعًا بِذِرَاعٍ حَتَّی لَوْ سَلَکُوْا جُحْرَ ضَبٍّ لَسَلَکْتُمُوْہُ۔ قُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، الْیَھُوْدَ وَ النَّصَارَی؟ قَالَ: فَمَنْ؟

(بخاری کتاب الاحادیث الانبیاء۔ باب ما ذکر عن بنی اسرائیل)

تم ضرور اپنے سے پہلی قوموں کی سنت پر چلوگے یہاں تک کہ وہ اگر گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے تھے تو تم بھی ضرور داخل ہوگے۔ ہم نے پوچھا یا رسول اللہﷺ یہودونصاریٰ؟ آپؐ نے فرمایا: اور کون؟

أَصُوْمُ وَ أُفْطِرُ وَ أُصَلِّیْ وَ أَرْقُدُ وَ أَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ

(بخاری کتاب النکاح باب ترغیب فی النکاح۔ مسلم کتاب النکاح باب استِحباب النکاح۔ سنن النسائی کتاب النکاح)

میں روزہ بھی رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں۔ پس جس نے میری سنّت سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔

النِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِیْ فَمَنْ لَمْ یَعْمَلْ بِسُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ

(سنن ابن ماجہ کتاب النکاح۔ باب ما جاء فی فضل النکاح)

نکاح میری سنّت ہے پس جس نے میری سنّت پر عمل نہیں کیا وہ مجھ سے نہیں ہے۔

مَنْ سَنَّ فِي الإِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ أُجُورِهِمْ شَىْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الإِسْلاَمِ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَىْءٌ

جس شخص نے اسلام میں کسی اچھے طریق کی بنیاد ڈالی پھر اس کے بعد اس پر عمل کیا گیا تو جو لوگ اس پر عمل کریں گے ان کے اجر کے مثل اس کے لیے بھی اجر لکھا جائے گا اور ان لوگوں کے اجر میں سے کچھ کم نہ ہوگا۔ اور جس شخص نے اسلام میں کسی برے طریقے کی بنیاد ڈالی اور اس پر اس کے بعد عمل کیا گیا تو عمل کرنے والوں کے بارِ گناہ کے مثل اس کے لیے بھی بارِ گناہ لکھا جائے گا۔ اور ان لوگوں کے بارِ گناہ سے کچھ کمی نہ ہوگی۔

(صحیح مسلم۔ کتاب العلم۔ باب من سن سنۃ حسنۃ او سیئۃ)

أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ لَمَّا أَرَادَ أَنْ یَبْعَثَ مُعَاذًا إِلَی الْیَمَنِ قَالَ کَیْفَ تَقْضِیْ إِذَا عَرَضَ لَکَ قَضَآءً۔ قَالَ أَقْضِیْ بِکِتَابِ اللّٰہِ قَالَ فَاِنْ لَمْ تَجِدْ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ قَالَ فَبِسُنَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِﷺ قَالَ فَاِنْ لَمْ تَجِدْ فِیْ سُنَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ قَالَ أَجْتَھِدُ بِرَائیِ وَلَا اٰلُوْ فَضَرَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺ صَدْرَہٗ فَقَالَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ وَفَّقَ رَسُوْلَ رَسُوْلِ اللّٰہﷺ لِمَا یَرضٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ۔ (ابوداؤد کتاب القضاء باب اجتھاد الرائ فی القضاء)

جب نبی اکرمﷺ نے حضرت معاذبن جبلؓ کو یمن بھیجنے کا ارادہ کیا تو پوچھا کہ جب تمہارے سامنے کوئی مقدمہ پیش ہوگا تو کیسے فیصلہ کروگے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ کی کتاب کے مطابق۔ رسول اللہﷺ نے پوچھا کہ اگر تم اللہ کی کتاب میں نہ پاؤ تو پھر؟ انہوں نے کہا کہ پھر اللہ کے رسولﷺ کی سُنَّت کے مطابق۔ رسول اللہﷺ نے پوچھا کہ اگر سنت رسول اللہﷺ سے بھی نہ ملے تو؟ انہوں نے کہا کہ پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا اور اس میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔ یہ سُن کر رسول اللہﷺ نے ان کے سینہ پر تھپکی دی اور فرمایا اللہ کا شکر ہے جس نے اپنے رسول کے رسول کو یہ توفیق بخشی جس سے اللہ کا رسول راضی ہوگیا۔

خطبہ حجۃ الوداع میں نبی اکرمﷺ نے واضح طور پر فرمایا کہ وہ ہمارے لیے ہدایت کے صرف دو سرچشمے چھوڑ کر جارہے ہیں:

تَرَکْتُ فِیْکُمْ أَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا مَسَکْتُمْ بِھِمَا: کِتَابِ اللّٰہِ وَ سُنَّۃَ نَبِیِّہِ

(مؤطا امام مالک۔ کتاب الجامع باب النھی عن القول بالقدر)

مَیں تمہارے اندر دو باتیں چھوڑ کر جارہا ہوں جب تک تم ان دونوں سے جڑے رہو گے گمراہ نہیں ہوگے اور وہ ہیں اللہ کی کتاب اور اُس کے نبیؐ کی سُنّت۔

سنّت کی لغات، قرآن اور احادیث سے معنی جاننے کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ انہیں ذرائع میں لفظ حدیث کا کیا معنی بتایا گیا ہے۔

لغات میں حدیث کا معنی

لسان العرب اور تاج العروس میں لکھا ہے:

الحَدِیثُ : نقیض القدیم…والحَدِیثُ: الخَبَرُ…والجمع: احادیثُ

حدیث قدیم کا الٹ ہے۔ اور حدیث کا مطلب ہے خبر۔ اس کی جمع احادیث ہے۔

امام راغب اصفہانی ’’المفردات‘‘میں لکھتے ہیں:

’’ہر وہ بات جو انسان تک سماع یا وحی کے ذریعہ پہنچے اسے حدیث کہا جاتا ہے عام اس سے کہ وہ وحی خواب میں ہو یا بحالت بیداری۔ ‘‘

قرآن مجید میں حدیث کا معنی

فَلَا تَقۡعُدُوۡا مَعَہُمۡ حَتّٰی یَخُوۡضُوۡا فِیۡ حَدِیۡثٍ غَیۡرِہٖۤ ۫ۖ (النساء:141)

اُن لوگوں کے پاس نہ بیٹھو یہاں تک کہ وہ اس کے سوا کسی اور بات میں مصروف ہو جائیں…

وَ اِذۡ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰی بَعۡضِ اَزۡوَاجِہٖ حَدِیۡثًا ۚ (التحریم:4)

اور جب نبی نے اپنی بیویوں میں سے کسی سے بصیغۂ راز ایک بات کہی۔ …

ھَلۡ اَتٰٮکَ حَدِیۡثُ مُوۡسٰی (النّٰزِعٰت:16)

کیا تیرے پاس موسیٰ کی خبر آئی ہے؟

حدیث میں حدیث کا معنی

آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثُ: إِذَا حَدَّثَ کَذَبَ، وَ إِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَ إِذَا اؤتُمِنَ خَانَ۔

(بخاری کتاب الایمان۔ باب علامۃ المنافق)

منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے۔

لغات، قرآن مجید اور احادیث کے ان مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا کہ سنّت اور حدیث ہم معنی الفاظ نہیں ہیں۔ غیراحمدی علماء یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ قرآن مجید، احادیث اور لغت کے مطابق سنت اور حدیث ہم معنی نہیں ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ ان کے اصطلاحی معنی و مفہوم کو یکساں قرار دیتے ہوئے سنت کو حدیث اور حدیث کو سنت کہنے اور سمجھنے پر اصرار کرتے ہیں اور اس کی دلیل کے طور پر فقہاء اور محدثین کے خودساختہ اصول و اصطلاحات پیش کرتے ہیں۔

ڈاکٹر مصفیٰ سُباعی صاحب، صدر شعبہ فقہ اسلامی جامعہ دمشق، اپنی کتاب ’’حدیث رسول کا تشریعی مقام ‘‘ میں، جس کا ترجمہ غلام احمد حریری صاحب، صدر شعبہ علوم اسلامیہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد، نے کیا ہے، ’’سنت کا مفہوم و معنی اور تعریف‘‘ کے عنوان اور ’’لغوی مفہوم ‘‘کے ذیلی عنوان کے تحت لکھتے ہیں:

’’سنت لغت میں راستہ اور طریقہ کو کہتے ہیں، خواہ اچھا ہو یا بُرا۔ ‘‘ اس کی دلیل نبی کریمﷺ کی یہ حدیث ہے’’من سن سنۃ حسنۃ فلہ اجرھا و اجر من عمل بہا الیٰ یوم القیٰمۃ و من سن سنۃ سیئۃ فعلیہ وزرھا و وزر من عمل بہا الیٰ یوم القیٰمۃ‘‘ جس نے اچھا طریقہ ایجاد کیا تو اسے اس کا اجر ملے گا اور قیامت تک جو شخص اس پر عمل کرے گا اس کا بھی۔ اسی طرح جس نے برا طریقہ ایجاد کیا تو اس پر اس برائی کا گناہ ہوگا اور قیامت تک اس پر عمل کرنے والے کا۔ (صحیح مسلم)

ایک دوسری حدیث میں فرمایا:

لتتبعن سُنن من قبلکم شبرًا بشبرٍ و ذراعًا بذراعٍ (بخاری و مسلم)

تم ٹھیک پہلے لوگوں کے راستوں پر چلو گے۔ (صفحہ 79)

لیکن اگلے ہی پیراگراف میں ’’اصطلاحی مفہوم‘‘کے زیرعنوان لکھتے ہیں:

’’محدثین کی اصطلاح میں نبی کریمﷺ سے جو قول ، فعل، تقریر، جسمانی یا اخلاقی صفت اور سیرت قبل یا بعد از بعثت منقول ہو اس کو سنت کہتے ہیں۔ اس تعریف کے لحاظ سے بعض محدثین کے نزدیک حدیث اور سنت دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ ‘‘

(صفحہ 79)

سوال یہ ہے کہ محدثین کو یہ اختیار کس نے دیا کہ وہ قرآن، حدیث اور لغت کے تمام اصولوں کے خلاف نئے اصول وضع کرکے حدیث اور سنت کو ایک ہی چیز قرار دیں؟

جعفر شاہ پھلواری صاحب اپنی کتاب ’’مقام سنت‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’ہم جہاں تک غور کرسکتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ واجب الاتباع ’’حدیثیں‘‘نہیں بلکہ ’’سنت‘‘ہے۔ حدیث اور سنت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ‘‘(صفحہ79)

’’معاملات میں پیروی حدیثوں کی نہیں ہوتی بلکہ سنت کی ہوتی ہے اور یقینا ًسنت یہ نہیں کہ جو کچھ کسی کتاب میں لکھا ہوا دیکھو اسی پر عمل شروع کردو اور سمجھو کہ یہ سنت کی پیروی ہورہی ہے یا سمجھنے لگو کہ یہ حدیث بھی وحی ہے یا قاضی علی التنزیل ہے یا ناسخ تنزیل ہے۔ ‘‘(صفحہ83)

پھر اس کے بعد ’’سنت رسولؐ اور سنت خلفائے راشدینؓ‘‘کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:

’’یہ ہے دراصل وہ سنت جو واجب الاتباع ہے۔ حدیث یا روایات کی بعینہٖ اور بلفظہٖ پیروی سنت نہیں۔ آخری شق (یعنی نمبر10) کو سمجھنے کے لئے یہ حدیث بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ

عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَ سُنَّتِ الخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ

یعنی تم لوگ میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرو۔ دیکھئے یہاں

عَلَیْکُمْ بِحَدِیْثِی وَ حَدِیْثِ الخُلَفَاءِ الرَّاشِدِیْنَ

نہیں فرمایا گیا۔ اس سے حدیث اور سنت کا فرق بخوبی واضح ہوجاتا ہے اور جو کچھ ہم اوپر کہہ آئے ہیں اس کی بھی اس سے تائید ہوتی ہے۔ اس حدیث سے ایک اور حقیقت بھی بے نقاب ہوجاتی ہے، اور وہ یہ کہ معاملات میں سنت بلاشبہ وحی کے اندر اور وحی کے مطابق تو ہوتی ہے لیکن خود وحی نہیں ہوتی۔ ورنہ ماننا پڑے گا کہ خلفائے راشدین بھی صاحب وحی تھے کیونکہ ان کی سنت بھی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔‘‘ (صفحہ 83-84)

ڈاکٹر محمد لقمان السلفی صاحب اپنی کتاب ’’اسلام میں سنت کا مقام‘‘ میں، جس کا ترجمہ نورالاسلام مدنی صاحب، استاذ جامعہ امام ابن تیمیہ، بہار، ہند، نے کیا ہے، سنت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’رسول اللہﷺ نے جس فعل پر مداومت برتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اس کا حد درجہ اہتمام کیا ہے، لہٰذا وہ آپ کی سنت ٹھہری۔ ‘‘(صفحہ 15)

’’کوئی بھی شخص ابتدا میں کوئی کام انجام دیتا ہے اور بعد میں لوگ اس کو اختیار کرلیتے ہیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ فلاں شخص کی سنت (طریقہ) ہے۔ حدیث میں سنت اور اس کے مشتقات کا ذکر کئی مقام پر آیا ہے جو طریقہ اور سیرت کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ ‘‘( صفحہ 16)

سیّد سلیمان ندوی صاحب کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر محمد لقمان السلفی صاحب لکھتے ہیں:

’’سنت کا اطلاق اس طریقہ ٔمحمودہ اور راہ عمل پر ہوتا ہے جسے محمدﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں اختیار کیا تھا اور لغت میں سنت کا معنی طریقہ ہے…سنت عمل رسول کی اس کیفیت کا نام ہے جو عمل متواتر کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہے، یعنی سب سے پہلے اس پر رسول اللہﷺ نے عمل کیا پھر آپؐ کے بعد آپؐ کے صحابہ نے، ان کے بعد تابعین نے اور آخر تک یہ سلسلہ جاری رہا، اس میں لفظی تواتر کی شرط نہیں ہوتی کیونکہ ہوسکتا ہے کوئی چیز عملاً متواتر ہو مگر لفظاً نہ ہو۔ چنانچہ جو عملا ًمتواتر ہے اس کو سنت کہا جائے گا۔ تحقیق معنی السنۃ از سیّد سلیمان ندوی۔ صفحہ 18 ‘‘( صفحہ19)

مشہور دیوبندی عالم محمد امین صفدر اوکاڑوی صاحب اپنی کتاب ’’حدیث اور سنت میں فرق‘‘میں زیرعنوان ’’سنت کسے کہتے ہیں؟‘‘ لکھتے ہیں:

’’آپ اپنے کاموں پر نظر دوڑائیں تو یقیناً آپ اپنے کاموں کو دو حصوں میں تقسیم کرلیتے ہیں: ایک وہ کام جو آپ عادتاً کرتے ہیں اور ایک وہ کام جو کبھی ضرورتًا کرتے ہیں۔ مثلاً ایک آدمی کی عادت ہے کہ روزانہ فجر کی نماز کے بعد ایک پارہ تلاوت کرتا ہے اس نے عادت بنالی۔ اسی طرح ایک آدمی ہے وہ روزانہ اذان سے پہلے سیر کو نکل جاتا ہے پھر آکر جماعت سے نماز پڑھ لیتا ہے انہوں نے ایک عادت بنالی ہے۔ ایک دن آپ نے دیکھا اس نے تلاوت نہیں کی اٹھ کر چلا گیا ہے اگلے دن آپ نے پوچھا کل آپ بیٹھے نہیں۔ وہ جواب دیتا ہے کہ ایک دوست بیمار تھا میں نے سوچا کالج جانے سے پہلے اس کی بیمارپرسی کرلوں۔ تو یہ عمل جو اس نے کیا یہ ضرورت تھی نہ کہ عادت۔ تو جب آپ اپنے کاموں پہ نظر دوڑائیں گے تو کچھ کام آپ ضرورتاً کرتے ہیں اور کچھ کام آپ عادتاً کرتے ہیں۔ یقینا ًآپﷺ کے مبارک کام بھی ان دو حصوں میں تقسیم ہیں۔ کچھ کام آپ عادتاً فرماتے تھے اور کچھ کام ضرورتًا فرماتے تھے۔ اب ان میں سے ہم نے تابعداری کن کاموں کی کرنی ہے؟ فرمایا: ’’عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ‘‘ وہ جو میں عادتاً کام کرتا ہوں ان کی تابعداری کرو! اب حدیث میں دونوں چیزیں آئیں گی سنت والے کام بھی اور عادت والے کام بھی۔ اب جس میں دو چیزیں آجائیں وہاں ہمیں حکم ہے: ’’عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ‘‘ آپﷺ کی عادت کا اتباع کرنا ہے آپﷺ کی مبارک عادت کو ہم نے بھی عادت بنانا ہے اور اپنانا ہے۔ ‘‘ (صفحہ5)

پروفیسر ڈاکٹر عبدالرؤف ظفر صاحب، ڈائریکٹر سیرت چیئر، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپوراپنی کتاب ’’علوم الحدیث۔ فنی، فکری اور تاریخی مطالعہ‘‘میں زیرعنوان ’’حدیث‘‘ لکھتے ہیں:

’’لغت میں حدیث کا لفظ حدّث یحدث تحدیث سے ماخوذ ہے۔ تحدیث کے معنی ہیں بات کرنا، کلام کرنا، خبر دینا۔ اس لحاظ سے اس کے معنی کلام اور گفتگو کے ہیں۔ امام راغب، ابوالقاسم حسین بن محمد نے ’’مفردات فی غریب القرآن‘‘ میں حدیث کی تعریف یہ لکھی ہے: ’’کل کلام یبلغ الانسان من جھۃ السمع او الوحی فی یقظتہ او منامہ یقال لہ حدیث‘‘(وہ کلام جو انسان کو بذریعہ سماعت یا وحی حالت بیداری یا نیند میں پہنچے حدیث کہلاتا ہے)۔ (صفحہ24)

اس کے بعد ’’حدیث کا اصطلاحی مفہوم‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:

’’…گفتگو کو عربی میں حدیث کہتے ہیں۔ اس کی جمع صحیح مذہب کے مطابق احادیث ہے۔ دنیا کے عجائبات اور خلافِ امید واقعات کی حکایات اور قصوں کو بھی احادیث فرمایا گیا ہے۔ ’’فَجَعَلۡنٰہُمۡ اَحَادِیۡثَ‘‘(ہم نے حوادث کو کہانیوں کی صورت دے دی)۔

’’مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ ذِکۡرٍ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ مُّحۡدَثٍ‘‘

(ان کے رب کی طرف سے جو بھی نئی نصیحت آتی ہے)…آنحضرتﷺ کے ارشادات کو اور قرآن عزیز کو بھی حدیث کا نام دیا گیا:

’’وَ اِذۡ اَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰی بَعۡضِ اَزۡوَاجِہٖ حَدِیۡثًا‘‘

(جب آنحضرتﷺ نے اپنی بعض بیویوں سے آہستہ بات کی)۔

’’مَنۡ اَصۡدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیۡثًا‘‘

(اللہ تعالیٰ سے زیادہ کس کی حدیث سچی ہے)۔ رسول اللہﷺ نے اپنے اقوال کو خود حدیث کا نام دیا۔‘‘ (صفحہ25-26)

قرآن مجید میں لفظ ’’حدیث‘‘ کے استعمال کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’قرآن مجید میں یہ لفظ بہت سی جگہ استعمال ہوا ہے۔ چند مقامات بطور مثال ملاحظہ ہوں:

(۱) ’’فَمَالِ ہٰۤؤُلَآءِ الۡقَوۡمِ لَا یَکَادُوۡنَ یَفۡقَہُوۡنَ حَدِیۡثًا ‘‘

(ان لوگوں کو کیا ہے کہ بات سمجھتے نہیں ہیں)۔ آپﷺ کے بیان کو حدیث کہا گیا۔

(۲) ’’وَ اَمَّا بِنِعۡمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثۡ‘‘

(اپنے رب کی نعمت کو بیان کر)

(۳) ’’وَمَنۡ اَصۡدَقُ مِنَ اللّٰہِ حَدِیۡثًا‘‘

اللہ سے بڑھ کر سچی بات کس کی ہوسکتی ہے)۔

(۴) ’’فَلَا تَقۡعُدُوۡا مَعَہُمۡ حَتّٰی یَخُوۡضُوۡا فِیۡ حَدِیۡثٍ غَیۡرِہٖۤ‘‘

(آپﷺ ان کے ساتھ نہ بیٹھیں جب تک وہ کسی اور بات میں نہ لگ جائیں)۔

(۵)’’وَ کَذٰلِکَ یَجۡتَبِیۡکَ رَبُّکَ وَ یُعَلِّمُکَ مِنۡ تَاۡوِیۡلِ الۡاَحَادِیۡثِ‘‘

(اللہ تجھے منتخب کرے گا اور باتوں کی تہ تک پہنچنا سکھائے گا)۔

(۶) ’’فَاَتۡبَعۡنَا بَعۡضَہُمۡ بَعۡضًا وَّ جَعَلۡنٰہُمۡ اَحَادِیۡثَ‘‘

(پس ہم نے ایک کو دوسرے کے پیچھے لگادیا اور انہیں افسانہ بنادیا)۔

(۷) ’’اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحۡسَنَ الۡحَدِیۡثِ‘‘

(اللہ نے اچھا کلام نازل فرمایا)۔

(صفحہ27,26)۔

اپنی اس تحریر کے برعکس پروفیسر صاحب بلا دلیل ایک دعویٰ اور خودساختہ وضاحت پیش کرتے ہیں کہ

’’اس بات کی وضاحت لازم ہے کہ حدیث رسولؐ صرف ایک عہد زریں کی تاریخ نہیں ہے بلکہ اس کی حیثیت شریعت اور قانون کی ہے‘‘۔ (صفحہ 26)

پھر اس کے بعد لفظ حدیث کی تعریف کرتے ہوئے تسلیم کرتے ہیں کہ

’’محدثین کے اصول تحقیق، علماء کے تاریخ و سیر اور مغازی و فقہ و تفسیر وغیرہ کے لئے وضع کردہ اصولوں سے ممتاز اور منفرد ہیں‘‘۔ (صفحہ 26)

اس کے بعد پروفیسر صاحب زیرعنوان ’’سنت‘‘ لکھتے ہیں:

’’سنت کے معنی واضح راستہ، معروف راستہ اور سیرت کے ہیں…راسخ عادات اور مستمر اعمال پر بھی سنت کا اطلاق معروف ہے۔ اس محاورہ کے مطابق طریقہ اور سیرت بھی سنت کے مفہوم میں شامل ہے۔ زبان کے لحاظ سے اچھی اور بُری عادات دونوں پر سنت کا لفظ بولا جاتا ہے۔ حدیث

’’من سن فی الاسلام سنۃ حسنۃ فعمل بہا بعدہ کتب لہ مثل اجر من عمل بہا ‘‘

بھی سنت کا لفظ اس لغوی لحاظ سے فرمایا…سنت کے متعلق اہل لغت نے کافی لکھا ہے۔ ابن الاثیر فرماتے ہیں:

(۱) ’’الاصل فیھا الطریقۃ والسیرۃ‘‘

(اس کے اصل معنی طریقہ اور سیرت کے ہیں)۔ (۲) جرجانی کہتے ہیں

’’السنۃ: لغۃ العادۃ‘‘

(سنت لغت کے لحاط سے عادت کو کہتے ہیں)۔ (۳)صاحب مسلم الثبوت فرماتے ہیں:

’’السنۃ: لغۃ العادۃ‘‘

( سنت لغت میں عادت ہے)۔ (۴) ابن درید نے کتاب الجمھرۃ میں لکھا ہے:

’’والسنۃ: معروفۃ، و سنّ فلانٌ سنۃ حسنۃ او قبیحۃ یسُنّھا سنَّا‘‘

سنت کے معنی عام راستہ معروف ہیں۔ کہا جاتا ہے فلاں شخص نے اچھی یا بُری سنت ’’طریقہ‘‘جاری کی۔ مضارع یسُنُّ آتا ہے اور مصدر سنَّا۔ (۵) اسماعیل بن حماد جوہری فرماتے ہیں:

السنۃ: السیرۃ: قال الھذلی: فلا تجز عن من سیرۃ انت سرتھا۔ فاول راض سنۃ من یسیرھا۔ ‘‘

(سنت کے معنی سیرت (طرز روش چال ڈھال) کے ہیں۔ ھذلی شاعر کہتا ہے: جس خصلت (چال) پر تم خود چلے اس سے مت گھبراؤ۔ اس لیے کہ جو شخص کسی خصلت کو اختیار کرتا ہے وہی اس کو پسند کرنے والا ہوتا ہے۔ (۶) علامہ زمخشری لکھتے ہیں:

’’سن سنۃ حسنۃ: طرّق طریقۃ حسنۃ و استن بسنۃ فلانٍ و متسنّن: عامل بالسنۃ۔ ‘‘

(فلاں شخص نے سنت جاری رکھی یعنی اچھا طریقہ تجویز کیا۔ فلاں شخص کی سنت کی پیروی کی یعنی اس کے طرز پر عمل کرے۔ فلاں شخص سنت پر عمل کرنے والا ہے۔ ) (۷) ابن منظور کی ’’لسان العرب ‘‘میں ہے:

’’سنّ اللّٰہ سنۃ ای بیّن طریقًا قویًّا…والسنۃ سیرۃ حسنۃً او قبیحۃً۔ ‘‘

(اللہ نے ایک پختہ اور محکم راستہ بتلایا، سنت کے معنی سیرت بھی ہیں اچھی یا بُری)۔ (صفحہ32،31)

پھر ’’قرآن مجید میں لفظ سنت کا استعمال‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:

’’قرآن عزیز میں یہ لفظ متعدد مقامات پر استعمال ہواہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

(۱) ’’وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰهِ تَبْدِيْلاً‘‘۔

(آپ ہمارے دستور میں بغاوت نہیں پائیں گے)۔

(۲)’’سُنَّۃَ اللّٰہِ فِی الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلُ‘‘

(اللہ کا دستور رہا ان لوگوں میں جو پہلے گزرے)۔

(۳) ’’ فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا‘‘

(آپ اللہ کے دستور میں تبدیلی نہ پائیں گے)۔

(۴)’’سُنَّۃَ مَنۡ قَدۡ اَرۡسَلۡنَا قَبۡلَکَ مِنۡ رُّسُلِنَا‘‘۔

(ان لوگوں کا دستور چلا آرہا ہے جو ان سے پہلے تھے)۔ مندرجہ بالا مقامات پر سنت کا لفظ دستور، طور، طریقہ کے لیے استعمال ہوا ہے۔

(۵) ’’قَدۡ خَلَتۡ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ سُنَنٌۙ فَسِیۡرُوۡا فِی الۡاَرۡضِ‘‘

(آپؐ سے قبل واقعات گزرچکے ہیں، زمین میں پھرو)۔

(۶) ’’ وَ اِنۡ یَّعُوۡدُوۡا فَقَدۡ مَضَتۡ سُنَّتُ الۡاَوَّلِیۡنَ‘‘۔

(اور پھر بھی وہی کریں گے تو پڑچکی راہ پہلوں کی)۔

(۷)’’فَہَلۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَّا سُنَّتَ الۡاَوَّلِیۡنَ‘‘

سو کیا یہ اسی دستور کے منتظر ہیں جو ان سے پہلے لوگوں کے ساتھ ہوتا رہا ہے)۔

اس کے بعد ’’حدیث نبویﷺ میں سنت کا لفظ‘‘کے زیرعنوان لکھتے ہیں:

’’رسول اللہﷺ نے بھی سنت کا لفظ اپنی احادیث میں استعمال فرمایا۔ جیسے صحیح بخاری میں ہے

’’أَصُوْمُ وَ أُفْطِرُ وَ أُصَلِّیْ وَ أَرْقُدُ وَ أَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ، فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ‘‘

(میں روزے رکھتا ہوں اور چھوڑتا ہوں، نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور نکاح بھی کیے ہیں۔ جو میری سنت سے منہ پھیرے وہ مجھ سے نہیں ہے)۔ ایک اور حدیث میں فرمایا:

’’إنہ من احیی سنۃً من سنتی قد أمیتت بعدی فإنّ لہ من الأجر مثل من عمل بھا من غیرأن ینقص من أجورھم شیئًا و من ابتدع بدعۃ ضلالۃ لا یرضاھا اللّٰہ و رسولہ کان علیہ مثل آثام من عمل بھا لا ینقص ذلک من اوزار الناس شیئا۔

( جس نے میری سنت کو زندہ کیا جو میرے بعد مرگئی ہو تو اسے ان لوگوں کی مانند اجر ملے گا جو اس پر عمل کریں گے۔ جبکہ عمل کرنے والوں کے اجر میں کمی نہ ہوگی۔ اور جس نے غلط راہ نکالی جس پر اللہ اور اس کے رسول کی رضامندی نہ ہو تو اسے ان تمام لوگوں کے گناہوں کا بوجھ ہوگا جو اس پر عمل کریں گے۔ اس چیز کے بغیر کہ ان کے گناہوں کے بوجھ میں کمی آئے)۔ آنحضرتﷺ کے عمل کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے جنازہ میں سورۃ فاتحہ پڑھی اور بعد میں لوگوں کو بتایا: ’’فقال : انھا سنۃ‘‘ (یہ آنحضرتﷺ کا طریقہ کار ہے)۔ (صفحہ35)

’’سنت کا اصطلاحی مفہوم‘‘ کے زیرعنوان پروفیسر صاحب لکھتے ہیں:

اصطلاح میں سنت رسول اللہﷺ کے حکم یا نہی یا کسی کام کے جائز قرار دینے کو کہتے ہیں۔ بعض لوگ اس کو صرف رسول اللہﷺ کے فعل تک محدود رکھتے ہیں۔ لیکن یہ لفظ حدیث کے مترادف ہے۔ شریعت میں آنحضرتﷺ کے قول، فعل اور خاموشی سب سنت میں داخل ہے۔ ‘‘(صفحہ32)

آپ نے دیکھا کہ پروفیسر صاحب کی اپنی بیان کردہ تعریفات و تشریحات کے مطابق حدیث اور سنت دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ لیکن افسوس کہ اپنی ان تمام کاوشوں پر پانی پھیرتے ہوئے اور لغت، قرآن اور حدیث میں بتائے گئے سنت کے ان معانی کی صریح مخالفت میں چند ائمہ حدیث اور فقہ کے اقوال پیش کرکے اصرار کرتے ہیں کہ سنت سے مراد احادیث نبوی ہیں۔ گویا محدثین کے خودساختہ اصول لغت ، اللہ اور اس کے رسولﷺ کے اصول و اقوال سے فائق ہیں۔

زمانے کے حکم عدل سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریر پیش خدمت ہے جس میں حدیث اور سنت میں فرق واضح کیا گیا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:

’’اور صراط مستقیم جس کو ظاہر کرنے کیلئے مَیں نے اس مضمون کو لکھا ہے یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھ میں اسلامی ہدایتوں پر قائم ہونے کیلئے تین چیزیں ہیں (۱)قرآن شریف جو کتاب اللہ ہے جس سے بڑھ کرہمارے ہا تھ میں کوئی کلام قطعی اور یقینی نہیں وہ خدا کا کلام ہے وہ شک اور ظن کی آلائشوں سے پاک ہے (۲)دوسری سُنّت اور اس جگہ ہم اہلحدیث کی اصطلاحات سے الگ ہو کر بات کرتے ہیں۔ یعنی ہم حدیث اور سُنّت کو ایک چیز قرار نہیں دیتے جیسا کہ رسمی محدثین کا طریق ہے بلکہ حدیث الگ چیز ہے اورسنّت الگ چیز۔ سُنّت سے مُراد ہماری صرف آنحضرتؐ کی فعلی روش ہے جو اپنے اندرتواتر رکھتی ہے اور ابتدا سے قرآن شریف کے ساتھ ہی ظاہر ہوئی اورہمیشہ ساتھ ہی رہے گی یا بہ تبدیل الفاظ یوں کہہ سکتے ہیں کہ قرآن شریف خدا تعالیٰ کا قول ہے اور سُنّت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل اور قدیم سے عادۃاللہ یہی ہے کہ جب انبیاء علیہم السلام خدا کا قول لوگوں کی ہدایت کیلئے لاتے ہیں تو اپنے فعل سے یعنی عملی طور پر اس قول کی تفسیر کر دیتے ہیں تا اس قول کا سمجھنا لوگوں پر مشتبہ نہ رہے اور اس قول پر آپ بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں سے بھی عمل کراتے ہیں(۳) تیسرا ذریعہ ہدایت کا حدیث ہے اور حدیث سے مُراد ہماری وہ آثار ہیں کہ جو قصّوں کے رنگ میں آنحضرتؐ سے قریباً ڈیڑھ سو برس بعد مختلف راویوں کے ذریعوں سے جمع کئے گئے ہیں۔ پس سنّت اور حدیث میں مابہ الامتیاز یہ ہے کہ سنّت ایک عملی طریق ہے جو اپنے ساتھ تواتر رکھتا ہے جس کو آنحضرتؐ نے اپنے ہاتھ سے جاری کیا اور وہ یقینی مراتب میں قرآن شریف سے دوسرے درجہ پر ہے۔ اور جس طرح آنحضرتؐ قرآن شریف کی اشاعت کے لئے مامور تھے ایسا ہی سنّت کی اقامت کے لئے بھی مامور تھے۔ پس جیسا کہ قرآن شریف یقینی ہے ایسا ہی سنّت معمولہ متواترہ بھی یقینی ہے۔ یہ دونوں خدمات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ سے بجا لائے اور دونوں کو اپنا فرض سمجھا۔ مثلاً جب نماز کے لئے حکم ہوا تو آنحضرتؐ نے خدا تعالیٰ کے اِس قول کو اپنے فعل سے کھول کر دکھلادیا اور عملی رنگ میں ظاہر کر دیا کہ فجر کی نماز کی یہ رکعات ہیں اور مغرب کی یہ اور باقی نمازوں کے لئے یہ یہ رکعات ہیں۔ ایسا ہی حج کر کے دکھلایا اور پھر اپنے ہاتھ سے ہزار ہا صحابہ کو اِس فعل کا پابند کر کے سلسلہ تعامل بڑے زور سے قائم کر دیا۔ پس عملی نمونہ جو اب تک اُمّت میں تعامل کے رنگ میں مشہود و محسوس ہے اِسی کا نام سنّت ہے۔ لیکن حدیث کو آنحضرت صلعم نے اپنے رُوبرو نہیں لکھوایا اور نہ اس کے جمع کرنے کیلئے کوئی اہتمام کیا۔ کچھ حدیثیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جمع کی تھیں لیکن پھر تقویٰ کے خیال سے اُنہوں نے وہ سب حدیثیں جلادیں کہ یہ میرا سماع بلاواسطہ نہیں ہے خدا جانے اصل حقیقت کیا ہے۔ پھر جب وہ دَور صحابہ رضی اللہ عنہم کا گذر گیا تو بعض تبع تابعین کی طبیعت کو خدا نے اس طرف پھیر دیا کہ حدیثوں کو بھی جمع کر لینا چاہئے تب حدیثیں جمع ہوئیں۔ اِس میں شک نہیں ہوسکتاکہ اکثر حدیثوں کے جمع کرنے والے بڑے متّقی اور پرہیزگار تھے اُنہوں نے جہاں تک اُن کی طاقت میں تھاحدیثوں کی تنقید کی اور ایسی حدیثوں سے بچنا چاہا جو اُن کی رائے میں موضوعات میں سے تھیں اور ہر ایک مشتبہ الحال راوی کی حدیث نہیں لی۔ بہت محنت کی مگر تا ہم چونکہ وہ ساری کارروائی بعد از وقت تھی اِس لئے وہ سب ظن کے مرتبہ پر رہی بایں ہمہ یہ سخت نا انصافی ہوگی کہ یہ کہا جائے کہ وہ سب حدیثیں لغو اور نکمّی اور بے فائدہ اور جھوٹی ہیں بلکہ اُن حدیثوں کے لکھنے میں اس قدر احتیاط سے کام لیا گیا ہے اور اس قدر تحقیق اور تنقید کی گئی ہے جو اس کی نظیر دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتی۔ یہودیوں میں بھی حدیثیں ہیں اور حضرت مسیح کے مقابل پر بھی وہی فرقہ یہودیوں کا تھا جو عامل بالحدیث کہلاتا تھا لیکن ثابت نہیں کیا گیا کہ یہودیوں کے محدثین نے ایسی احتیاط سے وہ حدیثیں جمع کی تھیں جیسا کہ اسلام کے محدثین نے۔ تاہم یہ غلطی ہے کہ ایسا خیال کیا جائے کہ جب تک حدیثیں جمع نہیں ہوئی تھیں اُس وقت تک لوگ نمازوں کی رکعات سے بیخبر تھے یا حج کرنے کے طریق سے نا آشنا تھے کیونکہ سلسلہ تعامل نے جو سنّت کے ذریعے سے ان میں پیدا ہوگیا تھا تمام حدود اور فرائض اسلام ان کو سکھلادیئے تھے اس لئے یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اُن حدیثوں کا دنیا میں اگر وجود بھی نہ ہوتا جو مُدّت دراز کے بعد جمع کی گئیں تو اِسلام کی اصلی تعلیم کا کچھ بھی حرج نہ تھا کیونکہ قرآن اور سلسلہ تعامل نے اُن ضرورتوں کو پورا کر دیا تھا۔ تا ہم حدیثوں نے اس نور کو زیادہ کیا گویا اسلام نورٌ علیٰ نورہوگیا اور حدیثیں قرآن اور سنّت کے لئے گواہ کی طرح کھڑی ہوگئیں اور اسلام کے بہت سے فرقے جو بعد میں پیدا ہوگئے اُن میں سے سچے فرقے کو احادیث صحیحہ سے بہت فائدہ پہنچا۔ پس مذہب اسلم یہی ہے کہ نہ تو اِس زمانہ کے اہلحدیث کی طرح حدیثوں کی نسبت یہ اعتقاد رکھا جائے کہ قرآن پر وہ مقدم ہیں اور نیز اگر اُن کے قصّے صریح قرآن کے بیانات سے مخالف پڑیں تو ایسا نہ کریں کہ حدیثوں کے قصّوں کو قرآن پر ترجیح دی جاوے اور قرآن کو چھوڑدیا جائے اور نہ حدیثوں کو مولوی عبداللہ چکڑالوی کے عقیدہ کی طرح محض لغو اور باطل ٹھہرایا جائے بلکہ چاہئے کہ قرآن اور سنّت کو حدیثوں پر قاضی سمجھا جائے اور جو حدیث قرآن اور سنّت کے مخالف نہ ہواُس کو بسر و چشم قبول کیا جاوے یہی صراطِ مستقیم ہے۔ مبارک وہ جو اس کے پابند ہوتے ہیں۔ نہایت بد قسمت اور نادان وہ شخص ہے جو بغیر لحاظ اس قاعدہ کے حدیثوں کا انکار کرتا ہے۔ ‘‘

(ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی،روحانی خزائن جلد19صفحہ209-212)

سیّدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے علمی کارناموں کو بیان کرتے ہوئے سیّدنا حضرت المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں :

’’دسواں کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ کیا کہ فقہ کی اصلاح کی جس میں سخت خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں اور اس قدر اختلاف ہو رہا تھا کہ حد نہ رہی تھی آپ نے اس کے متعلق زریں اصول باندھا اور فرمایا شریعت کی بنیاد مندرجہ ذیل چیزوں پر ہے۔ (۱) قرآن کریم (۲) سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم (۳) احادیث جو قرآن کریم اور سنت اور عقل کے خلاف نہ ہوں (۴) تفقہ فی الدین (۵) اختلاف طبائع و حالات۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ ایک عظیم الشان کارنامہ ہے کہ آپ نے سنت اور حدیث کو الگ الگ کیا۔ آپ نے فرمایا سنت تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عمل ہے جس پر آپﷺ قائم ہوئے اور دوسروں کو اس کی ترغیب دی۔ اور حدیث وہ قول ہے جو آپﷺ نے بیان کی۔ اب دیکھو ان پانچ اصول سے آپ نے کیسی اصلاح کر دی ہے۔ سب سے اول درجہ پر آپ نے قرآن کریم کو رکھا کہ وہ خدا کا کلام ہے مفصل ہے مکمل ہے اس میں نہ کوئی تبدیلی ہو گی نہ ہوئی ہےنہ کوئی تبدیلی کر سکتا ہے کیونکہ اس کی حفاظت کا وعدہ ہے۔ ایسے کلام سے بڑھ کر کونسی بات معتبر ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد سنت ہے کہ صرف قول سے اس کا تعلق نہیں بلکہ عمل سے ہے اور عمل بھی وہ جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود کیا کرتے تھے اور متواتر کرتے تھے۔ ہزاروں لوگ اسے دیکھتے تھے اور اس کی نقل کرتے تھے۔ یہ نہیں کہ ایک یا دو یا تین کی گواہی ہو کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کہتے سنا بلکہ ہزاروں آدمیوں کا عمل کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں کرتے دیکھ کر آپ کی اتباع میں ایسا کام شروع کیا۔ اس سنت میں غلطی کا احتمال بہت ہی کم رہ جاتا ہے۔ اور یہ حدیث سے جو چند افراد کی شہادت ہوتی ہے بہت افضل ہے۔ اس کے بعد آپ نے حدیث کو رکھا۔ لیکن ان کے متعلق یہ شرط لگائی کہ صرف راویوں کی پرکھ ان کی صداقت کی علامت نہیں بلکہ ان کا قرآن کریم سنت اور قانون قدرت کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ حدیث کے بعد تفقہ فی الدینکا مرتبہ رکھا کہ عقل کو استعمال کر کے جو مسائل میں ترقی ہوتی ہے اس کے لئے بھی رستہ کھلا رہے۔ پھر پانچویں بنیاد فقہ کی آپ نے مختلف حالات اور مزاجوں کو مقرر کیا اور اسے شریعت اسلامیہ کا ضروری جزو قرار دیا۔ اس اصل سے بہت سے مختلف فیہ مسائل حل ہو گئے۔ مثلاً آمین کہنے پر جھگڑے ہوتے تھے۔ آپ نے فرمایا۔ جس کا دل اونچی آمین کہنے کو چاہے وہ اونچی کہے جس کا دل اونچی کہنا نہ چاہے نہ کہے۔ جب یہ دونوں باتیں ثابت ہیں تو ان پر جھگڑا فضول ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مزاج کے لوگوں کو مدنظر رکھ کر دونوں طرح عمل کیا ہے پس ہر اک شخص اپنے مزاج کے مطابق عمل کر سکتا ہے۔ دوسرے کے فعل سے سروکار نہیں رکھنا چاہئے۔ اسی طرح فرمایا کہ جس کا دل چاہے سینہ کے اوپر ہاتھ باندھے جس کا دل چاہے ناف کے نیچے باندھے۔ انگلی اٹھائے یا نہ اٹھانے کے متعلق رفع یدین کرنے یا نہ کرنے کے متعلق بھی یہی فرمایا کہ دونوں طرح جائز ہے۔ اسی طرح بہت سے جھگڑوں کو جو کسی شرعی اختلاف کی وجہ سے نہ تھے بلکہ دو جائز باتوں پر جھگڑنے کے سبب سے تھے اور شریعت کی اس حکمت کو نہ سمجھنے کے سبب سے تھے کہ اس میں مختلف طبائع کا لحاظ رکھ کر مختلف صورتوں کو بھی جائز رکھا جاتا ہےآپ نے مٹادیا۔ ‘‘

(حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کارنامے، انوار العلوم جلد 10 صفحہ178تا179)

ایک اور جگہ پر حضورؓ فرماتے ہیں:

’’اور آپؑ نے ان لوگوں کے جواب میں جو یہ کہتے ہیں کہ پورا دین تو ہمیں حدیث سے معلوم ہوا ہے بتایا کہ حدیث اور قرآن کے علاوہ ایک تیسری چیز سنت ہے یعنی وہ کام جو رسول کریمﷺ نے کرکے دکھائے اور جو بلاواسطہ صحابہؓ نے آپؐ کو کرتے ہوئے دیکھ کر آپ سے سیکھے اور ان کے مطابق عمل کیا، کسی زبانی حدیث کی ان کے لیے ہمیں ضرورت نہیں، ہزاروں لاکھوں مسلمانوں نے ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کو وہ کام کرتے ہوئے دیکھا اور اس سے اگلوں نے سیکھا۔ یہ سنت کبھی قرآن کریم کے خلاف نہیں ہوتی، ہاں حدیث جو زبانی روایت ہے وہ کبھی قرآن کریم کے مخالف بھی ہوجاتی ہے اور اس میں شبہ کی گنجائش ہوتی ہے۔ جب وہ قرآن کریم کے مخالف ہو تو وہ قابل ردّ ہے اور جب اس کے مطابق ہو قابل قبول۔ کیونکہ تاریخی شہادت ہے اور تاریخی شہادت کو بلاوجہ رد نہیں کیا جاسکتا ہے ورنہ بہت سی صداقتیں دنیا سے مفقود ہوجائیں۔ ‘‘

(دعوۃ الامیر صفحہ 197)

سنّت اجماعی عملی تواتر۔ حدیث خبر واحد

یہ امر بھی قابل غور ہے، جیسا کہ سیّدنا حضرت مصلح موعودؓ نے واضح فرمایا ہے کہ حدیث اور سنت میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ ہرحدیث ہم تک ایک صحابیؓ کی دی گئی خبر، یعنی خبرِ واحد، جس کی جمع اخبار آحاد ہے،کے ذریعے پہنچی ہے لیکن سنت ہم تک تمام صحابہ کرام ؓکے اجماع اور عملِ تواتر کے ذریعہ اُسی طرح پہنچی ہے جس طرح کہ قرآن تمام صحابہ کرام ؓ کے اجماع اور قولِ تواتر کے ذریعہ ہم تک پہنچا ہے۔

خلاصہ کلام

لغات، قرآن مجید اور احادیث کی بنیاد پر پیش کی گئی ان تمام مندرجہ بالا معروضات اور غیراحمدی علماء کی عبارات کے تقابلی مطالعہ سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ سنّت اور حدیث مترادف اور ہم معنی نہیں بلکہ دو الگ الگ چیزیں ہیں جنہیں علماء کے خودساختہ اصول و اصطلاحات کے ذریعہ زبردستی کھینچ تان کر بلا دلیل ہم معنی اور مترادف ثابت کرنے اور انسانی کاوشوں کو الٰہی کلام پر فوقیت دینے کی ناکام کوششیں کی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو سمجھنے اور اس کی اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button