متفرق مضامین

کسوف و خسوف کے عظیم الشان نشان کے بارہ میں چند حقائق

(حیدر علی ظفر۔ مبلغ سلسلہ جرمنی)

قبل ازیں ایک مضمون میں خاکسار نے صداقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عظیم الشان نشان یعنی 1311 ہجری بمطابق 1894ء کے رمضان المبارک میں ظاہر ہونے والے چاند سورج گرہن(جو کہ علی الترتیب چاند کی تیرھویں اور اٹھائیسویں رمضان کو ہوئے) کو وقوع پذیر ہوئے بیان کیا تھا۔زیرِ نظر مضمون میں اِن گرہنوں کے بارے میں بعض حقائق پیش کیے جارہے ہیں۔ و باللّٰہ التوفیق

بے نظیر گرہنوں کا حامل رمضان

رمضان ہجری سال کا نواں مہینہ ہے۔تمام مہینوں میں سے رمضان سب سے زیادہ بابرکت مہینہ ہے۔ہجری مہینہ کی ابتداءچاند کے نظر آنے سے ہوتی ہے۔آنحضرت ﷺ کا وصال 12؍ربیع الاول 11ھ میں ہوا تھا۔گویا کہ ہجرت کے بعد رمضان کے 10؍مہینے گزرچکے تھے لیکن وصالِ مبارک پر جب رمضان کے ٹھیک 1300؍مہینے مزید گزر گئے تو ایک ایسا رمضان کا مہینہ بھی آیا جو حضرت محمد ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق کسوف وخسوف کے ایک بے نظیر نشان کا حامل تھا ۔یہ نشان ابتدائے آفرینش سے لےکر کبھی ظاہر نہیں ہوا تھااوراِس کی نظیر آدم علیہ السلام سے لےکر آنحضرت ﷺ کے وقت تک اور آنحضرت ﷺ سے لےکر مہدی کے وقت تک نہیں پائی جاتی۔ اور وہ 1311ھ کا رمضان المبارک ہے۔اس کا چاند قادیان کے اُفق پر 9؍مارچ بروز جمعۃ المبارک غروبِ آفتاب کے بعد نظر آیا اور 10؍مارچ کو پہلا روزہ قرار پایا۔

(تقویم عمری صفحہ227۔ مرتبہ میاں معراج الدین عمر۔ مطبوعہ 1907ء مطبع بدر واقع معراج منزل لاہور)

چنانچہ 21؍مارچ بروز چہار شنبہ( بدھ) غروبِ آفتاب کے بعد جب تیرھویں کا چاند طلوع ہوا تو وہ جلدگہنا گیا اور 28؍رمضان المبارک بمطابق 6؍اپریل بروز جمعۃ المبارک جب سورج طلوع ہوا تو وہ کچھ دیر کے بعد نصف النہار کے قریب گہنا یاگیا اور اِس طرح حدیث شریف کے الفاظ لِاَوَّلِ لَیْلَۃٍ اور فِی النِّصْفِ مِنْہُ کمال صفائی اور کئی جہات سے پورے ہوئے۔فتبارک اللّٰہ احسن الخالقین۔

کسوف و خسوف کے نشان کے قواعدِ ہیئت

1311ھ یعنی 1894عیسوی میں جو چاند گرہن ہوئے وہ نہ صرف پیشگوئی کے عین مطابق تھے بلکہ قانونِ قدرت و قواعدِ ہیئت کے مطابق بھی تھے۔ایک لمبے عرصے تک منکرینِ احمدیت کا یہ اصرار رہا کہ 1894ء میں ظاہر ہونے والے چاند و سورج گرہن کوئی خارق عادت نہیں تھے۔اس لیے بانی جماعت احمدیہ کی صداقت کا نشان نہیں بن سکتے۔اُن کے نزدیک دارقطنی کی حدیث کے مصداق وہ چاند و سورج گرہن ہوںگے جو خلافِ قانونِ قدرت ظاہر ہوںگے۔

چنانچہ مولانا مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کا استدلال پڑھیے۔خسوف و کسوف کے بارے میں دارقطنی میں مذکور حدیث تحریر کرنے کے بعد اس کا ترجمہ و تشریح یوں لکھتے ہیں :

’’یعنی رمضان کی پہلی تاریخ چاند گرہن ہو گا اور نصف ماہ پر سورج گرہن ہو گا۔حاصل یہ کہ دونوں خلافِ قاعدہ ہیئت ہوںگے۔ اور جو کسوف و خسوف رمضان میں ہو چکا ہے وہ قواعدِ ہیئت کے موافق تھا ‘‘

( الخطاب الملیح فی تحقیق المہدی و المسیح صفحہ 28، مصنفہ مولانا مولوی اشرف علی صاحب تھانوی۔ مطبوعہ بلالی سٹیم پریس ساڈہورہ ضلع انبالہ )

اب ڈاکٹر ایس ایم عظیم الدین صاحب کا عجیب و غریب استدلال بھی ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں:

’’بڑی علامت ظہورِ مہدی موعود کی یہ ہوگی کہ جس سال میں وہ پیدا ہوںگے اُس سال میں ایک مہینے رمضان شریف میں دوگہن سورج و چاند کے ہوںگے مگر خلافِ عادت قدیم یعنی ہمیشہ عادت یہ ہے کہ چاند اول حصہ مہینے میں اور سورج اخیر حصہ مہینے میں گہن ہوا کرتا ہے۔جس سال ظہور مہدی موعود کا ہو گا تو اوّل رمضان میں سورج گہن ہو گااور اخیر رمضان شریف میں چاند گہن ہو گا ‘‘۔

( فیصلہ ناطق مابین کاذب و صادق صفحہ14۔ مجوزہ ڈاکٹر ایس ایم عظیم الدین صاحب حنفی قادری دیو بندی۔ مطبوعہ اکتوبر 1908ء رفاہِ عام اسٹیم پریس لاہور)

ایک صاحب محمد یار المتخلص بہ صادق کوٹلوی نے مرأۃ الحق کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے ، جس میں اس حدیث کا ترجمہ لکھنے کے بعد اعلان کرتے ہیں :

’’جو معنے حدیث کے ہم نے کئے ہیں وہ بالکل حدیث کے مناسبِ حال ہیں۔اُن سے فصاحت و بلاغت موجودہ حدیث میں کوئی نقص راہ نہیں پاتا۔ نہ اسلوبِ عبارت میں کچھ مداخلت بیجا کرنی پڑتی ہے… بروئے حدیثِ نبوی ﷺ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ قیامت سے پہلے دجال اور مسیح موعود و مہدی معہود و یاجوج ماجوج وغیرہ ظہور پذیر ہوںگے اور آفتاب مغرب سے طلوع کرےگا۔اِن باتوں سے ظاہر ہے کہ ان امِارات کُبریٰ قیامت سے پہلے نظامِ عالم میں کچھ ایسی تبدیلیاں سر زد ہوںگی کہ آفتاب بر خلافِ قواعد مستمرہ مغرب سے طلوع کرےگا۔اور آگ اور دُخان خلافِ دستور دنیا پر نمایاں ہو گی۔کیونکہ اگر نظامِ عالم اپنی وضع مقررہ پر رہے تو آفتاب مغرب سے کیونکر نمودار ہو سکتا ہے۔چناچہ یہی وجہ ہے کہ پہلی ماہ رمضان کو خسوف 15۔ صدر کو یعنی اُس کے نصف پر کسوف ظاہر ہو گا یعنی بر خلاف دستورِ قدیم کے قمر تاریخ مذکور پر بشکل ہلال نمودار نہ ہوگا۔ بلکہ بصورتِ بدر نمودار ہو گا۔اُس حالت میں اُس کو کسوف لگے گا… ہاں اگر نظامِ عالم کو اپنی وضع مقررہ پر مان لیں تو اُس صورت میں اوّل ماہ رمضان کو خسوف کا ماننا متعذر ہو گا ‘‘۔

( مرأۃ الحق صفحہ 68مولفہ محمد یار المتخلص بہ صادق کوٹلوی ۔ مطبوعہ 1318 ہجری۔اسلامیہ پریس لاہور)

آپ نے منکرینِ مہدی معہود کے عجیب و غریب استدلال پڑھے، تعصب اور بد گمانی اِن کو کہاں سے کہاں لے گئی۔ان کے استدلال پر تبصرہ کرنے سے پہلے باری تعالیٰ کے حضور حضرت بانی جماعت احمدیہ کی مناجات میں سے چند اشعار نقل کرتا ہوں۔فرمایا:

کیا کہوں دنیا کے لوگوں کی کہ کیسے سو گئے

کِس قدر ہےحق سے نفرت اور ناحق سے پیار

عقل پر پردے پڑے سَو سَو نشاںکو دیکھ کر

نُور سے ہو کر الگ چاہا کہ ہوویں اہلِ نار

گر نہ ہوتی بد گُمانی کفر بھی ہوتا فنا

اِس کا ہووے ستیاناس اِس سے بگڑے ہوشیار

کیا بدلتا ہے وہ اب اس سنت و قانون کو

جس کا تھا پابند وہ از اِبتدئے روز گار

بدگمانی نے تمہیں مجنون و اندھا کردیا

ورنہ تھے میری صداقت پر براہیں بیشمار

( در ثمین صفحہ120 منظوم اردو کلام حضرت مسیح موعود ؑ۔ مطبوعہ 1987ء ۔ ہمدرد پرنٹنگ پریس جالندھر انڈیا )

صداقتِ مہدی کے لیے رمضان میں گرہن قواعدِہیئت کے مطابق تھے

منکرینِ مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کا کہنا ہے کہ دارقطنی کی حدیث کی رُو سے وہی گرہن مہدی کا نشان بن سکتے ہیں جو خلافِ قاعدہ ہیئت، خلافِ عادتِ قدیم اور بر خلاف دستورِ قدیم وقوع پذیر ہوں۔ جبکہ ہمارا مؤقف یہ ہے کہ چاند گرہن کی نسبت عادت اللہ یہ ہے کہ ہجری تاریخوں کے لحاظ سے 15,14,13کو ہو اور سورج گرہن 29,28,27کو ہو۔ اور قرآن کریم میں صریح الفاظ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

فَلَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا ۬ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰہِ تَحۡوِیۡلًا ( سورۃ فاطر:44)

یعنی :پس تُو ہرگز اللہ کی سنّت میں کوئی تبدیلی نہیں پائے گا اور تُو ہرگز اللہ کی سنت میں کوئی تغیر نہیں پائے گا۔

پس جب عادت اللہ کا تغیر و تبدل محالات میں سے ہے تو دار قطنی کی حدیث کے ہم کیوں ایسے معنی مراد لیں ، جس سے سنت اللہ میں تبدّل و تغیر لازم آئے۔ علاوہ ازیں رسول ِخدا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کا کوئی کلام قانونِ قدرت کے خلاف نہیں ہو سکتا۔پس جب یہ کلام سیدِ دو جہاں کا عین قانونِ قدرت کے مطابق ہے تو لا محالہ ہمیں قانونِ قدرت کا پابند ہو نا پڑے گا۔ گرہنوں کے متعلق قانونِ قدرت یا سنت اللہ یہ ہے کہ چاند کو اُس کی مقررہ راتوں 15,14,13 میں سے کسی ایک میں گرہن ہو اور سورج کو اُس کی مقررہ تاریخوں 29,28,27 میں سے کسی ایک میں گہن لگے۔ اِس سنت مستمرہ کے خلاف کبھی کوئی گرہن نہیں لگا۔اب اگر کوئی یہ کہے کہ چاند کو مہینے کی پہلی اور سورج کو پندرہ تاریخ کو گرہن ہو گا تو اُس کے کلام کو رد کر دیا جائے گا۔کیونکہ یہ خلافِ قانونِ قدرت و سنۃ اللّٰہ الجاریہ ہے۔

آج تک کبھی بھی چاند کو مہینہ کی پہلی رات اور سورج کو پندرہ تاریخ میں گرہن نہیں ہوا۔کیا علمِ ہیئت میں کہیں آیا ہے کہ سورج کو پندرہ اور چاند کو مہینہ کی پہلی تاریخ کو گرہن لگ سکتا ہے۔یہ کیسی جاہلانہ بات ہے کہ کسوف وخسوف قانونِ قدرت کے خلاف ہوںگے۔اتنا بھی نہیں سمجھتے کہ قانونِ قدرت تو کہتے ہی خدائی قانون کو ہیں۔پس وہ کسوف و خسوف خدائی قانون کے خلاف کس طرح ہو سکتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ سورۃ یٰسآیات 39تا 41میں فر ماتا ہے:

وَ الشَّمۡسُ تَجۡرِیۡ لِمُسۡتَقَرٍّ لَّہَا ؕ ذٰلِکَ تَقۡدِیۡرُ الۡعَزِیۡزِ الۡعَلِیۡمِ۔ وَ الۡقَمَرَ قَدَّرۡنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالۡعُرۡجُوۡنِ الۡقَدِیۡمِ۔ لَا الشَّمۡسُ یَنۡۢبَغِیۡ لَہَاۤ اَنۡ تُدۡرِکَ الۡقَمَرَ وَ لَا الَّیۡلُ سَابِقُ النَّہَارِ ؕ وَ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ۔

ترجمہ : اور سورج (ہمیشہ) اپنی مقررہ منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ یہ کامل غلبہ والے (اور) صاحبِ علم کی (جاری کردہ) تقدیر ہے۔ اور چاند کے لئے بھی ہم نے منازل مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ وہ کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہو جاتا ہے۔ سورج کی دسترس میں نہیں کہ چاند کو پکڑ سکے اور نہ ہی رات دن سے آگے بڑھ سکتی ہے اور سب کے سب (اپنے اپنے) مدار پر رواں دواں ہیں۔

پس سورج چاند کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ایک قانون کے مطابق چلتے ہیں اور علم النجوم اور استقراء سے ثابت ہے کہ چاند گرہن اور سورج گرہن خاص تاریخوں میں ہوا کرتے ہیں تو پھر مقررہ تاریخوں کے سوا دوسری تاریخوں میں گرہن نہیں لگ سکتے۔

چاند سورج گرہن صداقتِ مہدی پر قطعی دلیل

پھر حدیث میں بھی ایسے کوئی الفاظ نہیں ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ خسوف کسوف قانونِ قدرت کے بر خلاف ظاہر ہوںگے۔حدیث میں کسوف و خسوف کی کوئی نِرالی حالت بیان نہیں کی گئی۔ حضورﷺ نے کسوف و خسوف کا کوئی نیا قاعدہ ایجاد نہیں کیا بلکہ قانونِ قدرت کے اندر اندر گرہن کی تاریخوں کی خبر دی تھی ، جو کہ پوری ہو گئی۔ کسوف و خسوف کے ظہور میں کسی خارق عادت عجوبہ کے رُونما ہونے کی توقع رکھنے والوں کو حضرت بانی جماعت احمدیہ نے اِن الفاظ میں چیلنج دیا۔ فرمایا:

’’اور یہ کہنا کہ سنت اللہ کے موافق کسوف خسوف ہونا کوئی خارق عادت امر نہیں۔یہ دوسری حماقت ہے۔ اصل غرض اِس پیشگوئی سے یہ نہیں ہے کہ کسی خارق عادت عجوبہ کا وعدہ کیا جائےبلکہ غرض ِاصلی ایک علامت کو بیان کرنا ہے۔ جس میں کوئی دوسرا شریک نہ ہو…غرض تو ایک علامت بتلانا تھا سووہ متحقق ہو گئی۔ اگر متحقق نہیں تو اِس واقعہ کی صفحۂ تاریخ سے کوئی نظیر تو پیش کرو اور یاد رہے کہ ہر گز پیش نہ کر سکو گے‘‘۔

( ضمیمہ نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد 19صفحہ 141-142)

نیز آپ ؑفرماتے ہیں :

’’اور اگرچہ پیشگوئی کے لفظوں سے یہ بات ہر گز نہیں نکلتی کہ خسوف کسوف کوئی نرالے طور پر ہو گامگر خدا تعالیٰ نے اِن مولویوں کا منہ کالا کرنے کے لئے اِس خسوف کسوف میں بھی ایک امر خارق عادت رکھا ہے۔چنانچہ مارچ ۱۸۹۴ء پایونیر اور سِول ملٹری گزٹ نے اقرار کیا ہے کہ یہ خسوف وکسوف جو ۶؍ اپریل ۱۸۹۴ءکو ہو گا ۔یہ ایک ایسا عجیب ہے کہ پہلے اِس سے اِس شکل اور صورت پر کبھی نہیں ہوا۔‘‘ دیکھو کفار گواہی دیتے ہیں کہ یہ کسوف خسوف خارق عادت ہے اور مولوی اعتراض کر رہے ہیں!!!‘‘

( انجامِ آتھم ،روحانی خزائن جلد 11صفحہ 332-333)

چاند ، سورج گرہن کی تاریخیں اور اعترافِ حقیقت

اب خاکسار چاند، سورج گرہن کی تاریخوں کے بارے میں بعض مسلمان علماء ومحققین کی آراء پیش کرتا ہے۔

مشہور عالمِ دین اور تیرھویں صدی ہجری کے ایک بزرگ نواب صدیق حسن خان صاحب محدث دہلوی نےاپنی کتاب ’’حجج الکرامہ فی آثار القیامہ‘‘میں کسوف و خسوف کو مہدی کی علامت تسلیم کیا ہے۔نیز گرہنوں کی تاریخوں کے بارے میں اپنی تحقیق کا نچوڑ اِن الفاظ میں پیش کیا ہے۔

ترجمہ از فارسی ’’اہلِ نجوم کے نزدیک چاند گرہن سورج کے مقابل آنے سے ایک حالت میں سوائے تیرھویں ، چودھویں اور پندرھویں اور اِسی طرح سورج گرہن بھی خاص شکل میں سوائے ستائیسویں ، اٹھائیسویں اور انتیسویں تاریخوں کے کبھی نہیں لگتا ‘‘۔

(حجج الکرامۃ فی آثار القیامۃ صفحہ 344، مطبوعہ 1271ھ،مطبع شاہجہانی بھوپال)

بر صغیر کے مشہور عالم مولانا مولوی حافظ محمد بن مولوی بارک اللہ مرحوم سکنہ لکھوکے نے اپنے منظوم پنجابی کلام’’احوال الآخرۃ ‘‘ اور مشہور صوفی بزرگ حضرت خواجہ غلام فرید صاحب رحمۃ اللہ علیہ آف چاچڑاں شریف(1261ھ ۔1319ھ) نےاپنے ملفوظات جو ’’اشاراتِ فریدی(حصہ سوم) ‘‘کے نام سے طبع ہوئے ہیں میں یہی قاعدہ مانا ہے کہ چاند کے گرہن کی تاریخیں تیرھویں ، چودھویں اور پندرھویں ہیں اور سورج گرہن ستائسویں ، اٹھائسویں یا انتیسویں تاریخوں میں سے کسی ایک تاریخ کو لگتا ہے۔

(تفصیل کے لیے دیکھیں۔(1)احوال الآخرۃ مطبوعہ حاجی چراغدین سراج الدین تاجران کتب کشمیری بازار لاہور(2) اشاراتِ فریدی حصہ سوم۔ مطبوعہ مفید عام پریس آگرہ)

چاند اور سورج گرہن کے تاریخی نشان کو ظاہر ہوئے ایک صدی سے زائد کا عرصہ بیت گیا ہے۔اِس عرصےمیں اس کے حق میں اور مخالف بہت کچھ لکھا گیا۔ مگر بعض دفعہ ایسا ہوا کہ حق مخالفین کی زبان اور قلم سے بھی جاری ہو گیا۔مگر وہ پھر بھی اِس کو ماننے سے گریزاں رہے۔اِس کی دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔

٭…اردو اخبار ’’سراج الاخبار‘‘ 11؍جون 1894ء مطبوعہ سراج المطابع جہلم کے صفحہ 5تا6پر مہدی آخر الزمان کے بارے میں احادیثِ نبویہ ؐکی تشریح و وضاحت کرتے ہوئے حدیث ’’ان لمھدینا آیتین…الخ‘‘ درج کر کے یہ اقرار کیا گیا ہے کہ سال 1894ء کا کسوف و خسوف13؍ اور 28؍کو ہوا۔ مضمون گو مخالفت میں ہے مگر یہ الفاظ موجود ہیں:

’’سال حال کا کسوف و خسوف چونکہ مطابق منشاء اس حدیث کے نہیں ہوا۔ بلکہ چاند گرہن بجائے پہلی رات کے 13 رمضان کو اور سورج گرہن بجائے 15کے 28کو ہوا ہے ‘‘

( صفحہ6)

٭… سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ایک شدید مخالف مولوی محمد عبد اللہ معمار صاحب نے ایک رسالہ ‘ہدایت مقالہ ’لکھا ہے جو کہ’’مرزا صاحب قادیانی کی راست بیانیوں پر ایک نظر‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔اِس کتاب میں مصنف نے لکھا ہے کہ مرزا صاحب نے جس کسوف و خسوف کو پیش کیا ہے وہ روایت کے مطابق نہیں ہے۔البتہ یہ اقرار کیا گیا ہے کہ

’’13 رمضان کو چاند اور 28کو سورج گرہن ہوا ‘‘

( صفحہ 33)

کہتے ہیں کہ خوبی وہ ہے جس کا دشمن بھی اقرارکرے۔والفضل ما شھدت بہ الاعداء

آسٹریلین ماہرِ فلکیات کی رپورٹ اور ایک غلط فہمی کا ازالہ

مہدیٔ معہود علیہ السلام بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی موعود اقوامِ عالَم اور موعود آخر الزمان کی پیشگوئیوں کے مصداق تھے۔آپؑ کا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا بھی ہے، وہ مسیح موعود جس کو صحیح مسلم کی ایک حدیث میں چار مرتبہ نبی اللہ کے الفاظ سے بھی یاد کیا گیا ہے(ترجمہ اللہ کا نبی۔یاد رہے کہ بانی جماعت احمدیہ کا دعویٰ اُمتی نبی ہو نے کا ہے۔تشریعی نبی ہو نے سے آپ نے ہمیشہ انکار کیا ہے) ایک طرف سعید فطرت لوگ آئے دن گروہ در گروہ آپ کی جماعت میں شامل ہو رہے ہیں اور آنحضرت ﷺ کے حکم ’’فَبَایِعُوْہٗ‘‘ کی بجاآوری کرتے ہوئے آپ کے جانشین اور خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہیں تو دوسری طرف آپؑ کے منکرین طرح طرح کی غلط فہمیاں پھیلانے اور آپؑ کے بارے میں بے سروپا کہانیاں بیان کرنے میں مصروف و مشغول ہیں۔

رمضان المبارک 1894ء کے گرہنوں کے بارے میں بھی کئی قسم کی غلط فہمیاں پھیلائی گئیں اور بے شمار اعتراضات کیے گئے تاکہ صداقتِ مہدی کے اِس قطعی اور چمکتے ہوئے نشان کو جھٹلایا جا سکے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے خود بانی جماعت احمدیہ نے ایسے اعتراضات کا رد فرمایا اور دنیا کو چیلنج دیاکہ اِس نشان کی صفحۂ تاریخ سے کوئی نظیر پیش کرو۔

روئے زمین پر بسنے والا کوئی شخص اِس چیلنج کو آج تک قبول نہیں کر سکا۔نہ قیامت تک قبول کر سکتا ہے۔اب تو سائنس نے بہت ترقی کر لی ہے اور ایسی کُتب و کمپیوٹرز منصّہ شہود پرآچکے ہیں جِن سے 1894ءمیں ظاہر ہو نے والے کسوف وخسوف کی بے نظیری اور نایاب ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔اب کسی کے بس میں نہیں رہا کہ عوام الناس کو دھوکا دے سکے کہ تاریخ میں کئی مہدی کہلوانے والے گزرے ہیں۔کئی بار رمضان میں دونوں گرہن بھی ہوئے۔پھر اِن گرہنوں کی تاریخوں کا تعین کیسے ہو گیا؟ پھر کیسے معلوم ہو کہ 1894ء میں ظاہر ہونے والے گرہنوں کا جوڑاہی دارقطنی میں مندرج آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق تھا اور مرزا صاحب کی صداقت کا نشان ؟

مذہبی نقطہ نظر سے کیے جانے والے اعتراضات تو پہلے ہی دم توڑ چکے تھے۔ اب آسڑیلیا کے ایک ماہرِ فلکیات نے سائنسی نقطہ نظر سے کیے جانے والے شبہات کا ازالہ بھی کردیا ہے۔جس کی کسی قدر تفصیل یہاں درج کی جاتی ہے۔

اس نشان کے قریباً سو سال پورےہونے کے قریب اکتوبر1993ءمیں آسٹریلیا کے ایک ماہر فلکیات پروفیسرMalcolm John Millerنے اپنی ایک تحقیق کو اس عنوان سے شائع کیا۔Solar & Lunar Eclipses in The Month of Ramadhan اس رپورٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ چاند گرہن اور سورج گرہن دونوں کے رمضان کے مہینہ میں ہونے کی ممکنہ تاریخوں کا تعین کرنا ممکن تو ہے البتہ آسان نہیں ہے۔اِس کے بعد انہوں نے اُن مشکلات کا ذکر کیا جو اس سلسلہ میں حائل تھیں۔آسٹرین ماہر فلکیات پروفیسر Th. Ritter v. Oppolzerکی کتاب Canon Der Finsternisseپر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ تیرھویں صدی سے پہلے کے گرہنوں کے بارے میں دی گئی معلومات میں کچھ غلط فہمیاں ہیں۔اس کے بعد انہوں نے حضرت محمد بن علی کی روایت کے مطابق 1894ء میں ہونے والے چاند گرہن اور سورج گرہن کا ذکر کیا جو کہ کمپیوٹر کی رو سے 21؍مارچ اور 6؍اپریل کو ہوئے۔اِن گرہنوں پر تبصرہ کرتے ہوئے اُس نے لکھا ہے

”The eclipses of 1894 are not so very long ago that large errors can creep into the calculations and therefore there seems to be fairly good agreement between the figures given by Alladin and Ballabh and mine from Voyager”

یعنی 1894ء کے گرہنوں کوکوئی لمبا عرصہ نہیں گزرا کہ ان کے حساب کرنے میں غلطیوں کا امکان ہو۔ اس لیے Alladinاور Ballabhکے اس بارے میں دیے ہوئے اعدادو شمار اور میرے دیے ہوئے اعدادو شمار میں ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

Dr.Prof. Alladin & Dr. G.M Ballabh کی تحقیق

محترم ڈاکٹر صالح محمد الٰہ دین صاحب عثمانیہ یونیورسٹی حیدر آباد بھارت میں علمِ ہیئت کے پروفیسر رہےہیں۔Dr. G.M. Ballabhمذکورہ یونیورسٹی میں ریڈر کے طور پر متعین تھے۔اِن دونوں ماہرِ فلکیات نے بڑی محنت اور جانفشانی سے گرہنوں کے بارے تحقیق کی ۔ جب محترم ڈاکٹر صالح محمد ا لٰہ دین صاحب 1993ء میں ربوہ تشریف لائے تو خاکسار نے اِس مضمون پر اُن کے لیکچرز سُنے اور ان سے گفتگو کی اور اُن سے رمضان میں گرہنوں کے بارے میں اُن کی ریسرچ سے استفادہ کیا۔ فجزاھم اللہ احسن الجزاء

ڈاکٹر صالح محمد الٰہ دین صاحب ، Dr.G.M.Ballabh اورکلکتہ میںحکومتِ ہندوستان کےادارے Meteorological Department Positional Astronomy Centre کے سائنسدانوں کی مشترکہ تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ 1894ء میں رمضان کی مقرر کردہ تاریخوں میں چاند اور سورج گرہن لگے۔چاند گرہن 13؍رمضان(یعنی 21؍مارچ) کو رات کے ابتدائی حصہ میں ہوا اور سورج گرہن 28؍رمضان(یعنی 6؍اپریل) بروز جمعہ ہوا۔سن623ءسے 1982ءتک رمضان میں دونوں گرہن کُل109 بار ہوئے۔ البتہ 1894ء میں سورج چاند گرہن نہ صرف 13؍اور 28؍ رمضان کو ہوئے بلکہ پیشگوئی کے مطابق چاند گرہن سورج غروب ہونے کے بعد رات کے پہلے حصہ میں ظاہر ہوا اور سورج کودوپہر سے قبل گرہن لگا۔اور یہ دونوں گرہن قادیان میں نظر آسکتے تھے۔

مذکورہ بالا تحقیق مختلف رسالوں میں شائع ہو چکی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں:

Review of Religions July 1987 , June 1992 , Dec 1993, Sep 1994 نیز اِسی طرح The Muslim Herald March 1994

کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مضمون کو ختم کرنے سے پہلے مہدی معہود حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی اُن کُتب کا ذکر بھی کر دیا جائے جن میں خاص طور پر نشان کسوف و خسوف کا ذکر ہے تا کہ قارئین بذاتِ خود بھی اِن روحانی خزائن سے استفادہ کر سکیں:

٭…نور الحق حصہ اول و دوم روحانی خزائن جلد8

٭…انوار الاسلام روحانی خزائن جلد9

٭…انجام آتھم روحانی خزائن جلد11

٭…ضرورۃ الامام روحانی خزائن جلد13

٭…نجم الہدیٰ روحانی خزائن جلد14

٭… ایام الصلح روحانی خزائن جلد14

٭…کشف الغطاء روحانی خزائن جلد14

٭…تریاق القلوب روحانی خزائن جلد15

٭…خطبہ الہامیہ روحانی خزائن جلد16

٭…تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد17

٭…نزول المسیح روحانی خزائن جلد18

٭…اعجاز المسیح روحانی خزائن جلد19

٭…تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد20

٭…حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد22

٭…چشمۂ معرفت روحانی خزائن جلد23

ہمارا فرض

ظہورِ مہدی آخر الزمان کی نشانیاں پو ری ہو چکیںاور سن 1894ءکے رمضان المبارک میں حسبِ پیشگوئی 13؍ اور 28؍تاریخ کو چاند اور سورج کو گرہن لگا ، جو صداقتِ مہدی پر قطعی اور یقینی دلیل ہے۔اب تو چودھویں صدی کو گزرے بھی41سال ہو رہے ہیں۔ مبارک ہیں وہ لوگ جنہیں اِس موعود کی معرفت نصیب ہوئی اورآپ کے اعوان و انصار میں شامل ہوئے۔اب تو آپؑ کے پیغام کو پھیلانے اور دوسروں تک پہنچانے کا وقت ہے۔ مہدی علیہ السلام کی صداقت لوگوں پر ظاہر ہو رہی ہے اوروہ آپؑ کے خلیفہ و جانشین کے ہاتھ پر بیعت کر کے آخرین کا حصہ بنتے چلے جا رہے ہیں۔ حضرت بانی جماعت احمدیہؑ نے کیا خوب فرمایا ۔

ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج

جِس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار

یاد وہ دن جبکہ کہتے تھے یہ سب ارکانِ دین

مہدی موعودِ حق اب جلد ہو گا آشکار

پھر وہ دن جب آ گئے اور چودھویں آئی صدی

سب سے اول ہوگئے مُنکر یہی دیں کے مَنار

پھر دوبارہ آگئی احبار میں رسمِ یہود

پھر مسیحِ وقت سے دشمن ہوئے یہ جُبہ دار

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button