متفرق مضامین

کیا جماعت احمدیہ پاکستان کے خلاف سازشوں میں ملوّث ہے؟!!!

(ڈاکٹر مرزا سلطان احمد)

اگر نہیں تو پھر کون لوگ پاکستان میں تفرقہ پھیلا رہے ہیں، پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں؟

1974ء کی اسلامک کانفرنس کے موقع پر وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ پاکستان کی اجازت کے بغیر اینٹی احمدیہ لٹریچر تقسیم کیا گیا
ایک سینئر منسٹر کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم اس وقت بے بس تھے اور انہیں پتہ تھا کہ وہ بے بس ہیں

ARY News کے پروگرام ’’دی رپورٹر‘‘ 18؍مئی 2020ء میں جماعت احمدیہ پر لگائے گئے الزامات کا تنقیدی جائزہ

جیسا کہ خاکسار نے گذشتہ مضمون میں عرض کی تھی کہ 18؍مئی 2020ء کو اے آر وائی چینل پر ’’رپورٹر‘‘ نام کا پروگرام نشر ہوا۔ اس پروگرام کے میزبان صابر شاکر صاحب اور مہمان چودھری غلام حسین صاحب تھے۔ پہلے بھی دو مرتبہ اسی پروگرام میں جماعت احمدیہ کے خلاف تبصرے کیے گئے اور اس روز بھی یہ سلسلہ پھر شروع کیا گیا۔ اس پروگرام میں جماعت احمدیہ پر کچھ الزامات بھی لگائے گئے۔ لیکن ان کے ساتھ کوئی ثبوت یا دلیل نہیں پیش کی گئی۔ جماعت احمدیہ کی روایت یہی ہے کہ جب بھی کوئی موقف پیش کیا جائے، وہ دلیل اور ثبوت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ ایک صاحب میڈیا پر جماعت احمدیہ کے خلاف ایک دو منٹ میں چند بے بنیاداشتعال انگیز جملے بول کر نفرت انگیزی کا عمل شروع کر دیتے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ جب جماعت احمدیہ کی طرف سے دلائل کے ساتھ جواب دیا جاتا ہے تو وہ قدرے طویل ہوتا ہے۔

جماعت احمدیہ پر لگائے گئے الزامات

اس پروگرام میں چودھری غلام حسین صاحب بہت غصے میں نظر آ رہے تھے۔ اور اس ذہنی کیفیت میں بعض مرتبہ وہ اپنا جملہ بھی مکمل نہ کر سکتے۔ اس پروگرام میں انہوں نے ایک الزام یہ بھی لگایا کہ خدانخواستہ جماعت احمدیہ کسی دشمن کا آلۂ کار بن کر عالم اسلام اور پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہی ہے۔ اور یہ سلسلہ ایک عرصہ سے چل رہا ہے۔ اور ان سازشوں کا مقصد مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر انہیں نقصان پہنچانا ہے۔ اس پروگرام میں انہوں نے مختلف وقتوں میں اس بارے میں جو جملے کہے وہ ملاحظہ فرمائیں:

’’قادیانیوں کو ہمارے ساتھ زیادہ شکمی مروڑ ہے۔ ایک طرف تم کہتے ہو ہم مسلمان ہیں۔ اور دوسری طرف مسلمانوں پر حملے کرتے ہو۔ تم لوگ مسلمانوں کے اندر نفاق پیدا کرنے کے لیے گماشتے بنے ہوئے تھے تمہارے یہ سارے ہم اس میں نہیں جانا چاہتے۔ ۔ یہ تمہاری حرکتیں، تمہارے عقائد اور جو تمہاری آج تک کی سازشیں ہیں ان کا نتیجہ ہے۔‘‘

پڑھنے والوں کے ذہن میں یقیناََ یہ سوال آیا ہوگا کہ انہوں نے اتنا سنگین الزام لگانے کے بعد اس کا کوئی ثبوت بھی دیا ہوگا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے اس الزام کا ثبوت پیش کرنے کا کوئی تکلف نہیں کیا۔ شاید ان کے نزدیک یہ کافی تھا کہ انہوں نے کہہ دیا ہے اور سننے والوں کا فرض ہے کہ وہ اس پر یقین کر لیں۔ بہر حال یہ الزام پہلی مرتبہ نہیں لگایا گیا۔ پہلے بھی کئی مرتبہ یہ الزام لگایا گیا ہے۔ اس لیے مناسب ہوگا اگر اس الزام کا مختصر تجزیہ پیش کیا جائے۔ ہم اس مضمون میں جماعت احمدیہ اور پاکستان کی تاریخ کے تین مراحل کے بارے میں چند حقائق پیش کریں گے۔

جب پاکستان بن رہا تھا،

اس وقت کون سازش کر رہا تھا؟

چونکہ اس پروگرام میں زیادہ تر پاکستان کے حوالے سے بات ہو رہی تھی اس لیے ہم تجزیے کو وہیں سے شروع کریں گے جب ہندوستان میں پاکستان کے لیے تحریک کا آغاز ہوا۔ جہاں تک سیاسی بحثوں کا تعلق ہے تو یہ بحثیں اس مضمون کا موضوع نہیں ہیں۔ کسی بھی سیاسی موقف سے نیک نیتی اور شرافت سے بھی اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن پھوٹ اور نفاق ڈالنا اور کیچڑ اچھالنا اور چیز ہے اور اصولی اختلاف اور چیز۔ اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ اُس نازک دور میں کون پھوٹ ڈال رہا تھا اور کون مسلمانوں میں اتحاد کے لیے کوشاں تھا؟

جب برصغیر کی آزادی کے دن قریب آ رہے تھے اور پاکستان کے لیے مسلم لیگ کی تحریک شروع ہو چکی تھی، اس وقت جماعت احمدیہ کی مخالفت میں سب سے زیادہ مجلس احرار سرگرم تھی۔ اس وقت مجلس احرار کے لیڈر مسلم لیگ اور بانی پاکستان محمد علی جناح کے متعلق کیا اظہار کر رہے تھے ؟

آل انڈیا احرار کانفرنس پشاور کے موقع پر ان کے صدر افضل حق صاحب نے اپنے خطبہ صدارت میں کہا

’’لیگ کا نقاب اوڑھے ہوئے انگریز کا ایجنٹ ایسے مواقع کی طاق میں رہتا ہے کہ کب کانگرسی مسلمان کی زبان سے کوئی غیر محتاط کلمہ نکلے اور اسے عوام میں بد نام کرنے کا موقع میسر آئے۔‘‘

(خطبات احرار جلد اوّل، مرتبہ شورش کاشمیری، ناشر مکتبہ احرار لاہور بار اوّل 1944ءص 20)

پھر اسی تقریر میں انہوں نے کہا

’’لیگ کے ارباب اقتدار جو عیش کے آغوش میں پلے ہیں۔ اسلام جیسے بے خوف مذہب اور مسلمانوں جیسے مجاہد گروہ کے سردار نہیں ہو سکتے۔ مردوں سے مرادیں مانگنا اتنا بے سود نہیں۔ جتنا لیگ کی موجودہ جماعت سے کسی بہادرانہ اقدام کی توقع رکھنا۔‘‘

(خطبات احرار جلد اوّل، مرتبہ شورش کاشمیری، ناشر مکتبہ احرار لاہور بار اوّل 1944ءص21)

ملاحظہ کریں کہ اسی خطبہ صدارت میں انہوں نے ان الفاظ میں یہی الزام جماعت احمدیہ پر لگایا:

’’صرف مرزائیت کو ہم انگریز کے گندے تالاب کی گندی مچھلی سمجھ کر پاس نہیں آنے دیتے۔‘‘

(خطبات احرار جلد اوّل، مرتبہ شورش کاشمیری، ناشر مکتبہ احرار لاہور بار اوّل 1944ءص33)

پھر 1941ءکے خطبہ صدارت میں یہ تیر چلایا

’’احرار اس پاکستان کو پلیدستان سمجھتے ہیں جہاں امراء بھوک کو چورن سے بڑھاتے ہوں۔‘‘

(خطبات احرار جلد اوّل، مرتبہ شورش کاشمیری، ناشر مکتبہ احرار لاہور بار اوّل 1944ءص83)

مجلس احرار کے قائد عطا ء اللہ شاہ بخاری صاحب نے مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا کہ اگر آپ نے پاکستان حاصل بھی کر لیا تو

’’جو نظام آپ قائم کریں گے وہ انسانوں کا بنا ہوا ہوگا جس کی ہر شق کفر کے آئین سے ماخذ ہوگی۔‘‘

(حیات امیر شریعت مصنفہ جانباز مرزا، ناشر مکتبہ تبصرہ۔ نومبر 1969ءص 344)

آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ یہ سیاسی اختلاف نہیں ہے۔ سیاسی اختلاف بالکل مختلف انداز میں کیا جاتا ہے۔ یہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈالی جا رہی ہے۔ نفرت انگیزی کی جا رہی ہے۔ کہ مسلم لیگ والے تو انگریزوں کے ایجنٹ ہیں، بزدل ہیں، یہ پلیدستان بنا رہے ہیں، اور یہ جو قانون بنائیں گے کفر ہو گا۔ اور انہی دنوں میں اسی قسم کے الزامات یہی تنظیم جماعت احمدیہ پر بھی لگا رہی تھی۔ اور یہ تفرقہ اس وقت پیدا کیا جا رہا تھا جب ہندوستان کے مسلمانوں کو اتحاد کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ اور انہی دنوں میں مجلس احرار نے مدح صحابہ کے نام پر تحریک چلا کر شیعہ سنی اختلافات کو بھی بڑھانا شروع کیا۔ اور ان کے لیڈر مظہر علی اظہر جو کہ پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں جماعت احمدیہ کے خلاف آگ بھڑکانے میں ایک کلیدی کردار ادا کرتے رہے، انہوں نے پاکستان بننے سے پہلے اور بعد میں بانی پاکستان کو ” کافر اعظم” قرار دیا۔ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کے مطابق آزادی سے پہلے بھی یہ ہندوستان میں مختلف جگہوں پر جا کر شیعہ سنی فسادات برپا کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ گویا کہ اس طبقے کےمقاصد صرف جماعت احمدیہ کی مخالفت تک محدود نہیں تھے بلکہ ان کا اصل مقصد مسلمانوں میں اختلافات پیدا کر کے اپنے آقاؤں کو خوش کرنا تھا۔

(رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953ءص273)

اور صرف مجلس احرار ہی اس بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھو رہی تھی۔ جماعت اسلامی کے بانی مودودی صاحب نے اس نازک دور میں لکھا

’’افسوس کہ لیگ کے قائد اعظم سے لے کر چھوٹے مقتدیوں تک ایک بھی ایسا نہیں جو اسلامی ذہنیت اور اسلامی طرز فکر رکھتا ہو اور معاملات کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھتا ہو۔‘‘

(مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوئم مصنفہ مولانا ابو الاعلیٰ مودودی ص 30)

جماعت احمدیہ کا موقف کیا تھا؟

اس کے برعکس جب بعض اخبارات نے یہ لکھنا شروع کیا کہ اس وقت تو جماعت احمدیہ مسلم لیگ کا ساتھ دے رہی ہے لیکن پاکستان بننے کے بعد وہاں پر ان سے وہی سلوک ہوگا جو کابل میں کیا گیا تھا۔ اس پر حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا:

’’قطع نظر اس کے کہ مسلم لیگ والے پاکستان بننے کے بعد ہمارے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ وہ ہمارے ساتھ وہی کابل والا سلوک کریں گے یا اس سے بھی بد تر معاملہ کریں گے۔ اس وقت سوال یہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے جھگڑے میں حق پر کون ہے اور نا حق پر کون۔ ۔ ۔ ہم نے بار بار ہندوؤں کو توجہ دلائی کہ وہ مسلمانوں کے حقوق کو تلف کر رہے ہیں۔ یہ امر ٹھیک نہیں۔ ہم نے بار بار ہندوؤں کو متنبہ کیا کہ مسلمانوں کے حقوق کو اس طرح نظر انداز کر دینا بعید از انصاف ہے۔ اور ہم نے بار بار ہندو لیڈروں کو آگاہ کیا کہ یہ حق تلفی اور یہ نا انصافی آخر رنگ لائے گی۔ مگر افسوس ہمارے توجہ دلانے اور ہمارے انتباہ اور ہمارے ان کو آگاہ کرنے کا نتیجہ کبھی کچھ نہ نکلا۔‘‘

( الفضل 21 مئی 1947ء)

اسی طرح حضرت مصلح موعودؓ نے برطانوی حکومت کو یہ پیغام بھجوادیا تھا اور یہ پیغام الفضل میں بھی شائع ہو گیا تھا کہ اگر مسلم لیگ اور حکومت کی جنگ ہوئی تو ہم بہر حال مسلم لیگ کے ساتھ ہوں گے۔ اور یہ کہ کانگرس کو یہ پیغام بھجوا دیا تھا کہ وہ یہ خیال چھوڑ دے کہ وہ مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر ان پر حکومت کر سکتے ہیں۔

(الفضل 13؍ نومبر 1946ء)

بانیٔ پاکستان کی گواہی

یہ درست ہے کہ اُس وقت مسلمانوں میں انتشار اور تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی تھی۔ اُس وقت بانی پاکستان محمد علی جناح سے بہتر کون سمجھ سکتا تھا کہ یہ کام کون کر رہا ہے؟ آپ نے 1943ء میں مسلم لیگ کے خطبہ صدارت میں فرمایا:

’’مسلمانوں میں انتشار و افتراق کے بیج بوئے گئے۔ یہ سب یکے بعد دیگرے آئے۔ کانگرسی مسلمان، جمعیت العلماء، احرار، آزاد کانفرنس، مومن، شیعہ، سنی غرضیکہ مسلم لیگ کو تباہ کرنے کی ہر کوشش کی گئی۔‘‘

(تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ۔ سر سید سے قائد اعظم تک۔ مرتبہ آزاد بن حیدر، ناشر تحریک پاکستان فاؤنڈیشن 2013ء ص 802و 803)

میری چودھری غلام حسین صاحب سے عاجزانہ گذارش ہے کہ اس فہرست پر ذرا نظر دوڑائیں۔ اس میں آپ کو جماعت احمدیہ کے اشد ترین مخالفین کے نام نظر آئیں گے مگر جماعت احمدیہ کا نام نہیں نظر آئے گا۔

پڑھنے والے خود یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کون مسلمانوں میں نفاق اور انتشار پیدا کر رہا تھا اور کون مسلمانوں میں اتحاد پیدا کر رہا تھا۔ طریقہ واردات یہ تھا کہ مجلس احرار جماعت احمدیہ کی مخالفت کا نعرہ لگا کر ہمدردیاں حاصل کرتی تھی اور پھر مسلمانوں میں انتشار اور تفرقہ پیدا کرنے کا کام آگے بڑھاتی جاتی۔ کس کو خوش کرنے کے لیے یہ کیا جا رہا تھا ؟یہ فیصلہ پڑھنے والے خود کریں۔

پاکستان بننے کے بعد کس نے سازشیں کیں؟

اب دوسرے مرحلے کی طرف آتے ہیں۔ پاکستان بن گیا۔ اس وقت اس بات کی اشد ضرورت تھی کہ پاکستان کو مستحکم رکھا جائے تاکہ ملک ترقی کی طرف گامزن ہو سکے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ مجلس احرار نے اب پاکستان کے ہمدرد کا روپ دھارا اور جماعت احمدیہ کے خلاف تحریک شروع کردی۔ پھر جماعت اسلامی اور دوسری جماعتیں اس فتنہ انگیزی میں شامل ہوتی گئیں۔ لیکن ایک لمحہ ٹھہریں کیا یہ تحریک صرف جماعت احمدیہ کے خلاف تھی ؟ یا اصل مقصد پاکستان کے امن کو برباد کرنا تھا۔ کیا یہ فسادات جماعت احمدیہ کے خلاف خود بخود برپا ہو رہے تھے یا کچھ خفیہ ہاتھ اس عمل کی پرورش کر رہے تھے؟ خوش قسمتی سے ان فسادات پر تفصیلی عدالتی تحقیقات ہوئی تھیں۔ ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں ان تحقیقات کی رپورٹوں سے کافی مدد مل جائے گی۔

چودھری غلام حسین صاحب نے جماعت احمدیہ پر الزام لگایا ہے کہ خدانخواستہ جماعت ہمیشہ سے پھوٹ ڈلوانے کے لیے سازشیں کر رہی ہے۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان بننے کے فوری بعد کس نے سازشوں کا آغاز کیا تھا؟ اور اس شور و غل کا مقصد کیا تھا ؟ ملاحظہ کریں کہ ستمبر 1948ءمیں جب قائد اعظم کی بیماری شدت اختیار کر چکی تھی اور آپ اپنی زندگی کے آخری ایام زیارت میں گزار رہے تھے، مودودی صاحب نے ان ارادوں کا اظہار فرمایا

’’ایک یہ کہ جن لوگوں کے ہاتھ میں اس وقت زمام کار ہے وہ اسلام کے معاملے میں اتنے مخلص اور اپنے وعدوں کے بارے میں جو انہوں نے قوم سے کیے تھے اتنے صادق ہوں کہ اسلامی حکومت قائم کرنے کی جو اہلیت ان کے اندر مفقود ہے اسے خود محسوس کر لیں اور ایمانداری کے ساتھ یہ مان لیں کہ پاکستان حاصل کرنے کے بعد ان کا کام ختم ہو گیا ہے اور یہ کہ اب یہاں اسلامی نظام کی تعمیر کرنا ان لوگوں کا کام ہےجو اس کے اہل ہوں۔‘‘

(رسائل و مسائل حصہ اوّل، مصنفہ مولانا ابو اعلیٰ مودودی ناشر اسلامک پبلیکشنز 1998ء ص 334و335)

قائد اعظم کی تمام خدمات کا یہ اجر دیا جا رہا تھا۔ کہ جب وہ زندگی کے آخری دن گزار رہے تھے تو یہ اعلان کیا جا رہا تھا کہ پاکستان بناتے وقت تو ہم نے اس کے بننے کی مخالفت کی تھی لیکن اب اقتدار ہمارے حوالے کرو اور رخصت ہوجاؤ۔ کیونکہ تم اسلامی حکومت چلانے کے اہل نہیں ہو۔

کیا جماعت احمدیہ کے مخالف گروہ صرف جماعت احمدیہ کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے تھے؟ نہیں ایسا نہیں تھا۔ مجلس احرار کی مثال لے لیں۔ پاکستان بنتے ہی انہوں نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا۔ کہ مشرقی پنجاب میں لاکھوں مسلمان عورتوں کے اغوا ہونے کی وجہ یہ تھی کہ بانی پاکستان محمد علی جناح گورنر جنرل بننے کے لیے بے تاب تھے۔ اور وزیر اعظم لیاقت علی خان صاحب کے خلاف یہ بیہودہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ بیگم لیاقت علی خان اور دوسری عورتیں جو پردہ نہیں کرتیں وہ بازاری عورتیں ہیں۔

( رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953ء ص 15)

وزیراعظم لیاقت علی خان کا انتباہ

ابھی پاکستان میں جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت انگیزی کی مہم ٹھیک سے شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ علماء کا طبقہ مذہبی تنگ نظری کا سہارا لے کر ایسی حرکات شروع کر چکا تھا کہ 12؍ مارچ 1949ء کو ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان صاحب کو یہ کہنا پڑا:

’’یہاں پر کچھ ایسے لوگ ہیں جو انتشار پھیلانا چاہتے ہیں اور پاکستان کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور یہ نام نہاد علماء جو آپ کے پاس آئے تھے وہ اسی مقصد کے لیے آئے تھے تاکہ آپ کے ذہن میں پاکستان کے مسلمانوں کی نیتوں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کریں۔ خدا کے لیے ان کے شر انگیز پروپیگنڈا پر کان نہ دھریں۔ میں اس طبقے کو جو پاکستان کو توڑنا چاہتا ہے یہ تنبیہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہم اسے مزید برداشت نہیں کر سکتے۔‘‘

(ترجمہ ازانگریزی۔ اس روز کی کارروائی قومی اسمبلی کی سائٹ پر موجود ہے)

’’ بیرونی ہاتھ ‘‘  اپنا کام شروع کرتا ہے

ملک کے وزیر اعظم کا یہ انتباہ واضح کر رہا ہے کہ انتشار اور نفاق پھیلانے کی سازشیں جماعت احمدیہ نہیں کر رہی تھی بلکہ وہ طبقہ کر رہا تھا جو کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت میں مشہور ہے۔ جس طرح آج کل الیکٹرانک میڈیا عوام کی رائے پر اثر انداز ہوتا ہے، اسی طرح اُس دور میں اخبارات اور رسائل عوام کی رائے پر اثر انداز ہوتے تھے۔ اور جب جماعت احمدیہ کے خلاف تحریک شروع ہو رہی تھی اور بعض اخبارات اور رسائل نے لوگوں کو احمدیوں کے خلاف بھڑکانا شروع کیا تو پولیس نے حکومت کو یہ رپورٹ بھجوائی:

’’شعلہ کا مضمون نہایت قابل اعتراض ہے۔ اس میں صرف احمدیوں پر حملہ نہیں کیا گیا۔ بلکہ حکام پر بھی نہایت ناواجب نکتہ چینی کی گئی ہے۔ سی آئی ڈی اس اخبار کے ایڈیٹر عبدالرشید اشک سے واقف ہے۔ بہت سے دوسرے احراریوں کی طرح یہ بھی کانگرسی ہے۔ 1947ء میں یہ شخص پنجاب پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند کر دیا گیا تھا۔ کیونکہ یہ بھارت کے سیاسی ورکروں کے ساتھ ساز باز رکھتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

یہ کانگرس کے پٹھو تھے اور ان میں سے بعض اب بھی کانگرس کے ہی وفادار ہیں۔ مشہور احراری حبیب الرحمٰن تقسیم کے بعد اس صوبے کو چھوڑ کر بھارت چلا گیا۔ بعض احراری دلوں کی گہرائیوں میں اب تک پاکستان کے غدار ہیں۔‘‘

(رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953ء ص 49)

یہ انتباہ صرف پاکستان کی سی آئی ڈی اور پولیس نہیں کر رہی تھی کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت میں بیرونی ہاتھ ملوث ہے۔ بھارت کے کچھ نمایاں مسلمان بھی پاکستان کے مسلمانوں کو یہی انتباہ کر رہے تھے۔ خواجہ حسن نظام دہلی میں حضرت نظام الدین اولیاء کی درگاہ سے وابستہ تھے۔ ان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ ان سالوں میں وہ پاکستان آئے اور ایک تقریر میں فرمایا

’’مسلمانوں میں اتحاد کی سخت ضرورت ہے۔ اس وقت مسلمانوں کے فرقوں شیعہ سنی حنفی وہابی مقلد غیر مقلد دیوبندی بریلوی قادیانی غیر قادیانی کا الجھاؤ پاکستان کے استحکام کے سخت خلاف ہے۔ اور جو لوگ اس وقت مسلمان فرقوں اور خصوصاََ قادیانیوں کے خلاف تقریریں کرتے پھرتے ہیں وہ بھارت کے ایجنٹ اور ہندوؤں کے تنخواہ دار ہیں۔‘‘

( آزاد 28 جون 1950ء آخری صفحہ)

ان حقائق کی موجودگی میں چودھری غلام حسین صاحب کے لیے یہ فیصلہ کرنا زیادہ مشکل نہیں ہو گا کہ کون پاکستان کے اور مسلمانوں کے اتحاد کے خلاف سازشیں کر رہا تھا؟ اب اس چیز کا جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستان کے اندر جماعت احمدیہ کے خلاف ان فسادات کو کون پروان چڑھا رہا تھا اور اس کے لیے کیا طریقہ کار استعمال کیا جا رہا تھا۔ اور اس کا کیا نتیجہ نکلا؟

مشرقی اور مغربی پاکستان  کے درمیان کس نے اختلافات پیدا کئے؟

اُن سالوں میں پاکستان کا آئین بنانے کی کوششیں ہو رہی تھیں۔ اور اس معاملہ میں پنجاب کی حکومت اور بنگال سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں میں کئی اختلافات تھے۔ پنجاب حکومت کے موقف کی وکالت پنجاب کے وزیر اعلیٰ ممتاز دولتانہ صاحب کر رہے تھے۔ اور بنگال کے سیاستدانوں کے موقف کو پاکستان کے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین صاحب پیش کر رہے تھے جن کا تعلق بنگال سے تھا۔ ان اختلافات نے رنجشوں کی صورت اختیار کی اور وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین صاحب کا خیال تھا کہ ممتاز دولتانہ صاحب وزارت عظمیٰ پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم تفصیلات پیش کریں گے کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے جماعت احمدیہ کے مخالفین کی سرپرستی شروع کی اور ان فسادات کا رخ مرکزی حکومت کی طرف پھیرنے کی کوشش کی اور جماعت کے مخالفین کا زور صرف پنجاب تک محدود تھا۔ بنگال ان فسادات سے بالکل علیحدہ رہا تھا۔ جماعت احمدیہ کے مخالف مولویوں نے پنجاب میں خواجہ ناظم الدین صاحب کے بارے میں ایسی بیہودہ اور خلاف واقعہ باتیں علی الاعلان کہنی شروع کیں جن کی وجہ سے نہ صرف خواجہ ناظم الدین صاحب کی توہین ہوتی تھی بلکہ یہ باتیں اہل بنگال کی دل آزاری کا باعث بھی بن رہی تھیں اور پاکستان میں رخنے پیدا کر رہی تھیں۔

مثال کے طور پر ایک جلسے میں عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب خواجہ ناظم الدین صاحب کی خاص طورپر تحقیر کرتے ہوئے ان کے بارے میں ’’بدھو الذین احمقون‘‘ کے الفاظ استعمال کیے اور کہا کہ وہ مرزائی ہو گئے ہیں۔ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت ص145) وقت کے ساتھ ان کی بد تمیزیاں بڑھتی گئیں۔ انہوں نے اپنے جلسوں میں وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین صاحب کے لیے بھوکا بنگالی، تیل کا کپا، کچھو کمہ، بدھو، لعین، چٹا وٹا جیسے گرے ہوئے الفاظ استعمال کرنا شروع کردیے۔ (ملت 18 دسمبر 1953ء ص6) اور پھر آخر میں یہ آزمودہ نسخہ استعمال کیا کہ لاہور کے ایک جلسہ میں عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب نے اعلان کیا کہ وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین صاحب مرزائی ہو گئے ہیں اور ان کے بچوں کے مرزائیوں سے رشتے بھی ہو گئے ہیں۔ (روزنامہ آزاد 18 فروری 1953ء)۔ آخر میں اتنی ہمت بڑھ گئی کہ 2 مارچ 1953ءکوجماعت احمدیہ کے مخالفین نے یہ کہہ کر وزیر اعظم کو قتل کی دھمکی دی کہ ان کا انجام بھی لیاقت علی خان جیسا ہو گا۔ (تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953ء ص176)

اگر تو مقصد صرف جماعت احمدیہ کی مخالفت تھی تو خواجہ ناظم الدین صاحب پر یہ رکیک حملے کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ اصل ایجنڈا یہی تھا کہ امت مسلمہ میں تفرقہ پیدا کیا جائے اور پاکستان کو نقصان پہنچایا جائے۔ ان اوباشانہ حملوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان فاصلے بڑھنے لگے۔ اور اس عمل کا منطقی نتیجہ 1971ء میں پاکستان کے ٹوٹنے کی صورت میں نکلا۔ چودھری غلام حسین صاحب توجہ فرمائیں کہ کس نے تفرقہ پیدا کیا؟

جماعت کے مخالفین کو مالی وسائل کس طرح ملے؟

اب یہ دیکھتے ہیں کہ 1953ء میں جماعت احمدیہ کے خلاف برپا ہونے والے فسادات کو بھڑکانے کے لیے مالی وسائل کس طر ح مہیا کیے گئے؟ ان فسادات میں دو گروہ کلیدی کردار ادا کر رہے تھے۔ کئی اخبارات ہر روز جماعت احمدیہ کے خلاف اشتعال انگیز تحریریں شائع کر کے عوام کو احمدیوں کے خلاف بھڑکا رہے تھے۔ تحقیقاتی عدالت میں ثابت ہوا بلکہ ان اخباروں نے خود بھی اقرار کیا کہ صوبہ پنجاب کی حکومت نے ان کو ’’تعلیم بالغاں ” کے فنڈ سے رقوم مہیا کی تھیں۔ اور عدالت میں ریکارڈ بھی پیش کیا گیا کہ کس اخبار کو کتنی رشوت دی گئی تھی۔ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953 ءص83تا 88 و 380تا 383)۔ اور دوسرا اہم کردار وہ مولوی حضرات ادا کر رہے تھے جو مختلف شہروں میں جا کر احمدیوں کے خلاف تقاریر کر کے بھڑکا رہے تھے۔ ان کو پنجاب حکومت نے ’’محکمہ اسلامیات ” سے رقوم کی ادائیگیاں کرنی شروع کیں تاکہ وہ یہ کام جاری رکھ سکیں۔ اور اس رشوت سے یہ کام آگے چلایا گیا۔ (رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953ء ص88)

جو صحافی حضرات آج جماعت احمدیہ پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ خدانخواستہ جماعت احمدیہ ہمیشہ سے سازشیں کر کے تفرقہ پیدا کر رہی ہے، میری ان سے گذارش ہے کہ نہ صرف 1953ء کی تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ پڑھیں بلکہ خود جماعت احمدیہ کے مخالفین نے جو اس عدالت کے روبرو گواہیاں دی تھیں ان کو بھی پڑھیں۔ ان کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ پھر وہ پاکستان کے عوام کو بتائیں کہ کون سازش کرتا رہا ہے؟

کیا 1953ء کے فسادات صرف جماعت احمدیہ کے خلاف برپا کیے گئے تھے؟ ذرا غور فرمائیں کچھ رشوتیں دے کر کتنے مقاصد حاصل کر لیے گئے۔ مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان فاصلے بڑھے۔ پاکستان کی خالق جماعت میں پھوٹ ڈالی گئی۔ پہلی مرتبہ صوبائی اور مرکزی حکومتوں کا تصادم ہوا۔ پہلی مرتبہ صوبائی اور مرکزی حکومتوں کو بر طرف کیا گیا۔ پہلی مرتبہ ملک میں اس طرح کے فسادات برپا کیے گئے۔ یہاں تک نوبت پہنچی کہ 7 مارچ کو لائل پور میں جماعت احمدیہ کے مخالفین نے ٹرینوں کو روک کر عام مسافروں کو لوٹنا اور عورتوں کو زنا بالجبر کا نشانہ بنانا شروع کر دیا(رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953ء ص188)۔ ان فسادات کی وجہ سے پاکستان میں پہلی مرتبہ ملک میں مارشل لاء لگایا گیا۔ گویا سارے نظام کو تہ و بالا کر دیا گیا۔

کیا 1974ء کے فسادات اتفاقاََ شروع ہوئے تھے؟

اب آخر میں مختصراََ 1974ء کے واقعات کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔ کیا 1974ء کے فسادات اس طرح شروع ہوئے کہ مئی کے آخر میں ربوہ کے سٹیشن پر ایک جھگڑا ہوا اور اس کے نتیجے میں پاکستان میں فسادات شروع ہو گئے۔ اور پھر آئین میں ترمیم کر کے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا گیا؟ یا یہ فسادات بھی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت شروع کرائے گئے تھے ؟ سب سے پہلے ہم حالات کا تسلسل دیکھتے ہیں۔

1۔ 12؍ اپریل 1973ء کو قومی اسمبلی نے پاکستان کے نئے آئین کی منظوری دی۔ اس میں پہلی مرتبہ صدر اور وزیر اعظم کے حلف نامے میں یہ الفاظ شامل کیے گئے کہ میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا۔ ظاہر ہے کہ یہ احمدیوں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ مذہبی جماعتوں کے کچھ اور مطالبات بھی تسلیم کیے گئے۔

2۔ 29؍ اپریل 1974ء کو آزاد کشمیر اسمبلی میں سفارشی قرارداد منظور کی جاتی ہے کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ رابطہ عالم اسلامی کے سیکریٹری جنرل نے سعودی عرب سےبھٹو صاحب کو اس قرارداد کی منظوری پر مباک باد کی تار دی۔

3۔ 27؍ مئی 1973ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے ایک ہنگامی مجلس شوریٰ طلب فرمائی اور اس میں ممبران کو مطلع فرمایا کہ اس وقت جماعت احمدیہ کے خلاف تین منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ اور اس غرض کے لیے بعض سیاسی پارٹیاں بیرون ملک سے مالی مدد بھی لے رہی ہیں اور حکمران جماعت کا ایک طبقہ جماعت احمدیہ کے خلاف سرگرم ہو رہا ہے۔

4۔ فروری 1974؍ کے دوران لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرنس ہوئی۔ جماعت کو پہلے اطلاع مل گئی تھی کہ اس موقع کو مختلف ممالک کے وفود میں جماعت کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ وزیر خارجہ عزیز احمد صاحب کو اطلاع کی گئی لیکن انہوں نے کہا کہ ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔ لیکن عملاََ ایسا کیا گیا۔

ڈاکٹر مبشر حسن صاحب اس وقت پاکستان کی حکومت میں وزیر تھے۔ میں نے خود انٹرویو کرتے ہوئے اُن سے اس بارے میں سوال کیا تو ان کا جواب یہ تھا کہ میرا نہیں خیال کہ بھٹو یا عزیز احمد نے جان بوجھ کر ایسا کیا تھا۔ وہ اسے روک نہیں سکتے تھے۔ وہ helpless یعنی بے بس تھے۔ اور انہیں پتہ تھا کہ میں Helpless ہوں۔ میں نے ڈاکٹر مبشر حسن صاحب سے پوچھا کہ وہ کون سے ہاتھ تھے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ وہ خفیہ ہاتھ تھے۔ گورنمنٹ کو پتہ نہیں چلا۔ اور میں نے 1974ء میں بھٹو صاحب کو لکھ دیا تھا کہ جو کچھ آپ کر رہے ہیں اس کا نتیجہ مارشل لاء کی صورت میں نکلے گا۔ یہ ریکارڈ شدہ انٹرویو موجود ہے۔

بڑے ادب سے چودھری غلام حسین صاحب اور ان کے ہم نوا صحافی حضرات سے درخواست ہے کہ اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ ظاہر ہے کہ جماعت احمدیہ کا نام لے کر خفیہ ہاتھ پاکستان میں کارروائیاں کر جاتے ہیں اور حکومت کو بھی بے بس کر دیتے ہیں۔ کون سازش کر رہا ہے؟جماعت احمدیہ یا جماعت کے مخالفین؟

5۔ اس کے قریباََ ایک ماہ بعد رابطہ عالم اسلامی کا اجلاس مکہ مکرمہ میں ہوتا ہے۔ اور وہاں ایک کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کے فیڈرل سیکریٹری تجمل ہاشمی صاحب ایک قرارداد پر دستخط کرتے ہیں یا یہ کہنا چاہیے ایک ملک کے نمائندے ان پر دباؤ ڈال کر دستخط کراتے ہیں کہ احمدیوں کے کفر کا اعلان کیا جائے۔ ان کا بائیکاٹ کیا جائے۔ ان کی سرگرمیوں پر پابندیاں لگائی جائیں۔ اور اس کے ایک ماہ کے بعد ملک میں فسادات شروع ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہو سکتا ہے؟ یا یہ پاکستان اور جماعت احمدیہ کے خلاف منظم سازش تھی۔

6۔ 13؍ جون 1974ء کو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نشری تقریر کرتے ہیں۔ اور اس میں اعتراف کرتے ہیں کہ ان فسادات کے پیچھے ’’بیرونی ہاتھ‘‘ ہے۔ اور یہ حالات پاکستان کی سالمیت اور وحدت کے لیے خطرہ ہیں۔

(Dawn 14 June 1974)

کیا اس وقت جماعت کی مخالف کسی بھی جماعت نے اس بات کا انکار کیا کہ اس تحریک کے پیچھے بیرونی ہاتھ ہے؟ میں نے خود اس وقت کے پیپلز پارٹی کے اہم عہدیداروں سے انٹرویو کر کےاس بارے میں سوال کیے۔ ان میں سے کسی نے اس بات سے انکار نہیں کیا کہ یہ سب کچھ ایک’’ بیرونی ہاتھ‘‘کرا رہا تھا۔ آخر میں میں نے پروفیسر غفور صاحب سے انٹرویو کیا۔ وہ اس وقت یعنی 1974ء میں جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل اور پارلیمانی لیڈر تھے۔ اور ساری عمر جماعت کے مخالف رہے۔ جب ساری تفصیلات ان کے سامنے پیش کیں تو انہوں نے بھی اس بات سے انکار نہیں کیا کہ ان فسادات کے پیچھے بیرونی ہاتھ تھا۔ بس اتنا کہا کہ بھٹو صاحب اس وقت وزیر اعظم تھے۔ ان کے علم میں کوئی بات ہوگی جس کی بنا پر انہوں نے یہ کہا تھا۔ اب یہ تو ان سے ہی پوچھا جا سکتا تھا کہ وہ کون سا بیرونی ہاتھ تھا؟

اس سے بڑھ کر کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ جب بھی جماعت کے خلاف مہم چلائی جاتی ہے، اس کے پیچھے سازشیں کارفرما ہوتی ہیں۔ اور ایک بیرونی ہاتھ کٹھ پتلیوں کی طرح جماعتِ احمدیہ کے مخالفین کو حرکت دیتا ہے۔ اور مقصد صرف جماعت کو نقصان پہنچانا نہیں ہوتا بلکہ اصل مقصد پاکستان کو نقصان پہنچانا اور امت مسلمہ میں تفرقہ پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اس مضمون میں صرف اختصار سے چند امور پیش کیے گئے ہیں۔ اس بارے میں حقائق کا اتنا ذخیرہ موجود ہے جو کئی کتابوں میں ہی سما سکتا ہے۔ اور بہت سا ایسا مواد جو کہ پہلے خفیہ رکھا گیا تھا، اب منظر عام پر آنا شروع ہو گیا ہے۔ آخر میں صحافی حضرات بلکہ تمام اہل وطن سے یہ عاجزانہ گذارش ہے کہ سنی سنائی باتوں پر یقین کر نے کی بجائے خود تحقیق کر کے حقائق معلوم کرنےکی کوشش کریں تاکہ ملک کو مزید المیوں سے بچایا جاسکے۔

(نوٹ: یہ آرٹیکل مورخہ 22؍ مئی 2020ء کو آن لائن شائع کیا گیا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button