متفرق مضامین

زمانۂ مسیح موعود میں ظاہر ہونے والی علامات اور ان کا مصداق

(حافظ مظفر احمد)

الساعۃ یعنی قیامت سے کیا مراد ہے؟ نیز احادیث میں قرب قیامت کی علامات کی حقیقت

قرب قیامت اور اس کی شروعات کی ایسی ہی نشانیوں کا ذکرکرتے ہوئے رسول اللہﷺ نے یہ بھی فرمایا:

مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُ رَأْيُ عَيْنٍ فَلْيَقْرَأْ:’’إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ‘‘، وَ ’’إِذَا السَّمَاءُ انْفَطَرَتْ‘‘، وَ ’’إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ‘‘۔

(ترمذی ابواب الفتن باب و من سورة اذا الشمس کورت)

یعنی جو شخص قیامت کو اس طرح معلوم کرنا چاہے جس طرح آنکھوں دیکھی چیز تو اسے چاہیے کہ وہ سورۃ التکویر، سورۃ الانفطاراور سورۃ الانشقاق پڑھے۔

شیعہ تفسیر مجمع البیان اور تفسیرنورالثقلین میں بھی یہی حدیث درج ہے کہ

اِبْن عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّٰه (صلى اللّٰه عليه وآله وسلّم) مَنْ أَحَبّ أَن يَّنْظُرَ إِلَي يَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلْيَقْرَأ إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ

(تفسير مجمع البيان – الطبرسي – جزء 10 صفحہ 245، تفسیر نور الثقلین جزء10 صفحہ46)

یعنی جو شخص قیامت کو اس طرح معلوم کرنا چاہے جس طرح آنکھوں دیکھی چیز تو وہ سورۃ تکویر پڑھے۔

اس حدیث میں بھی قیامت سے مراد قیامت کبریٰ نہیں جو دنیا کے فنا ہوجانے کے بعد ہوگی بلکہ اس سےمراد مسیح ومہدی کے ظہور کا زمانہ ہے جسے مجازاًقیامت قرار دیا گیا ہے۔

اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ ان سورتوں میں بیان ہونے والی پیشگوئیاں تیرہ سو سال بعد ہمارےاس آخری زمانے میں بڑی صفائی سے پوری ہوکر ایک مدعی مسیح و مہدی کی سچائی پر گواہ بن کر یہ اعلان کررہی ہیں :

آفتاب آمد دلیل آفتاب

کہ سورج کا طلوع ہونا اپنی دلیل آپ ہوتا ہے۔

قیامت صغریٰ کی ان علامات کا پورا ہوناقیامت کبریٰ کے وجودپر تودلیل بن سکتاہے۔ ورنہ ان سورتوں میں قیامت کے ثبوت میں محض اس کے ظہور کی علامات کا بیان کیسےثبوت ہوسکتاہے؟

اس لیے رسول اللہﷺ نےفرمایا کہ جس نے ان علامات یعنی قیامت صغریٰ کو دیکھ لیا اس نے گویا اپنی آنکھوں سے قیامت دیکھ لی کہ وہ پھر آکررہے گی۔

دوسری طرف ان علامات کو قیامت پر چسپاں کرنے سے ان کاسارا مفہوم ہی بگڑجاتا ہے کیونکہ قیامت کو قانون نیچرمعطل ہوگاجبکہ ان سورتوں میں دنیا میں موجود قوانین طبعی کی بات ہورہی ہے۔

اس بات کی دوسری دلیل کہ ان سورتوں میں قیامت کبریٰ کا نہیں آخری زمانہ کی علامات کا ذکر ہے، یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے سورہ تکویرکی ایک آیت

وَاِذَاالْعِشَارُ عُطِّلَتْ

کی خودتفسیرفرمادی کہ اس کاتعلق مسیح کے زمانہ ظہورسے ہے۔ چنانچہ آپؐ نے مسیح کے ظہور اور اس کے کام و مقاصد بیان کرتے ہوئے اس کے زمانہ کی علامت یہ بیان فرمائی کہ یہ اس وقت ہوگا جب اونٹنیاں متروک ہوجائیںگی اور ان کو تیز رفتاری کےلیے استعمال نہیں کیاجائےگا۔

وَاللّٰهِ، لَيَنْزِلَنَّ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَادِلًا، فَلَيَكْسِرَنَّ الصَّلِيبَ، وَلَيَقْتُلَنَّ الْخِنْزِيْرَ، وَلَيَضَعَنَّ الْجِزْيَةَ، وَلَتُتْرَكَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا۔

(مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسٰی بن مریم حاکما بشریعۃ نبینا محمد)

کیونکہ اور نئی تیز رفتار سواریاں موٹر، ریل، جہاز وغیرہ ایجاد ہوجائیں گی جن کی قرآنی پیشگوئی سورة النحل آیت 9میں چودہ سو سال سے موجود تھی کہ اللہ تعالیٰ ایسی سواریاں پیدا کرے گا جو تم نہیں جانتے۔ اور یہ زمانہ چودہویں صدی ہی بنتا ہے جس پر سورة تکویر میں بیان کردہ ساری علامات چسپاں ہورہی ہیں۔

سورة تکویر کی ابتدائی بارہ آیات میں جوبارہ علامتیں شروعات قیامت کی بیان ہوئیں ان کے بارہ میں رسول اللہﷺ کی مذکورہ بالا بیان فرمودہ تفسیر کے علاوہ صحابہ نے بھی آپؐ سے علم پاکر یہی تفسیر بیان کی ہے۔ چنانچہ ابوالعالیہ، حضرت ابی بن کعبؓ اور حضرت ابن عباسؓ کم ازکم اس پر متفق ہیں کہ ان بارہ آیات میں سے ابتدائی چھ آیات کا تعلق بہرحال دنیا سےہے۔

عَنْ أَبِْي الْعَالِيَة رَضِيْ اللّٰه عَنهُ قَالَ: سِتّ آيَات من هَذِهِ السُّورَة فِي الدُّنْيَا وَالنَّاس ينظرُونَ إِلَيْهِ وست فِي الْآخِرَة ’’إِذا الشَّمْسُ كوَّرَتْ‘‘ إِلَى ’’وَإِذا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ‘‘ هَذِه الدُّنْيَا وَالنَّاس ينظرُونَ إِلَيْهِ ’’وَإِذا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ‘‘ ’’وَإِذا الْجَنَّةُ أزْلِفَتْ‘‘ هَذِه الْآخِرَة۔ وَأخرج ابْن أبي الدُّنْيَا فِي الْأَهْوَال وَابْن جرير وَابْن أبي حَاتِم عَن أبيّ بن كَعْب قَالَ: سِتّ آيَات قبل يَوْم الْقِيَامَة بَيْنَمَا النَّاس فِي أسواقهم إِذْ ذهب ضوء الشَّمْس فَبَيْنَمَا هم كَذَلِك إِذا وَقعت الْجبَال عَلَى وَجهِ الأَرْض فتحركت واضطربت واختلطت فَفَزِعت الْجِنّ إِلَى الإِنس والإِنس إِلَى الْجِنّ واختلطت الدَّوَابّ وَالطير والوحش فماجوا بَعضهم فِي بعض ’’وَإِذا الوحوش حشرت‘‘قَالَ: اخْتلطت ’’وَإِذا العشار عطلت‘‘ أهملها أَهلهَا ’’وَإِذا الْبحار سجرت‘‘ قَالَ: الْجِنّ والإِنس نَحن نأتيكم بالْخبر فَانْطَلقُوا إِلَى الْبَحْر فَإِذا هِيَ نَار تأجج فَبَيْنَمَا هم كَذَلِك إِذا انصدعت الأَرْض صدعة وَاحِدَة إِلَى الأَرْض السَّابِعَة وَإِلَى السَّمَاء السَّابِعَة فَبَيْنَمَا هم كَذَلِك إِذْ جَاءَتْهُم ريح فأماتتهم

(الدر المنثور في التفسير بالمأثورجزء8صفحہ 427)

وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَيْضًا قَالَ: هِيَ اثْنَتَا عَشْرَةَ خَصْلَةً سِتَّةٌ فِي الدُّنْيَا وَسِتَّةٌ فِي الْآخِرَةِ۔

(تفسير البغوي جزء5صفحہ215)

بقیہ چھ آیات کے بارہ میں ایک صاحب بصیرت خود جائزہ لے سکتا ہے کہ اگر وہ بھی اس دنیا میں پوری ہورہی ہیں توان کا پورا ہوناہی پہلی چھ علامتوں کی طرح گواہ ہوگا۔

سورة تکویر کی مذکوران بارہ نشانیوں کے بارےمیں حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے ایک ایسے صوفیانہ لطیف نکتہ کااشارہ دیا ہے جو ان علامات کے قیامت کبریٰ کی بجائے قیامت صغریٰ میں پورا ہونے کی تائید کرتا ہے۔ ان کے مطابق اہل تاویل کے نزدیک یہ بارہ حوادث اسی دنیا میں ہی ہر انسان کی موت کے وقت بھی پیش آتے ہیں جو ایک فردی قیامت صغریٰ ہوتی ہے۔ حضرات صوفیہ نے ان بارہ حالتوں کو مراتب سلوک طے کرنے پر نہایت لطیف پیرائے میں محمول کیا ہے جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں مگرحضرت شاہ صاحب کے اس قول سے یہ ضرور ثابت ہوجاتا ہے کہ یہاں قیامت کبریٰ کی بجائےاس دنیاسے تعلق رکھنےوالے زمانہ کی علامات ہیں جو پوری ہوکر قیامت کبریٰ پرگواہ ہیں۔ رسول اللہﷺ اور قرآن شریف کی صداقت کو ظاہرکررہی ہیں۔ جیساکہ ہر آیت کی الگ تفسیر سے ظاہر وباہر ہے۔

روحانی سورج کی روشنی میں پردے حائل ہونا

چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے:

إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ

(التكوير :2)

جب سورج لپیٹایا ڈھانک دیاجائے گا۔

سورة تکویر میں بیان کردہ یہ پہلی نشانی قیامت کبریٰ کی نہیں ہوسکتی کیونکہ اس روز تو ساری کائنات سمیت سورج بھی فنا ہوچکاہو گا۔ پس یہاں روحانی سورج رسول اللہﷺ کا وجود مرادہے جنہیں قرآن کریم نے بھی یہ نام دیتے ہوئے’’سراج منیر‘‘فرمایا ہے۔ (الاحزاب :47)اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جب آنحضرتؐ کی تعلیمات کو لپیٹ کر رکھ دیا جائے گا اور خود تراشیدہ نئے نئے نظریات اور بدعات کا دنیا میں پرچار کیا جائے گا۔ جیساکہ چودہویں صدی میں اس علامت کا پوراہونا کسی پر مخفی نہیں۔

بقول الطاف حسین حالی:

وہ دین، ہوئی بزمِ جہاں، جس سے چراغاں

آج اُس کی مجالس میں نہ بتّی نہ دیا ہے

فریاد ہے اے کشتیٔ اُمت کے نگہباں

بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے

اس آیت کےدوسرے معنے صحابۂ رسولؐ حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت ابن عباسؓ نے سورج کے ساتھ چاند کی روشنی کے بھی کمزور پڑجانے یا نور کے جاتے رہنے کےلیے ہیں یعنی اس وقت بطور نشان سورج اور چاند کو گرہن ہوگا۔

صحابیٔ رسولؐ حضرت ابی بن کعبؓ نے تو واضح طور پر اس پیشگوئی کو قیامت سے قبل کا نشان قراردیتے ہوئے بتایا کہ لوگ بازار میں ہوںگے اور سورج کی روشنی جاتی رہے گی۔ اس لحاظ سےیہاں سورج اور چاند کے اس گرہن کی طرف بھی اشارہ ہے۔ جس کی خبر رسول اللہﷺ نے بھی اپنے مہدی کے دو نشانات کے طور پر رمضان کے مہینہ کی خاص تاریخوں میں واقع ہونے کی دی۔

إِنَّ لِمَهْدِيِّنَا آيَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ تَنْكَسِفُ الْقَمَرُ لأَوَّلِ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِى النِّصْفِ مِنْهُ وَلَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلَقَ اللّٰهُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ۔

(دار قطنی کتاب العیدین باب صفۃ صلوٰۃ الخسوف)

یہ دونوں نشان حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کے دعویٰٔ مسیحیت و مہدویت کے بعد13؍رمضان 1311ھ بمطابق 21؍ مارچ 1894ء اور28؍رمضان مطابق6؍اپریل کو آسمان پر ظاہر ہوکر آپ کی صداقت کے گواہ بنے۔

ستاروں کا ماند پڑنا

دوسری نشانی بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَإِذَا النُّجُومُ انْكَدَرَتْ

(التكوير:3)

اور جب ستارے ماند پڑ جائىں گے۔

اسےبھی قیامت کبریٰ پرچسپاں نہیں کرسکتےکیونکہ اس دن تو ستاروں کا وجود ہی نہیں رہے گاپھروہ دھندلے یا ماند کیسے پڑجائیں گے؟دراصل جس طرح سورج سے مراد رسول اللہﷺ کا وجود تھا، ستاروں سے مراد علمائے دین ہیں اور اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ جس زمانے میں علمائے دین میں تقویٰ اور روحانیت نہیں رہے گی، وہی وقت مسیح اور مہدی کےظہورکا ہو گا۔

جیساکہ حدیث نبوی ؐ میں بھی زمانہ کے بگاڑ کے ساتھ یہ پیشگوئی تھی کہ

يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ، وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ، مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدَى، عُلَمَاؤُهُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ مَنْ عِنْدَهُمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَةُ وَفِيهِمْ تَعُودُ۔

(شعب الإيمان للبیھقی جزء3صفحہ 318)

علماءکے حوالے سے اس حدیث میں لکھا ہےکہ وہ آسمان کے نیچے بد ترین مخلوق ہوں گے۔

اوردوسری روایت میں ہے کہ

’’تكون في أمتي قزعة فيصير الناس إلى علمائهم فإذا هم قردة وخنازير.‘‘ الحكيم – عن أبي أمامة۔

(كنز العمال جزء14صفحہ 280)

یعنی جب لوگ اپنے علماء کے پاس جائیں گے تو انہیں بندروںاور سؤر وںکی طرح پائیں گے۔

فسادزمانہ کے ایسے ہی وقت میں کسی مصلح یا خدائی مامور کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور علامہ نواب نورالحسن نے چودہویں صدی میں ان علامات کے پورا ہونے کی گواہی دی کہ اس امت کے علماء آسمان کے نیچے بدترہوچکے ہیں۔

(اقتراب الساعة صفحہ12)

اور مولاناحالی نے اس کا نقشہ یوں کھینچا کہ

رہا دین باقی نہ اسلام باقی

اک اسلام کا رہ گیا نام باقی

ستاروں کا ٹوٹنا

مفسرین نے ’’انْکَدَرَتْ‘‘ کے دوسرے معنے ستاروں کے ٹوٹ کرگرنے کے بھی کیے ہیں۔ اس لحاظ سے بھی یہ قیامت سے قبل مسیح موعود کی ایک نشانی ہے۔ چنانچہ حضرت بانیٔ جماعت احمدیہؑ کے زمانہ میں شہاب ثاقب کثرت سے گرنے کا یہ نشان28؍نومبر1885ءمیں بطور ارہاص ظاہر ہوا، جس کا ایک دنیا نے مشاہدہ کرکے گواہی دی۔ ستارے ٹوٹنے کا یہ ایساغیرمعمولی نشان تھا جس کی کسی قدر تفصیل اس کی اہمیت واضح کرنے کے لیے ضروری ہے۔

یہ بے نظیرواقعہ 28؍نومبر1885ء کےدن سے پہلے آنےوالی رات کو ہوا جو اس قسم کے meteor stormسے تعلق رکھتا تھا جسے علم فلکیات کی اصطلاح میں Andromedidsکہا جاتا ہے اور یہ ایک دمدارستارے(comet)کےپیچھے چھوڑے ذرات کےزمین کی فضاسے ٹکرانے سے پیداہوتےہیں اور نہایت روشن شہاب ثاقب نظر آتے ہیں جسے ستاروں کے ٹوٹنے سے موسوم کیاجاتا ہے۔

یوں تو تاریخ میں Andromedidقسم کے Meteor Stormکئی مرتبہ آئےجن میں ایک گھنٹے میں صرف سو دو سو شہاب ِ ثاقب گرتے ہوئے دکھائی دیے۔ مگر 1885ء میں ایک اندازہ کے مطابق ایک گھنٹہ میں 75ہزار شہاب ثاقبہ گرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ اس لحاظ سے یہ غیر معمولی واقعہ ایک نشان تھا۔

1882ء میں حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ کے الہام ماموریت کے ساتھ آپ کو رمی شہاب کی پیشگی خبر دی گئی اور1885ء میں یہ نشان ظاہرہوااورآپؑ نے وضاحت فرمائی کہ

’’جس زمانہ میں یہ واقعات کثرت سے ہوں اور خارق عادت طور پر ان کی کثرت پائی جائے تو کوئی مرد ِخدا دنیا میں خدا تعالیٰ کی طرف سے اصلاح خلق اللہ کے لیے آتا ہے کبھی یہ واقعات ارہاص کے طور پر اس کے وجود سے چند سال پہلے ظہور میں آ جاتے ہیں اور کبھی عین ظہور کے وقت جلوہ نما ہوتے ہیں اور کبھی اس کی کسی اعلیٰ فتحیابی کے وقت یہ خوشی کی روشنی آسمان پر ہوتی ہے۔ ‘‘

(آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5صفحہ 107تا108)

ستاروں کے ٹوٹنے کے اس عظیم الشان نشان کا ذکرکرتےہوئےآپؑ نےفرمایا کہ

’’اس رات کو جو 28نومبر 1885ءکے دن سے پہلے آئی ہے اِس قدر شہب کا تماشا آسمان پر تھا جو مَیں نے اپنی تمام عمر میں اس کی نظیر کبھی نہیں دیکھی اور آسمان کی فضا میں اس قدر ہزارہا شعلے ہرطرف چل رہے تھے جو اس رنگ کا دنیا میں کوئی بھی نمونہ نہیں تا مَیں اس کو بیان کر سکوں۔ مجھ کو یاد ہے کہ اُس وقت یہ الہام بکثرت ہوا تھا کہ

وَ مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَ لكِنَّ اللّٰهَ رَمٰى۔

سو اُس رمی کو رمی شہب سے بہت مناسبت تھی۔ یہ شہب ثاقبہ کا تماشہ جو 28نومبر1885ءکی رات کو ایسا وسیع طور پر ہوا جو یورپ اور امریکہ اور ایشیا کے عام اخباروں میں بڑی حیرت کے ساتھ چھپ گیا ۔ لوگ خیال کرتے ہوں گے کہ یہ بے فائدہ تھا۔ لیکن خداوند کریم جانتا ہے کہ سب سے زیادہ غور سے اس تماشا کے دیکھنے والا اور پھر اُس سے حظّ اور لذت اٹھانے والا مَیں ہی تھا۔ میری آنکھیں بہت دیر تک اِس تماشا کے دیکھنے کی طرف لگی رہیں اور وہ سلسلہ رمی شہب کا شام سے ہی شروع ہو گیا تھا۔ جس کو مَیں صرف الہامی بشارتوں کی وجہ سے بڑے سرور کے ساتھ دیکھتا رہا کیونکہ میرے دل میں الہاماًڈالا گیا تھا کہ یہ تیرے لیے نشان ظاہر ہوا ہے۔ ‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5صفحہ110تا111بقیہ حاشیہ)

پہاڑوں کا چلایا جانا

سورة تکویر میں قرب قیامت کی تیسری نشانی یہ بیان فرمائی:

وَإِذَا الْجِبَالُ سُيِّرَتْ (التكوير :4)

اور جب پہاڑ چلائے جائىں گے۔

اس میں یہ نشانی مذکور تھی کہ پہاڑوں کو توڑ کر ان میں سرنگیں اور راستے بنائے جائیں گےاور ان کے پتھرسڑکیں بنانے کےلیے دور دور تک لے جائے جائیں گے۔ جیساکہ اس زمانہ میں یہ پیشگوئی پوری ہوچکی ہے۔

دوسرے معنے پہاڑوں کےچلائے جانے کے یہ ہیں کہ اس زمانہ میں زلازل اس کثرت سے آئیں گے کہ پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ کرسرک جائیں گے۔ یہ نشانی بھی اس زمانہ میں پوری ہوئی اور ظہور مسیح و مہدی کی چودہویں صدی میں اتنے زلزلے آئے کہ گزشتہ چودہ سو سال میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔

(تفصیل کےلیے دیکھیں پیسہ اخباریکم مئی 1905ء)

بعض زلازل کے نتیجہ میں پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ جاتے ہیں۔ چنانچہ چند سال قبل 2015ء میں نیپال میں آنے والے زلزلے نے زمین کی ہیئت بدل دی۔ اور اس کی وجہ سے ہمالیہ پہاڑوں کی ایک چوڑی پٹی نیچے سرک گئی جبکہ ملحقہ کھٹمنڈو بیسن کی سطح بھی بلند ہوگئی اور یہ پورا خطہ جنوب کی جانب دومیٹر تک سرک گیا۔

(بی بی سی اردو17؍دسمبر2015ء)

2019ء کو میرپورآزاد کشمیر میں زلزلہ آیا جس کے بارہ میں عینی شاہد کا بیان یہ تھاکہ

’’زمین نے دائیں بائیں حرکت کی اور نہر کی طرف کھسکنا شروع ہوگئی۔ ‘‘

(اخبارانڈیپنڈنٹ اردو25؍ستمبر2019ء)

اس نشانی کاتیسرا پہلو پہاڑ کے مجازی معنی سلاطین اور بڑی قومیں ہونے کے لحاظ سےہےاور ان کے چلائے جانے سے مراد یہ ہوگی کہ بادشاہوں کی قدرومنزلت کم ہوکر جمہوریت کی شروعات ہوںگی اور قوموں کے عروج و زوال کا دَور ہوگا جیسے اس زمانہ میں شہنشاہ برطانیہ کا ہندوستان اوراپنی دیگر کالونیز میں زوال اورروس میں زار خاندان کی بادشاہی کازوال۔

سورة طور میں بھی ان معنی کے لحاظ سے بادشاہوں اور قوموں کے اس زوال کو مسیح و مہدی کوجھٹلانے کے زمانہ کا خاص واقعہ بتایاگیاہے۔ فرمایا:

وَتَسِيْرُ الْجِبَالُ سَيْرًا۔ فَوَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِلْمُكَذِّبِينَ

(الطور:11-12)

یعنی بادشاہوں اور قوموں کے زوال کایہ نشان دیکھ کر بھی جھٹلانے والوں کے لیے ہلاکت ہوگی۔ جیساکہ ان نشانات کے ظہور کے بعدمسیح و مہدی کو جھٹلانے والوں کےلیےطاعون اور زلازل وغیرہ سے ہلاکت حصہ میں آئی۔

پہاڑوں کے چلائے جانے کاچوتھا مطلب سیاق و سباق کے لحاظ سے وہ ہےجوعملاً پورا ہوچکا ہے اور وہ پہاڑ جیسی عظیم نئی سواریوں کی پیشگوئی ہےکہ پہاڑوں کی طرح بڑے بڑے سمندری جہاز اور فضائی جہاز سفر اور باربرداری کے لیے استعمال ہوں گے۔ ایسی سواریوں کی ایجاد کی مناسبت سے اگلی آیت میں پیشگوئی ہے کہ تب اس وقت عرب کے صحراکا جہاز اونٹ بھی بےکار ہوجائے گا اور تیز سفر کے لیے موٹر، ریل، جہازوغیرہ زیادہ استعمال ہوںگے۔

اونٹ کی سواری کا بے کار ہونا

چنانچہ قرب قیامت کی چوتھی نشانی بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَإِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ(التكوير:5)

اور جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں چھوڑ دی جائیں گی۔

ظاہر ہےاس نشانی کوقیامت کبریٰ سے کوئی نسبت نہیں ہوسکتی کہ اس دن توانسان اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کو بھی چھوڑ دے گا۔ (سورۃ عبس:35تا37)تواور کیا باقی رہ جائےگا ایسے موقع پر خاص حاملہ اونٹنی کو چھوڑدینے کاذکرمضحکہ خیز بن جاتاہے۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ اونٹنی کے حمل وغیرہ کے معاملات کا تعلق محض اس دنیا سے ہے نہ کہ روز قیامت سے۔

’’عشار‘‘ کے معنے گابھن اونٹنی کے ہیں جس کی عربوں میں بڑی قیمت تھی اور اس میں پیشگوئی تھی کہ وہ بھی بے کار اور بے قیمت ہوجائیں گی۔ عشار پر’’ ال‘‘ جنس کا ہے جس کا مطلب ہے کہ اونٹوں کی جنس جو صحراکا جہاز کہلاتی تھی، متروک ہوگی۔ ’’ ال ‘‘استغراق کا نہیں کہ سب اونٹوں کا مکمل بے کار ہونا مرادلیاجائے۔ ایک صحت مند اونٹ روزانہ 40کلومیٹر تک 15 من بوجھ اٹھاکر سفر کرسکتا ہے مگراس کی یہ قدر نئی سواریوں کی ایجاد سے کھو جانے کی پیشگوئی تھی جو پوری ہوئی۔

مزید برآں اس آیت کی تفسیر میں رسول اللہﷺ کی بیان فرمودہ تفسیر کا ذکر ہوچکا ہے کہ آپؐ نے مسیح کے ظہور کے وقت اس کے مقصد اورکام کے ساتھ ایک یہ نشانی بھی بیان فرمائی:

وَلَتُتْرَكَنَّ الْقِلَاصُ فَلَا يُسْعَى عَلَيْهَا

(مسلم کتاب الایمان باب نزول عیسی بن مریم حاکما بشریعۃ نبینا محمد)

کہ مسیح کے زمانہ میں اونٹنیوں سےتیز رفتاری کےلیے کام نہیں لیا جائے گا۔ اس میں یہی پیشگوئی تھی کیونکہ ایسی تیزسواریاں موٹر، ریل، جہازایجاد ہو جائیں گی کہ ان کے مقابل پر اونٹنیوں کا استعمال متروک ہوجائےگا۔ چنانچہ چودہ سوسال قبل رسول اللہﷺ جب مکہ میں یہ پیشگوئی فرمارہے تھے تو ہرطرف سے اونٹوں کے قافلوں کا سلسلہ قطاراندرقطار حج کے لیے آتا تھا۔ آج اس کی جگہ موٹر، ریل، جہاز لے چکے ہیں اورکیسی شان سے یہ پیشگوئی پوری ہوکر رسول اللہﷺ اور قرآن کریم کی صداقت عیاں کررہی ہے۔

خواجہ حسن نظامی نےبھی مسیح و مہدی کے جائے ظہور ہندوستان میں اس علامت کے پورا ہونے کے بارے میں یہ اعتراف کیا کہ

’’موٹروں اور ریل گاڑی کی ایجاد سے اونٹوں کی سواری بیکار ہوگئی اور یہ تمام علامات زمانہ مہدی چودہویں صدی تک پورے ہوگئے۔ ‘‘

(کتاب الامر(مطبوعہ 1913ء)صفحہ 6)

آسٹریلیا میں اونٹ کے بے کار ہونے کا حیرت انگیز نشان

لیکن جس شان کے ساتھ براعظم آسٹریلیا میں

’’إِذَا الْعِشَارُ عُطِّلَتْ‘‘

کی پیشگوئی کا حیرت ناک نشان ظاہر ہوا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ آسٹریلیا(جس کا بڑا حصہ ویران بنجرصحرا پر مشتمل ہے)اس کی تعمیر وترقی کے لیے 1859ء میں اونٹ برٹش انڈیا سے درآمد کرنے کا سلسلہ تیرہویں صدی ہجری میں شروع ہوا جب چودہ اونٹوں اورتین شتربانوں کا پہلا قافلہ وہاں پہنچااور پیشگوئی کے مطابق بیسویں صدی (یعنی ظہور مسیح کی چودہویں صدی) میں موٹراورریل وغیرہ کی ایجاد کے بعد1908ء میں اونٹ متروک ہونا شروع ہوئے۔ پہلا ٹرک جنوبی آسٹریلیا کے شہر ایڈلڈ سے کئی ہزار میل کا سفر کرکے شمالی آسٹریلیا کے شہرڈارون پہنچا۔ یہ ٹرک آج بھی وہاں میوزیم میں محفوظ ہے اور پھران کو جنگل میں بغیر چرواہے کے بے کار چھوڑدیا گیا۔

بیسویں صدی کے آخر میں ان جنگلی وحشی اونٹوں کی آبادی تیزی سے بڑھ کر ہزاروں تک پہنچ گئی۔ اکیسویں صدی کے آغاز میں تو ایسے آوارہ جنگلی اونٹوں کی تعداد کا اندازہ ایک ملین ہوگیا جو ہر آٹھ سے دس سال میں دوگنا ہوکرمقامی باشندوں Aboriginesکےلیے کئی مسائل پیدا کرنے لگے خصوصاً قحط سالی میں مقامی لوگوں کے محفوظ پانی اور غسل خانوں وغیرہ کو اونٹ نقصان پہنچانے لگے۔ اس پر حکومت آسٹریلیا کو باقاعدہ وحشی اونٹوں کو سنبھالنے کے لیے National Federal Action Planوضع کرکے ہزاروں اونٹوں کوبندوق سے شوٹ(shoot) کرنا پڑا۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کی خوفناک قحط سالی میں ہزاروں اونٹ صحرا میں پانی میسر نہ ہونے کی وجہ سے ازخودہلاک ہوگئے۔ ان مسائل سے نپٹنے کے لیے گورنمنٹ نے2009ء کے پانچ سالہ منصوبہ میں انیس ملین آسٹریلوی ڈالر کا بجٹ رکھا جس کے تحت کئی ہزار اونٹوں کو شوٹ کرکے بے کار اونٹوں کی تعداد کم کی گئی۔ اس غرض کے لیے مسلسل بارہ دن 289گھنٹے ہیلی کاپٹرزکی مدد سے45000مربع میل کے علاقہ میں 11560اونٹوں کو بذریعہ گولی اڑادیا گیا جس پر فی اونٹ 30ڈالر خرچ آیا۔ آسٹریلیا کے بعض حلقوں خصوصاً اونٹ کا گوشت وغیرہ کے کاروبار سے متعلق کمپنیوں کی طرف سےاس کی مخالفت بھی ہوئی۔ جس پر کچھ سال بعد2020ء کی قحط سالی میں پھر اونٹ پانی کی تلاش میں شہروں کا رخ کرکے آبادی کو نقصان پہنچانے لگےتو ہیلی کاپٹرز کے ذریعہ پروفیشنل شوٹرز کے ذریعہ چار سے پانچ ہزار اونٹ ہلاک کرنے پڑے۔

مزید برآں 2016ء میں آسٹریلیا آنےوالے قدیم شتربانوں کی خدمات کے اعتراف میں ایک سکّہ ایجادکرکے اس کی پشت پر مذکورہ بالا مختصر تاریخ رقم کردی گئی ہے دوسرے لفظوں میں اس قرآنی پیشگوئی کا اعتراف ہے۔ وہ سکّہ یہ ہے:

پس یہ پیشگوئی مسیح و مہدی کے زمانہ میں لفظاً و معناً پوری ہوگئی۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:

i. “Decline and the fall of the Australian camel” cairns post retrieved 6 March 2016.

ii. ’’Managing the Impacts of Feral Camels Across Remote Australia‘‘(PDF). Ninti One. 2013. pp. 59–60. Retrieved 8 March 2016.

iii. ’’Australia Plans To Kill Thirsty Camels‘‘. CBS News. Associated Press. 26 November 2009. Archived from the original on 27 November 2009. Retrieved 27 November 2009.

وحشی جانوروں کا اکٹھے کیاجانا

سورہ تکویر میں قرب قیامت کی پانچویں نشانی یہ بیان فرمائی:

وَإِذَا الْوُحُوشُ حُشِرَتْ (التكوير :6)

اور جب وحشى اکٹھے کیے جائىں گے۔

یہ پیشگوئی بھی اس دنیا سےمتعلق ہے کیونکہ قیامت کبریٰ تو فنا کا دن ہے نہ کہ وحشی جانوروں کو اکٹھا کرنے کا۔ اس آیت سے بروز قیامت جانوروں کا حشر و نشر اور حساب کتاب مرادلینا اس لیے درست نہیں کہ اول توجانور انسان کی طرح مکلف نہیں۔ دوسرے ان کی جزاوسزا کا شریعت اسلامی میں کوئی ذکر نہیں۔ پس اس آیت میں پہلی خبر یہ دی گئی تھی کہ ظہور مسیح کے زمانے میں دنیا میں بعض وحشی جانوروں کو ایک جگہ جمع کرکےچڑیا گھر بنائے جائیں گے۔ کیونکہ’’ الوحوش‘‘ پر الف لام استغراق کا نہیں بلکہ’’جنس‘‘ کا ہے جس سے وحشی جانوروں کی جنس مراد ہے۔

پس دنیا بھرکےچڑیا گھروں کے ذریعہ یہ پیشگوئی بڑی شان سے پوری ہوکر اپناسچاہونا ثابت کررہی ہے۔

وَاِذَاالْوُحُوْشُ حُشِرَتْ

کا دوسرا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ وحشی قوموں میں بھی تہذیب کا دوردورہ ہوگا(جیساکہ پہاڑوں کے چلانے میں اشارةً ذکر ہواکہ بادشاہوں اور قوموں میں عروج و زوال ہوگا)۔ اور علوم و فنون کی ترقی کے باعث رذیل اور حقیر سمجھی جانے والی قومیں بھی اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑی ہوںگی جیساکہ گذشتہ صدی میں افریقہ میں کالونیل ازم کے خاتمہ کے بعد یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔

’’حشر‘‘کے ایک معنے جلاوطن ہونے کے بھی ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے تیسراپہلواس نشان کا یہ ہوگا کہ وحشی قوموں کو ان کے ملکوں سے نکال دیاجائےگا جیساکہ اس زمانہ میں بھی یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور امریکہ اور آسٹریلیا میں ایسا ہوا۔ امریکہ میں سرخ فام یاریڈ انڈینز کے ساتھ ایسا نارواسلوک کیاگیا۔

چنانچہ1907ءمیں امریکہ کےعلاقہ اوکلاہوما کے ریاست بننے کے بعد اس علاقے میں مقامی سرخ فاموں سے نہ صرف مزید زمین چھینی گئی بلکہ بہت سے دوسرے علاقوں کے باشندوں کو جبری ہجرت پر مجبور کر کے ریاست کے ایک چھوٹے سے رقبے میں ہانک دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں امریکہ کے اصلی، پہلے اور مقامی باشندوں اور قبائل کو چھوٹے چھوٹے رقبوں تک محدود کر دیا گیا۔ ان جگہوں کو ریزرویشن کہا جا تا ہے۔ یہ نظام آج کے دن تک موجود ہے۔

چوتھے معنے اس آیت کے یہ ہوسکتے ہیں کہ انسانوں کا بھیس بدل کر جانوروں کی شکل بنانا۔ یہ نشانی بھی ہمارے زمانہ میں پوری ہورہی ہے۔ چنانچہ عاشوراء محرم میں لوگ انسان ہوکر شیر، چیتا، ریچھ وغیرہ کا سوانگ لیتے اور روپ دھارتے ہیں۔ گویا عملاً انسانیت سے مسخ ہوکر وحشی بن جانے کا ثبوت دیتے ہیں۔ اسی طرح دنیا کے مختلف ممالک میں31؍اکتوبرکو Halloween Day مناتے ہیں۔ ہالووین (Halloween) میں گلی کوچوں، بازاروں، سیرگاہوں اور دیگر مقامات پر جابجا ڈراؤنے چہروں اور خوف ناک لبادوں میں ملبوس چھوٹے بڑے بھوت اور چڑیلیں چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں۔

سمندروں اور دریاؤں کا پھاڑا جانا

سورہ تکویر میں قرب قیامت کی چھٹی نشانی کا ذکرکرتے ہوئے فرمایا:

وَإِذَا الْبِحَارُ سُجِّرَتْ (التكوير:7)

عربی زبان میں بحار سمندر کوبھی کہتے ہیں اور دریا کو بھی۔ اور تسجیر کے معنے پھاڑنے یا خشک کرنے کے ہیں یعنی جب سمندر پھاڑے یاخشک کیےجائیں گے۔ یہ بات قیامت کبریٰ کے دن نہیں ہوسکتی جب زمین ہی نہیں ہوگی توسمندر کہاں سے پھاڑے جائیں گے، پس یہ بھی مسیح کے زمانہ کی علامت بیان ہوئی ہے۔

اور’’ البحار‘‘ پر الف لام استغراق کا نہیں ’’جنس‘‘کا ہے جس سے سمندرکی جنس مراد ہے نہ کہ تمام سمندریادریا۔

سمندر پھاڑے جانے کی صورت میں اس آیت میں نہر سویز او رنہر پانامہ کی پیشگوئی کی گئی ہے جو نہر سویز کے ذریعہ بحیرہ قلزم کو بحیرہ روم سے اور نہر پانامہ کے ذریعہ بحر الکاہل اور بحر اوقیانوس کو باہم ملا نے سے پوری ہوئی۔ اگر تسجیرکا معنی پھاڑنا اورخشک کرنا اور بحارکا معنی دریا کیا جائے تو آب پاشی کی خاطر دریاؤں کو پھاڑ کر نہریں نکالنے کی پیشگوئی ہے۔ جیساکہ سورة الانفطار کی آیت

وَإِذَا الْبِحَارُ فُجِّرَتْ (الِانْفطار:4)

میں لفظ’’ تفجیر‘‘کابھی ذکر ہے۔ جس کے معنے پھاڑنے کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ انگریز حکومت نے ظہور مسیح کی چودہویں صدی میں ہندوستان کے دریاؤں کو پھاڑ کران میں نہروں کاایک جال بچھایا۔

تسجیر کے ایک معنے جوش مارنے کے بھی ہوتے ہیں جیسے سورة الطور میں

’’وَالْبَحْرِ الْمَسْجُورِ ‘‘ (الطور :7)

جوش مارنے والے سمندر کی قسم کھائی گئی ہے۔ اس لحاظ سے اس پیشگوئی میں آخری زمانہ میں سمندر میں زلازل کے نتیجہ میں ان کے جوش مارنے اور سونامی وغیرہ کی پیشگوئی تھی جومسیح و مہدی کے زمانہ چودہویں صدی میں اس طرح پوری ہوئی کہ27؍اگست1883ء کوانڈونیشیا میں سونامی کے نتیجہ میں جاوا اور سماٹرا کے36000؍افراد ہلاک ہوئے۔ جون 1893ء میں جاپان میں 100فٹ اونچی سونامی میں 27000؍افراد لقمہ اجل بنےاور یہ سلسلہ جاری ہے۔

ذرائع رسل و رسائل کی ترقی اور قومی و ملکی ملاپ

قرب قیامت کی ساتویں نشانی یہ بیان فرمائی:

وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ(التكوير :8)

جب نفوس ملا دیئے جائیں گے۔

اس میں ایک یہ پیشگوئی تھی کہ مسیح کے زمانہ میں آمدروفت اور رسل ورسائل کے ذرائع ترقی پر ہوں گے اور مختلف قوموں اور علاقوں کے افراد کا آپس میں ملاپ اور رابطہ بڑھ جائےگا۔ جیساکہ مسیح و مہدی کی چودہویں صدی میں شروع ہوا اورجدیدذرائع رسل و رسائل و مواصلات کے نتیجہ میں دنیاکے گلوبل ویلیج بننے کا نقشہ اپنےعروج پر ہے۔

اس آیت کےدوسرے معنے ایک حدیث کے مطابق یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ ہر آدمی کو اس جیسے عمل کرنے والے سے ملاکرجوڑدیا جائےگا۔ چنانچہ چودہویں صدی میں عیسائیت ہندوستان میں آئی تو کئی کمزور ایمان لوگ اسلام چھوڑ کر عیسائی ہوئے اور اپنے جیسی آزاد خیال انگریز عیسائی عورتوں سے شادیاں کرنے لگے۔ یوں باقاعدہ گرجوں میں ایسے مرتدین کے باہم رشتے اورجوڑ طے ہونے لگے۔ اور یہ پیشگوئی اس رنگ میں بھی پوری ہوئی۔

حقوق نسواں کا دور، زندہ درگور ہونےوالی کے بارے میں پرسش کا قانون

سورہ تکویرمیں قرب قیامت کی آٹھویں نشانی یہ بیان فرمائی:

وَ اِذَا الۡمَوۡءٗدَۃُ سُئِلَتْ۔ بِاَیِّ ذَنۡۢبٍ قُتِلَتۡ(التكوير:9تا10)

جب زندہ گاڑی جانے والی لڑکی کے بارہ میں سوال کیا جائے گا کہ آخر کس گناہ کے بدلہ میں اس کو قتل کیا گیا۔

یہاں بھی قیامت کبریٰ کا ذکر مانا جائے تو اس دن توقرآن و حدیث کے مطابق بڑے بڑے گناہوں کے بارے میں بھی باز پرس ہو گی خصوصاً شرک اور بت پرستی جو سب سے بڑا گناہ ہے۔ اس کو چھوڑ کر بیٹی کو زندہ دفن کرنے کے گناہ کا تذکرہ بےمحل ہے۔

اس پیشگوئی میں اشارہ تھا کہ مسیح موعود کےزمانے میں بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا قانوناً جرم بن جائےگااور اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس سے باز پرس ہوگی اور سزا دی جائےگی۔

چنانچہ چودہویں صدی میں یہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی اورانگریزحکومت نے 1870ء میں ایک قانون جاری کیا جس میں نومولود بچیوں کو گنگادہانے سمندر میں ڈال دینے، صحیح نگہداشت نہ کرنے کی وجہ سے ہلاک کرنےاورماں کے پستانوں پر زہر لگاکر قتل کرنے کی قبیح بے رحم رسم کی مذمت کی(Act VIII of 1870) اوراس کی خلاف ورزی کرنے والے کو چھ ماہ قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ یا دونوں کی سزا مقرر کی۔

(The Unrepealed General Acts of the Governor General in Council: 1868-76 Vol 2)

اور یوں اس قانون نےاس پیشگوئی کو بھی پوراکردیا۔ جس کے نتیجہ میں ایک طرف عورت کے حقوق کی آواز بلند ہوئی اورمعصوم لڑکیوں کو زندہ درگور کا خاتمہ ہوا۔ دوسرے اسقاط حمل کے متعلق باقاعدہ قانون بن گیااور یوں ناجائز قتل ہونے والی بچیوں کی بازپرس کا سلسلہ قانوناًشروع ہوگیا جو اس سے پہلے موجود نہ تھا۔

اگرکوئی کہے کہ اسقاط حمل کا سلسلہ جاری ہے تویادرہے پیشگوئی یہ نہیں تھی کہ زندہ درگورکرنے یااسقاط حمل کاعمل رک جائے گا بلکہ لفظ ’’الۡمَوۡءٗدَۃُ ‘‘جو اسم مفعول ہے (یعنی زندہ درگور ہونےوالی) کے الفاظ میں اشارہ تھا کہ یہ عمل تو جاری رہے گا مگر پہلے عورتوں کی اس حق تلفی کی بازپرس نہ ہوتی تھی جس کے بارے میں ہونےوالی قانون سازی سے یہ حق قائم ہوا۔

(Revised text of section 58 and 59 of the Offences against the Person Act 1861. Legislation.gov.uk.)

اشاعت کتب اور اس کے وسائل میں ترقی کا دور

سورہ تکویرمیں قرب قیامت کی آٹھویں نشانی یہ بیان فرمائی:

وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ (التكوير:11)

اور جب صحىفے نشر کیے جائىں گے۔

صحیفہ کے معنے کتاب، رسالہ یا اخبار کے ہوتےہیں اور ’’مصحف‘‘ یعنی قرآن شریف کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوتاہے۔ اس پر’’ ال‘‘ استغراق کا نہیں بلکہ جنس کا ہے۔ یعنی مسیح موعودکے زمانہ میں قرآن شریف، کتابوں، رسالوں اور اخبارات کی اشاعت کثرت کے ساتھ ہو گی۔ چنانچہ پریس وغیرہ وسائل نشرواشاعت کی ایجاد کے نتیجہ میں چودہویں صدی میں جس شان سےیہ پیشگوئی بھی پوری ہوئی اس سے پہلے نہ تھی اور قرآن کریم اور دیگر کتب کی اشاعت پہلے سے کہیں زیادہ کثرت سے ہوکر وہ بآسانی دستیاب ہونے لگیں۔

علم فلکیات کی ترقی

سورہ تکویر میں قرب قیامت کی نویں نشانی بیان کرتےہوئے فرمایا:

وَإِذَا السَّمَاءُ كُشِطَتْ (التكوير:12)

کہ جب آسمان کی کھال ادھیڑ دی جائے گی۔

قیامت کبریٰ کے دن تو ہر چیز کی صف لپیٹ دی جائےگی جیساکہ فرمایا

یَوۡمَ نَطۡوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلۡکُتُبِ (الانبياء:105)

سے ظاہر ہے تو پھر اس کے بعدآسمان کی کھال کیسے اتاری جاسکے گی۔

دراصل اس آیت میں یہ پیشگوئی تھی کہ جس طرح کسی جانور کی کھال اتارنے کے نتیجے میں اس کے جسم کے اندرونی اعضاء نظر آنے لگ جاتے ہیں اسی طرح مسیح کے زمانہ میں Astronomyیعنی علم فلکیات بہت ترقی پر ہوگا۔

یہ پیشگوئی بھی اس زمانہ میں پوری ہوئی اور علم فلکیات کے آلات دوربین وغیرہ ایجاد ہوکر غیرمعمولی ترقی ہوئی۔

دوسرے معنے اس کےیہ بھی ہوسکتےہیں کہ آسمانی روحانی علوم سے پردہ ہٹایا جائے گا۔ چنانچہ مسیح و مہدی نے آکر رسول اللہﷺ کی پیشگوئی کے مطابق وہ قرآنی علوم اور روحانی خزانے اپنی پچاسی سے زائد کتب کے ذریعہ دنیا میں تقسیم کیے اور اعلان عام کیا کہ

وہ خزائن جوہزاروں سال سے مدفون تھے

اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے امیدوار

بدی کا عروج اور جہنم کا بھڑکنا

پھرقرب قیامت کی دسویں نشانی یہ بیان فرمائی کہ

وَإِذَا الْجَحِيْمُ سُعِّرَتْ (التكوير:13)

اور جب جہنم بھڑکائی جائےگی۔

یعنی اس زمانہ میں دنیا میں گناہوں کی بہت کثرت ہو گی اور گناہ گار اپنے گناہوں میں بڑھتے چلے جانے کے نتیجے میں جہنم کو بھڑکاتے چلے جائیں گے۔ اس زمانہ میں مسیح کا ظہور ہو گا۔

اوریہی ازل سے قانون الٰہی ہے کہ جب خشکی و تری میں فساد برپا ہوجائے(الروم :42)، خدا کے مامور خلق خدا کو نجات کی راہ دکھاتے ہیں۔

اگرجہنم کے بھڑکنے سے قیامت کبریٰ مراد لی جائے توسوال پیدا ہوتا ہے کہ جہنم توپہلےسے موجود ہے اور ہمیشہ سے ہے ہی بھڑکنے والی۔ بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنَاهُمْ سَعِيْرًا (بنی اسرائیل: 98)

جب بھی وہ بجھنے لگتی ہے تو ہم اسے اور بھڑکا دیتے ہیں۔ پھر اسےدوبارہ بھڑکانے کے کیا معنی؟ پس یہ آخرت کا واقعہ نہیں ہوسکتا۔ اس دنیا کا واقعہ ہےاور مسیح موعودؑ کی آمد سے پہلے دجال اور یاجوج ماجوج کاظہور ہے کیونکہ ان دونوں کا تعلق جہنم کی آگ اور اسے بھڑکانے سے خاص ہے چنانچہ دجال کی ایک نشانی ہی رسول اللہﷺ نے یہ بیان فرمائی کہ

ومعه نهران أنا أعلم بهما منه، نهر يقول: الجنة، ونهر يقول: النار، فمن أدخل الذي يسميه الجنة فهي النار، ومن أدخل الذي يسميه النار فهي الجنة

(كنز العمال جزء14صفحہ 325)

اس کے ساتھ دو نہریں ہوںگی وہ ان میں سے ایک کو جنت اور دوسری کو آگ کہے گا۔ اور جس نہر میں وہ لوگوں کوجنت کہہ کر داخل کرے گا وہ دراصل جوش مارنے والی آگ ہوگی۔

دجال سے مراد وہ مذہبی لبادہ اوڑھنے والے یورپین پادری ہیں جو مذہبی لحاظ سے توحید خالص کو چھوڑ کر تثلیث اور کفارہ کاپرچارکرکے عقیدہ کے ساتھ خدا کے غضب کاجہنم بھڑکانے والے ہیں۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرۡنَ مِنۡہُ وَ تَنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَ تَخِرُّ الۡجِبَالُ ہَدًّا۔ اَنۡ دَعَوۡا لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدًا۔

(مريم :91-92)

قرىب ہے کہ آسمان اس سے پھٹ پڑىں اور زمىن شق ہو جائے اور پہاڑ لرزتے ہوئے گر پڑىں کہ انہوں نے رحمان کے لیے بىٹے کا دعوىٰ کىا ہے۔

اسی طرح حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ غیرت اپنی توحید کی ہے۔

چنانچہ مکمل حدیث یوں ہے:

قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: لَوْ رَأَيْتُ رَجُلًا مَعَ امْرَأَتِي لَضَرَبْتُهُ بِالسَّيْفِ غَيْرَ مُصْفَحٍ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: ’’أَتَعْجَبُونَ مِنْ غَيْرَةِ سَعْدٍ، لَأَنَا أَغْيَرُ مِنْهُ، وَاللّٰهُ أَغْيَرُ مِنِّي‘‘ ۔

(صحیح بخاری کتاب الحدود بَابُ مَنْ رَأَى مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا فَقَتَلَهُ)

پس دجال کے مشرکانہ عقائد کے علاوہ وہ دجالی مغربی تہذیب جس میں کفارہ کے عقیدہ کے نتیجہ میں بے حیائی، زنا و بدکاری، ہم جنس پرستی، شراب نوشی اور جؤا وغیرہ عام ہیں۔ مخلوق خدا کی نافرمانی کے یہ سب مکروہ کام بھی خالق کے غضب اور جہنم کو بھڑکائیں گے۔ اسی طرح یاجوج ماجوج بھی انہی مغربی اقوام کاہی سیاسی نام ہےجو اجیج سے نکلا ہے اور جس کے معنے ہی آگ کے شعلہ مارنے یا بھڑکنے کے ہیں۔ اور یہ قومیں سیاسی آگ بھڑکانے میں بھی سرفہرست ہیں کیونکہ اپنی ترقی کے نتیجہ میں ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم وغیرہ کی طاقت ان کے پاس ہے جس کے ذریعہ وہ دنیا کو آن واحد میں خاکستر کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کرچکی ہیں اورجس کا ایک نظارہ جنگ عظیم دوم میں ہیروشیمااورناگاساکی میں دیکھا گیا۔ اسی لیے دجال اور یاجوج ماجوج کی ظاہری طاقت کے لحاظ سے رسول اللہﷺ نے فرمایاتھا کہ لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقِتَالِهِمْ (مسلم کتاب الفتن)ان کے مقابلہ کی کسی کو تاب نہ ہوگی۔

رحمت الٰہی کا جوش اور جنت کا قریب ہونا

تب الٰہی سنت کے مطابق ایسے نازک وقت میں خدا کی رحمت جوش مارے گی اورجنت قریب کردی جائےگی:

وَإِذَا الْجَنَّةُ أُزْلِفَتْ(التكوير:14)

اس آیت میں قرب قیامت کی گیارہویں نشانی بتائی ہے کہ جنت کو قریب کردیا جائےگا۔ اور جیساکہ حدیث میں مذکور ہے کہ خدا تعالیٰ مسیح ابن مریم کو بھیجے گا اور وہ لوگوں کو یاجوج ماجوج کی بھڑکائی ہوئی ظاہری جہنم سے بچانے کے لیے دعا کا راستہ اختیار کرے گا اور بندوں کوطورپہاڑ یعنی عبادت اور دعا کی طرف بلائے گااور دجال کے تہذیبی جہنم کو ایک جنت نظیر معاشرہ سے بدل دے گا۔ جس کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہوگا اور جس کے لیے وہ اپنا جان و مال سب کچھ فدا کرنے کو تیار ہوں گے۔ اور ایک دفعہ پھر

’’اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃََ‘‘ (التوبة :111)

کی ندا سے جنت واقعی انسان کے قریب کردی جائے گی۔ چنانچہ حدیث دجال میں یہ پیشگوئی ہے کہ مسیح ابن مریم

’’يُحَدِّثُهُمْ بِدَرَجَاتِهِمْ فِي الْجَنَّةِ‘‘

اپنے ساتھیوں کو جنت میں ان کے درجات بتائے گا۔

(مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال و صفتہ و ما معہ)

یہی مطلب اس دنیا میں متقیوں کے لیے جنت قریب کیے جانے کا ہوسکتا ہے ورنہ قیامت میں تو جنت محض قریب ہی نہیں کی جائےگی بلکہ اس میں داخلہ کا وقت ہوگا جیساکہ فرمایا کہ متقیوں کو گروہ در گروہ دھکیل کر جنت کی طرف لے جایا جائے گا اور وہاں آنے پر اس کے دروازے کھل جائیںگے اور جنت کے داروغے کہیں گے تم پر سلام وبرکت ہو۔ ہمیشہ کے لیے اس میں داخل ہوجاؤ۔ (الزمر:74)

پس

اِذَاالْجَنَّۃُ اُزْلِفَتْ

میں یہی مراد ہے کہ مسیح و مہدی پر پختہ ایمان لاکرجان و مال کی قربانیاں کرنےوالوں پر اس دنیا میں جنت ایسی قریب کردی جائےگی جیسے وہ ان کی آنکھوں کے سامنے ہے جیساکہ رسول اللہﷺ کے صحابہ کواس پر حق الیقین تھا۔ چنانچہ صحابہ میں دس صحابہ’’عشرہ مبشرہ‘‘ اس دنیا میں جنتی کہلائے تو 313اصحاب بدر اور1400 اصحاب حدیبیہ کو بھی اس دنیا میں پروانۂ جنت ملا۔ اور مدینہ کی جنت البقیع میں سینکڑوں صحابہ آسودۂ خاک ہوئے۔

اس قرآنی پیشگوئی

اِذَاالْجَنَّۃُ اُزْلِفَتْ

کے تحت حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ نے الٰہی منشاء کے مطابق 1906ء میں اس بابرکت نظام کا آغاز فرمایا جو نظام وصیت کے نام سے معروف ہے۔ اور اس میں شامل ہونے کےلیے بنیادی طور پر کچھ شرائط رکھیں۔ مثلاً یہ کہ وصیت کرنےوالا متقی ہو اور محرمات سے پرہیز کرتا اور کوئی شرک اور بدعت کا کام نہ کرتا ہو، سچا اور صاف ہو اور اس کی موت کے بعد دسواں حصہ اس کے تمام ترکہ کا حسب ہدایت اس سلسلہ کے اشاعت اسلام اور تبلیغ احکام قرآن میں خرچ ہوگا۔

(ماخوذ ازرسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20صفحہ319تا320)

پس رسول اللہﷺ نے جو فرمایا تھاکہ جو شخص قیامت کے حالات یوں معلوم کرنا چاہتا ہے جیسے آنکھوں دیکھی بات تو وہ سورہ تکویراور سورہ الانفطار وغیرہ پڑھ لے، اس سے یہی مراد تھی کہ ان سورتوں میں ظہور مسیح اور ظہور مہدی کے حالات بیان ہوئے ہیں۔ اور اس پر ایمان لانے کے نتیجہ میں جنت کی بشارت دینے کے بعد فرمایا کہ

عَلِمَتۡ نَفۡسٌ مَّاۤ اَحۡضَرَتۡ (التكوير: 15)

کہ اس وقت ہر جان کو پتہ چل جائےگا کہ اس نے آگے کیا بھیجا اور جنت کے لیے اپنے مال اور وقت وغیرہ میں سے کیا قربان کیا ہے یعنی امتحان اور محاسبہ کا وقت ہوگا۔

پھر فرماتا ہے :

وَ الَّیۡلِ اِذَا عَسۡعَسَ۔ وَ الصُّبۡحِ اِذَا تَنَفَّسَ (سورہ التکویر:18تا19)

اور رات کى جب وہ آئے گى اور پىٹھ پھىر جائے گى اور صبح کى جب وہ سانس لىنے لگے گى۔

یعنی میں رات کو شہادت کے طور پرپیش کرتا ہوں جب وہ ختم ہو جائےگی اور صبح کو شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں جب وہ سانس لےکر روشن ہونے لگے گی۔

اس سے بھی ظاہر ہے کہ یہ قیامت کبریٰ کے دن نہیں ہوسکتاجب نظام شمسی کا وجود ہی نہیں ہو گا تو پھر رات کے آکر ختم ہونے اور صبح کے طلوع ہونے کا کیا مطلب؟پس اس میں یہی بیان ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں جب یہ علامات پوری ہوں گی تو اسلام کے زوال اور اس کے انحطاط کی رات ختم ہو جائے گی اور غلبہ اسلام کی صبح طلوع ہوکررفتہ رفتہ روشن ہوتی چلی جائے گی۔

حضرت بانیٔ جماعت احمدیہ علیہ اسلام فرماتے ہیں:

’’دیکھو یہ علامتیں کیسی ایک دوسرے کے بعد ظہور میں آئیں (۱) چودھویں صدی میں سے چودہ برس گذر گئے جس کے سر پر ایک مجدّد کا پید اہونا ضروری تھا (۲)صلیبی حملے مع فحش گوئی اسلام پر نہایت زور سے ہوئے جو کسرِ صلیب کرنے والے مسیح موعود کو چاہتے تھے۔ (۳)ان حملوں کے کمال جوش کے وقت میں ایک شخص ظاہر ہوا جس نے کہا کہ میں مسیح موعود ہوں۔ (۴) آسمان پر حدیث کے موافق ماہ رمضان میں سورج اور چاند کا کُسوف خسُوف ہوا۔ (۵)ستارۂ ذوالسّنین نے طلوع کیا وہی ستارہ جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں نکلا تھا جس کی نسبت حدیثوں میں پیشگوئی کی گئی تھی کہ وہ آخر زمان یعنی مسیح موعود کے وقت میں نکلے گا۔ (۶)ملک میں طاعون پیدا ہوا ابھی معلوم نہیں کہاں تک انجام ہو۔ یہ بھی حدیثوں میں تھا کہ آخر زمان یعنی مسیح کے زمانہ میں طاعون پھوٹے گی۔(۷)حج بند کیا گیا۔ یہ بھی حدیثوں میں تھا کہ آخر زمان یعنی مسیح کے زمانہ میں لوگ حج نہیں کر سکیں گے۔ کوئی روک واقع ہو گی۔ (۸) ریل کی سواری پیدا ہو گئی۔ یہ بھی حدیثوں میں تھا کہ مسیح موعود کے زمانہ میں ایک نئی سواری پیدا ہو گی جو صبح اور شام اور کئی وقت چلے گی اور تمام مدار اس کا آگ پر ہوگا اور صد ہا لوگ اُس میں سوار ہوں گے (۹)بباعث ریل اکثر اونٹ بے کار ہو گئے۔ یہ بھی حدیثوں اور قرآن شریف میں تھا کہ آخری زمانہ میں جو مسیح موعود کا زمانہ ہو گا اونٹ بے کار ہو جائیں گے۔ (۱۰)جاوا میں آگ نکلی اور ایک مدت تک کنارۂ آسمان سُرخ رہا۔ یہ بھی حدیثوں میں تھا کہ مسیح موعود کے زمانہ میں ایسی آگ نکلے گی۔ (۱۱)دریاؤں میں سے بہت سی نہریں نکالی گئیں۔ یہ قرآن شریف میں تھا کہ آخری زمانہ میں کئی نہریں نکالی جائیں گی۔

ایسا ہی اور بھی بہت سی علامتیں ظہور میں آئیں جو آخری زمانہ کے متعلق تھیں۔ اب چونکہ ضرور ہے کہ تمام علامتیں یکے بعد از دیگرے واقع ہوں اس لیے یہ ماننا پڑا کہ جو علامت ذکر کردہ عنقریب وقوع میں نہیں آئے گی وہ یا تو جھوٹ ہے جو ملایا گیا اور یا یہ سمجھنا چاہئیےکہ وہ اور معنوں سے یعنی بطور استعارہ یا مجاز وقوع میں آ گئی ہے۔ اور طریق عقلی بھی یہی چاہتا ہے کہ مسیح موعود کا اسی طرح ظہور ہو کیونکہ عقل کے سامنے ایسی کوئی سنت اﷲ نہیں جس سے عقل اس امر کو شناخت کر سکے کہ آسمان سے بھی لوگ صدہا برس کے بعد نازل ہوا کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کے نئے نشان بھی یہی گواہی دے رہے ہیں۔ کیونکہ اگر یہ کاروبار انسان کی طرف سے ہوتا تو بموجب وعدۂ قرآن شریف چاہیےتھا کہ جلد تباہ ہو جاتا۔ لیکن خدا اس کو ترقی دے رہا ہے۔ بہت سے نشان ایسے ظاہر ہو چکے ہیں کہ اگر ایک منصف سوچے تو بدیہی طور پر ان نشانوں کی عظمت اُس پر ظاہر ہو سکتی ہے۔ ‘‘

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14صفحہ312تا314)

(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button