یادِ رفتگاں

میرے پیارے ابا جان ڈاکٹر شریف احمد صاحب (ڈینٹسٹ)

(نصیر احمد۔ لندن)

میرے والد محترم ڈاکٹر شریف احمد صاحب ڈینٹسٹ ضلع شیخوپورہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں 1927ء میں پیدا ہوئے۔ آپ پیدائشی احمدی تھے۔ ابتدائی تعلیم لاہور سے مکمل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز منڈی مریدکے میں ایک ڈینٹسٹ کی حیثیت سے کیالیکن یہ زیادہ دیر تک وہاں پریکٹس نہ کرسکے اور 1953ء میں جب احمدیوں کے خلاف ہنگامے ہوئے تو احمدی ہونے کی وجہ سے آپ کی بھی بہت مخالفت ہوئی جس کی وجہ سے آپ کو ہجرت کرنا پڑی۔ آپ کی ہمیشہ سے یہ دلی خواہش تھی کہ میں مرکز سلسلہ میں رہوں اور خلیفۂ وقت کے پیچھے نمازیں پڑھوں۔ چنانچہ ربوہ کے قریب چنیوٹ میں اپنی پریکٹس کا دوبارہ آغاز کیا۔ اس زمانہ میں پورے چنیوٹ ، بلکہ ضلع جھنگ میں بھی اور کوئی ڈینٹسٹ نہیں تھا۔ آپ چونکہ کام بہت محنت ، ایمانداری اور دل لگا کر کیا کرتے تھےاس لیے چند ہی مہینوں میں دور دور تک آپ کی شہرت پھیل گئی ۔ ہر طرف آپ کا نام ایک ڈینٹسٹ کی حیثیت سے بہت مشہور ہوا اور بڑی دُور دُور سے مریض آپ کے پاس آنے لگے۔

ہمارے خاندان میں احمدیت میرے دادا محترم حاجی ماسٹر غلام محمد صاحب کے ذریعہ آئی۔ انہیں کسی نے تبلیغ نہیں کی تھی، انہوں نے کسی سے سنا تھا کہ امام مہدی آگیا ہےاور قادیان میں ہے۔ کسی طرح پتہ معلوم کرکے ڈاک کے ذریعہ کتب منگوائیں اور ان کا مطالعہ کرتے رہے۔ جب انہیں پوری تسلی ہوگئی کہ یہی امام مہدی ہے اور سچا ہے تو 1925ء میں قادیان جاکر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے کچھ عرصہ انہیں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا حتیٰ کہ ان کے والدین نے انہیں گھر سے نکال دیا۔ کچھ عرصے بعد انہیں خیال آیا کہ مجھے گھر واپس جا کر اپنے والدین کو منانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ چنانچہ آپ واپس آئے ، پہلے تو گھر والوں نے کافی سختی دکھائی لیکن آخر یہ انہیں راضی کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ پھر آہستہ آہستہ انہوں نے سب کو تبلیغ کرنی شروع کردی۔ باقی فیملی تو احمدی نہ ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کی اہلیہ کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق دی اور وہ بڑی مخلص احمدی رہیں۔دونوں میاں بیوی اپنے اپنے خاندان میں اکیلے احمدی ہوئے تھے اور احمدیت کی وجہ سے کافی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا مگر ہمیشہ ثابت قدم رہے۔ احمدیت قبول کرنے کےبعد دونوں جلد ہی نظام وصیت میں شامل ہوگئےاور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہیں۔ بہت نیک اور دعاگو بزرگ تھے۔ نماز تہجد باقاعدگی سے پڑھا کرتے تھے۔ صدقہ و خیرات کرنے والے ، ملنسار اور بہت غریب پرور انسان تھے۔

واپس اپنے والد محترم کے ذکر خیر کی طرف لوٹتا ہوں۔ چنیوٹ ہجرت کرنے کے بعد جلد ہی آپ نے نظام وصیت میں شمولیت اختیار کی ۔ آپ کے چندہ ادا کرنے کا طریق یہ تھا کہ روزانہ جتنی آمدنی ہوتی اس کا 10/1حصہ علیحدہ نکال کر رکھا کرتے تھے ۔ ان پیسوں کو اپنی ذاتی زندگی پر خرچ کرنے کا تصور بھی نہیں تھا۔ مہینہ کے آخر میں سارا چندہ گن کر علیحدہ رکھتے اور ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو اگر سیکرٹری مال صاحب کسی وجہ سے نہ آسکتے تو اگلے روز خود ان کے گھر جا کر چندہ ادا کیا کرتے۔ اکثر اس بات کا ذکر کرتےکہ اگر میں خود جا کر چندہ ادا کروں تو اس سے مجھے زیادہ خوشی ملتی ہے اور ثواب بھی زیادہ ہوتا ہے۔ اور اگر سیکرٹری مال صاحب آکر چندہ لے جائیں تو خود جاکر چندہ ادا کرنے کا ثواب وہ لے جاتے ہیں اور میں اس سے محروم رہ جاتا ہوں۔

آپ بہت بہادر ، نڈر ، نہایت کھرے اور سچے انسان تھے۔ اب میں 1974ء کا واقعہ بیان کرتا ہوں جس کی وجہ سے آپ کو چنیوٹ سے ربوہ ہجرت کرنی پڑی:

29؍مئی 1974ء کا دن تھا۔ آپ نے عادت کے مطابق صبح نماز تہجد ادا کی۔پھر نماز فجر کی ادائیگی کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کی۔ صبح کی سیر کی۔ سیر کر کے جب آپ گھر واپس آرہے تھے تو اس وقت اخبار فروش اونچی اونچی آوازیں لگا رہا تھا کہ ربوہ میں مرزائیوں نے مسلمان لڑکوں کی زبانیں کاٹ دی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ آپ واپس آ کر معمول کے مطابق کلینک پر چلے گئے۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ چھ سات ہزار کے مجمع نے ہمارے کلینک اور گھر پر حملہ کردیا (ہمارا گھر کلینک کے پیچھے تھا اور کلینک کے اندر سے ہی گھر آیا جایا جا سکتا تھا)۔ جلوس کو دیکھ کر آپ نے فورا ًکلینک بند کردیا اور اندر سے ہی گھر آگئے۔ سب گھر والے بہت پریشان تھے کہ یہ سب کیا ہورہا ہے۔ مجمع میں شامل لوگوں نے کلینک کے دروازوں پر تیل چھڑک کر آگ لگا دی اور دوسری طرف سے گھر کے اندر گھس آئے۔ جب محترم والد صاحب نے دیکھا کہ اب بچنے کی کوئی صورت نظرنہیں آتی تو انہوں نے گھر والوں کا دفاع کرتے ہوئے فائر کردیا جس کے نتیجہ میں ایک شخص موقع پر ہی ہلاک ہوگیا اور کچھ لوگ زخمی ہوئے۔ موقع پر موجود پولیس آفیسر نے ، جو کہ مجمع والوں کا ہی ساتھ دے رہا تھا، تھانے میں D.S.Pکو فون کیا کہ ایک بندہ مارا گیا ہے۔ لہٰذا پولیس کی مزید نفری بھیجی جائے تا کہ ان لوگوں کو گرفتار کیا جاسکے۔ D.S.Pاپنے ساتھ مزید نفری لے کر آیا اور انہوں نے محترم والد صاحب سمیت میرے دادا جان محترم حاجی غلام محمد صاحب اور میرے چھوٹے بھائی مکرم شبیر احمد پر قتل کا کیس بنا کر ان کو جیل بھجوادیا اور باقی فیملی کو گرفتار کرنے کے بعد شام کو لاری اڈہ ربوہ چھوڑ آئے۔

اس کیس میں میرے دادا محترم حاجی غلام محمد صاحب اور چھوٹا بھائی مکرم شبیر احمد اڑھائی اڑھائی مہینہ جبکہ محترم والد صاحب کو قریباً اڑھائی سال اسیران راہ مولیٰ رہنے کا شرف حاصل ہوا۔ بعد میں دس سال تک یہ کیس چلتا رہا اور پھر ہائی کورٹ لاہور سے محترم والد صاحب کو 1984ء میں باعزت بری کردیا گیا۔ الحمد للہ

ان تمام حالات میں محترم والد صاحب مرحوم کو دو دفعہ ہجرت کرنی پڑی۔ والد صاحب کے تمام حالات کو دیکھا جائے تو وہ غازی بھی ہیں اور شہید بھی۔آپ بے شمار خوبیوں کے مالک تھے۔ خلافت احمدیہ سے عشق کی حد تک پیار تھا۔ خلیفہ ٔوقت کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات پر نہ صرف خود بلکہ اپنے بچوں سے بھی عمل کروانے کی کوشش کرتے ۔ میں ذاتی طور پر اس بات کا گواہ ہوں کہ میں نے ان کو کبھی زندگی میں جھوٹ بولتے نہیں دیکھا۔ ہمیشہ سچ کہتے اور اپنی اولاد کو بھی سچ بولنے کی تاکید کرتے۔آپ نماز باجماعت اور تہجد کے پابند تھے۔ آپ نے 27سال کی عمر سے نماز تہجدادا کرنی شروع کی اور تا دم وفات باقاعدگی سے ادا کرتے رہے۔ ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ نماز پڑھنے کے لیے مارکیٹ گئے تو وہاں جماعت ہوچکی تھی۔آپ جلدی واپس آئے اور محلے کی مسجد میں گئے کہ وہاں جا کر باجماعت نماز ادا کرتا ہوں۔ اتفاق سے وہاں بھی نماز ہو چکی تھی۔ واپس گھر آئے اور موٹر سائیکل پر مسجد مبارک چلے گئے اور وہاں نماز باجماعت ادا کی (مسجد مبارک میں نماز کا وقت باقی محلہ جات سے پندرہ منٹ بعد ہوا کرتا تھا جس کی وجہ سے ان کو باجماعت نماز مل گئی)۔

آپ بہت نیک دل ، صدقہ و خیرات کرنے والے، ملنسار، غریب پرور ، بچوں سے شفقت سے پیش آنے والے ، ہمدرد ، دعا گو اور صاحب رویاء بزرگ تھے۔ آپ کے صاحب رویاء ہونے کے متعلق 2واقعات پیش کرتا ہوں:

٭…مورخہ 24؍ اکتوبر 2019ء کو آپ کی وفات ہوئی ۔ اسی سال اگست 2019ء میں آپ جرمنی گئے تھے۔ واپس آنے سے چار پانچ روز قبل صبح نماز ادا کرنے کے بعد لیٹے تو خواب آئی کہ 2فرشتے آئے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ اٹھو ہم آپ کو لینے آئے ہیں۔ آپ فرشتوں کو جواب دیتے ہیں کہ میں تو گھر پر نہیں ہوں، چار پانچ دن ٹھہرو اور مجھے گھر جا لینے دو پھر آجانا۔ یہ جواب سن کر فرشتے چلے جاتے ہیں۔یہی فرشتے اگلی صبح نماز کے بعد پھر آئے اور تھوڑی دیر ٹھہر کر واپس چلے گئے اور کوئی بات نہیں ہوئی۔

٭…جرمنی سے واپس آنے کے بعد ستمبر 2019ء میں صبح نماز کے بعد ایک اور خواب آئی کہ آپ سوئے ہوئے ہیں اور ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے جس میں آہستہ آہستہ تیزی آتی جا رہی ہےاور اس کا رنگ سفیدی مائل ہوتا جا رہا ہے۔ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ سفیدی اتنی گہری ہوجاتی ہے کہ اس میں سے کچھ نظر نہیں آتا۔ پھر یہ سفیدی آہستہ آہستہ کم ہونا شروع ہوجاتی ہے اور تھوڑی دیر میں ہی مطلع بالکل صاف ہو جاتا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ یہ کیا نظارہ تھاتو آواز آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے سارے گناہ صاف کرکے ساتھ لے گیا ہے۔ جس کے بعد آنکھ کھل جاتی ہے۔

جیسا کہ میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ ہمارے خاندان میں احمدیت میرے دادا محترم حاجی ماسٹر غلام محمد صاحب کے ذریعہ 1925ء میں آئی اور میرے والد محترم ڈاکٹر شریف احمد صاحب مرحوم1927ءمیںپیداہوئے۔اس طرح آپ پیدائشی احمدی تھے۔ آپ کے پانچ بھائی اور تین بہنیں ہیں جن میں سے اب صرف ایک بھائی مکرم عبد الرشید صاحب آرکیٹیکٹ (جو کہ مورڈن میں بیت الفتوح کے پاس رہتے ہیں) حیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو صحت و تندرستی والی لمبی زندگی عطا فرمائے۔ آمین

آپ چندہ بہت باقاعدگی اور فراخ دلی سے ادا کیا کرتے تھے۔ ہر قسم کی مالی تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور سال کے شروع میں ہی ادائیگی کر دیتے۔ آپ نے اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ یہی نصیحت کی کہ جتنا مرضی کماؤ مگر چندہ باقاعدگی سے اور ہمیشہ بڑھ چڑھ کر اداکیا کرو۔ جتنا زیادہ چندہ دوگے، اللہ تعالیٰ اتنے ہی زیادہ فضل فرمائے گا۔ چندہ جات کی ادائیگی اور دیگر تحریکات میں حصہ لینے کا خاص اہتمام کیا کرتے تھے۔ مالی قربانی کے متعلق آپ کے چند واقعات پیش کرتا ہوں:

٭…میرے چچا مکرم عبد الرشید صاحب آرکیٹیکٹ اللہ تعالیٰ کے فضل سے واقف زندگی ہیں اور جماعت کی کئی مساجد ان کے زیر نگرانی قادیان اور افریقہ کے ممالک میں تعمیر ہوئی ہیں۔ کافی عرصہ پہلے کی بات ہے کہ چچا جان والد صاحب سے ملنے گھر آئےاور باتوں باتوں میں ذکر کیا کہ گھانا میں جامعہ احمدیہ اور مسجد تعمیرہونی ہےاور میں اس کا نقشہ تیار کر رہا ہوں۔ میں نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے عرض کی ہے کہ ان کی تعمیر پر تقریبا ً30ہزار پاؤنڈ لاگت آئے گی۔ اب میری خواہش ہے کہ ہم دونوں بھائی مل کر اس کی تعمیر پر جو بھی خرچ آئے وہ ادا کریں۔ والد صاحب یہ سن کربہت خوش ہوئے اور اس بات سے اتفاق کیا۔ چنانچہ دونوں بھائیوں نے مل کر اُن تعمیرات کے تمام اخراجات ادا کیے۔

٭…ایک مرتبہ دونوں بھائی بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ محترم چچا جان کہنے لگے کہ مسجد اقصیٰ قادیان میں قالین ڈلوانا ہے اور اس کا تخمینہ بھی بتایا جو کئی لاکھ روپیہ پر مشتمل تھا۔ والد صاحب نے اکیلے ہی سارا خرچ برداشت کرکے وہ قالین ڈلوایا۔

٭…دارالعلوم جنوبی ربوہ میں آپ کی شریف کالونی کے نام سے ایک رہائشی کالونی ہے جس میں آپ نے پانچ مرلہ زمین پر مسجد تعمیر کروائی اور انجمن احمدیہ کے نام رجسٹری کروادی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نمازیوں کی تعداد بڑھنے کی وجہ سے مسجد چھوٹی پڑگئی ۔ چنانچہ آپ نے اس سے ملحقہ مزید پانچ مرلہ زمین مسجد کے لیے دیتے ہوئے اس کی بھی انجمن احمدیہ کے نام رجسٹری کروادی اور قبضہ جماعت کو دے دیا۔اس کے بعد صدر صاحب محلہ نے ابا جی کو یہاں لندن فون کیا کہ آپ نے مسجد کے لیے زمین تو ہمیں دے دی ہے جس کے لیے ہم آپ کے بہت شکر گزار ہیں، لیکن اب مسجد کی تعمیر کے لیے بھی اگر آپ ہماری کچھ مدد کریں تو ہمیں مسجد بنانے میں آسانی ہوجائے گی۔ صدر صاحب محلہ کی تحریک پر محترم والد صاحب نے مبلغ دس ہزار پاؤنڈ کی رقم جماعت کو اس مسجد کی تعمیر کے لیے دے دی جو کہ اس وقت جماعت لندن کے پاس بطور امانت جمع ہے ۔(آج کل چونکہ ربوہ میں مسجد تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہے اس لیے یہ کام رکا ہوا ہے)

تیسری ہجرت آپ نے خلیفۂ وقت سے بے انتہا محبت کی وجہ سے کی ۔ سن 1992ء میں لندن آئے اور مسجد کے نزدیک گھر لیا ۔ تمام نمازیں باجماعت خلیفۂ وقت کے پیچھے پڑھتے اور بڑی خوشی محسوس کیا کرتے۔ جب آپ لندن آئے تو اس وقت آپ کی تمام اولاد جرمنی میں تھی۔ انہوں نے بہت زور لگایا کہ آپ ہمارے پاس جرمنی آجائیں لیکن آپ وہاں نہیں گئےبلکہ خلیفۂ وقت کے قدموں میں ڈیرہ لگا لیا اور آخری دم تک یہاں ہی رہے۔

آپ مورخہ 18؍ اکتوبر 2019ء کو نماز جمعہ مسجد فضل میں ادا کرنے کے بعد گھر واپس جا رہے تھے کہ سڑک کراس کرتے ہوئے ایک ڈلیوری وین کے ساتھ حادثہ ہوا جس کے نتیجہ میں شدید زخمی ہوئے۔ ایمبولینس کے ذریعہ ہسپتال منتقل کیا گیاجہاں I.C.U میں داخل رہے۔ آپ کی چوٹیں اتنی زیادہ اور اتنی گہری تھیں کہ آپ دوبارہ صحت یاب نہ ہوسکے اور مورخہ 24؍اکتوبر 2019ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔

بلانے والا ہے سب سے پیارا

اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 31؍اکتوبر 2019ء کو نماز ظہر سے قبل مسجد مبارک (اسلام آباد ، ٹلفورڈ)کے باہر تشریف لا کر آپ کی نماز جنازہ حاضر پڑھائی۔ نماز جنازہ کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت مرحوم کا چہرہ دیکھا اور دایاں ہاتھ آپ کے ماتھے پر رکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی

اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہُ

والی انگوٹھی جو آپ نے اپنے داہنے ہاتھ میں پہن رکھی تھی اسے ڈاکٹر صاحب کے چہرہ سے مس فرمایا اور پسماندگان سے ملاقات فرمائی۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو جنت الفردوس سے نوازے اور آپ سے مغفرت کا سلوک فرمائے اور ہمیں بھی آپ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button