حضرت مصلح موعود ؓ

تربیتِ اولاد کے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو (قسط چہارم۔ آخری)

از: سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانیؓ

(گذشتہ سے پیوستہ) پس سوچو کہ اس عورت کے بھائی، باپ اور خاوند کیوں میدانِ جنگ میں گئے اس لئے کہ اس کا خاوند جانتا تھا کہ اگر مَیں مارا گیا تو میری بیوی کو میری وفات کا کوئی صدمہ نہ ہو گا۔ اس کے بھائی یہ سمجھتے تھے کہ ہماری بہن ہماری شکست پر زندہ درگور ہو گی۔ مگرتمہارے بچوں کے دل کیوں ڈرتے ہیں؟ اس لئے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ ہماری ماں جاتے وقت روتی ہے۔ اس طرح وہ بُزدل ہو جاتے ہیں۔

پس تم اسلام کی ایک عظیم الشان خدمت کر سکتی ہو اگر تم اپنے بیٹوں کو ابوبکرؓ یا عمرؓ بنا دو گی۔ اور یقیناً جو مقام تمہارے بیٹے کو ملے گا وہی تمہیں ملے گا۔

اس کے بعد مَیں تحریکِ جدید کی طرف عورتوں کو خاص طور پر توجہ دلاتا ہوں۔ اس میں جو بات عورتوں کے ساتھ خاص طور پر تعلق رکھتی ہے وہ سادہ زندگی ہے۔ یعنی لباس، زیور اور کھانے پینے میں سادگی۔ اس وقت ہندوستانیوں کی حالت نہایت گری ہوئی ہے۔ سارے ملکوں کی دولت یورپ میں جا رہی ہے۔ مسلمان بھی نہایت ذلّت کی حالت میں ہیں۔ ایک ہندوستانی کی ایک ادنیٰ سے ادنیٰ انگریز کے سامنے کوئی ہستی ہی نہیں۔ ایک انگریز چوہڑا ہی اگر ہندوستان میں آ جائے تو وہ عزت والا ہوتا ہے مگر ہندوستانی کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ یہ اس لئے کہ انگریز حاکم ہے اور ہندوستانی محکوم۔ اِسی وجہ سے ہمارا ملک روز بروز کمزور ہو رہا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے لوگ بھی اپنی حالت کو آپ خراب کر رہے ہیں۔ وہ اپنے زیور اور مال و دولت سے ہی اپنے ملک کو کمزور کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ زمیندار لوگوں میں بے شک سادگی ہے مگر وہ اپنے بیاہوں شادیوں پر ضرورت سے زیادہ خرچ کرتے ہیں اور ساری عمر اس کے سُود سے نجات نہیں پاسکتے۔ ہمارے سامنے اس قسم کی زندہ مثال فیروز پور کے ایک شخص کی ہے جس نے شروع میں پچاس روپے قرض لئے مگر ا س قرضہ کے سُود در سُود کے نتیجہ میں وہ لاکھوں کا مقروض ہو گیا۔ اسی طرح شہری لوگ بھی حد سے زیادہ اسراف کرتے ہیں۔ مَیں نے کئی مرتبہ جماعت کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے اور آج پھر تمہاری توجہ اس طرف مبذول کرتا ہوں کہ بجائے قرضہ اٹھانے کے تم کیوں نہیں یہ کرتیں کہ پہلے بچا لیا کرو تا تمہیں قرضہ لینے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔تم کہہ سکتی ہو کہ ہمارے پاس بچانے کیلئے کچھ نہیں لیکن کیا جب تمہارے پاس کھانا کھانے کو چند پیسے نہیں ہوتے تو تم فاقہ کرتی ہو۔ نہیں بلکہ قرضہ لیتی ہو اور کھانے کا سامان کرتی ہو۔ مَیں تمہیں کہتا ہوں کہ تم فاقے کرو تا آئندہ تمہاری اولادیں تمہارے لئے دعاکریں۔ ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور جمع کر سکتا ہے۔ اگر تم بھی کچھ نہ کچھ پس انداز کرتی جاؤ گی تو تمہارا خاوند بنیے کے پاس نہیں جائے گا۔ آخر خود ہی سوچو کہ تم کس لئے اپنی اولادوں کو مقروض بناتی ہو چار پانچ روپے کیلئے؟ اور اس معمولی سی رقم کی وجہ سے تمہاری اولادیں اپنی ساری عمر غلامی میں بسر کرتی ہیںاور کہتی رہتی ہیں کہ خدا رحم کرے ہمارے دادا پر کہ اس نے دس ہزار روپیہ ہمارے سر چڑھا دیا اور ساری عمر کیلئے بنیےکا غلام بنا دیا۔ اگر ان کی مائیں تھوڑا تھوڑا بھی جمع کرتی رہتیں اور اپنے نفس کو قابو میں رکھتیں اور قرضہ نہ لیتیں تو غلامی سے نجات ہو جاتی۔

کفایت شعاری کسی قوم کے افراد کا پہلا اور اہم فرض ہے۔ اور کفایت شعاری ہی وہ اصل ہے جس پر عمل کر کے کوئی قوم ترقی کر سکتی ہے۔ تم اپنے خاوندوں کو اسراف سے روکو اور اپنے بچوں کو غلامی سے بچاؤ۔ پس کچھ نہ کچھ پس انداز کرتے رہنا چاہئے اور کھانے اور پینے میں سادگی اختیار کرنی چاہئے۔

ایک کھانا کھانے سے ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ امیر اور غریب آپس میں مل بیٹھیں گے اور امارت و غربت کا امتیاز مٹ جائے گا۔ دوسرا اس کا یہ فائدہ ہے کہ ایک کھانا کھانے سے انسان کی صحت اچھی رہتی ہے۔ زیادہ کھانا کھانے سے ایک یہ نقصان ہوتا ہے کہ معدے کمزور ہو جاتے ہیں۔ پیچش اور کَسل کی شکایت رہتی ہے۔ ایسے لوگ نہ تو نماز پڑھ سکتے ہیں نہ روزہ رکھ سکتے ہیں۔ کھانوں کے شوقین نمازوں میں بھی مرغن کباب اور متنجن کے خواب ہی دیکھتے رہتے ہیں۔ مگر اس کے مقابلہ میں سادہ زندگی میں ایسی لذت ہے کہ عبادتوں میں بھی ایک لذت محسوس ہوتی ہے۔

ایک صوفی صاحب سے جب پوچھا گیا کہ خدا کس طرح مل سکتا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ کم کھانے، کم سونے اور کم بولنے سے۔ یہ تین چیزیں خدا سے ملاتی ہیں۔ پس تحریکِ جدید جو ہے وہ کم خوردن پر زور دیتی ہے۔ سادہ زندگی اختیار کرنے سے تم شوربہ پکاؤ گی تو تم آسانی سے دو اور غریبوں کو اپنے ساتھ کھانا کھلا سکو گی۔ اس طرح تمہارا دل بھی خوش ہو جائے گا اور غریب کا دل خوش کرنے سے تو خدا تعالیٰ بھی خوش ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر تم کھانوں میں کمی کرو گی تو تمہاری دعوتیں وسیع ہو جائیں گی اور روپیہ بھی کم خرچ ہو گا۔ جو روپیہ بچے گا تم اپنے بچوں کی تعلیم پر خرچ کر سکو گی اور تم چندے بھی دے سکو گی اور دوسرے دینی مشاغل میں بھی وہ بچایا ہوا روپیہ صرف کر سکو گی۔ اگر امیر عورتیں ایسی عادت ڈالیں تو وہ اپنے خاوندوں کو بھی سُدھار سکتی ہیں۔ اور مَیں نے کئی ایسی مثالیں دیکھی ہیں جہاں عورتوں نے مَردوں کو سُدھارا۔ اور انہوں نے اپنے خاوندوں کو بھی مخلص بنا دیا۔ وہ چونکہ خود سادہ زندگی بسر کرتی تھیں اس لئے انہوں نے اپنے خاوندوں کو بھی ایسا بنا دیا۔

پس تحریک جدید میں عورتوں کا بہت بڑا دخل ہے۔ تم اقتصادی طور پر اپنے خاوندوں کی مدد کرو۔ سادہ خوراک اور سادہ کھانے کی عادت ڈالو۔ جو عورت زیور سے خوش ہو جاتی ہے وہ بڑے کام نہیں کر سکتی۔ پس سادہ کھانا کھاؤ، سادہ کپڑے پہنو اور مساوات قائم کرو ورنہ خداتعالیٰ خود تمہارے اندر مساوات قائم کر دے گا۔ آج کل خداتعالیٰ ایک نئی بادشاہت قائم کرنا چاہتا ہے۔ نئی بادشاہت میں امیر غریب ہو جائیں گے اور غریب امیر۔ جو مصیبت امیر اپنے اوپر عائد کریں گے اس کا کوئی دوسرا ذمہ وار نہ ہو گا بلکہ وہی خودذمہ دار ہوں گے۔ اگر تم دنیا میں سُکھ حاصل کرنا چاہتی ہو اور خدا کو بھی خوش کرنا چاہتی ہو تو اپنے مالوں میں سے غریبوں کو بھی حصہ دو۔ اگرتم ایسا نہیںکرو گی تو وہ دن نزدیک ہیں کہ خدا خود اس کا انتظام کرے۔ تم ان دنوں کا انتظار مت کرو بلکہ خود ہی ثواب اٹھاؤ۔ مَیں امید کرتا ہوں کہ تم اپنی اولادوں کی تربیت کی طرف خاص توجہ کرو گی اور دنیا کیلئے اپنے آپ کو ایک نمونہ بناؤ گی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button