متفرق مضامین

حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کا ڈیٹرائٹ امریکہ میں ایک سالہ قیام

1920ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے انگلستان میں متعین مبلغ اسلام حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کو سر زمین امریکہ میں احمدیہ مسلم مشن قائم کرنے کی ہدایت فرمائی ۔چنانچہ حضرت مفتی صاحبؓ 15؍فروری 1920ء بروز اتوار امریکہ کے شہر فلاڈلفیا میں وارد ہوئے۔ امریکہ میں قریباً تین سال قیام کے بعد آپ 8؍ستمبر 1923ء کو بوسٹن کی بندرگاہ سے قادیان کے لیے روانہ ہوئے۔ اس تین سالہ عرصہ میں حضرت مفتی صاحبؓ نے فلاڈلفیا، نیویارک شہر، ڈیٹرائٹ اور شکاگو میں قیام رکھا۔ اس مضمون میں آپؓ کے ڈیٹرائٹ قیام کا کچھ حال بیان کیاجا رہا ہے۔

ڈیٹرائٹ (Detroit) امریکہ کی ریاست مشی گن (Michigan) کا سب سے بڑا شہر ہے جو امریکہ کینیڈا سرحد پر واقع ہے۔عرب (شام، لبنان، فلسطین اور اردن وغیرہ) ممالک سے ہجرت کر کے امریکہ میں بسنے والے عربوں کی سب سے زیادہ تعداد ریاست مشی گن میں ہے، 1920ء میں ڈیٹرائٹ میں مسلمانوں کی تعداد سولہ ہزار کے قریب تھی۔ امریکہ میں وارد ہونے کے محض 4ماہ بعد یعنی جون 1920ء میں حضرت مفتی صاحبؓ کو جبکہ آپ نیو یارک شہر میں قیام پذیر تھے، 615میل کا فاصلہ طے کر کے ڈیٹرائٹ شہر کا دورہ کرنے کا موقع ملا اور یہاں کی اسلامی کمیونٹی سے ملاقات کی۔ نیویارک سے شائع ہونے والے ایک عربی اخبار ’’البیان‘‘ نے خبر دیتے ہوئے لکھا:

’’عقدت الجالیۃ الاسلامیۃ فی دترویت مشیغن اجتِماعًا عمومیًا فی جزیران و ذالک بمناسبۃ وجود حضرۃ المفتی محمد صادق من خیرۃ رجال الھند و الذی قَدِم مِن نیویورک خصیصًا لزیارۃ الجالیۃ الاسلامیۃ فی ھذہ المدینۃ۔ فافتتح حضرتہ الجلسۃ باسم اللّٰہ و الصلاۃ علی النبی العربی۔ و کان خطابہٗ باللغتین العربیۃ و الامریکیۃ و ابأن ما ھم علیہ اسلام الھند من علو الھمۃ و التفانی فی تعزیز مجدھم و اعادۃ فخر الاسلام و عضدھم لِاخوانھم فی مشارق الارض و مغاربھا۔ فکان لخطابہ وقع حسن فی نفوس الحاضرین….‘‘

(اخبار ’’البیان‘‘ بروکلین، نیو یارک۔ 26؍جون 1920ء صفحہ 3)

ترجمہ: ڈیٹرائٹ مشی گن کی اسلامی کمیونٹی نے 14؍جون کو محترم مفتی محمد صادق صاحب جو کہ ہندوستان کے بہترین مردوں میں سے ایک ہیں، کی آمد کے حوالے سے ایک اجلاس عام منعقد کیا۔ آپ خاص طور پر یہاں کی اسلامی کمیونٹی کو ملنے کے لیے نیویارک شہر سے تشریف لائے تھے۔محترم مفتی صاحب نے اپنی گفتگو کا آغاز’’اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں اور نبی عربیؐ پر درود سلام ہو…‘‘ کے الفاظ کے ساتھ کیا۔ آپ کی تقریر عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں تھی۔ آپ نے بیان کیا کہ کس طرح ہندوستان کے مسلمان اسلام کی عزت کو دوبارہ قائم کرنے اور مشرق و مغرب میں آباد اپنے بھائیوں کی معاونت کے لیے پُر عزم اور پُر خلوص ہیں۔ آپ کے خطاب نے حاضرین مجلس پر ایک اچھا اثر چھوڑا۔

اگست 1920ء میں حضرت مفتی صاحبؓ نے شکاگو شہر کو زیادہ موزوں سمجھتے ہوئے نیویارک کی بجائے شکاگو کو سنٹر بنالیا۔ (الفضل 23؍ستمبر 1920ء) اور یہاں سے مشن کی ذمہ داریاں سر انجام دینے لگے۔ ابھی آپؓ کو شکاگو آئے چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ ڈیٹرائٹ شہر کے ایک صاحب جو آپ سے اچھی واقفیت رکھتے تھے، نے آپ کو ڈیٹرائٹ آنے کی دعوت دی اور لیکچر کے انتظام کا وعدہ کیا چنانچہ آپؓ فروری 1921ء کے پہلے ہفتے میں شکاگو سے ڈیٹرائٹ پہنچے۔

حضرت مفتی صاحبؓ کا یہ دورہ ڈیٹرائٹ بہت ہی مفید اور مؤثر رہا۔ آپ کا پہلا لیکچر مورخہ 7؍فروری 1921ء کو آٹو ورکرز ہال (Auto-Workers Hall)میںمنعقد ہوا، اگلے روز ڈیٹرائٹ کے مشہور اخبار Detroit Free Pressنے Moslem Hurls Tolerance Defy at Christian Pulpitsکے تحت خبر دی اور لکھا کہ ہال 1200حاضرین سے پُر تھا۔

(Detroit Free Press, 8 Feb 1921 page 1)

اگلی اتوار کو ڈیٹرائٹ کے ملحقہ شہر ہائی لینڈ پارک (Highland Park) میں جہاں کہ عرب مہاجرین کی اچھی تعداد آباد تھی، آپؓ کا ایک اور کامیاب لیکچر ہوا جس میں شہر کے میئر اور پولیس چیف سمیت کئی اہم شخصیات شریک تھیں، The Detroit Free Press اخبار نے اس لیکچر کو بھی اچھی کوریج دی اور Moslems Avow Loyalty To U.Sکے تحت تفصیلی خبر دیتے ہوئے یہ بھی لکھا:

“Islam set before big businessmen and governmental heads of the neighbour city Sunday the most savory of Eastern dishes in a dinner tendered to Professor Mufti Muhammad Sadiq of India, missionary of the Ahmadia movement by which it is hoped to bring light …..”

(The Detroit Free Press, Monday, February 14, 1921 page 3)

اس سے ایک دن قبل ہی اسی اخبار کے ایک نمائندے William C. Richardsنے حضرت مفتی صاحؓب کی گفتگو کا تفصیلی احوال مورخہ 13؍فروری 1921ء کی اشاعت میں Metropolitan Sectionکے صفحہ 8،1 پر Moslem Mufti Seeks to Make Detroit Islamکے عنوان سے رپورٹ کیا۔ ایک ہی ہفتے میں اتنے کامیاب پروگرام اور اخبارات میں بھرپور اشاعت سے شہر ڈیٹرائٹ میں اسلام کا خوب چرچا ہوا جس کا ذکر کرتے ہوئے عربی اخبار ’’البیان‘‘ نیویارک کی ایک رپورٹ میں لکھا ہے:

’’لَمْ یَر المُسلمون عامۃ و العرب السوریون خاصۃ ….. و نزید علی ذالک قدوم فضیلۃ العالم العلامۃ المفتی محمد صادق الھندی و تصریحاتہٖ البلیغۃ فی خطاباتہ مقابلاتہ للصحف فکانت النتیجۃ ان أصبح اسم المسلمین و خاصۃ العرب مِنھم کالمسک الفائح …‘‘

(اخبار ’’البیان‘‘بروکلین، نیو یارک۔ 9؍فروری 1921ء صفحہ 3)

ترجمہ: ’’پچھلے تین ہفتوں میں عام مسلمانوں اور خاص طور پر سیرین عربوں نے جو مشاہدہ کیا ہے اس سے بہتر زمانہ ان کے ہجرت کے وقت سے آج تک امریکہ میں نہیں دیکھا اور نہ ہی کبھی اس سے پہلےاتنی شہرت پائی۔ صبح یا شام کا کوئی ایسا صحیفہ یا اخبار نہیں دیکھوگے مگر وہ ان کے ذکر سے بھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ان کی تعریف کرتے ہوئے ان کی خوبیاں نیز ان کے مذہب ، اخلاق اور طرز عیش وعشرت کاخوشی سے ذکر کرتے ہیں۔ اور میں قسم کھا تا ہوں کہ اگر ان مخلص امریکی صحافیوں کے سامنے اِس امّۃ کریمہ کی خوبیاں ظاہر نہ ہوتیں تو وہ ان کا ذکر زیادہ یا تھوڑا بھی اپنے اخبارات میں نہ کرتے ……. اس پر مزید بات ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ علامہ مفتی محمد صادق صاحب ہندوستانی کے یہاں تشریف لانے اور ان کی تقریرات کے بلیغ بیانات اور ان کے تمام صحافیوں کے ساتھ interviewsکے نتیجہ سے مسلمانوں اور خاص طور پر عربوں کا نام خوشبو کی طرح شائع ہوگیا ……‘‘

خود حضرت مفتی صاحبؓ اپنی ایک رپورٹ میں بیان کرتے ہیں کہ ’’شہر میں ایک شور پڑ گیا ہے۔‘‘ اسی تفصیلی رپورٹ کے شروع میں آپؓ نے شہر ڈیٹرائٹ کا جامع تعارف بھی دیا ہے، آپ لکھتے ہیں:

’’یہ شہر ملک امریکہ میں موٹر کار بنانے کے کارخانوں کے سبب مشہور ہے۔ اس میں پندرہ مختلف کارخانے ہیں، ہر کارخانے کی موٹر اپنی بناوٹ میں جداگانہ ہے، سب سے زیادہ مشہور کارخانہ مسٹر ہنری فورڈ کا ہے جس میں پچاس ہزار آدمی ملازم ہیں اور ہزاروں موٹرکار ہر سال بنتے اور فروخت ہوتے ہیں …. شہر ڈیٹرائٹ کا رقبہ اسی مربع میل اور آبادی دس لاکھ ہے۔ اس شہر میں ایک یونیورسٹی، چھ کالج، 200بڑے سکول، تین سو گرجے، چار ریلوے اسٹیشن، چالیس پبلک باغات، گیارہ شفاخانے، ستاون آگ بجھانے کے اسٹیشن، پندرہ مفت کتب خانے، دس تھانے، پانچ بڑے مارکیٹ ہیں ….. اس شہر میں آٹھ اخبار روزانہ شائع ہوتے ہیں اور کئی ایک ہفتہ وار اور ماہواری …..‘‘

(الفضل 7؍اپریل 1921ء صفحہ 1،2)

Highland Parkشہر میں حضرت مفتی صاحبؓ ایک شامی عرب محمدافندی حسن ابو خروب صاحب کے ہاں نزیل تھےجوایک Real State Developerتھےاور کافی مالدار آدمی تھے۔ آپؓ کے اس دورے کے دوران بعض عرب دوستوں نے بھی احمدیت قبول کی۔ (الفضل 16؍جون 1921ء صفحہ 2) ڈیٹرائٹ میں اتنی مسلمان آبادی (قریبا ًسولہ ہزار) کے باوجود فکر والی بات یہ تھی کہ یہاں کسی کو بھی باجماعت نماز کی ادائیگی کے لیے مسجد یا نماز سینٹر کے قیام کا خیال نہ آیا۔ انہی خروب صاحب نے (اغلبا ًحضرت مفتی صاحب ؓکی تحریک سے یا پھرکسی اور وجہ سے) اس موقع پر اپنے خرچ سے ایک مسجد بنانے کا ارادہ کیا۔ حضرت مفتی صاحبؓ مارچ کے وسط میں واپس شکاگو تشریف لے گئے، راستہ میں بعض عرب دوستوں کی دعوت پر آپؓ نے کچھ شہروں کا دورہ بھی کیا۔ قرائن سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مفتی صاحبؓ یہ پروگرام بناکر آئے تھے کہ Highland Parkمیں مسجد کی تعمیر مکمل ہونے پر آپؓ بھی شکاگو چھوڑ کر وہاں منتقل ہو جائیں گے۔ قصہ مختصر یہ کہ مسجد جون 1921ء میں تیار ہوگئی ، یہ مسجد 242 Victor Avenue, Highland Park, MI پر واقع تھی۔

اسلامی لحاظ سے رمضان المبارک کا مہینہ قریب الاختتام تھا اور مورخہ 7؍جون 1921ء کو عید الفطر کا دن تھا، نماز عید حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے پڑھائی اور خطبہ عید افندی خروب صاحب کے بھائی الشیخ حسین حسن ابو خروب صاحب نے دیا جس میں سینکڑوں مسلمان شامل ہوئے۔نماز عید کے بعد اسی روڈ پر ایک عالی شان پریڈ ہوئی جس کی قیادت حضرت مفتی صاحبؓ اور خروب برادران کر رہے تھے، شاملین مجلس ایک دوسرے کو اسلامی طریق پر سلام اور مبارک بادیں پیش کر رہے تھے ۔ اخبار The Detroit Free Pressنے 8؍جون 1921ء کی اشاعت میں صفحہ نمبر 3پر تصویر کے ساتھ عیدالفطر کی اس تقریب کی رپورٹ شائع کی۔

اخبار ’’البیان‘‘میں بھی اس پُر مسرت موقع کی تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی، جس کا آغاز رپورٹر نے ان الفاظ میں کیا:

’’لَم تر جالیۃ دیترویت الاسلامیۃ یومًا ابھج من ھذا الیوم و لا شاھدت منظرًا اشد تأثیرًا بالنفوس من مشھد ھذا النھار الذی ھو الاول من نوعہٖ و أھمیتہٖ لا فی مدینۃ دیترویت و لا فی الولایات المتحدۃ فقط بل فی القارۃ الامیرکیۃ جمعاء …‘‘

(اخبار ’’البیان‘‘بروکلین، نیو یارک۔ 14؍جون 1921ء صفحہ 2)

یعنی’’ ڈیٹرائٹ کی اسلامی کمیونٹی نے اس جیسا شاندار دن نہیں دیکھا ہوگا اور نہ ہی لوگوں کی بھیڑ سے مؤثر منظر کبھی مشاہدہ کیا ہوگا جو اِس دن دیکھنے کو ملاجو نہ صرف ڈیٹرائٹ میں بلکہ پورے امریکہ میں بلکہ پورے بر اعظم امریکہ میں اپنی نوع اور اپنی اہمیت کا پہلا منظر تھا۔‘‘

مسجد کی تعمیر کے اعلان کو ایک حلقہ میں تو قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اور خروب صاحب کا شکریہ ادا کیا لیکن ایک طبقہ (شاید باہمی گروپ بندیوں کی وجہ سے) ایسا بھی تھا جس نے رقابت میں مسجد کی تعمیر کو متنازع بنانے کی کوشش کی، کیا یہ کمیونٹی کے جمع ہونے کی جگہ ہوگی، کلچرل سنٹر ہوگی یا پھر محض مسجد ہوگی؟ وغیرہ جیسے سوالات پہلے دن سے اس کی وجہ نزاع بنے رہے، اخبار ’’البیان‘‘ میں اس کی تفصیلات موجود ہیں، ان کی مخالفت کرنے میں جہاں اور وجوہات تھیں وہاں ایک صاحب محمود ناصر نے حضرت مفتی صاحبؓ پر بھی نئے نبی اور نئے دین کے پیروکارکا الزام لگا کر متنازع بنانے کی کوشش کی جس کا جواب دیتے ہوئے ایک عرب دوست عقل علی المقدسی نے لکھا:

ترجمہ: ’’…ہمارا یہ مقصد نہیں کہ ہم محمود ناصر صاحب کے بیانات کو ردّ کریں سوائے ایک بات کے اور وہ اس لیے کہ انہوں نے ایک ایسے معاملہ میں ہمارا ذکر کیا ہے جس میں ایک ایسے آدمی کی تحقیر کی ہے جو اسلام کا ایک عالم فقیہ ہے، دین اسلام کا دفاع کرتا ہے اور ایسی علمی قوت اور جرأت کے ساتھ اسلام کا دفاع کرتا ہے کہ ہم مسلمانوں کی شہرت کو امریکیوں میں ایک خوشبو کی طرح بنا دیا ہے۔ میں خیال نہیں کرتا کہ کوئی بھی انسان جو ذرہ بھر بھی دینی شعور اور اسلامی غیرت رکھتا ہو (ہماری) اس بات کی تصدیق نہ کرے ….. اگر بعض لوگ ہمیں حضرت مفتی محمد صادق الھندی کے بارے میں گواہی پیش کرنے کو نہ کہتے تو ہم بھی اس موضوع پر لکھنے کی سر دردی نہ اٹھاتے ….

پس ہمیں مفتی صاحب کی قدر اور شان میں ہتک آمیز باتوں کی وجہ سے سخت افسوس ہوا ہے اور ہمیں نہایت تعجب ہوتا ہے کہ ہم کس طرح اُن (مفتی صاحب) کے دفاع اسلام کا انکار کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ تو عیسائی گرجوں میں بھی بلا خوف و خطر (دفاع اسلام کرتے ہیں) اور ہم اہالیان بیت المقدس کو صرف ڈیٹرائٹ کے زعماء نے مفتی صاحب سے تعارف کرایا جو اُن کو دعوت دیتے تھے اور ان کی عزت کرتے تھےاور انہیں اپنے بہترین قسم کے ولیموں میں فخر کے ساتھ بلاتے تھے۔ پس ہمیں نہایت تعجب ہے کہ کس طرح سب کچھ الٹا ہوگیاکہ اب کچھ لوگ اخباروں میں ان کی شان میں ہتک کرنا چاہتے ہیں…..‘‘

(اخبار ’’البیان‘‘9؍جولائی 1921ء صفحہ 5،4)

اسی طرح ایک اور صاحب احمد بدر نے بھی ان رقیبوں کے بے جا الزامات کا جواب دیتے ہوئے اپنے مضمون میں لکھا:

’’….. ثم من الامور التی تسیء کل مسلم غیور امر ادخال العالم الفاضل المفتی محمد صادق بھذا الموضوع و اتہمامہ بجمع المال باسم الخروب و الجامع۔ فالذی نعرفہ ان ھذا الفاضل لم یتعاط امرًا ممن ھذا القبیل بل ھو یتابع الجھاد مدافعًا عن الدین الاسلامی فی المنتدیات و الکنائس و الصحف …… نعم ان وضع کل کلمۃ تمس باحساسات حضرۃ المفتی محمد صادق تجرح قلب کل مسلم و ھی لیست اھانۃ لہٗ فقط بل لکل المسلمین …..‘‘

(اخبار البیان 16؍جولائی 1921ء صفحہ 5)

یعنی وہ باتیں جو کہ ایک غیرت مند مسلمان کو تکلیف دیتی ہیں ، اُن میں سے ایک بات عالم فاضل جناب مفتی محمد صادق صاحب کو اس معاملے میں ملوث کرنا ہےاوراُن پر خروب صاحب اور مسجد کے نام پر چندہ جمع کرنے کا اتہام لگانا ہے۔ پس جو بات ہم جانتے ہیں وہ یہی ہے کہ اس فاضل (حضرت مفتی صاحبؓ۔ ناقل) نے ایسی جماعت میں کبھی حصہ نہیں لیا بلکہ وہ تومسلسل مجالس، گرجا گھروں اور اخبارات میں دین اسلام کا دفاع کرنے کے جہاد میں مصروف ہیں ….. پس حضرت مفتی محمد صادق کے احساسات کو پہنچنے والی ہر گھڑی ہوئی بات ہر مسلمان کے دل کو بھی مجروح کرتی ہے اور یہ صرف اُن (حضرت مفتی صاحبؓ۔ ناقل) کی توہین نہیں ہے بلکہ سب مسلمانوں کی توہین ہے۔

بہرحال نئی مسجد کی تعمیر ہو چکی تھی اور حضرت مفتی صاحؓب بھی یہیں Highland Park میں ہی شفٹ ہوگئے ۔ جولائی 1921ء میں اسی شہر سے آپؓ نے اپنے تاریخی رسالہ The Moslem Sunriseکا آغاز کیا۔

اخبار دی ڈیٹرائٹ فری پریس نے See Highland Park As Islamic Centerکے تحت اس نئے مرکز کی خبر دی۔ یہیں موونگ پکچر (Moving Picture) والوں نے آپ کی تصویر لے کر بائسکوپ (Biscope) میں دکھائی کہ یہ امریکہ میں پہلے مسلم مشنری ہیں، یہ فلم آپؓ نے دہلی کے مخلص احمدی حضرت بابو اعجاز حسین صاحب کو بھی بھجوائی تاکہ وہ دہلی میں اپنے بائسکوپوں میں دکھلائیں۔ (الفضل 10؍اکتوبر 1921ء) یہیں سے آپ نے قریبی امریکی ریاستوں Ohio, Indiana اور خود Michigan کے کئی شہروں کا کامیاب دورہ کیا اور لیکچرز اور اخبارات کے ذریعے اسلام کا پیغام پہنچانے کی توفیق پائی۔ بذریعہ خطوط روابط بڑھانا اور جماعتی لٹریچر بھیجنا حضرت مفتی صاحؓب کی تبلیغ کا ایک خاص طریق تھاجو آپ کی ساری زندگی میں ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے چنانچہ ڈیٹرائٹ قیام کے دوران بھی آپؓ نے یہ طریق باحسن سر انجام دیا اور امریکن صدر Warren G. Harding، برطانوی وزیر اعظم David Lloyd George، چیکو سلوواکین صدر Tomáš Garrigue Masaryk سمیت کئی اہم شخصیات کو اسلام احمدیت کا پیغام پہنچایا، ڈیٹرائٹ میں قائم مشہور آٹو موبائل کمپنی Ford کے بانی Henry Ford اور مشہور امریکی سائنسدان Thomas Edisonکو بھی خط لکھے۔ غرضیکہ اس نئے اسلامی مشن نے پورے امریکہ میں شہرت پائی، امریکی ریاست ساؤتھ ڈکوٹا سے چھپنے والے ایک اخبار نے سوالات و جوابات کے کالم میں لکھا:

“Q. Is there a Mohammedan church in the United States? R. C.

A. A Moslem Mosque has been built in Highland Park, Michigan. The first magazine for Islam, the “Moslem Sunrise”, is published there, and the first Moslem Missioner to America, Mufti Muhammad Sadiq has his headquarters there.”

(The Daily Argus-Leader, Sioux Falls, South Dakota, April 5, 1922 page 12)

فروری 1922ء میں آپ سخت بیمار ہوگئے یہاں تک کہ اپنی وصیت بھی اخبار الفضل میں چھپوا دی۔ (الفضل 27؍مارچ 1922ء) اللہ تعالیٰ کے فضل سے شفا پائی لیکن آنکھوں کے ککروں کی تکلیف ابھی باقی تھی جس کے لیے آپ نے ریاست مشی گن کے ایک چھوٹے شہر Niles میں مقیم دنیا کے معروف آئی سپیشلسٹ Dr. Frederick N. Bonineسے آنکھوں کا علاج کرایا۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حضرت مفتی صاحؓب کی امریکہ آمد کے فوراً بعد ہی قادیان کے دو تعلیم یافتہ احمدی نوجوان بھی اپنے طور پر امریکہ پہنچ گئے تھے جن میں ایک حضرت سید عبدالرحمٰن صاحب ابن حضرت سید عزیز الرحمٰن صاحؓب آف بریلی تھے (جو 1920ء میں ہی امریکہ پہنچے) اور دوسرے محترم ڈاکٹر محمد یوسف خان صاحب ابن حضرت ڈاکٹر یعقوب خان صاحؓب آف جہلم تھے (جو 1921ء میں امریکہ پہنچے) یہ دونوں بھی ریاست مشی گن میں ہی مقیم تھے اور دونوں اپنی تعلیم کے ساتھ حضرت مفتی صاحؓب کی حتی المقدور معاونت بھی کرتے تھے خصوصاً محترم ڈاکٹر محمد یوسف خان صاحب نے تبلیغی کاموں میں بہت تعاون کیا، حضرت مفتی صاحبؓ کی علالت کے ایام میں ان کی ارسال کردہ رپورٹ بھی اخبار الفضل میں شائع شدہ ہے۔ (الفضل 4؍مئی 1922ء) محترم صوفی مطیع الرحمٰن بنگالی صاحب کی بطور مبلغ امریکہ آمد سے قبل ان کو وقتی طور پر بطورآنریری مشنری انچارج خدمت کی توفیق بھی ملی۔ حضرت سید صاحب بعد ازاں مستقل طور پر Cleveland, Ohio میں مقیم ہوگئے تھے اور 26؍جولائی 1978ء کو وفات پاکر بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن ہوئے جبکہ محترم ڈاکٹر صاحب نے 19؍جنوری 1979ء کو ڈیٹرائٹ میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔

حضرت مفتی صاحبؓ کو ڈیٹرائٹ آئے قریباً گیارہ مہینے ہو چکے تھے ۔ Highland Parkکے مسلمانوں کی اکثریت فورڈ کمپنی میں ملازمت کی وجہ سے ڈیٹرائٹ سے ملحقہ ایک اور شہر Dearborn میں واقع فورڈ انڈسٹری کے قریب جا بسی تھی۔ خروب صاحب کی تعمیر کردہ مسجد کی رونق اب پہلے جیسی نہیں رہی تھی اور وہ اپنی کمیونٹی سے مسجد کے اخراجات کے حوالے سے عدم تعاون کا شکار تھے، بعض لوگ اپنے کاروبار کا حرج کر کے مسجد میں آنے کے لیے تیار نہ تھے۔ ایک وجہ حضرت مفتی صاحؓب کی احمدیہ مسلم جماعت سے وابستگی بھی ذکر کی گئی ہے بہرحال یہ بھی حقیقت ہے کہ مسجد کی تھوڑی بہت آبادی حضرت مفتی صاحؓب کی کوششوں سے قائم تھی۔ایسے عدم تعاون کے ماحول سے مایوس ہوکر خروب صاحب کو مسجد کی عمارت فروخت کرنے کے خیالات سوجھنے لگے۔ ایسی غیر یقینی صورت حال میں آپؓ کے لیے کام کرنا مشکل تھا چنانچہ آپؓ نےمئی 1922ء میں ڈیٹرائٹ کو خیر باد کہہ کے دوبارہ شکاگو میں مشن قائم کیا ۔ یہ خبر پورے امریکہ میں پھیل گئی اور امریکی اخبارات نے Faith of Islam Withers in Detroit Atmosphere، Moslem Mosque To Be Thing of Past، اور Mosque To Be Razedوغیرہ جیسی سرخیوں سے خبریں لگائیں۔ (بعض مسلمانوں نے مالی تعاون کا وعدہ کرتے ہوئے خروب صاحب سے مسجد کی عمارت نہ بیچنے کی درخواست کی لیکن اس میں بھی کوئی خاطر خواہ عمل نہ ہوا اور بالآخر 1924ء میں یہ عمارت سٹی کو فروخت کر دی گئی۔ دی ڈیٹرائٹ فری پریس (20؍اپریل 1924ء صفحہ 52) مشہور عیسائی سکالر Samuel Marinus Zwemerنے اپنے رسالہ میں اس خبر کے متعلق نوٹ دیتے ہوئے لکھا:

“…… The mufti took leave of his group of followers here, and left for Chicago to continue his missionary work. With his departure, the attendance at the mosque services fell off until none came to the mosque on Holy Days ……”

(The Moslem World Vol. XIII,1923 page 83.https://babel.hathitrust.org/cgi/pt?id=mdp.39015020088327&view=1up&seq=93 )

یعنی حضرت مفتی صاحبؓ کے رخصت ہوجانے سے مسجد کی حاضری بالکل ہی گر گئی۔

حضرت مفتی صاحبؓ نے اپنے ڈیٹرائٹ چھوڑنے کی خود کوئی وجہ بیان نہیں کی ہے۔بہرحال ڈیٹرائٹ میں ابھی بھی حضرت مفتی صاحبؓ کے مخلص دوست موجود تھے جنہوں نے آپؓ کو ڈیٹرائٹ میں مستقل رہائش اور سنٹر کی پیشکش کی لیکن آپؓ نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے شکاگو میں ہی مشن چلانے کا ارادہ بتایا۔

(Review of Religions September 1922 page 350)

بعد ازاں بھی امریکہ کی مختلف ریاستوں میں بسنے والے کئی عرب اور ترک مسلمان دوستوں نے آپ سے مخلصانہ مراسم قائم رکھے اور اپنے ہاں بلا کر اسلام پر لیکچر کروائے۔ کچھ اخباروں نے یہ تأثر دینے کی کوشش کی کہ حضرت مفتی صاحبؓ کی ساری تبلیغی کارروائیاں خروب صاحب اور دیگر عرب ساتھیوں کی مالی معاونت کی مرہون منت تھیں لیکن آپؓ نے شکاگو پہنچتے ہی 4448 Wabash Avenueپر جگہ خریدی اور مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر کا کام شروع کروا دیا، الحمد للہ رسالہ دی مسلم سن رائز کا پرچہ بلا تاخیر جولائی 1922ء میں اسی ایڈریس سے شائع ہوا اور اگلے ہی ماہ یعنی اگست 1922ء میں مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر بھی مکمل ہوگئی۔ (الفضل 18؍ستمبر 1922ء) اور دنیا پر کھل گیا کہ احمدیہ مسلم جماعت کا مشن کسی فرد یا ملک کی مالی معاونت کا مرہون منت نہیں بلکہ خلافت کے زیر سایہ چلنے والے نظام کی برکتوں کا نتیجہ ہے اور انہی الٰہی برکات کا تسلسل ہے کہ شکاگو کی اسی زمین پر آج بھی جدید تعمیر شدہ مسجد موجود ہے اور احمدیہ مسلم مشن کے تحت تبلیغ اسلام کا کام جاری ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button