متفرق مضامین

’’مسیحائی یہی تو ہے‘‘

(مرزا نصیر احمد۔ استاذجامعہ احمدیہ یوکے)

ماہرین علم الابدان یعنی ڈاکٹر صاحبان اس بات کو زیادہ بہتر سمجھتے ہوں گے کہ اگر کسی شخص کے پھیپھڑوں پر چند سال پہلے ہی cancerحملہ آور ہو چکا ہو اور کھانسی کے ساتھ بلغم میں خون کی آمیزش بھی چلی آرہی ہو ایسے میں اگر Coronavirus بھی اس پر حملہ آور ہو جائے جس کا مقصد و حید ہی پھیپھڑوں کو تباہ کرنا ہے تو ایسا مریض، جو 75برس کی عمر سے تجاوز کرچکا ہو، کے survival کے کتنے امکانات ہیں۔

کورونا وائرس کی تباہ کاریاں جب کھل کر سامنے آنا شروع ہوئیں تو مجھے اپنی اہلیہ کی صحت کے بارے میں فکر لاحق ہوئی۔ وہ شوگر کی مریضہ ہیں اور گزشتہ 32سال سے شوگر کی دوائیاں بشمول انسولین لے رہی ہیں۔1999ءمیں ان کو تھائیرائڈ کینسر کی تکلیف بھی لاحق ہوگئی ۔کرسٹی ہسپتال مانچسٹر میں مارچ تا دسمبر مسلسل دس ماہ زیر علاج رہیں۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی مسلسل اور باقاعدہ دعاؤں اور ذاتی توجہ اور عنایت سے اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل فرمایا،علاج کامیاب ہوا اور پھر پندرہ سولہ سال کوئی تکلیف نہ ہوئی فالحمدللہ سوائے اس کے کہ انہیں Thyroxineلینی پڑتی ہے۔

تاہم چند سال پہلے 2015ء کے اواخر یا 2016ءکے اوائل میں اہلیہ کو بعض تکالیف کی شکایت پیدا ہوئی تو لندن کے Royal Marsdenہسپتال میں چیک اپ شروع ہوئے اور تشخیص یہ ہوئی کہ تھائیرائڈ کینسر دوبارہ عود کر آیا ہے اور اس مرتبہ اس کا حملہ پھیپھڑوں میں دو درجن سے زائد چھوٹے بڑے ٹیومرز کی شکل میں ظاہر ہوا ہے ۔ چنانچہ ڈاکٹرز نے 1999ء میں دی جانے والی ریڈیو ایکٹو آیوڈین کی Doseسے بھی دگنی Doseدی اور پھر چیک اپ کیا اور معلوم ہوا کہ یہ بے اثر ثابت ہوئی ہے۔ اور ساتھ ہی ہمیں یہ ہدایت کی کہ اگلے تین ماہ ان کو اور کسی قسم کی Treatmentنہیں دی جاسکتی۔لہٰذا اب آپ لوگ مریضہ کو جنوری کے پہلے ہفتہ میں واپس چیک اپ کے لیے لے آئیں۔

یہ بات ستمبر 2016ءکی آخری تاریخوں کی ہے ۔اور ساتھ ہی ڈاکٹرز نے ایک رپورٹ DS1500( جو دراصل ڈاکٹروں کی طرف سے مریض کی Terminal Illness کا اعلان ہوتا ہے) بھی تیار کر کے متعلقہ حکومتی محکمہ کو بھجوادی اور اس کی ایک نقل ہمیں تھما دی۔

یہ صورت حال دیکھ کر خاکسار نے ایک مرتبہ پھر دربار خلافت میں حاضر ہوا اور حضرت صاحب، سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ الودود، کی خدمت اقدس میں کسی قدر تفصیل سے سارے حالات لکھ کر حضور پرنور سے درخواست دعا کی اور تکرار سے کی ۔چنانچہ حضور انور کی طرف سے متعدد تسلی کے خطوط موصول ہوئے ۔فالحمدللہ کہ تین ماہ کے بعد میری بیٹی نصیرہ اپنی والدہ کو رائل مارسڈن میں چیک اپ کے لیے لے گئی تو ڈاکٹرز نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ظاہری نظر سے ہی کہہ دیا کہ یہ تو بہت بہتر ہیں۔ اور اب آپ چار ماہ بعد دوبارہ لے آئیں۔

چنانچہ جب دوبارہ تین چار ماہ بعد چیک اپ ہوا تو ڈاکٹرز نے بتایا کہ اس وقت ٹیومرز کی حالت stableہے ۔کم بھی نہیں ہوئے مگر بڑھے بھی نہیں۔مگر اس دوران ہائی بلڈ پریشر کی تکلیف بھی ساتھ شامل ہوگئی جس کے لیے انہیں رائل مارسڈن کے علاوہ سینٹ جارجز اور چیرنگ کراس ہسپتال میں بھی وقت گزارنا پڑا۔ اور ان کی Thyroxineاور شوگر کی دوائیوںمیں بلڈ پریشر کی دوائی بھی شامل ہوگئی۔

اس کے بعد صورت حال مسلسل دو سال برقرار رہی اور اس دوران سوائے ہلکی سی کھانسی اور بلغم میں خون کی آمیزش کے اور کسی تکلیف کا سامنا نہیں ہوا۔اہلیہ گھر کے سارے روزمرہ کے معمول کے کام خود نمٹاتی رہیں۔اس دوران حضور انور کی خدمت میں برابر تحریر کرتا رہا اور حضور انور کی طرف سے بھی دعائیہ خطوط ملتے رہے۔

گذشتہ سال کے مارچ اپریل میں اہلیہ کی طبیعت میں پھر گراوٹ پیدا ہوئی توچیک اپس کا نیا سلسلہ شروع ہوا۔ تاہم اللہ کا فضل شامل حال رہا اور جلسہ سالانہ کی دعاؤں کا فیض حاصل کرکے بچوں کے ہمراہ سپین کے شہر قرطبہ کی عظیم مسجد اور پیدرو آباد کی زیارت کا پروگرام بنالیا گیااور اہلیہ صاحبہ نے بھی یہ سفر پوری صحت کے ساتھ طے کیا۔بلکہ اس سے بھی پہلے ہم لوگ بچوں کے ہم راہ دسمبر 2018ء میں استنبول ہفتہ بھر کے لیے چلے گئے اور گذشتہ سال کے اپریل میں بچے ہمیں انگلستان کے مغربی علاقہ North Devonمیں ایک ہفتہ کے لیے لے گئے (ان تمام سفروں کی محرک اور مینیجر ہماری بیٹی نصیرہ ہی تھی) اور اہلیہ نے سارے سفر بخوبی طے کیے ۔ اور ان سفروں کے دوران کوئی مسئلہ پیش نہیں آیا بلکہ ان کی طبیعت پر خوشگوار اثر پڑا۔ فالحمدللّٰہ علیٰ ذٰلک۔

امسال جب جنوری میں coronaکا غلغلہ بلند ہوا تو جنوری میں اس کی طرف کسی کی زیادہ توجہ ہی نہ ہوئی ۔فروری میں جب اس نے دنیا بھر میں اپنے پنجے گاڑنے شروع کیے تو یہاں بھی سنجیدگی پیدا ہوئی۔اور خاکسار کو اہلیہ کے بارے میں فکر ہوا کہ اگر اس وبا کا حملہ براہ راست پھیپھڑوں پر ہوتا ہے تو اہلیہ کا کیا بنے گا ؟ یہ تو کورونا کے معمولی سے حملہ کی بھی متحمل نہیں ہوسکیں گی ۔ اس فکر کے پیش نظر خاکسار نے خصوصی طور پر پھر حضور انور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی غرض سے دو تین بار لکھا۔

خاکسار کا منشا اور امید تو یہی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس کے معمولی حملہ سے بھی بچائے رکھے ۔ تاہم اللہ تعالیٰ کی اپنی حکمتیں اور مصلحتیں ہوتی ہیں۔ہوا یہ کہ اپریل کے ابتدائی دنوں میں ہم دونوں میاں بیوی اس کی لپیٹ میں آگئے اور اس کی اکثر علامات کھانسی ،بخار ،سانس لینے کی مشکل،آکسیجن levelکی گراوٹ، بھوک کا فقدان ،کھانے کا لقمہ نگلنے میں مشکل ،قوت شامہ اور ذائقہ کا بگڑ جانا،ہاضمے کا فساد،انتہائی درجہ کی کمزوری،الفاظ پورے کرنے کی مشکل،چھاتی اور پسلیوں میں درد وغیرہ وغیرہ کتنی ہی بے شمار آفتوں نے آن گھیرا۔

خیر ہمارا تو ملجا اور ماویٰ اللہ تعالیٰ کے بعد اس کا مقرر کردہ خلیفہ ہی ہے لہٰذا حضور انور کو آگاہ رکھا اور دعا کی درخواست کرتا رہا۔ایمبولینس کو چار دفعہ بلانا پڑا اور اہلیہ کو وہ چیک کرتے رہے پیراسیٹامول دیتے رہے اور آرام کرنے کا کہتے رہے مگر اہلیہ کی کمزوری بڑھتی گئی ۔ اس دوران ہماری بیٹی نصیرہ لندن سے ہماری جامعہ رہائشگاہ منتقل ہوگئی اور اس نے ہر قسم کے خطرات کو نظر انداز کرکے اپنی بوڑھی والدہ کی دیکھ بھال والا محاذ سنبھال لیا کیونکہ ان کی عمر اور صحت کے پیش نظر کسی قسم کی Isolation کی کوئی صورت ہی نہ تھی۔ مکمل ہسپتال والی نرسنگ کی ضرورت تھی۔ چھوٹے بیٹے توقیر احمد کی ڈیوٹی باہر کے کاموں اور لندن اور جامعہ کے درمیان چکر لگانے پر مامور کردی گئی۔ اور خاکسار کی نازک حالت دیکھ کر ایمبولنس سروس والوں نے فتویٰ جاری کردیا کہ مجھے فوری طور پر ہسپتال منتقل کردیا جائے ۔چنانچہ بیٹی مجھے Frimley Parkہسپتال چھوڑ آئی جو کہ ایک military basedہسپتال ہے ۔ اور خود اپنی والدہ کی خدمت اور تیمارداری میں جت گئی۔

حضور انور کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ گذشتہ دو ماہ کے دوران بیماری کے حملہ سے لےکر آج کے دن تک ایک دفعہ بھی اہلیہ کو ہسپتال کا منہ نہیں دیکھنا پڑا۔ اور گھر میں ہی رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کی جملہ تکالیف میں تخفیف فرمادی۔اس دوران عزیزہ نصیرہ کہیں سے کوئی ٹوٹکہ سن کر دو تین راتیں پیاز کی پلٹس(Poultice) ان کی پسلیوں پر لگاتی رہیں۔علاوہ ازیں اہلیہ حضور انور کا ہلدی والا نسخہ بھی استعمال کرتی رہیں۔

بہرحال حضور انور کی دعاؤں کا اعجاز ہم دونوں کے لیے ہی ظاہر ہوا۔ مگر الگ الگ طور پر۔خاکسار ہسپتال میں تھا اور اہلیہ گھر پر ۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے متفکر تھے۔ تاہم اللہ تعالیٰ کا احسان تھا کہ ان کی دیکھ بھال بھی اللہ تعالیٰ بچوں کے ذریعہ کرا رہا تھا اور بغیر کسی Medicationکے وہ آہستہ آہستہ رو بصحت تھیں اور مجھے بھی ہسپتال میں بہت اچھی دیکھ بھال میسر تھی اور اس کے ساتھ ساتھ حضور انور کی ذاتی توجہ تھی۔(یہ شفقتیں بذاتِ خود ایک تفصیلی مضمون کی متقاضی ہیں۔) اس وقت خاکسار مولیٰ کریم کے صرف اس فضل کا ذکر کرنا چاہتا ہے جو اہلیہ کی انتہائی درجہ مخدوش حالت کے پیش نظر نازل ہوا کہ باوجود اس کے کہ اہلیہ کا سینہ کینسر کی وجہ سے اندر سے زخمی تھا اور اس پر کورونا کا بھی حملہ ہو گیا اور ساری علامات ظاہر ہو گئیں۔ تاہم مولیٰ کریم نے اپنے خلیفہ کی دعاؤں کے طفیل عظیم فضل فرمایا اور معجزانہ طور پر بغیر ہسپتال میں داخل ہونے کے اہلیہ کو شفا بخش دی فالحمد للّٰہ علیٰ ذالک۔

اس مولیٰ کا بے انداز احسان ہے جس نے ہمارے سروں پر اپنے خلیفہ کا سایہ ایک ٹھنڈی چھاؤں کی طرح تان دیا ہے جس نے ہمیں ہر قسم کی گرمی سختی سے بچا رکھا ہے۔ خاکسار کو ہسپتال سے یکم مئی کو فراغت ملی اور اس وقت تک اہلیہ کے symptoms میری نسبت کہیں زیادہ بہتر تھے جبکہ وہ ایک دن بھی ہسپتال نہ گئیں اور نہ ہی ان کی کوئی خاص Medicationsتھیں بلکہ ان کے G.Pنے ان کی روز مرہ کی جو ادویات شوگر اور تھائی راکسن اور بلڈ پریشر وغیرہ کی تھیں وہ بھی بالکل بند کرا دیں چنانچہ تین چار روز تک انہوں نے یہ ادویات بھی بند رکھیں۔ گھر بیٹھے ہی اللہ تعالیٰ نے حضور پر نور کی دعاؤں کی برکت سے ایسا فضل فرما دیا تھا کہ بیماری کا حملہ بے حد خفیف ہو چکا تھا گو وزن ہم دونوں کا کافی گرا تھا اور کمزوری بھی شدید تھی تا ہم اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و کرم سے کسی ما فوق الطاقت بلا میں گرفتار ہونے سے بچائے رکھا اور یہ سب حضور کی دعاؤں کا فیض تھا جس نے ہر طرف ہمارے لیے دعاؤں کی تحریک پھیلا دی تھی جس کے نتیجے میں حضور کے غلاموں کی دعائیں بھی ہمارے شامل حال ہو گئیں اور ہر بر اعظم میں ہمارے لیے دعائیں جاری ہو گئیں۔ دو ہفتہ ہسپتال میں رہنے کے بعد جب خاکسار کو چھٹی ملی تو میری اہلیہ صاحبہ خود نصیرہ بیٹی کے ہم راہ مجھے لینے کے لیے ہسپتال آئیں۔اور یہ تھا ہمارے پیارے امام کی مسیحائی کا اعجاز جو اللہ نے ہمارے لیے ظاہر فرمایا۔فالحمدللّٰہ علیٰ ذٰلک۔اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے امام کی صحت اور عمر میں خارق عادت برکت عطافرمائے۔ آمین یاارحم الراحمین

آخر میں قارئین الفضل سے گذارش ہے کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس بیماری کے باقی ماندہ اثرات بھی اپنے فضل سے جلد دور فرما دے اوراہلیہ کی صحت اور عمر میں برکت بخشے اور ہمیں اور ہماری اولادوں کو خلافت اور خلیفۃالمسیح اید ہ اللہ کی قدر شناسی عطا فرمائے اور قیامت تک ہم سب کو خلیفۂ وقت کا سلطان نصیر بنائے رکھے اور ہمیشہ اس کے شکر گذار بندوں میں ہمارا شمار ہوتا رہے اور ہمیشہ انجام بخیر کے وارث ہوتے رہیں۔ آمین یا ارحم الراحمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button