کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

کشمکش کی زندگی

عصر کی نماز سے فارغ ہو کر جب حضرت اقدسؑ اندر تشریف لے گئے۔ تو لالہ شرمپت رائے اور لالہ ملاوامل جو قادیان کے آریوں میں پرانے آریہ ہیں اور حضرت اقدسؑ کی اکثر پیشگوئیوں کے گواہ ہیں۔ اپنے اکثر احباب کو لے کر حضرت اقدس کی ملاقات کو آگئے۔ آپ نے ان میں سے ایک شخص معمر سفید ریش کو مخاطب کر کے فرمایا:

دنیا کی کشمکش کی زندگی میں لذّت نہیں۔ اگر خدا تعالیٰ کسی کو بیٹھے بٹھائے گذارہ دیدے تو کچھ ضرورت نہیں کہ انسان اہلِ حکومت کے پاس جاوے۔ ان لوگوں کے پاس جانا یہ بھی ایک قسم کا دوزخ ہے۔ ان لوگوں کی حالت خارش کی طرح ہے کہ جو ایک مرض ہے اور کھجلا نے والوں کو اس میں ایک لذّت ملتی ہے۔ لیکن وہ شخص احمق ہی ہوگا جو اس لذّت کو پسند کرے۔ اسی طرح حکّام کے دروازوں پر جانا ایسا ہی ہے۔ گوشہ نشینی کی زندگی ایک قسم کی بہشتی زندگی ہے۔ کسی نے کہا ہے ؎

بہشت آنجا کہ آزارے نباشد

کسے را باکسے کارے نباشد

بچپن میں جو بچوں کو مدرسہ میں بٹھا تے ہیں۔ اس کی کشمکش ساری عمر یادرہتی ہے۔ اُستاد کی حکومت کے نیچے ایک قسم کی تلخی معلوم ہوتی ہے۔ ہمیں اس وقت تک بھی یاد ہے کہ چھٹی کے دن کے بعد یعنی ہفتہ کو جو مدرسہ کا جانا ہوتا تھا تو سخت ناگوار گزرا کرتا تھا۔ اَور تو کچھ یاد نہیں رہا مگر یہ درد ضرور یاد ہے کہ مدرسہ جانا ایک درد محسوس ہوا کرتا تھا کیونکہ مرضی کے خلاف بھی ایک درد ہی ہوا کرتا ہے۔ اور جو لوگ حکّام کے دروازوں پر جاتے ہیں جیسے ذیلدار وغیرہ یا اور اسی قسم کے لوگ یہ عجیب عجیب قسم کے ابتلا میں پھنس جاتے ہیں۔ بعض کو رشوت لینے کی عادت ہوجاتی ہے۔ وہ آدمی بڑا ہی خوش نصیب ہے اور اس کو خدا کا شکر کرنا چاہیے جو کسی حکومت کے نیچے نہیں اور جسے فکر نہیں کہ رات کو یادن کو کوئی آواز آئے گی۔ بعض لوگ اسیسر ہونے میں اپنی عزّت سمجھتے ہیں مگر میں نے دیکھا ہے کہ وہ بڑے پابند ہوتے ہیں۔ ایک بار ایک اسیسر کو جو اپنے وقت پر نہیں آیا تھا سزا ہوئی۔ اس نے کہا کہ میں شادی پر یا کہیں اَور گیا ہوا تھا۔ حاکم نے اُسے کہا کہ کیا تم کو معلوم نہ تھا کہ میں اسیسر ہوں اور سزا دے دی۔ آخر چیف کورٹ نے اس کو بَری کر دیا۔ غرض اس قسم کے مصائب اور مشکلات ہوتی ہیں اور پھر ان بیچاروں کی حالت ’’تاتریاق از عراق آوردہ شود‘‘ کی مصداق ہو جاتی ہے خواہ اپیل میں بَری ہو جاویں۔ مگر وہ بے عزّتی اور مصائب کا ایک بار تو منہ دیکھ لیتے ہیں۔ کیا اچھا کہا ہے سعدی نے ؎

کس نیاید بخانۂ درویش

کہ خراج بوم و باغ گذار

جس قدر انسان کشمکش سے بچا ہوا ہو اسی قدر اس کی مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ کشمکش والے کے سینہ میں آگ ہوتی ہے اور وہ مصیبت میں پڑا ہوا ہوتا ہے۔ اس دنیا کی زندگی میں یہی آرام ہے کہ کشمکش سے نجات ہو۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار چلا جاتا تھا۔ راستہ میں ایک فقیر بیٹھا تھا جس نے بمشکل اپنا ستر ہی ڈھانکا ہوا تھا۔ اُس نے اُس سے پوچھا کہ سائیں جی کیا حال ہے؟ فقیر نے اسے جواب دیا کہ جس کی ساری مرادیں پوری ہو گئی ہوں۔ اس کا حال کیسا ہوتا ہے؟ اُسے تعجب ہوا کہ تمہاری ساری مرادیں کس طرح حاصل ہو گئی ہیں۔ فقیر نے کہا جب ساری مرادیں ترک کر دیں، تو گویا سب حاصل ہو گئیں۔ حاصل کلام یہ ہے کہ جب یہ سب حاصل کرنا چاہتا ہے تو تکلیف ہی ہوتی ہے۔ لیکن جب قناعت کر کے سب کوچھوڑ دے تو گویا سب کچھ ملنا ہوتا ہے۔ نجات اور مکتی یہی ہے کہ لذّت ہو دکھ نہ ہو۔ دُکھ والی زندگی تو نہ اس جہان کی اچھی ہوتی ہے اور نہ اُس جہان کی۔ جو لوگ محنت کرتے ہیں اور اپنے دلوں کو صاف کرتے ہیں وہ گویا اپنی کھال اتارتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ زندگی تو بہرحال ختم ہو جائے گی۔ کیونکہ یہ برف کے ٹکڑہ کی طرح ہے خواہ اس کو کیسے ہی صندوقوں اور کپڑوں میں لپیٹ کر رکھو لیکن وہ پگھلتی ہی جاتی ہے۔ اسی طرح پر خواہ زندگی کے قائم رکھنے کی کچھ بھی تدبیریں کی جاویں۔ لیکن یہ سچی بات ہے کہ وہ ختم ہوتی جاتی ہیں۔ اور روز بروز کچھ نہ کچھ فرق آتا ہی جاتا ہے۔ دنیا میں ڈاکٹر بھی ہیں طبیب بھی ہیں مگر کسی نے عمر کا نسخہ نہیں لکھا۔ جب لوگ بڈھے ہو جاتے ہیں۔ پھر ان کوخوش کرنے کو بعض لوگ آجاتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ ابھی تمہاری عمر کیا ہے؟ ساٹھ برس کی بھی کوئی عمر ہوتی ہے۔ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں۔ رحمت علی ایک مذکوری تھا۔ اس کا بیٹا فقیر علی منصف ہو گیا تھا اور لوگ اس وجہ سے اس کی عزّت بھی کیا کرتے تھے۔ ڈپٹی قائم علی نے ایک دفعہ اس سے پوچھا کہ تمہاری کیا عمر ہے؟ اس نے کہا کہ ۵۵سال کی ہوگی حالانکہ وہ ۶۵سال کا تھا۔ قائم علی نے اس کو کہاکہ کیا ہوا ابھی تو بچے ہو۔ خود بھی وہ یہی عمر بتایا کرتا تھا۔ میں نے کہا کہ ۵۵کا سال بڑا مشکل ہے یہ ختم ہونے میں نہیں آتا۔ غرض انسان عمر کا خواہشمند ہو کر نفس کے دھوکوں میں پھنسا رہتا ہے۔ دنیا میں عمریں دیکھتے ہیں کہ ۶۰ کے بعد تو قویٰ بالکل گداز ہو نے لگتے ہیں۔ بڑا ہی خوش قسمت ہوتا ہے جو ۸۰یا۸۲تک عمر پائے اور قویٰ بھی کسی حد تک اچھے رہیں۔ ورنہ اکثر نیم سودائی سے ہو جاتے ہیں۔ اُسے نہ تو پھر مشورہ میں داخل کرتے ہیں اور نہ اس میں عقل اور دما غ کی کچھ روشنی باقی رہتی ہے۔ بعض وقت ایسی عمر کے بڈھوںپر عورتیں بھی ظلم کرتی ہیں کہ کبھی کبھی روٹی دینی بھی بھول جاتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ درجوانی کارد و جہانی کن۔ اور مشکل یہ ہے کہ انسان جوانی میں مست رہتا ہے اور مرنا یاد نہیں رہتا، بُرے بُرے کام اختیار کرتا ہے اورآ خر میں جب سمجھتا ہے تو پھر کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ غرض اس جوانی کی عمر کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔

نشان زندگانی تا بسی سال

چو چل آمد فرد ریزد پر و بال

انحطاط عمر کا ۴۰سال سے شروع ہوجاتا ہے۔ ۳۰یا ۳۵برس تک جس قدر قد ہونا ہوتا ہے وہ پورا ہوجاتا ہے اور بعد اس کے بڈھے ہو کر پھولنا شروع ہوجاتا ہے اور پھولنے کا نتیجہ فالج ہوجاتا ہے۔

شرمپت اس وقت جانے لگا۔

فرمایا بیٹھو! ان کے ساتھ جانا ۔یہ شرطِ وفا نہیں۔ پھر حضرت اقدس نے اسی سلسلہ سابقہ میں فرمایاکہ

جس قدر ارادے آپ نے اپنی عمر میں کیے ہیں۔ اُن میں سے بعض پورے ہوئے ہوں گے مگر اب سوچ کر دیکھو کہ وہ ایک بُلبلہ کی طرح تھے جو فوراً معدوم ہوجاتے ہیں۔ اور ہاتھ پلّے کچھ نہیں پڑتا۔ گذشتہ آرام سے کوئی فائدہ نہیں۔ اس کے تصوّر سے دکھ بڑھتا ہے۔ اس سے عقلمند کے لیے یہ بات نکلتی ہے کہ انسان ابنُ الوقت ہو۔ رہی زندگی انسان کی جو اس کے پاس موجودہے۔ جو گذر گیا وہ وقت مر گیا۔ اس کے تصوّرات بے فائدہ ہیں۔ دیکھو جب ماں کی گود میں ہوتا ہے اس وقت کیا خوش ہوتا ہے۔ سب اُٹھائے ہوئے پھرتے ہیں۔ وہ زمانہ ایسا ہوتا ہے کہ گویا بہشت ہے۔ اور اب یاد کر کے دیکھو کہ وہ زمانہ کہاں؟ سعدی کہتا ہے ؎

من من آنگہ سر تا جور داشتم کہ بر فرقِ ظلِ پدر داشتم

اگر بر وجودم نِشستے مگس پر پریشاں شد خاطرے چند کس

یہ زمانے پھر کہاں مل سکتے ہیں۔ لکھا ہے کہ ایک بادشاہ چلاجاتا تھا۔ چند چھوٹے لڑکوں کو دیکھ کر روپڑا کہ جب سے اس صحبت کوچھوڑ ا، دکھ پایاہے۔ پیرانہ سالی کا زمانہ بُرا ہے۔ اس وقت عزیز بھی چاہتے ہیں کہ مر جاوے اور مرنے سے پہلے قویٰ مر جاتے ہیں۔ دانت گر جاتے ہیں۔ آنکھیں جاتی رہتی ہیں۔ اور خواہ کچھ ہی ہو آخر پتھر کا پتلاہو جاتا ہے ۔شکل تک بگڑ جاتی ہے۔ اور بعض ایسی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ آخرخود کشی کر لیتے ہیں۔ بعض اوقات جن دکھوں سے بھاگناچاہتا ہے۔ یکدفعہ ان میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اگراولاد ٹھیک نہ ہو تو اَور بھی دکھ اُٹھاتا ہے۔ اس وقت سمجھتا ہے کہ غلطی کی اور عمر یونہی گزر گئی۔ مگر دوہرا ؎

آگے کے دن پاچھے گئے ہر خدا سے کیو نہ ہیت

اب پچتائے کیا ہوت ہے جب چڑیا چُگ گئیں کھیت

عقلمند وہی ہے جو خدا کی طرف توجہ کرے۔ خداکو ایک سمجھے۔ اس کے ساتھ کوئی نہیں۔ ہم نے آزماکردیکھاہے۔ نہ کوئی دیوی نہ دیوتا کوئی کام نہیں آتا۔ اگر یہ صرف خدا کی طرف نہیں جھکتا تو کوئی اس پررحم نہیں کرتا۔ اگر کوئی آفت آجاوے تو کوئی نہیں پوچھتا۔ انسان پر ہزاروں بلائیں آتی ہیں ۔پس یا د رکھو کہ ایک پرور دگار کے سوا کوئی نہیں۔ وہی ہے جو ماں کے دل میں بھی محبت ڈالتا ہے۔ اگر اس کے دل کو ایسا پیدا نہ کرتا تو وہ بھی پرورش نہ کر سکتی۔ اس لیے اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کرو۔

(ملفوظات جلد3صفحہ420تا425۔ایڈیشن 1984ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button