متفرق مضامین

تعارف اور تاریخ مالی (Mali)

(احمد بلال مغل۔ مبلغ سلسلہ مالی)

ملک مالی کا پورا نام جمہوریہ مالی Republic of Mali ہے۔ مالی مغربی افریقہ کاانتہائی وسیع رقبہ پر مشتمل ایک خوبصورت زمین بند ملک ہے۔رقبہ کے لحاظ سے یہ افریقہ کا ساتواں اور دنیا کا چوبیسواں بڑا ملک ہے۔مالی کا کل رقبہ 1,240,000مربع کلومیٹر ہے اور اس کی آبادی 2009ء کی مردم شماری کے مطابق 14,517,176 افراد پر مشتمل ہے ۔ اس کا دارالحکومت باماکو ہے اور انتظامی لحاظ سے ملک کو دس ریجنز میں تقسیم کیا گیا ہے ۔

مالی کی سر حدیں شمال میں الجزائر ،مشرق میں نائیجر ، جنوب میں برکینا فاسو اور آئیوری کوسٹ ، جنوب مغرب میں گنی اورمغرب میں سینیگال اور موریطانیہ سے ملتی ہیں۔ مالی شمال میں مکمل طور پر صحرائے اعظم سے گھرا ہوا ہے۔ مالی میں آبادی کا تناسب انتہائی کم ہے اور ملک کی اکثر آبادی جنو بی علاقوں میں آباد ہے۔ مالی میں 10چھوٹے بڑے دریا ہیں۔ جبکہ ایک بڑا دریا ’’دریائے نائیجر‘‘ ملک کے عین وسط سے گزرتا ہے۔

مالی تاریخ کے تناظر میں

مالی کی معلوم تا ریخ چوتھی صدی عیسوی کی گھانا سلطنت سے جا ملتی ہے ۔ گھانا سلطنت نے اس تمام علاقے کے علاوہ موریطانیہ، نائیجر، سینیگال اور باقی علاقوں پر چوتھی صدی عیسوی سے تیر ھویں صدی تک حکومت کی اور اس علاقہ کی تجارت پر قبضہ رکھا ۔ اس عظیم سلطنت کو تیر ھویں صدی میں مالی سلطنت نے ختم کر دیا اور اسی سلطنت کے حوالے سے اس ملک کا نام مالی ہے۔

مالی سلطنت کا آغاز 1230ء میں سندیتا کائتا (Sundiata Keita) نے کیا اور اسی سلطنت کے دور میں اسلام اس علاقے میں آیا اورسلطنت کے ایک حکمران موسی منساکی اسلام سےمحبت کی وجہ سے جلد ہی اس سلطنت کے عظیم شہر ٹمبکٹو (Tombouktou)اور جینے(Djene)تجارت کے ساتھ اسلامی ثقافت کے مرکز بن گئے۔

پندرھویں صدی میں مالی سلطنت کمزور ہو نا شروع ہوئی جس کا فا ئدہ سونگھائی سلطنت نے اٹھا یا اور مالی سلطنت کو ختم کر کے اس علاقہ پر اپنی حکومت قائم کر لی۔سونگھائی سلطنت نے پندرھویں اور سولھویں صدی میں اس علاقہ پر حکومت کی اور اپنا دارالحکومت گاؤ (Gao)شہر کو بنا یا ۔

سونگھائی سلطنت پر مراکش کی فوج کے مسلسل حملے جاری رہے اور بالآخر1591ء میں مراکشی فوج نے سونگھائی سلطنت کا خاتمہ کر کے اس علا قہ پر قبضہ کر لیا لیکن مراکشی فو ج اس علا قہ کا مکمل کنٹرول نہ سنبھال سکی جس کے نتیجہ میں مو جو دہ مالی کا علا قہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو تا گیا ۔ جنوب میں سینوفوکینیدوغو Senufo Keneduguکی حکومت قائم ہو ئی اور سکا سو Sikassoکو اپنا دارالحکومت بنایا ۔درمیانی علاقوں میں بمبارا سلطنت 1712ء سے 1861ء کے درمیان قائم ہو ئی جس نے سیغو(Segou)شہر کو اپنا دارالحکومت بنا یا۔ اس سلطنت کو الحاج عمر ٹال جو کہ ایک ٹوکولیر (Toucouleur)جنگجو تھا نے مارچ 1861ء میں ختم کر دیا۔ اور ٹوکولیر (Toucouleur) سلطنت کی بنیاد رکھی۔

1880ء میں فرانسیسی افواج نے مالی کا علا قہ فتح کرنا شروع کیا اور بالآخرکئی مزاحمتی جنگوں کے بعد 1890ء کو ٹوکولیر (Toucouleur)سلطنت کے زیر نگیں علاقہ کو فرانسیسی حکو مت کے زیر نگیں کر دیااور1898ء کو سکاسو (Sikasso )شہر کو فتح کرنے کے بعد موجودہ مالی کا تمام علا قہ فرانسیسیوں کے کنٹرول میں آگیا۔

فرانسیسیوں نے اس علاقہ کا نام فرنچ سوڈان(French Sudan)رکھا۔1960ء تک فرا نسیسیوں نے اس علاقہ پر حکومت کی اور آزادی کی مسلسل جدو جہد کے بعد بالآخر 22؍ستمبر 1960ء کو مالی کو آزادی حاصل ہوئی اور Modibo Keitaمالی کے پہلے صدر بنے۔

1968ء میں لیفٹیننٹ جنرل موسیٰ تراورے (Lt. Moussa Traore)نے Modibo Keitaکی حکومت کا تختہ الٹا دیا اور اقتدار پر 1991ء تک قابض رہا جس کا خاتمہ آحمدو تومانی تورے (Amadou Toumami Toure)نے ایک سویلین(Civilian) کی تحریک کے ذریعہ کیا ۔ اس کے بعد آحمدو تومانی تورے1991ء سے 1992ء تک ملک کے سر براہ کی حیثیت سے رہے۔ 1992ء کے انتخابات کے بعد الفا عمر کنارے (Alpha Oumar Konare)ملک کے صدر بنے اور 2002ء تک صدر رہے۔ 2002ء کے انتخابات میں یکے بعد دیگرے دو مرتبہ آحمدو تومانی تورے(Amadou Toumami Toure) بطور صدر مملکت منتخب ہوئے اور 2012ء تک ملک کے صدر رہے۔2012ء اور 2013ء میں اقتدار پہلے آحمدو یحیٰ سانوغو (Ahmadou Yahya Sanogo)اوربعد میں اقتدار جایاکونداتراورے(Dioncounda Traore)کے پاس رہا۔ 2013ء کے عام انتخابات میں ابراہیم ابو بکر کائتا (Ibrahim Aboubakar Keita)ملک کے صدر منتخب ہوئے ۔

جغرا فیہ اور آب و ہوا

مغربی افریقہ کا یہ ملک دنیا کا 24واں بڑاملک ہے ۔یہاں کا موسم گرم اور خشک ہے اور سطح زمین زیادہ تر ہموار ہے جو شمال کی طرف قدرے بلند ہو جاتی ہے ۔ زیا دہ تر ملک صحارہ میں واقع ہے جہاں گرمیوں میں گرم جھکڑ اور ریتلےطوفان چلتے ہیں اور خشک سالی رہتی ہے ۔یہاں بارش جون سے ستمبر کے درمیان ہوتی ہے۔ جنوبی علاقہ سر سبز ہےجہاں دریائے نائیجر اور دریائے سینیگال بہتے ہیں ۔شمال مشرق میں چھوٹی چھوٹی وادیاں اور گریفائٹ کی پہاڑیاں بکھری ہیں۔ مالی قدرتی وسائل سے مالا مال ہے جہاں سونے ، یو رینیم ، فاسفورس کے مرکبات وغیرہ نیز نمک اور چونے کی کانیں بکثرت پا ئی جا تی ہیں۔

معاشیات

مالی دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے ایک ہے ۔ لگ بھگ 65فیصد علاقہ صحرائی یا نیم صحرائی ہے جہاں گذشتہ صدی میں کئی خشک سالیاں آچکی ہیں۔ زیادہ تر معاشی سر گرمیاں دریائے نائیجر کے سیراب کردہ علاقہ تک محدود ہیں ۔ 80فیصد آبادی زراعت، کھیتی باڑی اور ماہی گیری کے پیشہ سے منسلک ہے۔برتن سازی اہم گھریلو صنعت ہے جو زیادہ تر عورتیں کرتی ہیں اور عورتوں کے تیار کردہ یہ برتن تاجروں اور آڑھتیوں کے ذریعہ منڈیوں میں فروخت کیے جاتے ہیں ۔ برتن سازی کے لیے روایتی طریقے سیاحوں کے لیے بہت پر کشش ہیں ۔ مالی کا غیر ملکی امداد پر کافی انحصار ہے ۔بین الاقوامی منڈیوں میں اپنی اہم برآمدکپاس کی وجہ سے اہمیت رکھتا ہے۔

علاقائی تقسیم

مالی کو انتظامی لحاظ سے 10ریجنز اور ایک ضلع میں تقسیم کیا گیا ہے۔یہ 10ریجنز آگے 56سرکلز Circles اور 703کمیونز Communesمیں تقسیم ہیں۔

تعلیم ،اقوام اور زبان

مالی میں مختلف قوموں کے لوگ آباد ہیں ۔ ماندے قوم کے لوگ اکثریت میں ہیں اوریہ ملک کی آبادی کا 50فیصد ہیں ، اس کے علاوہ فولا،سینوفو،تواریگ،سونگھائی اور دوسری قوموں کے لوگ بھی یہاں پائے جاتے ہیں۔

مالی کی آفیشل زبان فرانس کے زیر اثر رہنے کی وجہ سے فرانسیسی ہے مگر اس زبان کے بولنے والے کم ہیں اور ان کی بھی زیادہ تعداد شہروں تک محدود ہے ۔ بمباراسمیت 13زبانوں کو ملک کی قومی زبان کا درجہ حاصل ہے ۔بمبارا ملک کے تقریباً تمام علاقوں میں بولی جاتی ہے۔

مالی میں تعلیم کا حصول اور بالخصوص اعلیٰ تعلیم کا حصول غریب طبقہ کے لیے انتہائی مشکل ہے اور تعلیم کے لیے سہولیات نہ ہونے کے باعث مالی میں شرح خواندگی 60فیصد ہے ۔ یہاں لوگ فرنچ اور عربی زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم کے لیے عرب اور یورپی مما لک کا رخ کرتے ہیں۔

اسلام اور دیگر مذاہب

مالی میں 90فیصد مسلمان،2فیصد عیسائی جبکہ 8فیصددیگر مذاہب کے ماننے والے آبادہیں۔ مسلمانوں کی زیادہ تعداد سنی فرقہ مالکیہ کی ہے ، جبکہ جماعت احمدیہ کے علاوہ یہاں بہت سے مسلمان فر قے موجود ہیں جن میں فرقہ تیجانیہ ،قادریہ، صوفیہ ، ہمالیہ ، انصار دین ، شیعہ ، وہابیہ اور حیدرہ قابل ذکر ہیں۔ مغربی افریقہ میں مالی شروع سے ہی اسلام کا گڑھ رہا ہے اور تمام مغربی افریقہ میں اسلام یہیں سے ہی پھیلا۔ فرانسیسیوں کے دور میں یہاں عیسائی پادریوں کی بڑی تعداد آئی اور ان کو اضافی سہولیات بھی دی گئیں لیکن عیسائیت کو اس خطہ میں کامیابی نہیں ملی۔

مالی مذہبی لحاظ سے ایک پُر امن ملک ہے اور تمام مذاہب اور گروہوں کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے سوائے مالی کے شمالی علاقہ جات کے جہاں شدت پسندوں کی وجہ سے حالات کشیدہ ہیں۔باقی دنیا کی مانند یہاں بھی اسلام کے جملہ فرقہ جات اسلام کی خوبصورت اور زندہ تعلیم سے دور ہیں اور اسلام پر غیرمذاہب کے حملوں کا جواب دینے سے قاصر ہیں اور شد ت پسندی کے اسلام کی طرف منسوب ہونے اور مسلمانوں کے دیگر فرقہ جات کے علماء کی طرف سے اس معاملہ میں صحیح رہ نمائی نہ ملنے کی وجہ سے نوجوان نسل مذہب سے دور ہو رہی ہے۔

قابل ذکر شخصیت ۔منسا موسیٰ

منسا موسیٰ سلطنت مالی کا سب سے مشہور اور نیک نام حکمران رہا ہے جس نے 1312ء سے 1337ء تک حکومت کی۔ اس کے عہد میں مالی کی سلطنت اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ گئی۔ منسا کا مطلب بادشاہ ہوتا ہے۔ ٹمبکٹو اور گاد کے مشہور شہر فتح ہوئے اور سلطنت کی حدود مشرق میں گاد سے مغرب میں بحر اوقیانوس اور شمال میں تفازہ کی نمک کی کانوں سے جنوب میں ساحلی جنگلات تک پھیل گئی۔

منسا موسیٰ کو سب سے زیادہ شہرت اس کے سفرِ حج کی وجہ سے ہوئی جو اس نے 1324ء میں کیا تھا۔ یہ سفر اتنا پرشکوہ تھا کہ اس کی وجہ سے منسا موسیٰ کی شہرت نہ صرف اسلامی دنیا کے ایک بڑے حصے میں پھیل گئی بلکہ تاجروں کے ذریعے یورپ تک اس کا نام پہنچ گیا۔ اس سفر میں منسا موسیٰ نے اس کثرت سے سونا خرچ کیا کہ مصر میں سونے کی قیمتیں کئی سال تک گری رہیں۔ اس زمانے میں غالباً مغربی افریقہ کے اس علاقے میں سونا بہت زیادہ پایا جاتا تھا جہاں منسا موسیٰ کی حکومت تھی۔ حج کے اس سفر میں موسیٰ کے ہمراہ 60 ہزار فوجی اور 12 ہزار غلام تھے جنہوں نے چار چار پاونڈ سونا اٹھا رکھا تھا۔ اس کے علاوہ 80 اونٹوں پر بھی سونا لدا ہوا تھا۔ اندازہ ہے کہ موسیٰ نے 125 ٹن سونا اس سفر میں خرچ کیا۔ اس سفر کے دوران وہ جہاں سے بھی گزرا، غربا اور مساکین کی مدد کرتا رہا اور ہر جمعہ کو ایک نئی مسجد بنواتا رہا۔

منسا موسیٰ مکہ معظمہ میں ایک اندلسی معمار ابو اسحاق ابراہیم الساحلی کو اپنے ساتھ لایا جس نے بادشاہ کے حکم سے گاد اور ٹمبکٹو میں پختہ اینٹوں کی دو مساجد اور ٹمبکٹو میں ایک محل تعمیر کیا۔ مالی کے علاقے میں اس وقت پختہ اینٹوں کا رواج نہیں تھا۔منسا موسیٰ کے زمانے میں پہلی مرتبہ مالی کے بیرونی ممالک سے تعلقات قائم ہوئے چنانچہ مراکش کے مرینی سلطان ابو الحسن سے اس کے اچھے تعلقات تھے۔ منسا موسیٰ درویش صفت اور نیک حکمران تھا۔ اس کے عدل و انصاف کے متعدد قصے تاریخوں میں درج ہیں۔

منسا موسیٰ کے بعد مالی کی سلطنت کا زوال شروع ہو گیا۔ ایک ایک کرکے تمام علاقے ہاتھ سے نکل گئے اور 1854ء میں شہر گاد کے سونگھائی حکمران نے مالی کی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔

مشہور سیاح ابن بطوطہ نے اسی منسا موسیٰ کے بھائی سلیمان بن ابو بکر کی حکومت کے دوران مالی ایک سال سے زیادہ قیام کیا اور ٹمبکٹو کی بھی سیر کی اور علاقے کی مالی خوشحالی اور امن و امان کی تعریف کی۔

جینے کی عظیم مسجد

مسجد جینے (Great Mosque of Djenné) کچی اینٹوں سے تعمیر کردہ دنیا کی سب سے بڑی عمارت ہے اور سوڈانی،ساحلی طرزِ تعمیر کا سب سے بڑا شاہکار سمجھی جاتی ہے۔ یہ مسجد مالی کے شہر جینے میں قائم ہے۔ اس مقام پر پہلی مسجد تیرھویں صدی میں قائم کی گئی تھی۔ جبکہ موجودہ تعمیر 1907ء سے موجود ہے۔ مسجد کی مرکزی دیواریں تین فٹ چوڑی ہیں۔ سال بھر کی موسمیاتی تبدیلیوں سے مسجد کو جونقصان ہوتا ہے اس کی مرمت کے لیے ایک سالانہ تہوار منعقد کیا جاتا ہے۔ اس تہوار میں، کئی روز سے تیار کیا گیا گارا، مسجد کی دیواروں پر لیپ دیا جاتا ہے۔

اسےافریقہ کے مشہور ترین مقامات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ 1988ء میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے مسجد اور شہر کے قدیم حصے کو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دیا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button