کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

کوئی علم بدوں تقویٰ کے کام نہیں دیتا ہے اور تقویٰ بدوں علم کے نہیں ہو سکتا

مسیح ناصری توجہ سے سلبِ امراض فرماتے تھے

علاج کی چار صورتیں تو عام ہیں۔ دوا سے،غذا سے، عمل سے، پرہیز سے علاج کیا جاتا ہے۔ ایک پانچویں قسم بھی ہے جس سے سلبِ امراض ہوتا ہے،وہ توجہ ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام اسی توجہ سے سلبِ امراض کیا کرتے تھے۔ اور یہ سلبِ امراض کی قوت مومن اور کافر کا امتیاز نہیں رکھتی۔ بلکہ اس کے لیے نیک چلن ہونا بھی ضروری نہیں ہے۔ نبی اور عام لوگوں کی توجہ میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ نبی کی توجہ کَسبی نہیں ہوتی، وَہبی ہوتی ہے۔ آج کل ڈوئی جو بڑے بڑے دعویٰ کرتا ہے۔ یہ بھی وہی سلبِ امراض ہے۔ توجہ ایک ایسی چیز ہے کہ اس سے سلبِ ذنوب بھی ہو جاتا ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ اور مسیح علیہ السلام کی توجہ میں یہ فرق ہے کہ مسیح کی توجہ سے تو سلبِ امراض ہوتا تھا مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ سے سلبِ ذنوب ہوتا تھا اور اس وجہ سے آپ کی قوتِ قدسی کمال کے درجہ پر پہنچی ہوئی تھی۔ دعا بھی توجہ ہی کی ایک قسم ہوتی ہے۔ توجہ کا سلسلہ کڑیوں کی طرح ہوتا ہے۔ جو لوگ حکیم اور ڈاکٹر ہوتے ہیں۔ ان کو اس فن میں مہارت پیدا کرنی چاہیے۔ مسیح کی توجہ چونکہ زیادہ تر سلب امراض کی طرف تھی۔ اس لیے سلبِ ذنوب میں وہ کامیابی نہ ہونے کی وجہ یہی تھی کہ جو جماعت اُنہوں نے تیارکی وہ اپنی صفائی نفس اور تزکیہ باطن میں ان مدارج کو پہنچ نہ سکی جو جلیل الشان صحابہ کو ملی۔ اور یہاں تک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسی با اثر تھی کہ آج اس زمانہ میں بھی تیرہ سو برس کے بعد سلبِ ذنوب کی وہی قوت اور تاثیر رکھتی ہے جو اس وقت میں رکھتی تھی۔ مسیح اس میدان میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرگز مقابلہ نہیں کر سکتے۔

کافر اور مومن کی رؤیا میں فرق

اﷲ تعالیٰ نے وحی اور الہام کامادہ ہر شخص میں رکھ دیا ہے کیونکہ اگر یہ مادہ نہ رکھا ہوتا تو پھر حجّت پوری نہ ہو سکتی۔ اس لیے جو نبی آتا ہے اس کی نبوت اور وحی و الہام کے سمجھنے کے لیے اﷲ تعالیٰ نے ہر شخص کی فطرت میں ایک ودیعت رکھی ہوئی ہے۔ اور وہ ودیعت خواب ہے۔ اگر کسی کو کوئی خواب سچی کبھی نہ آئی ہو تو وہ کیونکر مان سکتا ہے کہ الہام اور وحی بھی کوئی چیز ہے۔ اور چونکہ خدا تعالیٰ کی یہ صفت ہے کہ

لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا (البقرۃ : 287)۔

اس لیے یہ مادہ اس نے سب میں رکھ دیا ہے۔ میرا یہ مذہب ہے کہ ایک بدکار اور فاسق فاجر کو بھی بعض وقت سچی رؤیا آجاتی ہے اور کبھی کبھی کوئی الہام بھی ہو جاتا ہے۔ گو وہ شخص اس کیفیت سے کوئی فائدہ اُٹھاوے یا نہ اُٹھاوے۔ جبکہ کافر اور مومن دونوں کو سچی رؤیا آجاتی ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ ان دونوں میں فرق کیا ہے؟ عظیم الشان فرق تو یہ ہے کہ کافر کی رؤیا بہت ہی کم سچی نکلتی ہے اور مومن کی کثرت سے سچی نکلتی ہے۔ گویا پہلا فرق کثرت اور قلّت کا ہے۔ دوسرے مومن کے لیے بشارت کا حصہ زیادہ ہے۔ جو کافر کی رؤیا میں نہیں ہوتا۔ سوم۔ مومن کی رؤیا مصفّا اور روشن ہوتی ہے۔ بحالیکہ کافر کی رؤیا مصفّا نہیں ہوتی۔ چہارم۔ مومن کی رؤیا اعلیٰ درجہ کی ہو گی۔

جماعت کے واعظین کی صِفات

یہ امر بہت ضروری ہے کہ ہماری جماعت کے واعظ تیار ہوں۔ لیکن اگر دوسرے واعظوں اور ان میں کوئی امتیاز نہ ہو تو فضول ہے۔ یہ واعظ اس قسم کے ہونے چاہئیں جو پہلے اپنی اصلاح کریں اور اپنے چلن میں ایک پاک تبدیلی کرکے دکھائیں تا کہ ان کے نیک نمونوں کا اثر دوسروں پر پڑے۔ عملی حالت کا عمدہ ہونا یہ سب سے بہترین وعظ ہے۔ جو لوگ صرف وعظ کرتے ہیں،مگر خود اس پر عمل نہیں کرتے وہ دوسروں پر کوئی اچھا اثر نہیں ڈال سکتے،بلکہ اُن کا وعظ بعض اوقات اباحت پھیلانے والا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ سننے والے جب دیکھتے ہیں کہ وعظ کہنے والا خود عمل نہیں کرتا تو وہ ان باتوں کو بالکل خیالی سمجھتے ہیں۔ اس لیے سب سے اول جس چیز کی ضرورت واعظ کو ہے وہ اُس کی عملی حالت ہے۔

دوسری بات جو اُن واعظوں کے لیے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ان کو صحیح علم اور واقفیت ہمارے عقائد اور مسائل کی ہو جو کچھ ہم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ اس کو انہوں نے پہلے خود اچھی طرح پر سمجھ لیا ہو اور ناقص اور ادھورا علم نہ رکھتے ہوں کہ مخالفوں کے سامنے شرمندہ ہوں۔ اور جب کسی نے کوئی اعتراض کیا تو گھبرا گئے کہ اب اس کا کیا جواب دیں۔ غرض علم صحیح ہونا ضروری ہے۔

اور تیسری بات یہ ہے کہ ایسی قوت اور شجاعت پیدا ہو کہ حق کے طالبوں کے واسطے ان میں زبان اور دل ہو۔ یعنی پوری دلیری اور شجاعت کے ساتھ بغیر کسی قسم کے خوف وہر اس کے اظہار حق کے لیے بول سکیں اور حق گوئی کے لیے اُن کے دل پر کسی دولتمند کا تموّل یا بہادر کی شجاعت یا حاکم کی حکومت کوئی اثر پیدا نہ کر سکے۔ یہ تین چیزیں جب حاصل ہو جائیں۔ تب ہماری جماعت کے واعظ مفید ہو سکتے ہیں۔

یہ شجاعت اور ہمت ایک کشش پیدا کرے گی کہ جس سے دل اس سلسلہ کی طرف کھچے چلے آئیں گے، مگر یہ کشش اور جذب دو چیزوں کو چاہتی ہے جن کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی۔ اوّل پورا علم ہو۔ دوم تقویٰ ہو۔ کوئی علم بدوں تقویٰ کے کام نہیں دیتا ہے اور تقویٰ بدوں علم کے نہیں ہو سکتا۔ سنّت اﷲ یہی ہے جب انسان پورا علم حاصل کرتا ہے تو اسے حیا اور شرم بھی دامنگیر ہو جاتی ہے۔ پس ان تینوں باتوں میں ہمارے واعظ کامل ہونے چاہئیں۔ اور یہ میں اس لیے چاہتا ہوں کہ اکثر ہمارے نام خطوط آتے ہیں۔ فلاں سوال کا جواب کیا ہے؟ فلاں اعتراض کرتے ہیں اس کا کیا جواب دیں؟ اب ان خطوط کے کس قدر جواب لکھے جاویں۔ اگر خود یہ لوگ علم صحیح اور پوری واقفیت حاصل کریں اور ہماری کتابوں کو غور سے پڑھیں تو وہ ان مشکلات میں نہ رہیں۔

(ملفوظات جلد3صفحہ368تا370۔ایڈیشن 1984ء)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button