متفرق مضامین

یاددہانی: وبائی ایام میں احتیاط اور دعاؤں کی طرف توجہ کریں! (قسط دوم۔ آخری)

(ذیشان محمود)

احمدی مریضوں کے لیے دعا کی تلقین

حضور انور فرماتے ہیں کہ

’’آخر پر مَیں دوبارہ آج کل کی مرض کے حوالے سے یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے بعض احمدی مریض ہیں ان کے لیے بھی دعا کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کو شفائے کاملہ عطا فرمائے اور ہمیں بھی اپنی رضا کی راہوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ صحیح رنگ میں ہمیں عبادت کا اور حقوق العباد کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جلد یہ بلا ہم سے دور فرمائے۔ دنیا کو بھی سمجھ اور عقل دے۔ وہ بھی ایک خدا کو پہچاننے والے بنیں۔ خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے والے بنیں۔ توحید کو جاننے والے بنیں۔ اللہ تعالیٰ سب پر رحم فرمائے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ17؍ اپریل 2020ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 8؍مئی 2020ءصفحہ9)

لاک ڈاؤن کے ایام میں قائم شدہ دینی ماحول جاری رکھنے کی تلقین

احباِبِ جماعت نے لاک ڈاؤن کے ایام میں پنجوقتہ عبادات، جمعہ اور رمضان میں درس وغیرہ کا انتظام گھر پر کیے رکھا اور اس بارے میں پیش آمدہ مسائل پر حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ، ایم ٹی اے اور جماعتی رسائل و جرائد نے احباب کی رہنمائی کی۔ حضور انور نے ان امور کو گھروں میں جاری رکھنے کی بابت ارشاد فرمایا کہ

’’آج کل وائرس کی جو وبا پھیلی ہوئی ہے اس نے حکومتی قانون کے تحت اکثر لوگوں کو گھروں میں بند کر دیا ہے اور اس لحاظ سے یہاں ایک اچھی بات جماعت میں بھی اور بعض جگہوں پہ لوگوں میں بھی پیدا ہو رہی ہے اور ان کو خیال آ رہا ہے۔ لیکن دنیا کے ہر ملک میں جماعت میں خاص طور پر اس طرف توجہ ہے۔ خدام الاحمدیہ کے تحت، والنٹیئرز کے تحت جہاں جہاں لوگوں کوجنس پہنچانے کے لیے یا دوسری سہولیات پہنچانے کے لیے، دوائیاں پہنچانے کے لیے مدد کی ضرورت ہے وہ کر رہے ہیں۔ تو یہ جو حق ادا کیے جا رہے ہیں یہ ایک ایسا نمونہ پیش کر رہے ہیں جس سے اپنے تو فائدہ اٹھا ہی رہے ہیں غیر بھی فائدہ اٹھا کر متاثر ہورہے ہیں۔ پس انسانی خدمت کے لیے یہ سوچ جو آج کل پیدا ہوئی ہے یہ سوچ بھی ہمیشہ ہمارے اندر قائم رہنے والی ہونی چاہیے نہ کہ صرف ہنگامی حالات کے لیے۔

بہرحال اس کے علاوہ روحانی فائدے کیا ہیں؟ لوگ لکھتے ہیں کہ اس وجہ سے ہمارے گھر کا ایک نیا ماحول بن گیا ہے کہ ہم گھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔ نمازیں باجماعت ادا ہوتی ہیں۔ نمازوں کے بعد مختصر درس و تدریس بھی ہوتا ہے۔ خطبہ اکٹھے بیٹھ کر سنتے ہیں اور بعض دوسرے پروگرام ایم ٹی اے پر دیکھتے ہیں۔ اگر یہ لاک ڈاؤن مزید لمبا ہوتا ہے، اگریہ پورے رمضان تک حاوی رہتا ہے تو پھر اس رمضان میں اس طرح باجماعت نمازیں اور درس و تدریس کو مزید توجہ سے ادا کرنے کی ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔ بچوں کو چھوٹے چھوٹے مسائل بھی سکھائیں اور بتائیں۔ جیسا کہ پہلے بھی میں نے ایک خطبے میں کہا تھا کہ اس طرح اپنا علم بھی بڑھائیں اور بچوں کا علم بھی بڑھائیں اور دعاؤں کی طرف توجہ دے کر خاص طور پر اللہ تعالیٰ سے اپنے لیے بھی اور دنیا کے لیے بھی رحم مانگیں۔ پس یہ دن جو اللہ تعالیٰ ہمیں دے رہا ہے اس کا بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس وبا نے عموماً گھروں میں جو ماحول پیدا کر دیا ہے جیسا کہ مَیں نے کہا اس میں مزید بہتری کی طرف ہمیں توجہ دینی چاہیے نہ کہ ان دنیادار گھروں کی طرح ہو جائیں جن گھروں کے بارے میں عموماً آتا ہے کہ گھروں میں لڑائیاں اور فساد بڑھ گئے ہیں اور بے چینیاں بڑھ گئی ہیں۔ ایک نیک ماحول میں تو اس نیکی کی وجہ سے جس کے کرنے کی طرف ہمیں توجہ دلائی گئی ہے ہمارے ماحول بہتر ہونے چاہئیں۔ بعض دفعہ مرد اس ماحول کا مکمل حصہ نہیں بنتے جو ایک دینی ماحول گھروں میں پیدا ہو رہا ہے اور بعض دفعہ عورتیں اپنی ترجیحات مختلف رکھتی ہیں۔ ایسے لوگوں کو یہ ادراک ہی نہیں ہے کہ ایسے حالات میں کس قدر اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے اور اس کی رضا حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور یہی وہ وقت ہے جب بچوں کو بھی زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کے قریب لایا جا سکتا ہے۔ پس ان دنوں میں ہمارے ہر گھر کو، ہمارے ہر احمدی گھر کو ان دنوں میں اس طرف بہت توجہ کرنے کی ضرورت ہے تا کہ ہم زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کا پیار جذب کر سکیں اور انجام بخیر ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تقویٰ کی حقیقت کو سمجھنے کی اور اس پر کاربند ہونے کی توفیق عطا فرمائے….۔

وبائی ایام میں روزہ سے متعلق اپنی حالت کے مطابق فیصلہ کیا جائے!

آج کل وائرس کی بیماری کی وجہ سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ گلا خشک ہو جائے گا۔ بیماری کا زیادہ امکان بڑھ جائے گا تو روزہ رکھیں یا نہ رکھیں۔ مَیں اس بارے میں کوئی عمومی فتویٰ یا فیصلہ نہیں دیتا۔ مَیں یہی عموماً لکھتا ہوں کہ تم لوگ اپنی حالت دیکھ کر خود فیصلہ کرو اور پاک دل ہو کر، تقویٰ پر قائم رہتے ہوئے اپنے دل سے فتویٰ لو۔ قرآن کریم کی واضح ہدایت ہے کہ مریض ہو تو نہ رکھو۔ مریض ہونے کے امکان پر کہ مریض بن جائیں گے روزہ چھوڑنا یہ غلط ہے۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ پھر تو ایک عذر سے دوسرا عذر اور ایک بہانے سے دوسرا بہانہ بنتا چلا جائے گا۔ اگر کوئی کہے کہ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ مشکل ہو سکتی ہے تو مَیں نے مختلف ماہرین، ڈاکٹروں سے رائے لی ہے۔ ان کی، ڈاکٹروں کی اپنی رائے میں بھی اختلاف ہے۔ بعض ماہرین نے واضح لکھا کہ یہ کوئی یقینی بات نہیں ہے کہ روزے سے بیماری ضرور آئے گی۔ ہاں اگر آثار ظاہر ہوں، کھانسی یا ہلکا بخار بھی ہو تو روزہ چھوڑدیں یا کوئی اور symptom دیکھیں تو روزہ چھوڑ دیں۔ اگر رکھا ہوا ہے تو توڑ دیں۔ ڈاکٹروں میں سے بھی جو اس بات کا رجحان رکھتے ہیں کہ نہیں رکھنا چاہیے یا بعض شرطیں ایسی عائد کرتے ہیں جس کا آخر میں نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ نہ رکھو تو بہتر ہے۔ وہ بھی واضح رائے نہیں رکھتے۔ ڈراتے بھی ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ خوراک کا خیال رکھ کر پھر رکھے جائیں۔ اب جو غریب لوگ ہیں وہ کس حد تک خوراک کس چیز کا خیال رکھیں۔ بہرحال مختلف آراء دیکھ کر تو یہی رائے قائم ہوتی ہے کہ روزہ رکھنے میں ہرج نہیں ہے۔ ہاں اگر ہلکا سا بھی شبہ ہے تو فوراً روزہ ترک کر دیں۔ بعض کا خیال ہے کہ جس گھر میں مرض ہے اور خود وہ شخص چاہے صحت مند بھی ہو تو وہ بھی روزہ نہ رکھے لیکن دوسرے ڈاکٹر کی رائے ہے کہ اس کا کوئی جواز نہیں ہے۔ بہرحال روزہ کھولتے ہوئے اور رکھتے ہوئے پانی کا استعمال کرنا چاہیے اور جو زیادہ فکر مندہیں اپنے بارے میں اور affordبھی کر سکتے ہیں وہ ایسی خوراک بھی کھا لیں جو پانی کو زیادہ دیر تک جسم میں ریٹین (retain) رکھ سکتی ہے۔ بہرحال جب ڈاکٹروں کی رائے میں اختلاف ہے جس میں امریکہ کے ڈاکٹر بھی شامل ہیں اور جرمنی کے بھی اور یہاں کے بھی تو پھر یہ بھی ہمیں دیکھنا چاہیے کہ بلا وجہ روزہ چھوڑنا کہیں اس زمرے میں نہ آجائے جس کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ تکیہ کرتے ہیں۔ ہاں احتیاط لازمی ہے۔ بعضوں کی پانی کی requirement ویسے ہی کم ہوتی ہے عموماً پانی نہیں پیتے۔ روزے بھی رکھتے ہیں عموماً حالات میں بھی نہیں پیتے۔ ہمارے ایک بزرگ ہوتے تھے چودھری نذیر صاحب۔ وہ گرمیوں میں سارا دن پھرتے رہتے تھے۔ بہت تھوڑا سا پانی کبھی پیا کبھی نہ پیا اور ہم آتے ہی پانی کی طرف جھپٹتے تھے لیکن ان سے مَیں نے کئی دفعہ پوچھا۔ کہتے تھے میری پانی کی requirement ہی کم ہے۔ بہرحال مختلف طبائع بھی ہوتی ہیں۔ ان حالات میں کس حد تک اس کا خیال رکھنا چاہیے یہ بہرحال اپنی اپنی حالتیں اور طبیعتیں دیکھ کر ہر کوئی فیصلہ کرے۔ اپنے ضمیر سے فتویٰ لے۔ اور اللہ تعالیٰ سے توفیق مانگتے ہوئے روزہ رکھنے کے لیے دعا کریں اور دعائیں بھی ان دنوں میں بہت زیادہ کریں کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کو عقل بھی دے۔ خدا تعالیٰ کو پہچاننے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس وبا کو دنیا سے جلد ختم کرے۔ دنیا پر رحم فرمائے اور ہم بھی، احمدی بھی تقویٰ پر چلتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کا حق ادا کرنے والے ہوں اور رمضان کی برکات سے بھرپور فائدہ اٹھانے والے ہوں۔ یہ بھی یاد رکھیں آج کل دنیا کے جو حالات ہو رہے ہیں جب ایسی وبا کی وجہ سے دنیا کے معاشی حالات بھی انتہائی خراب ہو چکے ہیں۔ جب ایسے معاشی حالات آتے ہیں جیسے آج کل ہیں تو پھر جنگوں کے امکان بھی بڑھ جاتے ہیں۔ بہت سے تجزیہ نگار اس طرح کی باتیں بھی کر رہے ہیں اور پھر دنیادار حکومتیں اپنے مفادات کے حل دنیاوی حیلوں سے تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور اپنے عوام کی توجہ بٹانے کے لیے ایسی باتیں کرتی ہیں جو پھر مزید مشکلات میں ان کو ڈالنے والی ہوں۔ پھر مزید تباہی میں یہ لوگ چلے جاتے ہیں اور جیسا کہ میں نے کہا تبصرہ کرنے والے بھی اس رنگ میں کرنے لگ گئے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ بڑی طاقتوں کو بھی عقل دے کہ وہ بھی عقل سے کام لیں اور کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے دنیا میں مزید فساد پیدا ہو اور دنیا میں مزید تباہی آئے۔ اب تو کُھلے طور پر اخباروں میں بھی آنے لگ گیا۔ تبصرہ نگار بھی کہنے لگ گئے ہیں۔ امریکہ نے ایران کو دھمکی دی، چین پر الزام لگائے جا رہے ہیں کہ اس نے صحیح اطلاع نہیں دی۔ اس پر مقدمے ہونے چاہئیں۔ اس کے ساتھ یہ سلوک ہونا چاہیے۔ ہم یہ کر دیں گے۔ ایران کے ساتھ ہم یہ کر دیں گے۔ بہرحال امریکہ کی حکومت کو بھی عقل کرنی چاہیے۔ باقی حکومتوں کو بھی عقل کرنی چاہیے اور ان حالات میں بجائے اس کے کہ کوئی غلط قدم اٹھا کر دنیا کو مزید تباہی کی طرف لے کے جائیں صحیح سوچ کے ساتھ، صحیح پلاننگ کر کے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اس کی طرف جھکتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس وبا سے بچنے کے لیے دعائیں کریں اور کوشش کریں اور اس بیماری کے علاج کے لیے جو بھی سائنس دان کوشش کر رہے ہیں ان کی مدد کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دعاؤں کی توفیق دے۔ اپنی حالتوں کو بہتر کرنے کی توفیق دے اور دنیا کو، دنیاوی بڑی حکومتوں کو عقل سے اپنی پالیسیاں بنانے اور آئندہ کے لائحہ عمل بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ24؍ اپریل 2020ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل لندن 15؍مئی 2020ءصفحہ6تا9)

حکومتی ہدایات پر عمل اور عبادات جاری رکھنے کی تلقین

حضورانور نے احبابِ جماعت کو تاکیداً نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

’’آج کل ہم جس حالت سے گزر رہے ہیں اس میں خاص طور پر خدا تعالیٰ کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے۔ یوکے سے بھی رپورٹیں آرہی ہیں اور باقی ممالک سے بھی یہ رپورٹس آ رہی ہیں کہ ان حالات میں احبابِ جماعت کو اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے کی بہت توجہ پیدا ہوئی ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھروں میں خاص طور پر گھر والے مل کر نماز باجماعت کا اہتمام کرتے ہیں۔ درس و تدریس بھی ہوتا ہے۔ کسی نہ کسی کتاب، حدیث اور قرآن کا درس بھی ہوتا ہے جس سے بڑوں کا علم بھی بڑھ رہا ہے اور بچوں کو بھی دینی علم سے آگاہی ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ پر ایمان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا کہ اس عرصے میں رمضان بھی آ گیا اور لوگوں کی عبادت کی طرف جو توجہ پیدا ہو رہی تھی اس میں پہلے سے بڑھ کر اضافہ ہوا۔ اب یہ رمضان تو ختم ہو رہا ہے اور اسی طرح کچھ حد تک لاک ڈاؤن پر بھی مختلف حکومتیں پابندیاں نرم کرنے کا ارادہ کررہی ہیں۔ بعض حکومتیں کر بھی چکی ہیں۔ بعض جگہ یہ نرمی پیدا ہو گئی ہے۔ ایک بات تو مَیں یہ کہنا چاہوں گا کہ پابندیوں پر نرمی کے ساتھ جو حکومت نے شرائط لگائی ہیں ان پر ہر احمدی کو کاربند ہونے کی کوشش کرنی چاہیے لیکن سب سے بڑی بات اور اہم چیز جو ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنی چاہیے یہ ہے کہ کاروباروں کی اجازت اور باہر نکلنے کی نرمی اور پھر رمضان کے مہینے کا گزر جانا کسی احمدی کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور جو نیکیاں انہوں نے اپنائی تھیں انہیں ختم کرنے والا یا ان میں کمی کرنے والا نہ بنائے بلکہ ان نیکیوں کو اور باجماعت نمازوں کو جب تک مسجد میں جانے پر پابندی ہے گھروں میں جاری رکھنا اور جب مسجد جانے کی اجازت مل جائے گی تو مسجد کو آباد رکھنا اپنے پر پہلے سے بڑھ کر فرض کریں۔ عورتیں گھروں میں نمازوں کا خاص اہتمام کریں تا کہ بچے بھی اپنے سامنے نمونے دیکھنے والے ہوں۔ ان کا بھی خدا تعالیٰ پر ایمان اور یقین بڑھے۔ گھروں میں درس و تدریس کا چند منٹ کے لیے سلسلہ جاری رہے تا کہ دینی علم بھی بڑھے اور علم و معرفت بھی بڑھے۔ اسی طرح ایم ٹی اے کے پروگراموں کو دیکھنے کی طرف بھی توجہ رکھیں۔ پہلے بھی مَیں اس بارے میں کہہ چکا ہوں۔

پس نہ لاک ڈاؤن کے بعد اور نہ ہی رمضان کے بعد ان نیکیوں کو ہم میں سے کسی کو بھولنا چاہیے بلکہ جاری رکھنا چاہیے۔ کبھی کسی احمدی کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آ کر اپنے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کا عہد کرتا ہے اپنے عہدِ بیعت کو بھولنا نہیں چاہیے۔ مومن کا یہ کام نہیں کہ کبھی ان لوگوں میں شامل ہو جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مشکل میں گرفتار ہوں تو اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتے ہیں، اس کی پناہ میں آنے کی کوشش کرتے ہیں، اس سے مدد مانگتے ہیں، اسے پکارتے ہیں اور جب تکلیف دور ہو جائے تو خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں۔

کورونا وائرس طبعی حادثہ یا عذابِ الٰہی

آج کل لوگ اس تلاش میں ہیں کہ یہ کورونا وائرس کی بیماری طبعی حادثہ ہے یا عذابِ الٰہی ہے۔ اس قسم کی آفات اور وبائیں جو آتی ہیں ان میں ایک مومن کا کام ہے کہ پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی طرف جھکے۔ صرف اسی کی تلاش میں نہ رہے کہ یہ کیا چیز ہے؟ اور یہ زمانہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ بےشمار وعدے ہیں جو پورے ہوئے اور ہو رہے ہیں اور آئندہ بھی ہوں گے۔ اگر کوئی انذاری پہلو رکھنے والی باتیں ہیں تو سب سے پہلے ایک مومن کا کام ہے کہ لرزاں و ترساں ہو۔ خوفزدہ ہو اور اپنے ایمان و ایقان کو مضبوط کرے۔ اپنے اچھے انجام کے لیے دعا کرے۔ اصل چیز یہی ہے کہ انجام بخیر ہو۔ مَیں نے کئی مرتبہ بتایا ہے کہ یہ آفات اور طوفان اور بلائیں جو اس زمانے میں آ رہی ہیں ان کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے سے خاص تعلق ہے۔ پس ہمیں اپنے ایمان و ایقان اور انجام بخیر کے لیے بھی بہت دعائیں کرنی چاہئیں اور دنیا کے بچانے کے لیے بھی دعائیں کرنی چاہئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس وقت بھی جب اللہ تعالیٰ نے طاعون کو نشان کے طور پر ظاہر ہونے کی آپؑ کو واضح خبر دی تھی بے چین ہو ہو کر دنیا کے لیے دعا کیا کرتے تھے۔ بند دروازوں کے پیچھے سے آپؑ کی دعاؤں کی حالت کو سننے والے بیان کرتے ہیں کہ اس طرح شدتِ گریہ کی آوازیں آ رہی ہوتی تھیں جیسے کہ آگ پر رکھی ہوئی ہنڈیا میں پانی کے ابلنے کی آوازیں آتی ہیں کہ انسانیت کو اللہ تعالیٰ بچا لے۔

(ماخوذ از خدا تعالیٰ دنیا کی ہدایت کے لیے ہمیشہ نبی مبعوث فرماتا ہے، انوار العلوم جلد 18 صفحہ 514)

(ماخوذ از رجسٹر روایات (غیر مطبوعہ) جلد 7 صفحہ 107 روایات حضرت ماسٹر محمد اللہ داد صاحبؓ)

پس انسانیت کے لیے آپؑ کا رحم اور شفقت اللہ تعالیٰ کے آپؑ کو نشان کے بتانے کے باوجود غالب تھا اور ان کے اس بیماری کی تباہی سے بچنے کے لیے، اس وبا کی تباہی سے بچنے کے لیے آپؑ دعا کر رہے ہوتے تھے۔ پس بڑے درد سے دعا کر رہے ہوتے تھے۔ پس ہم نے بھی آپؑ کے اس نمونے کو دیکھنا ہے۔

وباؤں میں مومن کا مقام شہید کا ہوتا ہے

بعض لوگ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ایک مضمون ’’حوادث طبعی یا عذاب الٰہی‘‘ کو لے کرآج کل جو وائرس کی وبا پھیلی ہوئی ہے اس سے ملانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے تبصرے بھی کرتے ہیں۔ واضح ہو کہ جیسا کہ مَیں کہہ چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے کے بعد آفات اور بلاؤں کی تعداد بڑھی ہے اور اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے واضح فرمایا ہوا ہے کہ یہ آئیں گی اور تباہیاں آئیں گی۔ اس میں تو کوئی شک نہیں لیکن جیسا کہ مَیں گذشتہ خطبات میں بیان کر چکا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بھی فرمایا ہے کہ بعض ایمان والے بھی قانونِ قدرت کے تحت اس کی لپیٹ میں آجاتے ہیں لیکن ان کا مقام شہید کا ہوتا ہے اور ان کا انجام بخیر ہوتا ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 9 صفحہ 252)

اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق بھی ان کا انجام انہیں جنت میں لے جانے والا ہوتا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس جنازے پر لوگ اس شخص کی تعریف کریں، اس کی خدمات کی تعریف کریں، اس کے حقوق العباد اور حقوق اللہ کی ادائیگی کی گواہی دیں اور تعریف کریں اس پر جنت واجب ہو جاتی ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الجنائز باب فیمن یثنی علیہ خیر او شر من الموتیٰ حدیث 949)

اور ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سارے لوگ ہیں، بعض ایسے احمدی مخلصین ہیں جن کے بارے میں ہر ایک کے یہی تأثرات تھے لیکن ان وباؤں کے اثرات کو دیکھنے والی جو اصل چیز ہے وہ یہ ہے کہ اس سے عمومی طور پر دنیاداروں پر کیا اثر ہو رہا ہے۔ دنیاداروں کے تو ہوش و حواس گم ہو رہے ہیں اور ہوتے ہیں اور آج کل یہ دنیا میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ کس طرح ان کی حالت ہو چکی ہے۔ نہ صرف لوگوں کی بلکہ بڑی بڑی حکومتوں کی، بڑے بڑے پہاڑوں کی، حکومتیں جو اپنے آپ کو پہاڑوں کی طرح مضبوط سمجھتی ہیں۔ ان بڑی بڑی مضبوط حکومتوں کی معیشتیں اور نظام درہم برہم ہو گئے ہیں اور اس کے اثر سے اپنے عوام کی توجہ پھیرنے کے لیے جو کوشش وہ کر رہے ہیں وہ اَور بھی زیادہ خطرناک ہے۔ وہ ان کو جنگ اور معیشت کی مزید تباہی میں دھکیل دے گی۔ پس جب تک یہ لوگ اپنے اندر ایسی تبدیلی پیدا نہیں کریں گے جس سے فسادوں کی کیفیت دور نہ ہو تو ایک کے بعد دوسری تباہی میں یہ لوگ خود ڈوبتے چلے جائیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی یہی فرمایا ہے کہ مسلمان ہونا یا مذہبی غلطیوں کا نہ ہونا یا مذہبی غلطیوں کا جو مؤاخذہ ہے یہ تو قیامت کے دن ہے، اللہ تعالیٰ اس وقت دیکھے گا لیکن فتنہ و فساد اور حقوق غصب کرنا اور خدا کے بندوں کا استہزا ءکرنا یہ بے چین کرنے والی تباہیاں لاتا ہے۔

(ماخوذ از کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 5)

بہرحال ہمارا کام دعا کرنا اور دنیا کو سمجھانا اور اپنی حالتوں کو پاک بنانا ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے جس مضمون کی میں نے بات کی ہے وہ لمبا مضمون ہے لیکن ہر احمدی کو جس بات کی طرف توجہ دینی چاہیے اس مضمون کے پڑھنے سے وہ صرف یہ نہیں کہ پہلی قوموں کے ساتھ کیا ہوا یا اب کیا ہوگا یا کیا ہو رہا ہے اور کیا تباہی ہے اور کیا نہیں۔ یقیناً یہ باتیں بھی خوفزدہ کرنے والی ہونی چاہئیں۔ اپنی حالتوں کی طرف توجہ دینے والی ہونی چاہئیں لیکن جو اصل بات ہے جو الفاظ قابلِ غور ہیں وہ یہ ہے جو کہ آپؒ نے لکھا ہوا ہے کہ جماعت احمدیہ کے لیے اس میں تنبیہ اور بشارت بھی ہے۔

تنبیہ یہ کہ صرف احمدیت کا عنوان بچانے کے لیے کافی نہیں ہو گا بلکہ تقویٰ کی شرط بھی ساتھ لگی ہوئی ہے اور بشارت کا پہلو یہ ہے کہ جماعت میں جو عملی کمزوریاں آ چکی ہوں گی بڑی تیزی کے ساتھ ان کی اصلاح کی کوشش احمدی کرے گا۔ پس خلاصہ یہ کہ جنہوں نے بیعت کا صرف نام لگایا ہوا ہے، ایک لیبل (label)ہے وہ آپؑ کی پاک تعلیم کی طرف لوٹیں گے تو پھر ہی بچت ہے اور خدا کی طرف یہ لوٹنا ہی ان کے لیے بشارت ہے ورنہ کوئی بشارت نہیں۔

(ماخوذ از حوادث طبعی یا عذاب الٰہی صفحہ 121)

حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ

اور جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ ان دنوں میں جو خاص توجہ پیدا ہوئی ہوئی ہے اسے اب قائم رکھیں اور خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائیں کیونکہ دنیا کی تباہی کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف جب دنیا کی نظر ہو گی، توجہ ہو گی، حقوق کی ادائیگی کی طرف جب نظر ہو گی تو پھر لوگ جماعت کی طرف ہی دیکھیں گے، پھر احمدی ہی ہوں گے جو دنیا کی صحیح رہ نمائی کر سکیں گے لیکن اس سے پہلے ہمیں درد کے ساتھ یہ دعا کرنی چاہیے کہ وہ نوبت ہی نہ آئے جب دنیا اس حد تک آگے چلی جائے کہ وہاں سے روشنی اور امن کی طرف آنے کے راستے ہی بند ہو جائیں۔ اس سے پہلے ہی لوگوں کی نظر اس طرف پھر جائے۔ پس ہمیں دعاؤں کے ساتھ اپنے نمونے بھی دکھانے کی ضرورت ہے، دنیا کو بتانے کی ضرورت ہے کہ ایک دوسرے کے حق ادا کر کے ہی تم اللہ تعالیٰ کے رحم کو حاصل کر سکتے ہو اور خدا تعالیٰ جو واحد خدا ہے اس کا رحم حاصل کیے بغیر نہ دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے ہماری کوشش کامیاب ہو سکتی ہے اور نہ مرنے کے بعد انجام بخیر ہو سکتا ہے۔

ایک دہریہ عورت کا واقعہ

اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان دنوں میں جہاں جماعت کے افراد عبادتوں کی طرف توجہ دے رہے ہیں وہاں نوجوان بھی اور صحت مند انصار بھی اور لجنہ بھی خدمت خلق کے کام بھی کر رہے ہیں۔ اس بارے میں بھی ہر جگہ سے بڑی اچھی رپورٹس آرہی ہیں۔ یہ خدمت خلق بعض بھٹکے ہوؤں کو، دنیا داروں کو راستے دکھانے کا بھی باعث بن رہی ہے۔

گذشتہ دنوں کینیڈا کی رپورٹ تھی کہ ایک عورت نے رات دو بجے خدام کی جو ہمسایوں کی ہیلپ لائن (helpline)ہے اس کو ہر جگہ سے مایوس ہو کر فون کیا کہ یہ میری مجبوری ہے، میرا لڑکا بیمار ہے اور دوائی حاصل کرنے کے تمام راستے بند ہو چکے ہیں، ہر جگہ سے انکار ہو گیا ہے۔ وہ کہتی تھی سب نے یہی کہا ہے کہ صبح سے پہلے نہیں مل سکتی اور اس کی بہت بری حالت ہے۔ وہ کہتی ہے کہ میں نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں خدا ہے۔ گو میں خدا کو نہیں مانتی چلو آج آزماتے ہیں۔ کہتی ہے میں نے انتہائی کرب اور اضطرار کی حالت میں کہا کہ اے خدا ! اگر تُو ہے تو میرا بیٹا اس بری حالت میں ہے اس کی دوائی کا انتظام کر دے اور ساتھ ہی کہتی ہے کہ مجھے خدام کی ہیلپ لائن (helpline)کا بھی خیال آیا۔ فون کیا تو کسی آدمی نے فون اٹھایا۔ اسے اپنی ضرورت بتائی تو اس نے کہا کوشش کرتا ہوں۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر اسی شخص کا فون آیا کہ اس وقت رات کے دو بجے ہیں انتظام مشکل ہے۔ اس شخص نے کہا کہ تمہارے لڑکے کی حالت کیا ہے؟ میں نے پھر ساری صورتِ حال بتائی اور بڑی بے چینی کا اظہار کیا تو اس نے کہا اچھا مَیں خود جاکے دیکھتا ہوں، کسی جگہ جا کے دیکھتا ہوں۔ ایک فارمیسی فلاں جگہ پہ کھلی ہوتی ہے۔ اگر کھلی ہوئی تو دوائی لے آتا ہوں۔ وہ رات کو اٹھ کے گیا۔ کہتی ہے اس کو جب میں نے جگایا تھا تو وہ نیند کی حالت میں تھا لیکن پھر بھی وہ پچاس کلومیٹر کا سفر کر کے گیا اور مجھے دوائی لا کر دی۔ اس بات سے مجھے خدا کے ہونے کا یقین آ گیا اور یہ یقین احمدی خادم کی وجہ سے مجھے ملا اور میں اس کے لیے شکرگزار ہوں۔

پس ان دنوں میں ہم خدمتِ انسانیت کر کے بندوں کو خدا کے قریب لانے کا بھی ذریعہ بن سکتے ہیں اس کے لیے ہم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہیے۔ نہ یہ کہ یہ دیکھتے رہیں کہ تباہی آتی ہے یا نہیں آتی۔ اور پھر رمضان میں جو سبق ہمیں دوسروں کی تکلیف کا احساس کرنے کا ملا ہے اسے بھی جاری رکھنا چاہیے کہ ہمیشہ دوسروں کی تکلیف کا احساس کرتے رہیں کیونکہ رمضان کے مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ احساس دلایا جائے کہ دوسروں کی تکلیف کا احساس کرو۔

انسانیت کے لیے بھی ذمہ داریوں کو نہیں بھولنا چاہیے

پس ایک دنیا کا ماحول جو عمومی طور پر اس وبا کی وجہ سے بنا ہوا ہے اور ایک رمضان کا ماحول اب ہمیں ہمیشہ اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانے والا بنا رہنا چاہیے۔ رمضان تو کل یا پرسوں چلا جائے گا، ختم ہو جائے گا لیکن اس کی نیکیاں ہمیں ہمیشہ اپنے اندر رکھنی چاہئیں۔ وہ پاک تبدیلیاں جو ہم نے کی ہیں وہ ہمیشہ اپنے اندر رکھنی چاہئیں اور پھر جب لاک ڈاؤن میں نرمی آئے تو ہمیں اپنی ذاتی بھی اور انسانیت کے لیے بھی ذمہ داریوں کو نہیں بھولنا چاہیے۔ ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے جہاں خود اللہ تعالیٰ کا حق اور بندوں کا حق ادا کرنے کی طرف توجہ دیں وہاں دوسروں کو بھی اس طرف توجہ دلاتے رہیں اور اپنے پاک نمونوں سے دنیا کو خدا تعالیٰ اور اس کی مخلوق کے حقوق ادا کرنے والا بنانے کی کوشش کریں۔ ہم نے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانا ہے۔ آپؑ کی کوئی مجلس ایسی نہیں ہوتی تھی جہاں آپ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی روشنی میں ہمارے مقام و معیار کی طرف توجہ دلانے کی کوشش نہ فرماتے ہوں۔

پس ہمیں ہر وقت آپ کی نصائح کی جگالی کرتے رہنا چاہیے تا کہ حقیقی ایمان و ایقان ہمیں حاصل ہو۔ دوسروں کی کمزوریوں کی طرف نظر رکھنے کی بجائے ہم اپنی حالتوں کا جائزہ لیتے رہیں‘‘۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍مئی 2020ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 12؍جون 2020ءصفحہ5تا7)

ابراہیم اخلف صاحب کو اہم ہدایات

حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ نے 7؍ اپریل 2020ء کو مکرم ابراہیم اخلف صاحب واقف زندگی کو فون پر درج ذیل ہدایات دیں۔ ابراہیم صاحب کورونا وائرس کے شدید حملہ کے بعد رو بصحت ہوئے۔ حضور انورایدہ اللہ کے فون کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ

’’حضورِ انور نے پھر میری اور میرے بچوں کی صحت کے بارے میں دریافت فرمایا۔ پھر حضور نے فرمایا:’’دیکھیں! خلیفۂ وقت کی تمام ہدایات پر عمل کرنا چاہیے۔ میں نے آپ کو بھی اور جمعے کے خطبے میں بھی کہا تھا کہ اپنی نیند پوری کرنی چاہیے۔ اگر آپ چھ گھنٹے نیند لیں گے تو پہلے کی نسبت کہیں زیادہ محنت سے کام کر سکیں گے۔ ‘‘

پھر حضور نے مجھ سے پوچھا کہ کیا بیماری کی وجہ سے میرا وزن کم ہوا ہے۔ میں نے عرض کیا: ’’جی حضور۔ ‘‘

اس کے بعد حضورِ انور ایک شفیق والد کی طرح فرمانے لگے کہ ’’تمہیں اپنا وزن کم کرنا چاہیے، ناشتے میں cereal کھانا چاہیے، دوپہر کا کھانا کم اوررات کا کھانا مناسب (main meal)کھانا چاہیے، بشرطیکہ کھانے اور سونے میں کم از کم دو سے تین گھنٹہ کا وقفہ ہو۔ ‘‘

نیزحضورِ انور نے نصیحت فرمائی: ’’ورزش کیا کریں، دوڑ لگائیں، چھلانگیں لگائیں۔ ‘‘

پھرحضور ِ انور نے ازراہِ شفقت فرمایا:’’اپنے پیٹ کو گیند کی طرح پھولنے نہ دینا۔ ‘‘

اس پر میں بے اختیار ہنس پڑا۔ صاف محسوس ہوتا تھا کہ حضورِ انور بھی یہ فرماتے ہوئے تبسم فرما رہے تھے…۔ حضورِ انور نے مزید نصیحت فرمائی کہ ’’سپینش فلو کے دوران حضرت مصلح موعودؓ کے تجویز شدہ قہوے کا استعمال جاری رکھیں۔ ‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 15؍مئی 2020ءصفحہ21)

خاکسار اس ضمن میں عابد وحید خان صاحب کی ڈائری کا بھی ذکر کرنا چاہتا ہے جس میں انہوں نے حضور انور کی جانب سے دی گئی ہدایات درج کی ہیں۔ درج ذیل لنک سے اس ڈائری کو پڑھا جا سکتا ہے۔

https://www.pressahmadiyya.com/wp-content/uploads/2020/06/COVID-19-Lockdown-.pdf

حضورِاقدس کے پیغام کی مطابقت میں حرکت کریں!

پاکستان میں بعض لوگ کورونا کو ایک ڈرامہ قرار دیتے ہیں۔ ان لوگوں کا ان علاقوں سے تعلق ہے جو ابھی وبا سے محفوظ ہیں۔ یا وہ خود یا ان کے عزیز محفوظ ہیں۔ ایسے لوگ حکومتی ہدایات یا شخصی ہدایت کو بھی کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ اس بارہ میںخاکسار ڈاکٹرفہیم یونس صاحب آف امریکہ کے ایک انٹرویو کا یہ حصہ پیش کرنا چاہتا ہے۔ 29؍ مارچ 2020ء کو ایک انٹرویومیں ڈاکٹر صاحب نے کورونا وائرس کے بارے میں اس مادی دنیا کی حقیقت کے پیشِ نظر دنیا میں بسنے والے لوگوں کے ردِ عمل کا اظہاراِن الفاظ میں کیا:

’’حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہر ہفتے ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے، ہمارے لیے کیا مفید ہے۔ اور چاہے آپ اس بات سے اتفاق کریں یا نہ، لیکن( ان کی نصیحتوں پر) ہم سب ایک دوسرے سے مختلف قسم کا ریسپانس دیتے ہیں، ردِ عمل ظاہر کرتے ہیں تویہاں بھی مختلف رنگ (Spectrum) دکھائی دیں گے۔

چنانچہ کچھ تو ایسے ہونگے جو ان کی نصائح کے عین مطابق خود کوڈھال لیں گے، جبکہ ان کے بالمقابل دوسرے کنارے پر ایسے لوگ ہونگے جو اپنی زندگیوں کو جوں کا توں ہی رکھیںگے۔

میری خواہش بھی ہے اورامید بھی کہ ہم سب بطورایک جماعت حضورِاقدس کے پیغام کی مطابقت میں حرکت کریں، خواہ یہ حرکت ایک انچ کی ہو یا ایک میل کی۔

میں ہروقت سیدنا حضورانورکی ایک مجلس سوال وجواب کے بارے میں سوچا کرتا ہوں جس میں آپ نے اس فکر کا اظہارفرمایا تھا کہ جب وہ انقلابی لمحہ (Breakthrough) آئے گا جب لوگ خدا تعالیٰ کی تلاش میں نکل پڑیں گے تو کیا ہم نے بھی اس وقت کے لیے خود کو تیارکرلیا ہوگا؟

پس ہوسکتا ہے کہ یہ (کورونا) ہمیں بیدارکردے اورہم اس ( Breakthrough) کے لیے تھوڑی سی تیاری اورکرلیں۔ بس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں۔ ‘‘

(الفضل انٹرنیشنل17؍اپریل 2020ءصفحہ18)

پس بحیثیت جماعت ہمارا فرض ہے کہ ہم زمانے کے امام کی آواز پر لبیک کہیں اور دعاؤں اور عبادات کی طرف توجہ دیں۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد قائم کرنے والے بنیں۔ اور حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ کی تمام نصائح و ہدایات پر عمل کرنے والے ہوں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. بہت عرق ریزی اور محنت سے مرتب کیا گیامضمون ہے ماشاءاللہ۔۔ بالخصوص آخر میں ڈاکٹر فہیم یونس صاحب کے پیغام کو شامل کرکے آپ نے بہت اچھا کیا۔ ان کی بات ہم احمدیوں کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ ہمیں کیوں احتیاط کرنی چاہیے اور کیوں اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنی چاہیے۔

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button