حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

’’اپنے اپنے دائرہ میں مصلح بنیں‘‘

(ڈاکٹر سر افتخار احمد ایاز)

ہمارے پیارے آقا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آج سے 9 سال قبل اس طرف خصوصی توجہ دلائی تھی کہ ہمیں پیشگوئی مصلح موعود کی شوکت و عظمت کےاظہار کے لیے اپنے اپنے دائرہ میں مصلح بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حضور انور نے فرمایا کہ

’’پس آپ(حضرت مصلح موعودؓ۔ ناقل) کے کام کو دیکھ کرحضرت مصلح موعود ؓکی پیشگوئی کی شوکت روشن تر ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے اور جیسا کہ مَیں نے کہااصل میں تو یہ آنحضرتﷺ کی پیشگوئی ہے جس سے ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے اعلیٰ اور دائمی مرتبے کی شان ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا تعلق صرف ایک شخص کے پیدا ہونے اور کام کر جانے کے ساتھ نہیں ہے۔ اس پیشگوئی کی حقیقت تو تب روشن تر ہو گی جب ہم میں بھی اُس کام کو آگے بڑھانے والے پیدا ہوں گے جس کام کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے تھے اور جس کی تائید اور نصرت کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مصلح موعود عطا فرمایا تھا جس نے دنیا میں تبلیغِ اسلام اور اصلاح کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں لگا دیں ۔

پس آج ہمارا بھی کام ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں مصلح بننے کی کوشش کریں ۔ اپنے علم سے، اپنے قول سے، اپنے عمل سے اسلام کے خوبصورت پیغام کو ہر طرف پھیلا دیں ۔ اصلاحِ نفس کی طرف بھی توجہ دیں ۔ اصلاحِ اولاد کی طرف بھی توجہ دیں اور اصلاحِ معاشرہ کی طر ف بھی توجہ دیں ۔ اور اس اصلاح اور پیغام کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے بھرپور کوشش کریں جس کا منبع اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کو بنایا تھا۔ پس اگر ہم اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں گے تو یومِ مصلح موعود کا حق ادا کرنے والے ہوں گے، ورنہ تو ہماری صرف کھوکھلی تقریریں ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ18؍فروری2011ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 11؍مارچ 2011ءصفحہ9)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس ارشاد گرامی کی روشنی میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی سیرت کے بعض خوبصورت پہلو پیش خدمت ہیں ۔ آج کل جب کہ دنیا کے اکثر ممالک میں احباب جماعت عالمگیر کورونا وائرس کی وجہ سے گھروں میں لاک ڈاؤن ہیں کوشش کرنی چاہیے کہ ان اوقات کو زیادہ سے زیادہ ان قابل تقلیدواقعات کو مستحضر رکھنے اور اپنی زندگیوں میں اپنانے کی کوشش کریں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے۔ آمین۔

پیشگوئی مصلح موعود کا مقام و مرتبہ

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے 20؍فروری 1886ء کو جب الٰہی بشارات کے مطابق بذریعہ اشتہار ایک موعود بیٹے کی پیشگوئی کا اعلان فرمایا تو اس کے ایک ماہ بعد ایک اور اشتہارمحررہ 22؍مارچ 1886ء میں یہ اعلان فرمایا کہ

’’یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جلّ شانہٗ نے ہمارے نبی کریم روؤف و رحیم محمدﷺ کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے اور در حقیقت یہ نشان ایک مردہ کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ اعلیٰ و اَولیٰ و اکمل و افضل و اتم ہے … …اس جگہ بفضلہ تعالیٰ و احسانہٖ و بابرکت حضرت خاتم الانبیاءﷺ خداوند کریم نے اس عاجز کی دعا کو قبول کرکے ایسی بابرکت روح بھیجنے کا وعدہ فرمایا جس کی ظاہری و باطنی برکتیں تمام زمین پر پھیلیں گی…۔ ‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 114-115 اشتہار 22 مارچ 1886ء)

موعود خلیفہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان بےقرار دعاؤں کو اللہ تعالیٰ نے قبولیت کا شرف بخشا اور اس کے نتیجہ میں پیشگوئی مصلح موعود عطا ہوئی جس کا ظہورحضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کی ذات میں ہوا۔ چنانچہ آپؓ کی خلافت صرف خلافت ہی نہ تھی بلکہ موعود خلافت تھی۔ اور آپؓ ایک موعود خلیفہ تھے۔ چنانچہ ایک موقع پر آپؓ اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ میں اس لئے خلیفہ نہیں کہ حضرت خلیفہ اوّل کی وفات کے دوسرے دن جماعت احمدیہ کے لوگوں نے جمع ہو کر میری خلافت پر اتفاق کیا بلکہ اس لئے بھی خلیفہ ہوں کہ حضرت خلیفہ اول کی خلافت سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے الہام سے فرمایا تھا کہ میں خلیفہ ہوں گا۔ پس میں خلیفہ نہیں موعود خلیفہ ہوں ۔ میں مامور نہیں مگر میری آواز خدا کی آواز ہے کہ خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ اس کی خبر دی تھی۔ گویا اس خلافت کا مقام ماموریت اور خلافت کے درمیان کا مقام ہے۔ جس طرح یہ بات درست ہے کہ نبی روز روز نہیں آتے اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ موعود خلیفےبھی روز روز نہیں آتے۔ ‘‘ ( خطبات شوریٰ جلد2صفحہ18)

پھر دعویٰ مصلح موعودکے معاً بعد آپؓ نےاعلان فرمایا:

’’ وہ لوگ جن کا میرے ساتھ محبت اور اخلاص کا تعلق ہے اور جن کو اللہ تعالیٰ نے مختلف خدمات میں میرا ہاتھ بٹانے کی توفیق عطا فرمائی ہے ان کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جب مجھ کو پا لیا تو وہ حضرت مسیح موعود ؑ کے صحابہ سے جا ملے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے ایک نیا باب کھول کر اپنی عظیم الشان رحمتوں سے ہمیں نوازا ہے۔ ‘‘

( رپورٹ مشاورت 1944ء صفحہ5تا6)

پیشگوئی کا مصداق ہونے کا پُرشوکت اعلان

حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی ؓمورخہ 12؍جنوری 1889ء بروز ہفتہ قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حرم محترم حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگمؓ کے بطن سے پیدا ہوئے۔ آپ کی ولادت باسعادت الٰہی بشارتوں کے مطابق ہوئی جو ہستی باری تعالیٰ اور آنحضرتﷺ اور حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آپؓ 12؍ مارچ 1944ء کو بمقام لاہور تقریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’… غرض دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو آج سلسلہ احمدیہ سے واقف نہ ہو، دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو یہ محسوس نہ کرتی ہو کہ احمدیت ایک بڑھتا ہوا سیلاب ہے جو ان کے ملکوں کی طرف آرہا ہے۔ حکومتیں اِس کے اثر کو محسوس کر رہی ہیں بلکہ بعض حکومتیں اِس کو دبانے کی بھی کوشش کرتی ہیں ۔ …میں خدا کے حکم کے ماتحت قسم کھا کر یہ اعلان کرتا ہوں کہ خدا نے مجھے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق آپ کا وہ موعود بیٹا قرار دیا ہے جس نے زمین کے کناروں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نام پہنچانا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں ہی موعود ہوں اور کوئی موعود قیامت تک نہیں آئے گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اَور موعود بھی آئیں گے اور بعض ایسے موعود بھی ہوں گے جو صدیوں کے بعد پیدا ہوں گے۔ بلکہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ وہ ایک زمانہ میں خود مجھ کو دوبارہ دنیا میں بھیجے گااور میں پھر کسی شرک کے زمانہ میں دنیا کی اصلاح کے لئے آؤں گا جس کے معنے یہ ہیں کہ میری روح ایک زمانہ میں کسی اَور شخص پر جو میرے جیسی طاقتیں رکھتا ہو گا نازل ہوگی اور وہ میرے نقشِ قدم پر چل کر دنیا کی اصلاح کرے گا۔ پس آنے والے آئیں گے اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اپنے اپنے وقت پر آئیں گے۔ میں جو کچھ کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ پیشگوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر اِس شہر ہوشیار پورمیں سامنے والے مکان میں نازل ہوئی جس کا اعلان آپ نے اِس شہر سے فرمایا اور جس کے متعلق فرمایا کہ وہ 9سال کے عرصہ میں پیدا ہوگا وہ پیشگوئی میرے ذریعہ سے پوری ہو چکی ہے اور اب کوئی نہیں جو اِس پیشگوئی کا مصداق ہو سکے۔ ‘‘(انوارالعلوم جلد17صفحہ155)

ذیل میں خاکسارحضرت مصلح موعودؓ کے بعض اوصاف حمیدہ کا ذکر کرتا ہے تاکہ اُن کاادراک رکھتے ہوئےہم صحیح رنگ میں اپنے اپنے دائرہ میں مصلح بننے کی کوشش کریں ۔

زندہ خدا پر کامل یقین

سیدنا حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :

’’جب مَیں گیارہ سال کا ہوااور 1900ء نے دنیا میں قدم رکھا تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ مَیں خدا تعالیٰ پر کیوں ایمان لاتا ہوں ؟ اس کے وجود کا ثبوت کیا ہے؟ مَیں دیر تک رات کے وقت اس مسئلہ پر سوچتا رہا۔ آخر دس گیارہ بجے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے۔ وہ گھڑی میرے لئے بڑی خوشی کی گھڑی تھی۔ جس طرح ایک بچہ کو اُس کی ماں مل جائے تو اسے خوشی ہوتی ہے، اسی طرح مجھے خوشی تھی کہ میرا پیدا کرنے والا مجھے مل گیا۔ سماعی ایمان علمی ایمان میں تبدیل ہو گیا۔ میں اپنے جامہ میں پھولا نہ سماتا تھا۔ مَیں نے اُس وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور ایک عرصہ تک کرتا رہا کہ خدایا مجھے تیری ذات کے متعلق کبھی شک پیدا نہ ہو۔ اُس وقت میں گیارہ سال کا تھا۔ آج بھی اس دعا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں ۔ میں آج بھی یہی کہتا ہوں ’’ خدایا تیری ذات کے متعلق مجھےکبھی شک پیدا نہ ہو۔ ہاں اس وقت میں بچہ تھا۔ اب مجھےزائد تجربہ ہے۔ اب میں اس قدر زیادتی کرتا ہوں کہ خدایا مجھے تیری ذات کے متعلق حق الیقین پیدا ہو۔ ‘‘

(سوانح فضل عمر جلد1 صفحہ96)

1934ء میں جب احرار نے فتنہ کھڑا کیا انہوں نے احمدیت کے نور کو اپنے منہ کی پھونکوں سے بجھانا چاہا۔ انہوں نے قوم کے لیڈروں اور حکومت کی تعاون سے دنیائے احمدیت پر ہلہ بول دیا اور قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا اعلان کر دیا تو اس وقت خدا ئے تعالیٰ کا یہ بلند ہمت اور پرُ عزم شیر دھاڑا اور فرمایا:

’’دنیا کی تمام طاقتیں جمع ہیں ۔ احراری بھی ہیں ، پیرزادے بھی ہیں ، دیوبندی بھی ہیں …شاعر اور فلاسفر بھی ان کے ساتھ ہیں … گویا دنیا اپنی تمام طاقتیں احمدیت کے کچلنے پر صَرف کرنے کے لئے آمادہ ہو رہی ہے…اپنی ساری طاقتیں جمع کرکے احمدیت کو مٹانے کے لئے تُل جاؤ پھر بھی یاد رکھو کہ سب کے سب ذلیل و رسوا ہو جاؤ گے …‘‘(الفضل 30؍مئی 1935ء)

آپؓ کومخالفین کے لیے نرمی اختیار کرنے کا مشورہ دیا گیا تو آپؓ نے ایک یقینِ کامل کے ساتھ واضح کر دیا کہ جس قدر فتنہ بڑھتا ہے اسی قدر ہمیں یقین ہوتا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ کی تائید میں کوئی نشان دکھانا چاہتا ہے اور آپ کسی قسم کی مداہنت اور نرمی کر کے خدا تعالیٰ کے نشان کو دُھندلا نہیں کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ ایسے نازک وقت میں جبکہ قادیان مخالفت کے خوفناک طوفانوں کی لپیٹ میں تھا آپؓ نے فرمایا:

’’خدا مجھے اور میری جماعت کو فتح دے گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے جس راستہ پر مجھے کھڑا کیا ہے وہ فتح کا راستہ ہے جو تعلیم مجھے دی ہے وہ کامیابی تک پہنچانے والی ہے اور جن ذرائع کے اختیار کرنے کی اس نے مجھے توفیق دی ہے وہ کامیاب و بامراد کرنے والے ہیں اس کے مقابلے میں زمین ہمارے دشمنوں کے پاؤں سے نکل رہی ہے اور میں ان کی شکست کو ان کے قریب آتے دیکھ رہا ہوں وہ جتنے زیادہ منصوبے کرتے اور اپنی کامیابی کے نعرے لگاتے ہیں اتنی ہی نمایاں مجھے ان کی موت دکھائی دیتی ہے‘‘(الفضل 30؍مئی 1935ء)

قیام نماز پر استقلال

1900ء میں جبکہ آپ کی عمر گیارہ سال تھی آپ نے ایک دن اشراق کے وقت وضو کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جبہ پہن کر کمرے کا دروازہ بند کرکے نماز شروع کی اور خوب روئے اور اقرار کیا کہ اب کبھی نماز نہیں چھوڑوں گا اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے آپؓ خود فرماتے ہیں کہ

’’ جب میرے دل میں خیالات کی موجیں پیدا ہونی شروع ہوئیں ۔ جن کا میں نےاوپر ذکر کیا ہے تو ایک دن ضحی کے وقت میں نےوضو کیا اور جبہ اس وجہ سے نہیں کہ خوبصورت ہے بلکہ اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اور متبرک ہے یہ پہلا احساس میرے دل میں خدا تعالیٰ کے فرستادہ کے مقدس ہونے کا تھا۔ پہن لیا تب میں نےاس کوٹھری کا جس میں رہتا تھا دروازہ بند کر لیا اور ایک کپڑا بچھا کر نماز پڑھنی شروع کر دی اور میں اس میں خوب رویا، خوب رویا اور اقرار کیا کہ اب نماز کبھی نہیں چھوڑوں گا اس گیارہ سال کی عمر میں مجھ میں کیسا عزم تھا۔ اس اقرار کے بعد میں نے نماز کبھی نہ چھوڑی گو اس نماز کے بعد کئی سال بچپن کے ابھی باقی تھے۔ میرا وہ عزم آج کے ارادوں کوشرماتا ہے۔ مجھےنہیں معلوم کہ میں کیوں رویا۔ فلسفی کہے گا اعصابی کمزروی کا نتیجہ ہے۔ مذہبی کہےگا تقویٰ کاجذبہ ہے۔ مگر میں جس سےیہ واقعہ گزرا کہتا ہوں ۔ میں کیوں رویا؟ ہاں یہ یاد ہے کہ میں اُس وقت اس امر کا اقرار کرتا تھا اور افسردگی کیسی راحت بن گئی۔ جب اس کا خیال کرتا ہوں تو سمجھتا ہوں کہ وہ آنسو ہسٹیریا کے دورہ کا نتیجہ نہ تھے۔ پھر وہ کیاتھے؟ میرا خیا ل ہے کہ وہ شمس روحانی کی گرم کر دینے والی کرنوں کا گرایا ہوا پسینہ تھا۔ وہ مسیح موعود علیہ السلام کے کسی فقرہ کا نتیجہ تھا اگر یہ نہیں تو میں نہیں کہہ سکتا کہ پھر وہ کیاتھے؟‘‘

( سوانح فضل عمر جلد 1 صفحہ97-98)

عشق رسولﷺ

حضرت مصلح موعودؓ کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو عشق رسولﷺ تھا۔ پیشگوئی مصلح موعود کا ظہور بھی آنحضرتﷺ کی صداقت و عظمت کا باعث ہے۔ اس پیشگوئی کے ذریعہ یہ بات بھی بپایہ ثبوت پہنچتی ہے کہ وہ موعود بیٹا بھی عشقِ محمدؐ سے سرشار ہوکر حضرت نبی کریمﷺ کی صداقت و عظمت کا علمبردار ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔

بچپن سے ہی حضرت مصلح موعود ؓ میں اسلام کی خدمت اور اسے ساری دنیا میں غالب کرنے کا جوش و جذبہ غیر معمولی طور پر ودیعت کیا گیا تھا۔ آپ کی زندگی کا لمحہ لمحہ اسی فکر میں گزرتا کہ کب اور کیسے وہ وقت جلد آئے جب خدا کی مخلوق اس کی حقیقی عبد بن جائے اور اس کے رسولﷺ سے محبت کرنے والی بن جائے۔

حضرت مصلح موعودؓ کو آنحضرتﷺ سے کس قدر عشق و محبت تھی۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے51سال سے زائد عرصہ تک منصب خلافت پر متمکن فرمایا اس عرصہ میں آپ نے سینکڑوں خطابات اور ہزاروں خطبات ارشاد فرمائےاور کئی درجن کتب تحریر فرمائیں ان میں سے شاید ہی کوئی موقع ہو جس میں آنحضرتﷺ کامحبت بھرے انداز سے ذکر نہ ہو اور جب بھی آنحضرتﷺ کا ذکر آتا تو رقّت اور محبت سے آپ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے اور آواز بھرا جاتی۔ آپ نے اپنی زندگی کا مقصد ہی یہ قرار دیا تھا کہ آنحضرتﷺ کی عزت دنیا میں قائم ہو اور ساری دنیا حضور ؐکو زندہ نبی تسلیم کرنے لگ جائے اور ادیان باطلہ کوہمیشہ کی شکست ہوجائے اس مقصد کے لیے اپنی ہمت وعزم کاذکر کرتے ہوئے حضورؓ فرماتے ہیں :

’’خدا نے مجھے اس غرض کے لئے کھڑا کیا ہے کہ میں محمدرسول اللہﷺ اور قرآن کے نام کودنیا کے کناروں تک پہنچائوں اور اسلام کے مقابلہ میں دنیاکے تمام باطل ادیان کو ہمیشہ کی شکست دے دوں ۔ دنیا زور لگالے وہ اپنی تمام طاقتوں اور جمعیتوں کو اکٹھا کرلے، عیسائی بادشاہ بھی اور ان کی حکومتیں بھی مل جائیں ، یورپ بھی اور امریکہ بھی اکٹھا ہوجائے۔ دنیا کی تمام بڑی بڑی مالدار اور طاقتورقومیں اکٹھی ہوجائیں اور وہ مجھے اس مقصد میں ناکام کرنے کے لئے متحد ہوجائیں پھر بھی میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں ناکام رہیں گی۔ اور خدا میری دعائوں اور تدابیر کے سامنے ان کے تمام منصوبوں اور مکروں اور فریبوں کو ملیا میٹ کردے گا۔ اور خدا میرے ذریعہ سے یا میرے شاگردوں اور اتباع کے ذریعہ سے اس پیشگوئی کی صداقت ثابت کرنے کے لئے رسول کریمﷺ کے نام کے طفیل اور صدقے، اسلام کی عزت کو قائم کرے گا۔ اور اس وقت تک دنیا کو نہیں چھوڑے گاجب تک اسلام پھراپنی پوری شان کے ساتھ دنیا میں قائم نہ ہوجائے اور جب تک محمدرسول اللہﷺ پھر دنیا کا زندہ نبی تسلیم نہ کر لیا جائے‘‘۔

(الموعود صفحہ211تا212، بحوالہ سوانح فضل عمرجلد پنجم)

اسی طرح ایک موقع پرحضرت مصلح موعود ؓمخالفین اسلام کو مخاطب کرتےہوئے فرماتے ہیں کہ

’’نادان انسان ہم پر الزام لگاتا ہے کہ مسیح موعودؑ کو نبی مان کر گویا ہم آنحضرتﷺ کی ہتک کرتے ہیں اسے کسی کے دل کا حال کیا معلوم اسے اس محبت اور پیار اور عشق کا علم کس طرح ہو جو میرے دل کے ہر گوشہ میں محمد رسول اللہﷺ کے لئے ہے۔ وہ کیا جانے کہ محمدﷺ کی محبت میرے اندر کس طرح سرایت کر گئی۔ وہ میری جان ہے۔ میرا دل ہے میری مراد ہے۔ میرا مطلوب ہے۔ اس کی غلامی میرے لئے عزت کا باعث ہے اور اس کی کفش برداری میرے لئے تخت شاہی سے بڑھ کر معلوم دیتی ہے۔ اس کے گھر کی جاروب کشی کے مقابلہ میں بادشاہت ہفت اقلیم ہیچ ہے۔ وہ خدا تعالیٰ کاپیارا ہے۔ پھر میں کیوں اس سے پیارنہ کروں ۔ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے پھر میں اس سے کیوں محبت نہ کروں ۔ وہ خدا تعالیٰ کا مقرب ہے۔ پھر میں کیوں اس کا قرب تلاش نہ کروں ۔ میرا حال مسیح موعود کے اس شعر کے مطابق ہے کہ

بعد از خدا بعشق محمد مخمرم

گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم‘‘

(الفضل 26؍مارچ 1966ء)

ترجمہ :خدا تعالیٰ کے بعد مَیں محمد مصطفیٰﷺ کے عشق میں دیوانہ ہو چکا ہوں ۔ اگر اس عشق کی دیوانگی کا نام کوئی کفر رکھتا ہے تو خدا کی قسم میں سخت کافر ہوں ۔

آنحضرتؐ کی پاکیزہ سیرت اور آپﷺ کے پاک کلمات کا ایک بہت بڑا ذخیرہ احادیث ہیں ۔حضور اکرمؐ صحابہ کرامؓ کو تاکید فرمایا کرتے تھے کہ آپﷺ کی باتیں دوسروں تک پہنچائیں اور صحابہؓ خود بھی ذکر و اذکار کے ذریعہ آپﷺ کی باتوں کو زندہ رکھتے تھے۔ حضرت مصلح موعود ؓنے بھی ہمیشہ حضرت نبی کریمﷺ کے ارشادات کو اپنے فیصلوں اور منصوبوں میں مدنظر رکھا۔ خلافت جوبلی کے موقع پر درج ذیل وصیۃالرسولﷺ کی کثیر اشاعت کی تحریک فرمائی۔

وصیۃ الرسولﷺ

برادرم! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

رسول کریمﷺ نے حجۃ الوداع میں جب کہ آپﷺ کی وفات قریب آگئی بطور وصیت سب مسلمانوں کو جمع کر کے فرمایا

اِنَّ دِمَاءَ کُمْ وَ اَمْوَالَکُمْ

(اور ابی بکرہ کی حدیث میں ہے

وَاَعْرَاضَکُمْ) حَرَامٌ عَلَیْکُمْ کَحُرْمَۃِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِیْ شَھْرِکُمْ ھٰذَا فِی بَلَدِکُمْ ھٰذَا۔

یعنی تمہاری جانوں اور تمہارے مالوں (اور ابی بکرہ کی روایت کے مطابق تمہاری عزتوں ) کو خدا تعالیٰ نے حفاظت بخشی ہے یعنی جس طرح مکہ میں حج کے مہینہ اور حج کے وقت کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح پُر امن بنایا ہے اِسی طرح مومن کی جان اور مال اور عزت کی سب کو حفاظت کرنی چاہئے۔ جو اپنے بھائی کی جان، مال اور عزت کو نقصان پہنچاتا ہے گویا وہ ایسا ہی ہے جیسے حج کے ایام اور مقامات کی بےحرمتی کرے۔

پھر آپﷺ نے دو دفعہ فرمایا کہ جو یہ حدیث سنے، آگے دوسروں تک پہنچادے۔ میں اِس حکم کے ماتحت یہ حدیث آپ تک پہنچاتا ہوں ۔ آپ کو چاہئے کہ اِس حکم کے ماتحت آپ آگے دوسرے بھائیوں تک مناسب موقع پر یہ حدیث پہنچا دیں اور انہیں سمجھا دیں کہ ہر شخص جو یہ حدیث سنے اسے حکم ہے کہ وہ آگے دوسرے مسلمان بھائی تک اس کو پہنچاتا چلا جائے۔

والسلام

خاکسار

مرزا محمود احمد خلیفۃ المسیح

(الفضل 3؍جنوری 1940ء صفحہ 7)

دعوت الی اللہ کے لیے بلند حوصلہ

انیس بیس سال کی عمر میں جبکہ حضرت مصلح موعودؓ مسند خلافت پر سرفراز نہیں کیے گئے تھے ایک ماہانہ تبلیغی علمی رسالہ ’’تشحیذ الاذہان ‘‘ جاری کیا جس کے پہلے نمبر میں جماعت احمدیہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

’’اے میرے احمدی بھائیو! اگر ہم نے خدا تعالیٰ کے ایک فرستادہ کو مانا ہے تو یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ اب ہم بالکل سبکدوش ہوگئے ہیں بلکہ ہم نے اپنے سر پر ایک بارِگراں اُٹھا لیا ہے اور ایک کام اپنے ذمہ لیا ہے کہ جس کا کرنا سہل نہیں ہے۔ بلکہ ایک نہایت ہی دشوار کام ہے کہ بجز خدا تعالیٰ کی مدد کے کامیاب ہونا مشکل ہے۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنا کوئی ایسی بات نہیں جو زبان سے کہہ دینے پر اُس سے خلاصی ہو جائے۔ نہیں بلکہ اُس کے لئے بڑی قربانی کی ضرورت ہے ایک بہت ہی بڑی قربانی کی ضرورت ہے۔ اپنی خواہشوں اور ارادوں کی قربانی اُس کے لئے ضروری ہے۔ آج وہ وقت ہم کو ملا ہے کہ تیرہ سو برس سے لوگ اس کا انتظار کرتے چلے آئے ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے جو ہم کو اس زمانہ میں پیدا کیا ہے تو بے فائدہ نہیں کیا۔ اس کا ہم پر یہ بہت بڑا احسان ہے اور ہم اُس کے احسان سے سبکدوش نہیں ہو سکتے۔ اور اس مسیح کی شناخت عطا کرنی اور بھی بڑا فضل ہے۔ ایسی زبان کوئی نہیں جو اس کا شکریہ ادا کرسکے۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ خداتعالیٰ نے جس بات کا ارادہ کیا ہے اس کو ضرور کر کے ہی چھوڑے گا ہم کو جو اس نے اس زمانہ میں پیدا کیا اور اُس کی شناخت عطا کی تو ہم کیوں نہ مفت کا ثواب حاصل کریں اور جبکہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھنے کا اُلٹا عذاب ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ کُل دنیا سے مخالفت کر کے ایک خدا کے برگزیدہ بندہ کو نہ مانا جائے اور پھر اُس کی اطاعت نہ کر کے عذاب سہیڑا جائے۔ کیا یہ بھی کوئی عقل کی بات ہے۔ وہی مثل ہوئی ؎

نہ خدا ہی ملا نہ وِصال صنم

نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے ہوئے

اگر ہم کو دین اسلام کی مدد کرنے کا جوش نہیں تو با خدا ہم نہایت ہی سخت گھاٹا پانے والوں میں ہیں ۔ وہ دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے جس میں اسلام کی محبت نہ ہو اور وہ آنکھ جو اسلام کی ترقی دیکھنے کی مشتاق نہیں پھوٹ جائے تو بہتر ہے۔ ٹوٹ جائیں وہ ہاتھ جو اسلام کی مدد سے قاصر ہیں ۔ رونے کا مقام ہے اگر ہم اسلام کی ترقی کی کوشش میں کچھ بھی سُستی کریں ۔ سو اَے بھائیو! دُعا کرو اور خدا تعالیٰ سے مدد مانگو کہ اے رب ذی الاکرام اب ہم گنہگاروں پر رحم کر اور ہماری پچھلی خطاؤں کو معاف کر اور آئندہ ہم کو نیکی کی توفیق دے اور اے خدا! اے قادر! جب ہماری جان نکلے تو ہم مسلمان ہوں ۔ ہم ایک دم کے لئے بھی اشاعت دین سے غفلت نہ کریں ۔ اے غیّور خدا تو دیکھتا ہے کہ اسلام پر شرک نے کیسے حملے کئے ہیں ۔ پس ہماری مدد کر کہ ہم تیرے مسیح کے ساتھ ساتھ شرک کے توڑنے میں لگے ہیں ۔ ‘‘

(تشحیذ الاذہان نمبر 1 جلد 1 صفحہ12)

دعوت الی اللہ کانظام

احمدیت اسلام کی اشاعت کرنے کے لیے قائم کی گئی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خلعت خلافت زیب تن کرنے کے بعد سب سے پہلے اس کی طرف توجہ کی۔ چنانچہ ایک طرف تو آپ نے قرآن مجید کا انگریزی ترجمہ و تفسیر تیار کرنے کا کام نئےسرے سے شروع کر دیا تاکہ اس کے ذریعہ سے اکنافِ عالم میں اسلام کی اشاعت ہو سکے۔ اور دوسری طرف آپ نے مبلغین تیار کرنے اور پھر انہیں دنیا کے مختلف ممالک میں بھجوانے کا انتظام کیا جسے بعد میں تحریک جدید کے سپرد کر دیا۔ انگلستان کے بعد سب سے پہلے ماریشس میں احمدیہ مشن قائم ہوا۔ جہاں پر حضورؓ نے صوفی غلام محمدصاحب کو بھیجا۔ پھر امریکہ میں سلسلہ کے پرانے بزرگ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کےصحابی حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کے ذریعہ اسلام کا پیغام پہنچایا گیا۔ پھر مغربی افریقہ میں سلسلےکے ایک بزرگ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیّر ؓتشریف لے گئے۔ ان بزرگوں کے ذریعے کثرت سے لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔ اور خداتعالیٰ نے انہیں غیر معمولی کامیابی بخشی۔ بر اعظم امریکہ، بر اعظم یورپ براعظم افریقہ کے بہت سے ممالک کے علاوہ فلسطین، لبنان، شام، عدن، مصر، کویت، بحرین، دبئی، برما، سیلون، ہانگ کانگ، سنگاپور، جاپان، انڈونیشاء، شمالی بورنیو، فلپائن اور ملائیشیا میں بھی جماعت احمدیہ آپ کےسنہری دَور خلافت میں قائم ہو چکی تھی۔ دنیاکے کناروں تک احمدیت کے پیغام کا پہنچنا حضرت مصلح موعودؓ کی ہی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ کے ان عظیم الشان کارناموں کا ذکرپیشگوئی مصلح موعود کے ان الفاظ میں بڑےواضح طور پر کیا گیاتھا کہ

’’وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ ‘‘

تبلیغ کے لیے احباب جماعت کی ذمہ داری

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام احمدیت کی تبلیغ کے لیے افراد جماعت کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا کہ

’’میں جماعت کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ دیکھو رستہ دور کا ہے وقت تھوڑا ہے۔ تمہاری کوششیں نامکمل ہیں اور فتح کا دن نزدیک آرہا ہے تم جلد جلد قدم بڑھاؤ اور ہر میدان میں اسلام کے جانباز سپاہی بننے کی کوشش کرو۔ اگر تم میں سے ہر شخص اپنے جسم کا ذرّہ ذرّہ اسلام کی فتح کے لئے اس طرح اُڑا دیتا ہے جس طرح روئی دھنکنے والا روئی کے ذرّات کو ہوا میں اُڑاتا ہے تو تمہاری اس سے زیادہ خوش قسمتی اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ تمہارا فرض ہے کہ تم باہر نکل جاؤ اور جو لوگ ہماری جماعت میں جاہل ہیں اُن کو مجبور کرو کہ وہ اسلام کی تعلیم کو سیکھیں اور قرآن کریم کے احکام پر عمل کریں اسی طرح جماعت کے افراد کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگیوں کو وقف کردیں ۔ ضرورت ہے کہ ہمارے پاس ہزاروں ایسے لوگ ہوں جو دین کو پوری طرح سیکھے ہوئے ہوں تاکہ جب بھی کوئی ملک اسلام کے لئے فتح ہو اور اللہ اُس میں نیک تغیّر پیدا کرے تو ہمارے پاس اس ملک کو سنبھالنے والی جماعت بھی موجود ہو اور ہم یہ نہ کہہ سکیں کہ ملک تو اسلام کے لئے فتح ہوگیا مگر جماعت اُس کو سنبھالنے کے لئے تیار نظر نہیں آتی ہمارے پاس وہ آدمی موجود ہونے چاہئیں جن کو اس ملک میں پھیلایا جا سکے ہمارے پاس وہ لٹریچر موجود ہونا چاہئے جو اس ملک میں شائع کیا جا سکے ہمارے پاس وہ کتابیں موجود ہونی چاہئیں جو اس ملک کے کونے کونے میں پھیلائی جا سکیں ۔ ہمارے پاس روپیہ موجود ہونا چاہئےجس سے مبلغین کے سفر خرچ اور دیگر اخراجات کا انتظام کیا جا سکے۔ اس طرح ضروری ہے کہ اسلام کی جائیدادیں ہماری اپنی جائیدادوں سے لاکھوں بلکہ کروڑوں گنا زیادہ ہوں ۔ اور ہماری مالی قربانیاں اسلام کے فنڈ کو اس قدر مضبوط کردیں کہ جب کسی ملک میں اسلامی لشکر بھجوانے کی ضرورت محسوس ہو جب سپاہیوں کے لئے روحانی گولہ بارود کی ضرورت ہو جب لوگوں کی پیاس بجھانے کے لئے لٹریچر فراہم کرنا ضروری ہو تو ہمارے پاس اس قدر سامان موجود ہو کہ بغیر کسی قسم کے فکر کے اور بغیر اس کے کہ ہمارے سپاہیوں کو کسی قسم کی تشویش ہو اسلام کی ان تمام ضروریات کو پورا کریں ۔ ‘‘(الفضل27؍اپریل1944ء)

جماعتی تربیت

جماعت کی تربیت کے لیے حضرت مصلح موعودؓ نے مردوں اور عورتوں کے لیے درس قرآن کا انتظام کیا۔ اور بعد میں یہ دروس تفسیر کبیر میں شامل ہوئے اور کتابی صورت میں شائع ہوئے۔ یہ تفسیر علمی اور تربیتی لحاظ سے انتہائی اعلیٰ درجے کاشاہکار ہے۔

تربیت کے لیے دوسرا ذریعہ حضور نے خطبات اور خطابات کا اختیار فرمایا۔ تقریباً ہر دینی مسئلہ پر اور تربیت کے ہر پہلو پر حضورؓ نے خطابات اور خطبات ارشاد فرمائے۔ یہ خطابات بہت ہی پُر اثر اور جماعت کی علمی ترقی اور تربیت کے لیے بہت ہی مفید ثابت ہوئیں ۔

اصلاح کا دائمی نظام

حضرت مصلح موعودؓ میں عظیم الشان اصلاحی قوتیں تھیں ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آپ نے جماعت میں اصلاح اور تزکیہ کے دو مستقل نظام قائم فرمائے۔ ایک صدر انجمن احمدیہ میں نظارتیں اور دوسرا ذیلی تنظیموں کاقیام۔ اس کے اجراء سے قبل حضورؓ نے انسانی جسم کے فطری نظام کا مطالعہ کیا اور فزیالوجی اور اناٹومی کی کئی کتب پڑھیں ۔ اور انتہائی محنت اور تدبر سے کام لیا۔ اور اس کام کی طرف خاص توجہ کا یہ عالم تھا کہ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب رضی اللہ عنہ جو حضور کے ذاتی معالج کے طور پر خدمت پاتے رہے ہیں ، فرماتے ہیں :

’’ایک مرتبہ حضور نے مجھے یاد فرمایا اور بتایا کہ آپ نظام جماعت میں اصلاحی تبدیلیاں کرنے پر غور فرما رہے ہیں ۔ لہٰذا چاہتے ہیں کہ انسانی جسم کے نظام کا مطالعہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو ایک کامل نظام کی شکل میں پیدا کیا ہے اور اس کے مطالعہ سے بہت سی مفید رہ نمائی حاصل ہو سکے گی۔ چنانچہ آپ نے Anatomyاور Physiology وغیرہ کی مختلف کتب حاصل کرکے ان کا مطالعہ فرمایا اور بہت سے مفید نتائج اخذ کئے۔ غالباً اسی تحقیق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے ایک مرتبہ فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے نظام جسم میں ہنگامی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے بکثرت متبادل راستے تجویز کر رکھے ہیں مثلاً اگر ایک شریان بند ہو جائے تو اس کی جگہ دوسری شریان نیا راستہ مہیا کردیتی ہے۔ لہٰذا انسان کو کسی نظام کی تشکیل کے وقت اس راہنما اصول کو مد نظر رکھنا چاہئے۔ ‘‘

(سوانح فضل عمر، جلد دوم، صفحہ127)

اس اصول کے مطابق آپؓ نے 1919ء میں صدر انجمن احمدیہ میں نظارتیں قائم کیں جو نظام کی نمائندہ ہیں اور دوسری طرف ذیلی تنظیمیں جو عوام کی نمائندہ ہیں ۔

جماعت کی تربیت کے لیے حضورؓ نے 1922ء میں احمدی عورتوں کی تنظیم لجنہ اماء اللہ قائم فرمائی۔ پھر 1926ء میں ان کے لیے ایک علیحدہ رسالہ مصباح کے نام سےجاری فرمایا۔ 1928ء میں نصرت گرلز ہائی اسکول قائم فرمایا۔ 1938ء میں حضور نے احمدی نوجوانوں کی تنظیم خدام الاحمدیہ کی بنیاد رکھی اور احمدی بچوں کی نگرانی کے لیے تنظیم اطفال الاحمدیہ کی بنیاد بھی رکھی۔ نیز احمدی بچیوں کے لیے’’ ناصرات الاحمدیہ‘‘ کی تنظیم قائم کی اور چالیس سال سےاوپر کی عمر کے احمدیوں کو منظم کرنے کے لیے ’’مجلس انصار اللہ ‘‘ قائم فرمائی۔ ان تنظیموں نے جماعت کی تعلیم و تربیت میں بہت اہم حصہ لیا اور رہتی دنیا تک لیتی رہیں گی۔ ان کی وجہ سے جماعت کاکام کرنے کے لیے ہزاروں کارکنوں کی ٹریننگ ہوئی اور انہوں نے اپنے اپنےوقت پر جماعت کی نمایاں خدمت میں حصہ لیا۔

1922ء میں حضور نے مجلس مشاورت کانظام جماعت میں قائم فرمایا۔ سال میں ایک دفعہ خلیفۂ وقت کے حکم سے تمام احمدی جماعتوں کے نمائندے جنہیں وہ جماعتیں خود منتخب کرتی ہیں مرکز میں جمع ہوتے ہیں اور جماعت کے متعلق جو معاملات خلیفہ وقت کی خدمت اقدس میں مشورہ کے لیے پیش کیے جائیں ان کے متعلق یہ نمائندے اپنی رائے اور مشورےپیش کرتے ہیں ۔ خلیفۂ وقت ان مشوروں میں سے جو مناسب سمجھتےہیں انہیں منظور کر لیتےہیں ۔ اس طرح ساری جماعت کے معاملات کو سمجھنے اور مشورہ دینے کا موقع ملتا ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ کی افراد جماعت سے غیر معمولی محبت

حضرت مصلح موعود ؓکوافراد جماعت سے غیر معمولی محبت تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ جماعت کے افراد آپ کو اپنی بیویوں ، اپنے بچوں اور اپنے عزیزوں سے بہت زیادہ پیارے تھے۔ان کی خوشی سے آپ کو خوشی پہنچتی تھی اور ان کے دکھ سے آپ کرب میں مبتلا ہو جاتے تھے۔ جب آپ خلیفہ منتخب ہوئے تو اسی سال جلسہ سالانہ پر خطاب میں فرمایا:

’’کیا تم میں اور ان میں جنہوں نے خلافت سے روگردانی کی ہے کوئی فرق ہے؟ کوئی بھی فرق نہیں ۔ لیکن نہیں ایک بہت بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ تمہارے لئے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا، تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا، تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے۔ مگر ان کے لئے نہیں ہے۔ تمہارا اسے فکر ہے درد ہے اور وہ تمہارے لئے اپنے مولا کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن ان کے لئے ایسا کوئی نہیں ہے۔ کسی کا اگر ایک بیمار ہو تو اس کو چین نہیں آتا لیکن کیا تم ایسے انسان کی حالت کا اندازہ کر سکتے ہو جس کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیمار ہوں ۔ ‘‘

(برکات خلافت، انوار العلوم جلد 2صفحہ 158)

اس ضمن میں ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ

’’کون سا ڈکٹیٹر ہے جو اپنے ملک کی رعایا سے ذاتی تعلق بھی رکھتا ہو۔ خلیفۂ وقت کا تو دنیا میں پھیلے ہوئے ہر قوم اور ہر نسل کے احمدی سے ذاتی تعلق ہے۔ ان کے ذاتی خطوط آتے ہیں جن میں ان کے ذاتی معاملات کا ذکر ہوتا ہے۔ ان روزانہ کے خطوط کو ہی اگر دیکھیں تو دنیا والوں کے لئے ایک یہ ناقابل یقین بات ہے۔ یہ خلافت ہی ہے جو دنیا میں بسنے والے ہر احمدی کی تکلیف پر توجہ دیتی ہے۔ ان کے لئے خلیفۂ وقت دعا کرتا ہے۔

کون سا دنیاوی لیڈر ہے جو بیماروں کے لئے دعائیں بھی کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے جو اپنی قوم کی بچیوں کے رشتوں کے لئے بے چین اور ان کے لئے دعا کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے جس کو بچوں کی تعلیم کی فکر ہو۔ حکومت بیشک تعلیمی ادارے بھی کھولتی ہے۔ صحت کے ادارے بھی کھولتی ہے۔ تعلیم تو مہیا کرتی ہے لیکن بچوں کی تعلیم جو اس دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ان کی فکر صرف آج خلیفۂ وقت کو ہے۔ جماعت احمدیہ کے افراد ہی وہ خوش قسمت ہیں جن کی فکر خلیفۂ وقت کو رہتی ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں ۔ ان کی صحت کی فکر خلیفۂ وقت کو رہتی ہے۔ رشتے کے مسائل ہیں ۔ غرض کہ کوئی مسئلہ بھی دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا چاہے وہ ذاتی ہو یا جماعتی ایسا نہیں جس پر خلیفۂ وقت کی نظر نہ ہو اور اس کے حل کے لئے وہ عملی کوشش کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا نہ ہو۔ اس سے دعائیں نہ مانگتا ہو۔ مَیں بھی اور میرے سے پہلے خلفاء بھی یہی کچھ کرتے رہے۔

مَیں نے ایک خاکہ کھینچا ہے بے شمار کاموں کا جو خلیفہ وقت کے سپرد خدا تعالیٰ نے کئے ہیں اور انہیں اس نے کرنا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سے پہلے چشم تصور میں مَیں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے لئے سوتے وقت بھی اور جاگتے وقت بھی دعا نہ ہو۔ یہ مَیں باتیں اس لئے نہیں بتا رہا کہ کوئی احسان ہے۔ یہ میرا فرض ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اس سے بڑھ کر مَیں فرض ادا کرنے والا بنوں ۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ6؍جون2014ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 27؍جون2014ءصفحہ7)

حضرت مصلح موعودؓ اور پیارےآقا کے اس اسوہ کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں بھی اپنے تمام عزیزوں کو اپنی دعاؤں میں خاص طور پر یاد رکھنا چاہیے۔

سلسلہ کی روایات کو ملحوظ رکھیں

کھیل کود اور تفریح کا انسانی زندگی میں ایک مقام ہے۔ لیکن اس میں حد سے تجاوز کرنا اور سلسلہ کی روایات کا خیال نہ رکھنا درست نہیں ۔ اس حوالے سے ہمارے پیارےآقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت مصلح موعود ؓکے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’ایک دفعہ کھیل میں بعض غلط باتیں ہوئیں ۔ دین کا خیال نہیں رکھا گیا۔ سلسلہ کی روایات کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اس پر تنبیہ کرتے ہوئے آپ نے ان کو فرمایا کہ ’’دیکھو ہنسی اور مذاق کرنا جائز ہے۔ (منع نہیں ہے۔ ) رسول کریمﷺ بھی مذاق کیا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی مذاق کرتے تھے۔ ہم بھی مذاق کر لیتے ہیں ۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم مذاق نہیں کرتے۔ ہم سو دفعہ مذاق کرتے ہیں لیکن اپنے بچوں سے کرتے ہیں ، اپنی بیویوں سے کرتے ہیں ۔ (قریبیوں سے کرتے ہیں ) لیکن اس طرح نہیں کہ اس میں کسی کی تحقیر کا رنگ ہو۔ (اگر کسی کی تحقیر ہو۔ اس کی عزت نفس متاثر ہو رہی ہو تو ایسا مذاق صحیح نہیں ہے۔ )ا گر منہ سے ایسا کلمہ نکل جائے جس میں تحقیر کا رنگ پایا جاتا ہو تو ہم استغفار کرتے ہیں ۔ (اور یہ ہر ایک کو کرنا چاہئے۔ اگر کسی سے غلطی سے کسی کا مذاق ایسے رنگ میں ہو جائے جو اس کو بہت برا لگے یا اس کی عزت نفس مجروح ہوتی ہو) اور سمجھتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہو گئی۔ (اس لئے استغفار کرنا چاہئے۔ پس ایک کھیل کا حوالہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ وہاں یہ کھیل ہو رہی تھی۔ اس لحاظ سے اس میں ایک بات ہوئی۔ فرماتے ہیں کہ میں کھیلوں کو برا نہیں مناتا۔ ہنسنا کھیلنا جائز ہے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ جائز نہیں ہے۔ ) تم بیشک ہنسو اور کھیلو لیکن بازی بازی باریشِ بابا ہم بازی۔ (یعنی) کھیل کھیل ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر باپ کی داڑھی سے بھی کھیلا جائے تو یہ جائز نہیں ۔ (یعنی کہ اپنے باپ کی بھی عزت اچھالنے لگو تو پھر یہ جائز نہیں ہے۔ ) خداتعالیٰ کا مقام خدا تعالیٰ کو دو۔ فٹبال کا مقام فٹبال کو دو۔ مشاعرے کا مقام مشاعرے کو دو اور پیشگوئیوں کا مقام پیشگوئیوں کو دو…پس میں تمہیں ہنسی سے نہیں روکتا۔ میں یہ کہتا ہوں کہ ہنسی میں اس حد تک نہ بڑھو جس میں جماعت کی بدنامی ہو۔ (الفضل 12؍مارچ 1952ء صفحہ 4)

…پس ہمارے ہر عمل میں اس بات کا اظہار ہونا چاہئے چاہے وہ کھیل کود ہے یا تفریح ہے یا مشاعرے ہیں کہ ہم نے جماعت کے وقار کو مجروح نہیں ہونے دینا۔ اس کی عزت کا ہمیشہ خیال رکھنا ہے۔ اس کے وقار کا ہمیشہ خیال رکھنا ہے۔ پس یہ جو چند باتیں میں نے کہی ہیں یہ نصیحت تھیں ۔ سبق آموز تھیں ۔ ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ ‘‘

( خطبہ جمعہ فرمودہ 8؍جولائی2016ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 29؍جولائی2016ء)

اختتام

خلافت ثانیہ کا مبارک دَور 14؍ مارچ 1914ءکو شروع ہوا اور 8؍نومبر 1965ء کو ختم ہوا۔ یہ ایک تاریخ ساز دور تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے اسلام اور سلسلہ احمدیہ کی ترقی کے لیے عظیم الشان کارنامے سر انجام دیے جس نے جماعت کی علمی و روحانی ترقی اور تعلیم و تربیت میں نہایت اہم کردار ادا کیاا ور خدا تعالیٰ کے فضلوں کے ساتھ جماعت کا میابی و کامرانی کے ساتھ فتح و نصرت کی نئی منزلوں کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ آپ حضرت مسیح موعودؑ کی مقبول دعاؤں کا عظیم ثمرہ تھے۔ آپ کا وجود قبولیت دعا کا ایک زندہ اور مجسم معجزہ تھا۔

الغرض پیشگوئی مصلح موعود کا تعلق محض ایک فرد، ایک زمانہ یا چند جغرافیائی خطوں سے نہیں تھا۔ یہ پیشگوئی دائمی اور عالمگیر اثرات رکھنے والی ہے۔ ہر نئے انقلاب کےساتھ حضرت مصلح موعود ؓکی زندگی اور لمبی ہوتی جا رہی ہے اور قیامت تک یہ حیات قائم و دائم رہے گی۔

حضرت مصلح موعودؓ خود فرماتےہیں :

’’ میں اُسی خدا کے فضل پر بھروسہ رکھتے ہوئے کہتا ہوں کہ میرا نام دنیا میں ہمیشہ رہے گا اور گو میں مر جاؤں مگر میرا نام کبھی نہیں مٹے گا۔ یہ خدا کا فیصلہ ہے جو آسمان پر ہو چکا کہ وہ میرے نام اور میرے کام کو دنیا میں قائم رکھے گا۔ اور ہر شخص جو میرے مقابلہ میں کھڑا ہوگا۔ وہ خدا کے فضل سے ناکام ہوگا۔ خدا نے مجھے اس مقام پر کھڑا کیا ہےکہ خواہ مخالف مجھے کتنی بھی گالیاں دیں ، مجھے کتنا بھی برا سمجھیں بہر حال دنیا کی کسی بڑی سے بڑی طاقت کے بھی اختیار میں نہیں کہ میرا وہ نام…تاریخ کے صفحات سے مٹا سکے۔ آج نہیں آج سے چالیس پچاس بلکہ سو سال کے بعد تاریخ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ میں نے جو کچھ کہا وہ صحیح کہا تھا یا غلط۔ مَیں بے شک اس وقت موجود نہیں ہوں گا مگر جب… احمدیت کی اشاعت کی تاریخ لکھی جائے گی تو…مؤ رخ اس بات پر مجبور ہوگا کہ وہ اس تاریخ میں میرا بھی ذکر کرے۔ اگر وہ میرے نام کو اس تاریخ میں سے کاٹ ڈالے گا تو احمدیت کی تاریخ کا ایک بڑا حصہ کٹ جائے گا۔ ایک بڑا خلا ءواقع ہو جائے گا جس کو پُر کرنے والا اسے کوئی نہیں ملے گا۔ ‘‘(الفضل3؍جولائی1962ء)

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمارے پیارے آقا سیدنا حضرت اقدس خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے درجات بلند سے بلند تر فرماتا رہے اور ہمیں آپ کے ارشادات کی تعمیل کرتےہوئے، علوم ظاہری و باطنی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی نصائح پر چل کر، حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے ارشاد کے مطابق اپنے اپنےدائرہ میں مصلح بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button