سیرت النبی ﷺ

آنحضرتﷺ کے رؤیا و کشوف اور پیشگوئیاں

(چوہدری ناز احمد ناصر۔ لندن)

سیدالانبیاء حضرت محمدﷺ کو ’’بشیر و نذیر‘‘ کے القابات سے نوازا گیا ہے۔ آپﷺ کو قرآن شریف میں بیان فرمودہ بشارات اورانذار کی تفاصیل رؤیا و کشوف کے ذریعے عطا فرمائی گئیں اوراُمتِ مرحومہ میں قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی خبریں عطا کی گئیں۔

ایک دفعہ نماز کسوف کے دوران ہونے والے کشفی نظارہ کے بارہ میں آپﷺ نے فرمایا:

’’مجھے بھی اس جگہ آئندہ کے وہ تمام نظارے کروائے گئے جن کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے، یہاں تک کہ جنت و دوزخ کی کیفیات بھی دکھائی گئیں۔ ‘‘

اس واضح اور جلی کشف میں بعض نعمائے جنت اپنے سامنے دیکھ کر آپﷺ انہیں لینے کےلیے آگے بڑھے اور جہنم کی شدت و تمازت کا نظارہ کر کے پیچھے ہٹے۔

(بخاری کتاب النکاح باب الابکار: 4688)

خواب انسان کی باطنی کیفیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ نبی کریمﷺ کی سیرت میں رؤیا اور کشوف کا جائزہ لینے سے بعض امورہمارے سامنے آتے ہیں۔

٭…رؤیا و کشوف کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا آپﷺ سے ہم کلام ہونا آپؐ کے عظیم تعلق با للہ پر دلالت کرتا ہے۔

٭…جن رؤیا و کشوف کا تعلق آئندہ زمانے سے ہے، ان کا ہو بہو پوراہو جانا آپﷺ کے صدق پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔

٭…آپ کے رؤیا و کشوف کا پورا ہوناجماعت مومنین کے ایمان و ایقان کو تقویت دینے کا باعث ہوتا ہے۔

اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے متعلق فرماتا ہے:

عٰلِمُ الۡغَیۡبِ فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا (سورۃ الجن: 27)

یعنی وہ غیب کا جاننے والا ہے پس وہ کسی کو اپنے غیب پر غلبہ عطا نہیں کرتا۔

مگراس کے ساتھ ہی اگلی آیت میں فرمایا کہ

اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ (سورۃ الجن: 28)

بجز اپنے برگزیدہ رسول کے انبیاء وہ مبارک وجود ہوتے ہیںجن کو خدا تعالیٰ کثرت کے ساتھ غیب کی خبریں عنایت فرماتا ہے۔

اس اظہار غیب کا ذریعہ وحی و الہام اور رؤیا و کشوف ہی ہیں۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا:

وَ مَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ یُّکَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحۡیًا اَوۡ مِنۡ وَّرَآیِ حِجَابٍ اَوۡ یُرۡسِلَ رَسُوۡلًا فَیُوۡحِیَ بِاِذۡنِہٖ مَا یَشَآءُ ؕ اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَکِیۡمٌ (الشوریٰ:52)

یعنی اور کسی آدمی کی یہ حیثیت نہیں کہ اللہ اس سے وحی کے سوا یا پردے کے پیچھے بولنے کے سوا کسی اور صورت سے کلام کرے یا ( اس کی طرف فرشتوں میں سے) رسول (بنا کر ) بھیجے جو اس کے حکم سے جو کچھ وہ کہے بات پہنچا دیں، وہ بڑی شان والا (اور) حکمتو ں کا واقف ہے۔

رؤیا و کشوف کے بارے میں قرآن شریف سے یہ اصول بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض انبیاء کی زندگی میں پورے ہو جاتے ہیں اور بعض وفات کے بعد۔ اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے:

وَ اِنۡ مَّا نُرِیَنَّکَ بَعۡضَ الَّذِیۡ نَعِدُہُمۡ اَوۡ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِنَّمَا عَلَیۡکَ الۡبَلٰغُ وَ عَلَیۡنَا الۡحِسَابُ (الرعد:41)

یعنی اور جس (عذاب کے بھیجنے) کا ہم ان سے وعدہ کرتے ہیںاگر ہم اس کا کوئی حصہ تیرے سامنے بھیج کر تجھے دکھا دیں (تو تُوبھی ان کا انجام دیکھ لے گا)اور اگر (اس گھڑی سے پہلے) تجھے وفات دے دیں (تو تجھے ما بعد الموت اس کی حقیقت معلوم ہو جائے گی کیونکہ)تیرے ذمہ (ہمارے حکم اور پیغام کا)صرف پہنچا دینا ہے اور ان کا حساب لینا ہمارے ذمہ ہے۔

نبی کریمﷺ کے ان رؤیا و کشوف کی مختلف انواع و کیفیات اور واقعات میں سے چندکا ذکر بطور نمونہ ذیل میں کیا جائےگا۔ ان مختلف رؤیا و کشوف کو مختلف ذیلی عناوین میں تقسیم کیا گیا ہے۔

ظاہری رنگ میں پوری ہونے والی رؤیا

٭…حضرت عائشہؓ سے شادی

آنحضرتﷺ کو حضرت عائشہ ؓ کے ساتھ شادی سے قبل تصویر دکھا کر بتایا گیاکہ یہ آپﷺ کی بیوی ہے۔ ظاہری حالات میں ایسا ہونا بظاہر ممکن نہ تھا۔ کیونکہ آپ دونوں کی عمروں میں چالیس سال سے زیادہ کا فرق تھا۔ اس پیشگی غیبی خبر پر کامل ایمان کے باوجود آنحضورﷺ نے کمال احتیاط سے اس کی تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ

’’ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس رؤیا کا ظاہری رنگ میں پورا ہونا ہی مراد ہے تو وہ خود اس کے سامان پیداکردے گا۔‘‘

بظاہر نا موافق حالات کے اللہ تعالیٰ نے اس رؤیاکوپورا فرمایا اور حضرت عائشہؓ کو رسول اللہﷺ کے عقد میںلاکر اُمّ ْلمومنین کا اعزاز ملا۔

(بخاری کتاب الجمعۃ باب اذا فتلت الدابۃ فی الصلٰوۃ: 1134)

٭… مکی دَور میں فتح بدر کی پیشگوئی

نبی کریمﷺ مکہ میں ہی تھے اور مسلمان انتہائی کمزور، مظلوم و مقہور تھے۔ چنانچہ ایک طرف آنحضرتﷺ مسلمانوں کو پہلی قوموں کی قربانیوں کی مثالیں دے دے کر صبر کی تلقین فرماتے تھے، جب کہ دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے تازہ نشان بھی مسلمانوں کے لیے انشراح صدر اور مضبوطیٔ ایمان کا موجب ہوتے تھے، مثلاً معجزہ شقِ قمر وغیرہ۔ چاند عربوں میں حکومت کا نشان سمجھا جاتاتھا، اس کے دو ٹکڑے کر کے دکھانے میں یہ بلیغ اشارہ بھی تھا کہ قریش کی حکومت ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے گی اور ان کی وحدت ملی پارہ پارہ ہو کر رہے گی۔ سورۃ قمر،جس میںواقعہ شقِ قمر کے بارے میں ذکر ہے، اسی میں مسلمانوں کے مقابل پرکفار کے ایک بڑے گروہ کی پسپائی کا ذکر ہے، جیسے فرمایا:

سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الْدُّبُرَ(القمر: 46)

یعنی (اس روز قریش کی) جمعیت پسپا ہو گی اور یہ (اور ان کے لشکر) پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوں گے۔ کمزوری کے اس زمانے میں دشمن اس پیشگوئی کو دیوانے کی ایک بڑ کہہ سکتے تھے اور اسی لیے آپﷺ پر ساحر و مجنون کا الزام لگاتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے جس شان سے ان وعدوں کو پورا فرمایا، اس پر اہلِ مکہ بھی انگشت بدنداں ہو کر رہ گئے۔

چنانچہ بدر کے موقع پر اس پیشگی وعدہ اورفتح کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا:

وَ اِذْ یَعِدُکُمُ اللّٰہُ اِحْدَی الطَّآ ئِفَتَیْنِ اَنَّھَا لَکُم( الانفال: 8)

یعنی اور (اس وقت کو یاد کرو) جب کہ اللہ تم سے دو گروہوں میں سے ایک کا وعدہ کرتا تھا کہ وہ تم کودیا جائے گا۔ پھر بھی جب میدانِ جنگ (بدر) میں رسول اللہﷺ نے دیکھا کہ قریش کے تجارتی قافلہ کی بجائے ایک مسلح لشکر جرار ہے جو کمزور نہتے مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کے درپے ہے، تو طبعاً فکر دامنگیر ہوئی۔ خدا تعالیٰ کی شان غنا سے ڈرتے ہوئے اور اپنی کمزوری پر نظر کرتے ہوئے رسول اللہﷺ نے دعاؤں کی کثرت کردی۔ آپﷺ بدرکے دن اللہ تعالیٰ کو اس کے وعدوں کا واسطہ دے دے کراتنے الحاح سے دعا کر رہے تھے کہ چادر کندھوں سے گر جاتی تھی۔ آپﷺ اپنے مولیٰ سے عرض کر رہے تھے:

’’ اے اللہ! تیرے عہدوں اور وعدوں کا واسطہ (تُو ہمیں کامیاب کر)، اے اللہ! اگر آج تو نے مسلمانوں کی اس جماعت کو ہلاک کر دیا تو کون تیری عبادت کرے گا۔ ‘‘

حضرت ابوبکر صدیق ؓنے آپﷺ کا ہاتھ پکڑکر عرض کیا:

’’یا رسول اللہﷺ! اب بس کریں۔‘‘ تب نبی کریم ﷺ وہاں سے اٹھے۔ آپﷺ یہ آیت تلاوت فرما رہے تھے:

سَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَ یُوَلُّوْنَ الدُّبُر (القمر: 46)

یعنی ان کی جماعت کو عنقریب شکست دی جائے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے۔ آپﷺ اس وقت مسلمانوں کو خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ یاد کر کے تسلی دلا رہے تھے۔ چنانچہ بظاہر نا مساعد حالات میں اللہ تعالیٰ نے بدر کے میدان میں مسلمانوں کو حیرت انگیز فتح عطا فرمائی اور رسول اللہﷺ کی کنکریوں کی ایک مٹھی آندھی و طوفان بن کر کفار کو پسپاکرنے کا موجب بن گئی۔

(بخاری کتاب الجہاد باب ما قبل فی درع النبیﷺ :2699)

٭…بدر کے میدان میں سرداران قریش کی ہلاکت کی پیشگوئی

نبی کریمﷺ کو بدر میں قریش کی ہلاکت کا کشفی نظارہ پہلے سے کروایا گیا تھا۔ اس بارہ میں حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ

’’ہم مکہ و مدینہ کے درمیان حضرت عمرؓ کے ساتھ شریک سفر تھے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے تھے کہ ’’معرکہ بدر سے ایک روز قبل رسول کریمﷺ نے ہمیں مشرک سرداروں کے ہلاک ہونے کی جگہوں کی نشان دہی کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہ فلاں شخص کے ہلاک ہونے کی جگہ ہے اور یہاں فلاں شخص ہلاک ہوگا‘‘۔ حضرت عمرؓ کہتے تھے کہ’’وہ لوگ وہیں گر گر کر ہلاک ہوئے جہاں رسولِ خداﷺ نے بتایا تھا‘‘۔ حضرت عمرؓ مزید کہتے تھے، میں نے عرض کیا :’’یا رسول اللہﷺ ! اس ذات کی قسم جس نے آپﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، آپﷺ نے ان کے گر گر کر ہلاک ہونے کی جو جگہیں بتائی تھیں ان میں ذرا بھی غلطی نہیں ہوئی۔ ‘‘

(مسلم کتاب الجنہ و صفۃ نعیمھا)

غزوۂ بدرمیںقریش کے چوبیس (24) سردار ہلاک ہوئے۔ انہیں بدر کے ایک گڑھے میں ڈالا گیا۔ تیسرے دن بدر سے کوچ کے وقت رسول کریمﷺ اس گڑھے کے کنارے کھڑے ہو کر ان سرداروں کو ان کے باپوں کے نام لے لے کر پکارنے لگے۔ آپﷺ فرماتے تھے:

’’اے فلاں کے بیٹے ! کیا تمہیں یہ بات خوش کرتی ہے کہ تم نے اپنے رب کا وعدہ حق پایا ہے یا نہیں؟‘‘ حضرت عمرؓ نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! آپ (ﷺ )ان بے جان جسموں سے کلام کر رہے ہیں۔ ‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (ﷺ )کی جان ہے،جو باتیں میں کہہ رہا ہوں وہ ان کو تم سے زیادہ سمجھ رہے ہیں (یعنی ظلموں کی جزا پا کر)۔ ‘‘

(بخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جھل: 3679)

٭…مکی دَور میں ہجرت مدینہ اور مکہ واپسی کی قرآنی پیشگوئی

یہاں ہجرت مدینہ اور مکہ واپسی کے حوالہ سے قرآنی پیشگوئی کا ذکرکرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے۔چنانچہ قرآن کریم کی مکی سورۃ‘القصص ’کے شروع میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حالات اور سفر ہجرت کا ذکر ہے، آخر میں مثیلِ موسیٰؑ،نبی کریمﷺ کے مکہ سے ہجرت کرنے اور پھر مکہ لوٹ کر آنے کی پیشگوئی واضح الفاظ میں کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرآنَ لَرَآ دُّکَ اِلَیٰ مَعَادٍ (القصص: 86)

یعنی وہ خدا جس نے تجھ پر یہ قرآن فرض کیاہے اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتا ہے کہ وہ تجھے اس مقام (مکہ) کی طرف لوٹا کر لائے گا۔ یہ پیشگوئی جن حالات میں کی گئی، اس میں مکہ سے نکالے جانے کے بعد پھر واپس آنا بظاہر نا ممکن معلوم ہوتا تھا۔ فتح مکہ سے چند روز قبل تک بھی معلوم نہ تھا کہ رسول اللہﷺ اس شان سے مکہ میں داخل ہوں گے، مگر یہ پیشگوئی صرف آٹھ (8) سال کے مختصرعرصہ میں اس شان سے پوری ہوئی کہ دیکھنے والے ورطہ حیرت میں ڈوب گئے۔

٭…کسریٰ شاہ ایران کی ہلاکت کی پیشگوئی

رسول کریمﷺ نے کسریٰ شاہ ایران کو اسلام کی طرف دعوت دیتے ہوئے خط لکھا، شاہ ایران نے وہ خط پھاڑ دیا۔ رسول کریمﷺ کو جب اس بات کا علم ہوا تو آپﷺ کودلی تکلیف ہوئی اور آپﷺ کے دل سے اس کی حکومت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی دعا نکلی جس کے مطابق یہ جابر و ظالم بادشاہ بھی ہلاک ہوا۔ نبی کریمﷺ کے تبلیغی خط کو کسریٰ نے اپنی ہتک سمجھا اور یمن کے حاکم باذان کو بھجوایا کہ اس شخص کو جوحجازمیں ہے،دو مضبوط آدمی بھجواکرگرفتار کراؤ اوراُسے میرے پاس لائیں۔ باذان نے ایک افسر بابویہ نامی اور ایک ایرانی شخص کے ہاتھ اپنا خط آنحضرتﷺ کو ارسال کیا کہ آپﷺ ان دونوں اشخاص کے ساتھ شاہ ایرا ن کے پاس حاضر ہوں۔ بابویہ کو اس نے یہ بھی کہا کہ نبوت کے دعویدار سے جا کر خود بات کرو اور اس کے حالات سے مجھےمطلع کرو۔ یہ لوگ طائف پہنچے اور آنحضرتﷺ کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ تو مدینہ میں ہیں۔ طائف والے اس پر بہت خوش ہوئے کہ اب کسریٰ، شاہ ایران، آنحضرتﷺ کے پیچھے پڑ گیا ہے، وہ آپﷺ کے لیے کافی ہے۔ دونوں قاصد مدینہ پہنچے، بابویہ نے رسول اللہﷺ سے بات کی اور بتایا کہ کسریٰ شاہ ایران نے شاہ یمن کو حکم بھجوایا ہے کہ آپﷺ کو گرفتار کر کے اس کے پاس بھجوایا جائے۔ مجھے باذان نے بھیجا ہے کہ آپ(ﷺ) میرے ساتھ چلیں۔ اگر آپ(ﷺ) میرے ساتھ چلنے پر تیار ہوں تو میں کسریٰ کے نام ایسا خط لکھ دوں گا کہ وہ آپ(ﷺ) کو کوئی گزند نہ پہنچائے لیکن اگر آپ (ﷺ) میرے ساتھ چلنے سے انکاری ہیں تو آپ خود جانتے ہیں کہ اس میںآپ (ﷺ ) کی پوری قوم کی ہلاکت اور آپ (ﷺ ) کے ملک کی تباہی و بربادی ہے۔ آپﷺ نے ان دونوں سے فرمایا کہ ’’اس وقت تم دونوں جاؤ، صبح آنا۔ ‘‘ رسول اللہﷺ کو اسی رات اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی کہ شہنشاہ ایران کے بیٹے شیرویہ کو اس پر مسلط کر دیا گیا ہے،اس نے اپنے باپ کو فلاں مہینے کی فلاں تاریخ کو قتل کر دیا ہے۔

اگلی صبح جب وہ دونوں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپﷺ نے ان دونوں سے فرمایا کہ’’ میرے رب نے فلاں مہینے کی فلاں تاریخ رات کے وقت تمہارے رب کو ہلاک کر دیا ہے اور اس کے بیٹے شیرویہ کو اس پر مسلط کر کے اسے قتل کر دیا ہے۔ ‘‘ وہ دونوں کہنے لگے :’’ آپ کو پتہ ہے کہ آپ (ﷺ )کیا کہہ رہے ہیں؟ہم اس سے معمولی باتوں پر بڑی بڑی سزائیں دیا کرتے ہیں۔ کیا ہم آپ (ﷺ ) کی یہ بات شہنشاہ ایران کو لکھ دیں؟‘‘۔ آپﷺ نے بڑے جلال سے فرمایا: ’’ہاں! میری طرف سے اسے اطلاع کر دو اور جا کر یہ پیغام دے دو کہ میرا دین اور میرا غلبہ یقیناً تمہارے ملک پر بھی ہوگااور اس کو کہہ دینا کہ اگر تم اسلام قبول کر لو تو تمہارا یہ ملک تمہارے ماتحت کر دیا جائے گا اور تمہیں تمہاری قوم پر حاکم بنا دیا جائے گا۔ ‘‘

یہ دونوں جب حاکم یمن باذان کے پاس پہنچے تو اس نے کہا کہ ’’یہ کسی بادشاہ کا کلام نہیں ہے، یہ شخص تو نبی معلوم ہوتا ہے۔ جو کچھ اس نے کہا ہے ہم اس کا انتظار کرتے ہیں۔ اگر تو یہ سچ نکلا تو یقیناً یہ خدا کا بھیجا ہوانبی ہے اور اگر ایسا نہ ہواتو ہم اس کے بارہ میں اپنا فیصلہ کریں گے۔‘‘ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد باذان کو نئے شہنشاہ شیرویہ کا خط آیا جس میں اس نے لکھاتھا: ’’میں نے اپنے ملک ایران کے مفاد کی خاطر اپنے باپ کو قتل کر دیا ہے، کیونکہ وہ ایرانی سرداروں اور معززین کے قتل کا حکم دیتااور ان کو قید کرتاتھا۔ اب تم میرا یہ خط پہنچتے ہی عوام سے میری اطاعت کا عہد لو اور میرے باپ نے جو خط حجاز کے ایک شخص کی گرفتاری کا لکھا تھا، کالعدم سمجھو، یہاں تک کہ میرا دوسرا حکم تمہیں پہنچے۔ ‘‘ کسریٰ کے بیٹے کا خط پڑھتے ہی باذان کہنے لگا کہ’’ یہ شخص تو اللہ کا رسول ہے۔ ‘‘چنانچہ اس نے فوراً اسلام قبول کر لیا اور کئی ایرانی باشندے بھی جو یمن میں آباد تھے، مسلمان ہو گئے۔

( طبری، تاریخ الامم و الملوک جز 3صفحہ 248، دارالفکر بیروت )

٭…اسود عنسی کے قتل کی خبر

حضرت عمرو بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے رسول اللہﷺ کو رات کے وقت اسود عنسی (مدعی نبوت)کے قتل کی خبر دی۔ آپﷺ نے ہمیں علی الصبح اطلاع دی کہ آج رات اسود عنسی قتل ہو گیاہے۔ ایک مبارک آدمی نے اس کو قتل کیا ہے۔ پوچھا گیا کہ وہ کون ہے؟آپ نے فرمایا کہ ’’اس کا نام فیروز ابن فیروز ہے۔ ‘‘

(کنزالعمال: 47472)

تعبیر طلب رؤیاکا پورا ہونا

٭…جھوٹے مدعیانِ نبوت کے متعلق پیشگوئی

حجۃ الوداع کے بعد نبی کریمﷺ نے دو جھوٹے مدعیا ن نبوت کے بارے میں اپنی یہ رؤیا بیان فرمائی کہ

’’میں سویا ہوا تھا، خواب میں دیکھا کہ زمین کے خزانے مجھے دیے گئے ہیں۔ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں دو سونے کے کنگن دیکھے،میری طبیعت پر یہ بات گراں گزری اورسونے کے یہ کنگن میرے لیے باعث پریشانی ہوئے۔ تب مجھے وحی ہوئی کہ ان کو پھونک ماروں، میں نے پھونک ماری تو وہ اڑ گئے۔‘‘ میں نے اس رؤیاکی یہ تعبیر کی کہ دو جھوٹے نبوت کے دعوےدارہیں، جن کے درمیان میں مَیں ہوں، ایک تو صنعا ء کا باشندہ (اسود عنسی)، دوسرا یمامہ کا رہنے والا (مسیلمہ کذاب)۔

(بخاری کتاب تعبیر الرؤیا باب النفخ فی المنام: 6515)

یہ رؤیاحضورﷺ کی زندگی میں پوری ہوئی اور ان دونوں مدعیان نے رسول اللہﷺ کی زندگی میں ہی نبوت کے دعوے کیے،اسود عنسی آپﷺ کی زندگی میں اور مسیلمہ کذاب بعد میں ہلاک ہوا۔

٭…خلافتِ ابوبکرؓ و عمرؓ کے متعلق رؤیا

خدا تعالیٰ کے ہر مامور کی طرح نبی کریمﷺ کو بھی اپنے بعد اپنے مشن کے جاری اور قائم رہنے کی فکر لاحق تھی۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فکر اس رؤیا کے ذریعے دور کر دی جس میں ابوبکرؓ کے مختصر زمانۂ خلافت اور حضرت عمرؓ کے فتوحات سے بھرپور اور پرشوکت عہد کی طرف اشارہ تھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ

’’خواب میں مجھے دکھایا گیا کہ میں ایک کنویں پر کھڑا ڈول سے جو چرخی پر رکھا ہوا تھاپانی کھینچ کر نکال رہا ہوں۔ اتنے میں ابوبکرؓ آئے اور انہوں نے ایک یا دو ڈول کھینچ کر اس طور سے نکالے کہ ان کے کھینچنے میں کمزوری تھی اور اللہ تعالیٰ ان کی کمزوری پر پردہ پوشی کرے گا۔ پھر عمربن خطابؓ آئے اور وہ ڈول بڑا چر سا ہو گیا تو میں نے کوئی شہ زور نہیں دیکھا جو ایسا حیرت انگیز کام کرتا ہو جیسا عمرؓنے کیا۔ اتنا پانی نکالا کہ لوگ سیر ہو گئے اور اپنے اپنے ٹھکانوں پر جا بیٹھے۔ ‘‘

(بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب عمر بن خطاب…حدیث نمبر 3682)

چنانچہ یہ رؤیا بھی بڑی شان سے پوری ہوئی۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں قیصر و کسریٰ کی عظیم فتوحات کی بنیاد رکھ دی گئی۔

٭…فتح ایران اور سراقہ بن مالک کے بارے پیشگوئی

سفر ہجرت میں سو اُونٹوں کے انعام کے لالچ میں رسول اللہﷺ کا تعاقب کرنے والے سراقہ بن مالک کے حق میں بھی رسول اللہﷺ کی پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوئی۔ حضرت ابوبکر ؓ ہجرت نبوی کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ

’’ہمارا تعاقب کرنے والوں میں سے صرف سراقہ بن مالک ہی ہم تک پہنچ سکا، جو اپنے گھوڑے پر سوار تھا، میں نے عرض کیا :

’’یا رسول اللہﷺ !یہ ہمیں پکڑنے کے لیے آیا ہے۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’اے ابوبکر! غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ ‘‘ جب سراقہ ہمارے قریب ہوا تو رسول کریمﷺ نے دعا کی کہ ’’اے اللہ ! ہماری طرف سے تُوخود اس کے لیے کافی ہو۔ ‘‘ تب اچانک اس کے گھوڑے کے اگلے دو پاؤں زمین میں دھنس گئے۔ اس پر سراقہ کہنے لگا: ’’مجھے پتہ چل گیا ہے کہ یہ آپﷺ کی دعا کا نتیجہ ہے۔ اب آپﷺ دعا کریںکہ اللہ تعالیٰ مجھے نجات دے۔ خدا کی قسم اپنے پیچھے آنے والوں کو آپﷺ کے بارہ میں نہیں بتاؤں گا۔ یہ میرے تیر بطور نشانی لے لیں۔ فلاں جگہ پر جب میرے اونٹ اور بکریوں کے ریوڑ کے پاس سے آپﷺ گزریںگے تو اپنی ضرورت کے مطابق جو چیز چاہیں لے لیں۔ ‘‘حضورﷺ نے فرمایا: ’’مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ پھر آپﷺ نے اس کے لیے دعا کی اور اس کے گھوڑے کے پاؤں باہر نکل آئے۔ ‘‘

(مسند احمد، جلد 1صفحہ2مطبوعہ مصر)

سراقہ کی درخواست پر رسول کریمﷺ نے اسے ایک امان کی تحریر لکھوا کر دی اور جب وہ واپس جانے لگا تو آپﷺ نے اسے فرمایا: ’’اے سراقہ !اس وقت تمہارا کیا حال ہو گاجب کسریٰ کے کنگن تجھے پہنائے جائیں گے؟‘‘ سراقہ نے کہا: ’’کسریٰ بن ہرمز (شہنشاہ ایران)؟۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’ہاں کسریٰ بن ہرمز کے کنگن۔ ‘‘

اپنے جانی دشمنوں سے جان بچا کر ہجرت کرنے والے بظاہرایک کمزور انسان کی اس پیشگوئی کی گہرائی اور عظمت پر غور کریں جس میں سراقہ کو کسریٰ کے کنگن پہنائے جانے سے کہیں بڑھ کر ایران کے فتح ہونے کی پیشگوئی تھی اور کسریٰ کے خزانے مسلمانوں کے قبضہ میں آنے تھے، کس شا ن سے حضرت عمرؓ کے وقت میں یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔

سراقہ نے فتح مکہ کے بعد جُعرانہ میں اسلام قبول کیا۔ حضرت عمرؓ کے زمانۂ خلافت میں کسریٰ کے کنگن اور تاج وغیرہ حضرت عمرؓ کے دربار میں پیش ہوئے۔ حضرت عمرؓ نے سراقہ کو بلایااور فرمایا: ’’ہاتھ آگے کرو۔ ‘‘ پھر آپ ؓ نے اسے سونے کے کنگن پہنا دیے اور فرمایا: ’’اے سراقہ!کہو کہ تمام تعریفیں اس خدا کی ہیںجس نے ان کنگنوں کو کسریٰ سے چھین کر سراقہ کے ہاتھوں میں پہنا دیا، وہ کسریٰ جو یہ دعویٰ کرتا تھا کہ میں لوگوں کا رب ہوں۔ ‘‘

(السیرۃ الحلبیہ جلد2صفحہ45مطبوعہ بیروت)

٭…اسلامی بحری فتوحات کی پیشگوئی

آپﷺ کے ایک اورعظیم الشان کشف کا تعلق اسلامی بحری جنگوں سے ہے۔

مدنی زندگی کے اس دَور میں جب بّری سفروں اور جنگوں کے پورے سامان بھی مسلمانوں کو میسر نہیں تھے،نبی کریمﷺ کو مسلمانوں کی بحری جنگوں اور فتوحات کی خبر دی گئی۔

حضرت ام حرام ؓ بنت ملحان بیان کرتی ہیںکہ حضورﷺ ہمارے گھر میں محو استراحت تھے کہ عالم خواب سے اچانک مسکراتے ہوئے بیدارہوئے۔ میں نے سبب پوچھا تو فرمایاکہ ’’میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کیے گئے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے اس سمندر میں اس شان سے سفر کریں گے جیسے بادشاہ تخت پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ ‘‘ اُمّ حرام ؓ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ ! آپ (ﷺ )دعا کریں کہ اللہ مجھے بھی ان لوگوں میں سے بنا دے۔ ‘‘ رسول کریمﷺ نے یہ دعا کی کہ ’’اے اللہ! اسے بھی ان لوگوں میں شامل کردے۔ ‘‘ پھر آپؐ کو اونگھ آ گئی، جب آنکھ کھلی تو آپﷺ پھر مسکرا رہے تھے، میں نے مسکرانے کی وجہ پوچھی تو آپﷺ نے پہلے کی طرح امت کے ایک اور گروہ کا ذکر کیا جو خدا کی راہ میں جہاد کی خاطر نکلیں گے اور بادشاہوں کی طرح تخت پر بیٹھے سمندری سفر کریں گے۔ ام حرام نے پھر دعا کی درخواست کی کہ وہ اس گروہ میں بھی شامل ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’آپ گروہ اول میں شامل ہوں گی اور گروہ آخرین میں شریک نہیں ہوں گی۔ ‘‘ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ پھر حضرت ام حرامؓ فاختہ بنت قزعہ سمندری سفر میں شامل ہوئی اور اسی سفر سے واپسی پر سواری سے گر کر وفات پائی۔

(بخاری کتاب الجہاد باب الدعاء بالجھاد ذو الشھادہ للرجات والنساء: 2580)

اس پیشگوئی میں جزیرہ قبرص کے بحری سفر کی طرف اشارہ تھا۔ حضرت عثمان ؓکے زمانۂ خلافت میں حضرت معاویہ ؓ کوجب وہ شام کے گورنر تھے،پہلے عظیم اسلامی بحری بیڑے کی تیاری کی توفیق ملی۔ اس سے قبل مسلمانوں کو کوئی کشتی تک میسر نہ تھی۔ حضرت عثمان ؓکے زمانہ خلافت میں ہی حضرت معاویہؓ نے اسلامی فوجوں کی بحری کمان سنبھالتے ہوئے جزیرہ قبرص کی طرف بحری سفر اختیار کیاجواسلامی تاریخ میں پہلا بحری جہاد تھا۔ اس بحری جہاد کے نتیجہ میں قبرص فتح ہوا اور بعد میں ہونے والی بحری فتوحات کی بنیادیں رکھ دی گئیں۔ اس طرح نبی کریمﷺ کے منہ کی بات پوری ہوئی کہ دین اسلام غالب آئے گا یہاں تک کہ سمندر پار کے علاقوںمیں بھی اس کا پیغام پہنچے گا اور مسلمانوں کے گھڑ سوار اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے سمندروں کو بھی چیر جائیں گے۔

(کنز الاعمال جلد 10صفحہ212مطبوعہ ضلب)

یہ پیشگوئی اس شان کے ساتھ جلوہ گر ہوئی کہ اس زمانہ کی زبردست ایرانی اور رومی بحری قوتوں کے مقابل پر حضرت عثما ن ؓکے زمانہ خلافت میں مسلمانوں نے اپنی بحری قوت کا لوہا منوایا۔ عبداللہ بن سعد ؓبن ابی سرح کی سرکردگی میں اسلامی بحری بیڑے نے بحیرہ روم کے پانیوں میں اپنی دھاک بٹھا کر اسلامی حکومت کی عظمت کو چار چاند لگا دیے۔ چنانچہ فتح قبرص کے بعد کی اسلامی مہما ت میں جہاں مسلمان ایک طرف بحیرہ اسود و احمرکے بھی اس پار پہنچے اور بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑائے تو دوسری طرف مسلمان فاتحین نے بحیرہ روم کو عبور کر کے جزیرہ صقلیہ اور قسطنطنیہ کو فتح کیا، تیسری طرف طارق بن زیاد، فاتح سپین نے بحیرہ روم کو چیرتے ہوئے بحر اوقیانوس کے کنارے ’’جبرالٹر‘‘ پر پہنچ کر ہر چہ بادا باد کہہ کر اپنی کشتیوں کو جلا دیا تو چوتھی طرف محمد بن قاسم نے بحیرہ عرب اور بحر ہند کے سینے چیر ڈالے۔ اس طرح مسلمانوں نے جریدہ عالم پر بحری دنیا میں کیا بلحاظ سمندری علوم میں ترقی اور کیا بلحاظ جہاز رانی ایسے انمٹ نقوش ثبت کیے جو رہتی دنیا تک یاد رہیں گے۔ نئی بندرگاہیں تعمیر ہوئیں، جہاز سازی کے کارخانے بنے، بحری راستوں کی نشان دہی اور سمندروں کی پیمائش کے اصول وضع ہوئے اور مسلمان،جو پانیوں سے ڈرتے تھے، سمندروں پر حکومت کرنے لگے اور رسول پاکﷺ کے رؤیا و کشوف کمال شان کے ساتھ پورے ہوئے۔

تعبیر طلب رؤیا کا کسی اور رنگ میں پورا ہونا

بعض رؤیا کشوف تعبیر کے مطابق من و عن ظاہر نہیں ہوتے بلکہ الٰہی مشیَّت کے مطابق کسی اور رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں، جیسے واقعہ صلح حدیبیہ۔

مدنی دَور میں جب مسلمان اہل مکہ سے حالت جنگ میں تھے اور ان کے حج اور عمرہ پر پابندی تھی، اس وقت رسول اللہﷺ نے رؤیا میں اپنے صحابہ کے ساتھ امن و امان سے طواف کرتے دیکھا۔ آپﷺ ظاہر ی تعبیر پر عمل کرتے ہوئے چودہ سو صحابہ کی جماعت کے ہم راہ عمرہ کرنے کے لیے روانہ ہوئے مگر گہری اور مخفی الٰہی حکمتوں اور منشاء کے مطابق آپﷺ اس سال عمرہ نہ کر سکے، البتہ صلح حدیبیہ کے معاہدےکےمطابق اگلے سال عمرہ ادا فرمایا۔ صلح حدیبیہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خیبر میں فتح بھی نصیب فرمائی اور مکہ بھی اسی معاہدہ کی برکت سے فتح ہوا۔ اگر یہ تعبیر ظاہر ی رنگ میں پوری ہوجاتی اور مسلمان اسی سال طواف کر بھی لیتے تو وہ فوائد و برکات حاصل نہ ہوتیں جو اس صلح کے نتیجہ میں عطاہوئیں، جسے قرآن کریم نے ’’فتح مبین‘‘ قرار دیاتھا۔

(بخاری کتاب التفسیر سورۃ الفتح)

ہجرت مدینہ کی رؤیا بھی اسی قسم کی تھی، جس کی درست تعبیربعدمیں ہوئی۔ نبی کریمﷺ کو اپنی ہجرت کی جگہ دکھائی گئی کہ کوئی کھجوروں والی جگہ ہے۔ آپﷺ نے اس سے یمامہ یا ہجر کی سرزمین مراد لی مگر بعد میں یہ رازکھلا کہ اس سے مراد یثرب تھا۔ دارالہجرت کے نام میں اخفاء ہونے میں یقیناً گہری حکمت پوشیدہ تھی تا کہ ہجرت کے سفر میں کوئی روک نہ ہو۔

(بخاری کتاب المغازی باب غزوہ احد)

رؤیا کے پوری ہونے پر اس کی تعبیر کا کھلنا

بعض رؤیا ایسی ہوتی ہیں جن کی تعبیر واضح نہیں ہوتی مگر بعد میں رؤیا کے پورا ہونے پر سمجھ آتی ہے جس کی ایک حکمت یہ ہوتی ہے کہ اس واقعہ کے ظہور کے بعد رؤیا میں مضمر منشاء الٰہی معلوم کر کے انسان کو اطمینان حاصل ہو، جیسے غزوہ اُحد سے قبل نبی کریمﷺ نے رؤیا میں دیکھاکہ آپ کچھ گائیوںکو ذبح کر رہے ہیں۔ اسی طرح دیکھا کہ آپﷺ اپنی تلوار لہراتے ہیں اور اس کا اگلا حصہ ٹوٹ جاتا ہے۔ رؤیا کے وقت اس کی تعبیر واضح نہ تھی، مگربعد میں اس کشف کی تعبیر اُحد میں ستر مسلمانوں کی شہادت، خود رسول کریمﷺ کے زخمی ہونے اور دندان مبارک شہید ہونے کے رنگ میںظاہر ہو گئی تو یہ بھیدکھلا کہ اس رؤیا کا کیا مطلب تھا۔

(بخاری کتاب المغازی باب غزوہ الخندق و ھی الاحزاب: 3792)

پیشگوئی کا کسی خلیفہ یا اولاد کے حق میں پورا ہونا

بعض رؤیا کی تعبیر بعد میں آنے والوں، مثلاً انبیاء کے بعد ان کےخلفاء، ان کے ماننے والو ںیا انسان کی اولاد کے حق میں ظاہر ہوتی ہیں۔

اسی طرح کا ایک غیر معمولی شان کا حامل وہ لطیف کشفی نظارہ تھاجو نبی کریمﷺ کو غزوہ احزاب کی تیاری کے دوران کروایا گیاجب اہل مدینہ ایک طرف کفار مکہ کے امکانی حملہ سے بچنے کی خاطرشہر کے گرد خندق کھود رہے تھے اوردوسری طرف وہ سخت قحط سالی کا شکار تھے۔

چنانچہ حضرت جابرؓکا بیان ہے کہ نبی کریمﷺ اور آپؐ کے صحابہ خندق کی کھدائی میں مصروف تھے، مسلسل تین دن سے فاقہ میں تھے، خود آنحضرتﷺ نے بھوک کی شدت سے پیٹ پر دو پتھر باندھ رکھے تھے۔

(بخاری کتاب الجہاد باب الدعاء بالجہاد و الشہادۃِ للرجال والنساء: 2580)

حضرت براء بن عازب ؓاس واقعہ کی مزید تفصیل بیان کرتے ہیں کہ خندق کی کھدائی کے دوران نبی کریمﷺ کی خدمت میں ایک پتھریلی چٹان کے نہ ٹوٹنے کی شکایت کی گئی۔ آپﷺ نے اللہ کا نام لے کر کدال کی پہلی ضرب لگائی توپتھر شکستہ ہو گیا اور اس کا بڑا حصہ ٹوٹ گیا۔ آپﷺ نے اَللّٰہُ اَکْبَرْکا نعرہ بلند کیااور فرمایا کہ ’’ملک شام کی کنجیاں میرے حوالے کی گئی ہیں اور خدا کی قسم! میں شام کے سرخ محلات اس جگہ سے دیکھ رہا ہوں۔ ‘‘پھر آپﷺ نے اللہ کا نام لے کر کدال کی دوسری ضرب لگائی، پتھر کا ایک اور حصہ شکستہ ہو کر ٹوٹا اور رسول کریمﷺ نے اَللّٰہُ اَکْبَر کا نعرہ بلند کر کے فرمایا: ’’مجھے ایران کی چابیاں عطا کی گئی ہیں اور خدا کی قسم ! میں مدائن کے سفید محلات اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہا ہوں۔‘‘ پھر آپﷺ نے اللہ کا نام لے کر تیسری ضرب لگائی اور باقی پتھر بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ آپﷺ نے تیسری بار اَللّٰہُ اَکْبَر کا نعرہ بلند کر کے فرمایا: ’’یمن کی چابیا ںمیرے سپردکی گئی ہیں اور خدا کی قسم! میں صنعاء کے محلات کا نظارہ اس جگہ سے کر رہا ہوں۔‘‘

(مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ303دارالفکر بیروت)

یہ عظیم الشان روحانی کشف آنحضرتﷺ اور آپﷺ کے صحابہؓ کے زبردست ایمان و یقین پر بھی دلالت کرتا ہے۔ ایک طرف فاقہ کشی کے اس عالم میں جب دشمن کے حملے کے خطرے سے جان کے لالے پڑے ہوئے تھے،خود حفاظتی کے لیے خندق کھودنے کی دفاعی تدبیروں میں مصروف تھے، لیکن الٰہی وعدوں پر کیسا پختہ ایمان تھا کہ اپنے دَور کی دو عظیم اور طاقتور سلطنتوں کی فتح کی خبر کمزور نہتے مسلمانوں کو دے رہے تھے اور وہ بھی اس یقین پر قائم نعرہ ہائے تکبیر بلند کر رہے تھے، کہ بظاہر یہ انہونی باتیں ایک دن پوری ہو کر رہیں گی۔ خدا کی شان دیکھیںکہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانۂ خلافت سے ا ن فتوحات کا آغاز ہو جاتا ہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ اور حضرت ابوعبیدہ ؓ اسلامی فوجوں کے ساتھ شام کو فتح کرتے ہیں اور حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں ان فتوحات کی تکمیل ہو جاتی ہے اور حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کی سرکردگی میں مسلمان ایران کو فتح کرتے ہیں اور صرف چند سال کے مختصر عرصہ میں دنیا کی دو بڑی سلطنتیں روم اور ایران ان فاقہ کش مگر یقین محکم رکھنے والے مسلمانو ںکے زیر ِنگین ہو جاتی ہیں۔

فاقہ کش ابوہریرہؓ، جنہوں نے اس رؤیا کی تعبیر اپنی آنکھوں سے پوری ہوتے دیکھی، یہ فتوحات دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئی ہیں، یہاں تک کہ میں نے اپنے ہاتھوں میں رکھ لی ہیں‘‘۔ اسی طرح کہتے تھے کہ’’ نبی کریمﷺ تو وفات پاگئے ہیں اور اب مسلمان ان خزانوں کو حاصل کررہے ہیں۔ ‘‘

(بخاری کتاب التعبیر باب رؤیاء اللیل: 6483)

رسول اللہﷺ کی رؤیا، کشوف اور پیشگوئیاں مختلف رنگوں میں الٰہی منشاء اور حکمت کے مطابق بہرحال پوری ہوئیں جو آج ہمارے لیے ازدیاد ایمان کا موجب بن کر ہمیں یقین دلاتی ہیں کہ اسلام کی نشا ٔۃ ثانیہ کے وہ وعدے بھی ضرور پورے ہوں گے جو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمدﷺ کے ذریعہ ہم سے کیے گئے تھے۔

چنانچہ آخری زمانہ کے بعض خوش قسمت گروہوں کا ذکر کرتے ہوئے رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ

’’میری امت کے دو گروہوں کو اللہ تعالیٰ نے آگ سے محفوظ فرمایا ہے، ایک وہ جو ہندوستان سے جہاد کرے گی اور دوسری وہ جماعت جو عیسیٰ بن مریم کے ساتھ ہوگی۔ ‘‘

(نسائی کتاب الجہاد باب غزوۃ الہند)

اس پیشگوئی کا پہلا حصہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں بڑی شان کے ساتھ اس وقت پورا ہواجب محمد بن قاسمؒ کے ذریعہ سندھ کی فتح سے ہندوستان کی فتوحات کا آغاز ہوا۔ انہوں نے سندھ کے باسیوں کو وہاں کے ظالم حکمرانوں سے نجات دلا کر عدل و انصاف کی حکومت قائم کی اور اپنے اعلیٰ کردار اور پاکیزہ اقدار سے اہل ِسندھ کو اپنا گرویدہ کر لیااور اس طرح اس جگہ اسلام کا آغاز ہوا۔ پیشگوئی کے دوسرے حصہ کا تعلق اس آخری زمانہ سے معلوم ہوتا ہے، جس کے باےمیںنبی کریمﷺ نے فرمایا کہ

’’اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین کو سمیٹ کر دکھایا، یہاں تک کہ اس کے مشرقی کنارے بھی اور مغربی کنارے بھی اور میری امت کی حکومت زمین کے ان تمام کناروں تک پہنچے گی جو مجھے سمیٹ کر دکھائے گئے تھے اور مجھے دو خزانے دیے گئے، ایک سرخ خزانہ (یعنی سونے کا)اور ایک سفید خزانہ (یعنی چاندی کا)‘‘۔

(مسلم کتاب الفتن و اشراط الساعۃ باب ھَلاکُ ھذہ الامۃ بعضھم ببعض: 5144)

اسلام کے اس آخری عظیم الشان غلبہ کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا کہ

’’اللہ تعالیٰ کوئی کچا یا پکا گھر نہیں چھوڑے گا مگر اس میں اسلام کو داخل کردے گا۔ ‘‘

غلبۂ اسلام کے وعدوںکی تکمیل آپﷺ ہی کی پیشگوئی کے مطابق امام الزمان حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کی بعثت سے تعلق رکھتی ہے۔ آپ ہی پیشگوئیوں کے مطابق وہ مبارک فارسی الاصل وجود ہیںجوایمان کو ثریا سے زمین تک واپس لائے اور یفیض المال حتی لا یقبلہ احدکا مصداق بنتے ہوئےبےشمار خزائن لٹائے۔ آپؑ کی آمد کے ساتھ آنحضورﷺ کی بہت سی پیشگوئیاں اور بشارتیں وابستہ ہیںجن کی تفصیلات بیان کرنا مقصود نہیں۔ صرف اس امر کو واضح کرنا مدنظر ہے کہ آپؑ ہی کے ذریعہ اس زمانے میں تکمیل اشاعت ہدایت کا وقوع پذیر ہونا مقدر ہے۔ ان الٰہی وعدوں پر ہر مومن کو کامل یقین ہے کیونکہ

جس بات کو کہے کروں گا یہ میں ضرور

ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے

اللہ تعالیٰ فتوحات کا یہ دَور ہماری زندگیوںمیں پورا ہوتے دکھائے اور ہمیں بھی ان کا حصہ دار بنائے (آمین)۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button