سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

احمد علیہ السلام۔ سیرت و سوانح

باغ میں ملت کے ہے کوئی گلِ رعنا کھلا

حضرت مسیح موعودؑ کے آباؤ اجداد

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا خاندان(حصہ دوم)

پھر نبی پاک ﷺ نے ایک جگہ اس آنے والے کو “حارث” یعنی زمیندار بتلایا اور فرمایا کہ وہ ماوراء النہر سے آئے گا اورایک دوسری حدیث میں فرمایا کہ اس کی بستی کا نام کدعہ ہوگا۔جوقادیان کی طرف ہی اشارہ ہے ۔

عَنْ هلَالِ بْنِ عَمْرو قَالَ سَمِعْتُ عَلِيًّا رضی اللّٰہ عنہ يَقُولُ قَالَ النَّبِىُّﷺ ’’يَخْرُجُ رَجُلٌ مِنْ وَرَاءِ النَّهْرِ يُقَالُ لَهُ الْحَارِثُ حَرَّاثٌ عَلَى مُقَدِّمَتِهِ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ مَنْصُورٌ يُوَطِّئُ أَوْ يُمَكِّنُ لِآلِ مُحَمَّدٍﷺ كَمَا مَكَّنَتْ قُرَيْشٌ لِرَسُولِ اللّٰهِﷺ وَجَبَ عَلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ نَصْرُهُ ‘‘ أَوْ قَالَ “إِجَابَتُهُ‘‘

(سنن ابوداؤد کتاب المہدی 4290)

ترجمہ :ہلال بن عمرو کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی ؓ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ماوراء النہر(یعنی بخارایاسمرقند) سے ایک شخص نکلے گا اور وہ حارث یا حرّاث کے نام سے پکاراجائے گایعنی زمیندارکہلائے گا۔اس کے لشکر کا سردار ایک توفیق یافتہ شخص ہوگا جس کو آسمان سے منصور کے نام سے پکاراجائے گا۔جو آل محمدﷺ کو قوت بخشے گا جیسے قریش نے رسول اللہﷺ کو ٹھکانہ دیا تھا۔ہرایک مومن پر واجب ہے کہ اس کی مدد کرے یا فرمایا اس کوقبول کرے۔

شیخ علی حمزہ بن علی ملک الطوسی نے اپنی کتاب ’’جواہرالاسرار‘‘ میں ایک حدیث یہ درج فرمائی ہے:

’’در اربعین آمدہ است کہ خروج مہدی ازقریہ کدعہ باشد۔ قال النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یخرج المھدی من قریۃ یقال لھا کدعہ ویصدقہ اللّٰہ تعالٰی ویجمع اصحابہ من اقصی البلاد علی عدّۃ اھل بدر بثلاث مائۃ وثلاثۃ عشر رجلا ومعہ صحیفۃ مختومۃ (ای مطبوعۃ) فیھا عدد اصحابہ باسمائھم وبلادھم وخلالھم ‘‘

(جواہر الاسرار بحوالہ انجام آتھم ،روحانی خزائن جلد11 صفحہ 324-325)

ترجمہ :[کتاب ] اربعین میں یہ آیاہے مہدی کدعہ نامی بستی سے نکلے گا[جیساکہ ] نبی ﷺ نے فرمایا کہ مہدی اس گاؤں سے نکلے گا جس کا نام کدعہ ہے (یہ نام دراصل قادیان کے نام کو معرب کیا ہوا ہے) اور پھر فرمایا کہ خدا اس مہدی کی تصدیق کرے گا۔ اور دور دور سے اس کے دوست جمع کرے گا جن کا شمار اہل بدر کے شمار سے برابر ہوگا۔ یعنی تین سو تیرہ313 ہوں گے اور ان کے نام بقید مسکن وخصلت چھپی ہوئی کتاب میں درج ہوں گے۔

پھرصلحاء و اولیائے امت کے بعض رؤیاوکشوف بھی ہیں جواس مہدی کے خاندان اورحسب ونسب کی بعض نشانیوں کوبیان کررہے ہیں۔جن میں سے حضرت امام محی الدین ابن عربی ؒ بھی ہیں جواس آنے والے کے خاندان میں چینی خون کی آمیزش کاذکربھی کرتے ہیں۔( بحوالہ چشمۂ معرفت ،روحانی خزائن جلد 23صفحہ 331،330)حضرت باباگرونانکؒ اور حضرت گلاب شاہ ؒ جیسے بزرگ صالح بھی ہیں کہ جواس موعودکانام بھی بتلاتے ہیں اوریہ بھی کہ تحصیل بٹالہ کی قادیان نامی بستی اس کامولدومسکن ہوگی۔

( بحوالہ مرکز احمدیت قادیان ص269 و ازالۂ اوہام،روحانی خزائن جلدہ 3صفحہ 480 تا 482)

مختصراً یہ کہ آنے والے موعودؑ کے خاندان کی بابت جب ہم قرآن کریم اور آنحضرتﷺ اور بزرگان و صلحائے امت کی پیشگوئیاں دیکھتے ہیں تو ان میں پاتے ہیں کہ

• وہ عالی خاندان کا ہوگا

• وہ فارسی الاصل ہوگا

• اس کے خاندان میں چینی خون کی آمیزش ہوگی

• وہ سادات میں سے ہوگا۔یعنی خاندان میں سادات کا خون بھی ہوگا

• وہ حارث /حراث ہوگا۔یعنی اس کاخاندان ممتاز زمیندارہ خاندان ہوگا

• کدعہ : یعنی قادیان نامی بستی سے اس کاظہورہوگا

• اوریہ بھی کہ اس کانام غلام احمد ہوگا

اس عظیم مامورمن اللہ کے خاندان کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایاجاسکتاہے کہ خدائے تعالیٰ نے اپنے پاک الہام وکلام میں جو اس امام الزمان کو ہوا اس میں متعدد بارآپ کے خاندان کا بطور خاص تذکرہ فرمایاہے۔ چنانچہ وہ فرماتاہے :

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِی جَعَلَ لَکُمُ الصِّھْرَوَالنَّسَبَ

(تریاق القلوب ،روحانی خزائن جلد 15 ص 272-273،تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحہ 30)

وہ خدا سچا خدا ہے جس نے تمہارا دامادی کا تعلق ایک شریف قوم سے جو سید تھے کیا اور خود تمہاری نسب کو شریف بنایا جو فارسی خاندان اور سادات سے معجون مرکب ہے۔

خُذُوْاالتَّوْحِیْدَ التَّوْحِیْدَ یَااَبْنَاءَ الْفَارِسِ

توحید کو پکڑو ،توحیدکو پکڑو اے فارس کے بیٹو!

سُبْحَانَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی زَادَ مَجْدَکَ یَنْقَطِعُ آبَاءُکَ وَیُبْدَءُ مِنْکَ۔

(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1 صفحہ267 حاشیہ در حاشیہ نمبر1، تذکرہ صفحہ197 اور 231)

وہ خدا بہت پاک اور بہت مبارک اور بہت اونچا ہے جس نے تیری بزرگی کو زیادہ کیا۔وہ وقت آتاہے کہ تیرے باپ دادے کا ذکر کوئی بھی نہیں کرے گا اور ابتدا سلسلہ خاندان کا تجھ سے شروع ہوگا۔

حضرت اقدس علیہ الصلوٰة و السلام اپنے خاندان کی عظمت وبزرگی کی فلاسفی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’سُبْحَانَ اللّٰہِ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی زَادَ مَجْدَکَ یَنْقَطِعُ آبَاءُکَ وَیُبْدَءُ مِنْکَ…

اور عربی الہام کا ترجمہ یہ ہے کہ تمام پاکیاں خدا کے لئے ہیں جو بڑی برکتوں والا اور عالی ذات ہے۔ اُس نے تیری خاندانی بزرگی کو تیرے وجود کے ساتھ زیادہ کیا۔ اب ایسا ہوگا کہ آیندہ تیرے باپ دادے کا ذِکر منقطع کیا جائے گا اور ابتدا خاندان کا تجھ سے ہوگا…اس جگہ یاد رہے کہ اِس الہام کے اندر جو میرے خاندان کی عظمت بیان کرتا ہے ایک عظیم الشان نکتہ مخفی ہے اور وہ یہ ہے کہ اولیاء اللہ اور رسول اور نبی جن پر خدا کا رحم اور فضل ہوتا ہے اور خدا ان کو اپنی طرف کھینچتا ہے وہ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ (1) ایک وہ جو دوسروں کی اصلاح کے لئے مامور نہیں ہوتے بلکہ اُن کا کاروبار اپنے نفس تک ہی محدود ہوتا ہے۔ اور اُن کا کام صرف یہی ہوتا ہے کہ وہ ہردم اپنے نفس کو ہی زہد اور تقویٰ اور اخلاص کا صیقل دیتے رہتے ہیں اور حتّی الوسع خدا تعالیٰ کی اَدقّ سے اَدقّ رضامندی کی راہوں پر چلتے اور اُس کے باریک وصایا کے پابند رہتے ہیں اور ان کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ کسی ایسے عالی خاندان اور عالی قوم میں سے ہوں جو علو نسب اور شرافت اور نجابت اور امارت اورریاست کا خاندان ہو بلکہ حسب آیة کریمہ

اِنَّ أکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقٰکُمْ (الحجرات: 14)

صرف ان کی تقویٰ دیکھی جاتی ہے گو وہ دراصل چوہڑوں میں سے ہوں یا چماروں میں سے یا مثلاً کوئی اُن میں سے ذات کا کنجر ہو جس نے اپنے پیشہ سے توبہ کرلی ہو یا اُن قوموں میں سے ہو جو اسلام میں دوسری قوموں کے خادم اور نیچی قومیں سمجھی جاتی ہیں۔جیسے حجام۔ موچی۔ تیلی۔ ڈوم۔ میراسی۔ سقے۔ قصائی۔جولاہے۔ کنجری۔ تنبولی۔ دھوبی۔ مچھوے۔ بھڑبھونجے۔ نانبائی وغیرہ یا مثلاً ایسا شخص ہو کہ اس کی ولادت میں ہی شک ہو کہ آیا حلال کا ہے یا حرام کا۔ یہ تمام لوگ توبہ نصوح سے اولیاء اللہ میں داخل ہوسکتے ہیں کیونکہ وہ درگاہ کریم ہے اور فیضان کی موجیں بڑے جوش سے جاری ہیں اور اُس قدوس ابدی کے دریائے محبت میں غرق ہوکر طرح طرح کے میلوں والے اُن تمام میلوں سے پاک ہو سکتے ہیں جو عرف اور عادت کے طور پر اُن پرلگائے جاتے ہیں۔ اور پھر بعد اس کے کہ وہ اُس خدائے قدوس سے مل گئے۔ اور اس کی محبت میں محو ہوگئے اور اس کی رضا میں کھوئے گئے سخت بدذاتی ہوتی ہے کہ اُن کی کسی نیچ ذات کا ذِکر بھی کیا جائے کیونکہ اب وہ وہ نہیں رہے اور انہوں نے اپنی شخصیت کو چھوڑ دیا اور خدا میں جاملے اور اِس لائق ہوگئے کہ تعظیم سے ان کا نام لیا جائے۔ اور جوشخص بعد اس تبدیلی کے ان کی تحقیر کرتا ہے یا ایسا خیال دل میں لاتا ہے وہ اندھا ہے اور خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے ہے۔ اور خدا کا عام قانون یہی ہے کہ اسلام کے بعد قوموں کی تفریق مٹادی جاتی ہے اور نیچ اُونچ کا خیال دُور کیا جاتا ہے۔ ہاں قرآن شریف سے یہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ بیاہ اور نکاح میں تمام قومیں اپنے قبائل اور ہم رُتبہ قوموں یا ہم رُتبہ اشخاص اورکُفو کا خیال کرلیا کریں تو بہتر ہے تا اولاد کے لئے کسی داغ اور تحقیر اور ہنسی کی جگہ نہ ہولیکن اِس خیال کو حد سے زیادہ نہیں کھینچنا چاہئے کیونکہ قوموں کی تفریق پر خدا کی کلام نے زور نہیں دیا صرف ایک آیت سے کُفو اور حسب نسب کے لحاظ کااستنباط ہوتا ہے اور قوموں کی حقیقت یہ ہے کہ ایک مُدت دراز کے بعد شریف سے رذیل اور رذیل سے شریف بن جاتی ہیں اور ممکن ہے کہ مثلاً بھنگی یعنی چوہڑے یا چمار جو ہمارے ملک میں سب قوموں سے رذیل ترخیال کئے جاتے ہیں کسی زمانہ میں شریف ہوں اور اپنے بندوں کے انقلابات کو خدا ہی جانتا ہے دوسروں کو کیا خبر ہے۔ سو عام طور پر پنجہ مارنے کے لایق یہی آیت ہے کہ

اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰىكُمْ (الحجرات: 14)

جس کے یہ معنے ہیں کہ تم سب میں سے خدا کے نزدیک بزرگ اور عالی نسب وہ ہے جو سب سے زیادہ اس تقویٰ کے ساتھ جو صدق سے بھری ہوئی ہو خدا تعالیٰ کی طرف جھک گیا ہو اور خدا سے قطع تعلق کا خوف ہردم اور ہر لحظہ اور ہر ایک کام اور ہر ایک قول اور ہرایک حرکت اور ہر ایک سکون اور ہر ایک خلق اور ہر ایک عادت اور ہرایک جذبہ ظاہر کرنے کے وقت اُس کے دل پر غالب ہو۔ وہی ہے جو سب قوموں میں سے شریف تر اورسب خاندانوں میں سے بزرگ تر اور تمام قبائل میں سے بہتر قبیلہ میں سے ہے۔ اور اس لائق ہے کہ سب اس کی راہ پر فدا ہوں۔ غرض شریعتِ اسلامی کا یہ تو عام قانون ہے کہ تمام مدار تقویٰ پر رکھا گیا ہے لیکن نبیوں اور رسولوں اور محدثوں کے بارے میں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوکر آتے ہیں اور تمام قوموں کے لئے واجب الاطاعت ٹھہرتے ہیں قدیم سے خدا تعالیٰ کا ایک خاص قانون ہے جو ہم ذیل میں لکھتے ہیں۔

ہم اس سے پہلے ابھی بیان کرچکے ہیں کہ ایسے اولیاء اللہ جو مامور نہیں ہوتے یعنی نبی یا رسول یا محدث نہیں ہوتے اور اُن میں سے نہیں ہوتے جو دنیا کو خدا کے حکم اور الہام سے خدا کی طرف بلاتے ہیں ایسے ولیوں کو کسی اعلیٰ خاندان یا اعلیٰ قوم کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ان کا سب معاملہ اپنی ذات تک محدود ہوتا ہے لیکن ان کے مقابل پر ایک دوسری قوم کے ولی ہیں جو رسول یا نبی یا محدث کہلاتے ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک منصب حکومت اور قضا کا لے کر آتے ہیں اور لوگوں کو حکم ہوتاہے کہ ان کو اپنا امام اور سردار اور پیشوا سمجھ لیں اور جیسا کہ وہ خدا تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں اس کے بعد خدا کے اُن نائبوں کی اطاعت کریں۔ اِس منصب کے بزرگوں کے متعلق قدیم سے خدا تعالیٰ کی یہی عادت ہے کہ ان کو اعلیٰ درجہ کی قوم اور خاندان میں سے پیدا کرتا ہے تا ان کے قبول کرنے اور ان کی اطاعت کا جُوّا اُٹھانے میں کسی کو کراہت نہ ہو اور چونکہ خدا نہایت رحیم و کریم ہے اس لئے نہیں چاہتا کہ لوگ ٹھوکر کھاویں اور اُن کو ایسا ابتلا پیش آوے جو ان کو اس سعادتِ عظمیٰ سے محروم رکھے کہ وہ اُس کے مامور کے قبول کرنے سے اِس طرح پر رُک جائیں کہ اس شخص کی نیچ قوم کے لحاظ سے ننگ اور عار اُن پر غالب ہو اور وہ دِلی نفرت کے ساتھ اِس بات سے کراہت کریں کہ اس کے تا بعدار بنیں اور اس کو اپنا بزرگ قرار دیں… اس لئے خدا تعالیٰ کا قدیم قانون اور سنت یہی ہے کہ وہ صرف اُن لوگوں کو منصب دعوت یعنی نبوت وغیرہ پر مامور کرتا ہے جو اعلیٰ خاندان میں سے ہوں اور ذاتی طور پر بھی چال چلن اچھے رکھتے ہوں کیونکہ جیسا کہ خدا تعالیٰ قادر ہے حکیم بھی ہے اور اس کی حکمت اور مصلحت چاہتی ہے کہ اپنے نبیوں اور ماموروں کو ایسی اعلیٰ قوم اور خاندان اور ذاتی نیک چال چلن کے ساتھ بھیجے تاکہ کوئی دل ان کی اطاعت سے کراہت نہ کرے۔ یہی وجہ ہے جو تمام نبی علیہم السلام اعلیٰ قوم اور خاندان میں سے آتے رہے ہیں۔ اِسی حکمت اور مصلحت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں ہمارے سید و مولیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود کی نسبت ان دونوں خوبیوں کا تذکرہ فرمایا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے

لَقَدْ جَآءَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ (التوبة 128)

یعنی تمہارے پاس وہ رسول آیا ہے جو خاندان اور قبیلہ اور قوم کے لحاظ سے تمام دنیا سے بڑھ کر ہے اور سب سے زیادہ پاک اور بزرگ خاندان رکھتا ہے اور ایک اور جگہ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔

وَ تَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيْزِ الرَّحِيْمِ الَّذِيْ يَرَاكَ حِيْنَ تَقُوْمُ وَ تَقَلُّبَكَ فِي السّٰجِدِيْنَ(الشعراء 218-220)

یعنی خدا پر توکل کر جو غالب اور رحم کرنے والا ہے۔ وہی خدا جو تجھے دیکھتا ہے جب تو دعا اور دعوت کے لئے کھڑا ہوتا ہے۔ وہی خدا جو تجھے اس وقت دیکھتا تھا کہ جب تُو تخم کے طور پر راستبازوں کی پشتوں میں چلا آتا تھا یہاں تک کہ اپنی بزرگ والدہ آمنہ معصومہ کے پیٹ میں پڑا۔ اور ان کے سوا اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں ہمارے بزرگ اور مقدس نبیﷺ کے علوخاندان اور شرافتِ قوم اور بزرگ قبیلہ کا ذکر ہے۔

اوردوسری خوبی جو شرط کے طور پر مامورین کے لئے ضروری ہے وہ نیک چال چلن ہے کیونکہ بدچال چلن سے بھی دِلوں میں نفرت پیدا ہوتی ہے۔ اوریہ خوبی بھی بدیہی طور پر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہے جیسا کہ اللہ جلّ شانہ قرآن شریف میں فرماتا ہے

فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(یونس 17)

یعنی ان کفار کو کہہ دے کہ اِس سے پہلے میں نے ایک عمر تم میں ہی بسر کی ہے پس کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں کس درجہ کا امین اور راستباز ہوں۔ اب دیکھو کہ یہ دونوں صفتیں جو مرتبہ نبوت اور ماموریت کے لئے ضروری ہیں یعنی بزرگ خاندان میں سے ہونا اور اپنی ذات میں امین اور راستباز اور خدا ترس اور نیک چلن ہونا قرآن کریم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کمال درجہ پرثابت کی ہیں اور آپ کی اعلیٰ چال چلن اور اعلیٰ خاندان پر خود گواہی دی ہے۔ اور اِس جگہ میں اِس شکرکے ادا کرنے سے رہ نہیں سکتا کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں اپنی وحی کے ذریعہ سے کفار کو ملزم کیا اور فرمایا کہ یہ میرا نبی اس اعلیٰ درجہ کا نیک چال چلن رکھتا ہے کہ تمہیں طاقت نہیں کہ اس کی گذشتہ چالیس برس کی زندگی میں کوئی عیب اور نقص نکال سکو باوجود اس کے کہ وہ چالیس برس تک دن رات تمہارے درمیان ہی رہا ہے۔ اور نہ تمہیں یہ طاقت ہے کہ اس کے اعلیٰ خاندان میں جو شرافت اور طہارت اور ریاست اور امارت کا خاندان ہے ایک ذرہ عیب گیری کرسکو۔ پھر تم سوچو کہ جو شخص ایسے اعلیٰ اور اطہر اور انفس خاندان میں سے ہے اور اس کی چالیس برس کی زندگی جو تمہارے روبرو گذری۔ گواہی دے رہی ہے جو افترا اور دروغ بافی اِس کا کام نہیں ہے تو پھر ان خوبیوں کے ساتھ جبکہ آسمانی نشان وہ دِکھلا رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی تائیدیں اس کے شامل حال ہو رہی ہیں اور تعلیم وہ لایا ہے جس کے مقابل پر تمہارے عقائد سراسر گندے اور ناپاک اور شرک سے بھرے ہوئے ہیں تو پھر اس کے بعدتمہیں اس نبی کے صادق ہونے میں کونسا شک باقی ہے۔ اسی طور سے خدا تعالیٰ نے میرے مخالفین اور مکذّبین کو ملزم کیاہے…اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے ظالم مخالفین کو ملزم کرنے کے لئے مجھے یہ حجت عطا کی کہ اپنے الہام کے ذریعہ سے مجھے یہ سمجھایا کہ اُن سے پوچھ۔ میری چالیس برس کی زِندگی میں جو اس سے پہلے تم میں ہی میں نے بسر کی۔ کون سا نقص یا عیب میرا تم نے پایا؟ اور کونسا افترا اور جھوٹ میرا ثابت ہوا۔ ایسا ہی خدا تعالیٰ نے بذریعہ اپنے الہام کے مجھے یہ حجت بھی سکھلائی کہ ان کو کہہ دے کہ رسول اور نبی اور سب جو خدا کی طرف سے آتے اور دینِ حق کی دعوت کرتے ہیں وہ قوم کے شریف اور اعلیٰ خاندان میں سے ہوتے ہیں اور دنیا کی رُو سے بھی ان کا خاندان امارت اور ریاست کا خاندان ہوتا ہے تا کوئی شخص کسی طور کی کراہت کرکے دولت قبول سے محروم نہ رہے۔ سو میرا خاندان ایسا ہی ہے۔‘‘

( تریاق القلوب ،روحانی خزائن جلد 15 ص 275-285)

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button