سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

(’اے ولیم‘)

باغ میں ملّت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا

حضرت مسیح موعودؑ کے آبا واجداد

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پردادا

حضرت مرزا گل محمد صاحبؒ( وفات1800ء)

حضرت مرزاہادی بیگ کے بیٹے محمدسلطان اوران سے نویں نمبر پر حضر ت مرزا گل محمدصاحب ؒ جو کہ حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے پردادا تھے۔ ان کے جس قدر حالات دستیاب ہوسکے ہیں وہ کم وبیش تمام کے تمام حضرت اقدسؑ کی تحریرات سے ماخوذ ہیں جو کہ ان کے خاندان میں تحریری طورپر محفوظ تھیں یا خاندان کے بزرگوں کی زبانی یا وہاں کے رہنے والوں کی روایات پر مبنی ہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعودؑ اپنے پردادا حضرت مرزا گل محمد صاحب ؒ کے متعلق فرماتے ہیں :

’’غرض اس زمانہ میں کہ جب چغتائی سلطنت نے اپنی نالیاقتی اور اپنی بدانتظامی سے پنجاب کے اس حصہ سے بکلّی دستبرداری اختیار کی تو ان دنوں میں بڑے بڑے زمیندار اس نواح کے خود مختار بن کر اپنے اقتدار کامل کانقشہ جمانے لگے۔ سو انہیں ایام میں بفضل واحسان الٰہی اس عاجز کے پرداداصاحب مرزا گل محمد مرحوم اپنے تعلقہ زمینداری کے ایک مستقل رئیس اور طوائف الملوک میں سے بن کر ایک چھوٹے سے علاقہ کے جو صرف چوراسی84یاپچاسی85 گاوٴں رہ گئے تھے کامل اقتدارکے ساتھ فرماں روا ہو گئے اور اپنی مستقل ریاست کا پوراپورا انتظام کرلیا اور دشمنوں کے حملے روکنے کے لئے کافی فوج اپنے پاس رکھ لی اور تمام زندگی ان کی ایسی حالت میں گذری کہ کسی دوسرے بادشاہ کے ماتحت نہیں تھے اور نہ کسی کے خراج گزار بلکہ اپنی ریاست میں خود مختار حاکم تھے اور قریب ایک ہزار سوار وپیادہ ان کی فوج تھی اور تین توپیں بھی تھیں اور تین چار سو آدمی عمدہ عمدہ عقلمندوں اورعلماء میں سے ان کے مصاحب تھے اورپانچسو کے قریب قرآن شریف کے حافظ وظیفہ خوار تھے جو اس جگہ قادیان میں رہا کرتے تھے اور تمام مسلمانوں کو سخت تقید سے صوم وصلوٰة کی پابندی اور دین اسلام کے احکام پر چلنے کی تاکید تھی اور منکرات شرعی کو اپنی حدودمیں رائج ہونے نہیں دیتے تھے اور اگرکوئی مسلمان ہو کر خلاف شعار اسلام کوئی لباس یا وضع رکھتا تھاتو وہ سخت مورد عتاب ہوتا تھا اور سقیم الحال اورغربااور مساکین کی خبر گیری اور پرورش کے لئے ایک خاص سرمایہ نقد اور جنس کاجمع رہتا تھاجو وقتًا فوقتًا ان کو تقسیم ہوتاتھا۔ یہ اُن تحریرات کا خلاصہ ہے جو اس وقت کی لکھی ہوئی ہم کو ملی ہیں جن کی زبانی طور پر بھی شہادتیں بطریق مسلسل اب تک پائی جاتی ہیں۔ ‘‘( ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 161-162حاشیہ)

حضرت مرزا گل محمد صاحب اور دہلی کی تخت نشینی

’’یہ بھی لکھاہے کہ ان دنوں میں ایک وزیر سلطنت مغلیہ کا غیاث الدولہ نام قادیان میں آیا اور میرزا گل محمدصاحب مرحوم کے استقلال وحسن تدبیر وتقویٰ وطہارت وشجاعت واستقامت کو دیکھ کرچشم پُر آب ہوگیا اور کہا کہ اگر مجھے پہلے سے خبر ہوتی کہ خاندان مغلیہ میں سے ایک ایسا مرد پنجاب کےایک گوشہ میں موجود ہے تو میں کوشش کرتا کہ تا وہی دہلی میں تخت نشین ہو جاتا اور خاندان مغلیہ تباہ ہونے سے بچ جاتا۔ ‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ 162-163حاشیہ)

شجاعت وبہادری

’’غرض مرزا صاحب مرحوم ایک مرد اولی العزم اور متقی اور غایت درجہ کے بیدار مغز اور اول درجہ کے بہادر تھے اگر اُس وقت مشیت الٰہی مسلمانوں کے مخالف نہ ہوتی تو بہت امید تھی کہ ایسا بہادر اور اولی العز م آدمی سکھوں کی بلند شورش سے پنجاب کا دامن پاک کر کے ایک وسیع سلطنت اسلام کی اس ملک میں قائم کر دیتا۔ جس حالت میں رنجیت سنگھ نے باوجود اپنی تھوڑی سی پدری ملکیت کے جو صرف نو گاوٴں تھے تھوڑے ہی عرصہ میں اس قدر پیر پھیلا لئے تھے جو پشاور سے لدھیانہ تک خالصہ ہی خالصہ نظر آتا تھا اور ہر جگہ ٹڈیوں کی طرح سکھوں کی ہی فوجیں دکھائی دیتی تھیں تو کیا ایسے شخص کے لئے یہ فتوحات قیاس سے بعید تھیں؟ جس کی گمشدہ ملکیت میں سے ابھی چوراسی یا پچاسی گاوٴں باقی تھے اور ہزا ر کے قریب فوج کی جمعیت بھی تھی اور اپنی ذاتی شجاعت میں ایسے مشہور تھے کہ اُس وقت کی شہادتوں سے بہ بداہت ثابت ہوتا ہے کہ اس ملک میں اُن کا کوئی نظیرنہ تھا لیکن چونکہ خدائے تعالیٰ نے یہی چاہا تھا کہ مسلمانوں پر ان کی بے شمار غفلتوں کی وجہ سے تنبیہ نازل ہو اس لئے مرزا صاحب مرحوم اس ملک کے مسلمانوں کی ہمدردی میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ 163حاشیہ)

بہادر اور باکمال عابد

حضرت اقدس علیہ السلام اپنے پردادحضرت مرزا گل محمدصاحبؒ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ہمارے پڑداداصاحب بڑے مخیّر تھے اور باخدا بزرگ تھے۔ چنانچہ لوگ کہا کرتے تھے کہ ان کو گولی کا اثر نہیں ہوتا۔ ایک وقت میں ان کے دستر خوان پر 500آدمی ہواکرتے تھے اور اکثر حافظ قرآن اور عالم ان کے پاس رہتے تھے۔ ‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ 396)

’’اور میرزا صاحب مرحوم کے حالات عجیبہ میں سے ایک یہ ہے کہ مخالفین مذہب بھی ان کی نسبت ولایت کا گمان رکھتے تھے اور ان کے بعض خارق عادت امور عام طور پر دلوں میں نقش ہو گئے تھے یہ بات شاذو نادر ہوتی ہے کہ کوئی مذہبی مخالف اپنے دشمن کی کرامات کا قائل ہو لیکن اس راقم نے مرزا صاحب مرحوم کے بعض خوارق عادت اُن سکھوں کے مُنہ سے سنے ہیں جن کے باپ دادا مخالف گروہ میں شامل ہو کر لڑتے تھے۔ اکثر آدمیوں کا بیان ہے کہ بسا اوقات مرزا صاحب مرحوم صرف اکیلے ہزار ہزار آدمی کے مقابل پر میدا ن جنگ میں نکل کر اُن پر فتح پا لیتے تھے اور کسی کی مجال نہیں ہوتی تھی کہ اُن کے نزدیک آسکے اور ہر چند جان توڑکر دشمن کا لشکر کوشش کرتا تھا کہ توپوں یا بندوقوں کی گولیوں سے اُن کو مار دیں مگر کوئی گولی یا گولہ اُن پر کارگر نہیں ہوتا تھا۔ یہ کرامت اُن کی صدہا موافقین اور مخالفین بلکہ سکھوں کے مُنہ سے سنی گئی ہے جنہوں نے اپنے لڑنے والے باپ دادوں سے سندا ًبیان کی تھی۔ لیکن میرے نزدیک یہ کچھ تعجب کی بات نہیں اکثرلوگ ایک زمانہ دراز تک جنگی فوجوں میں نوکر رہ کر بہت سا حصہ اپنی عمر کا لڑائیوں میں بسر کرتے ہیں اور قدرت حق سے کبھی ایک خفیف سا زخم بھی تلوار یا بندوق کا اُن کے بدن کو نہیں پہنچتا۔ سو یہ کرامت اگر معقول طور پر بیان کی جائے کہ خدائے تعالیٰ اپنے خاص فضل سے دشمنوں کے حملوں سے انہیں بچاتا رہا تو کچھ حرج کی بات نہیں اس میں کچھ شک نہیں ہو سکتا کہ مرزا صاحب مرحوم دن کے وقت ایک پُرہیبت بہادر اور رات کے وقت ایک باکمال عابد تھے اور معمور الاوقات اور متشرع تھے۔‘‘

( ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3صفحہ 163-164حاشیہ)

مشائخ وقت، فیاض اور صاحب کرامات

حضرت مرزا گل محمدصاحب ؒ کے بارہ میں مزید آپؑ نے فرمایا:

’’سکھوں کے ابتدائی زمانہ میں میرے پردادا صاحب میرزا گل محمد ایک نامور اور مشہور رئیس اس نواح کے تھے۔ جن کے پاس اس وقت 85گاؤں تھے اور بہت سے گاؤں سکھوں کے متواتر حملوں کی وجہ سے ان کے قبضہ سے نکل گئے تاہم ان کی جوانمردی اور فیاضی کی یہ حالت تھی کہ اس قدر قلیل میں سے بھی کئی گاؤں انہوں نے مروت کے طور پر بعض تفرقہ زدہ مسلمان رئیسوں کو دے دئے تھے جو اب تک ان کے پاس ہیں۔ غرض وہ اس طوائف الملوکی کے زمانہ میں اپنے نواح میں ایک خود مختار رئیس تھے۔ ہمیشہ قریب پانسو آدمی کے یعنی کبھی کم اور کبھی زیادہ ان کے دسترخوان پر روٹی کھاتے تھے۔ اور ایک سو کے قریب علماء اور صلحاء اور حافظ قرآن شریف کے ان کے پاس رہتے تھے جن کے کافی وظیفے مقرر تھے اور ان کے دربار میں اکثر قال اللہ و قال الرسول کا ذکر بہت ہوتا تھا۔ اور تمام ملازمین اور متعلقین میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو تارکِ نماز ہو۔ یہاں تک کہ چکّی پیسنے والی عورتیں بھی پنج وقتہ نماز اور تہجد پڑھتی تھیں۔ اور گرد ونواح کے معزز مسلمان جو اکثر افغان تھے قادیان کو جو اس وقت اسلام پور کہلاتا تھا مکہ کہتے تھے۔ کیونکہ اس پُرآشوب زمانہ میں ہر ایک مسلمان کے لئے یہ قصبہ مبارکہ پناہ کی جگہ تھی۔ اور دوسری اکثر جگہ میں کفر اور فسق اور ظلم نظر آتا تھا اور قادیان میں اسلام اور تقویٰ اور طہارت اور عدالت کی خوشبو آتی تھی۔ میں نے خود اس زمانہ سے قریب زمانہ پانے والوں کو دیکھا ہے کہ وہ اس قدر قادیان کی عمدہ حالت بیان کرتے تھے کہ گویا وہ اس زمانہ میں ایک باغ تھا جس میں حامیانِ دین اور صلحاء اور علماء اور نہایت شریف اور جوانمرد آدمیوں کے صدہا پودے پائے جاتے تھے۔ اور اس نواح میں یہ واقعات نہایت مشہور ہیں کہ میرزا گل محمد صاحب مرحوم مشائخ وقت کے بزرگ لوگوں میں سے اور صاحب خوارق اور کرامات تھے۔ جن کی صحبت میں رہنے کے لئے بہت سے اہل اللہ اور صلحاء اور فضلاء قادیان میں جمع ہوگئے تھے۔ اور عجیب تر یہ کہ کئی کرامات ان کی ایسی مشہور ہیں جن کی نسبت ایک گروہِ کثیر مخالفان دین کا بھی گواہی دیتا رہا ہے۔ غرض وہ علاوہ ریاست اور امارت کے اپنی دیانت اور تقویٰ اور مردانہ ہمت اور اولوالعزمی اور حمایت دین اور ہمدردی مسلمانوں کی صفت میں نہایت مشہور تھے اور ان کی مجلس میں بیٹھنے والے سب کے سب متقی اور نیک چلن اور اسلامی غیرت رکھنے والے اور فسق و فجور سے دور رہنے والے اور بہادراور بارعب آدمی تھے۔ چنانچہ میں نے کئی دفعہ اپنے والد صاحب مرحوم سے سنا ہے کہ اس زمانہ میں ایک دفعہ ایک وزیر سلطنت مغلیہ کا قادیان میں آیا جو غیاث الدولہ کے نام سے مشہور تھا اور اس نے میرزا گل محمد صاحب کے مدبرانہ طریق اور بیدار مغزی اور ہمت اور اولوالعزمی اور استقلال اور عقل اور فہم اور حمایت اسلام اور جوش نصرت دیں اور تقویٰ اور طہارت اور دربار کے وقار کو دیکھا اور ان کے اس مختصر دربار کو نہایت متین اور عقلمنداور نیک چلن اور بہادر مردوں سے پُر پایا تب وہ چشم پُر آب ہوکر بولا کہ اگر مجھے پہلے خبر ہوتی کہ اس جنگل میں خاندان مغلیہ میں سے ایسا مرد موجود ہے جس میں صفات ضروریہ سلطنت کے پائے جاتے ہیں تو میں اسلامی سلطنت کے محفوظ رکھنے کے لئے کوشش کرتا کہ ایّام کسل اور نالیاقتی اور بدوضعی ملوک چغتائیہ میں اسی کو تخت دہلی پر بٹھایا جائے۔ ‘‘

(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13صفحہ 165تا 169حاشیہ)

خوددار اور صاحب ذی وقار عالی ہمت رئیس

ایک متقی اور عادل بزرگ تو آپ تھے ہی۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ ایک صاحب وقار اور خوددار رئیس بھی تھے۔ اس مضمون کے آخر پر اس وقت کے مغلیہ سلطنت کے شہنشاہ کی طرف سے بھیجےجانے والے چند ایک شاہی خطوط درج کئے گئے ہیں ان کے خطوط کے مطالعہ سے آپ کا یہ وصف اور شان بے نیازی کھل کرسامنے آتی ہے۔ ان خطوط پر فردوسیٔ ثانی حضرت مولوی عبیداللہ بسمل صاحب مصنف ’’أرجح المطالب‘‘ نے ایک نوٹ دیا ہے اس میں وہ ایک جگہ حضرت مرزا گل محمدصاحب ؒکے اوصاف حمیدہ کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اس منشور اور اس کے بعد کے مناشیر میں بلند حوصلگی اور علوہمت ثابت کرنے والی یہ بات ہے۔ کہ غفران مآب نے تقویٰ کو مدّ نظر رکھتے ہوئے دربار دہلی میں جانا پسند نہ کیا۔ کیونکہ اس وقت کے دربار کا نقشہ متملق اور چاپلوس اور خوشامدی اراکین سے را جہ اندر کا اکھاڑہ بنا ہوا تھا۔ ملاہی و مناہی اور ارباب نشاط ڈوم ڈھاریوں سے ہر وقت دربار پُر رہتا تھا۔ غفران مآب نے پنجاب میں رہ کر سلطنت کی وفاداری کا اظہار سرمایہ دیانت سمجھا۔ مگر جاہ طلبی کو دُور ہی سے دھکا دیا۔

العظمۃ للہ کیا ہی ہمت عالی تھی کہ شریعت غرّا کو مدّنظر رکھتے ہوئے دنیاوی اعزاز کی طرف قدم نہ اٹھایا۔ ورنہ اس وقت اگر دربار میں پہنچ جاتے تو شاہی عطیّات سے مالا مال ہو جاتے اور گرانمایہ جاگیر پاتے۔

فرخ سیر کے منشور کے بعد جب نہایت غور سے مغفرت انتساب میرزا گل محمد صاحب طاب اللہ ثراہ کے اسمی جس قدر مناشیر ہیں ان کو پڑھا جاتا ہے۔ تو ایک اور ہی کیفیت نظر آتی ہے۔ کہ شاہانِ دہلی کے دربار سے بار بار دعوتی مناشیر صادر ہوتے ہیں۔ دہلی تو دُور سہی وزیر آباد تو دروازے پر ہے۔ مگر وہ زُہد و ورع کا دلدادہ بادشاہ کو ملنے تک نہیں جاتا۔ اس پر وفاداری کا یہ حال ہے۔ کہ متواتر عرائض بھیجے جاتے ہیں۔ اور بھیجے بھی ایسے شخص کی وساطت سے جو دربار میں بھی نہایت متّقی اور پرہیز گار مانا جاتا تھا۔ جس کو خود محمد شاہ بادشاہ جیسا رنگیلا اور شاہ عالم ثانی فضیلت مآب کمالات دستگاہ سیادت و نجابت پناہ سید حیات اللہ کہہ کر پکارتے ہیں۔ الغرض جہاں میرزا گل محمد صاحب کی کرامات، زبان زد خلائق ہیں۔ یہ بات بھی کم نہیں۔ کہ آپ نہایت متقی اور پرہیز گار اور علم دوست انسان تھے۔

ان مناشیر میں ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے۔ کہ غفران مآب میرزا فیض محمد خانصاحب اور مغفرت نصاب میرزا گل محمد صاحب نے اظہار وفا کیشی کے عرائض بھیج کر اس کے معاوضہ میں جاگیر یا منصب یا خطاب کی استدعا نہیں کی۔ کیونکہ ان مناشیر میں شاہانِ دہلی نے نہیں لکھا کہ آپ کے طلب کرنے پر یا آپ کی استدعا پر یہ خطاب یا منصب عطا کیا جاتا ہے۔ بلکہ دربار دہلی نے اپنی خوشی اور خورسندی مزاج سے خطاب اور منصب دئیے ہیں۔ اور ان عرائض کو ایسے وقت میں نعمت غیر مترقبہ سمجھا ہے۔ جس وقت اکثر نمک خوار رؤساء جوانب و اطراف میں اطاعت سے سرکوبی کر رہے تھے۔ ‘‘

(سیرت المہدی، جلد1روایت نمبر721)

وفات

حضرت مرزاگل محمدصاحب ؒ کی وفات اندازاً 1800ء میں ہوئی۔ اور جس طرح آپ کی زندگی بہت سارے لوگوں کے لئے نمونہ تھی اسی طرح آپ ؒ کی وفات بھی ایک نمونہ ٹھہری۔ حضرت اقدس مسیح موعودؑ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’اس جگہ اس بات کا لکھنا بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا کہ میرے پردادا صاحب موصوف یعنی میرزا گل محمد نے ہچکی کی بیماری سے جس کے ساتھ اور عوارض بھی تھے وفات پائی تھی۔ بیماری کے غلبہ کے وقت اطبّاء نے اتفاق کر کے کہا کہ اس مرض کے لئے اگر چند روز شراب کو استعمال کرایا جائے تو غالباً اس سے فائدہ ہوگا مگر جرأت نہیں رکھتے تھے کہ ان کی خدمت میں عرض کریں۔ آخر بعض نے ان میں سے ایک نرم تقریر میں عرض کر دیا۔ تب انہوں نے کہا کہ اگر خداتعالیٰ کو شفا دینا منظور ہو تو اس کی پیداکردہ اور بھی بہت سی دوائیں ہیں مَیں نہیں چاہتا کہ اس پلید چیز کو استعمال کروں اور میں خدا کے قضا و قدر پر راضی ہوں آخر چند روز کے بعداسی مرض سے انتقال فرما گئے۔ موت تو مقدر تھی مگر یہ ان کا طریق تقویٰ ہمیشہ کے لئے یادگار رہا کہ موت کو شراب پر اختیار کرلیا۔ موت سے بچنے کے لئے انسان کیا کچھ نہیں کرتا لیکن انہوں نے معصیت کرنے سے موت کو بہتر سمجھا۔ افسوس ان بعض نوابوں اور امیروں اور رئیسوں کی حالت پر کہ اس چند روزہ زندگی میں اپنے خدا اور اس کے احکام سے بکلّی لاپرواہ ہوکر اور خداتعالیٰ سے سارے علاقے توڑ کر دل کھول کر ارتکاب معصیت کرتے ہیں اور شراب کو پانی کی طرح پیتے ہیں اور اس طرح اپنی زندگی کو نہایت پلید اور ناپاک کر کے اور عمر طبعی سے بھی محروم رہ کر اور بعض ہولناک عوارض میں مبتلا ہو کر جلد تر مر جاتے ہیں اور آئندہ نسلوں کے لئے نہایت خبیث نمونہ چھوڑ جاتے ہیں۔ ‘‘

( کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد13ص169تا172حاشیہ)

حضرت صاحبزادہ مرزابشیراحمدصاحبؓ بیان فرماتے ہیں:

’’خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے دادا صاحب کے دادا یعنی مرزا گُل محمد صاحب بڑے پارسا اور متقی اور علم دوست آدمی تھے۔ ان کے زمانہ میں قادیان باعمل علماء کا ایک مرکز تھا۔ مگر ان کے زمانہ میں سکھوں کی طرف سے ہماری جدّی ریاست پر حملے شروع ہو گئے تھے اور کئی گاؤں چھن بھی گئے تھے مگر انہوں نے بڑا حصہ جاگیر کا بچائے رکھا ان کی وفات ……غالباً 1800ء میں واقع ہوئی…‘‘(سیرت المہدی، جلداول، روایت نمبر48)

قادیان کے آبائی قبرستان میں ان کی قبرکانشان سیرت المہدی کے نقشہ کے مطابق موجودہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button