تاریخ احمدیت

11 اور 12 جولائی 1924ء کے تاریخی دن حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی قادیان سے تاریخی سفر یورپ پر روانگی

قدرتِ ثانیہ کے دوسرے مظہر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ نے1924ء میں ویمبلے لندن میں منعقد ہونے والی کانفرنس مذاہب عالم میں شرکت کی غرض سے سفرِیورپ اختیار فرمایا۔ اس دورے کے لیے حضورؓ کا قافلہ 12؍ جولائی کو قادیان سے روانہ ہوا۔ قافلے کی روانگی کا کچھ احوال تاریخ کے اوراق سے پیش ہے۔

سفر یورپ کے لیے تیاری

اس عظیم الشان سفر کی مناسبت سے جتنی جلدی تیاری ہوئی شائد ہی اس کی مثال پہلے دنیا میں کہیں ملتی ہو۔ چھ ہزار میل کا سفر اور صدیوں کی تبلیغ کے لئے سکیم بنانے کی تجویز اور حالت یہ کہ سفر کے شروع ہونے تک حضور کو کسی امر کے سوچنے کے لئے یکسوئی کے لمحات میسر نہیں آسکے۔9-10 جولائی 1924ء کی رات کے گیارہ بجے کانفرنس والا مضمون ہی بمشکل ختم ہوا اور12جولائی حضور کی روانگی کی تاریخ تھی۔ اس لحاظ سے 10 اور 11 جولائی کے صرف دو دن فراغت کے مل سکے۔ جن میں حضور نے اپنے بعد قادیان میں انتظام کا فیصلہ کیا۔ لائبریری میں سے ضروری کتابیں نکلوائیں اور دوسرے لوگوں کی مستعار کتابیں واپس کیں۔

11جولائی 1924ء کا مصروف ترین دن

11جولائی1924ء کے دن حضور کی مصروفیت انتہا تک پہنچ گئی۔ حضور صبح کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر دعا کے لئے تشریف لے گئے۔ حضور نے مزار کے مشرقی دروازہ میں کھڑے ہو کر دیر تک دعا فرمائی پھر جنوب کی طرف موضع ننگل میں سے ہوتے ہوئے موضع کاہلواں کے پاس سڑک تک گئے اور دوسرے رستہ پر لَوٹ کر دوبارہ مقبرہ بہشتی میں پہنچے اور مزار اقدس پر دوبارہ دعا فرمائی۔ اس وقت بھی حضور کی مصروفیت کا یہ عالم تھا کہ چلتے چلتے ایک مجاہد کو جو حضور کے ساتھ ہی دور دراز ملک کے لئے روانہ ہو رہے تھے نہایت اہم اور ضروری امور کے متعلق نوٹ اور ہدایات لکھواتے رہے۔

مقبرہ بہشتی سے واپسی کے بعد حضور گھر تشریف لے گئے اور پھر جمعہ پڑھایا جس میں مقامی انتظام کی تفصیل بیان فرمائی۔ نماز جمعہ کے بعد دیر تک بیرونی احباب سے مصافحہ فرماتے رہے۔

عصر کی نماز حضور نے مسجد مبارک میں پڑھائی اور پھر مسجد اقصیٰ میں تشریف لے گئے جہاں ایک بہت بڑے مجمع میں حضور کا ان اصحاب کے ساتھ جو حضور کے ہمراہ تشریف لے جا رہے تھے (اور جو سبز پگڑیاں بند گلے کے سیاہ کوٹ اور پاجامہ میں ملبوس تھے) فوٹو لیا گیا۔ ان اصحاب میں حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب۔ مولوی ظہور حسین صاحب اور مولوی محمد امین صاحب بھی کھڑے کئے گئے جو ایران اور بخارا میں تبلیغ کے لئے روانہ ہونے والے تھے۔ حضور انور کے سر پر سفید پگڑی تھی اور آپ کرسی پر رونق افروز تھے۔ حضور نے اپنے معمولی لباس ململ کی سفید پگڑی کھلے گلے کا لمبا کوٹ اور سفید لٹھے کی شلوار میں کوئی تبدیلی نہیں فرمائی۔

اس موقعہ پر حضور نے دو نکاحوں کا بھی اعلان فرمایا اور دعا کے بعد حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحبؓ کی ایک الوداعی نظم ملک عبدالعزیز صاحب طالب علم مدرسہ احمدیہ نے ایسے رقت انگیز لہجہ میں پڑھی کہ حضور آبدیدہ ہو گئے اور اخیر تک اپنا چہرہ مبارک رومال سے ڈھانپے رہے۔ اس تقریب کے بعد حضور رات کے ایک بجے تک اپنے بعد کام چلانے کے متعلق ہدایات دیتے رہے۔

روانگی سے قبل مزار مسیح موعودؑ پر آخری دعا

12جولائی 1924ء کو روانگی کا دن تھا اس دن حضور صبح صبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر آخری بار دعا کرنے کے لئے تشریف لے گئے اس دعا کے وقت حضور کے قلبی جذبات کیا تھے؟ حضور خود ہی اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔

’’صبح …اس آخری خوشی کو پورا کرنے کے لئے چلا گیا جو اس سفر سے پہلے میں قادیان میں حاصل کرنی چاہتا تھا۔ یعنی آقائی و سیدی و راحتی و سروری و حبیبی و مرادی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مزار مبارک پر دعا کرنے کے لئے …مگر آہ وہ زیارت میرے لئے کیسی افسردہ کن تھی … یہ جدائی میرے لئے ایک تلخ پیالہ تھا اور ایسا تلخ کہ اس کی تلخی کو میرے سوا کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ میری زندگی کی بہت بڑی خواہشات میں سے ہاں ان خواہشات میں سے جن کا خیال کرکے بھی میرے دل میں سرور پیدا ہو جاتا تھا۔ ایک یہ خواہش تھی کہ جب میں مر جاؤں …تو میرے بھائی جن کی محبت میں میں نے عمر بسر کی ہے اور جن کی خدمت میرا واحد شغل رہا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے عین قدموں کے نیچے میرے جسم کو دفن کردیں تاکہ اس مبارک وجود کے قرب کی برکت سے میرا مولیٰ مجھ پر بھی رحم فرما دے۔ ہاں شاید اس قرب کی وجہ سے وہ عقیدت کیش احمدی جو جذبہ محبت سے لبریز دل لے کر اس مزار پر حاضر ہو میری قبر بھی اس کو زبان حال سے یہ کہے کہ ع

’’اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی‘‘

اور وہ کوئی کلمہ خیر میرے حق میں بھی کہہ دے جس سے میرے رب کا فضل جوش میں آکر میری کوتاہیوں پر سے چشم پوشی کرے اور مجھے بھی اپنے دامن رحمت میں چھپا لے۔ آہ! اس کی غنا میرے دل کو کھائے جاتی ہے اور اس کی شان احدیت میرے جسم کے ہر ذرہ پر لرزہ طاری کر دیتی ہے…پس میری جدائی حسرت کی جدائی تھی کیونکہ میں دیکھ رہا تھا کہ میری صحت جو پہلے ہی کمزور تھی پچھلے دنوں کے کام کی وجہ سے بالکل ٹوٹ گئی ہے۔ میرے اندر اب وہ طاقت نہیں جو بیماریوں کا مقابلہ کر سکے۔ وہ ہمت نہیں جو مرض کی تکلیف سے مستغنی کر دے۔ ادھر ایک تکلیف دہ سفر درپیش تھا۔ جو سفر بھی کام ہی کام کا پیش خیمہ تھا اور ان تمام باتوں کو دیکھ کر دل ڈرتا تھا اور کہتا تھا کہ شاید کہ یہ زیارت آخری ہو۔ شاید وہ امید حسرت میں تبدیل ہونے والی ہو۔ سمندر پار کے مُردوں کو کون لا سکتا ہے ان کی قبر یا سمندر کی تہ اور مچھلیوں کا پیٹ ہے یا دیار بعیدہ کی زمین جہاں مزار محبوب پر سے ہو کر آنے والی ہوا بھی تو نہیں پہنچ سکتی۔‘‘

قادیان سے روانگی کا نظارہ

اس روز (12جولائی 1924ء کو) صبح کی نماز کے بعد ہی لوگ مسجد مبارک کے قریب جمع ہونے شروع ہو گئے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف سے خدام کا بھاری ہجوم ہو گیا۔ 8بجے کے قریب حضور نے بیت الدعا میں لمبی دعا کرائی پھر باہر تشریف لائے۔ اصحاب مصافحہ کے لئے بے تابی کے ساتھ آگے بڑھے لیکن حکم ہوا کہ مصافحے سڑ ک کے موڑ پر ہوں گے۔

اگرچہ منتظمین نے انتظام کیا تھا کہ حضور کو حلقہ کے اندر لے کر ہجوم کو پیچھے پیچھے رکھا جائے لیکن ہجوم کا ریلہ سنبھالے نہ سنبھلتا تھا۔ کئی لوگ ایک دوسرے پر گرتے مگر کسی قسم کے ملال کے بغیر فوراً اٹھ کر آگے بڑھنے کی جدوجہد میں مصروف ہو جاتے۔ منتظموں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ ہجوم کے گردوغبار سے حضور کو تکلیف ہوگی، لوگوں کو قریب آنے سے روکنے کی کوشش کی مگر حضور نے حکم دیا کہ کسی کو روکا نہ جائے اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ میں بھی آہستہ آہستہ چلتا ہوں آپ لوگ بھی آہستہ چلیں تا زیادہ گرد نہ اڑے۔

موڑ کے قریب پہنچ کر حضور نے سارے خدام سمیت پھر لمبی دعا فرمائی۔ دعا کے بعد حضور مردوں کے ہجوم سے باہر تشریف لے گئے اور حضرت ام المومنینؓ نے دیر تک حضور کو گلے لگا کر دعائوں سے رخصت فرمایا۔

حضرت ام المومنین ؓسے الوداع ہونے کے بعد حضور نے خدام کو جو موڑ پر دو رویہ قطار میں کھڑے تھے شرف مصافحہ بخشا۔ سب اصحاب سے مصافحہ کر لینے کے بعد حضور اور حضور کے ہمراہ جانے والے اصحاب موٹروں میں سوار ہوئے اور یہ مقدس قافلہ آسمانی ’’ولیم دی کنکرر‘‘ کی قیادت میں اللہ اکبر کے نعروں کے درمیان روانہ ہو گیا۔

اس سفر میں حسب ذیل اصحاب ہمرکاب تھے۔

حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب۔ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال۔ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد۔ حضرت خان صاحب ذوالفقار علی صاحب۔ حضرت حافظ روشن علی صاحب۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی۔ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب۔ حضرت بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی۔ شیخ عبدالرحمٰن صاحب مصری۔ چوہدری علی محمد صاحب۔ میاں رحم دین صاحب۔

ان کے علاوہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب جو حضور کے ترجمان خصوصی کی حیثیت سے جا رہے تھے پہلے ہی انگلستان روانہ ہو چکے تھے۔ اسی طرح چوہدری محمد شریف صاحب وکیل بھی اپنے خرچ پر حضور کے ہمراہ گئے۔

بٹالہ سے دہلی تک

حضور مع خدام قادیان سے روانہ ہو کر بٹالہ کے اسٹیشن پر پہنچے۔ جہاں آپ کی انتظار میں خلقت کا بے پناہ اژدھام تھا۔ بٹالہ سے چل کر دہلی تک مختلف مقامات کی جماعتوں نے شرف ملاقات حاصل کیا اور دعاؤں کے ساتھ اپنے محبوب آقا کو الوداع کہا۔ امرتسر،بیاس،جالندھر چھاؤنی، پھگواڑہ اور دہلی میں آپ کے اور آپ کے رفقاء سفر کے فوٹو لئے گئے۔ لدھیانہ سے آگے جا کر حضور نے قادیان کی یاد میں وہ مشہور نظم کہی۔ جس کا پہلا شعر یہ تھا۔

ہے رضائے ذات باری اب رضائے قادیاں

مدعائے حق تعالیٰ مدعائے قادیاں

قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی حضور کے ہمراہ تشریف فرما تھے جو سہارنپور سے واپس ہوئے۔ دہلی اسٹیشن پر دہلی، بریلی، شاہ جہانپور، قائم گنج اور علی گڑھ کی جماعتوں نے حضور کا شاندار استقبال کیا۔ امرتسر میں مستری محمد موسیٰ صاحب کی طرف سے برف کا انتظام تھا۔ جو دہلی تک قائم رہا اور وہ خود بھی دہلی تک حضور کے ہم رکاب رہے۔

(تاریخ احمدیت جلد 4صفحہ 431تا434)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button