خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 10؍ جولائی 2020ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت صحابی حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

بنو قریظہ کی غداری اور خدائی تصرفات کے تحت ان کی سزا کے واقعہ کا تفصیلی بیان

چار مرحومین مکرمہ حاجیہ رقیہ خالد صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ گھانا، مکرمہ صفیہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم شیخ مبارک احمد صاحب مبلغ سلسلہ مرحوم، مکرم علی احمد صاحب ریٹائرڈ معلّم وقفِ جدید اور مکرمہ رفیقاں بی بی صاحبہ نارووال کا ذکر خیر، ان سمیت بعض دیگر مرحومین کی نمازِ جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 10؍ جولائی 2020ء بمطابق 10؍ وفا 1399 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیزنےمورخہ 10؍ جولائی 2020ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، یوکے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم رانا عطا الرحیم صاحب کے حصے میں آئی۔حکومت برطانیہ کی طرف سے لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اقتدا میںاحباب نے سماجی فاصلے کی شرائط کو برقرار رکھتے ہوئے مسجد مبارک میں جمعہ ادا کیا ۔ تشہد، تعوذ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

جیسا کہ گذشتہ خطبے میں ذکر کیا تھا کہ آنحضرتﷺ کو جنگِ احزاب کے بعد بنوقریظہ کی غداری کی سزا کا خدائی حکم ہوا۔ جنگِ احزاب کےاختتام کے ذیل میں اس غزوے کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ بیس دنوں کے بعد مسلمانوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ مگر اب بنو قریظہ کا معاملہ طےہونے والا تھا۔ ان کی غداری ایسی نہ تھی کہ نظر انداز کی جاتی۔رسول کریمﷺ نے واپس آتے ہی صحابہ سے فرمایا کہ گھروں پر آرام نہ کرو بلکہ شام سے پہلے بنوقریظہ کے قلعوں تک پہنچ جاؤاور ساتھ ہی عہدشکنی کی وجہ جاننے کے لیےحضرت علیؓ کو بنوقریظہ کی طرف روانہ فرمایا۔ شرمندہ ہونےاور معافی مانگنے کے بجائے یہود نے حضرت علیؓ اور ان کے ساتھیوں کو برا بھلا کہا۔ رسول کریمﷺ اورخواتینِ مبارکہ کےمتعلق ناپاک کلمات کہے اور ہرقسم کے معاہدے سے انکار کردیا۔ واپس آکر حضرت علیؓ نے آنحضرتﷺ کو دل آزاری سے بچانے کے خیال سےعرض کیا کہ یارسول اللہﷺ آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں ہم لوگ اس لڑائی کے لیے کافی ہیں۔ حضورﷺ نے فرمایا مَیں سمجھتا ہوں کہ وہ گالیاں دے رہے ہیں اور تم نہیں چاہتے کہ میرے کان میں وہ گالیاں پڑیں۔ موسیٰ نبی تو ان کا اپنا تھا اُس کو اِنہوں نے اِس سے بھی زیادہ تکالیف پہنچائی تھیں۔ جب رسول اللہﷺ اپنے صحابہ کے ہم راہ یہود کے قلعوں پر پہنچے تو وہ قلعہ بند ہوگئے اور مسلمانوں سے لڑائی شروع کردی۔ کچھ دن کے محاصرے کے بعدیہود نے محسوس کیاکہ وہ لمبا مقابلہ نہیں کرسکتےچنانچہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے خواہش کی کہ اوس قبیلے کے سردار اور اُن کے دوست ابولبابہ کو مشورے کے لیے ان کے پاس بھجوایا جائے۔ جب ابولبابہ سے بنوقریظہ نے اس امر پر مشورہ طلب کیا کہ کیا یہود کو اپنا فیصلہ رسول اللہﷺ کے سپرد کردینا چاہیے یا نہیں تو ابو لبابہ نے زبان سے تو اثبات میں جواب دیا لیکن ہاتھ کے اشارے سے گردن پرہاتھ پھیر کر قتل کی علامت ظاہر کی۔گوکہ آنحضورﷺ نے اُس وقت تک اپنا فیصلہ ظاہر نہیں فرمایا تھا لیکن یہود کے جرائم کےپیشِ نظر ابولبابہ کا یہی خیال تھا کہ ان سنگین جرائم کی سزا قتل کے سوا کیا ہوسکتی ہے۔ اگر وہ حضورﷺ کا فیصلہ مان لیتے تو انہیں بھی مدینے کے دوسرے قبائل کی طرح زیادہ سے زیادہ جلاوطنی کی سزا دی جاتی لیکن یہود نے اس کے برعکس فیصلے کا حق اپنے حلیف قبیلےاوس کے سردار سعدبن معاذؓ کےسپرد کردیا۔ اس پر بنوقریظہ میں اختلاف ہوگیا اوربعض اکّادکّا افرادنےمعاہدے کی خلاف ورزی کے سبب جزیہ ادا کرنے یا مسلمان ہونے پر اصرار کیا تاہم بحیثیت قوم یہود اپنی ضد پر قائم رہے۔ رسول اللہﷺ نے بھی ان کے مطالبے کو مان لیا اور سعدؓ بن معاذ کو فیصلہ کرنے کے لیے بلوالیا گیا۔سعدؓ نے بنو قریظہ کے قلعوں کے پاس پہنچ کر سب سے پہلے اپنی قوم سے وعدہ لیا کہ وہ سعدؓ کا فیصلہ قبول کرے گی۔ پھر یہود سے وعدہ لیا اور اس کے بعد نیچی نظروں کے ساتھ اس طرف اشارہ کیا جس طرف رسول اللہﷺ تشریف فرما تھےاور دریافت کیا کہ کیا ادھر بیٹھے ہوئے لوگ بھی وعدہ کرتے ہیں تو آپؐ نے فرمایا ہاں۔

تینوں فریقوں سے وعدہ لینے کے بعد سعدؓ نےمغلوب اقوام کی نسبت بائبل کے حکم کی روشنی میں یہ فیصلہ فرمایا کہ بنو قریظہ کے مقاتل یعنی جنگ جُو لوگ قتل کیے جائیں ۔ان کی عورتیں اور بچے قید کرلیے جائیں اور اُن کے اموال مسلمانوں میں تقسیم کردیے جائیں۔

اس فیصلے سے ظاہر ہے کہ اگر یہود جیت جاتے توبلا تفریق صنف تمام مسلمان قتل کردیے جاتے یا اگر اُن سے بڑی سے بڑی رعایت برتی جاتی تو بھی کتاب استثناء کے فیصلے کے مطابق ان کے تمام مرد قتل کردیے جاتے اور عورتیں، لڑکے اور سامان لوٹ لیا جاتا۔

اس فیصلے کی ذمہ داری رسول اللہﷺ یا مسلمانوں پر نہیں بلکہ موسیٰؑ،تورات اور خودیہودیوں پر ہےجنہوں نے غیر اقوام کے ساتھ ہزاروں برس اسی طرح معاملہ کیا تھا۔آج عیسائی دنیا شور مچاتی ہے کہ محمدﷺ نے ظلم کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ کیا عیسائی مصنف اس بات کو نہیں دیکھتے کہ محمد رسول اللہﷺ نے کسی دوسرے موقعے پر کیوں ظلم نہ کیا۔ سینکڑوں دفعہ دشمن نے اپنے آپ کو محمدﷺ کے رحم پر چھوڑا اور ہر بار آپؐ نے انہیں معاف فرمایا۔ یہ ایک ہی موقع ہے جب دشمن نے اصرار کیا کہ ہم محمدﷺ کے فیصلے کو نہیں مانیں گے ۔ پھر فیصلہ سنائے جانے سے قبل آپؐ سے وعدہ لیا گیا تھا کہ آپؐ اس فیصلے کو قبول کریں گے ۔ایسے میں اگر کسی نے ظلم کیا ہے تو وہ خود یہود ہیں کہ جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔

حضورِانور نے اس واقعے کے متعلق حضرت مرزا بشیراحمد صاحبؓ کی بیان فرمودہ تفاصیل بھی پیش فرمائیں۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بنوقریظہ کی بدعہدی،غداری،بغاوت،فتنہ و فساد اور قتل وخوں ریزی کی وجہ سے خدائی عدالت سے یہ فیصلہ صادر ہوچکاتھا کہ ان جنگ جُو لوگوں کو دنیا سے مٹادیا جاوے۔مگر خداتعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا کہ اس کے رسول کے ذریعے یہ فیصلہ جاری ہو اس لیے اُس نے نہایت پیچ در پیچ غیبی تصرفات سے آنحضرتﷺ کو اس معاملے سے بالکل الگ رکھا اور سعد بن معاذ کے ذریعے اس فیصلے کا اعلان فرمایا۔

فیصلہ سماعت فرمانےکےبعدآنحضرتﷺ نے بنوقریظہ کے مردوں اور عورتوں کو الگ الگ کرنے کا حکم صادر فرمایا۔چنانچہ دونوں گروہوں کو دو الگ الگ مکانوں میں ٹھہرایا گیا اور اُن کے کھانے کے لیے ڈھیروں ڈھیر پھل مہیا کیا گیا۔ دوسرے دن صبح آنحضرتﷺ نے چند مستعد آدمی سعدؓ بن معاذ کے فیصلے کے اجرا کے لیے مقرر فرمائے اور خود بھی قریب ہی ایک جگہ تشریف فرما ہوگئے۔

سعدؓ کے فیصلے کے بعد آنحضرتﷺ کا تعلق اس عمل سے صرف اس قدر تھا کہ اپنی حکومت کے نظام کے تحت آپؐ اس فیصلے کو بصورت احسن جاری فرمادیں۔ پس آپؐ نے رحمت و شفقت کا بہترین نمونہ دکھاتے ہوئے فیصلے کے اجرا سے قبل بنوقریظہ کے قیام کے لیے بہترسے بہتر انتظام فرمایا۔ پھر جب سعدؓ کا فیصلہ جاری کیا جانے لگا تو آپؐ نے ایسے رنگ میں اسے جاری کیا کہ وہ مجرموں کے لیے کم سے کم موجبِ تکلیف تھا۔ آپؐ نے حکم دیا کہ ایک مجرم کے قتل کے وقت کوئی دوسرا مجرم موجودنہ ہو ۔ چنانچہ تاریخ میں لکھا ہے کہ جب مجرموں میں سے کسی کو مقتل میں لایا جاتا تو عین قتل گاہ میں پہنچنے تک اس مجرم کوعِلْم نہیں ہوتا تھا کہ ہم کہاں جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ جس شخص کے متعلق آپؐ کے سامنے رحم کی اپیل پیش ہوئی آپؐ نے اسے قبول کرلیا۔ ایسے افراد کی جان بخشی کے ساتھ اُن کے اموال و نفوس بھی انہیں لوٹا دیے۔

غیرمسلم محققین نےاس واقعے میں مقتولین کی تعداد سو سے لے کر ہزار تک بیان کی ہے جبکہ ہمارے ایک محقق کے مطابق یہ تعداد سولہ سترہ بنتی ہے۔ حضورِانور نے فرمایا کہ معیّن تعداد کیونکہ مذکور نہیں اس لیے ابھی بھی یہ تحقیق طلب چیز ہے۔

اس واقعے سے متعلق جملہ تفاصیل پیش کرنے کے بعد حضورِ انور نے فرمایا کہ حضرت سعد بن معاذ کے ذکر کا کچھ حصّہ باقی رہ گیا ہے جو ان شاء اللہ آئندہ بیان کروں گا۔

خطبے کے دوسرے حصّے میں حضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےچار مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

پہلا ذکر مکرمہ حاجیہ رقیہ خالد صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ غانا کا تھا۔آپ 30؍جون کو 65 برس کی عمر میں وفات پاگئیں۔

إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔

مرحومہ نمازوں کی پابند،خلافت سے بڑا تعلق رکھنے والی،تہجد گزار موصیہ خاتون تھیں۔ پسماندگان میں دو بیٹے، ایک بیٹی اور چار پوتے پوتیاں شامل ہیں۔

دوسرا ذکرِ خیر مکرمہ صفیہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم شیخ مبارک احمد صاحب مرحوم سابق مبلغ سلسلہ افریقہ،انگلستان اور امریکہ کا تھا۔ آپ 27؍جون کو 93 برس کی عمر میں وفات پاگئیں۔

إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔

مرحومہ بےشمار خوبیوں کی مالک، دعاگو اور خلافت سے بےلوث محبت رکھنے والی خاتون تھیں۔ پسماندگان میں مکرم شیخ صاحب مرحوم کی سابقہ اہلیہ سے ایک بیٹی کے علاوہ آپ کی اپنی اولاد میں دو بیٹیاں اور تین بیٹے شامل ہیں۔

تیسرا ذکرِ خیر مکرم علی احمد صاحب ریٹائرڈ معلّم وقفِ جدید کا تھا۔ آپ 18؍جون کو 86برس کی عمر میں وفات پاگئے۔

إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔

مرحوم موصی تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں اور تین بیٹے شامل ہیں۔

چوتھا جنازہ مکرمہ رفیقاں بی بی صاحبہ اہلیہ بشیر احمد ڈوگر صاحب ایدھی پور ضلع نارووال کا تھا۔ آپ 22؍مئی کو وفات پاگئی تھیں

إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ۔

مرحومہ نے پسماندگان میں چھ بیٹے،ایک بیٹی اور پوتےپوتیاں اور نواسے نواسیاں سوگوار چھوڑے ہیں۔

خطبے کے اختتام پر حضورِانور نے فرمایا کہ آج اُن لوگوں کو بھی نمازِ جنازہ میں شامل کروں گا جن کا گذشتہ خطبات میں ذکر کرچکا ہوں۔ ان میں ناصر سعید صاحب،غلام مصطفیٰ صاحب، ڈاکٹر نقی الدین صاحب اسلام آباد، ذوالفقار صاحب مربی سلسلہ انڈونیشیا شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button