متفرق مضامین

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک پُر شوکت پیشگوئی اور اس کا پورا ہونا

(عبد السمیع خان۔ گھانا)

محمد بخش کا ہاتھ کاٹا جائے گا اور اس کی اولاد میرے حلقہ بگوشوں میں شامل ہو جائے گی

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کی پیشگوئی کے مطابق اسلام کا دشمن اور دریدہ دہن 6؍ مارچ 1897ء کو عبرت ناک انجام سے دوچار ہوا۔ اس کے بعد آریوں نے بڑی شدت سے الزام لگایاکہ لیکھرام حضرت مسیح موعودؑ کی سازش کے نتیجہ میں قتل کیا گیا ہے اور اس قتل کا بدلہ لینے کے لیے خفیہ اور علانیہ کارروائیاں شروع کر دیں۔

آریہ سماجیوں کے جذبات مشتعل دیکھ کر حکومت کی مشینری حرکت میں آ گئی اور اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعودؑ کے گھر کی تلاشی بھی ہوئی۔ یہ 8؍اپریل 1897ء کا واقعہ ہے۔ پولیس کا جو وفد تلاشی لینے کے لیے آیا تھا ان میں ایک میاں محمد بخش ڈپٹی انسپکٹر بٹالہ بھی شامل تھا۔ یہ گوجرانوالہ کا باشندہ تھا جو بٹالہ تھانے میں متعین ہوا۔ اس وفد نے دارالمسیح کے سب کمروں کی تلاشی لی اور ٹرنک کھول کر اپنا اطمینان کیا۔ دوران تلاشی میاںمحمد بخش کی ایک زیادتی پر حضورؑ نے فرمایا آپ تو اس طرح مخالفت کرتے ہیں مگر آپ کی اولاد میرے حلقہ بگوشوں میں داخل ہو جائے گی۔

(تاریخ احمدیت جلد 17صفحہ172)

میاں محمد بخش کا مقدمہ مارٹن کلارک کے سلسلہ میں بھی ذکرملتا ہے۔

(تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ632)

معلوم ہوتا ہے کہ اس کے دل میں مخالفانہ خیالات پلتے رہے اور اسی کی تحریک پر حضور ؑکے خلاف مقدمہ حفظ امن قائم ہوا۔ اس کی کسی قدرتفصیل یہ ہے کہ

میاں محمد بخش نے یکم دسمبر1898ء کو ڈپٹی کمشنر گورداسپور جی ایم ڈوئی کو رپورٹ بھجوائی کہ مرزا غلام احمد کے اشتہارات اور پیشگوئیوں سے نقص امن کا خطرہ ہے اس لیے فریقین کی ضمانت اور مچلکہ حفظ امن کا انتظام فرمایا جائے۔ چنانچہ اس کی رپورٹ اور مولوی محمد حسین بٹالوی کی درخواست پر مقدمہ درج ہوا۔ 11؍جنوری 1899ء کو گورداسپور کی عدالت میں حضرت مسیح موعوؑد اور میاں محمد بخش کے بیانات بھی ہوئے۔ مگر عدالت نے 24؍فروری 1899ء کو یہ مقدمہ خارج کر دیا۔ حضرت امام الدین صاحب پٹواری اس مقدمہ کے دوران ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی والے مقدمہ زیر دفعہ 107کی پیشی دھاریوال میں مقرر ہوئی تھی۔ اس موقعہ پر میں نے حضرت مسیح موعودؑ سے عرض کیا کہ حضور محمد بخش تھانیدار کہتا ہے کہ آگے تو مرزا مقدمات سے بچ کر نکل جاتا رہا ہے۔ اب میرا ہاتھ دیکھے گا۔ حضرت صاحب نے فرمایا۔ ’’میاں امام الدین! اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا‘‘۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ کی ہتھیلی میں سخت درد شروع ہو گئی۔ اور وہ اس درد سے تڑپتا تھا۔ اور آخر اسی نامعلوم بیماری میں وہ دنیا سے گزر گیا۔‘‘

(سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ 543-544)

مندرجہ بالا تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کی میاں محمد بخش کے متعلق پیشگوئی کے دوحصے تھے۔

1۔ میاں محمد بخش کاہاتھ کاٹا جائے گا۔

2۔ اس کی اولاد حضرت مسیح موعود ؑکے غلاموں میں شامل ہو جائے گی۔

یہ دونوں پیشگوئیاں تھوڑے عرصہ میں حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں ہی پوری ہو گئیں۔

پہلی پیشگوئی کے متعلق ان کے بیٹے حضرت شیخ نیاز محمد صاحبؓ صحابی حضرت مسیح موعود ؑکا بیان ہے کہ 1901ء کے آخر میں ان کے والد صاحب کو ہاتھ میں کاربنکل کا پھوڑا نکلا جو مہلک ثابت ہوا۔ بیماری کے ایام میں انہوں نے یہ ارادہ ظاہر کیا کہ وہ تندرست ہونے کے بعد حضرت اقدس کی بیعت میں داخل ہو جائیں گے۔ مگر زندگی نے وفا نہ کی اور وہ 3؍مارچ 1902ء کو فوت ہو گئے۔

(تاریخ احمدیت جلد17صفحہ172)

حضرت مسیح موعودؑ نے حقیقة الوحی میں میاں محمد بخش کے طاعون سے مرنے کا ذکر فرمایاہے۔

(حقیقة الوحی روحانی خزائن جلد 22صفحہ236)

میاں محمد بخش کی اولاد کے احمدی ہونے کے متعلق پیشگوئی بھی بڑے عجیب رنگ میں پوری ہوئی۔ اس کی کسی قدر تفصیل یہ ہے کہ

والد کی وفات کے بعد شیخ نیاز محمد صاحب بٹالہ سے اپنی زمین واقع تحصیل حافظ آباد میں چلے آئے جہاں اس وقت بندوبست ہو رہا تھا۔ چند سال بعد خدا کے فرستادہ کے مبارک ہونٹوں سے نکلی ہوئی بات پوری ہو گئی اور شیخ نیاز محمد صاحب نے حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت کر لی۔ حضرت شیخ صاحب اپنے قبول احمدیت کا واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’حسن اتفاق سے حضرت مولوی حکیم محمد دین صاحب 1907ء میں ہمارے ایک مکان میں کرایہ دار کی حیثیت سے رہنے لگے اور اس بزرگ کی پاک صحبت کے اثر سے اس عاجز کو توفیق ملی کہ یہ عاجز ان کے ہمراہ قادیان آیا۔ اور چونکہ ان ایام میں مجھے دینی واقفیت اچھی طرح نہ تھی اس لئے حضرت خلیفہ اولؓ سے جو مجھ سے شفقت سے پیش آتے تھے دو تین روز کے بعد ذکر کیا کہ حضرت صاحب کو مسیح اور مہدی مان لینا کوئی آسان کام نہیں۔ پہلے میں اہلسنت والجماعت کی کتب پڑھوں گا اور پھر حضرت اقدس کی کتب کامطالعہ کر کے کوئی فیصلہ کروں گا۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایاکہ زندگی کا کیا اعتبار ہے میں آپ کو ایک آسان گر بتاتا ہوں اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں دعا کریں اگر حضور سچے ہوئے تو آپ پر حقیقت کھل جائے گی۔ چنانچہ میں نے نمازوں میں دعائیں کرنی شروع کر دیں۔ خداتعالیٰ کے فضل سے دوسرے یا تیسرے روز مجھ پر ایک مبشر اور صاف خواب کے ذریعہ سے حقیقت کھل گئی اور معاً مجھے اپنے والد صاحب کی آخری نصیحت بھی یاد آ گئی تو میں نے حضرت مولانا نور الدین صاحب (خلیفة المسیح الاول ؓ) کی خدمت میں اپنی رویا ء اور والد صاحب کی آخری نصیحت کا ذکر کیا اور عرض کی کہ میں بیعت کرنے کے لئے آمادہ ہوں۔ اس وقت قریباً 9-10 بجے صبح کا وقت تھا۔ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے بہت خوشی کا اظہار فرمایااور فرمایا اب تو آپ ہمارے بھائی ہو گئے ہیں۔ اور پھر اسی وقت مجھے مع حکیم محمد دین صاحب حضرت اقدس کے دولت خانہ پر لے گئے اور اندر اطلاع کروائی۔ اس پرحضور نے کمال شفقت سے بیت الدّعا کے ساتھ والے دالان میں بلوا کر اس عاجز کی بیعت لی۔ میں نے بیعت کرنے سے پہلے حضور کی خدمت میں آبدیدہ ہو کر عرض کی کہ للّٰہمیرے والد صاحب کو معاف فرما دیں۔ حضور نے فرمایا اچھا ہم نے معاف کر دیا۔ پھر میں نے عرض کی کہ لِلّٰہان کے لئے دردِدل سے دعا فرماویں۔ فرمایا بہت اچھا۔

بیعت کے وقت حضرت اقدس چارپائی پر تشریف رکھتے تھے۔ میں نیچے بیٹھ گیا مگر حضرت اقدس نے میرا ہاتھ کھینچ کر اوپر بٹھالیا اور بیعت لینے کے بعد لمبی دعا فرمائی۔ اس کے بعد حضرت خلیفہ اوّلؓ حکیم محمد دین صاحبؓ اور میں نیچے اترے تو راستے میں خواجہ کمال الدین حضرت خلیفہ ا ولؓ کوملے۔ حضرت خلیفہ اوّل نے خواجہ صاحب کو کہا اس لڑکے کو جانتے ہو؟ اس نے آج وہ کام کیا ہے کہ مجھے بھی اس پر رشک آ رہا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ کاش میری اولاد بھی میرے بعد میرے لئے اسی طرح نیک نامی کا باعث ہو۔ خواجہ صاحب نے پوچھا کہ کیا ہوا۔ حضرت خلیفہ اوّلؓ نے فرمایا کہ اس نے والد صاحب کو حضور سے معاف کروایا ہے اور ان کے لئے دعا کروائی ہے۔ ‘‘

(تاریخ احمدیت جلد 17صفحہ173)

حضرت شیخ صاحبؓ فرماتے ہیں:

’’اس کے بعد دوسری یا تیسری مرتبہ جب میں قادیان آیا تو حضرت سیدہ اماںجان کے لئے ایک کپڑا ساتھ لیتا آیا اور حضرت خلیفہ اوّلؓ کو دیا کہ وہ حضرت اقدسؑ کے حضور پیش کردیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ جب ظہر کی نماز کے وقت تشریف لائے تو حضرت خلیفہ اوّل نے مجھے سامنے بلا کر وہ کپڑا حضور کی خدمت میں پیش کیا۔ حضوؑر نے کمال شفقت سے قبول فرما کر رکھ لیا اور بعد نماز ساتھ لے کر اندر تشریف لے گئے۔ اس کے بعد میں سنتیں پڑھنے لگا اور ابھی ختم نہ کی تھیں کہ حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحبؓ تشریف لائے اور خوشی کے لہجہ میں ہنستے ہوئے فرمایا کہ بھئی میاں محمد بخش تھانیدار کا لڑکا کونسا ہے۔ میں اس وقت التحیات پڑھ رہا تھا تو حکیم محمد الدین صاحب نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہے۔ اس پر حضرت نانا جان نے فرمایا کہ حضرت اقدس ایک کپڑا ہاتھ میں لئے ہوئے بہت خوشی خوشی اندر تشریف لائے اور حضرت ام المؤمنین کو ہنستے ہوئے وہ کپڑا دےکر فرمایا کہ یہ کپڑا محمد بخش تھانیدار جس نے لیکھرام کے قتل کے موقع پرتلاشی کے وقت تمہارے ٹرنک کھولے تھے۔ اس کے لڑکے نے دیا ہے۔ اتنے میں میں نے بھی سنتیں پڑھ لیں تو حضرت نانا جان میرے ساتھ بہت شفقت سے ملے اور پھر فرمایا کہ آج حضرت اقدس تمہاری وجہ سے بہت خوش ہیں اور حضرت ام المؤمنین کو تمہارا کپڑا دیتے ہوئے خوشی کا اظہار فرمایا ہے۔ تمہیں مبارک ہو۔

مندرجہ بالا واقعہ کے قریباً دس، بارہ سال کے بعد میری اہلیہ قادیان میں آئیں اور حضرت سیدہ ام المؤمنین کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئیں۔ تو حضرت سیدہ نہایت ہی شفقت سے ان سے ملیں۔ اور فرمایا کہ تم تو بہت دیر سے آئی ہو۔ مگر تمہارے میاں ہمارے مدت سے واقف ہیں۔ ہمیں یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑکی زندگی میں تمہارے میاں ہمارے لئے ایک کپڑا لائے تھے جو حضرت اقدس لے کر خوشی خوشی اندر تشریف لائے اور ہنستے ہوئے مجھے دے کر فرمایا کہ یہ تمہارے لئے محمد بخش تھانیدار بٹالہ کا لڑکا لایا ہے جس کے والد نے تلاشی کے وقت تمہارے ٹرنک کھولے تھے۔

(سیرت حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ صفحہ471تا472)

حضرت شیخ نیاز محمد صاحبؓ بھی انسپکٹر پولیس تھے۔ آپ پولیس کی ملازمت سے ریٹائر ہوکر 1941ء میں مستقل طور پر قادیان آ گئے اور کچھ عرصہ تک افسرحفاظت کے فرائض بھی سرانجام دیے۔ آپ 1947ء میں اپنے وطن گوجرانوالہ میں رہائش پذیر ہو گئے۔ وفات سے 2ماہ قبل آپ حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر ربوہ تشریف لے آئے اور 24؍جولائی 1953ء کو وفات پائی۔ آپ کی ایک بیٹی فرخندہ اختر صاحبہ حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے عقد میں آئیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button